Saturday, August 31, 2019

ن لیگ اجلاس، کارکنوں کے شکوے، عہدوں کی تبدیلی کاامکان ایکسپریس اردو

لاہور: مسلم لیگ ن کے لاہور میں ہونیوالے اجلاس کی اندرونی کہانی کا ایکسپریس نے پتہ لگا لیا، شہباز شریف کی طبیعت بہتر ہونے پر نواز شریف کی مشاورت سے پارٹی عہدے متحرک اور فعال کارکنوں کو دیے جانے کا امکان ہے۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق احسن اقبال کی زیر صدارت مسلم لیگ ن لاہور کا پارٹی اجلاس پارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاون میں ہوا جس میں پرویز ملک ، خواجہ عمران نذیر ، رانا مشہود ، سعدیہ تیمور ، مبشر جاوید ، عطااللہ تارڑ ، سمیع اللہ خان ودیگر کارکنوں نے شرکت کی ، اجلاس میں شریک اندرونی ذرائع کے مطابق اجلاس میں مختلف تنظیموں کے عہدیداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں مختلف رہنماؤں نے کھل کر اظہار خیال کیا جبکہ کچھ رہنماؤں نے دبے الفاظ میں ضلع لاہور قیادت پر تنقید بھی کی ، اجلاس کے دوران پارٹی کارکنوں کو مائیک ملا تو انہوں نے شکووں اور شکایات کے انبار لگا دیئے ، احسن اقبال نے پارٹی کارکنوں کی شکایات دور کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کارکنوں کو یقین دلایا کہ آپ کی خواہشات کا احترام کیا جائے گا ۔

 

The post ن لیگ اجلاس، کارکنوں کے شکوے، عہدوں کی تبدیلی کاامکان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LpDNJk
via IFTTT

2ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہ ہو سکا، 64 ارب کا شارٹ فال ایکسپریس اردو

اسلام آباد: رواں مالی سال کے پہلے 2 ماہ (جولائی،اگست)کے دوران ایف بی آر کا ٹیکس وصولی میں عبوری شارٹ فال64 ارب روپے ہو گیا ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ کو دستیاب اعدادوشمار کے مطابق جولائی، اگست کے دوران مجموعی طور پر580 ارب روپے کی خالص ٹیکس وصولیاں کی گئی ہیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں498 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کے مقابلہ میں 16.47فیصد زیادہ ہیں مگر رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کیلئے مقرر کردہ 644 ارب روپے کے ہدف کے مقابلہ میں64 ارب روپے کم ہیں۔

دوماہ کے دوران انکم ٹیکس کی مد میں189ارب روپے، سیلز ٹیکس کی مد میں265 ارب روپے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں28 ارب روپے اور کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں98ارب روپے وصول کئے گئے۔

اگست کے دوران ایف بی آر نے مجموعی طور پر298 ارب روپے کی عبوری ٹیکس وصولیاں کی ہیں جو کہ اگست کیلیے مقرر کردہ352 ارب روپے کے ہدف کے مقابلہ میں54 ارب روپے کم ہیں جبکہ جولائی کیلئے مقرر کردہ نظر ثانی شْدہ ہدف بھی حاصل نہیں ہو سکا تھا اور جولائی میں دس ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال تھا۔

2 ماہ کے شارٹ فال کے نتیجے میںرواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی(جولائی تا ستمبر) کیلئے آئی ایم ایف سے طے کردہ 1076 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ جسے حاصل کرنے کیلئے ایف بی آر کو رواں ماہ ستمبر میں 496 ارب روپے کی خالص ٹیکس وصولیاں کرنا ہوں گی۔

 

The post 2ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہ ہو سکا، 64 ارب کا شارٹ فال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZvqW2k
via IFTTT

ایف بی آر کی تنظیم نو کے بغیر ٹیکس ہدف پورا کرنا ممکن نہیں ایکسپریس اردو

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے ایف بی آر کی تنظیم نو کیے بغیرجو اس وقت بھی 80ء کی دہائی کی طرز پر کام کررہا ہے، 5.5 ٹریلین ٹیکس ہدف کا وعدہ کر لیا جب کہ ایف بی آر بڑے پیمانے پر تنظیم نو کے بغیر موثر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کی جانب سے حال ہی میں فیلڈ فارمیشنز کو لکھے گئے مراسلہ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ ان لینڈ ریونیو سروس کا 75 فیصد محض 102 ارب روپے جمع کیا گیا جو گذشتہ مالی سال کے دوران 1.5کھرب روپے کے انکم ٹیکس کا 7 فیصد بنتا ہے،باقی 1.4 کھرب روپے انکم ٹیکس یا تو خودبخود اکٹھا ہوگیا ، یا باقی 25 فیصد افرادی قوت کی بہت کم کوشش کا اس میں دخل ہو گا۔

فیلڈ فارمیشنز کے 23 سربراہوں کو لکھے گئے خط میں چیئرمین شبر زیدی نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ دانشورانہ ان پٹ ، بہتری کی صلاحیت ، دیگر وسائل اور ظاہری ڈھانچہ اس وقت ٹیکس وصولی ہدف سے مطابقت نہیں رکھتا۔

چیئرمین ایف بی آر نے لکھا کہ 80ء کی دہائی میں 60 فیصد ریونیو ٹیکس اہلکاروں کی بلاواسطہ یا بالواسطہ تخمینہ کاری کے عمل سے اکٹھا کیا جاتا تھا جو اب سکٹر کر محض 7 فیصد رہ گیا ہے،گزشتہ 20 برسوں میں خصوصاً ( ن) لیگ کے 2013ء سے 2018ء کے دور میں ود ہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ بڑی تیزی سے کیا گیا اور اس وقت ان ٹیکسوں کی تعداد 50 کے قریب ہے جو لوگوں کے ہر ممکنہ لین دین اور اخراجات کا احاطہ کرتا ہے۔اس ٹیکس نے ایف بی آر کو محصول آمدنی کا آسان ذریعہ بھی فراہم کیا تاہم ایف بی آر کی افرادی قوت اس کا پوری طرح احاطہ نہیں کر سکی۔

ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے چیئر مین شبر زیدی نے کہا کہ 95 فیصد سے زائد ادائیگیاں بغیر کسی آڈٹ یا تخمینہ کے رضاکارانہ طور پر کی جاتی ہیں، انہوں نے کہا کہ اس خیال پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے کہ وسائل اور ترجیحات میں مطابقت پیدا کرنا ازحد ضروری ہے۔

 

The post ایف بی آر کی تنظیم نو کے بغیر ٹیکس ہدف پورا کرنا ممکن نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LpDMFg
via IFTTT

قائد اعظمؒ، فاطمہ جناح، لیاقت علی کی وقف جائیدادوں پر قبضے کا انکشاف ایکسپریس اردو

لاہور: محکمہ اینٹی کرپشن لاہور ریجن نے قائد اعظم محمد علی جناح، فاطمہ جناح اور نواب لیاقت علی خان کی وقف شدہ جائیدادوں پر قبضے کیے جانے کا نوٹس لے لیا اور اس پر باقدعدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔

محکمہ اینٹی کرپشن ذرائع کے مطابق گلبرگ میں واقع اربوں روپے مالیت کی بانی پاکستان، فاطمہ جناح اور نواب لیاقت علی خان کے نام سے وقف جائیداد پر قبضہ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس کی باقاعدہ نشاندہی کروائی گئی اور پھر ایک مکمل سورس رپورٹ کی بیناد پر محکمہ اینٹی کرپشن نے پٹوار سرکل اچھرہ میں واقع ریونیو اسٹاف سے ریکارڈ اور موقع کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

ایل ڈی اے کے متعلقہ افسران کو بھی نوٹسز جاری کرتے ہوئے ریکارڈ سمیت پیش ہونے کی ہدایت کر دی گئی ہے، ریکارڈ ملنے کے بعد اربوں روپے مالیت کی یہ قیمتی اراضی قبضہ مافیا سے جلد خالی کرا لی جائے گی۔

 

The post قائد اعظمؒ، فاطمہ جناح، لیاقت علی کی وقف جائیدادوں پر قبضے کا انکشاف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZvrnK0
via IFTTT

وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ’’سرکاری منرل واٹر‘‘ تیار کرلیا ایکسپریس اردو

اسلام آباد: وفاقی وزیر فواد چوہدری کی ہدایت پر سرکاری دفاتر میں پینے کے پانی کا خرچہ بچانے کے لیے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے سرکاری منرل واٹر تیار کرلیا ہے۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز نے ‘‘سیف ڈرنکنگ واٹر’’ کے نام سے منرل واٹر کی 500 ملی لیٹر کی بوتلیں تیارکرلی ہیں، پانی کی بوتلیں ابتدائی طور پر وزیراعظم آفس، ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاوس میں استعمال ہوں گی۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ’’ایکسپریس‘‘ سے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی کفایت شعاری مہم کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک روپے لیٹر میں سستا، معیاری منرل واٹر تیارکرلیا گیا، پہلے مرحلے میں یہ منرل واٹر سرکاری دفاتر میں متعارف کرایا جائے گا۔

 

The post وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ’’سرکاری منرل واٹر‘‘ تیار کرلیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LpDJt4
via IFTTT

ٹوکیو اولمپکس کوالیفائنگ؛ ہاکی پلیئرز کی فٹنس پر سوالیہ نشان لگ گیا ایکسپریس اردو

لاہور: ٹوکیو ٹوکیو اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ کی تیاریوں کے لیے قومی ہاکی کیمپ میں شریک کھلاڑیوں کی فٹنس پرسوالیہ نشان لگ گیا اور ٹیسٹ رپورٹ میں بیشتر پلیئرز انٹرنیشنل فٹنس معیارکوچھو بھی نہ سکے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے زیراہتمام ٹوکیواولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ کے لیے کھلاڑیوں کی جسمانی استعداد اور فٹنس کے لیے قومی ہاکی کیمپ نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں جاری ہے جس کی تیاری کے لیے معروف اسپورٹس ٹرینر اور ایشیا لیول انسٹرکٹر برائے فزیکل ٹرینرز نصراللہ رانا، ڈاکٹر اسد عباس سمیت قومی ہاکی کوچز اولمپئن وسیم احمد، اولمپئن سمیر حسین، رانا ظہیراحمد، اجمل خان لودھی انٹرنیشنل، ہیڈکوچ و مینجر قومی ہاکی ٹیم اولمپئن خواجہ جنید کی زیر نگرانی کھلاڑیوں کی فٹنس اور اسکلز ٹیسٹ لیے جارہے ہیں۔

ٹیسٹ کے نتائج سے کیمپ مینجمنٹ غیرمطمئن نظرآتی ہے،کھلاڑیوں کی فٹنس کا معیار عالمی معیار سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا۔ذرائع کے مطابق کیمپ مینجمنٹ کھلاڑیوں کی فٹنس کے معیار کے حوالے سے غیر مطمئن نطر آتی ہے جبکہ قلیل وقت اور مقابلہ سخت کے حالات کومدنظر رکھتے ہوئے سینئر اور تجربہ کار کھلاڑیوں کوکیمپ میں بلائے جانے کا امکان بھی نظر آتا ہے جس میں کھلاڑیوں کی واپسی فٹنس ٹیسٹ سے مشروط کیے جانے کا آپشن بھی زیرغور ہے۔

ذرائع کے مطابق موجودہ کھلاڑی کیمپ مینجمنٹ کو اپنی کارکردگی اور فٹنس کے حوالے سے متاثر نہیں کرسکے تاہم لانگ ٹرم پلاننگ کے حوالے سے کھلاڑیوں کی فٹنس اور ٹریننگ کے لیے پروگرام مرتب کرکے انکو تربیت کے عمل سے گزارا جارہا ہے، جس میں کھلاڑیوں کے لیے کلاسیفائیڈ ٹریننگ پروگرام، ڈائٹ اینڈ نیوٹریشن مینو اور اسپورٹس وٹامنز وغیرہ دیے جارہے ہیں۔

مزید معلوم ہوا ہے کہ تجربہ کار کھلاڑی عمربھٹہ کی کیمپ میں واپسی ہو گئی ہے جبکہ عرفان سینئر اور رضوان سینئر سمیت متعدد تجربہ کار کھلاڑی بھی کیمپ کا حصہ بن سکتے ہیں۔

ادھر قومی ہاکی ٹیم کے ٹرینر و انٹرنیشنل ایتھلیٹکس کوچ نصر اللہ رانا نے کہا ہے کہ قومی ہاکی کیمپ میں بلائے گئے کھلاڑیوں کا فٹنس لیول عالمی معیار کے مطابق نہیں اس پر ابھی بہت کام کرنا پڑے گا۔ اسے بہتر بنانے میں کم از کم 5 سے 6 ہفتے لگ سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ فٹنس ٹیسٹ میں ہمیں کھلاڑیوں کے فٹنس لیول کا اندازہ ہوگیا ہے اب ہم ہیڈ کوچ اورکوچنگ اسٹاف کے ساتھ مل کر کھلاڑیوں کی فٹنس کوعالمی معیارکا بنانے کی کوشش کریں گے، انھوں نے کہا کہ پی ایچ ایف سربراہ خالد سجاد کھوکھر اور سیکریٹری آصف باجوہ نے مجھ سمیت قومی ہاکی ٹیم کے کوچنگ اسٹاف کو ہر حوالے سے فری ہینڈ دیتے ہوئے ہم سے بہترین پرفارمنس کا تقاضہ کیا ہے۔

نصر اللہ رانا نے کہاکہ جہاں تک کھلاڑیوں کی فٹنس کی بات ہے تو اس حوالے سے وہ اپنی ذمہ داری بھر پور طریقے سے ادا کریں اورکیمپ میں موجود کھلاڑیوں کو ہر اعتبار سے فٹ بنانے کے لیے کام کریں گے، گیم تیکنیک کے حوالے سے بہرحال کوچزکوکام کرنا ہے۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ ٹیم مینجمنٹ سے جڑے ہر فرد کی کوشش سے قومی ٹیم ہاکی کی پرفارمنس میں بہتری آئے گی اور مستقبل میں ٹیم پاکستان عالمی معیارکا کھیل پیش کرتی نظر آئے گی۔

 

The post ٹوکیو اولمپکس کوالیفائنگ؛ ہاکی پلیئرز کی فٹنس پر سوالیہ نشان لگ گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZEh0hZ
via IFTTT

کم ٹیمیں، کم میچز، سخت مقابلہ اور زیادہ ٹیلنٹ، بورڈ نے مستقبل کے سہانے خواب دکھادیئے ایکسپریس اردو

لاہور: کم ٹیمیں،کم میچز، سخت مقابلہ،نیا ٹیلنٹ، بورڈ نے نئے ڈومیسٹک اسٹرکچر سے مستقبل کے سہانے خواب دکھا دیئے۔

نئے ڈومیسٹک کرکٹ اسٹرکچر کی تقریب رونمائی گذشتہ روز قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہوئی، چیئرمین پی سی بی احسان مانی،چیف ایگزیکٹیو وسیم خان اورڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ہارون رشیدکے ہمراہ پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی، ملتان سلطانز کے مالک علی ترین اور دیگر بھی اس موقع پرموجود تھے، وسیم خان نے نئے ڈومیسٹک اسٹرکچر پر پریزنٹیشن دی۔

انھوں نے بتایا کہ 16 ریجنز کو6 صوبائی ایسوسی ایشنز میں ضم کردیا گیا ہے، سٹی ایسوسی ایشنز کا صوبائی باڈیز کے ساتھ الحاق ہوگا، نئے ڈومیسٹک اسٹرکچر کو 3 مختلف درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے مرحلے میں 90 سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز اسکول اور کلب سطح جبکہ دوسرے میں انٹرا سٹی مقابلوں کا انعقاد کیا جائے گا، تیسرے درجے میں 6 ایسوسی ایشنز کی ٹیمیں پی سی بی کے زیراہتمام ٹورنامنٹس میں شرکت کریں گی،ایسوسی ایشنز کو انڈر 19کرکٹ کا بھی اسٹرکچر بنانا ہوگا۔

سٹی ایسوسی ایشن میں 12فعال کلبز ہوں گے، کلبز سطح پر میرٹ یقینی بنانے کیلیے مکمل مانیٹرنگ کے ساتھ ریکارڈ بھی مرتب کیا جائے گا، آن لائن اسکورنگ متعارف کرائی جائے گی، ہر صوبائی ایسوسی ایشن 32 کھلاڑیوں کو سالانہ کنٹریکٹ دے گی، یہ پی سی بی کے سینٹرل کنٹریکٹ کا حصہ نہیں ہوں گے،ایسوسی ایشن 32 کھلاڑیوں کے علاوہ بھی کسی کھلاڑی کو فی میچ معاوضہ دے کر میچ میں شامل کرسکتی ہے،ڈومیسٹک کرکٹ کنٹریکٹ رکھنے والے ہر کھلاڑی کو ماہانہ 50 ہزار روپے معاوضہ ملے گا۔

انھوں نے بتایا کہ ہر صوبائی ایسوسی ایشن کی پی سی بی ایک سال تک معاونت کرے گا، مینجمنٹ اور سلیکشن میں بھی مدد کی جائے گی، بعد ازاں اپنے مالی معاملات خود دیکھنا اور مارکیٹنگ و فنانس کیلیے آفیشلز کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی،سٹی ایسوسی ایشنز کو بھی قانونی حیثیت دینے کے ساتھ سالانہ آڈٹ کرانا ہوگا۔

چیئرمین احسان مانی نے اس موقع پر پریس کانفرنس میں کہاکہ میں نے بورڈ کی کمان سنبھالتے ہی شفافیت، گڈگورننس اور مضبوط ڈومیسٹک سسٹم لانے کا عزم ظاہر کیا تھا، اب کرکٹ کے معیار میں بہتری لاکر اسے انٹرنیشنل تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اولین ترجیح ہے، اکثر کہا جاتا ہے کہ ہماری ٹیم اپنا معیار برقرار نہیں رکھ پاتی، بیرون ملک دوروں میں زیادہ مسائل سامنے آتے ہیں، ہمیں ہر طرح کی کنڈیشنز میں پرفارم کرنے والے کرکٹرز کی ضرورت ہے،موجودہ سسٹم سے سامنے آنے والے کھلاڑی عالمی سطح پر فٹنس مسائل میں بہت پیچھے نظر آتے ہیں، ان مسائل پر بھی گراس روٹ سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ نئے ڈومیسٹک اسٹرکچر سے قومی کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل آئے گا، نئے اسٹرکچر کو کامیاب بنانے کیلیے پی سی بی صوبائی ایسوسی ایشنزکی مکمل معاونت کرے گا۔

چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے کہا کہ پی سی بی ٹیسٹ کرکٹ کی اہمیت پر یقین رکھتا ہے،ساتویں پوزیشن پاکستان کے شایان شان نہیں، یہ اسٹرکچر ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کیلیے بہترین ٹیم کے انتخاب میں مدد دے گا۔

انھوں نے کہا کہ ون ڈے کرکٹ میں بھی چھٹی پوزیشن قابل قبول نہیں،ہم صوبائی ایسوسی ایشنز کے ذریعے مسابقتی کرکٹ کو فروغ دیں گے، ٹیم میں غیر مستقل مزاجی ختم کرنے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں مقابلے کی فضا پیدا کی جائے، رواں سیزن سے پچز کا معیار بہتر کیا جائے گا، ڈومیسٹک مقابلوں میں ڈیوک کے بجائے کوکا بورا گیند استعمال ہوگی تاکہ انٹرنیشنل سطح پر کھلاڑیوں کو پریشانی نہ ہو، نئے اسٹرکچر میں سابق کرکٹرز کیلیے کوچنگ اور مینجمنٹ میں مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں،ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی مراعات میں اضافہ ہوگا۔

ہر صوبائی ایسوسی ایشن کے معاملات8رکنی کمیٹی سنبھالے گی

ہرصوبائی ایسوسی ایشن کے معاملات8رکنی کمیٹی سنبھالے گی،لاہور میں نئے ڈومیسٹک اسٹرکچر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے بتایاکہ صوبائی ایسوسی ایشنزکی ٹیموں کے معاملات چلانے کیلیے8رکنی کمیٹی کام کریگی،اس میں پی سی بی کے نامزد اور موجودہ ریجن سے 3،3نمائندے شامل ہونگے،2ارکان پرنسپل اسپانسرز کی جانب سے لیے جائیں گے،ہر ایسوسی ایشن کی اپنی سلیکشن کمیٹی بھی ہوگی، ابتدا میں سلیکشن کے معاملات میں پی سی بی معاونت کرے گا،آگے چل کر ایسوسی ایشن مکمل طور پر خود مختار ہوجائیںگی۔

The post کم ٹیمیں، کم میچز، سخت مقابلہ اور زیادہ ٹیلنٹ، بورڈ نے مستقبل کے سہانے خواب دکھادیئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PzC35H
via IFTTT

صوبائی ایسوسی ایشنز کی ٹیموں کا اگلے ہفتے اعلان ایکسپریس اردو

لاہور: صوبائی ایسوسی ایشنز کی ٹیموں کا اعلان اگلے ہفتے ہوگا۔

پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے بتایا کہ مصباح الحق،راشد لطیف اور ندیم خان کو ڈومیسٹک کرکٹ میں تجربہ سامنے رکھتے ہوئے3رکنی پینل میں شامل کیا گیا، ان کی جانب سے منتخب کیے جانے والے صوبائی ایسوسی ایشنز کے حتمی اسکواڈز کا اعلان آئندہ ہفتے سامنے آئیگا۔

فرسٹ الیون اور سکینڈ الیون کا حصہ بننے والے کرکٹرز کے معاوضوں کا بھی اعلان کردیا جائیگا،فرسٹ کلاس کرکٹ میں پہلے اگر کسی کرکٹر کی آمدن 12 لاکھ سالانہ ہوتی تھی تو اب 20سے 25لاکھ تک ہوگی،گریڈ ٹو میں اگر کوئی کھلاڑی پہلے5لاکھ کماتا تھا تو اب اسے12لاکھ تک حاصل ہونگے۔

وسیم خان نے کہاکہ نئے ڈومیسٹک اسٹرکچر کو 10سال تک تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ہمارے کھلاڑی دباؤ میں کھیلنے کے عادی نہیں، مسائل حل کرنے کیلیے ڈومیسٹک کرکٹ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ضروری ہے،راتوں رات بہتری نہیں آسکتی، غلطیاں بھی ہوں گی، ان سے سیکھیں گے لیکن مشکل فیصلے کرتے ہوئے تسلسل کے ساتھ مثبت پالیسیوں کو جاری رکھنا ہوگا،اس سسٹم کو 10سال تک تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے کہا کہ بہتری کیلیے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنے چاہئیں،ہم آنے والے وقت کی ضرورت کے مطابق فیصلے کرسکتے ہیں، ہمارا مقصد ایسا اسٹرکچر بنانا ہے جس میں ہمارے بعد آنے والوں کو بھی آسانی ہو۔

شکر ہے میری تنخواہ کا نہیں پوچھا وسیم کی بات نے مسکراہٹیں بکھیردیں

’’شکر ہے آپ نے میری تخواہ کا نہیں پوچھا‘‘، چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کی بات نے پریس کانفرنس میں مسکراہٹیں بکھیر دیں،ایک صحافی نے سوال کیا کہ ہماری دعا ہے کہ نیا ڈومیسٹک اسٹرکچر کامیاب ہو، ماضی میں پاکستان نے شوکت عزیز اور معین قریشی جیسے وزیر اعظم بھی غیر ملکوں سے درآمد کیے لیکن ملک کو نقصان ہوا، اب آپ کو انگلینڈ سے لایا گیا ہے کیا یہ تجربہ کامیاب ہوگا۔ جواب میں وسیم خان نے کہا کہ بھائی آپ نے دعا دی، یہی کرتے رہیں،اچھی بات ہے کہ آپ نے میری تنخواہ کی بات نہیں پوچھی۔

وسیم نے بے روزگار ہونے والے کرکٹرز کو تسلی دیدی

وسیم خان نے بتایا کہ گذشتہ سسٹم میں 16ٹیمیں69میچز کھیلتیں، اس دوران 353کرکٹرز سرگرم ہوتے تھے، ڈپارٹمنٹس کے 166کھلاڑیوں میں سے بیشتر کو 2یا اس سے کم فرسٹ کلاس میچ کھیلنے کو ملتے، نئے اسٹرکچر میں 6صوبائی ٹیمیں 31میچز کھیلیں گی،ان میں 192فل ٹائم اور کنٹریکٹ یافتہ کرکٹرز ہوں گے۔

بے روزگاری کا عنصر کم کرنے کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ 6صوبائی ٹیموں کے ساتھ 98کوچز اور معاون اسٹاف کے لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی،سٹی ایسوسی ایشنز، انڈر 19سمیت جونیئر ٹیموں کیلیے بھی سابق کرکٹرز کی ضرورت ہوگی،اسکول کی سطح پر کرکٹ کے فروغ کیلیے بھی کوچز درکار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہر صوبائی ایسوسی ایشن کے اسکواڈ کے ساتھ کوچز، فزیو اور اینالسٹ سمیت 6کا عملہ ہوگا، سیکنڈ الیون اور سٹی ایسوسی ایشنز کے ساتھ 5افرادکو رکھا جائے گا۔

وسیم خان نے کہا کہ گراس روٹ سطح سے صوبائی ٹیموں تک اتنی زیادہ اور منظم کرکٹ ہوگی کہ کھلاڑیوں کے معاوضوں میں اضافہ ہوگا، باہر رہ جانے والوں کیلیے سسٹم میں جگہ بنانے کے مواقع موجود ہوں گے، کوالیفائیڈ کوچز کیلیے تیاری کیلیے بھی بھرپور پلاننگ کی جا چکی،اسپانسرز سامنے آئے تو کھلاڑیوں اور اسٹاف کی مراعات میں بھی اضافہ ہونے کے امکانات بڑھیں گے۔

ہارون رشید کو پی سی بی کے ساتھ طویل وابستگی کا حساب دینا پڑگیا

ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ہارون رشید کو پی سی بی کے ساتھ طویل وابستگی کا حساب دینا پڑگیا، قذافی اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کے دوران ان سے سوال کیا گیا کہ آپ 30سال سے ڈومیسٹک کرکٹ کے ساتھ وابستہ اور کلبز اور آرگنائرز میں کرپشن کے بارے میں بھی جانتے ہیں،کیا آپ نے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کو اس بارے میں بتایا ہے۔

جواب میں ہارون رشید نے کہا کہ میں اتنے عرصہ بورڈ سے وابستہ نہیں رہا، یوتھ ڈیولپمنٹ اور دیگر کئی شعبوں میں کام کیا، اس میں وقفہ بھی آیا جب ملازمت سے نکال دیا گیا تھا، میں نے ڈومیسٹک کرکٹ کیلیے تجاویز تیار کرکے بورڈ کو دی تھیں، ان کی روشنی میں کام ہورہا ہے۔

مرضی کی پچز تیار کرانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں گے،وسیم

وسیم خان نے کہا کہ پاکستانی بیٹنگ لائن کی غیر مستقل مزاجی کی بات کی جاتی ہے، اگر ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار بہتر نہیں ہوگا تو انٹرنیشنل میچز میں بھی اس کی جھلک نظر آئے گی، مثال کے طور پرپاکستان میں فرسٹ کلاس میچز میں پہلی اننگز کا اوسط ٹوٹل231زمبابوے سے بھی کم ہے،اس میں مرضی کی پچز تیار کرانے والی ہوم ٹیموں کا بھی کردار ہے،اس رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کریں گے،پچز ایک نہیں 4دن کی کرکٹ کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کرائی جائیں گی۔

صوبائی ایسوسی ایشنز ویمنز کرکٹ کے فروغ کی بھی ذمہ دار

نئے ڈومیسٹک کرکٹ اسٹرکچر میں صوبائی ایسوسی ایشنز ویمنز کرکٹ کے فروغ کی بھی ذمہ دار ہوں گی، وسیم خان نے بتایا کہ ہم ویمنز کرکٹ میں بھی تبدیلیاں کررہے ہیں، ابھی کرکٹرز کا پول چھوٹا ہے، اس میں اضافے کیلیے صوبائی ایسوسی ایشنز کام کریں گی۔

چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے کہا کہ کرکٹرز میں ہاتھ اور آنکھ کے تال میل پر 7 سال کی عمر میں کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،اس کیلیے اسکول سطح پر کرکٹ شروع کرنا ہوگی، ہمارے ہاں تعلیمی ادارے لڑکیوں کے کھیلوں خاص طور پر کرکٹ پر کوئی توجہ نہیں دیتے،صوبائی ایسوسی ایشنز اس ضمن میں کام کریں گی تاہم ایک مربوط سسٹم بنانے میں 10سال بھی لگ سکتے ہیں۔

 

The post صوبائی ایسوسی ایشنز کی ٹیموں کا اگلے ہفتے اعلان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zF0ioh
via IFTTT

نئے ڈومیسٹک سیزن میں قومی ٹیم کی ضرورت نظرانداز ایکسپریس اردو

لاہور: نئے ڈومیسٹک سیزن میں قومی ٹیم کی ضرورت کو نظر انداز کردیا گیا جب کہ سری لنکا سے محدود اوورز کے میچز شیڈول ہونے پر بھی آغاز 14ستمبر کو قائد اعظم ٹرافی سے ہوگا۔

پی سی بی سری لنکا کیخلاف2ٹیسٹ میچز کی اکتوبر میں میزبانی کا خواہاں تھا،تیاری کیلیے فرسٹ کلاس سیزن کا قائداعظم ٹرافی سے آغاز کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، آئی لینڈرز نے رواں ماہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز کیلیے پاکستان آنے پر رضا مندی ظاہر کی لیکن پی سی بی نے اپنے شیڈول میں کوئی تبدیلی نہ کرتے ہوئے نئے سیزن کا آغاز قائد اعظم ٹرافی سے ہی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب لاہور میں جاری پری سیزن کیمپ میں بھی بیشتر کھلاڑیوں کو ٹیسٹ فارمیٹ کی تیاری کو پیش نظر رکھتے ہوئے مدعو کیاگیا تھا،اس کا بھی مقصد پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، گذشتہ روز پی سی بی کی جانب سے نئے ڈومیسٹک سیزن کا جو شیڈول جاری کیا گیا، اس کے مطابق قائداعظم ٹرافی کے فرسٹ کلاس میچز 14 ستمبر سے 8 اکتوبر اور پھر 28 اکتوبر سے 13 دسمبر تک جاری رہیں گے۔

قومی انڈر 19 کرکٹ ٹورنامنٹ یکم اکتوبر سے 12 نومبر تک ہوگا، قائداعظم ٹرافی سیکنڈ الیون کے میچز 14 ستمبر سے 10 اکتوبر اور28 اکتوبر سے 29 نومبر تک ہونگے، قومی ٹی ٹوئنٹی کپ 13 سے 24 اکتوبر تک کھیلا جائیگا، پاکستان کپ ون ڈے ٹورنامنٹ کے میچز 29 مار چ سے 24 اپریل 2020 تک جاری رہیں گے، ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ کپ میں فرسٹ الیون اور سیکنڈ الیون کے میچز بیک وقت شروع ہونگے۔

 

The post نئے ڈومیسٹک سیزن میں قومی ٹیم کی ضرورت نظرانداز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Pw63PS
via IFTTT

ورلڈ کپ؛ ان فٹ کرکٹرز کا انتخاب مکی آرتھر کو لے ڈوبا ایکسپریس اردو

کراچی: گورننگ بورڈ میٹنگ میں چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے ارکان کو بتایا کہ قومی ٹیم کے کوچ جانتے تھے بعض ورلڈکپ اسکواڈ ارکان فٹ نہیں ہیں اس کے باوجود انھیں انگلینڈ لے کر گئے تاہم معاہدے میں توسیع نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

جمعے کے روز لاہور میں پی سی بی گورننگ بورڈ میٹنگ کے دوران کھلاڑیوں کی فٹنس کا معاملہ بھی  زیرغور آیا، ذرائع کے مطابق چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے کہا کہ کپتان سرفراز احمد سمیت بعض کرکٹرز کی فٹنس کا معیار اچھا نہ تھا اسی لیے ورلڈکپ میں ٹیم کی کارکردگی متاثر ہوئی۔

انھوں نے مکی آرتھرکے معاہدے میں توسیع نہ کرنے کی ایک وجہ ان فٹ کرکٹرز کے انتخاب کو قرار دیا، ان کے مطابق کوچ جانتے تھے کہ بعض کھلاڑیوں کی فٹنس عالمی معیار کی نہیں اس کے باوجود انھوں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور انھیں انگلینڈ لے گئے، ہم نے انھیں عہدے پر برقرار نہ رکھنے کا فیصلہ کرنے میں اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھا۔

دوسری جانب  خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ گورننگ بورڈ میٹنگ میں نئے ڈومیسٹک سسٹم پر گرماگرم بحث ہو گی مگر حیران کن طور پر کسی نے کوئی سوال نہ اٹھایا،اسی لیے ڈھائی سے تین گھنٹے میں تمام تر کارروائی مکمل ہو گئی، اس موقع پر ایسا محسوس ہوا کہ ریجنز ہمت ہار گئے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر لیں پی سی بی فیصلہ تبدیل نہیں کرے گا، اسی لیے بحث مباحثے سے گریز کیا گیا۔

ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ہارون رشید کی ڈومیسٹک کرکٹ پر پریزنٹیشن 10، 12 منٹ پر محیط تھی، ان سے کسی نے کوئی سوال تک نہ کیا۔

 

The post ورلڈ کپ؛ ان فٹ کرکٹرز کا انتخاب مکی آرتھر کو لے ڈوبا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zDf3b8
via IFTTT

شائقین اب مجھے بدلاہوا انسان پائیں گے، عمر اکمل ایکسپریس اردو

لاہور / لاہور:  

غلطیوں سے سبق سیکھ لیا،بیٹنگ میں بہتری لانے پربہت کام کررہا ہوں

ویب سائٹ https://ift.tt/2QIuKoB کو خصوصی انٹرویو

لاہور (رپورٹ : محمد یوسف انجم ) ٹیسٹ کرکٹر عمر اکمل کا کہنا ہے کہ شائقین اب مجھے بدلاہوا انسان پائیں گے، غلطیوں  سے سبق سیکھنے کے ساتھ بیٹنگ میں بہتری لانے پر بھی بہت کام کررہا ہوں۔ ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی تینوں طرز کی کرکٹ کیلیے دستیاب ہوں، سب کو  یقین دلاتا ہوں کہ ملک کی نمائندگی کا دوبارہ موقع ملنے پرمایوس نہیں کروں گا، 29 سالہ باصلاحیت بیٹسمین نے پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ https://ift.tt/2QIuKoB کو خصوصی انٹرویو میں کہا کہ بورڈ حکام کرکٹ کی بہتری کیلیے جوکچھ کرنے جا رہے ہیں میری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں، میں مصباح الحق کے ساتھ بہت زیادہ کرکٹ کھیل چکا، ڈپارٹمنٹ کیلیے کھیلنا شروع کیا تو وہ ساتھ تھے، محمد حفیظ میرے لیے رول ماڈل رہے ہیں، اگرمصباح کو قومی ٹیم کا ہیڈکوچ مقررکیا گیا تواس سے ٹیم کی کارکردگی کا معیاربلند ہوگا، بیٹسمینوں کوبھی ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا، انھوں نے کہا کہ فٹنس جانچنے کے وضع کردہ پیمانے کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن میرے نزدیک اسکلز کو پہلی ترجیح دینی چاہیے، مجھے عمدہ پرفارمنس کے باوجود ماضی میں زیادہ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن یقین ہے کہ نئی انتظامیہ کے آنے سے صورتحال میں بہتری آئیگی،عمر اکمل نے کہا کہ مجھے ایک بار پھر ملک کی نمائندگی کا موقع ملنے کا یقین ہے، ٹیم کیلیے بہترین صلاحیتوں کوبروئے کار لانا چاہتا ہوں، انھوں نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح کلب کرکٹ پر ہی زیادہ توجہ ہے، نیٹ پرروز ایک گھنٹے سے زیادہ وقت پریکٹس کررہا ہوں۔

 

The post شائقین اب مجھے بدلاہوا انسان پائیں گے، عمر اکمل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PzAvsp
via IFTTT

کیا اب ٹیلنٹ کی برسات ہو جائے گی؟ ایکسپریس اردو

پاکستان کرکٹ بورڈ کی جب تاریخ لکھی جائے گی  تو اس میں  ہارون رشید کا نام  ابتدا میں ہی شامل ہوگا، اب یہ نہ پوچھیے گا کہ کون سے حروف میں، سابق ٹیسٹ بیٹسمین میں ایک خوبی ہے کہ چیئرمین جو بھی ہو وہ اسے بس میں کر لیتے ہیں اور پھر جو  ہدایت ملے اس پر سو فیصد عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

یہی خوبی انھیں سب کی آنکھ کا تارا بنا دیتی ہے،نئی انتظامیہ  نے آتے ہی سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق ڈومیسٹک سسٹم کی تبدیلی کا نعرہ لگایا،اس میں ہارون رشید ہم آواز ہو کر دن رات جت گئے، انھوں نے کل احسان مانی اور وسیم خان کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں اس نئے منصوبے کی تفصیلات بتائیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ  ماضی میں بھی وہ ڈومیسٹک سسٹم میں تبدیلیوں میں پیش پیش رہے اور تعریف میں زمین آسمان کی قلابے ملاتے نظر آئے، پھراپنا ہی بنایا ہوا پلان تبدیل کر دیتے، خیروہ یس مین ہیں اور ایسے لوگوں کو جو حکم ملے ویسا ہی کرتے ہیں۔

پی سی بی نے جو  نئے ڈومیسٹک سسٹم کی تفصیلات جاری کیں،اس کے بعد حکام کا اعتماد دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ اب پاکستانی ٹیم جلد ہی ٹیسٹ میں بھی نمبر ون بن جائے گی، ہمیں ویرات کوہلی جیسے بیٹسمین اور پیٹ کمنز جیسے فاسٹ بولرز ملنے لگیں گے لیکن ہم خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت میں واپس آئیں تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا، آپ دیکھ لیجیے گا چند برس بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں آج ہیں، تب یہ کہیں گے کہ نیا سسٹم ہے نتائج آنے میں وقت لگے گا، پھر چار سال بعد اگر نئی حکومت آئی تو وہ پھر کرکٹ بورڈ انتظامیہ اور نظام تبدیل کر دے گی۔

پی سی بی  کو ایکدم سے اتنی ساری تبدیلیوں سے گریز کرتے ہوئے2،3 سال کاکوئی منصوبہ بنانا چاہیے تھا جس پر آہستہ آہستہ عمل کرتے، ملک ابھی بہت ساری مشکلات میں گھرا ہوا ہے، عمران خان کو انھیں حل کرنے دیں، ان کے منصوبوں پر عمل کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی، آپ 2ہفتے بعد  قائد اعظم ٹرافی شروع کر رہے ہیں اور ابھی پلان کا اعلان ہوا ہے، کاغذ پر تو کوئی بھی لکھ سکتا ہے کہ وہ ایسا ایسا کردے گا جس سے دودھ کی ندیاں بہنے لگیں گی، پڑھنے میں یہ اچھا بھی لگتا ہے مگر عمل درآمد کرتے وقت حقیقت کا علم ہوتا ہے،آپ نے تمام ڈپارٹمنٹس کو ختم کر دیا،16ریجنز کی جگہ اب6 صوبائی ٹیمیں ہوں گی۔

ٹھیک ہے بورڈ ڈومیسٹک کرکٹرز سے بھی معاہدے کرے گا مگر پھر بھی بہت سے بے روزگار ہو جائیں گے، ہر ٹیم کے ساتھ منیجر،کوچ اور دیگر سپورٹنگ اسٹاف بھی ہوتا تھا وہ کہاں جائے گا،موجودہ سسٹم اگر اتنا بُرا تھا تو اس دوران پاکستان نے  بڑے بڑے ایونٹس کیسے جیتے، زیادہ دور کیوں جائیں، یاسر شاہ اور بابر اعظم بھی تو اسی سسٹم سے سامنے آئے، ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی،اگر ورلڈکپ میں سیمی فائنل میں پہنچ جاتے تو کیا یہ نظام ٹھیک کہلاتا؟

کرکٹ ایک کھیل اور پاکستان کے ہر نوجوان کو اسے کھیلنے کا حق حاصل ہے لیکن اب چند خوش نصیب ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل سکیں گے، ڈپارٹمنٹس میں کسی نوجوان کھلاڑی کی بھی کم از کم ماہانہ تنخواہ 50 ہزار روپے ہوتی تھی،بورڈ تو شاید سب کو ہی اتنی رقم دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے، ڈپارٹمنٹل ٹیمیں اب ختم ہو گئی ہیں،آپ یہ امید نہ رکھیں کہ چند سال بعد اگر موجودہ سسٹم پسند نہ آیا تو پھر انھیں واپسی پر قائل کر لیں گے۔

پی سی بی کے پاس بھی قارون کا خزانہ موجود نہیں، وہ ایک حد تک ہی ڈومیسٹک نظام پر رقم خرچ کر سکتا ہے، بعد میں صوبوں کو اپنی آمدنی کا انتظام خود کرنا ہوگا، فی الحال تو مارکیٹ اتنی بڑی نظر نہیں آرہی، پی ایس ایل ٹیموں کو تو اسپانسر ملتے نہیں صوبوں کو کیسے ملیں گے، آپ کہہ رہے ہیں کہ مسابقت سے بھرپور مقابلے ہوں گے تو کیا انھیں دیکھنے شائقین آئیں گے؟

مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا، بورڈ کا مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ قومی ٹیم کیلیے تو اسپانسرز ڈھونڈ نہیں پاتا اور ایک کمپنی کو یہ کام سونپ دیا جاتا ہے، کیا اب وہ 6ڈومیسٹک ٹیموں کیلیے اسپانسر شپ کا انتظام کر پائے گا؟ آپ سرکاری اداروں پر حکومت سے دباؤ ڈلوا کر کسی ٹیم کو اسپانسر کرا لیں گے، مگر پرائیوٹ سیکٹر سے کتنے لوگ سامنے آئیں گے اور اگر آ بھی گئے تو کتنے عرصے ایسا کرتے رہیں گے، پی ایس ایل کی کئی فرنچائزز اپنی مالی ذمہ داریاں تو پوری نہیں کرتیں وہ ڈومیسٹک کرکٹ کو کیسے اسپانسر کریں گی؟

پنجاب کی آپ نے 2 کرکٹ ایسوسی ایشنز بنا دیں سندھ کی صرف ایک  ہوگی،کروڑوں کی آبادی والے شہر کے کرکٹرز اب کہاں جائیں گے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ کو  بہتر بنانے کے بجائے محدود کردیاگیا ہے،اب غریب گھرانوں کے کم ہی کھلاڑی اس کھیل کو اپنائیں گے،  سلیکشن کے معاملات میں بورڈ حکام کہتے ہیں کہ پہلے سفارش کلچر موجود اور پیسے لے کر کھلایا جاتا تھا تو کیا اب ایسا نہیں ہوگا۔

نئے سسٹم میں آفیشلز کے ساتھ پرانے لوگ بھی ہوں گے، جو شہروں کی ایسوسی ایشنز والے تھے اب صوبوں میں آ جائیں گے، دیکھتے ہیں بورڈ کیسے ان پر نظر رکھ پاتا ہے، مگر اب تک تو بورڈ کے معاملات میں بھی زیادہ شفافیت  نظر نہیں آ رہی، ایم ڈی اور ڈائریکٹر میڈیا کے بعد اب کوچزکے نام بھی اشتہار سامنے آنے سے پہلے ہی سب جان چکے ہیں،سب کچھ پہلے ہی طے ہوتا ہے، پہلے بھی ایسا ہی کیا جاتا تھا۔

نئے ڈومیسٹک سسٹم کے حوالے سے ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں اور جلد ہماری ڈومیسٹک کرکٹ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے جیسی ہو جائے، ٹیم ورلڈ چیمپئن بن جائے اور رینکنگ میں ہم نمبر ون ہوں، البتہ ایسا نہ ہونے پر یہ جواز نہ دیجیے گا کہ راتوں رات ایسا  ممکن نہیں، ہمیں تو نتائج چاہئیں،  مجھے یہی ڈر ہے کہ2،3 سال بعد وسیم خان اپنا سامان پیک کر کے واپس برطانیہ چلے جائیں گے اورہماری کرکٹ مزید پیچھے جا چکی ہوگی، دعا تو یہی ہے کہ اﷲ کرے ایسا نہ ہو۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

 

The post کیا اب ٹیلنٹ کی برسات ہو جائے گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PsUed5
via IFTTT

کیرالہ کالج میں پاکستانی جھنڈا لہرانے پر 30 سے زائد طلبہ کے خلاف مقدمہ کئی تحریکیں بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے تیار ہو چکی ہیں

ٹرمپ حکومت کا نیا اقدام جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے غیر ملکیوں کی جاسوسی جو بھی شخص امریکا آئے گا سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی نگرانی کی جائے گی

فہد مصطفیٰ سے شادی کرنا چاہتی ہوں ہمایوں سعید بوائے فرینڈ کے طور پر اچھا آپشن ہیں،مہوش حیات

فہد مصطفیٰ سے شادی کرنا چاہتی ہوں ہمایوں سعید بوائے فرینڈ کے طور پر اچھا آپشن ہیں،مہوش حیات

بے روزگاری عروج پرپی آئی اے کے ایک ہزار ملازمین فارغ آپریشنل لاگت کم کرنے کے لیے ملازمین کو بھینٹ چڑھا دیا گیا

بندر کی شرارتیں سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بن گئیں پتھر کی مدد سے شیشہ توڑنے والے بندر کی ویڈیو وائرل ہو گئی

میں نے شادی پر اپنی والدہ کا جوڑا پہنا تھا ضروری نہیں کہ بھاری زیورات اور مہنگے جوڑے آپ کو خوشیاں دیں،نیمل خاور

محرم الحرام کوئٹہ میں سیکورٹی کے انتظامات سخت کر دیئے گئے

یوم دفاع پاکستان ملکی تاریخ کا شاندار اور یادگار دن ہے، ملی وحدت یکجہتی اور حب وطنی کا شاندار مظاہرہ کرکے وطن عزیز کیخلاف تمام سازشوں کو ناکام بناناہوگا،بلوچستان عوامی ... مزید

دعا گو ہوں 1441ھ کا نیا اسلامی سال پوری پاکستانی قوم کے لیے امن اور سلامتی کا سال ثابت ہو۔ اسپیکر اسد قیصر

پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی گنجائش بہت کم ہے ، دونوں ممالک کے مابین طے شدہ معاہدوں کو بے معنی کرکے موخرالذکر کردیاگیا ہے صدرمملکت ڈاکٹر عارف ... مزید

Friday, August 30, 2019

140 کلوکے کورنویل ’بھاری بھرکم‘ ٹیسٹ کرکٹربن گئے ایکسپریس اردو

کنگسٹن / جمیکا:  ویسٹ انڈیز کے ’ ماؤنٹین مین ‘ راہکیم کورنویل نے ٹیسٹ ڈیبیو پر منفرد ریکارڈ بنادیا۔

6 فٹ5 انچ کی قامت اور 140 کلو وزن کے حامل 26 سالہ نوجوان ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے ’ بھاری بھرکم ‘ پلیئر بن گئے، بولنگ آل راؤنڈر نے سابق آسٹریلوی کپتان واروک آرمسٹرانگ کا ریکارڈ توڑدیا جو اس سے قبل 133سے139 کے جی وزن کے حامل تھے، فٹنس کی کمی پر شائی ہوپ کے ساتھ میگوئل کمنز کو بھی ڈراپ  کردیاگیا۔

جھامر ہیملٹن کو ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی بار صلاحیتوں کے اظہار کا موقع میسر آگیا۔ میچ میں بھارت نے لنچ تک72 رنز پر 2 وکٹیں گنوا دیں، میانک اگروال 41 اور ویرات کوہلی 5 پر ناٹ آؤٹ تھے، لوکیش راہول 13 رنز بنا کر ہولڈر کا شکار بنے،6 رنز اسکور کرنے والے پجارا کی وکٹ کورنویل نے حاصل کی،میزبان الیون نے ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ کیا تھا۔

The post 140 کلوکے کورنویل ’بھاری بھرکم‘ ٹیسٹ کرکٹربن گئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Us9ZjH
via IFTTT

بد امنی پھر سر اٹھانے لگی، لوٹ مار کی کئی وارداتیں ایکسپریس اردو

قاسم آبادمیں بدامنی، مسلح افراد نے گھر کا صفایا کرنے کے ساتھ اے ٹی ایم مشین سے رقم نکلوانے والے شہری کو بھی لوٹ لیا۔

تفصیلات کے مطابق تھانہ قاسم آباد کی حدود اولڈ وحدت کالونی میں عبدالقادر کے گھر 3 نامعلوم افراد داخل ہوئے اور اہلخانہ کو اسلحہ کے زور پر یرغمال بناکر ڈیڑھ تولے کے طلائی زیورات، ایک لاکھ 8 ہزار روپے نقد اور دیگر قیمتی سامان لوٹ لیا۔ ملزمان اہلخانہ کو ایک کمرے میں بند کرکے فرار ہوگئے۔

قاسم آباد تھانے ہی کی حدود پکوڑا اسٹاپ کے مقام پر موٹرسائیکل سوار 2 نامعلوم افراد نے نجی بنک کی اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکلوا کر گھر جانے والے مراد علی سولنگی کو یرغمال بنا کر20 ہزار روپے اور موبائل فون چھین  لیا۔ جبکہ تھانہ فورٹ کی حدود اسٹیشن روڈ سے نامعلوم چور ایچ ایم سی کے اقلیتی رکن رومس بھٹی کی موٹرسائیکل لے اڑے۔

The post بد امنی پھر سر اٹھانے لگی، لوٹ مار کی کئی وارداتیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zA6gqD
via IFTTT

زابل کے نئے وائس چانسلر کی تقرری کیلیے متنازع افراد کی سفارش ایکسپریس اردو

کراچی:  ملک میں قانون کی تعلیم کے لیے قائم پہلی سرکاری جامعہ’’ شہید ذوالفقار علی بھٹویونیورسٹی آف لا‘‘(زابل)کراچی میں نئے مستقل وائس چانسلرکی تقرری کے سلسلے میں تلاش کمیٹی (search committee)کی جانب سے سفارش کیے گئے نام سامنے آئے ہیں جس کے سبب تلاش کمیٹی کی جانب سے اسکروٹنی کے پورے عمل پر سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔

’’ایکسپریس‘‘ کو حکومت سندھ کے ذرائع سے معلوم ہواہے کہ سندھ میں سرکاری جامعات میں وائس چانسلرکی تقرری کیلیے ناموں کی سفارش کرنے والی تلاش کمیٹی نے زابل کے لیے جن امیدواروں کے ناموں کی سفارش کی ہے ان میں ڈاکٹررعنا شمیم، زابل کے سابق ڈین ڈاکٹر رخسار احمد اور جسٹس (ر) حسن فیروزکوانٹرویوکے لیے بلایاگیاتھا۔

تلاش کمیٹی نے انٹرویوکے بعد ڈاکٹررعنا شمیم اورزابل کے سابق ڈین ڈاکٹررخساراحمد کے نام شارٹ لسٹ کرکے کنٹرولنگ اتھارٹی وزیر اعلیٰ سندھ کوبھجوانے کافیصلہ کیاگیا، تاہم ذرائع کے مطابق 3 ناموں کی شرط کوپوراکرنے کے لیے جسٹس (ر) حسن فیروزکانام بھی شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں میں شامل کرنے پر غورکیاگیا۔

واضح رہے کہ مذکورہ ناموں کی سمری اب وزیراعلیٰ ہاؤس جاچکی ہے تاہم ’’ایکسپریس‘‘ کو ذرائع نے بتایاکہ اول الذکرڈاکٹررعنا شمیم کی جانب سے اپنے نام کے ساتھ ’’رٹائرجج ‘‘ لکھنے پرسپریم کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاتھاکہ ’’کوئی شخص؍ایڈووکیٹ جوکبھی ہائی کورٹ کامستقل جج نہ رہاہووہ اپنے نام کے ساتھ رٹائرجج کے الفاظ کسی بھی فورم پر استعمال کرنے کامجاز نہیں‘‘بتایا جا رہاہے کہ انھیں گلگت بلتستان کی عدالت میں جج مقررکیا گیا تھاتاہم ان کی عمرکے معاملے پر تنازع سامنے آنے کے بعد وہ مستقل جج کی حیثیت حاصل نہیں کر سکے تھے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ سندھ بارکونسل کے ریکارڈمیں ان کی عمراورشناختی کارڈمیں درج تاریخ پیدائش سے مختلف ہے۔ یادرہے کہ زابل کے موجودہ قائم مقام وائس چانسلر جسٹس(ر)ضیا پرویزاسی بنیادپرانٹرویوکے لیے بلائے گئے امیدواروں کی فہرست میں شامل نہیں ہوسکے کہ ان کی عمراشتہارمیں دی گئی عمر سے کچھ ماہ زیادہ تھی جبکہ زابل کے وائس چانسلرکے لیے دیے گئے۔

اشتہارمیں عمرکی حد70برس لکھی گئی ہے۔ مزیدبراں وائس چانسلرکے لیے سفارش کردہ دوسرے نام کے حامل زابل کے سابق ڈین ڈاکٹر رخسار احمد کویونیورسٹی کی سابق انتظامیہ کے دورمیں بعض غلط معلومات دینے کی بنیاد پر کنٹرولنگ اتھارٹی نے ڈین کے عہدے سے قبل از وقت ہٹادیاگیاتھا جس کے بعد جسٹس(ر) منیب احمد خان اورازاں بعد موجودہ قائم مقام وائس چانسلرجسٹس(ر) ضیا پرویزڈین کے عہدے پر فائز ہوئے۔

The post زابل کے نئے وائس چانسلر کی تقرری کیلیے متنازع افراد کی سفارش appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PtJvPQ
via IFTTT

ڈالر مزید 37 پیسہ کم ایکسپریس اردو

کراچی: درآمدات کی مد میں ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی رسدکے باعث انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر157روپے سے بھی گرگئی۔

انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مزید 37 پیسے کی کمی سے156روپے85پیسے پربندہوئی اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر30پیسے کی کمی سے 157 روپے 20 پیسے پر بند ہوئی۔

The post ڈالر مزید 37 پیسہ کم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LjTnWX
via IFTTT

کشمیر سے اظہار یکجہتی، جیلوں کے قیدی بھارت کے خلاف سرحد پر لڑنے کیلیے تیار ایکسپریس اردو

کراچی:  کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن سندھ بھر کی جیلوں میں بھی منایا گیا۔

تمام جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس اور افسران نے شرکت کی، اس موقع پر قومی ترانہ پڑھا گیا، پاکستان اور کشمیر کے پرچم بھی لہرائے گئے تقریبات میں قیدی بھی شریک ہوئے، قیدیوں کا کہنا تھا کہ وہ بھارت کیخلاف سرحد  پر لڑنے کیلیے تیار ہیں۔

کراچی سینٹرل جیل میں سپرنٹنڈنٹ حسن سہتو نے جیل میں تقریب کا اہتمام کیا،ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ شکیل درانی ، جیلر سعید سومرو ، جیلر کمال شاہ اور افسران تقریب میں شریک ہوئے ، سپرنٹنڈنٹ شہاب صدیقی نے قیدیوں سے خطاب کیا جس میں مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالی گئی۔

The post کشمیر سے اظہار یکجہتی، جیلوں کے قیدی بھارت کے خلاف سرحد پر لڑنے کیلیے تیار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zAp5tD
via IFTTT

امریکیوں سے میری ’’تلخی ، تُرشی ‘‘ اور چوتھا منصوبہ ایکسپریس اردو

آج ایک دلچسپ بات سے آغاز کرتے ہیں، جنرل الیکٹرک سے معاہدے کے بعد ان کے چیئرمین / سی ای او Jeff Immeltنے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔انہی دنوں لاہور میں امریکی قونصل جنرل Zack سے ملاقات ہوئی، میں نے اُنھیں چیئرمین جنرل الیکٹرک کی پاکستان آمد کا بتایا تو اُن کا کہنا تھا، چیف منسٹر! مجھے اس کا علم نہیں، مگر وہ تو صدر اوباما سے بھی زیادہ مصروف آدمی ہے۔ وہ پاکستان آنے کا وقت کیسے نکال سکتا ہے جبکہ یہاں سیکیورٹی کے مسائل بھی ہیں۔ مسڑ جیف نومبر 2015 میں پاکستان آئے۔

اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف سے ان کی ملاقات میں، دیگر شرکا کے ساتھ میں بھی موجودتھا۔ مسٹر جیف کی یہ بات ہم سب کے لیے بے پناہ مسرت کا باعث تھی۔ وزیرا عظم صاحب کا چہرہ بھی خوشی سے کھِل اٹھا جب انھوں نے کہا ، مسٹر پرائم منسٹر! میرے پاکستان آنے کا مقصد آپ کا شکریہ ادا کرنا تو تھا ہی مگراس سے بڑھ کر میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ جنرل الیکٹرک نے دنیا بھر میں ہزاروں میگا واٹ کے پلانٹ فروخت کئے، اِن میںمڈل ایسٹ میں بڑے بڑے پراجیکٹس بھی تھے، مگر شفاف بولی (Transparent Bidding) کا جو نظام آپ کے ہاں دیکھا اور قیمتیں کم کروانے اور اپنے ملک و قوم کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے جو کاوشیں آپ لوگوں کی طرف سے بروئے کار آئیں ، ایسی مثال میں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھی۔آپ کی زیر قیادت آپ کی ٹیم نے جس لگن اور فرض شناسی کا مظاہرہ کیا ، اس سے متاثر ہو کر میں نے فیصلہ کیا کہ خود پاکستان جا کر اپنے تاثرات سے آپ کوآگاہ کروں۔ یہ بلا شبہ پاکستان کے لیے بے پناہ اعزاز اور وقار کی بات تھی کہ دنیا کی اتنی بڑی کمپنی کا سربراہ پاکستان آکر ہماری کاوش کا اعتراف کر رہا تھا۔

دوپہر کے کھانے پر مسٹر جیف نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ، چیف منسٹر! جنرل الیکٹرک نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم؛” “Corporate Social Responsibility (CSR) کے ساتھ صنعتی میدان میں سرمایہ کاری کے طور پر50ملین ڈالر (اُس دور کے تقریباً 5 ارب روپے) پاکستان میں خرچ کریں گے۔اس پر میں نے اپنے ایک ساتھی سے مذاقاً کہا کہ چونکہ جنرل الیکٹرک کوایک دھیلا بھی ” نذرانے” کے طور پر دینا نہیںپڑااس لیے انھوں نے سوچا ہوگا کہ جو رقم ” نذرانے ”  کی مد میں رکھی تھی، اس میں سے کچھ رقم کا CSR کے طور پر اعلان کر دیں۔

یہاں میں امریکیوں کے ساتھ اپنے دلچسپ مکالمے کا ذکر بھی کرتا چلوں۔ جنرل الیکٹرک کے پلانٹ جدیدترین تھے اور نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کے آغازمیں کچھ ٹیکنیکل مسائل بھی سامنے آتے ہیں (جن کا پہلے اندازہ نہیں ہوتا)تکنیکی زبان میں انھیں Teething Problems کہا جاتا ہے مگر ان منصوبوں میں کچھ زیادہ ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے فوری حل کے لیے دن رات میٹنگز ہوتیں۔ ضروری پرزوں کی جلد از جلد فراہمی کے لیے (جنرل الیکٹرک کے خرچ پر) جہازچارٹر کرانے سے بھی گریز نہ کیا جاتا۔بسا اوقات میں اس صورتحال پررنجیدہ بھی ہو جاتا ۔ ایسے میں امریکیوں کے ساتھ” تلخی ترشی” بھی ہو جاتی۔ ایک بار مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہ تھی کہ امریکی دوستوں نے پاکستان کواسلحہ سے لے کر بجلی کے منصوبوں تک” ٹیسٹنگ گراؤنڈ” سمجھ لیا ہے۔

بجلی کے منصوبوں کے لیے ، میںنے تُرک سرمایہ کاروں کو بھی پنجاب میں سولر پاور پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی اورانھیں ان پراجیکٹس پر ، فی یونٹ 6سینٹ سے بھی کم ریٹ پر آمادہ کر لیا۔یہ 2017 کی بات ہے جب سولر پروجیکٹ میں نیپرا کا ٹیرف 10.5 سینٹ فی یونٹ تھا ۔اس کے مقابلے میں،ٹیرف میں فی یونٹ 4.5 سینٹ کی کمی سے ،فی 100 میگا واٹ یہ 45 ملین )ساڑھے چارارب)ڈالر کی بچت تھی۔ترک کمپنیوں نے سرمایہ کاری شروع کردی، مگر سیاسی حالات کی تبدیلی کے بعد یہ شاندار منصوبہ سرخ فیتے کی نذر ہو گیااور میری معلومات کے مطابق اب کام بند پڑ ا ہے جس سے تُرک سرمایہ کاروں کو نقصان اُٹھانا پڑا اور جس سے پاکستان کی نیک نامی متاثر ہو ئی۔

CPECکے تحت ساہیوال کول پراجیکٹ میں میرے اصرار پر چینی کمپنی اپنے منافع سے سالانہ2 فیصدپنجاب میں تعلیم اور صحت کے منصوبوں کے لیے عطیہ کرنے پر آمادہ ہو گئی۔ یہ رقم سالانہ تقریباً پچیس، تیس کروڑ روپے بنتی ہے، جو اس پلانٹ کی مد ت (تقریباً تیس سال) تک ملتی رہے گی( یعنی تیس سال میں تقریباً 7.5 ارب روپے)۔کسی سرمایہ کار کی طرف سے اپنے خالص منافع میں سے اتنی بڑی رقم کا عطیہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی مثال تھی۔

یہ منصوبے ، تمام تر مشکلات اور غیر متوقع مسائل کے باوجود تاریخ کی مختصر ترین مدت میں مکمل ہوئے۔ (ہمارے اپنے وسائل سے بننے والے گیس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے دنیا کی حالیہ تاریخ میں سستے ترین بھی تھے) CPECکے تحت ساہیوال کول پاور پروجیکٹ نے جون 2017 میں سپلائی شروع کردی تھی اورپورٹ قاسم نے بھی2018میں پیداوار شروع کردی ۔بھکی شیخوپورہ ،بلوکی اور حویلی بہادر شاہ کے (تینوں) گیس پاور پراجیکٹس بھی 2018 میں بجلی پیدا کرنے لگے۔بہاولپور میںCPEC کے تحت 300 میگاواٹ کا سولر پروجیکٹ بھی تھا۔ اس پر بھی” دیوانوں” کی طرح کام ہوا ۔ کچھ سامان چین سے )چینی سرمایہ کار کے خرچ پر)ہوائی جہازوں پر بھی لایا گیا جس کی کلیئرنس کے لیے کسٹم والوں نے عید کی چھٹیوں میں بھی کام کیا تا کہ بجلی کی پیداوار شروع ہونے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ ہو۔

یہاں نندی پور کے المیے کا ذکر بھی ہو جائے ۔ تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے 500 میگاواٹ کے اس منصوبے پر اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 30 ارب روپے تھا(جسے بولی(Bidding)کے بغیر غیر شفاف طریقے سے ایوارڈ کر دیا گیا تھا) اس کا سامان تین سال تک کراچی کی بندرگاہ پر گلتا سڑتا رہا ۔قیمتی ترین پُرزے چوری ہوتے رہے۔ اس کی فائل اُس دور کی وزارتِ قانون کی الماری میں کہیں بہت نیچے پڑی رہی۔ جسٹس رحمت حسین جعفری پر مشتمل سپریم کورٹ کے کمیشن نے اُس دور کے وزیر قانون کو اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

وزیراعظم نواز شریف صاحب نے نندی پور کے اِس مُردے کو زندہ کرنے کی ذمے داری بھی میرے سپرد کی۔ تین برسوں کی تاخیر اور اس دوران سامان کی تباہی و بربادی کے باعث یہ منصوبہ 27 ارب روپے کی اضافی لاگت کے ساتھ تقریباََ57 ارب روپے میں مکمل ہوا۔یہ غریب پاکستانی قوم کے ساتھ سخت ظلم اورزیادتی تھی، نہایت تکلیف دہ اور شرم ناک بات ۔نندی پور کے مردے کو نئی زندگی دینے میں متلقہ وفاقی و صوبائی وزراء اور افسران کے ساتھ،اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کیپٹن (ر)محمود احمد کی شبانہ روز محنت کا بھی اہم کردار تھا ۔

اب میں حویلی بہادر شاہ میں حکومت پنجاب کے بجلی کے دوسرے منصوبے کی کہانی سُناتا ہوں۔ جیساکہ گزشتہ کالم میں بیان ہوچکا کہ کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے میری تجویز کی سخت مخالفت کے بعد بالآخر اسکی منظوری دیدی، لیکن میرے مجوزہ منصوبوں کو 5000 کی بجائے 3600 میگا واٹ کر دیا۔(گیس پاور پلانٹس کے ان 3 منصوبوں میں سے 2 کے لیے وفاقی حکومت نے اور ایک کے لیے پنجاب نے وسائل فراہم کرنا تھے۔میرے ذہن میں 5000میگا واٹ کا ٹارگٹ موجود رہا۔ اس کی دو تین وجوہات تھیں،کسی بجلی گھر میں بڑی فنی خرابی کی صورت میں پھر لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا سامنا ہو گا۔کئی دہائیوں پرانے ،تیل سے چلنے والے بجلی گھرناکارہ ہو چکے ہیں ۔یہ تیل زیادہ پیتے اور بجلی کم پیدا کرتے ہیں۔(ان کی تبدیلی بھی وقت کی ضرورت ہے )۔چنانچہ میں نے وزیراعظم اور کابینہ کمیٹی کو چوتھے گیس پاور پلانٹ کی تجویز پیش کی جو منظور کر لی گئی ۔ ماضی قریب و بعید میں گیس سے چلنے والے ایسے منصوبوں کے مقابلے میں ان منصوبوں کی قیمت آدھی جبکہ ان کی صلاحیت (Efficiency) کہیں زیادہ تھی۔قیمت میں کمی سے ان 3منصوبوں میں 112اورب روپے کی بچت ہوئی۔ یہ چوتھا منصوبہ وفاقی حکومت کے سپردہوا لیکن کچھ ابتدائی اقدامات کے بعد مزید پیش رفت نہ ہو سکی۔ 2017 میں کابینہ کمیٹی کی منظوری کے ساتھ یہ منصوبہ پنجاب نے اپنے ذمے لے لیا اور اللہ کا نام لیکر کمر کس لی۔

گزشتہ منصوبے امریکہ کی جنرل الیکٹرک کمپنی کے سپرد ہوئے تھے اور آغاز میں کافی Teeting Problems کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب میری خواہش تھی کہ اس چوتھے منصوبے کی ـ”بولی”(بڈنگ) جنرل الیکٹرک کی ہم پلہ کوئی اور بین الا قوامی کمپنی میرٹ پر (اور شفاف مسابقت کے ساتھ)جیت لے۔ اس سے یہ بھی ہوگا کہ (انگریزی محاورے کے مطابق) ہمارے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں ہوں گے۔لیکن ہوا یہ کہ چوتھے منصوبے کی بولی بھی جنرل الیکٹرک نے جیت لی جس نے گزشتہ منصوبوں والی “قیمتوں” ہی کی پیشکش کر دی۔

یہ چوتھا منصوبہ1250 میگا واٹ کا تھا(بھکی منصوبے سے 100 میگا واٹ زیادہ)۔میں نے جنرل الیکٹرک سے بھکی منصوبے والی شرائط اور اُسی قیمت کا مطالبہ کیا ، حالانکہ یہ منصوبہ اس سے 100 میگا واٹ زیادہ تھااور یوں اس کی قیمت 10 ارب روپے مزید کم ہو جانا تھی۔میں نے اس کے لیے جنرل الیکٹرک کو 24 گھنٹے کا وقت دیا۔ اُنھوں نے اپنی جوائنٹ وینچر پارٹنر (JV Partner) ، چینی کمپنی سے مشاورت کے لیے 48 گھنٹے مانگے۔چینی کمپنی کے انکار پر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی چنانچہ ہم دوبارہ ٹینڈرنگ کی طرف چلے گئے۔ اس بار جرمن کمپنی سیمنز(SIEMENS) نے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور سب سے کم بولی پر ٹینڈر جیت لیا۔ لیکن ان سے بھی میرا وہی مطالبہ تھا، جو جنرل الیکٹرک سے تھا۔

میرے لیے یہ بات خوشگوار حیرت سے کم نہ تھی کہ سیمنز(SIEMENS) ہماری شرائط مان گئی۔ بھکی منصوبے کی قیمت 4 لاکھ 55 ہزار ڈالر فی میگا واٹ تھی جبکہ حویلی بہادر شاہ ،پنجاب حکومت کا یہ دوسرا منصوبہ (1250میگا واٹ )ہمیں 4 لاکھ 15 ہزار ڈالر فی میگا واٹ میں پڑا۔سیمنز(SIEMENS)نے CSR کے طور پر ایک ٹیکنیکل کالج بنانے کا بھی اعلان کیا۔ڈیڑھ سال میںشروع ہونے والے4منصوبوں میں162 ارب روپے کی بچت کیا تاریخ کا عجوبہ نہ تھا ؟ملک کو لوڈشیڈنگ کے اندھیروں سے نجات دلانا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی ایسے میں قیمت ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے لیکن اللہ کے فضل وکرم سے یہ منصوبے کم ترین مدت میں اور کم ترین قیمت میں مکمل ہوئے۔

مزید یہ کہ یہاں اس افسوسناک حقیقت کا اظہار بھی کرتا چلوں کہ ہماری حکومت سے پہلے کے منصوبے مقررہ مدت میں مکمل ہوئے، نہ مقررہ قیمت میں۔ مثلاً 970 میگا واٹ کے نیلم جہلم منصوبے کی اصل قیمت 800 ملین ڈالر اور مقررہ مدت 6 سال تھی لیکن یہ 19 سال میں 5 بلین ڈالر(اُس دور کے پانچ سو ارب روپے میں مکمل ہوا)۔ نندی پور منصوبے کی اصل قیمت 30ارب روپے تھی اور مدت 3 سال تھی، یہ 8 سال میں 57 ارب روپے میں مکمل ہوا۔

ہر حساس دل یہ سوچ کر تڑپ اُٹھتا ہے کہ مملکت خداداد اور اسکے عوام کے ساتھ کیا کیا ظلم ہوتے رہے۔ یہ المیہ بھی اپنی جگہ کہ سستے ترین منصوبوں سے حاصل ہونے والے بجلی کے بل اب ہر ماہ غریب گھرانوں پر بجلی بن کرگرِ رہے ہیں۔آئیے ! ہم سب اپنے رب کے حضور مغفرت کی التجا کے ساتھ، ملک و قوم کی خدمت کے لیے مزید توفیق اور استطا عت کی دُعا کریں۔

The post امریکیوں سے میری ’’تلخی ، تُرشی ‘‘ اور چوتھا منصوبہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MNlQrf
via IFTTT

پاک چین فضائی مشقوں کا مقصد صلاحیتیں بڑھانا ہے، چینی فوجی مبصر ایکسپریس اردو

بیجنگ: چین کے فوجی مبصر سینئر کرنل ڈو وین لانگ نے کہا ہے کہ پاک فضائیہ کی چینی فضائیہ کے ساتھ حقیقی جنگ کے قریب ترین ماحول میں چین میں جاری مشترکہ سالانہ فوجی مشقوں ’’شاہین- ہشتم‘‘ کا مقصد دونوں ممالک کی فضائی افواج کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے۔

یہ تربیتی سرگرمیاں دونوں ممالک کی فضائی افواج کو ایک دوسرے کے مقابل آکر سیکھنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں، چینی فوج کی آفیشل نیوز ویب سائٹ چائنا ملٹری کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ان مشقوں کے دوران پاک فضائیہ نے بہترین جنگی تجربے اور چینی فضائیہ نے جدید ترین ہتھیاروں، آلات اور ٹیکنالوجیز کے استعمال کا مظاہرہ کیا ہے۔

دونوں افواج نے مشقوں میں اپنے روایتی، کلاسیکل اور اہم آلات کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ ان سالانہ مشقوں کو بے حد اہیمت دیتی ہیں، اس سال ان مشقوں کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کی فضائی افواج کو ایک دوسرے کی جنگی سرگرمیوں اور منصوبوں سے مکمل طور پر بے خبر رکھ کر ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جاتاہے، چینی فضائیہ ان مشقوں میں جے۔10 سی، جے۔16 اور جے ایچ۔17 لٖڑاکا طیارے اور ارلی وارننگ ایئر کرافٹس کے ساتھ ساتھ زمین پر نصب ارلی وارننگ ایکوپمنٹ استعمال کر رہی ہے۔

The post پاک چین فضائی مشقوں کا مقصد صلاحیتیں بڑھانا ہے، چینی فوجی مبصر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HAUArI
via IFTTT

کرتارپور راہداری، پاکستانی وفد نے دوران اجلاس کشمیر آورمنایا ایکسپریس اردو

 لاہور: کرتارپور راہداری پر بھارت کے ساتھ جاری تکنیکی مذاکرات کے دوران ہی پاکستانی وفد نے کشمیر آور منالیا۔

سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد ٹھیک 12 بجے اجلاس کے دوران کھڑا ہو گیا، قومی ترانہ بجایا گیا، پاکستانی وفد نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔

تکنیکی مذاکرات کا چوتھا دور کرتارپور اور ڈیرہ بابا نانک زیرولائن پر ہوا جس میں ایف آئی اے، کسٹمز، تعمیراتی کمپنی، پنجاب رینجرز اور سروے آف پاکستان کے نمائندے شریک ہوئے جب کہ بھارت کی طرف سے نیشنل ہائی ویز انڈیا، بی ایس ایف، کسٹمز اور امیگریشن کے حکام نے شرکت کی۔

The post کرتارپور راہداری، پاکستانی وفد نے دوران اجلاس کشمیر آورمنایا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32l4zcX
via IFTTT

سمندر سے بھی حملے ہوں گے، بھارت میں خوف ایکسپریس اردو

کراچی: بھارتی بحریہ کے سربراہ کے جیش محمد سے منسوب زیرآب حملوں کے حالیہ بیان کو ماہرین اور تجزیہ کاروں نے محض ایک سیاسی بیان قراردے دیاجس کا زمینی حقائق سے دوردورکا واسطہ نہیں ہے۔

بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل کرم بھیر سنگھ نے ایک متنازع بیان دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ زیر آب حملوں کے لیے جیشِ محمد کا عسکری گروہ اپنے کارندوں کو تربیت دے رہا ہے اور بھارتی نیوی کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارہے۔

بھارتی بحریہ کے سر براہ کا دعویٰ نام نہادبھارتی ماہرین کی طرف سے بڑے پیمانے پر پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا شاخسانہ ہے، اس طرح کے بیانات پر مبنی دعوے لازماً بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے وسوسوں کا نتیجہ ہوتے ہیں جو ایسے گروہوں کوحریفوں کے خلاف تسلسل سے استعمال کرتی ہے۔

ماہرین اور تجزیہ کاروں نے بھارتی نیول چیف کا دعویٰ یکسر مسترد کردیا ہے اور اسے محض ایک سیاسی بیان قراردیا ہے جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جیشِ محمد پرپاکستان میں بڑے پیمانے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے تاکہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کیا جاسکے۔

The post سمندر سے بھی حملے ہوں گے، بھارت میں خوف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Hy472L
via IFTTT

ریکوڈک کیس؛ عالمی ٹریبونل نے پاکستانی الزامات مستردکردیے ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: سرمایہ کاری سے وابستہ تصفیہ تنازعات کے بین الاقوامی مرکز نے پاکستان کے اس الزام کو مسترد کردیا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کو ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی ) نے 2009ء ریکو ڈیک کیس میں 10 لاکھ ڈالر رشوت کی پیش کش کی تھی۔

ٹریبونل نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جواب دہندہ (پاکستان) اپنے انفرادی الزامات میں ایسی بدعنوانی ثابت نہیں کرسکا جو دعویدار (ٹی ٹی سی ) سے منسوب ہو، ریکو ڈیک کیس میں پاکستان کی جانب سے عائد کردہ الزامات پر 425 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں تصفیہ تنازعات کے بین الاقوامی مرکز(آئی سی ایس آئی ڈی) نے کہا ہے کہ اس کے سامنے دعویدار کی جانب سے اپنی سرمایہ کاری کو فائدہ پہنچانے کیلئے سرکاری اہلکاروں پر ناجائز اثر و رسوخ استعمال کرنے کا کوئی ثابت شدہ واقعہ سامنے نہیں آیا۔

دوسری جانب پاکستان اگلے ماہ جرمانے کی منسوخی کیلئے عالمی ٹریبونل سے رابطہ کرے گا،ریکو ڈیک کیس آئی سی ایس آئی ڈی کی تاریخ کا دوسرا بڑا کیس سمجھا جا رہا ہے۔

The post ریکوڈک کیس؛ عالمی ٹریبونل نے پاکستانی الزامات مستردکردیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32iEY4m
via IFTTT

سینیٹ، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف قرارداد مذمت منظور ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر بھارتی جارحیت اورمظالم کے خلاف سینیٹ میں قرارداد مذمت منظورجبکہ خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کا اقدام مسترد کردیاگیا۔

اجلاس کی صدارت صادق سنجرانی نے کی۔قائد ایوان شبلی فراز نے قرارداد پیش کی،جس میں کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے کہاگیا نریندر مودی کے اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے،وہاں غیر قانونی کرفیو نافذ کیا گیا۔

قراردادمیں مطالبہ کیا گیا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کیا جائے۔ اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے ہر فورم کا استعمال کیا جائے۔ایوان میں بحث کے دوران عبد الغفار حیدری نے کہا بہتر ہے ٹیپو سلطان کی مثال دینے والے جرات کریں، مودی نے اپنے منشور پر عملدرآمد کیا۔

The post سینیٹ، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف قرارداد مذمت منظور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HxAH4Y
via IFTTT

مشکل فیصلے کے جاچکے، اب استحکام کی جانب گامزن ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک ایکسپریس اردو

کراچی: گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ آسٹریلیا میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے ذیلی ایشیا پیسفک گروپ میں بعض ممالک نے پاکستان کی ریٹنگ گرانے کی کوشش کی۔

تاہم حکومت اور اسٹیٹ بینک کے اقدامات کی بدولت ان ممالک کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور اس اجلاس میں پاکستان کو کامیابی ملی، اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے پاکستان کے اقدامات پر غور کیا جائے گا۔ معیشت درست سمت میں گامزن ہے حالات بہتر ہوتے ہی شرح سود میں کمی اور زرمبادلہ کے انخلا پر عائد پابندیاں بتدریج کم کریں گے رواں مالی سال مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 3.5 فیصد تک رہے گی معیشت کو مستحکم کرنے میں نجی شعبہ کے کردار کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔

وہ گذشتہ روز فیڈریشن ہاؤس کراچی میں ایف پی سی سی آئی کے اراکین اور عہدے داران سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر اسٹیٹ بینک کے ڈائریکٹرز اور کمرشل بینکوں کے سربراہان کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے تاجر برادری کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے اور شرح مبادلہ کو مارکیٹ پر چھوڑنے کی وجوہ سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2017 سے بیرونی خسارہ بڑھتے بڑھتے تاریخی سطح تک پہنچ گیا۔یہ شرح مبادلہ کو مصنوعی طور پر ایک جگہ رکھنے کا نتیجہ تھا بلند کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے ساتھ شرح مبادلہ ایک جگہ رکھنے سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر آگئے۔

The post مشکل فیصلے کے جاچکے، اب استحکام کی جانب گامزن ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2UgRs9T
via IFTTT

ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کو 3سال میں7 ارب ڈالر دیگا ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ایشیائی ترقیاتی بینک کے نائب صدرشی زن چن نے کہا ہے کہ آئندہ 3 سال میں پاکستان کو 7 ارب ڈالر مالیت کی معاونت فراہم کی جائے گی۔

2 روزہ دورہ پاکستان کے اختتام پرجاری ہونے والے بیان میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5 دہائیوں میں پاکستان اوراے ڈی بی نے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر، برآمدات کے فروغ، نجی شعبہ کی استعداد میں بہتری، سرکاری شعبوں کی کارکردگی میں بہتری اوراصلاحات، ملکی مالیاتی مارکیٹوں کے فروغ اور استحکام اورشہری خدمات کی فراہمی سمیت متنوع شعبوں میں مل کرکام کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پائیدارترقی کی منزل کے حصول کے ہدف کیلیے پاکستان کی حکومت کے اصلاحات کے ایجنڈا کو کامیاب بنانے میں ایشیائی ترقیاتی بنک پرعزم ہے۔

دورہ پاکستان کے دوران ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر نے وزیراعظم عمران خان، مشیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ، وفاقی وزیراقتصادی امورحماداظہر، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ڈاکٹرثانیہ نشتر، وفاقی وزیرتوانائی عمرایوب خان، وزیرمنصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار سے ملاقاتیں کیں اور بینک کے تعاون سے جاری مختلف منصوبوں کا دورہ بھی کیا۔

The post ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کو 3سال میں7 ارب ڈالر دیگا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34c32aJ
via IFTTT

پی ٹی آئی حکومت نے ہر شہری پر ایک لاکھ 82 ہزار روپے کا قرضہ چڑھا دیا تبدیلی حکومت نے قرضے لینے کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے

ایک ساتھ 2 لڑکیوں سے شادی کرنے والا نوجوان مشہور ہو گیا کسی کا دل نہیں توڑ سکتا تھا اسی لیے دونوں محبوباؤں سے شادی کر لی

آٹے کی قیمت میں پھر سے اضافہ غریب شخص کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے

موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ غریب شخص کے لیے سستی سے سستی سواری بھی مہنگی کر دی گئی

اسکول جانے والے بچوں کو مفت کھانا ملے گا خالی پیٹ کوئی علم نہیں سیکھ سکتا، ضروری ہے کہ بچوں کو کھانا دیا جائے،جیسنڈرا آرڈرن

بس گولی مار دیں تشدد نہ کریں، کشمیریوں کی دہائی بھارتی فوج ہمیں انسان نہیں سمجھتی،جانوروں کی طرح ہمیں مارا جاتا ہے،کشمیری عوام

نیب کے قوانین میں ترمیم کرنے کی تجاویز پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے، فروغ نسیم

تصحیح شدہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ حکومت خود لینے کی بجائے براہ راست عوام کو منتقل کرے گی، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں نئے پاکستان کا دوسرا سال ... مزید

پاکستان مشکل کی ہر گھڑی میں کشمیر کیساتھ ہے، میاں الیاس کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے کشمیر ریلی سے مقررین کا خطاب

نئی دہلی، پیرس، لندن، جدہ ، ٹوکیو اور اوٹاوا میں ’’کشمیر آور‘‘ منایا گیا

Thursday, August 29, 2019

کلفٹن کے پارک میں سوئے ہوئے 3 افراد کا سر پر پتھر مار کر قتل ایکسپریس اردو

کراچی: کلفٹن میں پارک میں سوئے ہوئے 3افراد کو سروں پرپتھرمارکے قتل کردیا گیا، قتل کیے جانے والے2افراد کی شناخت کرلی گئی۔

پولیس حکام کے مطابق قتل کیے جانے والے تینوں افراد بے گھر اورمزدورپیشہ تھے،پولیس نے جائے وقوع سے تمام شواہد اکٹھا کرکے واقعے کی تفتیش شروع کردی، تفصیلات کے مطابق جمعرات کی صبح بوٹ بیسن تھانے کے علاقے کلفٹن بلاک2 بختاورٹاورکے سامنے واقع بیچ ویوپارک سے3 افراد کی لاشیں ملی ہیں جنھیں سروں پر وزنی چیزمارکرقتل کیا گیا۔

اطلاع ملنے پرپولیس حکام موقع پرپہنچ گئے اورلاشیوں کو تحویل میں لینے کے بعد چھیپا ویلفیئرکی ایمبولینسوں کے ذریعے جناح اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں2افراد کی شناخت ان کے کپڑوں سے ملنے والے قومی شناختی کارڈ سے 54 سالہ علی حسن ولد تنویرالحسن اور53سالہ امشیر افضل ولد شیر افضل کے ناموں سے کرلی گئی۔

مقتول علی حسن کاتعلق فیصل آباد کے محلہ امین ٹاؤن اورمقتول امشیرافضل مردان کے علاقے محبت آباد کا رہائشی تھا۔ قتل کیے جانے والے تیسرے شخص کے پاس سے ایسی کوئی چیزبرآمد نہ ہوسکی جس کی مدد سے اس کی شناخت ممکن ہوسکی۔

ایس ایس پی ساؤتھ شیرازنذیرنے ایکسپریس کو بتایا کہ تینوں افراد بے گھراور مزدورپیشہ تھے اورمقتولین رات گزارنے کے لیے بختاور ٹاورکے سامنے واقع پارک میں سوئے ہوئے تھے اور ممکنہ طور نامعلوم ملزمان نے تینوں کے سروں پر پتھریا کسی بھاری چیز سے مارکر قتل کیا گیا۔

ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ ون طارق دھاریجو نے میڈیا کے نمائدوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کو پارک سے ایک لاش ملنے کی اطلاع ایک شہری کی جانب سے ملی تھی جس پر آپریشنزاور انویسٹی گیشن کی ٹیمیں مذکورہ پارک پہنچیں، پارک سے مزید 2 افراد کی لاشیں ملیں جوالگ الگ شیڈ (چبوترے) کے نیچے موجود تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ پولیس نے فارنزک ٹیم کو کرائم سین پر طلب کرلیا جنھوں نے جائے وقوع سے فنگر پرنٹس سمیت دیگرتمام شواہد اکٹھا کر لیے ہیں ،تینوں افراد مزدور تھے اوررات شہرمیں ہونیوالی بارش کے باعث تینوں افرادرات گزارنے کے لیے بیچ ویوپارک آکر چبوتروں کے نیچے سوگئے تھے۔

مذکورہ پارک سنسان رہتا ہے اور پارک میں صفائی  کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے،تحقیقات کے لیے مختلف ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں ہیں اوراس بات پربھی تحقیقات کی جا رہی ہیں مذکورہ پارک میں کون کون آتا جاتا رہتاتھا اور مقتولین کا بیگ گراؤنڈ  بھی چیک کیاجا رہا ہے اور پولیس جلد میڈیا کو مکمل تفتیشی  رپورٹ سے متعلق بتائے گی۔

بظاہرلگتا ہے کہ تینوں افراد کو سروں پر پتھرمارکرقتل کیا گیا ہے تاہم میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد حتی وجہ سامنے آسکے گی، قتل کیے جانے والا ایک شخص پالش کا کام کرتا تھا اس کے پاس سے پالش کا بیگ ملا ہے اور ایک شخص پیشے کے لحاظ سے مزدور تھا اوروہ کام کے سلسلے میں بدھ کو کسی مستری کے پاس بھی گیا تھا اور تیسرے شخص کے بارے میں فوری طور پر کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے، پولیس واقعے کی باریک بینی سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش کر رہی ہے اوراس وقت کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا ۔

The post کلفٹن کے پارک میں سوئے ہوئے 3 افراد کا سر پر پتھر مار کر قتل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LkIQL1
via IFTTT

حکومت کچرا نہیں اٹھائے گی تو نالے بھی صاف نہیں رہیں گے، میئر کراچی ایکسپریس اردو

کراچی: مئیرکراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ مئیر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں وزیر اعلیٰ کے پاس اختیارات ہیں ان سے گزارش ہے سول سسٹم ٹھیک کروا دیں، جب تک شہر سے کچرا اٹھانے کا نظام درست اور کچرا شہر سے باہر نہیں جاتا نالے صاف نہیں رہ سکتے۔

وسیم اختر نے جمعرات کے روز شہر کے دورے کے بعد لیاقت آباد گجر نالے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کافی دنوں سے کوشش کی جارہی ہے کہ شہر صاف ہو مل کر کام بھی کر رہے ہیں مگر اس کے لیے نظام کی ضرورت ہے،شہر کے مسائل کے حل کے لئے کوئی بھی پیش کش کرے خوش آمدید کہا جائے گا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ ڈپٹی مئیر کراچی ارشد حسن، ڈسٹرکٹ سنیٹرل کے چئیرمین ریحان ہاشمی اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔

میئرکراچی نے کہا کہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ اور وزیر بلدیات کراچی کے مسائل کے حل میں سنجیدہ تھے مگر فوری فیصلہ کی ضرورت ہے،شہری پریشان ہیں کچرے کی وجہ سے شہر میں بہت مسائل ہو گئے ہیں، ایس ایل جی اے 2013 میں تبدیلی کے لیے حکام نے اصولی اتفاق کیا مگر اس پر عمل کب ہوگا۔ معلوم نہیں کچرا اٹھانے کے لیے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کو زیادہ بااختیار بنانے اور وسائل مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ نالے روز روز صاف نہیں ہوسکتے یہ وسائل کا ضیاع ہے،نالے بھرنے کی بنیاد کچرا ہے جو شہر سے باہر نہیں جا رہا گجر نالا ایک ہفتے میں دوسری بار صاف کیا جارہا ہے اگر کچرا نہیں اٹھایا جاتا تو نالے صاف نہیں رہ سکتے، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کو جو رقم دی جارہی ہے اس رقم سے ضلع انتظامیہ شہر کو صاف کرسکتی ہے۔

The post حکومت کچرا نہیں اٹھائے گی تو نالے بھی صاف نہیں رہیں گے، میئر کراچی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZoLKIT
via IFTTT

اسکولوں کے سوئمنگ پول میں طلبا کے نہانے پر پابندی عائد ایکسپریس اردو

کراچی: ڈائریکٹرجنرل پرائیویٹ انسٹیٹیوشنزمنسوب صدیقی نے تمام نجی اسکولوں کے سوئمنگ پول میں طلبا کے نہانے پر پابندی لگادی۔

منسوب صدیقی کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق وہ اسکول جن میں سوئمنگ پول موجود ہیں، وہ اسکول فوری طور پر سوئمنگ پول کی سرگرمیاں بند کردیں، سوئمنگ پول پر مشتمل اسکول،ڈائریکٹر جنرل پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز کو پول اور ٹرینرز کے حوالے سے مکمل رپورٹ جمع کرائیں،رپورٹ دیکھنے کے بعد ڈائریکٹر جنرل پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی اسکولوں کا دورہ کرے گی۔

اگر اسکولوں میں سوئمنگ پول اور انسٹرکٹرکے حوالے سے سہولیات اطمینان بخش ہوئی تو اسکول کو اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ سوئمنگ کی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

سوئمنگ پول پر مشتمل نجی اسکولوں کی انتظامیہ کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ سوئمنگ کلاسز، طلبہ، انسٹرکٹر اور کوچز پر نظر رکھیں کہ اور تمام معلومات 13 ستمبرتک ڈائریریکٹریٹ آفس کو ارسال کریں اگر کوئی بھی اسکول ڈیٹا فراہم نہیں کرتا تو اس پر سندھ پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز ریگولیشن اینڈ کنٹرول آرڈیننس 2001 اور ترمیم شدہ قانون 2003 کے تحت اسکول کی رجسٹریشن منسوخ یا معطل کردی جائے گی۔

واضح رہے کہ اسکولوں کے اندر سوئمنگ پول میں نہانے پرپابندی گزشتہ دنوں حبیب پبلک اسکول ایم ٹی خان روڈ میں سوئمنگ پول میں چھٹی کلاس کے طالب علم کے جاں بحق ہونے کے بعد کیا گیا۔

The post اسکولوں کے سوئمنگ پول میں طلبا کے نہانے پر پابندی عائد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LfE3La
via IFTTT

کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن ایکسپریس اردو

غیر ملکی میڈیا نے حقائق پر سے پردے اٹھانے شروع کر دیے ہیں، پریس اور ٹی وی کی رپورٹوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں پکڑدھکڑ میں تیزی اور کرگل میں ہڑتال کے باعث کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، مسلسل 24  ویں روز مقبوضہ وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے، ہائی اسکول کھل گئے مگر طلبا غیر حاضر ہیں، ہزاروں ہوٹل بند جب کہ ملازمین کی بڑی تعداد بیروزگار ہو چکی ہے۔

دواؤں کی قلت اور بچوں میں شدید ذہنی دباؤ کی اطلاعات کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتاکہ مودی حکومت ظلم اور بربریت کے کتنے ہولناک راستے پر چل پڑی ہے۔ ادھر ایل او سی پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ طلبی ہوئی ، بھارت کی سرزنش کی گئی، دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق شہری آبادی کو نشانہ بنانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

لائن آف کنٹرول پر مسلسل کشیدگی کے خطرناک مضمرات اس لیے نظر انداز نہیں کیے جانے چاہئیں کہ پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرہ کی پیش گوئی پہلے شیخ رشید نے کی اور اب امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید نے خبردارکیا ہے کہ پاک بھارت جوہری جنگ چھڑ سکتی ہے۔ کشمیر بقول گارڈین اخبار آتش فشاں کے مترادف ہے جو پھٹنے کے قریب ہے، بھارتی صحافی برکھا دت نے کہا کہ کشمیر پریشرککر بن چکا ہے۔

بلاشبہ مودی کا سفاکانہ رویے کشمیر کی صورتحال کو غیر انسانی اور ہلاکت آمیز سطح پر لے جانے کا باعث بن رہا ہے، بھارتی بے جے پی حکومت دنیا کو تاثر دے رہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے اور کسی دوسرے ملک کو اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے، تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کشمیر کے معاملہ کو طول دینے سے گریز کریں، عالمی برادری کے حکام بھارتی حکومت سے رابطہ میں ہیں، امید ہے انسانی حقوق کے ماہرین کو مقبوضہ کشمیر تک جلد رسائی  دی جائے گی۔

یہ یقین دہانی ہر چند کہ ایک اعلٰ سطح سے آئی ہے لیکن زمینی حقائق باور کراتے ہیں کہ مودی مقبوضہ کشمیر کو دباؤ میںرکھنے کے لیے جاری اسٹرٹیجی کا تسلسل جاری رکھیں گے۔ انتونیو گوتریس نے نریندر مودی سے ملاقات بھی کی، یو این ہائی کمشنر نے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کی عالمی تحقیقات کرائی جائے۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے اعلان پر  کشمیریوں سے مکمل اظہار یکجہتی آج جمعہ کو ملک بھر میں12بجے سے12.30 تک ٹریفک بند رہے گی، وزیراعظم سیکریٹریٹ کے سامنے مرکزی اجتماع کی قیادت کریں گے اور قوم سارے کشمیریوں سے اتحاد و یکجہتی کے اعلان پر غیر متزلزل یقین کا مظاہرہ کریگی ۔

وزیراعظم نے فرانسیسی صدر امائل میکرون اور اردن کے شاہ عبداللہ کو فون کیا اور مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، فرانسیسی صدر نے کہاکہ وہ صورتحال کا قریبی جائزہ لے رہے ہیں، شاہ عبداللہ نے کہا کہ خطے میںکشیدگی کم کرنے کی ضرورت ہے۔ دریں اثنا بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ سے بھارتی آئینی اور قانونی حلقوں میں بے قراری پیدا ہوئی ہے ، چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے آرٹیکل370 کے خاتمے کے خلاف اور کشمیر کی صورتحال کے بارے میں درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے مودی سرکار سے جواب طلب کر لیا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ میں گزشتہ روز آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف دائر 14درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے حکومت کو نوٹس جاری نہ کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مرکز کو جواب داخل کرنے کا حکم دے دیا۔ انھوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر کی موجودہ کشیدہ صورت حال سے متعلق تمام درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے پانچ رکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے اور اکتوبر سے ان درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہو گا جس میں مودی سرکار کو اپنا جواب داخل کرانا ہوگا۔

بھارتی حکومت کے نمایندے توشر میٹھا نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ درخواستیں سیاسی اختلاف رائے کی وجہ سے دائر کی گئی ہیں۔ سرحدوں پر موجود تناؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان درخواستوں کو خارج کیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت فیصلہ کرچکی ہے اور اب اسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔ بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرنے کی جو سیاسی واردات کی ہے اس نے در اصل ایک پینڈورا بکس کھول دیا ہے۔

بھارتی میڈیا اور کہنہ مشق تجزیہ کار، دانشوروں اور سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کے حواری کشمیر کے ’’اینڈ گیم‘‘ کی حقیقت سے لاتعلق ہیں، مشہور صحافی بھارت بھوشن نے لکھا ہے کہ مودی کو کشمیر پر خوشیاں منانے سے فرصت ملے تو وہ معاشی بحران پر توجہ دیں، انھوں نے کہا کہ کشمیر پر مودی سرکارکاکوئی روڈ میپ نہیں، بھارتی جنتا پارٹی کو کوئی اندازہ نہیں کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے اور مین اسٹریم کشمیری سیاستدانوں کا جوشیلا رد عمل سامنے آیا اورکشمیری رہنماؤں نے متحدہ جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کیا تومودی کیاکریں گے۔

The post کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZwL0l3
via IFTTT

یمنی فورسز کا عدن پر دوبارہ قبضہ ایکسپریس اردو

یمن کی حکومتی فورسز نے ملک کے عبوری دارالحکومت عدن اور اس کے صدارتی محل پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے اور ایک حکومتی وزیر نے اعلان کیا ہے کہ علیحدگی پسندوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے جنھوں نے اس ماہ کے اوائل میں وہاں قبضہ کر لیا تھا۔

علیحدگی پسندوں نے تقریباً تین ہفتے قبل عدن پر قبضہ کیا تھا لیکن اب آزادی کی حامی فورسز نے عدن کا کنٹرول سنبھال لیا۔ عدن حکومت کا اس وقت سے عارضی دارالحکومت تھا جب سے حوثی باغیوں نے شمالی دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یمنی صدر عبدالرب منصور ہادی کی وفادار فورسز نے عدن کے صدارتی محل پر قبضہ واگزار کر لیا ہے۔ واضح رہے صدر ہادی کی حکومت کو بین الاقوامی طور پر یمن کا جائزہ حکمراں تصور کیا جاتا ہے۔

اس کا اعلان وزیر اطلاعات معمر الفریاتی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا ہے۔ قومی آرمی اور سیکیورٹی فورسز نے صوبے کے تمام اضلاع پر موثر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ یمن میں جاری خانہ جنگی کے باعث ملک میں قحط پڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے نہ صرف قحط کا خطرہ بلکہ ملک کے ٹوٹنے کا خطرہ بھی نمایاں ہے۔

علیحدگی پسندوں کا دارالحکومت عدن پر قبضہ کر لینا باغیوں کی نمایاں کامیابی سمجھی جا رہی تھی تاہم اب سرکاری فورسز دیگر تزویراتی علاقوں پر بھی قبضے کی کوشش کر رہی ہیں شہر کے مشرق میں سرکاری افواج کی طرف سے گولہ باری کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں جب کہ سرکاری فوجیں مسلسل پیش قدمی کر رہی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ مشرق میں عدن کے صوبے پر بھی کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔

حکومت نواز ذرایع کے مطابق عدن کے گلی کوچوں میں آمنے سامنے تصادم کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں۔ عدن دوسرا جنوبی صوبہ ہے جس پر سرکاری فورسز نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس ہفتے کے ابتدا میں سرکاری فوجوں نے شبوا کے صوبے کا بھی کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے ۔ یمنی وزارت داخلہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں علیحدگی پسندوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنے ہتھیار ڈال دیں اور لڑائی بند کر دیں۔

سعودی عرب کی قیادت میں جو اتحاد بنایا گیا ہے اس اتحاد کی طرف سے بار بار کے مطالبات کے باوجود باغیوں نے اپنی پوزیشن چھوڑنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی سعودی حمایت کے اتحاد نے 2015ء باغیوں نے یمن کے بہت سے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یمن کو عالم عرب کا غریب ترین ملک خیال کیا جاتا ہے۔ یمن کی خانہ جنگی میں  ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزاروں افراد تک پہنچ چکی ہے جن میں زیادہ تر سویلین ہیں جب کہ اقوام متحدہ نے اسے دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔

The post یمنی فورسز کا عدن پر دوبارہ قبضہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Lm8TS6
via IFTTT

روشنیوں کے شہر کی حالت زار ایکسپریس اردو

کراچی میں ایک بار پھر شہریوں کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے، بدھ اور جمعرات کو ہونے والی تیز اور موسلا دھار بارش سے سے نشیبی علاقے زیر آب آ گئے، مختلف شاہراہوں پرگاڑیوں کی لائنیں لگ گئیں، جب کہ روشنیوں کا شہر تاریکی میں ڈوبا رہا، کراچی میں برسہا برس بارش نہیں ہوتی، اس بار ابر رحمت برسا ہے، تو صوبائی اور شہری انتظامیہ، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی نے شہریوں کو اذیت اور کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔

کراچی میں تھوڑی سی بارش میں گھنٹوں کے لیے بجلی بند ہو جانا کے الیکٹرک کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ بارش کا پانی کراچی کو گیس سپلائی کرنے والی لائنوں میں داخل ہونے سے گیس کی فراہمی میں جزوی خلل شروع ہو گیا۔ کچھ علاقوں میں گیس سپلائی بالکل بند ہو گئی گیس کا پریشر نہایت کم ہونے کی وجہ سے بلند عمارتوں اور گھروں میں مکمل طور پر گیس کی سپلائی بند ہو گئی۔

صارفین ایک نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ محکمہ موسمیات نے اگلے 24 گھنٹوں میں کراچی سمیت 8 اضلاع میں تیز بارشوں کی پیشگوئی کی ہے، شہر میں 50 سے 70 ملی میٹر بارش متوقع ہے جس سے اربن فلڈنگ کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انرجی کو کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو نے بتایا کہ 33 افراد کی ہلاکت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیںجن میں 11ہلاکتیں گھر کے اندر ناقص وائرنگ سے ہوئیں جب کہ 18ہلاکتیں بجلی کے کُنڈوں یا ٹی وی کیبل نیٹ ورک سے ہوئیں۔ کراچی جیسے میگا سٹی میں یوں نظام زندگی کا مفلوج ہو جانا سسٹم کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ایس پی کے رہنما سیاسی بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، شہر ناپرساں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگے بڑھ کر اور ملکر عوام کے مسائل کوئی حل نہیں کرنا چاہتا۔

The post روشنیوں کے شہر کی حالت زار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Zqa5Oj
via IFTTT

دنیا کی سیاہ ترین کاردھوم مچانے کو تیار منفرد رنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہو گئی

امریکی مسلم خاتون رکن کانگریس کو دھمکی آمیز خط موصول امریکہ میں پایا جانے والا تعصب اس کے لیے بدنامی کا باعث بن رہا ہے

مشہور فوڈ چین نے عوام کے لیے ’جعلی چکن‘متعارف کرا دیا لوگوں نے پہروں قطارمیں کھڑے ہو کر جعلی چکن کی ڈش خریدی

خواجہ سراؤں کے ساتھ توہین آمیز سلوک،پولیس ایکشن میں آ گئی امریکہ کے شہری بھی خواجہ سراؤں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھنے لگے

انجانے میں بٹن دبانے پر مصروف ترین ایئرپورٹ 4 گھنٹوں کے لیے بند ہو گیا نوجوان نے ایمرجنسی دروازے کھولنے والا بٹن دبا دیا جس سے کھلبلی مچ گئی

ماں نے اپنے بیٹے کی ٹیچر کے قتل کی ٹھان لی ٹیچرکے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے بیٹا مجھ سے دور ہونے لگا تھا،ملزم والدہ

امریکا میں پاکستانی سفیر کا امریکہ پربھارت پر کشمیر میں کریک ڈاؤن ختم کرنے کے لئے دبائو ڈالنے پر زور ،ہندوستانی وزیر اعظم مودی نے متنازعہ خطے کے ایک وسیع حصے کو حراستی ... مزید

امریکہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کی تعداد 14000 سے گھٹا کر 8600 تک لانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ

پوری قوم (آج) جمعہ کو مظلوم کشمیریوں کے ساتھٓ اظہار یکجہتی کرے گی ملک بھر میں عوام اپنے مقام کار ، دفاتر کی عمارتوں، گھروں، مارکیٹوں، شاپنگ مالز سے باہر آ کر قریبی سڑکوں ... مزید

سٹرائیک کور کا جنگ میں حتمی اور فیصلہ کن کردار ہے،چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ چیف آف آرمی سٹاف نے سٹرائیک کور کی فارمیشنز کا دورہ کیا، آئی ایس پی آر

بھارت کی فاشسٹ حکومت کے کنٹرول میں جوہری اسلحہ دنیا کے لئے سنگین خطرہ ہے ، بھارتی حکام کا اناڑی پن دنیا کو خطرناک صورتحال سے دوچار کر سکتا ہے،مسائل کے دوطرفہ حل کے شملہ ... مزید

لاہور پریس کلب کے زیر اہتمام کشمیر کے حوالے سے تربیتی سیمینارکا انعقاد پا ک فوج بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے ‘کشمیریوں کے لیے سیاسی، سماجی، ملکی ... مزید

لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی جانب سے یونین کونسل 202 اور 203 میں صفائی ستھرائی کی موثر حکمت عملی پر خصوصی تقریب کا انعقاد

فاسٹ بائولر شاہین آفریدی بیماری کے باعث پری سیزن کیمپ سے باہر ہوگئے

ڈی جی سپورٹس پنجاب کا پی سی بی کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا دورہ‘ سہولتوں کا جائزہ لیا کھیلوں کے فروغ کیلئے اہم اقدامات کررہے ہیں، عدنان ارشد اولکھ

پی سی بی کے نئے ڈومیسٹک سیزن کی تقریب رونمائی ہفتہ کو ہوگی

پاکستان ہاکی فیڈریشن آج یوم یکجہتی کشمیر منائے گی کشمیر پاکستان کی شہ رگ‘ اس کی آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘آصف باجوہ

Wednesday, August 28, 2019

تین فٹ بالر، تین دوست اور لیاری ایکسپریس اردو

پاکستان فٹبال کی پرانی داستان میں کرداروں کی ایک کہکشاں ملتی ہے۔ یہ 50کی دہائی کا ابتدائی منظر نامہ ہے۔

ایک فٹبال آرگنائزر حاجی احمد خان کراچی سے فٹ بال کی ٹیم لے کر بھارت جاتے ہیں، کلکتہ میں ان کی ٹیم اچھے کھیل کا مظاہرہ کرتی ہے،کراچی ککرز نام تھا اس ٹیم کا،اس فٹبال ٹیم میں اپنے وقت کے مایہ ناز فٹبالر محمد عمر بلوچ بھی شامل تھے یہ وہی کھلاڑی ہیں جنھیں بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور دلیپ کمار نے پسندکیا اور انھیں بھارت میں رہنے کی پیشکش کی، پاکستان دوسرا محمد عمر پیدا نہ کرسکا۔دوسرا علی نواز بھی ناقدری کا شکار ہوا۔

حاجی احمد کی گفتگو جو بعد میں، میں نے چاکیواڑہ میں ان کے دفتر میں سنی اس میں عابد ، موسیٰ غازی محمد ،استاد داد عرف  ددو اور گل محمد لین کے داد محمد، حسین کلر اور دیگر اہم  کھلاڑی کھیلتے رہے، فہرست لمبی ہے، یہ چونکہ میڈیا کی چکا چوند کا زمانہ نہ تھا صرف انجام اور ڈان اخبار کے علاوہ گجراتی اخبارات شایع ہوتے تھے۔

اس لیے فٹ بالروں کی طلسماتی کشش اور شہرت و دولت کی کہانیاں نہ ہونے کے برابر تھیں، جو آج کے جادوگر عالمی فٹ بالر لائنل میسی اورکرسٹیانو رونا لڈو نو کے بارے میں گردش کرتی رہتی ہیں، جو فٹبال پر حکمرانی بھی کرتے ہیں اور لاکھوں ملین پاؤنڈ اور ڈالر میں کھیلتے بھی ہیں، مجھے پاکستان فٹبال کی کہانی اخبارات اور فٹ بال کے کھیل کی جستہ جستہ خبروں سے ملتی تھی، میرا بچپن بھی دنیا سے کٹا ہوا تھا، سیفی اسپورٹس کلب کی سی ٹیم میں کھیلا یوتھ ٹیم تھی۔

جرسیاں خود سرخ کلر میں رنگتے ، ہم سب ننگے پیرگلی کوچوں میں کھیلتے، کبھی ’’ وشو‘‘ کے اسکول گراؤنڈ میں جاکر کرمچ کی گیند سے دل بہلاتے ، پھر ڈی سی ٹو گراؤنڈ پرکئی میچز کھیلے، اسے ڈھاکا گراؤنڈ کہتے تھے۔ میرے سر عبدالرحیم پرائمری اسکول کے نام سے منسوب قدیمی مادر علمی اب کسی اور نام سے ہے، پہلے اس سڑک کا نام مسان روڈ اس کے بعد آتما رام پریتم داس روڈ اور آج کل سندھ کے صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نام سے موسوم ہے۔ اسی اسکول میں، میں نے چار جماعتیں مکمل کیں۔ دوسری اور تیسری جماعت کے دو استاد میرے خاندان سے قربت کا رشتہ رکھتے تھے، محمد حسن بلوچ اور نبی بخش بلوچ دونوں کا تعلق کلاکوٹ اسلام روڈ کے قریبی محلے سے تھا۔

اس اسکول گراؤنڈ نے کئی مقامی اور نیشنل فٹبالر پیدا کیے، جو آگے جا کر غلام عباس بلوچ ، عبدالغفور عرف مجنا اور عبداللہ عرف ہیرو کہلائے۔ آج کی کہانی ان ہی تین با وفا دوستوں اور بے مثل فٹبالروں کی ہے جنھوں نے فٹبال سے کمٹمنٹ کی سبق آموز اور دلچسپ وعجیب داستان رقم کی، یہ پرانی لیاری کی بھی ارتقائی کہانی ہے جسے میں نے اور مولا بخش گوٹائی نے ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا۔گوٹائی زبردست فٹبالر تھا ،آج کمزور اور ناتواں ہے، وہ شکل سے آج بھی فرانسیسی ٹیم کا ایم بیکی لگتا ہے۔

سیفی لین بغدادی ضلع جنوبی کے ان علاقوںمیں شمارہوتاہے جہاں فٹبالروں کی ایک کھیپ تیار ہوئی اور ان ہی گلیوں میں تعلیم وتربیت کا اہتمام ایسے طلبا کی ذمے داری تھی جو میٹرک ، انٹریا گریجویشن کرچکے تھے، سیفی لین کی ایک گلی میں پہلے اسٹریٹ اسکول کے تجربہ کی بنیاد رکھی گئی۔

چھوٹی سی سڑک کے دونوں طرف پہلی سے چوتھی جماعت اور پھر پانچویں سے میٹرک تک کی فری کوچنگ کلاسیں شروع کی گئیں ، کسی چندے اور فیس کا کوئی تصور نہ تھا، سارا کام طلبا اور سیفی اسپورٹس کلب اور سیفی سوشل ویلفیئر سوسائٹی کی طرف سے بالواسطہ سرانجام دیا جاتا تھا، گلی میں جب رات کو اسٹریٹ لائٹس روشن ہوئیں تو بچوں کی آنکھوں میں مستقبل کے ان گنت ستارے چمک اٹھے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی طرف سے اس اسٹریٹ اسکول کے بارے میں ایک کتابچہ بھی شایع کیا گیا ۔

غلام عباس بلوچ اور غفور مجنا سیفی اسپورٹس کلب سے وابستہ تھے۔ غلام عباس کے آباؤ اجداد تاریخی حوالوں سے ایسٹ افریقہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کے دادا ابا سے ملنے ان کے زنجبار ،تنزانیہ اور دارالسلام سے رشتہ دار ملنے آتے، ایشیا کے عظیم بینجو نواز بلاول بیلجیئم کا تعلق بھی عباس کے گھرانے سے تھا، عباس کی شادی کی تقریب سیفی لین میں ہوئی۔

جس میں بلاول بیلجئیم نے بینجو اور سرمنڈل پر جنگی نغمہ ’’ اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑی ، اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی ، مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی اے، جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘‘ بنجو پر سنایا تو پوری محفل جھوم اٹھی تھی، بنجو پرکبھی تو کوئی دھن سنانے کی ریڈیو پاکستان پر ممانعت تھی لیکن زیڈ اے بخاری بلاول بیلجیئم  کے فن کے اس قدر دلدادہ ہوئے کہ یہ پابندی انھوں نے ہی اٹھا لی۔

عباس کے قدیمی رشتے دار غلاموں کی تجارت کے سامراجی اور نوآبادیاتی دور کی نشانیوں میں سے تھے جو مشرق وسطی لائے جانے کے دوران مسقط ، سعودی عرب اور ایران و بلوچستان کے راستے کراچی آکر بستے گئے۔ ماڑی پورکے ابا خمیسہ عرف ’’خمو‘‘ بھی اسی عہد تجارت غلاماں کے ایک کردار تھے جن کے فٹبالر بھتیجے کوثرکے پورے خاندان کا تعلق لیاری اور ماڑی پور سے بھرپور رہا۔

غلام عباس فطرتاً سنجیدہ اور سماجی کاموں کی طرف بھی توجہ دیتے تھے، راقم کے وہ فٹبال اور تعلیمی سرگرمیوں میں استاد کا درجہ رکھتے تھے، نیز لیاری میں کسی کمسن  فٹبالرکو ڈھاکا سے فٹبال کے اسپیشل جوتے( ٹو) پہلی بار عباس نے لیاری بھجوائے تھے، میں ان شوز کے ساتھ گنجی گراؤنڈ اور ڈھاکا گراؤنڈ میں کھیلا بھی تھا۔ عباس برازیلین اسٹرائیکر ’’پیلے‘‘ کے مرید تھے۔

ان کا اسٹائل آف پلیئنگ بھی برازیلی کھلاڑیوں سے ملتا جلتا تھا، وہ موومنٹ کے حساب سے گیند لے کر دوڑتے، ان کے رن اپ اور اسپیڈ میں ندرت تھی، موومنٹ کری ایٹ کرتے اور ڈی زون میں گول کیپرکو سنبھلنے کا موقع نہیں دیتے تھے، ان کو افراتفری میںگول کرنے کی بڑی سدھ بدھ تھی، اس اعتبار سے وہ موجودہ دورکے لوکاکو تھے۔

عباس نے ہمیشہ جنٹلمینز رویہ اختیار کیا ،کبھی کسی مخالف کھلاڑی سے ان کی ان بن نہیں رہی،انھوں نے شاندار فٹ بال کھیلی، اپنی صلاحیت اور علمی قابلیت کے اعتبارسے فیفا کے نائب صدر رہے، ان کے بڑے بھی فداحسین منشیات کے عادی تھے ، درد ناک موت پائی، چھوٹے بھائی غلام علی عرف گوجل بھی اچھے فٹبالر تھے، چھوٹے بھائی پروفیسر صبا دشتیاری تھے جنھوں نے جواں سالی میں بلوچی شعر وادب میں نام پیدا کیا ۔ صبا دشتیاری بلوچستان کی سیاسی آگ سے دامن نہ بچا سکے انھیں بلوچستان یونیورسٹی کی راہداری میں بے چہرہ لوگوں نے گولیاں ماریں اورکراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ عباس بہترین اسٹرائیکر تھے ۔ پی آئی اے ان کی آخری ٹیم تھی جس سے وہ ریٹائر ہوئے۔

عبداللہ ہیرو کا تعلق بغدادی کے علاقے میں واقع بغدادکلب سے تھا جو اپنے وقت کی بہترین ٹیم تھی۔ عباس ، مجنا اور عبداللہ ہیرو کی دوستی ایک عہد کی مکمل تاریخ سے معمور تھی۔ یہ ڈائمنڈز کہلاتے تھے۔ دونوں کی جیون ساتھیاں بہاری لڑکیاں تھیں۔

جنھوں نے چار عشرے لیاری میں سیاہ فاموں کے بیچ گزارے ۔ مجنا اور ہیرو کے لیے نوجوان فٹ بالروں کے دل میں جو محبت اور عقیدت تھی وہ  برس ہا برس قائم رہی، عبداللہ ہیرو اپنے عجز وانکسار سے ہردلعزیز تھے، وجیہ اور انتہائی تیز رفتار فارورڈ تھے، بظاہر ان سائیڈ لیفٹ کی پوزیشن میں کھیلے تھے مگر پوری ٹیم کے لیے وہ گیم میکر تھے ، ہمہ وقت ان کو گیند اور ساتھی کھلاڑیوں سے یا مخالف ٹیم سے کشمکش میں مصروف پایا، عباس اور مجنا کی مشترکہ خصوصیت کے باعث وہ کبھی فاؤل پلے کے مرتکب نہیں ہوئے، یہ ان کی جینز میں مضمر خلش تھی کہ وہ گیندکو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے فیئر پلے پر یقین کرتے تھے۔ لیاری اور ملک کے ممتاز فٹ بال آرگنائزرز نے ان تینوں کھلاڑیوں کے شخصی رویے کو آن گراؤنڈ ہمیشہ قابل تعریف قرار دیا۔

اس مقبول Trio نے لیاری میں فٹبالروں کے مابین یکجہتی، محبت و یگانگت اور کھیل سے بے لوث وابستگی کو ایک ٹرینڈ بنادیا تھا۔کے ایم سی ،کے پی ٹی  سندھ گورنمنٹ پریس، حبیب بینک، ریلوے، واپڈا ، اس زمانے کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی تھیں ۔ کے ایم سی گراؤنڈ فٹبال تفریح کا واحد مرکز تھا ، سارے اہم میچز اسی گراؤنڈ پر ہوتے تھے، غالباً 60  ء میں اس گراؤنڈ کے ایک حصہ کی چھت گری تھی جس میں غفورمجنا شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔

عبدالغفور مجنا کو سندھ گورنمنٹ پریس کے سینٹرہاف کے طور پر اچھا زمانہ ملا ، جب ان کا طوطی بولتا تھا۔انھیں ڈان کے سینئر اسپورٹس رپورٹر علی کبیر نے وال آف چائنا کا خطاب دیا تھا۔ مجنا کا قد برازیل کے رابرٹوکارلوس کے برابر تھا، اس کی پھرتی ، شوٹنگ پاور اور اچھل کر ہیڈ کرکے گیند کو کلیئر کرنے کی صلاحیت منفرد تھی، ریلوے گراؤنڈ میں ایک فری کک ہاف گراؤنڈ سے کچھ قدم آگے تھی ، مجنا کی کک آج  کے بارسیلونا، رئیال میڈرڈ، مانچسٹر یونیٹڈ ، چیلسی اور لیور پول کے کسی بھی مڈ فیلڈر کی پاورفل شوٹ  کے ہم پلہ کے برابر تھی۔

اس کی پھرتی عمر کے آخری میچز میں بھی قابل دید تھی، وہ فٹبالروںکے ایک شریف النفس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، مرنجان مرنج آدمی تھا، بہت ہی جاذب نظر شخصیت اورکمال کی فٹنس تھی۔ جب کھیل کے  گراؤنڈ سے رشتہ ٹوٹ گیا تب بھی چلتے پھرتے ان کی فٹنس اپنے معیار سے کم تر نہ تھی۔ انھیں ڈاج دینا آسان نہ تھا۔ تتلی کی طرح متحرک رہتے اور اسٹرائیکر کو موومنٹ کے لیے موقع ہی نہیں دیتے تھے، مجنا کی دوسری خوبی ان کا رف کھیل سے پاک انداز تھا، ان کے کھیل کی فلاسفی ہی سب  سے جداگانہ تھی۔ مجنا دیوانے کوکہتے ہیں ، اگر فٹبال سے دیوانگی فریب نظر نہیں تو غفور مجنا سے بڑا فٹبال دیوانہ اہل لیاری نے آج تک نہیں دیکھا۔

نوٹ: ایک فون کال میں مجھے توجہ دلائی گئی کہ شیرشاہ صابری اسپورٹس کے طارق بروہی کی سرپرستی ہونی چاہیے،اس نوجوان کے خوبصورت کھیل سے شیر شاہ کے علاقے کے فٹبالرز بہت متاثر ہیں۔امید ہے فٹبال کے مسیحا ناصر جمال اور شریف بلوچ صاحب اس فٹبالرکی قدر افزائی کریں گے۔

The post تین فٹ بالر، تین دوست اور لیاری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2L3yYqn
via IFTTT

کشمیر، ہم اور نند کشور وکرم ایکسپریس اردو

جس طرح اُردو ڈائجسٹ اور الطاف حسن قریشی لازم و ملزوم کہے اور سمجھے جاتے ہیں کم و بیش اسی طرح الطاف بھائی اور اُن کی تنظیم ’’پائنا‘‘ ہر قومی نوعیت کے مسئلے پر سب سے پہلے دانشوروں کو ایک جگہ جمع کرکے مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اور تعمیری طریقِ کار کی تلاش کا بیڑہ اُٹھاتے ہیں۔

26اگست کو اسی روایت کی تجدید کے لیے انھوں نے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے دفتر میں احباب کو اس حوالے سے مدعو کیا کہ موجودہ صورتِ حال میں کشمیر پالیسی پر نہ صرف حکومتِ وقت کو اہلِ دانش کے مشورہ اور تعاون سے آگاہ کیا جائے بلکہ ایک ایسی کل پاکستان کانفرنس کا بھی انعقاد کیا جائے جو اس ضمن میں باہمی غورو فکر اور مشورے سے ایسی سفارشات بھی مرتب کرے جن میں عوامی جذبے، قومی حمیت اور اجتماعی دانش تینوں کی بھرپور نمایندگی ہو، یہ محدود محفل گویا اُس مجوزہ بڑی کانفرنس کے اسکوپ، وقت ، مقام ، ایجنڈے اور شرکاء کی تفصیلات طے کرنے کے لیے تھی۔

سو گفتگو کا موضوع زیادہ تر یہی رہا کہ سب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اندریِں حالات ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ اور یہ کہ ہمارے عمل اور ردعمل کا طریقِ کار کیا ہوناچاہیے ؟ اس بات پر بھی اتفاقِ رائے کیا گیا کہ ہمیں ایٹمی جنگ کا تذکرہ کسی بھی حوالے سے نہیں کرنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے نفسیاتی طور پر عالمی رائے عامہ ا ور انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں شش و پنچ میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور یوں کشمیری عوام کو وہ ہمدردی زیادہ شدت کے ساتھ نہیں مل سکتی۔

جس کے لیے اس وقت ایک بہتر صورتِ حال گزشتہ پچاس برس میں پہلی بار دیکھنے  میں آرہی ہے اور دوسری طرف حکومتِ وقت کے اس عمومی روّیئے میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے کہ وہ کشمیریوںکے حقِ خود ارادیت کی حمایت سے زیادہ اس بات پر زور دیے جارہی ہے کہ اگر بھارت نے آزاد کشمیر کی طرف پیش قدمی کی کوئی کوشش کی تو اُسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

بات اور جذبہ اپنی جگہ پر درست سہی لیکن اس وقت زیادہ ضرورت مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حقوق اور اُن پر روا رکھے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اُٹھانے اور ’’کشمیر‘‘ ہمارا ہے ‘‘ یا ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگانے کے بجائے اس بات پر عالمی رائے عامہ کو یکجا کرنے کی ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف کشمیریوں کی مرضی اور اجتماعی رائے کے مطابق ہونا ہے ظاہر ہے کہ ایسا ہوجانے کی صورت میں یہ مسئلہ ہماری توقعات کے مطابق اپنے آپ حل ہوجائے گا بصورتِ دیگر دنیا کو یہ پیغام ملے گا یا پہنچایا جائے گاکہ اصل میں پاکستان کا مسئلہ بھی بھارت کی طرح کشمیر کی زمین ہے کشمیری عوام اور اُن کے حقوق نہیں۔

اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا کہ ہمیں جذبات سے ہٹ کر معروضی صورتِ حال، اُس کے تقاضوں اور معاشی اعتبار سے بھارت کے ہم سے بہت زیادہ مضبوط اُن رشتوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے کہ جن سے ملحقہ مفادات کا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ہے اور بدقسمتی سے اس فہرست میں ہمارے مسلمان دوست ممالک ایک دو کے علاوہ بھارت دوستی میں سب سے  پیش پیش ہیں اور یہ بھی کہ اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم ہو ، عالمی عدالت انصاف یا کوئی اور فورم سب کے سب نہ صرف لمبے اور پیچیدہ راستے ہیں بلکہ اگر یہ آپ کے حق میں فیصلہ دے بھی دیں تب بھی ان کے پاس اپنے فیصلے کو منوانے کی طاقت اور میکنزم نہ ہونے کے برابر ہے۔

جس کی ایک زندہ مثال 72 سال سے موجود اور منظور سلامتی کونسل کی وہ قرار دادیں ہیں جن پر آج تک عمل تو درکنار کوئی بھی اہم ملک اُس کے بارے میں بات تک کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ مودی سرکار کے اس غیر آئینی اور ظالمانہ اقدار کے ردِعمل میں اتنا ضرور ہوا ہے کہ ان نام نہاد بڑے ملکوں کے ساتھ پوری دنیا کے دانشور اور بالخصوص انسانی حقوق کی حمایت میں آواز اٹھانے والے لوگ کھل کر بھارت کی مذمت کر رہے ہیں اور چونکہ دنیا کے بیشتر ممالک کی حکومتیں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے عوام کی رائے کو وزن اور اہمیت دیتی ہیں اس لیے یہ واحد ہتھیار ہے جو فی الوقت ہمارے حق میں استعمال ہوسکتا ہے۔الطاف حسن قریشی صاحب نے بھی اپنی اختتامی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اس مجوزہ کانفرنس کی بنیاد اس ایک نقاطی ایجنڈے پر رکھنی چاہیے تاکہ مسئلے کے عملی حل کی طرف اجتماعی پیش رفت کی جاسکے۔

جیسا کہ میں نے گزشتہ کسی کالم میں انصاف پسند اور حق پرست بھارتی اہلِ قلم اور دانشوروں کے حوالے سے ذکر کیا تھا کہ اُن میں سے بیشتر اپنی حکومت کے اس اقدام سے نالاں اور کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے حامی ہیں اور اس ضمن میں ہمیں اُن کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے جس بھارتی قلم کار نے سب سے پہلے فون پر مجھ سے اس موضوع پر بات کی وہ نند کشور وکرم تھے۔

ان کا آج نوے برس کی عمر میں انتقال ہوگیا ہے اُن کی تحریروں سے تو میری پرانی واقفیت تھی لیکن اُن سے براہِ راست ملاقات چند برس قبل اُردو مجلس دوحہ قطر کے سالانہ پروگرام میں ہوئی جہاں وہ اپنا عالمی ادبی ایوارڈ وصول کرنے کے لیے تشریف لائے تھے اُن سے مختلف موضوعات پر تفصیلی بات چیت رہی وہ بہت محبتی اور دھیمے مزاج کے کمٹڈ ادیب تھے اور عمر کے اس حصے میں بھی اُردو ادب کی ترویج و ترقی کے ساتھ تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود رشتہ جوڑے ہوئے تھے۔

چند ماہ قبل وہ کسی کانفرنس کے سلسلے میں لاہور تشریف لائے تو عزیزی سونان اظہر کے گھر پر اُن سے آخری ملاقات ہوئی ۔ دعا ہے کہ رب کریم اُن کی روح پر اپنا کرم فرمائے کہ وہ ایک اچھے ، بھلے مانس اور اُس کے بندوں سے پیار کرنے والے انسان تھے اور رنگ و نسل ، مذہب اور عقیدے کی تفریق سے بالاتر ہوکر تمام انسانوں اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والوں میں سے تھے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ صرف عالمی رائے عامہ کا بھرپور اور مسلسل دباؤ ہی کشمیریوں کو اُن کا حق دلوانے کا بہترین اور موثر راستہ ہے ۔

The post کشمیر، ہم اور نند کشور وکرم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Zxs68L
via IFTTT

تعمیر میں مضمر خرابی ایکسپریس اردو

ہماری اپنی معلومات تو انتہائی محدود ہیں یعنی صرف اخباروں،اشتہاروں اور دیواروں پر مبنی ہیں۔صاف صاف یوں کہیے کہ پینڈو تھے پینڈو ہیں اور پینڈو ہی رہیں گے،کیونکہ اس آخری عمر میں کیا خاک’’شیرواں‘‘یانوشیرواں ہوں گے۔

لیکن سنتے ہیں سنتے رہتے ہیں کہ’’بنیادیں‘‘ڈال دی ہیں اور اب نیا پاکستان تعمیرہونے سے کوئی نہیں روک سکتا یہاں تک کہ پرانا پاکستان بھی اسے تعمیر ہونے سے نہیں روک سکتا۔اب یہ بنیادیں کہاں ڈال دی ہیں کیسے ڈال دی ہیں کس لمبائی چوڑائی میں ڈال دی ہیں اس کا اصل پتہ تو بنیادیں ڈالنے والوں کو ہی ہوگا۔ لیکن ’’بنیادوں‘‘کے بارے میں ہماری جو پرانی معلومات ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ

خشت اول چوں نہد معمارکج

تاثر یا می رود دیوار کج

اور دوسری بات تاریخی نوعیت کی ہے یہ مغلیہ دور کے معمار اور کنسٹرکشن کے شوقین بادشاہ شاہ جہان کے دور کی بات ہے کہ اس نے جب دہلی میں لال قلعہ کے سامنے جامع مسجد بنانے کا منصوبہ لانچ کیا تو اپنے معمار سے کہا کہ مجھے ایک سال کے اندر اندر مسجد تیار ملنی چاہیے معلوم نہیں وہ معمار کون تھا۔

کیونکہ یہ رواج پرانے زمانوں سے چلا آرہا ہے کہ کسی تعمیر کرنے والے یا والوں کی جگہ ’’بدست جناب‘‘ کی تختی لگائی جاتی ہے۔خلیل جبران نے ایک پل کی تعمیر کا ذکر کیا ہے جو کسی دریا پر کسی’’بدست جناب‘‘کے دور میں تعمیر کیاگیاتھا اور اس کی تعمیر میں پندرہ گدھوں اور آٹھ انسانوں کی جانیں بھی چلی گئی تھیں لیکن تختی پر صرف بادشاہ کے نام کی تختی لگائی گئی تھی جس نے یہ پل کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔ خیر ہوسکتا ہے کہ شاہ جہان کا یہ مسجد والا معمار بھی وہی علی مردان ہو جس نے تاج محل کو تعمیر کیا تھا۔

بادشاہ نے جب ایک برس میں مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا تو معمار غائب ہوگیا۔بادشاہ اور اس کے اہلکار ڈھونڈتے رہ گئے لیکن معمار کا کوئی ویراباوٹ نہیں ملا پورا ایک سال گزرگیا۔تو اچانک کہیں سے نکل آیا۔وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ شاہ جہان اپنے بیٹے اورنگ زیب رحمتہ اللہ علیہ پر نہیں گیا تھا۔ورنہ سر پہلے اڑاتا اور پوچھتا بعد میں کہ کہاں غائب ہوگئے تھے؟

اس لیے معمار کو مہلت ملی اور اس نے جان کی امان پاؤں کا ڈائیلاگ پورے کا پورا ادا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور پھر عرض کیا کہ تعمیراتی نکتہ نظر سے بنیادوں کو پکا کرنے کے لیے ایک سال کی مدت درکار ہوتی ہے اور آپ نے فوری طور پر ایک سال میں مسجد تیار کرنے کا حکم دیاتھا اس لیے غائب ہونے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اب بنیادیں استوار ہوگئی ہوں گی اور مسجد کی تعمیر کے لیے مناسب۔ہم نے یہ مسجد دیکھی ہے بلکہ کئی روز اس میں دھوپ سینکی ہے واقعی شاہکار ہے۔

اب اگر تعمیر کا اصول وہی ہے تو بنیادیں جو ڈال دی گئی ہیں اور وہ چونکہ کسی ایک عمارت کی نہیں پورے ملک کی بنیادیں ہیں جو ڈال دی گئی ہیں اس لیے کم ازکم پانچ عمارتوں کی مدت…یعنی ’’بنیادیں ڈال دی گئی ہیں‘‘ کے بعد کم ازکم پانچ سال تو ضرور درکار ہوں گے’’بنیادیں ڈال دی گئی ہیں‘‘کے بعد

ہم نے اک اینٹ پہ تعمیر کیا تاج محل

تم نے اک بات کی اور لاکھ فسانے نکلے

تعمیرات کے کام کے بارے میں ہماری معلومات زیادہ نہیں ہیں صرف یہی ایک تاریخی واقعہ سنا تھا جو عرض کیا۔باقی بنیادیں جانیں اور بنیادیں ڈالنے والے۔لیکن ایک واقعہ اور یاد آرہاہے،وہ بھی اگرچہ تاریخی ہے اور اسی شاہ جہان کے ماسٹرپیس تاج محل سے تعلق رکھتاہے۔

لیکن تھوڑا سا اختلافی ہے۔تاج محل کی تعمیر کے وقت پورے ملک میں شدید قحط سالی ہوگئی تھی شکر ہے ہمارے’’تاج محل‘‘کی ’’بنیادیں‘‘ڈال دی گئی ہیں‘‘ کے موقع پر قحط سالی نہیں ہے لیکن دوسری سالی یعنی مہنگائی کو بھیج چکی ہے۔جب ہم نے تاج محل کی سیر کی تو بس میں واپسی پر اندور کے ایک بزرگ شاعر سے ملاقات رہی۔بزرگ نے ساحرلدھیانوی کو آڑے ہاتھوں اور سیدھے پاؤں لیتے ہوئے فرمایا کہ اس سرخے نے تاج محل اور شاہ جہان اور مسلمانوں کی سخت توہین کی ہے یہ کہہ کر کہ

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

ساحرلدھیانوی کی اچھی طرح کلاس لینے اور اس کے اس جرم کی اچھی طرح مذمت کرتے ہوئے کہا لیکن اپنے شکیل بدایونی نے کیا دندان شکن جواب دیاہے کہ

اک شہنشاہ نے بنواکے حسین تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

پھرشاہ جہان کا دامن ہمارے نیب ٹائپ کے واشنگ پاؤڈر سے دھوتے ہوئے فرمایا کہ دراصل اس وقت قحط سالی تھی اس لیے شاہ جہان نے لوگوں کو روزگار اور روزی روٹی فراہم کرنے کے لیے تاج محل اور دیگر تعمیرات کی’’بنیادیں‘‘ڈال دی تھیں۔

ہم سمجھ گئے کہ بزرگ موصوف اندور کے ہوتے ہوئے بھی اندور کے پکے مسلمان اور پاکستانی مورخ تھے جو جھوٹ کو سچ سے بھی زیادہ قوت سے بول رہے تھے لیکن ہم بھی مجبور تھے کہ انھوں نے ہمیں آگرہ کے’’پپیتے‘‘اور متھرا کے پیڑے جی بھر کرکھلائے تھے۔

جس نے ہمارے ہونٹوں پر ’’زپ‘‘ لگایا ہوا تھا۔کیونکہ قحط سالی تاج محل تعمیر ہونے کے بعد آئی تھی اور اس کی وجہ تاج محل کی تعمیر ہی تھی کیونکہ یہ بڑا وسیع اور لمبا پراجیکٹ تھا بہت دور دور سے سنگ مرمر کے پتھر لانا تراشنا وغیرہ جو مشکل کام بھی تھا محنت طلب بھی اور افراد طلب بھی چنانچہ شاہ جہان نے بہت ہی پرکشش اجرتوں کے لیے ان خزانوں کے منہ کھول دیے تھے جو اس کے اجداد سمرقند بخارا سے ’’اپنے ساتھ‘‘ لائے تھے یا بہار ہندوستان میں ’’محنت مشقت‘‘کرکے جمع کرچکے تھے چنانچہ ٹھیک آج کی طرح پرکشش مزدوری نے’’افراد‘‘کو کھینچ لیا جس کی وجہ سے کھیت کلیان اجڑگئے اور نتیجہ قحط سالی کی صورت میں نکلا۔

اور یہی خطرہ ہمیں اب بھی دکھائی دے رہاہے جس رفتار سے ’’تعمیرات‘‘زمین اور زمین داروں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں زمینوں کی قیمت،شاہی دولتوں،مڈل مین کے استحصال اور حکومت کی مہربانیوں سے اچھی خاصی مل رہی ہے تو پھر کسان کو زراعت چھوڑنے کے علاوہ اور کونسا راستہ دکھائی دے گا۔ بہرحال کل ملاکر بات یہ بنی کہ ’’بنیادیں ڈال دی ہیں‘‘ لیکن کس چیز کی یا کس عمارت کی؟لگتا تو ایسا ہی ہے کہ شاید ’’قحط سالی‘‘کی۔جس کی پہلی والی ’’سالی‘‘عرف مہنگائی نے آکر روپے اور کسان کی قیمت دو ٹکے کی، کی ہوئی ہے کیونکہ بنیادیں جو ڈال دی ہیں

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

’’ہیولیٰ‘‘برق خرمن کا ہے خون گرم’’دہقان‘‘کا

The post تعمیر میں مضمر خرابی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2L37Ur9
via IFTTT

ہم سے عید پر بھی کوئی گلے نہیں ملتا ایکسپریس اردو

چہرہ رعونت سے اور لہجہ اس خاص قسم کے گھمنڈ سے عاری تھا جو ہمارے وطن میں پولیس والوں کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔ ابھی ابھی ایک اے ایس آئی میرے سامنے سے اٹھ کر گیا ہے۔ آدھے گھنٹے اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو نے اگر ایک طرف اس ملک کے استحصالی نظام کا گھناؤنا اور پوشیدہ چہرہ بے نقاب کیا تو دوسری طرف ایک عام پولیس اہل کارکے لیے دل میں موجود وہ مکروہ جذبات بھی کم کرنے پر اکسایا، جو بدقسمتی سے تقریباً ہر پاکستانی شہری کے دل میں پولیس والوں کے لیے لازمی طور پر موجود ہیں۔

’’ ایسا وقت آنے کی بھی کوئی امید ہے کہ پولیس کے محکمے سے ہم انصاف کی توقع کر سکیں، رشوت کا گرم بازار یہاں ٹھنڈا ہو جائے اور عام شہری پولیس والوں کو دیکھ کر راستہ نہ بدلیں؟‘‘ گفتگو محض آگے بڑھانے کے لیے یہ سوال میں نے روا روی میں کر تو دیا لیکن اس ایک سوال کے جواب میں ایسے ایسے راز مجھ پر منکشف ہوئے ان کو خود سے کئی بار اکیلے میں دہرا کر بھی یقین کی سرحد پوری طرح طے نہ کر سکی۔ لیکن میرے یقین کرنے نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ ہوتا تو وہی ہے جو اس ملک کا مقتدر طبقہ چاہتا ہے۔

آئیے میں آپ کو بھی اس راز میں شامل کرتی ہوں لیکن شرط یہی ہے کہ آپ ایک عام پولیس اہلکارکو دیکھ کر راستہ نہیں بدلیں گے اور اپنے دل میں ان کے لیے دبی نفرت کی آگ بھی کچھ کم کریں گے، کیونکہ ان اہلکاروں کے عیب ذاتی کمزوریوں سے زیادہ اس کرپٹ اور استحصالی نظام کی دین ہیں جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس ملک کی بنیادوں میں مہاجرین کے لہو کی طرح اتار دیا گیا۔

اس پولیس اہلکار کے مطابق ادارے میں رشوت خوری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت ہر تھانے میں موجود کم و بیش چار سے پانچ پولیس موبائلوں کے لیے روزانہ پچیس لیٹر پیٹرول فی موبائل کا بجٹ مختص کرتی ہے لیکن افسوس تھانے تک آتے آتے یہ رقم محض اتنی سی بچتی ہے کہ اس سے صرف سات لیٹر پٹرول فی پولیس موبائل کو فراہم کیا جا سکتا ہے۔

باقی رقم کی راستے میں ہی بندر بانٹ کر لی جاتی ہے۔ سارا دن گشت کرنے کے لیے ایک موبائل میں سات لیٹر پٹرول اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ بھلا کیا ہوتا ہے؟ یوں باقی کمی کو پورا کرنے کے لیے کبھی بنا ہیلمٹ سفر کر نے والے موٹر سائیکل سواروں کی شامت بلائی جاتی ہے، تو کبھی خوامخواہ گاڑیوں کو روک کر نذرانہ وصول کیا جاتا ہے اور کبھی پیدل چلنے والوں کو کسی بھی بہانے روک کر رقم وصولی جاتی ہے۔ غرض وہ پیسے جو ہماری نظر میں رشوت کے نام پر پولیس اہل کاروں کی اپنی جیب میں جاتے ہیں، ان کا زیادہ تر حصہ، دراصل اعلٰیٰ سطح پرکرپشن کی مَد میں کھائی گئی رقم کو پورا کرنے میں صرف ہو جاتا ہے اور اس جبری وصولی کے لیے ہر پولیس اہل کار کو ڈِس مِس کرنے یا ٹرانسفرکی دھمکیاں دے کر اطاعت پر مجبورکیا جاتا ہے۔

دوسرا انکشاف جو میرے لیے کسی جھٹکے سے کم نہ تھا وہ یہ کہ ’’ انصاف کے ادارے ‘‘ کی طرف سے ہر تھانے پر ایف آئی آرکی تفویض کردہ مقررہ تعداد پورا کرنے کے لیے بے حد دباؤ ڈالا جاتا ہے، لیکن افسوس یہ ایف آئی آر علاقے میں موجود جرائم پیشہ افراد کے قلع قمع میں کوئی کردار ادا نہیں کرتیں کیوں کہ جرم اور مجرموں کے سرپرست اکثر اس قدر بااثر ہوتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کا رسک کوئی تھانہ لینے کو تیار نہیں ہوتا۔

اس صورت میں ایف آئی آر کس پر کاٹی جائے کہ اعلیٰ حکام کے سامنے سرخرو ہوا جا سکے اور ڈس مس کیے جانے یا تبادلے کی لٹکتی تلوار کے خوف سے بھی باہر آیا جا سکے؟ اب اس کا واحد مناسب ترین حل یہی بچتا ہے کہ چھوٹے موٹے چور اُچکوں یا بے گناہ افراد کو کسی بھی شبہ میں دھرکر جھوٹے کیس بنائے جائیں اور جھٹ ان کی ایف آئی آر کاٹ دی جائے۔ یوں عام شہری نظامِ انصاف کی بے انصافیوں کی بھینٹ بہ آسانی چڑھا دیے جاتے ہیں۔

کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے پولیس اہل کار بے گناہ مجرم کے پاس سے جو ’’ برآمدگیاں‘‘ کرتے ہیں وہ نظامِ انصاف کے ہی ادارے کی طرف سے تھانوں کو فروخت کی جاتی ہیں، اور ان کی قیمت ہزاروں میں ہوتی ہے۔ اب یہ بات تو طے ہے کہ ان برآمدگیوں کو خریدنے کے لیے نہ تو حکومت کوئی بجٹ دیتی ہے اور نہ یہ رقم پولیس اہل کار اپنی قلیل تنخواہوں میں سے ادا کرتے ہیں، اس کے لیے رشوت کی وہی رقوم استعمال میں لائی جاتی ہیں جن کی ادائیگی کرتے کرتے عام شہری اب تھک کر نڈھال ہو چکے ہیں۔ میں یہ سُن کر حیران تھی کہ انصاف فراہم کرنے والے ادارے میں نچلی سطح پر کس طرح ظلم کیا جا رہا ہے۔

اس پوری گفتگو میں ایک بات جو میں نے محسوس کی وہ تھی بیزاری، جو دورانِ گفتگو اے ایس آئی کے لہجے میں بھی اس نظام کی طرف سے عیاں تھی۔ اس کے بقول نچلی سطح کے پولیس اہل کاروں کی اکثریت اس نظام کی طرف سے بھی بے چینی محسوس کر رہی ہے، لیکن وہ اپنی روزی روٹی کی وجہ سے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

اس بے چینی اور بیزاری کی سب سے بڑی وجہ وہ بے عزتی ہے جو پولیس والے آئے دن عوام کی طرف سے سہتے ہیں۔ اس نے بڑے دکھ سے بتایا کہ عید کے دن بھی شہریوں کی حفاظت پر عیدگاہوں کے باہر مامور پولیس اہل کاروں کو کوئی شہری سلام کرتا نہ دعا دیتا اور نہ بڑھ کر گلے لگ کر عید مبارک کہتا ہے، جب کہ وہ اپنی خوشیاں چھوڑ کر انھی کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔

لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں عوام کا کوئی قصور نہیں، جو سامنے ہوتا ہے وہی دکھتا ہے اور عوام کے سامنے بس یہی ہے کہ پولیس والوں نے ہر سڑک اور چوراہوں پر، تھانے، جیل اور عدالتوں میں لوٹ مارکا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اسی لیے عوام اس محکمے کی تباہی میں ایک عام پولیس اہل کار کو بھی برابرکا مجرم سمجھتے ہیں۔

اگر حکومت پولیس والوں کی تنخواہیں مناسب حد تک بڑھائے، ان کی بنیادی ضروریات کی ادائیگی اپنے ذمے لے لے اور ساتھ ساتھ ہر تھانے کے لیے مختص رقم کا شفاف طریقے سے استعمال یقینی بنائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ یہ اہلکار اپنا فرض عبادت سمجھ کر ادا کرنے لگیں، کیوں کہ ایک عام انسان کی طرح یہ بھی عزت کے طلبگار اور حقدار ہیں۔ ان کے اندر بھی یہ خواہش پنپتی ہے کہ سارا سال نہیں تو کم ازکم عیدکے دن توکوئی ان کو بھی کوئی گلے لگائے اور عید مبارک کہہ دے۔

The post ہم سے عید پر بھی کوئی گلے نہیں ملتا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZwbJcn
via IFTTT

کراچی سے ناانصافیاں ایکسپریس اردو

قطع نظر اس کے کہ میرے الفاظ کا چناؤ کس طرز کا ہو میرے نزدیک سب سے اہم یہ ہے کہ بات جو بھی ہو اپنے پہلو میں کوئی سچائی رکھتی ہو، لہٰذا اس کا سہل ہونا اور قاری تک پہنچانا میں اپنا فرض سمجھتی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کہ حق حقدار تک اور سچ عوام تک پہنچایا جائے۔

اس وقت میرا موضوع شہر کراچی اور اس کے لامتناہی مسائل ہیں جن کا حل ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور اپنی غلطیاں دوسروں کی جھولیوں میں ڈال دینے سے ممکن نہیں، میری سوچ یہ ہے کہ تمام پارٹیوں میں سب سے مظلوم پارٹی عوام ہے جیسے کہ کراچی کے عوام انصاف کے ساتھ ساتھ سماجی، سیاسی اور معاشرتی ضرورت کے متلاشی ہیں ان کی اس بے چینی کے اسباب تلاش کرنے کے لیے اس شہر کے ماضی اور حال پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ ناانصافیوں کا سدباب کس طرح کیا جاسکے۔

کراچی کی موجودہ آبادی تین حصوں میں نظر آتی ہے ایک وہ جو تقسیم برصغیر کے وقت پہلے سے یہاں آباد تھی جن میں بلوچ کیونکہ ماضی بعید میں کراچی بلوچستان کا حصہ تھا اور یوں مکران کی ساحلی پٹی سے لے کر کراچی کی بندرگاہ اور اس کے اردگرد ان کی آبادی جو بیشتر ماہی گیروں پر مشتمل تھی اور آج بھی ان کی نسلیں کم و بیش انھی علاقوں میں آباد ہیں۔

اس کے ساتھ ہی تعلیم اور تہذیب و تمدن سے آراستہ پارسی کمیونٹی جن کے نام سے شہر کے وسط میں پارسی کالونی قائم ہے۔ گوکہ ان کی ایک بڑی تعداد اب ہجرت کر چکی ہے اور ساتھ ہی اینگلو انڈین کرسچن آبادی جو کراچی سے لے کر بمبئی اور گوا تک آباد ہے اس کے علاوہ سندھی زبان بولنے والے بھی یہاں رہائش پذیر تھے۔

سندھ سے ملحق ہونے کے سبب کاروباری سندھیوں کی تعداد حیدرآباد اور کراچی میں تھی جن میں بیشتر ہندو تھے جب کہ زراعت سے وابستگی رکھنے والے بڑے بڑے ہندو زمیندار جو اندرون سندھ میں معاشی طور پر اچھی حیثیت کے حامل تھے۔

ان کی اپنی ذاتی جائیدادیں تھیں جو بعدازاں نہرو لیاقت معاہدے میں متروکہ سندھ قرار دی گئی تھیں لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے انصاف کا تقاضا پورا کرنے کے لیے 2015ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی لاہور رجسٹری میں ایک فیصلہ صادر فرمایا جس کی رو سے ہندوؤں کی چھوڑ کے جانے والی تمام جائیدادیں ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کی ملکیت قرار دی گئی ہیں کیونکہ تقسیم برصغیر کے وقت یہ ایک بہت بڑی متبادل ہجرت تھی۔

جس میں ہندو برادری ہندوستان چلی گئی تھی اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی قیمتی املاک چھوڑ کر ہجرت کے عمل میں جانی و مالی قربانیاں دیتی ہوئی یہاں آ کر آباد ہوئی جو راجستھان سے خشکی کے راستے آئے انھوں نے اپنے پڑاؤ اندرون سندھ میں ڈالے اور ساتھ کراچی تک بھی پہنچے جو بحری سفر کے ذریعے آئے۔

جن میں یوپی اور جنوبی ہندوستان سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد ان کاروباری لوگوں کی بھی تھی جو اپنے مال و متاع کے ساتھ یہاں آکر آباد ہوئے جن میں بمبئی، گجرات، احمد آباد سے آنے والے اور میمن و بوہری کمیونٹی کے علاوہ اسماعیلی اور اثناعشری بھی شامل تھے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق بھی اسی کمیونٹی سے تھا۔ جس نے نوزائیدہ مملکت کے کاروبار معیشت کو سنبھالا اور وہ تمام سروسز سر انجام دیں جو پہلے ہندو کمیونٹی کے پاس ہوتی تھیں۔

اب میں آتی ہوں اس تیسرے قسم کی آبادی کی جانب جو تقسیم برصغیر کے وقت پاکستان کے مختلف حصوں میں آباد تھی لیکن ذرایع آمدنی انتہائی محدود یا نہ ہونے کے برابر تھے اس کی بڑی وجہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی خاتون خانہ کی وہ دخل اندازیاں تھیں جن کے سبب پسماندہ علاقے تو پاکستان کے حصے میں آئے اور وہ ترقی پذیر علاقے جو تحریری طور پر پاکستان کے تھے وہ ہندوستان کو ودیعت کر دیے گئے جن میں حیدرآباد دکن، جوناگڑھ، رن کچھ شامل تھے جب کہ کشمیر کا فیصلہ وہاں کی عوام کی رائے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا جو آج تک حل نہ ہوا اور ہندوستان نے بدعہدی کرتے ہوئے ان کی آزادی رائے پر نقب لگانے کی کوشش کی ہے۔

ہجرت کرکے آنے والوں نے جب کراچی میں کاروباری معاملات کی بنیاد ڈالی تو پورے پاکستان سے بیروزگار لوگ روزی کی تلاش میں کراچی کا رخ کرنے لگے جو ان کی ضرورت تھی ان میں بھی تین طرح کے لوگ تھے ایک وہ جو روزگار کے حصول کے لیے آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ دوسرے وہ جنھوں نے اپنی وقتی روزی کے لیے اس جگہ کو سرائے کے طور پر سمجھا اور اپنے کچے ٹھکانے بناتے رہے۔

جس کی وجہ سے کچی آبادیاں وجود میں آئیں جو اب اتنی بڑھ چکی ہیں کہ شہر کے وسائل اور مسائل گڈمڈ ہوکے شہر کو غیر متوازن کر چکے ہیں اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے چھوٹے سے لے کر بڑے ذاتی عناد کے معاملات یا لوٹ کھسوٹ نے اس شہر پر قتل و غارت گری کا نام چسپاں کر دیا ہے اور یوں بڑھتی ہوئی وارداتوں نے باہر سے آنے والے سرمائے کے قدم روک دیے ہیں۔

وطن عزیز میں ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آچکا ہے جس نے کراچی کو محض ایک ایسا پلیٹ فارم بنا دیا جس میں قبائلی جھگڑوں کا بوجھ اور اس کا شکار ہونے والوں کی شکار گاہیں اور خاندانی دشمنیاں، شادی اور طلاق کے جھگڑے جس میں پسند کی شادی کر کے اپنے تحفظ کے لیے اس شہر کا رخ کرنا اور ان کے پیچھے ان کی جانوں کو تلف کرنے والوں کے ریوڑ۔ ان کے علاوہ اپنے آبائی گاؤں اور علاقوں سے نکل کر ڈکیتیاں ڈالنا اور چھینا جھپٹیوں کے دوران معصوم شہریوں کا قتل عام روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں ان سے چھٹکارے میں پولیس اور دیگر ادارے بھی ناکام نظر آتے ہیں۔

اس پر المیہ یہ کہ پانی نہیں، بجلی نہیں، ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں گلیوں اور گلیوں اور راستوں میں بلا تخصیص غریبوں کے گلی کوچے ہوں یا اشرافیہ کی بستیاں حتیٰ کہ بڑی شاہراہیں بھی جہاں بغیر ڈھکن گٹر ابلتے نظر آتے ہیں۔ بگڑے ہوئے نظام کا شاخسانہ اور وہ ناانصافیاں ہیں جو کبھی مردم شماری کے غلط اعداد و شمار تو کبھی حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے ذریعے کاغذوں میں آبادی کم اور اصل میں زیادہ۔ بات یہیں آ کر نہیں ٹھہرتی مسائل اس لیے جنم لیتے ہیں کہ رسد کے نظام کو تباہ کیا گیا ہے۔

کراچی کے ڈومیسائل بنا کر غیر مقامی لوگوں کو بھرتیاں کی گئیں بلکہ کراچی اور اس کے عوام سے وابستگی ختم کرنے کے لیے اداروں کے نام تک تبدیل کر دیے گئے ہیں جب کہ کراچی کے عوام اپنے اس حق سے بھی محروم کیے جانے لگے مقامی لوگ نہ ہونے کے سبب ان اداروں کی کارکردگی تنزلی کی طرف گئی جس کے نتائج اس وقت شہر میں سب دیکھ رہے ہیں۔

ماضی کی کئی حکومتیں اور پارلیمنٹ جو اپنا آئینی دورانیہ مکمل نہیں کر سکیں ان کے خاتمے کی بنیادی وجہ وہ ناانصافیاں تھیں جنھوں نے کراچی کے حالات کو مزید ناگفتہ کر دیا تھا جس میں کراچی کی کروڑوں کی آبادی کو نہ صرف ناراض کیا گیا بلکہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کرنے والوں کی حمایت بھی کی گئی جس میں خصوصی طور پر وہ ماورائے عدالت قتل جن کا ذکر میں اوپر کر چکی ہوں شامل تھے۔

کراچی کے مستقل اور باشعور عوام اگرچہ کوئی ظاہری مخالفانہ تحریک کا وجود تو فی الحال نہیں رکھتے لیکن اس امر کا گہرا ادراک ضرور رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا سیاسی سماجی اور معاشی بدسلوکی کا عمل انتہائی نامناسب ہے یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری سمجھتی ہوں کہ یہ وہی شہر ہے جو ماضی میں بڑھتی ہوئی ناانصافیوں پر اپنی حکمت عملی کے ذریعے کئی حکمرانوں کے تختے الٹتا رہا ہے۔ ایک آئینی ترمیم بھی مسائل کا سبب بن چکی ہے جس کے غلط استعمال کو عوام بہت اچھی طرح جان چکے ہیں اس سے پہلے کہ وہ بپھر جائیں سب کو اپنی اپنی سمتیں درست کر کے ہی مسائل کا حل نکالنا ہو گا۔

The post کراچی سے ناانصافیاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2L4saJ8
via IFTTT