Monday, November 30, 2020

مایا علی اپنی ہی اداکاری دیکھ کر رو پڑیں ایکسپریس اردو

کراچی: اداکارہ مایا علی کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں وہ اپنی ہی اداکاری دیکھ کر رو رہی ہیں۔

مایا علی کا شمار پاکستان شوبز کی صف اول کی اداکاراؤں میں ہوتا ہے انہوں نے کئی ہٹ ڈراموں کے ساتھ دو سپر ہٹ فلموں ’’طیفا ان ٹربل‘‘ اور ’’پرے ہٹ لو‘‘میں بھی کام کیا ہے۔ وقت کے ساتھ نہ صرف مایا علی کی اداکاری میں بہتری آئی ہے بلکہ انہوں نے خود کو فٹ اور خوبصورت رکھنے کے لیے بھی بہت محنت کی ہے اور وزن میں کمی کی ہے۔

مایا علی کافی عرصے سے  چھوٹی اسکرین سے دور تھیں جب کہ فلم ’’پرے ہٹ لو‘‘ کے بعد وہ کسی اور فلم میں بھی نظر نہیں آئیں۔ تاہم اب وہ ڈراما سیریل ’’پہلی سی محبت‘‘ کے ذریعے ٹی وی پر دوبارہ واپسی کررہی ہیں۔

اسی ڈرامے کا ایک سین موبائل فون پر دیکھتے ہوئے مایا علی اتنی زیادہ جذباتی ہوگئیں کہ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ موبائل کی اسکرین پر واضح طور پر دیکھاجاسکتا ہے کہ اس سین میں مایا علی اداکار شہریار منور کے ساتھ اداکاری کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

واضح رہے کہ ڈراما سیریل ’’پہلی سی محبت‘‘ میں شہریار منور مایا علی کے مقابل مرکزی کردار ادا کررہے ہیں اور انہوں نے بھی اس ڈرامے کے ذریعے چھوٹی اسکرین پر کافی عرصے بعد واپسی کی ہے۔

The post مایا علی اپنی ہی اداکاری دیکھ کر رو پڑیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3qdJ3U1
via IFTTT

چند نادان دوستوں نے وزیراعظم عمران خان کو شرمندہ کروادیا ہے ... حکومت کی ضد تھی کہ ہم جلسہ نہیں ہونے دیں گے لیکن جلسہ تو ہو گیا ۔ صحافی عارف حمید بھٹی

کورونا دوسری لہر میں بے قابو ، گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 67 اموات ... ملک بھر میں کورونا کے 2458 نئے کیسز رپورٹ ہو گئے

متحدہ عرب امارات نے آئی ڈی کارڈ اور پاسپورٹ کا ڈیزائن بدلنے کا اعلان کر دیا ... تمام افراد کو مرحلہ وار نئے آئی ڈی کارڈ جاری ہوں گے، فیصلے کا مقصد اضافی سیکیورٹی فیچرز شامل ... مزید

دُبئی میں رہنے والے لاکھوں مسلمانوں کو بڑی خوش خبری مل گئی ... دُبئی حکومت نے 4دسمبر سے سینکڑوں مساجد نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے کھولنے کا اعلان کر دیا

محسن فخری زادہ کا قتل جدید روبوٹک مشین گن سے کیا گیا ... ریموٹ کنٹرول گن سے نیوکلیئر سائنسدان پر تین گولیاں چلائی گئی

ڈیڈ اینڈ ایکسپریس اردو

ارنسٹ ہیمنگ وے نوبل انعام یافتہ ادیب تھا اور یہ دہائیوں سے انسانی فکر کو متاثر کررہا ہے‘ ہم میں سے کم لوگ جانتے ہیں ہیمنگ وے نے اپنا کیریئر صحافی کی حیثیت سے شروع کیا تھا‘ یہ وار رپورٹر تھا‘ محاذ جنگ سے ڈائری لکھتا تھا اور لاکھوں لوگ اس کی تحریروں کا انتظار کرتے تھے‘ اس کا معرکۃ الآراء ناول ’’اے فیئر ویل ٹو آرمز‘‘ بھی پہلی جنگ عظیم کے واقعات پر مشتمل تھا‘ یہ تمام واقعات اس کے ساتھ پیش آئے تھے۔

اس کی زندگی کا بڑا حصہ پیرس میں گزرا تھا‘ یہ روز شام کو اپنے وقت کے عظیم صحافیوں اور فرنچ فلاسفرز کے ساتھ ’’کیفے ڈی فلور‘‘ میں بیٹھتا تھا‘ کیفے میں آج بھی اس کی کرسی موجود ہے اور لوگ اس کرسی پر بیٹھ کرتصویریں بنواتے ہیں‘ صحافی کی حیثیت سے اس کا کیریئر بہت شان دار تھا‘ یہ اگر اس پیشے کو جاری رکھتا تو یہ دنیا کا سب سے بڑا صحافی ہوتا لیکن پھر اس نے اچانک صحافت کو خیر باد کہا اور باقی زندگی ادب کے لیے وقف کر دی اورکمال کر دیا‘ہیمنگ وے کے اس فیصلے سے بے شک ادب کو ایک لازوال لکھاری مل گیا لیکن صحافت ایک عظیم صحافی سے محروم ہو گئی۔

ہیمنگ وے نے صحافت کیوں چھوڑی تھی یہ سوال ایک دن کسی نوجوان صحافی نے اس سے پوچھا تھا اور اس نے ہنس کر جواب دیا تھا ’’صحافی جب لکھنے سے پہلے یہ سوچنے لگے لوگ کیا سوچیں گے تو پھر اسے صحافت چھوڑ دینی چاہیے اور میں نے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا‘‘۔

ارنسٹ ہیمنگ وے کی یہ بات سونے میں لکھنے کے قابل ہے‘ صحافت بے خوف لوگوں کا پیشہ ہے اور یہ پیشہ ہمیشہ بے خوف معاشروں میں پروان چڑھتا ہے‘ آپ اگر بے خوف ہیں تو آپ صحافی بن سکیں گے اور اگر معاشرہ بھی بے خوف ہے تو یہ آپ کے سچ کو قبول کرے گا ورنہ دوسری صورت میں صحافی اور معاشرہ دونوں فوت ہو جائیں گے اور بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ اور صحافی دونوں اس فیز سے گزر رہے ہیں‘ صحافیوں کو ہر بار لکھنے سے پہلے یہ سوچنا پڑتا ہے ’’لوگ کیا سوچیں گے‘‘ اور یہ احساس ملک اور صحافت دونوں کے لیے زہر قاتل ہے۔

میں ایسے بے شمار صحافی دوستوں کو جانتا ہوں جنھوں نے قتل کے خوف سے اپنے نام بدل لیے ہیں‘ یہ اب قادری‘ زیدی اور جھنگوی نہیں رہے‘ آپ خوف کا عالم ملاحظہ کیجیے‘ صحافی میاں نواز شریف کی والدہ پر بھی لکھتے ہوئے ڈر رہے ہیں‘ یہ خوف زدہ ہیں کہیں انھیں بھی اٹھا کر شریف فیملی کے کھاتے میں نہ ڈال دیا جائے‘ یہ خوف بے جا نہیں ہے‘ صحافی بے چارے صرف صحافی ہوتے ہیں‘ یہ رانا ثناء اللہ یا حنیف عباسی نہیں ہوتے کہ یہ ریاست کا بلڈوزر سہہ سکیں‘ آپ حنیف عباسی کا انجام دیکھ لیں۔

اس کے کھاتے میں وہ پراپرٹیز بھی ڈال دی گئی ہیں یہ جن کے کبھی قریب سے بھی گزرے تھے لیکن یہ شخص ابھی تک ڈٹا ہوا ہے‘ رانا ثناء اللہ بھی تگڑے ہیں‘ یہ 15 کلو گرام ہیروئن کا بوجھ بھی برداشت کر گئے مگر کیا صحافت میں بھی حنیف عباسی یا رانا ثناء اللہ جیسے لوگ موجود ہیں‘ جی نہیں‘ چناں چہ ہم صحافیوں میں سے کچھ کورونا کا شکار ہو رہے ہیں اور باقی خاموشی کے کورونا میں مبتلا ہو رہے ہیں‘ آپ اس سے معاشرے کے مستقبل کا اندازہ کر لیجیے لیکن اس خوف کے باوجود نواز شریف کی والدہ کے صبر کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔

ہم اگر شریف خاندان کو بیک وقت ملک کا خوش نصیب اور بدنصیب ترین خاندان کہیں تو غلط نہیں ہو گا‘آپ خوش نصیبی دیکھیے‘ خاندان کا آغاز ریلوے روڈ لاہور پر لوہا کوٹنے سے ہوا ‘ میاں نواز شریف کے والد میاں شریف اس خاندان کے اصل لیڈر‘ اصل ہیرو تھے‘ یہ دن کو لوہا کوٹتے تھے اور شام کے وقت پڑھائی کرتے تھے‘ سات بھائیوں میں تیسرے نمبر پر آتے تھے‘صرف یہ اسکول جاتے تھے‘ ان کی محنت اور مشقت نے استادوں کا دل نرم کر دیا‘ اسکول نے ان کی فیس بھی معاف کر دی اور انھیں ہوم ورک سے بھی مستثنیٰ کر دیا‘ میٹرک کے بعد لوہے کی ایک بھٹی پر منشی بھرتی ہو گئے۔

تین سو روپے جمع کیے‘ آج کے وفاقی وزیر حماد اظہر کے دادا میاں فضل سے پرانی بھٹی خریدی اور اپنا کام شروع کر لیا‘ اللہ نے ہاتھ پکڑ لیا اور یہ خوش حال ہوتے چلے گئے‘ ساتوں بھائیوں نے مل کر اتفاق فائونڈری بنائی اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ ایوب خان کے دور میں اتفاق گروپ ملک کا دوسرا بڑا صنعتی گروپ تھا‘ چین کے وزیراعظم چو این لائی ان کی فیکٹری دیکھنے لاہور آئے تھے لیکن پھر ان سے ایک غلطی ہو گئی‘ میاں شریف نے 1970کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف علامہ اقبال کے صاحبزادے اور سینیٹر ولید اقبال کے والد جاوید اقبال کو سپورٹ کر دیا۔

میاں شریف نے الیکشن کے دن جاوید اقبال کے ووٹروں کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کیا تھا اور انھیں قیمے کے نان بھی کھلائے تھے‘ بھٹو صاحب نے اس گستاخی کا بدلہ 1972 میں لیا‘ یہ جوں ہی مغربی پاکستان کے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے‘ انھوں نے تمام صنعتیں قومیا لیں اور یوں پورا اتفاق گروپ بحق سرکار ضبط ہو گیا‘ میاں شریف کو اللہ تعالیٰ نے حیران کن خوبیوں سے نواز رکھا تھا‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے یہ شخص پوری زندگی لیٹ نہیں ہوا‘ یہ صبح سات بجے دفتر پہنچتے تھے اور یہ انتقال تک سات بجے پہنچتے رہے۔

انھوں نے پوری زندگی اپنے جوتے خود پالش کیے‘ یہ وہیل چیئر پر جدہ میں بھی اپنے جوتے خود پالش کرتے تھے‘ پوری زندگی اپنے انڈر گارمنٹس خود دھوئے‘ یہ اپنی بیگم کو بھی انھیں ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے‘ پوری زندگی انکار نہیں کیا‘ یہ اگر کسی کا کام نہیں کرنا چاہتے تھے تو یہ خاموش رہتے تھے لیکن انکار نہیں کرتے تھے اور میاں شریف نے پوری زندگی کبھی شکست نہیں مانی‘ یہ 1972 میں اپنی ساری ملیں ضبط کرانے کے بعد بھی سوموار کے دن ٹھیک صبح سات بجے تیار ہوئے۔

میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو ساتھ لیا اور یہ اردو بازار میں اپنا برف کا بند کارخانہ کھول کر بیٹھ گئے ‘ یہ کارخانہ حکومت کی نظر سے بچ گیا تھا‘ میاں شریف نے ایک بار پھر کام شروع کیا اور ٹھیک پانچ سال بعد یہ دوبارہ چھ کارخانوں کے مالک تھے۔

بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن نے میاں شریف کو اپنے بڑے صاحب زادے نواز شریف کو سیاست میں دھکیلنے پر مجبور کر دیا اور پھر عروج وزوال کی ایک دل چسپ داستان بنی اور لکھی گئی‘ یہ خاندان سیاست میں آتا اور جاتا رہا‘ اقتدار ہر بار آتے جاتے ان کا کچھ نہ کچھ چھینتا بھی رہا اور اس سب کچھ میں میاں شریف اور ان کی اہلیہ بیگم شمیم اختر بھی شامل تھیں‘ مرحومہ ایک دین دار اور گھریلو خاتون تھیں‘ یہ پوری زندگی تنگی اور کشادگی کے درمیان پنڈولم کی طرح لٹکی رہیں‘ جوانی محنت اور مشقت میں گزر گئی‘ خوش حالی آئی تو ساری ملیں قومیا لی گئیں۔

بچے اقتدارمیں آئے تو بڑا بیٹا تین بار وزیراعظم اور چھوٹا بیٹا پنجاب کا وزیراعلیٰ بنالیکن اس کے بعد عرش سے فرش اور فرش سے عرش کا کھیل شروع ہو گیا‘ جلاوطنیاں بھی بھگتیں اور جیلیں اور مقدمے بھی ‘ماریں بھی کھائیں اور یہ سب کچھ میاں برادران کے والد اور والدہ دونوں نے دیکھا‘ والد کا انتقال 2004 میں جدہ میں ہوا‘ پاکستان صرف میت پہنچی اور میت کو بھی خاندان کی غیرموجودگی میں دفن کیاگیا‘ تدفین کے وقت پوری پارٹی سے صرف شاہد خاقان عباسی اور ان کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی موجود تھیں‘ باقی سب رانجھے بھینسوں سمیت غائب ہو چکے تھے۔

والدہ کا آخری وقت بھی تکلیف میں گزرا‘ میاں نواز شریف اور مریم نواز 2018 میں جیل میں محبوس ہو گئے‘ یہ خبر ان سے چھپا لی گئی‘ خاندان نے ان کے کمرے کا ٹیلی ویژن تک بند کر دیا‘ یہ پوچھتی تھیں تو بتایا جاتا تھا دونوں لندن میں ہیں‘ بہت جلد واپس آئیں گے‘ میاں شہباز شریف روز بڑے بھائی کی طرف سے گلے مل لیتے تھے لیکن یہ خبر زیادہ دنوں تک خفیہ نہ رہ سکی لہٰذا یہ اپنا سامان لے کر جیل پہنچ گئیں اور واپس جانے سے انکار کر دیا۔

ان کا کہنا تھا ’’میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں‘‘ پورے خاندان نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کر گھر بھجوایا‘ میاں نواز شریف نومبر 2019 میں لندن چلے گئے‘ یہ بھی لندن چلی گئیں اور لندن میں 22 نومبر کو ان کا انتقال ہو گیا‘ آدھا خاندان لندن میں تھا اور آدھا جیلیں اور مقدمے بھگت رہا تھا‘ میت ڈبے میں بند ہو کر آئی اور چھوٹا بیٹا پیرول پر رہا ہو کر تدفین کے لیے پہنچا‘ ہم اسے کیا کہیں گے؟ خوش نصیبی یا بدنصیبی‘ خوش نصیبی دیکھیں تو یہ خاندان ہندوستان کی تاریخ کے ان چند خوش نصیب ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے جس نے دولت اور اقتدار دونوں کی معراج کو چھو لیا اور اگر بدنصیبی دیکھیں تو یہ خاندان گراف کے مدوجزر کی طرح کبھی آسمان اور کبھی زمین کو چھوتا رہا‘ شریف خاندان کا یہ عروج وزوال ثابت کرتا ہے اللہ کی ذات کے سوا کسی کا عروج سدا نہیں رہتا‘ یہ صرف وہ ہے جس کی شان کو زوال نہیں‘ ہم سب مٹی ہیں اور مٹی کا مٹی میں مل جانا مقدر ہے‘ کل وہ چلے گئے‘ آج ہم جا رہے ہیں اور کل آج والے چلے جائیں گے ‘ قصہ ختم۔

ہم سب چلے جائیں گے‘ یہ حقیقت ہے لیکن اس سے بڑی افسوس ناک حقیقت بیگم شمیم اختر کے انتقال پر حکومت اور معاشرے کا ردعمل ہے‘ حکومتی ترجمانوں نے میاں نواز شریف کی والدہ کی میت کو بھی سیاسی ترجمانی کا ذریعہ بنا لیا تھا اور عوام نے تابوت کو بھی سوشل میڈیا پر گھسیٹنا شروع کر دیا تھا‘ یہ کیا ہے؟

کیا اب اس معاشرے میں موت بھی سنجیدہ نہیں رہی‘ کیاکسی کی موت کے بعد بھی ہمارے دلوں میں خوف خدا نہیں اترتا اور کیا اس المیے کے بعد مزید کسی المیے کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ لوگ اپنے مخالف کی والدہ کے انتقال کو بھی سیاست کا روزگار بنا لیتے ہیں اور انھیں شرم بھی نہیں آتی! آپ یقین کریں یہ انسانیت کا وہ ڈیڈ اینڈ ہے جس کے بعد انسان پر انسان کا گوشت حلال ہو جاتا ہے اور ہمارے معاشرے میں اب صرف یہ کمی باقی ہے‘ ہم کسی دن یہ کمی بھی پوری کر دیں گے‘ ہم ایک دوسرے کا گوشت بھی کھانا شروع کر دیں گے۔

The post ڈیڈ اینڈ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JtcAZd
via IFTTT

بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز نہ آویں گے ایکسپریس اردو

دنیا میرا ڈونا سے پہلے بھی رواں تھی۔اس کے بغیر بھی رواں ہے اور رہے گی۔میراڈونا سے پہلے بھی فٹ بال کے بہت ستارے ابھرے، اس کے ہوتے ہوئے بھی عالمی معیار کے کھلاڑیوں کی کمی نہیں تھی ، آیندہ بھی نہیں ہوگی۔

کروڑوں لوگ میراڈونا کے لیے جتنے افسردہ ہیں میں اتنا ہی پرامید ہوں۔جب تک محرومی، غربت، ذلت اور ارادے جیسی نعمتیں موجود ہیں تب تک یہ دنیا عظیم کرداروں سے خالی نہیں ہو سکتی۔

پچھلے سات ہزار برس کے تمام اولیا، اہلِ سخاوت، انقلابیوں، باغیوں ، شعلہ بیانوں ، نثرنگاروں، شاعروں، فلسفیوں ، مورخوں ، وقایع نگاروں ، اساتذہ ، سورماؤں، محققین ، سائنسدانوں ، موجدوں، تاجروں، ارب پتی صنعت کاروں، بینکاروں، کھلاڑیوں ، مہم جوؤں ، جہاز رانوں، سیاحوں ، تعمیراتی ماہرین ، موسیقاروں ، اداکاروں سمیت کسی بھی شعبے کی فہرست اٹھا لیں۔ننانوے فیصد   نے غربت میں آنکھ کھولی ، محرومیوں کی گھٹی پی، ذلتوں  کا وزن اٹھایا اور ارادوں پر سواری کرتے ہوئے عظمت کی سیڑھیوں پر درجہ وار جا کر بیٹھ گئے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں ایسے لوگوں کے احسانات نظرانداز کروں کہ جنھوں نے متمول ماحول میں آنکھ کھولی ، سونے کا نوالہ دیکھا ، آسودگی کے پروں تلے پرورش پا کر اعلیٰ مقام تک پہنچے اور دنیا کو اور بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا اور اپنے ارد گرد سے نکل کے باقی انسانوں کے لیے بھی سوچا۔اس کی سب سے درخشاں مثال گوتم بودھ ہے۔

مگر آسودگی کی گود میں پرورش پانے والے عظیم دنیا بدل لوگوں کی تعداد غربت اور محرومی سے نکلنے والے عظام کے مقابلے میں بہت کم ہے۔اس کی بنیادی وجہ شائد یہ ہو کہ اہلِ ثروت اگر آگے بڑھنے میں ناکام بھی رہیں تو انھیں سنبھالنے کے لیے کئی مددگار ہاتھ اور چند مضبوط کندھے میسر رہتے ہیں۔اگر نا بھی ہوں تو وہ اپنی ناکامی وضع داری کے پلو میں چھپا لیتے ہیں۔

مگر کچی بستیوں کے گلیاروں پلنے والا یا بند گھٹن زدہ سماجی و معاشی ناہمواری کی فضا میں سانس لینے والا  کوئی بچہ یا بچی اونچائیاں چھونے کے خواب دیکھتا ہے تو ابتدا میں اس کا ہاتھ پکڑنے والا وہ خود ہی ہوتا ہے۔ اسے گھر میں اور گھر کے باہر تمسخر و طعنہ زنی کا راتب ملتا ہے۔اسے سنکی سمجھا جاتا ہے۔اس پر ترس کھایا جاتا ہے۔اس کے بارے میں پیش گوئیوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں کہ یہ گھر کو تو خیر کیا سنبھالے گا خود کو ہی سنبھال لے تو بڑی بات ہے۔

اسے ہر آن زندگی کا رندہ چھیلتا رہتا ہے۔اس کے اردگرد ناکامیوں، ناامیدوں، گریہ بازوں اور کم نظروں کی ایک فوجِ ظفر موج ہمہ وقت رہتی ہے۔وہ تنہائی گزیدہ اپنے ارادے، منصوبے، خدشات  اور امیدوں کا رازداں ایک آدھ کو ہی بنا سکتا ہے۔ وہ ایک آدھ جو اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے سرگوشی کرتا رہتا ہے ’’ ہارنا نہیں ایک نہ ایک دن تیرا بھی آئے گا بس تو لگا رہ ‘‘۔

میں ایک بار اسکردو سے خپلو جانے والے تنگ اور خطرناک راستے پر سفر کر رہا تھا۔اچانک ایک موڑ پر ایک بورڈ نظر آیا ’’ یہاں غلطی کا موقع صرف آخری بار ملتا ہے ‘‘۔سوچیے اپنی مدد آپ پر مجبور جو بچے یا بچیاں عظیم خوابوں پر سوار ہو کر اندھے مستقبل میں چھلانگ مارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ان کے ذہن پر کیساکیسا بوجھ ہوتا ہوگا۔کیسے کیسے خدشاتی اژدھے ان کو لپیٹے رہتے ہوں گے۔خبردار ذرا سی لغزش اور پلٹنے کا ایک بھی موقع نہیں۔

شکستگی نے یہ دی گواہی بجا ہے اپنی یہ کج کلاہی

سنو کہ اپنا کوئی نہیں ہے ہم اپنے سائے میں پل رہے ہیں

( احمد نوید )

اور جب وہ اندھے مستقبل میں چھلانگ مار کر گمنامی و صدمے کی کھائی میں گرنے کے بجائے خود کو سنہرے مستقبل کی گود میں پاتے ہیں تو سب سے پہلے ان کی زندگی کے تمام ولن و حاسد و ریاکار ان کی جانب یہ کہہ کر دوڑ پڑتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے تو ایک نہ ایک دن یہ کمال کر دکھائے گا، دراصل ہمارا یہ بچہ شروع سے ہی باقی بچوں سے الگ تھا، ہماری گودوں میں کھیلا ہے نا۔ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا وغیرہ وغیرہ۔

جولیس سیزر سے ہوچی منہہ تک، ایڈیسن، ہنری فورڈ ، عبدالسلام سے بل گیٹس تک ، دلیپ کمار سے شاہ رخ خان تک ، نور جہاں سے ریشماں تک، کالی داس سے منٹو تک ، موزارٹ سے اے آر رحمان تک، وان گاف سے شاہد رسام تک ، جانی واکر سے معین اختر تک، میر صاحب سے سبطِ علی صبا تک، ڈاکٹر قدیر سے اے پی جے عبدالکلام تک ، محمد علی سے پیلے اور میرا ڈونا تک اگر میں ہر شعبے میں نام لیتا چلا جاؤں تو کئی جلدیں درکار ہیں۔

مگر میں نوحہ گر ہوں ان لاکھوں بچوں کے لیے جن میں بے شمار بڑے لوگوں کے ہم پلہ ہونے کے تمام اجزائے ترکیبی موجود تھے ، ہیں اور رہیں گے لیکن وہ اور ان کے خواب برابری کے مواقع نہ ملنے اور ہوش سنبھالتے ہی حوصلہ کچل دیے جانے کے سبب تاریک راہوں پر دھکیل دیے گئے اور دھکیلے جاتے رہیں گے۔

اور میں سلام کرتا ہوں ان بچوں کے والدین اور بھائیوں بہنوں کو جنھوں نے اپنا مستقبل سنوارنے کے بجائے اپنے کسی ایک بچے اور بچی کی اصل صلاحیتیں پہچان کر تمام پونجی اور توانائی اس بچے پر لگا دی اور اس کے شاندار مستقبل کی بنیاد کا پتھر بن گئے اور بچے نے بھی اپنے محسنوں کا سر فخر سے بلند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

یہی زندگی ہے۔ نہ نظام بدلے گا نہ بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز آویں گے۔اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز نہ آویں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3lpVwAu
via IFTTT

طہران ہوگر عالم مشرق کا جنیوا ایکسپریس اردو

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، ایسا نہیں ہے ’’رحم دل نہیں ہوتا‘‘ پوری دنیا کو ایک نظر نہ آنے والے جراثیم نے گھیر رکھا ہے۔ ’’کورونا‘‘ اب تک لاکھوں انسانوں کو متاثر کر چکا ہے اور مرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اندازاً دو لاکھ انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں کورونا کی ہولناکیاں ہنوز جاری ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان گنتی کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کورونا سے بہت کم انسانی جانیں موت کا شکار ہوئی ہیں۔ اللہ کی اللہ ہی جانے، ورنہ ہم پاکستان میں رہنے، بسنے والے بائیس کروڑ انسان کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر رہے۔ ’’گند‘‘ پورے ملک میں پھیلا ہے اور گند میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

کوئی پرسان حال ہو تو کہوں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ لاہور میں علامہ خادم حسین رضوی کا نماز جنازہ ہوا۔ میں بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، ابھی جنازہ مینار پاکستان کی طرف روانہ نہیں ہوا تھا اور میں نے اپنے بیٹوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ سمندر کی طرح اس اجتماع کا دوسرا سرا نظر نہیں آ رہا تھا، واقعی لاکھوں انسان تھے جو ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ یہ نظارہ پورے دن جاری رہا۔ گزشتہ روز داتا دربار میں قل شریف اور قرآن خوانی ہوئی۔

پی ڈی ایم کے جلسے اس کے علاوہ ہوئے۔ گوجرانوالہ، کوئٹہ، کراچی، پشاور، مانسہرہ، سونے پر سہاگہ گلگت بلتستان کا الیکشن ہوا، وہاں بھی بڑے بھرپور سیاسی جلسے ہوئے، حکومتی جماعتوں نے بھی بڑے بڑے جلسے کیے۔ ’’کورونا‘‘ کسی کو یاد نہیں تھا، سب ’’بے رحمی‘‘ پر اترے ہوئے تھے۔ تمام سیاسی سربراہ اور مشہور سیاستدان جلوہ افروز تھے۔ اللہ اللہ کرکے یہ سیاسی دنگل ختم ہوا، تو الیکشن کے نتائج پر احتجاج شروع ہو گیا۔

یہ سیاستدان ہیں حکومت اور اپوزیشن کسی کو انسانوں پر رحم نہیں آیا۔ ہمارے پاکستان میں بھوک بہت ہے، پیاس بہت ہے، بھوک اور پیاس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جا رہا۔ سندھ کا حال یہ ہے کہ جو نیلے، زرد، یا کالے کپڑے پہنے ہوئے ہے وہ غریب سندھی ہے اور کڑکڑ کرتے کلف لگے سفید کپڑے پہنے ہے، وہ زمیندار، وڈیرا یا شوگر مل کا مالک ہے۔ غریب سندھی مر رہے ہیں اور سندھی سیاست دان محلوں میں سونے، چاندی کے ڈھیروں پر بیٹھے کھا اور پی رہے ہیں۔ یہی حال پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کا ہے۔

عمران خان تحریک انصاف کے نام کے ساتھ آیا عوام نے بہت عزت احترام اور پیار کے ساتھ ان پر اعتماد و اعتبار کیا، مگر عمران کے امتحانی پرچے کا تقریباً آدھا وقت گزر گیا ہے اور ابھی آدھا پرچہ بھی حل نہیں ہوا۔ کیا باقی آدھے وقت میں پورا پرچہ حل ہو جائے گا؟ یہ سوال ہے جس کا جواب مشکل نظر آنے لگا ہے۔ اس بار اگر عوام کے ساتھ دھوکا ہوا تو ریاست یہ دھوکا برداشت نہیں کر سکے گی۔ جہانگیر ترین وطن واپس آگئے مگر اب تک کچھ بھی نہیں ہوا، اگر کچھ نہ ہوا تو بہت برا ہوگا۔ اب تو ملک داؤ پر لگا ہوا ہے۔

سرحدوں پر انڈیا کی فوجیں روزانہ ہمارے سرحد پار آباد شہریوں کو مار رہی ہیں اور ہم روزانہ انڈین سفارت کار کو احتجاجی مراسلہ پکڑا دیتے ہیں۔ افغانستان میں خلفشار کم ہونے میں نہیں آ رہا، بلوچستان میں بھی دشمن کے ایجنٹ گھسے ہوئے ہیں، آئے دن وہاں دھماکے ہوتے رہتے ہیں اور ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ عوام بھی تحریکیں چلا چلا کر تھک ہار چکے ہیں۔ ایڈ کی گندم کھا کر بڑے دھوکے کھا چکے ہیں۔ مسلم امہ کا بھی کردار کمزور ہے۔ یہ ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا۔ یہاں کے عوام اسلام پر کٹ مرنے کو ہر دم تیار رہتے ہیں۔

ان حالات میں ہمارے سیاستدانوں کو اسرائیل، ہندوستان گٹھ جوڑ پر سنجیدگی سے سوچنا اور مل بیٹھنا ہوگا۔ ایران، ترکی، ملائیشیا کے خیالات و رجحانات پرو اسلامی ہیں۔ چین کو بھی ہماری اور ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ افغانستان کو ساتھ رکھنا ہے، یہاں ہندوستان کے اثر و رسوخ پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ دنیا میں نئے اکٹھ بن رہے ہیں۔ امریکا، امریکیوں کا ہے، بارک اوباما ہو یا ٹرمپ ہو، یا اب جوبائیڈن ہو۔ یہ اول آخر امریکی ہیں۔ بہت پہلے حبیب جالب نے کہہ دیا تھا:

میکملن تیرا نہ ہوا تو کینیڈی جب تیرا ہے

اب ہمیں بھی پاکستانی بن کر پاکستان کا مفاد دیکھنا ہوگا۔ سات سمندر پار کے چھٹے بیڑے والے امریکا کے بجائے اپنے ہمسائیوں سے تعلقات استوار کرنے ہوں گے، وہ ممالک جن سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں ان کے ساتھ تعلقات بڑھانے ہوں گے۔ عظیم روس، عظیم چین کی سرحدیںپاکستان سے ملتی ہیں۔ سی پیک کی تکلیف اسی لیے تو ہمارے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ ادھر ایران سے بھی ہمیں ہر حال میں ساتھ رہنا ہے۔ ایران بہت غیرت مند ملک ہے۔ علامہ اقبال یہ کہہ کر گئے ہیں:

طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

دیکھ رہے ہیں علامہ اقبال کی نگاہِ بیش بہا میں ایران کی کیا قدر و منزلت ہے۔ یہیں پر بات ختم کرتا ہوں۔

The post طہران ہوگر عالم مشرق کا جنیوا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39vUvok
via IFTTT

محفلِ نعت پاکستان۔ اسلام آباد ایکسپریس اردو

شاعری کی دیگر اصناف سے یک بہ یک نعت گوئی کی طرف مائل ہونا خصوصاً غزل گوئی سے نعت گوئی کی طرف رخ کرنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہ صرف اور صرف رب کریم کا کرم اور حب نبیؐ کا کمال ہے۔ جس کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے:

نعت نبیؐ کا معجزہ ہے، چھٹ گئی غزل

’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘

نعت گوئی اور نعت خوانی عطیہ خداوندی ہے جو محبوب خدا سرور دو عالم حضرت محمدؐ سے قلبی محبت رکھنے والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ یہ سعادت کسی ہنرمندی سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے حصول کے لیے حضور نبی کریمؐ کی محبت جزو اول اور لازمی شرط ہے۔

4 اپریل 1989 وہ یادگار دن ہے جب بابوؤں کے شہر اسلام آباد میں جو وطن عزیز کا دارالحکومت ہے چند خوش نصیب نعت نگاروں کو مدحت سرکار دو عالم ؐ کے فروغ کے لیے ایک نعتیہ ادبی تنظیم کے قیام کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی جس میں محمد سبطین شاہجہانی اور جناب ریاض الاسلام عرش ہاشمی پیش پیش تھے۔ اسی مبارک دن محفل نعت پاکستان اسلام آباد کے نام سے ایک باقاعدہ تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور پھر اسی ماہ رمضان المبارک کے دوران تنظیم کے نومنتخب صدر شاہجہانی صاحب اور روح رواں عرش ہاشمی کی پرخلوص کاوشوں کے نتیجے میں اس تنظیم  کے تحت پہلے ماہانہ نعتیہ مشاعرے کا انعقاد شاہجہانی کی میزبانی میں منعقد ہوا تھا۔

وہ دن ہے اور آج کا دن کہ اس تنظیم کے زیر اہتمام ماہانہ نعتیہ مشاعرہ بلاناغہ مسلسل منعقد ہو رہا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اس ماہانہ مشاعرے کے لیے فرشی نشست کا اہتمام کیا جاتا ہے اور محافل مشاعرے کے تقدس کے پیش نظر شعرائے کرام اور شاعرات کی مخلوط نشستوں سے مکمل احتراز کیا جاتا ہے۔

محفل نعت پاکستان، اسلام آباد نامی اس تنظیم کی ایک اور خاص اور قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس کی ماہانہ محافل میں پہلے سے کسی شاعر یا دیگر شخصیت کو بطور صدر یا مہمان خصوصی کو مدعو نہیں کیا جاتا۔ اس روایت کی پاسداری ابتدا سے لے کر آج تک بدستور جاری ہے۔

حضور پاکؐ کی مدت کے اس طویل سفر کے دوران متعدد ایسے اہل قلم اور دیگر ممتاز و معروف شخصیات کی شرکت اس مبارک محفل میں بطور سامع ہوئی کہ جن کا اصل حوالہ نعت نگاری نہیں تھا مگر اس مبارک محفل کی برکت سے وہ نہ صرف نعت گوئی کی طرف مائل ہوئے بلکہ بفضل خدا اور بہ فیض مصطفی ؐ وہ نہ صرف کامیاب نعت نگاروں کی حیثیت سے مشہور ہوئے بلکہ ان کے نعتیہ مجموعے بھی شایع ہو کر منظر عام پر آئے اور ادبی حلقوں میں مقبول ہوئے جن میں ایک نمایاں مثال حافظ نور احمد قادری کی ہے جن کا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’متاع نور‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ اسی تنظیم کی برکت سے ابھی حال ہی میں عرشؔ ہاشمی کا پہلا نعتیہ مجموعہ بعنوان ’’درود اُن پر سلام اُن پر‘‘ شایع ہوکر مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔

محفل نعت پاکستان، اسلام آباد کا تاسیسی اجلاس محمد سبطین شاہجہانی کے دفتر میں ہوا تھا۔ وہ اس وقت وزارت مذہبی امور اسلام آباد میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس اجلاس میں تنظیم کے عہدیداران اور اراکین مجلس عاملہ کا تقرر بھی عمل میں آیا تھا۔ متفقہ طور پر طے پانے والے اس انتخاب کی تفصیل کچھ یوں تھی۔

صدر: محمد سبطین شاہجہانی، نائب صدر، صابر کا سگنجوی، سیکریٹری عرشؔ ہاشمی، جوائنٹ سیکریٹری میاں تنویر قادری جب کہ اراکین  مجلس عاملہ میں دیگر احباب کے علاوہ رئیس احمد صدیقی بدایونی (مرحوم) شامل تھے تاہم عرشؔ ہاشمی اس تنظیم کے اصل روح رواں ہیں۔ محفل نعت پاکستان کے زیر اہتمام اب تک 380 ماہانہ محفلیں منعقد ہوچکی ہیںاور کمال یہ ہے کہ یہ تمام محفلیں اب تک  پورے تسلسل کے ساتھ بلاتعطل منعقد ہوئی ہیں۔ دبستان وارثیہ، کراچی کے اشتراک سے ہر سال ایک ردیفی مشاعرہ نعت بھی منعقد کیا جاتا ہے جو امسال کورونا کی وبا کے سبب ملتوی ہو گیا تھا مگر انشا اللہ عنقریب انعقاد پذیر ہو رہا ہے۔

آج کل اس تنظیم کے صدر ڈاکٹر پروفیسر احسان اکبر اور سید محمد حسن زیدی نائب صدر ہیں۔ یہ دونوں شخصیات محتاج تعارف نہیں۔ بقول پروین شاکر:

کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

سیکریٹری کے فرائض بدستور عرش ہاشمی انجام دے رہے ہیں جب کہ سیکریٹری نشر و اشاعت کا فریضہ نصرت یاب کے ذمے ہے۔ دسمبر 2016 میں ربیع الاول کے مبارک مہینے میں محفل نعت پاکستان کی ایک ذیلی شاخ حسن ابدال میں قائم ہوئی جس کے 48 ویں مشاعرے کے ساتھ 4 سال مکمل ہوئے ہیں۔ اس شاخ کے سیکریٹری ذوالفقار علی ملک اور صدر پروفیسر قیصر ابدالی تھے۔ افسوس یہ دونوں حضرات ملک عدم سدھار چکے ہیں۔ آج کل اس شاخ کے صدر ناظم شاہ جہانپوری اور سیکریٹری حافظ عبدالغفار واجد ہیں۔

یکم محرم الحرام 1442 محفل نعت پاکستان کی خواتین شاخ کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا نعتیہ مشاعرہ صدر خواتین شاخ پروفیسر سبین یونس کے دولت خانے پر ستمبر 2020 میں منعقد ہوا۔ خواتین شاخ اگرچہ ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے تاہم اس کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔

عرشؔ ہاشمی سیکریٹری محفل نعت پاکستان کے بانی اور فعال ترین سیکریٹری ہیں جو ابتدا ہی سے روز و شب اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے درمیانی عرصے میں بطور صدر اضافی فرائض بھی انجام دیے ہیں۔ عرشؔ صاحب کا اختصاص یہ ہے کہ موصوف نے آغاز سے ہی اپنی شاعری کو حمد و نعت تک محدود رکھا ہے۔ 1989 میں محفل نعت کے قیام سے قبل وہ بزم شعر و ادب اور بزم جامؔ کے طرمی مشاعروں میں بھی مصرعہ طرح پر لکھنے کی سعادت حاصل کرتے رہے ہیں۔

2013 میں وہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی سے جوائنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے لیکن ان کا طرہ امتیاز محفل نعت  پاکستان کے تحت ماہانہ نعتیہ شعری نشستوں کی تیاری اور سالانہ طرمی مشاعرے کا انعقاد ہے جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔

The post محفلِ نعت پاکستان۔ اسلام آباد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HTYdwo
via IFTTT

چہرے سے کون چور ہے پہچان جائیے ایکسپریس اردو

سب سے بڑا زوج تو انس وجن ،آدم وابلیس اورخیروشر کا تھا جو مکمل طورپر ٹوٹ چکاہے کیوں کہ آدم کے بیٹوں نے تنگ آکر جب اپنی ماں کی آغوش میں پناہ لے کر زراعت شروع کی تو جن اورابلیس بھی اس کے پیچھے پیچھے آکر صحرائی خانہ بدوش بنے، پھر اس نے جہاں جہاں آدم کے خاکی بیٹوں کو ماں کی آغوش میں خوشحال دیکھا تو لٹیرے کے روپ میں آکراسے لوٹنے لگا، پھر اس کے ابلیسی دماغ میں خیال آیا کہ اس طرح لوٹ کرچلے جانا زیادہ فائدہ مند نہیں ہے اس لیے کیوں نہ اس کے سر پر مستقل بیٹھا جائے اورگائے کو ذبح کرکے کھانے کے بجائے دوہ کر فائدہ اٹھایا جائے۔

آگ تو اس کے پاس تھی ،آگ کے ذریعے بنائے گئے ہتھیار بھی تھے، ظالمانہ اورابلیسانہ مزاج بھی تھا اوربے پناہ تیزذہن بھی چنانچہ اس نے لٹیرے سے حکم ران اورمحافظ کا لباس پہن لیا،اورمادی ہتھیاروںکے ساتھ ساتھ کچھ اور ہتھیاربھی ایجاد کرلیے۔

قوم ،ملک، وطن ،نسل، قانون،آئین اوردستور وغیرہ اورآرام سے گائے کو دوہ دوہ کر فائدہ اٹھانے لگا۔ پھر ایک مرحلے پر اسے لگا کہ گائے کچھ ہشیارہوگئی ہے، دودھ دینے میں بخل سے کام لے رہی ہے یا سینگ لات بھی مارتی ہے اورصرف ڈنڈے یا لاٹھی سے رام نہیں ہوتی تو اس نے اپنا ایک اورساجھے دار تلاش کر لیا،جھاڑ پھونک اوردم منتر سے گائے کو رام کرنے والا… اور پھر یہ ساجھے داری جم گئی ،یوں اس  نے حکمران کو دیوتا،دیوتا زادہ ،خدا کاسایہ اور آسمان کانمایندہ بنایا۔

جواب میں حکم ران نے اسے دین وایمان کے نام پر لوٹنے کافری ہینڈ دے دیا۔ اس طرح وہ ’’عجوبہ‘‘ ظہور میں آیا جسے اگر صحیح نام سے پکاراجائے توابلیسہ،مفت خور اور ارذالیہ بنتاہے لیکن اس نے اپنا نام اشرافیہ، حکمرانیہ اورمحافظ رکھ لیا جو حساب کی روسے تو پندرہ فی صد ہوتاہے لیکن کھانے کے حساب سے پچاسی فی صد کھاتاہے اوروہ جو پچاسی فی صد زمین کے بیٹے یاخاک زادے ہیں اورسب کچھ کماتے ہیں ان کو صرف پندرہ فی صد پر ٹرخانا شروع کیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو کچھ نہیں کرتے ان کے ہاں ڈیر لگے ہوئے ہیں ان کے پیٹ ان کے گھر اور ان کی جیبیں بھری ہوئی ہیں اورجویہ سب کچھ کماتے ہیں، پیدا کرتے، اگاتے ہیں، بناتے ہیں ان کے گھراورجیبیں تو کیاپیٹ بھی خالی ہیں اوروجہ وہی زوج کا ٹوٹنا اورمنفی مثبت کاتوازن بگڑناہی ہے۔

بنیاد جو کچھ بھی رہی ہو ابتدا اور پیدائش کیسے بھی ہوئی ہو لیکن اب بہرحال حکومت اوررعایا یا اشرافیہ اورعوامیہ کا ایک زوج بن چکاہے اور اصولوں کے مطابق اس زوج کی بگاڑ بھی تباہی وبربادی لائے گی اور یہ ہم جو معاشرے اورنظام میں بگاڑہی بگاڑ ،تباہی ہی تباہی اورظلم ہی ظلم دیکھ رہے ہیں یہ اسی بنیادی اورہمہ گیر زوج کی بگاڑ کا نتیجہ ہے۔

یہ تشدد جنگ وجدل ،استحصال جرائم، بے راہ رویاں، بے انصافیاں اورانسانیت کاماتم اسی زوج کے ٹوٹنے یا ایک رکن کا دوسرے رکن پر غلبہ پانا ہے ،سیدھی سی دواوردو چاروالی بات ہے کہ ہرزوج میں ہررکن کااپنا اپنا کردار اورحصہ ہوتاہے اوراگر دونوں ہی اپنا کردار صحیح ادا کریں گے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔

دونوں جوتے صحیح صحیح پیروں میں ہوں، گاڑی اورگھوڑا اپنی اپنی جگہ اپنا کام کررہے ہوں ،دونوں ٹائر یا پہیے یکساں ہوں،ریل کی پٹڑیاں صحیح اوردرست ہوں تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا لیکن اگر توازن بگڑجائے تو ٹیڑھا پن لازمی ہے ،ترازو کے پلڑوں کا اوپر نیچے  ہونا یقینی ہے۔

اب اس تناظر میں اس زوج کے اراکین یامنفی مثبت پر نظر ڈالیے،حکومت اوررعایا کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدہ ہوچکاہے کہ حکومت اور رعایا دونوں کے برابر حقوق بھی ہیں اورفرائض بھی اوردونوں کو اپنے اپنے فرائض بھی ادا کرنا ہیں اورحقوق حاصل کرنا بھی ،سادہ سی لین اوردین والی بات تم دوگے تودوسرا بھی دے تم لوگے تو دوسرے کو بھی دوگے۔

یوں کہیے کہ ایک ’’حق‘‘دوسرے کا ’’فرض‘‘ ہوجاتاہے ۔

ٹیکس لینا حکومت کاحق ہے اوررعایا کا فرض۔اس کے بدلے عوام کی ضروریات پوری کرناحکومت کافرض ہے اوررعایا کاحق اوراگر دونوں اس پر کاربند رہیں گے تو کوئی بگاڑ پیدا نہ ہوگا اورایک بہترین معاشرہ اورنظام وجود میں آئے گا اورمسلسل چلتا رہے گا اوردونوں فریق آرام سے رہیں گے نہ صرف یہ بلکہ اس نظام کے اندر جوباقی بے شمار ازواج یاجوڑے ہیں وہ بھی عدم توازن کاشکارنہیںہوںگے جیسے جرم اور قانون کازوج،ڈاکٹر اورمریض کاجوڑ، افسرو ماتحت کا جوڑ، شاگرد اوراستاد کاجوڑ،حکومتی اداروں اور عوام کا جوڑ اورسب سے اہم ترین جوڑ ’’نرومادہ‘‘کا جس پر روشنی ڈالی جاچکی ہے ۔

جن ممالک میں حکومت اورعوام کا جوڑ صحیح اندازمیں چل رہاہے وہاں انسان ہرطرح سے عافیت اورچین میں ہے لیکن جن ممالک میں حکمران  اشرافیہ  اورمحکوم عوامیہ کا جوڑ بگڑ چکاہے وہاں جرائم، تشدد، منشیات ، بے راہ روں اور بدعنوانیوں کا حشر برپا ہے اوران میں سے ایک ہمارا ملک بھی ہے۔

یہاں حکومت اپنے ’’حقوق‘‘تو بڑھ چڑھ کر بلکہ حد سے متجاوزہوکر لیتی ہے یاچھینتی ہے لیکن بدلے میں عوامیہ کا حق اوراپنا فرض ایک بھی ادا نہیں کرتی ہے اوربے شمار ٹیکسوں جائزوناجائز وصولیوں کے بدلے عوام کے جو حقوق اورحکمرانیہ کے فرائض ہیں وہ بہت ہی مختصرہیں، جو ایک لفظ ’’حفاظت‘‘کی مختلف صورتیں ہیں کہ حکمرانیہ کی ابتداہی اس منصب محافظ سے ہوئی تھی ان میں جان ومال کی حفاظت،صحت کی حفاظت ،ذہن کی حفاظت یعنی تعلیم اورنان ونفقہ کی حفاظت یعنی روزگار شامل ہیں لیکن چاروں اطراف چپے چپے، کونے کونے اورقدم قدم پر نظر ڈالیے، حکومت ان میں سے کوئی بھی فرض اداکررہی ہے؟

ادا کرنے کا دکھاؤا ہورہاہے، وہ مزید ان حقوق کو لوٹنے کا ذریعہ ہیں، بظاہر ان اغراض کے لیے بہت سارے محکمے اورادارے قائم نظر آتے ہیں لیکن وہاں ہوتاکیاہے، عوامیہ کو مزید نوچنے اور کھسوٹنے کاکام۔

کہتے ہیں ملک میں امن نہیں، چین نہیں، روزگار نہیں، جرائم ہیں، کرپشن سے چھینا جھپٹی ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔

تو ایسے لنگڑے نظام میں کچھ ہوبھی کیسے سکتاہے؟ اورسب کچھ کاذمے دار وہ ’’مہاچور‘‘ ہے جسے سب جانتے ہیں کیوں کہ پبلک سب جانتی ہے۔

The post چہرے سے کون چور ہے پہچان جائیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36mZoxK
via IFTTT

خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال ایکسپریس اردو

مشرقی وسطیٰ، امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال بدلنے کی جانب گامزن ہے۔ حال ہی میں بیشتر خلیجی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ امریکا، عراق اور افغانستان سے کچھ فوجیوں کے سوا باقی فوج کو وہاں سے نکال رہا ہے۔ بھارت پاکستان کی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔

ان تمام بدلتے حالات کے پیچھے معاشی مفادات پنہاں ہیں۔ وسائل پر قبضے اور عالمی سرمایہ داری کی منافع خوری ہی تمام صورتحال کی جڑ ہے۔ خلیج میں تیل کے مفادات اور چین بھارت کے وسط میں تبت، لداخ پر قبضے کی کشمکش بھی وسائل پر اجارہ داری کی کوششیں ہیں۔ چین اور بھارت کے مابین 2520 میل لمبی سرحد میں سے 2100 میل سرحد غیر متعین ہے۔

1962کی چین بھارت جنگ میں چین نے لداخ کے علاقے اقصائے چن پر 1952 میں کیے گئے قبضے کو مستقل کرلیا تھا۔ اس سال جون کے وسط میں چینی فوج کی پیش قدمی اور 20 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ چین کے کتنے فوجی ہلاک ہوئے اس کی کوئی اطلاع یا تصدیق نہیں ہوئی۔

اس لیے بھی کہ چین کی سرکاری اطلاعات کے علاوہ کوئی اور ذرایع موجود نہیں۔ تاہم اب دونوں اطراف برف پگھلنے کی خبریں آ رہی ہیں، مگر ابھی بھی فوجیں بھاری ہتھیاروں کے ساتھ سرحدوں پر موجود ہیں۔ 3 سال قبل اس تنازعے کی ابتدا چین کی فوج کی جانب سے متنازعہ علاقے میں تعمیراتی کام رکوانے کی بھارتی کوشش سے ہوئی تھی۔ دونوں اطراف سے جھڑپوں کے باوجود چین نے وسیع پیمانے پر سڑکوں اور دیگر نوعیت کی تعمیراتی کام جاری رکھا ہوا ہے، جس کے بعد بھارت کی جانب سے بھی وادی گلوان میں دریائے گلوان کے قریب سڑک کا تعمیراتی کام شروع کردیا گیا ہے۔

چین نے تقریباً 1000 مربع میل علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس کے ردعمل میں بھارت نے کوئی سخت ردعمل دینے کے بجائے موبائل فون ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کرنے اور چینی مصنوعات کے بائیکاٹ جیسی بیان بازی سے زیادہ نہیں کیا۔ لداخ 37000 مربع میل پر مشتمل یہ علاقہ قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔

14000 مربع میل پر مشتمل لداخ کے علاقے اقسائے چن پر چین کا قبضہ ہے جب کہ باقی ماندہ لداخ کو گزشتہ سال اگست میں بھارت نے ایک یکطرفہ فیصلے کے بعد بھارتی یونین کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کردیا تھا۔ لداخ کی آبادی تقریباً 3 لاکھ کی ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اس دونوں اطراف کے حکمرانوں کی نگاہیں گڑی ہوئی ہیں۔

ماضی میں وسطی ایشیا سے بھارت تک کے تجارتی راستوں کے حوالے سے اس خطے کی اہمیت رہی ہے۔ جب کہ تبت پر چینی قبضے کو مستقل رکھنے اور سابقہ ملک روٹ اور چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے تحفظ کے حوالے سے بھی اس خطے کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سونے اور دیگر بیش قیمت قدرتی وسائل سے مالا مال تبت پر قبضے کو مستحکم کرنے اور سی پیک کے داخلی چینی صوبے سنکیانگ کے ساتھ تبت کے قریب ترین رابطے کے لیے لداخ کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ دوسری جانب باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

بھارت سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی مخالفت بھی کر رہا ہے، جب کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں چین کے ساتھ شراکت دار بھی ہے۔ واضح رہے کہ اس منصوبے میں چین، میانمار، بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ جس کو روکنے سے متعلق مودی حکومت نے کوئی بات نہیں کی۔ چین نے صرف گزشتہ مالی سال کے دوران بھارت میں 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور مجموعی طور پر 800 چینی کمپنیوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اسمارٹ فون کی مینوفیکچرنگ سے لے کر آٹو موبائل اور انڈسٹری تک اور دیگر شعبہ جات میں چینی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

بھارت کے نیم فسطائی حکمران نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے نفاذ اور سامراجی لوٹ مار کی راہ ہموار کرنے کے لیے مذہبی بنیاد پرستی قومی ٹاؤنزم اور ہر طرح کے غیر انسانی استبداد کو روا رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف چین کی ریاست انسانی جمہوری آزادیوں پر قدغن لگا کر انسانوں کو مشینیں بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور خصوصی جیل خانوں کا سلسلہ سنکیانگ سے تبت تک پھیلا چکی ہے۔ جہاں انسانوں کو جیلوں میں مقید کرکے انھیں سامراجی مقاصد کی تکمیل کی مشینیں بنانے کے جبری عمل سے گزارا جا رہا ہے۔

بھارت سے پاکستان، چین اور امریکا تک کے حکمران طبقات سامراجی کھلواڑ اور سفارت کاری کے منافقت کے لیے شہری جمہوری اور مذہبی آزادیوں پر پابندیوں پر بیان بازی کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن عملی بنیادوں پر ہر خطے میں ہر طرح کی آزادیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ بھی بام عروج پر ہے۔ دو سال قبل ٹرمپ انتظامیہ نے چین کی مصنوعات پر 550 ارب ڈالر کے ٹیرف عائد کرتے ہوئے جس تجارتی جنگ کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام رواں سال اگست میں فیز ون ٹریڈ ڈریل کی صورت میں ہوتا دکھائی دیا۔

اس دوران ہانگ کانگ میں چینی عزائم اور بنیادی شہری اور جمہوری آزادیوں پر قدغن کے خلاف امریکا کی بیان بازی عروج پر تھی۔ لیکن تجارتی مفاہمت کے بعد امریکی سامراج کی نہ صرف ہانگ کانگ سے متعلق بیان بازی تبدیل ہوئی بلکہ یہ فیصلہ بھی ہو گیا کہ ہانگ کانگ سے امریکا برآمد کی جانے والی اشیا پر اگر میڈ ان چائنا کی مہر نہ لگی ہوئی ہو تو ان پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔اس طرح تجارتی راستے بھی سرمائے کے بہاؤ اور سامراجی مفادات اور منافعوں کے تحفظ کے لیے ہی نہ صرف ترتیب دیے جاتے ہیں بلکہ ان سودے بازیاں اور سرحد کی تبدیلیاں تک کردی جاتی ہیں۔

وسطی ایشیا سے تاریخی سلک روڈ کو جوڑنے والا خطہ لداخ آج میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ لیکن بلتستان، اقصائے چن، لیہ اور کارگل پر مشتمل خطہ لداخ نہ صرف تبت، سنکیانگ، ہماچل، جموں، کشمیر اور موجودہ پاکستان کو آپس میں ملاتا ہے بلکہ سلک روٹ کے ساتھ جڑے ہونے کی وجہ سے وسطی ایشیا سے ہونے والی تجارت کا اہم مرکز بھی رہا ہے۔

سامراجی مقاصد کے ہی تحت 60 کی دہائی میں یہ تجارتی راستہ بند کردیا گیا تھا۔ قبل ازیں برصغیر کی تقسیم چین بھارت جنگ اور بعدازاں 1999پاک بھارت جنگ کے دوران نہ صرف اس خطے کے ٹکڑے کیے گئے بلکہ متعدد خاندانوں کو تقسیم کردیا گیا۔ چند منٹوں کی دوری پر بسنے والے انسانوں کو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے ہزاروں میل کی مسافت اور حکمرانوں کی مصنوعی دشمنی کی شکار ویزہ پالیسی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔

سماجی ڈھانچہ، صحت، تعلیم اور روزگار کی ناپید صورتحال سے دوچار بلند و بالا پہاڑوں اور شدید ترین موسموں کے حامل اس خطے کے باسی جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کے باسیوں کو تبدیل ہوتے ہوئے عالمی حالات اور سامراجی مفادات و مقاصد کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔

ہر دو صورتوں میں وسائل کی سامراجی لوٹ مار اور منافعوں کی ہوس کی تکمیل کی جائے گی۔ عام انسانوں کی زندگیوں کو مزید اجیرن اور تاراج کیا جائے گا۔ ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ بحران زدہ سرمایہ دارانہ عہد میں لکیروں کے مصنوعی اور سامراجی تعین و تبدیلی سے مسائل حل نہیں ہوں گے، سوائے اس خطے کو ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں تبدیل کرنا ہوگا۔

The post خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fT1NmZ
via IFTTT

کورونا اورمعاشی کشمکش ایکسپریس اردو

ملک میں کورونا وبا کی دوسری لہرکی شدت برقرار ہے۔ ساتھ ہی اقتصادی صورتحال بھی صحت ومعاشی ثمرات کے حوالہ سے پیچیدہ بتائی جاتی ہے جب کہ عوام مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں کمی کے لیے حکومت کی طرف سے بریک تھروکے لیے کسی فیصلہ کن پالیسی سازی کے منتظر ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈرو ایڈاہانہو بدستور ویکسین کی آمد کے حوالے سے پرامید ہیں۔ دوسری جانب آسٹریلیا کورونا کے لیے محفوظ ترین ملک قرار پایا جب کہ نیوزی لینڈ دوسرے نمبر پر ہے۔ ملک میں اس یقین کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ ایس اوپیز پر مکمل عمل کیا گیا تو آیندہ ماہ کورونا کی رخصتی کے امکانات ثابت ہوں گے۔

ادھر پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتے بڑھتے 113 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور ملکی آمدن کا41 فیصد قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہورہا ہے۔ برآمدات کی مناسبت سے بیرونی قرضوں کا تناسب 438 فیصد کی سطح کو چُھورہا ہے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے سرکاری قرضوں کا تناسب 87فیصد کی سطح عبور کرچکا ہے۔

ماہرین اقتصادیات کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس اب کوئی آپشن نہیں ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجلی کے نرخ17 فیصد اورگیس کی قیمت 14 فیصد بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔ تاہم کابینہ نے حزب اختلاف کی بڑھتی فعالیت کے پیش نظر بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے کا نفاذ روک دیا ہے۔

ملکی برآمدات مستقل 21 تا 24 بلین ڈالرکی حد میں ہیں۔ حکومت جو بھی ہدف مقررکرے اس کے حصول کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ پاکستان کے لیے واحد امید تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی ترسیلاتِ زر ہیں۔ تاہم بدلتی عالمی سیاسی اقتصادیات کی وجہ سے یہ چینل بھی دبائو میں آرہا ہے۔ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ مددگار ثابت ہورہے ہیں اوراب تک ہزاروں افراد اکائونٹ کھول چکے ہیں، تاہم اس سے صرف کرنٹ اکائونٹ کی بہتری میں مدد ملے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ اقتصادی منظرنامہ میں نمایاں تبدیلی ایک مربوط اور مستقل معاشی حکمت عملی سے ہی ممکن ہے، معاشی محاذ پر جنگی بنیادوں پر سرگرمیوں کا فقدان ہے اورکوئی معاشی مسیحا حکومت کو غیریقینی صورتحال سے نکالنے کا فارمولا پیش نہیں کرسکا، اگر قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر نظرکی جائے تو غیر جانبدار مبصرین کے اندیشے اکنامک بہتری کی نوید دینے کی بات نہیں کرتے۔

کورونا لہر میں شدت کی روک تھام میں بھی زور صرف اعلانات اورخدشات و عوامی تجاہل عارفانہ کی شکایت پر ہے، حکومت کی اپنے وزرا،مشیروں اور معاونین خصوصی کی عملی کاوشوں اورآن دی اسپاٹ فرنٹ لائن میڈیکل ٹیموں سے اشتراک اور عوام میں کورونا مہم کی شئیرنگ کی کوئی جستجو بھی دکھائی نہیں دیتی چنانچہ گزشتہ 24گھنٹوں میں ملک بھر میں مزید 25افراد کورونا کے باعث جاں بحق ہوگئے۔

اموات کی کل تعداد 7ہزار 985 ہو گئی ہے، 1ہزار167نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ مصدقہ مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 95 ہزار 185تک جا پہنچی ہے اور3لاکھ 39 ہزار 810 افراد شفایاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت فعال کیسز بڑھ کر 47ہزار390 ہو گئے ہیں جو زیر علاج ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکے اعدادوشمارکے مطابق سندھ میں ایک لاکھ71 ہزار 595 کورونا مریض ہیں۔

پنجاب میں ایک لاکھ 18 ہزار 511، خیبر پختونخوا 46 ہزار877، اسلام آباد 29 ہزار 782، بلوچستان 17101، آزاد کشمیر 6682 اور گلگت بلتستان میں4637 مریض ہیں۔ترجمان پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئرکے مطابق پنجاب میں 613نئے کیسز، تعداد118511ہو گئی۔

لاہور 226، راولپنڈی105، لیہ23،بہاولپور16،ملتان 45، سیالکوٹ11،سرگودھا 23، گجرات12، جھنگ19، ٹوبہ12، گوجرانوالہ11،ڈیرہ غازی خان9، بھکر23، وہاڑی 10کیسز رپورٹ ہوئے۔مزید 19ہلاکتیں جب کہ ابھی تک اموات 2979 ہو چکی ہیں۔ راولپنڈی پولیس کے انسپکٹر محمد عجائب کوروناسے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ اسلام آباد میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکا اہم اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ کورونا کا 70 فیصد پھیلاؤ پانچ بڑے شہروں راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور،لاہور اورکراچی میں ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ملک میں مثبت کیسزکا تناسب 7.01فیصد ہے۔

سب سے زیادہ مثبت کیسزکا تناسب میرپور میں 24.85فیصد دیکھا گیا ۔ حیدرآباد میں22.81 اور کراچی میں 18.96فیصد رہا۔ مظفرآباد 17.95، پشاور 11.12، کوئٹہ8.84، گلگت6.77، راولپنڈی6.80، اسلام آباد 5.30، لاہور میں 4 فیصد ہے۔ وفاقی اکائیوں کے لحاظ سے آزاد کشمیر میں16.58فیصد ، بلوچستان 9.12، گلگت بلتستان 5.56 ، اسلام آباد5.30، خیبر پختونخوا 5.31، پنجاب3.45 اور سندھ15.31فیصد ہے۔

بڑھتے کیسزکے پیش نظر تمام اسپتالوں میں میڈیکل آلات اور ضروری اشیا کی وافرمقدار میں دستیابی یقینی بنائی گئی۔ ماہرین صحت نے بتایا کہ مختلف علاقوں میں کورونا پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کیے جارہے ہیں۔لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپیل کی کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو کورونا کی ایس او پیز پر عمل درآمد کا احساس ہونا چاہیے، اگر عوام نے ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو مکمل لاک ڈائون کی طرف جا سکتے ہیں۔

ملتان جلسے کے حوالے سے شوروغل مچایا جا رہا ہے، ان کے مطابق عوامی اجتماعات کورونا پھیلائو میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں، اپوزیشن جلسے جلوس بعد میں کرلے اس کے لیے بہت وقت پڑا ہے، ویکسین آنے تک احتیاط کرنی ہوگی۔ ماسک پہننے کے باوجود بلاول بھٹو کوکورونا ہو گیا ۔ انھوں نے کہا کہ فیس ماسک 70فیصد تک کورونا پھیلائو روکتے ہیں۔

لاہور، ملتان، راولپنڈی،گوجرانوالہ اور فیصل آباد زیادہ متاثر ہیں۔ مثبت کیسز میں ملتان میں شرح12فیصد ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ صوبے میں مزید 13مریض جاں بحق ہوگئے، مجموعی ہلاکتیں2924 ہیں۔ 1419نئے کیسز سے تعداد 173014 ہوگئی۔

پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھاکہ حکومت نے کورونا ویکسین کے حصول کے لیے ڈیڑھ سو ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔ امکان ہے کہ 2021ء کی پہلی سہ ماہی میں ویکسین مارکیٹ میں میسر ہوگی جو پہلے مرحلے میں ہیلتھ ورکرز اور عمر رسیدہ افراد کو لگائی جائے گی۔

ملک بھر میں اٹھنے والی کورونا کی دوسری لہر سے صوبہ سندھ خاص طور پر شہری علاقوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن حکومت سندھ کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز پر سختی سے عمل کی یہ ہدایات موجود ہیں کہ تمام دفاتر،کارخانوں، دکانوں، ریسٹورنٹس، ہوٹلز، مینوفیکچرنگ یونٹس اور دیگر کام والی جگہوں کے منتظمین بھی ایس او پیز پر عمل کو یقینی بنائیں، عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی جب کہ ماسک نہ پہننے والوں کو گرفتار یا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر میںانسداد کورونا کے لیے حکومتی ریپڈ فورس صوبوں میں ایکشن میں آئے، عوام سے رابطہ کو فعال بنائے،اس عوامی تاثر کو ختم کرے جو ماسک،سماجی فاصلہ اور اجتماعات کے سلسلہ میں کورونا کے پھیلائو کی نفی پر مبنی ہے، حکومت صرف پند ونصائح سے کورونا  کو شکست نہیں دے سکے گی اس کے لیے قومی جنگ کا معاشی منظرنامہ جگانے کی ضرورت ہے۔

The post کورونا اورمعاشی کشمکش appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3qcYSKK
via IFTTT

فکر کے چراغ جو گل ہوئے ایکسپریس اردو

اہل علم وادب اور سیاسی شخصیت کا اس دار فانی سے کوچ کرجانا، قوم کے لیے کسی بھی سانحے سے کم نہیں ہے،کیونکہ ان کا نعم البدل ہمارے پاس موجود نہیں۔

پنجاب سے ممتاز پارلیمنٹیرین صاحبزادہ فاروق علی خان اورسندھ کے ممتازماہرتعلیم ڈاکٹرغلام علی الانہ کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کسی بھی طور پُر نہیں ہوسکتا۔ صاحبزادہ فاروق علی خان 1970کے انتخابات میں ملتان سے ذوالفقارعلی بھٹوکی خالی کردہ نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 1973کا آئین بھی انھی کی اسپیکرشپ کے دورمیں منظور ہوا تھا۔

5 ستمبر1931کوگکھڑ منڈی میں پیدا ہوئے، 9 اگست 1973 کو قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے اور 27 مارچ 1977 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ صاحبزادہ فاروق علی خان کی خود نوشت سوانح ’’جمہوریت صبر طلب ‘‘کے نام سے اشاعت پذیرہوکر قبولیت کی سند حاصل کرچکی ہے،انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر عرصہ ملتان میں گزارا، وہ سینئر قانون دان اور آئینی ماہر تھے۔ سندھ علم کی سربلندی اور فروغ کے لیے شہرت رکھتا ہے، سندھ دھرتی میں علم کے میدان میں نامی گرامی ہستیوں نے جنم لیا ہے ، ان میں ایک ممتاز نام ڈاکٹرغلام علی الانہ کا بھی ہے۔

مرحوم ممتاز ماہر تعلیم اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کے سابق وائس چانسلر تھے۔ ڈاکٹر غلام علی الانہ 15مارچ 1930کو ضلع ٹھٹھہ کی تحصیل جاتی کے گائوں تارخواجہ میں پیدا ہوئے اور مختلف تعلیمی اور ادبی اداروں سے طویل عرصہ تک منسلک رہے، سندھی زبان کی اعلیٰ سطح پر ترویج کے لیے انھوں نے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔

وہ کئی علمی ادبی کتب کے مصنف تھے، ڈاکٹر غلام علی الانہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر، انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کے سربراہ اور سندھی لینگوئج اتھارٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ یقیناً قوم کو مرحومین کی قابل قدر خدمات پر فخر ہے اور ان شخصیات کے احسانات کو نہیں بھولے گی۔

The post فکر کے چراغ جو گل ہوئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fRqm3G
via IFTTT

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ اور پاکستان ایکسپریس اردو

پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سے یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ کیا پاکستان کو اسرائیل سے روابط کا آغاز کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔ یادش بخیر، گزشتہ بلاگ میں ہم دلیل سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات کا آغاز کرکے کسی بھی قسم کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔ اگر یاد ہو تو ماضی قریب میں ایک خاتون ممبر قومی اسمبلی نے ایک مرتبہ اپنی تقریر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اسرائیل ہمارے لیے کتنا ضروری ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کیا فوائد ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی تھی، جو آج بھی اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس پینڈنگ میں موجود ہے۔ اللہ جانے اس کو مسترد کیوں نہیں کیا گیا؟ ویسے قرارداد اگر تسلیم بھی ہوجائے تو بھی کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے بعد دیگر مراحل ہیں۔ تاہم یہ عمل عالمی میڈیا میں ایک نئی بحث اور ہیڈ لائنز کو اچھا مواد ضرور دے سکتا تھا۔ خیر، ہم نے تب بھی یہی لکھا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ہمیں کوئی بھی مالی یا ٹیکنالوجی وغیرہ یا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے، لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کروانے کےلیے نہ ہی تو ناچنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ناچ ناچ کر گھنگرو توڑنے سے کوئی فائدہ ہوگا۔

نئی ڈیولپمنٹ کے مطابق ایک خبر یا افواہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے سعودیہ کا خفیہ دورہ کیا ہے۔ جس میں انہوں نے محمد بن سلمان اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سے مبینہ طور پر ملاقات کی ہے۔ اب سعودیہ عرب کے اس خطے میں اپنے مفادات ہیں۔ یہ مفادات اس نے کسی نہ کسی طرح حاصل کرنے ہیں بلکہ ایم بی ایس کے آنے کے بعد تو ان مفادات میں اضافہ ہوا ہے اور سعودیہ ان کے حصول میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار لگتا ہے۔ سعودیہ کی جانب سے العربیہ اور قطر کی جانب سے الجزیرہ نے اس حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے اس بحث کو نقطہ عروج پر پہنچا دیا، جس کے بعد پاکستان میں بھی دوبارہ ایک نئی بحث شروع ہوئی کہ پاکستان کو بھی اسرائیل سے تعلقات کا آغاز کرنا چاہیے۔

سب سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ اس معاملے میں العربیہ اور الجزیرہ کی خبروں اور تبصروں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، کیونکہ یہ دونوں ہی ریاستی ادارے ہیں اور اپنی اپنی ریاستی پالیسیوں اور مفادات میں رپورٹنگ کررہے ہیں۔ قطر اور سعودیہ کی آپس میں ٹھن چکی ہے اور ان کے تعلقات بھی خراب ہیں۔ لہٰذا الجزیرہ، جو کہ قطر کی سرپرستی میں کام کرتا ہے، اس کی رپورٹنگ کے مقابلے میں سعودی سرپرستی میں کام کرنے والے العربیہ کو جواب دینا ہی تھا اور پھر پروپیگنڈہ میں اختتام اتنی جلدی نہیں ہوتا۔ ملاقات کی تردید سعودیہ عرب کے فارن منسٹر نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے بھی کی اور کہا ہے کہ وہاں پر ایم بی ایس اور پومپیو کے علاوہ کسی بھی تیسرے ملک کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ واللہ اعلم۔

سعودیہ کی جانب سے تردید آگئی۔ اب پاکستان میں وہ کون سی لابی ہے جو چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرتی ہے؟ یعنی، کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی لیکن اسرائیل کے حوالے سے بحث شروع کروائی اور ملک کے دو مشہور صحافیوں سمیت دیگر صحافیوں نے بھی اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ٹوئیٹس بھی کردیں۔ کیوں؟ کیونکہ ایک لابی چاہتی ہے کہ موجودہ کمزور حکومت سے اسرائیل کو تسلیم کروا لیا جائے۔ ممبر قومی اسمبلی کی تقریر اور قرارداد اور پھر صحافیوں کی جانب سے اس حوالے سے گفتگو اس بات کی عکاسی ہے کہ ریاست کے دو اہم ستون اس حوالے سے بات کر رہے ہیں اور باقی کے دو ستون ابھی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ فی الوقت تو حکومت نے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے لیکن اس یو ٹرن حکومت پر کیا اعتبار کہ وہ کیا کرلے۔ یعنی صورتحال اتنی بھی نارمل نہیں ہے، جتنی بظاہر نظر آرہی ہے۔

وزیراعظم کی یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دباؤ موجود ہے۔ پہلے یہ دباؤ ہمیں مغربی ممالک کی جانب سے بیان بازی کی صورت میں آتا تھا، لیکن اب یہ دباؤ ہمیں عرب ممالک کی جانب سے بھی آرہا ہے۔ اہم عرب ریاستیں اسرائیل سے تعلقات قائم کرچکی ہیں اور اب پاکستان پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرے تاکہ سعودیہ عرب کےلیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ پاکستان کی خواہش اس کے برعکس ہے۔ اس حوالے سے متحدہ عرب امارات نے بھی دباؤ ڈال دیا ہے کہ پاکستانیوں کےلیے جاب اور وزٹ ویزے دونوں ہی بند کردیے ہیں۔ حکومتیں اس بابت کچھ بھی بیان کریں، لیکن یہ اظہر من الشمس ہے کہ درحقیقت یہ پابندی لگائی کیوں گئی ہے۔

یو اے ای میں مقیم پاکستانی سالانہ کروڑوں ڈالرز کا زر مبادلہ پاکستان بھیجتے تھے۔ یو اے ای کی کل آبادی 96لاکھ سے کچھ زائد ہے، جس میں 12 لاکھ پاکستانی بھی آباد ہیں۔ یہ بات تو یو اے ای بھی تسلیم کرتا ہے کہ یو اے ای کو ترقی دلوانے میں اگر حکمرانوں کا وژن تھا تو پاکستانیوں نے بھی خون پسینہ ایک کیا ہے۔ اس کا صلہ البتہ یہ ملا ہے۔ اس پابندی کا پاکستان کو نقصان ہے اور ہمارے ہمسایے بھارت کو اس کا فائدہ ہے، کیونکہ یہ جاب مارکیٹ اب انڈیا کے پاس چلی جائے گی جو کہ پہلے ہی بہت بڑی تعداد میں یو اے ای میں آباد ہیں۔ دوسرے مرحلے میں آباد پاکستانیوں کو تنگ کرنے کی رپورٹس بھی موجود ہیں کہ ان کےلیے حالات ہی ایسے کردیے جائیں کہ وہ یو اے ای سے نکل جائیں۔ یعنی ایک جانب ویزے بند کردیے ہیں اور دوسری جانب پہلے سے موجود پاکستانیوں کےلیے حالات ایسے ہونے جارہے ہیں کہ وہ بھی یو اے ای کو خیرباد کہہ دیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے پاکستانی واپس اپنے وطن آئیں گے اور جن ہزاروں پاکستانیوں نے یو اے ای جانا تھا، وہ یہیں رہیں گے۔

کورونا کی وجہ سے معیشت بیٹھ چکی ہے اور ملازمتیں ہیں ہی نہیں تو پھر یہ جو پاکستانی آئیں گے وہ کیا کریں گے؟ اب کیا کریں؟ احقر کا مشورہ یہی ہے کہ ایک منڈی بند ہوئی ہے تو دوسری منڈیاں دیکھی جائیں۔ ترکی ہے، آذربائیجان ہے، یہاں نظر دوڑائیے۔ یہاں سرمایہ کاری پر منافع یو اے ای جیسا یا اس سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ ہمیں یو اے ای جیسے ممالک سے اسرائیل کے حوالے سے بلیک میل ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حالات پہلے ہی خراب ہیں، لیکن اگر اس بابت بروقت اقدامات اٹھا لیے گئے تو حالات مزید خراب ہونے سے بچ جائیں گے اور آہستہ آہستہ بہتر ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ اور پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VnOQIp
via IFTTT

2020ء:دنیا کی 100بااثر خواتین ایکسپریس اردو

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے رواں برس دنیا کی 100 متاثر کن اور بااثر خواتین کی درجہ بندی کی ہے، اس میں جہاں دنیا بھر کی نام ور خواتین کے نام دکھائی دیتے ہیں، وہیں دو پاکستانی خواتین بھی یہاں اپنی جگہ بنانے میں کام یاب ہوئی ہیں۔

24 نومبر 2020ء کو جاری کی گئی اس فہرست میں ایسی خواتین کو شامل کیا گیا ہے، جو پریشان کُن حالات میں رہتے ہوئے بھی تبدیلی لانے کے لیے راہ نمائی کے ساتھ ساتھ اپنا متاثر کن کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس فہرست میں پہلا نمبر ایسی عورتوں کے اعزاز میں خالی چھوڑا گیا ہے، جنھوں نے تبدیلی کی کاوش میں اپنی جانیں قربان کر دیں۔۔۔

سو بااثر خواتین میں شامل پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کو خواتین پر تشدد اور رنگ گورا کرنے والی کریموں کے خلاف بولنے پر اس کا حصہ بنایا گیا، جو جنسی ہراسانی کے خلاف بھی آواز اٹھاتی ہیں۔ ماہرہ اقوام متحدہ کے لیے ’نیشنل گُڈ وِل ایمبیسڈر‘ بھی ہیں، جو پاکستان میں افغان مہاجرین کو آگاہی فراہم کر رہی ہیں۔

ان کے ساتھ 2018ء سے ’احساس پروگرام‘ کی سربراہ اور وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے خاتمہ غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر بھی اس فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ انھوں نے بطور معاون خصوصی برائے انسداد غربت وہ اقدام اٹھائے ہیں، جس کی مدد سے پاکستان ایک فلاحی ریاست بن سکے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کورونا‘ کے شدید اثرات نے ہمیں ایک ایسا موقع دیا ہے کہ ہم ایک انصاف پسند دنیا قائم کرنے کے ساتھ ساتھ غربت، عدم مساوات اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل کا خاتمہ کر سکیں، لیکن ان مقاصد کے حصول کے لیے عورتوں کو برابری کا درجہ ملنا ضروری ہے۔

ہندوستان کی 82 سالہ بلقیس، جنھوں نے نریندر مودی کے متنازع شہریت بل پر طویل احتجاج میں فعال حصہ لیا، وہ بھی اس زمرے میں شامل کی گئی ہیں، وہ رواں برس کے شروع تک دلی میں اُن شہریوں کے ساتھ آکر سڑک پر دھرنے میں بیٹھتی رہیں، جو اس قانون کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔ ’دادی‘ کے نام سے مشہور ہونے والی بلقیس کو بھی ’بی بی سی‘ نے دنیا کی بااثر خواتین کی فہرست کا حصہ بنایا ہے، وہ کہتی ہیں کہ عورتوں کو اپنے حق کے لیے اپنے گھر سے باہر نکلنا چاہیے، وہ اگر آواز نہیں اٹھائیں گی تو اپنے آپ کو مضبوط کیسے ثابت کریں گی۔‘

اس فہرست میں اس کے علاوہ چینی مصنفہ فینگ فینگ(Fang Fang) بھی شامل ہیں، جنھوں نے لاک ڈاؤن کے دوران ’ووہان‘ میں ہونے والے واقعات کو قلم بند کیا، جسے عالمی سطح پر بہت زیادہ پذیرائی ملی۔۔۔ جنوبی افریقا کی ایک گلوکارہ بولیلوا میکو مکوٹو کانا (Bulelwa Mkutukana) بھی شمار کی گئی ہیں، جنھوں نے خواتین پر تشدد کے حوالے سے آواز اٹھائی۔۔۔

اس فہرست کا ایک نمایاں نام فن لینڈ کی وزیراعظم سنامرین (Sanna Marin) کا ہے، جو ’آل فی میل کوالیشن گورنمنٹ‘ کی سربراہی کرتی ہیں۔ وہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں، دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی حکومت میں جتنی سیاسی جماعتیں ہیں، وہ سب خواتین ہی چلا رہی ہیں اور اس ’کورونا‘ کی وبا میں فِن لینڈ دنیا کے سب سے کم متاثرہ ممالک میں شمار ہوا۔ اس حوالے اُن کا کہنا ہے کہ ’’ہم عورتوں کی حکومت یہ دکھا سکتی ہے کہ اس وبا سے لڑنا اور ساتھ ہی ماحول کی آلودگی کو دور کرنا، تعلیم کو صحیح کرنا یہ سب ممکن ہے۔‘‘

سارا گلبرٹ (Sarah Gilbert) اوکسفرڈ یونیورسٹی کی کورونا وائرس ویکسین کے تحقیق کی سربراہ ہیں۔ ایتھوپیا کے چھوٹے شہر سے تعلق رکھنے والی لوزا ابیرا جنیوا (Loza Abera Geinore) کو بھی اس ’عالمی قطار‘ میں شامل کیا گیا ہے، جنھوں نے ’ایتھوپین ویمن پریمیئر لیگ‘ کھیلا، جس کی وجہ سے وہ کلب کی ٹاپ گول بنانے والی بنیں اور اب وہ ایک پیشہ ور فٹ بالر اور ساتھ ساتھ ایتھوپین ویمن نیشنل ٹیم کی رکن بھی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ’ہر عورت دنیا کی ہر چیز حاصل کر سکتی ہے، جو اس نے سوچا ہو۔‘

اس فہرست کا ایک اور نام ہودا ابوض (Houda Abouz) ہے، جو ایک مراکشی ریپر (Rapper) ہیں، وہ اپنے انوکھے انداز کے سبب زیادہ جانی جاتی ہیں اور وہ عورتوں کے حقوق اور برابری کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ اس مردوں کی دنیا میں وہ موسیقی کو بدلاؤ کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’’عورتوں کی جدوجہد ابھی صرف شروع ہوئی ہے اور ہم عورتیں وہ سب کچھ ہیں، جو اس دنیا کی ضرورت ہے۔ اس فہرست میں کرسٹینا اڈین (Christina) بھی شامل ہیں، جو ’یوکے‘ میں اس مہم کی روح و رواں تھیں، جس کا مقصد یہ تھا کہ ہر بچے کو مفت کھانا ملنا چاہیے اور کوئی بچہ بھوکا نہیں سونا چاہیے۔

اس جدوجہد میں ان کا ساتھ ایک معروف فٹ بالر مارکس ریشفرڈ نے دیا۔ سیرا لیون(Sierra Leone) کی میئر یووان آکی سویرا (Yvonne Aki-Sawyerr) بھی دنیا کی پراثر خواتین کا ایک نام ہیں، انھوں نے دو بہت اچھے کام کیے پہلا بدلاؤ وہ یہ لائیں کہ انھوں نے ماحول کی آلودگی دور کرنے کے لیے درخت لگانے کی مہم شروع کی اور وہ اس میں کام یاب ہوئیں اور انھوں نے ان درختوں کو لگانے میں بے روزگار لوگوں کی مدد لی، ان کا کہنا ہے کہ ’ہم کبھی کبھار الجھن اور ناخوش گواری کا شکار ہوتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسے ہر بار برائی کی طرف لیں، بلکہ ہم اس ایک اچھائی میں بھی تبدیل کر سکتے ہیں، اس طرح کہ ہم اپنی ناخوش گواری کو استعمال کرتے ہوئے، ایک ایسی تبدیلی لائیں جس کا ہم نے سوچا ہو۔‘‘

ایک اور بااثر نام سارہ ال امیری(Sarah Al-Amiri) ہے، جو متحدہ عرب امارات کی ٹیکنالوجی کی وزیر ہیں اور ’امارات‘ کی خلائی ایجینسی میں بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امارات کے خلائی مشن ڈپٹی پروجیکٹ منیجر بھی رہ چکی ہیں، جو عرب دنیا کا پہلا خلائی مشن ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس وبا نے بہت بربادی پھیلا دی ہے، جس میں ہمیں بغیر کسی مدد کے خود آگے بڑھنا ہوگا۔ اور اس دنیا کو بچانا ہوگا۔‘‘

شام کی صحافی اور ایوارڈ یافتہ فلم ساز وعد الا خطیب (Waad al-Kateab) بھی دنیا کی ان 100 خواتین کی فہرست کا حصہ ہیں، رواں برس ان کی دستاویزی فلم کو بہترین فلم کا ایوارڈ بھی ملا اور یہ ’اکیڈمی ایوارڈ‘ کے لیے نام زَد بھی کی گئی، وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم تب ہارتے ہیں جب ہم امید چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر عورت کے لیے چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہر اس چیز کے لیے لڑنا ہے، جس پر ہمیں یقین ہو۔ خواتین خواب دیکھتی رہیں اور ان سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ کبھی بھی امید نہ ہاریں۔‘‘

صومالی لینڈ کی ماہر تعلیم اُباہ علی (Ubah Ali) کا نام بھی اس شمار میں جگ مگا رہا ہے، وہ بچیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم ہیں، وہ ’امریکن یونیورسٹی آف بیروت‘ کی طالبہ ہیں اور لبنان میں تارکین وطن کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھاتی رہتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’2020 میں دنیا بہت بدل گئی ہے اور اس میں عورتوں کی یک جہتی کی بہت ضرورت ہے۔

نصرین علون (Nisreen Alwan) ایک ڈاکٹر، محقق اور معلمہ ہیں، وہ برطانیہ میں جو عورتوں کی صحت پر تحقیق کرتی ہیں، خاص طور پر ماں بننے والی خواتین کے حوالے سے ان کا خاصا کام ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران انھوں نے خاطر خواہ کام کیا، ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سال میں نے زیادہ تین چیزیں کیں، اپنے دماغ کی سنی، اور وہ کیا جس سے ڈر لگتا تھا اور اپنے آپ کو معاف کیا، میں نے اور تین چیزیں یہ کیں کہ اس پر دھیان نہیں دیا کہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اپنے آپ کو کم قصور وار ٹھیرایا اور یہ سوچا کہ میں دوسروں سے کم تر نہیں ہوں۔‘‘

افغانستان سے تعلق رکھنے والی لالہ عثمانی نے رواں برس عورتوں کو دھتکارنے کے خلاف ایک مہم میں کام یابی حاصل کی، جس کا نام تھا ’’میرا نام کہاں ہے؟‘‘ کیوں کہ افغانستان میں جب کوئی بیٹی پیدا ہوتی تھی تو ’پیدایشی سرٹیفکیٹ‘ میں اس کا نام نہیں آتا تھا، صرف والد کا نام لکھا ہوا ہوتا تھا، اسی طرح عورت کا نام ’شادی کارڈ‘ پر درج نہیں ہوتا تھا اور یہاں تک کہ جب وہ بیمار ہوتی تھی، تب بھی اس کا نام اسپتال کی رسید پر نہیں ہوتا تھا۔ ان سب چیزوں کی وجہ سے لالہ عثمانی نے یہ مہم شروع کی۔

تین سال لگاتار جدوجہد کے بعد 2020ء میں افغان حکومت نے سرکاری دستاویز پر لڑکیوں کے نام کو درج کرنے کی اجازت دے دی، ان کا کہنا ہے کہ ’’ہر انسان کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کرے۔ تبدیلی لانا مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اس کی مثال ہم عورتیں ہیں، جنھوں نے افغانستان جیسے ملک میں اپنی شناخت کے لیے لڑائی لڑی۔‘‘

جن خواتین کے بارے میں ہم نے آپ کو بتایا، ان کے علاوہ بھی بہت سے نام اس فہرست کا حصہ ہیں، ان عورتوں کی وجہ سے آج 90 فی صد عورتیں اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں، لوگ غلط بات کے خلاف آواز اٹھانے سے کتراتے نہیں اور ان عورتوں کی وجہ سے دنیا میں لوگ یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ عورتیں کسی سے کم نہیں۔۔۔ اور وہ بھی خواب دیکھ کر پورا کرنا بہت اچھے طریقے سے جانتی ہیں۔

The post 2020ء:دنیا کی 100بااثر خواتین appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3mqaDel
via IFTTT

کورونا کی ہلاکت خیزیاں؛ 24 گھنٹوں میں 66 افراد جاں بحق ایکسپریس اردو

اسلام آباد: ملک بھر میں کورونا وائرس کے وار جاری ہیں فعال کیسز کی تعداد 49 ہزار سے زائد ہوگئی جب کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 66 افراد کورونا کے باعث جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں 40 ہزار 969 کورونا ٹیسٹ کئے گئے، جس کے بعد مجموعی کوویڈ 19 ٹیسٹس کی تعداد 55 لاکھ 49 ہزار 779 ہوگئی۔

کورونا کے مریضوں کی تعداد کتنی؟

این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا کے 2 ہزار 458 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ جس کے بعد ملک بھرمیں مجموعی کیسز کی تعداد 4 لاکھ 482 ہوگئی۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 74 ہزار 350 ، پنجاب میں ایک لاکھ19 ہزار 578، خیبرپختونخوا 47 ہزار 370 ، اسلام آباد میں 30 ہزار 406، بلوچستان میں 17 ہزار 187 ، آزاد کشمیر 6 ہزار 933 اورگلگت بلتستان میں 4 ہزار 658 تعداد ہوگئی۔

2ہزار سے زائد مریضوں کی حالت تشویشناک

این سی او سی کے مطابق فعال کیسز کی تعداد بڑھ کر 49 ہزار 105 ہوگئی جن میں سے 2 ہزار 165 مریضوں کی تعداد تشویشناک ہے۔

صحت یاب مریضوں کی تعداد

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید ایک ہزار 863 افراد نے کورونا کو شکست دے دی ہے جس کے بعد کورونا وائرس میں مبتلا 3 لاکھ 43 ہزار 268 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔

کورونا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 66 اموات رپورٹ ہوئیں جس کے بعد مجموعی اموات کی تعداد 8 ہزار 091 ہوگئی۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پا نی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post کورونا کی ہلاکت خیزیاں؛ 24 گھنٹوں میں 66 افراد جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3mtutpd
via IFTTT

خاتون نے اپنی زندگی بلیوں کے لیے وقف کر دی،گھر میں500بلیاں اکٹھی کر لیں ... ماہانہ 12لاکھ روپے پاکستانی خرچ کر کے خاتون ان آوارہ بلیوں اور کتوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں

نوکیلے دانتوں والے خوفناک ٹک ٹاکرز ... لگتا ہے ٹک ٹاکرز بوڑھے ہونے سے پہلے ہی بتیسی لگوانے کے خواہاں ہیں

محسن فخری کے قتل کے بعد ایران کے ایک اور کمانڈر ڈرون حملے میں ہلاک کر دیے گئے ... سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر مسلم شاہدان کو شام کے سرحدی علاقے میں نشانہ بنایا گیا

کورونا وائرس سے بچنے کے لیے جہاز نے بھی ماسک پہن لیا ... دنیا بھر میں پھیلی وبا سے متعلق آگہی دینے کے لیے انڈونیشیا کی ہوائی کمپنی کا انوکھا اقدام

ٹک ٹاک نے ایک اور جان لے لی،گولی چلنے سے نوجوان جانبحق ... سکیورٹی گارڈ نے ٹک ٹاک بنانے کے لیے بندوق اپنے سینے پر رکھ کر گولی چلا دی

اپوزیشن کی احتجاجی تحریک، تبدیلی لا بھی سکتی ہے؟

Sunday, November 29, 2020

نیوزی لینڈ میں موجود یونس خان نے اپنی سالگرہ روزہ رکھ کر منائی ... سابق کپتان نے انکشاف کیا کہ یہ ان کا 5واں روزہ ہے

عالمی شہرت یافتہ اسکالر مولانا طارق جمیل کی علامہ خادم حسین رضوی کی رہائش گاہ آمد ... صاحبزادے سے تعزیت کی ، علامہ خادم رضوی کی قبر پر فاتحہ خوانی بھی کی

جلسوں کا رتی بھر جواز نہیں ، انسانی جانوں سے کھیلنے نہیں دیں گے ، عثمان بزدار ... قومی ذمہ داریوں کو سمجھنے سے قاصر اپوزیشن نے قومی مفاد کو پس پشت ڈال دیا ، وزیراعلیٰ پنجاب ... مزید

شیخوپورہ کے قریب بس اور وین میں تصادم، 12 افراد جاں بحق ایکسپریس اردو

شیخو پورہ: نارنگ منڈی میں کالاخطائی روڈ پردربار کے قریب بس اور ٹویوٹا وین کے درمیان خوفناک تصادم کے نتیجے میں 12 افراد جاں بحق اور 15 زخمی ہوگئے۔

نارنگ منڈی میں کالاخطائی روڈ پردربار کے قریب بس اور ٹویوٹا وین کے درمیان خوفناک تصادم کے نتیجے میں 12 افراد جاں بحق اور 15 کے قریب زخمی ہوگئے، واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو 1122 اور دیگر امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق حادثے کے نتیجے میں بس اور وین کو آگ لگ گئی جس کے باعث متعدد مسافر جھلس کر زخمی ہوئے جب کہ آگ لگنے کی وجہ سے بس اور وین دونوں جل کر خاکستر ہوگئے، آگ لگنے کی وجہ وین میں لگا گیس سلنڈر بتائی جارہی ہے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے شیخوپورہ کے قریب ٹریفک حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا، وزیراعلیٰ نے حادثے میں زخمیوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ انتظامی افسران اور منتخب نمائندے زخمیوں کو فراہم کی جانے والی طبی سہولتوں کی مانیٹرنگ کریں۔

The post شیخوپورہ کے قریب بس اور وین میں تصادم، 12 افراد جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VdNlMW
via IFTTT

ملتان میں پی ڈی ایم جلسہ؛ اپوزیشن اور حکومت آمنے سامنے ایکسپریس اردو

ملتان: قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم میں آج پی ڈی ایم جلسے کے سلسلے میں اپوزیشن جماعتیں اور حکومت آمنے سامنے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے آج ملتان کے قاسم باغ اسٹیڈیم میں جلسے کا اعلان کررکھا ہے جب کہ حکومت نے کورونا کے پیش نظر جلسہ نہ ہونے دینے کا تہیہ کررکھا ہے۔ قاسم باغ اسٹیڈیم کے دروازوں پر تالے ہیں، اس لئے قاسم باغ میں جلسے کا کوئی انتظام نہیں ہوسکا، اسٹیڈیم سے پی ڈی ایم جماعتوں کے جھنڈے اور بینرز بھی اتار دئیے گئے ہیں۔

قاسم باغ اسٹیڈیم اطراف کے علاقوں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ شہر کے بیشتر مقامات پر کنٹینر لگا کر سڑکوں کو بند کردیا گیا ہے جس سے عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مختلف علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل  ہے۔

داخلی و خارجی راستوں پر پولیس تعینات

اپوزیشن کے کارکنوں کو روکنے کے لیے ملتان کے داخلہ اور خارجی راستوں پر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، دیگر شہروں سے ملتان کے لئے بسیں بک کرنے پربھی پابندی لگادی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ملتان اور گرد و نوح کے علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کی اضافی نفری، آنسو گیس شیل اور ربڑ کی گولیاں بھی منگوا لی گئی ہیں۔

مقدمات کا اندراج

2 روز قبل باغ قاسم اسٹیڈیم پر قبضے کے الزام میں ملتان کے تھانہ لوہاری گیٹ پولیس اسٹیشن میں 80 افراد نامزد اور 1800 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ نامزد ملزموں میں یوسف رضا گیلانی کے چاروں بیٹے،جاوید ہاشمی کے داماد زاہد بہار ہاشمی، جے یو آئی کے سینیٹر عبدالغفور حیدری، اور دیگر نامزد ہیں، علی قاسم گیلانی کو پہلے ہی ایک ماہ کے لیے جیل بھیجا جاچکا ہے جب کہ زاہد بہار ہاشمی سمیت درجنوں افراد پولیس کی تحویل میں ہیں۔

اپوزیشن نے بھی کمر کس لی

دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آج ملتان کا جلسہ ہر حال میں ہوگا۔ اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں نے حکمت عملی بھی تیار کرلی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کے کورونا کا شکار ہونے کے باعث بے نظیر بھٹو کی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری بھی آج سے قومی سیاست میں انٹری دے رہی ہیں، وہ یوسف رضا گیلانی کی رہائش گاہ پر موجود ہیں۔

ادھر مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جلسہ ناکام بنانے کے لیے حکومت غیر قانونی راستے اختیار کررہی ہے، ووٹ چور ٹولہ جلسے روکنے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہا ہے لیکن لوگ حکومت کے خلاف اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں۔ آج کا جلسہ ہوکر رہے گا۔

The post ملتان میں پی ڈی ایم جلسہ؛ اپوزیشن اور حکومت آمنے سامنے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fQIcUo
via IFTTT

فلم “زندگی تماشا” آسکرایوارڈزمیں نامزدگی کے لیے منتخب ایکسپریس اردو

 لاہور: پاکستان اکیڈمی سلیکشن نے حساس موضوع پربنی فلم “زندگی تماشا” کوآسکرمیں نامزدگی کے لیے چن لیا۔

سرمد کھوسٹ کی ہدایتکاری میں بننے والی حساس موضوع اورکہانی کے باعث متنازع فلم “زندگی تماشا” کو پاکستان اکیڈمی سلیکشن نے آسکرمیں نامزدگی کے لیے چن لیا ہے۔ فلم کو93 ویں اکیڈمی ایوارڈزمیں نامزدگی کے لیے پیش کیا جائے گا۔

فلم کے مرکزی کرداروں میں ایمان سلیمان، عارف حسن، سمعیہ ممتازاورعلی قریشی شامل تھے جب کہ فلم کی کہانی نرمل بانونے لکھی تھی۔

فلم کوریلیزکے بعد خاصا تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جس پرہدایتکارکی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط بھی لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فلم کی کہانی کسی کے جذبات کوٹھیس پہنچانے کے لیے نہیں بنائی۔

اس خبرکو بھی پڑھیں: مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں کہ ’زندگی تماشا‘ ریلیز نہ کروں، سرمد کھوسٹ

فلم نے اس سے قبل جنوبی کوریا کے شہربوسان میں منعقد ہونے والے فلم فیسٹیول میں کم جی سیوک ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔

واضح رہے کہ فلم کی کہانی ایک نعت خواں کے گرد گھومتی ہے جس سے ایک غلطی ہوجاتی اوراس غلطی کے باعث اس کی زندگی تماشا بن جاتی ہے۔

The post فلم “زندگی تماشا” آسکرایوارڈزمیں نامزدگی کے لیے منتخب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37gLn4c
via IFTTT

پاکستان میں بھی فٹبال لیجینڈ ڈیگومیرا ڈونا کوخراج عقیدت پیش ایکسپریس اردو

 لاہور: دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی فٹبال لیجینڈ ڈیگومیرا ڈونا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

لاہور کے پنجاب اسٹیڈیم میں نیشنل چیلنج کپ فٹبال کی افتتاحی تقریب میں ڈیگو میراڈونا اور قومی فٹبالرولی محمد کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ ترجمان فٹبال فیڈریشن کے مطابق بیس دسمبر تک ہر میچ سے میرا ڈونا کے ساتھ ساتھ سابق کپتان ولی محمد کی خدمات کے اعتراف کے طور پر چیلنج کپ کے ہر میچ سے پہلے ایک منٹ کی خاموشی ہواکرے گی۔بیس دسمبر تک جاری رہنے والے ایونٹ کے پہلے میچ میں دفاعی چیمپیئن آرمی اور بلوچ فٹبال کلب نوشکی مدمقابل تھے۔

ایونٹس میں مجموعی طور پر اٹھائیس ٹیمیں شریک ہیں اوران کے درمیان اٹھاون میچز کھیلے جائیں گے۔ آرمی کی ٹیم اپنے اعزاز کا دفاع کرے گی۔

The post پاکستان میں بھی فٹبال لیجینڈ ڈیگومیرا ڈونا کوخراج عقیدت پیش appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3qehycT
via IFTTT

پاک ترک پروڈکشن کمپنیزکا معائدہ؛ عدنان صدیقی اورہمایوں سعید بھی منصوبے کا حصہ ایکسپریس اردو

 کراچی: پاک ترک پروڈکشن کمپنیوں کے درمیان معائدے میں اداکارعدنان صدیقی اورہمایوں سعید کوبھی منصوبے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

انسٹاگرام ایپ پرپاکستان کے مایہ نازاداکارعدنان صدیقی نے ایک پوسٹ شیئرکی جس سے معلوم ہوا کہ پاکستان کے انصاری فلمزاور ترکی کے تکدن فلمزپروڈکشن ہاؤسزکے درمیان مشترکہ منصوبے پرکام کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاک ترک پروڈکشن کمپنیوں کے درمیان معائدہ میں اداکارعدنان صدیقی اورہمایوں سعید کو بھی منصوبے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اس متعلق اداکارعدنان صدیقی نے کہا کہ میں نے ہمیشہ اس بات پریقین رکھا ہے کہ آرٹ کو بین الاقوامی اور جغرافیائی سیاسی حدود کے بالا ترہونا چاہیئے، اوراس طرف یہ میرا چھوٹا قدم ہے۔

The post پاک ترک پروڈکشن کمپنیزکا معائدہ؛ عدنان صدیقی اورہمایوں سعید بھی منصوبے کا حصہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ltHJsR
via IFTTT

کورونا کے حامل سرفرازاورمحمد عباس کو دوبارہ اسکواڈ جوائن کرنے کی اجازت ایکسپریس اردو

 لاہور: دوہسٹارک کیسزکے حامل ارکان کودوبارہ اسکواڈ جوائن کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ میں موجود قومی اسکواڈ کی تیسری کوویڈ 19 ٹیسٹنگ مکمل ہوگئی۔ دوہسٹارک کیسزکے حامل ارکان کودوبارہ اسکواڈ جوائن کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ کرکٹر محمد عباس اور سرفراز احمد ہیں۔

طبی طور پر ان دونوں ارکان کو نان انفیکشیس قراردیا گیا ہے۔ یہاں لیے گئے پہلے کوویڈ 19 ٹیسٹ میں چھ ارکان کے رزلٹ مثبت آئے تھے۔ ان چھ میں سے دو اراکین کو ہسٹارک کیسزقراردیا گیا تھا۔

نیوزی لینڈ میں موجود قومی کرکٹرز اوراسپورٹ اسٹاف کی ہوٹل سے متصل گراؤنڈ میں چہل قدمی اور ہلکی پھلکی ٹریننگ جاری ہے
پی سی بی پرامید ہے کہ کوویڈ 19 کے آج ہونے والے ٹیسٹ کے نتائج کے بعد قومی اسکواڈ کو گراؤنڈ میں ٹریننگ کی اجازت مل جائے گی۔

The post کورونا کے حامل سرفرازاورمحمد عباس کو دوبارہ اسکواڈ جوائن کرنے کی اجازت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3odY5HP
via IFTTT

کورونا بے قابو، گذشتہ چوبیس گھںٹوں کے دوران 40 مزید اموات ... ملک بھر میں کورونا کے 2839 نئے کیسز رپورٹ ہو گئے

گرفتاری کے بعد بھی شہباز شریف کا بیانیہ تبدیل نہیں ہوا ، حکومت کیلئے اہم مشورہ ... مسلم لیگ ن کے صدر کا اب بھی یہی بیانیہ ہے کہ ڈائیلاگ ہونے چاہیئیں ، حکومت ہوش کے ناخن لے ... مزید

سابق صوبائی وزیر سندھ عادل صدیقی کورونا سے انتقال کرگئے ... ایم کیوا یم کے رہنما کو عالمی وباء میں مبتلا ہونے کے بعد انہیں تشویشناک حالت میں کراچی کے ایک نجی ہسپتال منتقل ... مزید

ملتان جلسہ ، پی ڈی ایم قیادت کو نظر بند کرنے کی اجازت طلب ... ضلعی انتظامیہ نے آصفہ بھٹو زرداری ، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر پی ڈی ایم قیادت کو نظر بند کرنے ... مزید

’کاون‘ ہاتھی خصوصی پرواز کے ذریعے کمبوڈیا بھجوادیا گیا ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: دنیا کے سب سے تنہا ہاتھی قرار دیئے گئے ’کاون‘ کو خصوصی پرواز کے ذریعے بالآخر کمبوڈیا روانہ کردیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر اسلام آباد چڑیا گھر سے رہائی پانے والے کاون ہاتھی کو روسی ساختہ خصوصی طیارے کے ذریعے پیر کی صبح براستہ نئی دہلی بالآخر کمبوڈیا روانہ کردیا گیا ہے۔ کاون کے ہمراہ 8 ٹیکنیکل اور 2 ڈاکٹرز پر مشتمل غیرملکیوں کی 10 رکنی ٹیم بھی کمبوڈیا گئی ہے۔

کاون کو خصوصی کنٹینر میں اسلام آباد ائیرپورٹ لایا گیا تھا جہاں کرین کی مدد سے اسے جہاز میں لوڈ کیا گیا، کاون کو گزشتہ شب 8 بجے روانہ کیا جانا تھا لیکن بھارت کی جانب سے طیارے کا اجازت نہ ملنے پر کاون ہاتھی کی روانگی میں تاخیر ہوئی۔

’کاون‘ کی کہانی کیا ہے؟

’کاون‘ 1981 میں سری لنکا میں پیدا ہوا۔ 1985 میں سری لنکن حکومت نے اسے پپاکستان کو تحفے میں دیا تھا ۔ تب سے وہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں ہی تھا۔ 1991 میں بنگلا دیش نے پاکستان کو ایک ہتھنی تحفے میں دی جس کا نام ’سہیلی‘ رکھا گیا۔ 2012 میں سہیلی کے مر جانے کے بعد ’کاون‘ دن بدن ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا چلا گیا، ایک وقت ایسا آیا جب وہ اپنا سر ایک سے دوسری جانب ہلاتا رہتا یا دیواروں اور درختوں سے سر ٹکراتا۔

2016 میں سینیٹ کی کمیٹی نے کاون کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا حکم دیا گیا لیکن متعلقہ حکام کی جانب سے پس و پیش کی گئی، معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں گیا جہاں سے آنے والے حکم پر کاون کو بالآخر کمبوڈیا روانہ کردیا گیا جہاں وہ اپنی باقی کی زندگی دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ گزارے گا۔

The post ’کاون‘ ہاتھی خصوصی پرواز کے ذریعے کمبوڈیا بھجوادیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3llOWL6
via IFTTT

نیوزی لینڈ میں موجود قومی اسکواڈ کی تیسری کوویڈ 19 ٹیسٹنگ مکمل ہوگئی ایکسپریس اردو

 لاہور: نیوزی لینڈ میں موجود قومی اسکواڈ کی تیسری کوویڈ 19 ٹیسٹنگ مکمل ہوگئی۔

پی سی بی ترجمان کے مطابق دوہسٹارک کیسز کے حامل ارکان کو دوبارہ اسکواڈ جوائن کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔طبی طور پر ان دونوں ارکان کو نان انفیکشیس قراردیا گیا ہے۔ یہاں لیے گئے پہلے کوویڈ 19 ٹیسٹ میں چھ ارکان کے رزلٹ مثبت آئے تھے
ان چھ میں سے دو اراکین کو ہسٹارک کیسزقراردیا گیا تھا۔

نیوزی لینڈ میں موجود قومی کرکٹرزاوراسپورٹ اسٹاف کی ہوٹل سے متصل گراؤنڈ میں چہل قدمی اورہلکی پھلکی ٹریننگ جاری ہے۔ پی سی بی پرامید ہے کہ کوویڈ 19 کے آج ہونے والے ٹیسٹ کے نتائج کے بعد قومی اسکواڈ کو گراؤنڈ میں ٹریننگ کی اجازت مل جائے گی۔

The post نیوزی لینڈ میں موجود قومی اسکواڈ کی تیسری کوویڈ 19 ٹیسٹنگ مکمل ہوگئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3mkGwVH
via IFTTT

کورونا نے مزید 40 جانیں لے لیں، جاں بحق افراد کی تعداد 8025 ہوگئی ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: کورونا وبا نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 40 افراد کی جانیں لے لیں جس کے بعد ملک میں اس وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 8025 ہوگئی ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں 33 ہزار 302 کورونا ٹیسٹ کئے گئے، جس کے بعد مجموعی کوویڈ 19 ٹیسٹس کی تعداد 55 لاکھ 8 ہزار 810 ہوگئی ہے۔

کورونا کی مریضوں کی تعداد کتنی؟

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں مزید 2 ہزار 839 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے، اس طرح پاکستان میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 98 ہزار 24 ہوگئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک سندھ میں ایک لاکھ 73 ہزار 14، پنجاب میں ایک لاکھ 19 ہزار 35، بلوچستان میں 17 ہزار 158، خیبر پختونخوا میں 47 ہزار 190، اسلام آباد میں 30  ہزار 123، آزاد کشمیر میں 6 ہزار 855 اور گلگت بلتستان میں 4 ہزار649 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔

صحتیاب مریضوں کی تعداد

این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید ایک ہزار 613 افراد نے کورونا کو شکست دے دی ہے جس کے بعد اس وبا کے خلاف جاری جنگ جیتنے والے افراد کی تعداد 3 لاکھ 41 ہزار 423 ہوگئی ہے۔

جاں بحق افراد کی تعداد 8000 سے متجاوز

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا سے مزید 40 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جس کے بعد اب اس وبا سے جاں بحق ہونے والے مصدقہ مریضوں کی تعداد 8025 ہوگئی ہے۔

2046 کی حالت تشویشناک

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد بڑھ کر 48 ہزار 576 ہوگئی ہے، جن میں سے 2 ہزار 46 کی حالت تشویشناک ہے۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پا نی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post کورونا نے مزید 40 جانیں لے لیں، جاں بحق افراد کی تعداد 8025 ہوگئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fRBIVE
via IFTTT

سلواوورریٹ کی پاداش میں پی سی بی بلاسٹرزپرجرمانہ ایکسپریس اردو

 کراچی: قومی ویمنز ٹی 20 کرکٹ چیمپئن شپ میں سلو اوور ریٹ کے سبب پی سی بی بلاسٹرز پر 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیاگیا۔

چیلنجرزسے میچ میں بلاسٹرزکی ٹیم نے مقررہ وقت میں ایک اوور کم کیا، جرمانہ آن فیلڈ امپائرز عبدالمقیط اور حمیرا فرح نے عائد کیا تھا، ٹیم کیخلاف یہ کارروائی شکوڈ آف کنڈکٹ آرٹیکل 2.22 کے تحت عمل میں لائی گئی۔

بلاسٹرز کی کپتان عالیہ ریاض نے غلطی کو تسلیم کرلیا، اس کے بعد میچ ریفری ثمن ذوالفقار نے جرمانے کا فیصلہ صادر کردیا۔

The post سلواوورریٹ کی پاداش میں پی سی بی بلاسٹرزپرجرمانہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3q6MvQt
via IFTTT

کمروں میں بندکرکٹرز ذہنی دباؤ کا شکار ایکسپریس اردو

 کراچی:  کمروں میں بند کرکٹرز ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئے، بعض نے ٹیم مینجمنٹ سے شکوہ بھی کردیا۔

انھیں ملک کیلیے ’’برداشت‘‘ کرنے کا جواب مل گیا،پیر کو تیسرے کورونا ٹیسٹ کے بعد ٹریننگ کی اجازت کا فیصلہ ہوگا، ڈبوں میں کھانا وصول کرنے اور صرف چند منٹ کیلیے چہل قدمی کی اجازت پر کھلاڑی سخت نالاں ہیں،  ان کے مطابق وہ ملک کے سفیربن کر نیوزی لینڈ آئے اور ایسے سلوک کی توقع نہ تھی،دوسری جانب پی سی بی کھلاڑیوں کی ذہنی حالت کو بہتر بنانے کیلیے رواں ہفتے ماہر نفسیات کے آن لائن سیشنز کا اہتمام کرے گا۔ دریں اثنا کورونا کا شکار ہونے والے ساتویں کرکٹر ایک نوجوان فاسٹ بولر ہیں۔

انھیں تینوں طرز کی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے، صحتیاب ہونے پرحالیہ ٹور میں وہ شاہینز کی جانب سے ایکشن میں نظر آئیں گے۔ تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ میں ہوٹل کے کمروں میں بند رہنے سے پاکستانی کرکٹرز ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو گئے ہیں،بعض نے اس حوالے سے ٹیم مینجمنٹ سے بات بھی کی ہے،بیشتر کھلاڑی دورۂ انگلینڈ سے ہی بائیو ببل میں رہ رہے ہیں،ٹور سے واپسی پر زمبابوے سے سیریز، ڈومیسٹک کرکٹ اور پی ایس ایل کے دوران بھی مختلف ماحول میں رہنا پڑا، اس دوران گنتی کے چند دن ہی گھر والوں کے ساتھ گذارے، نیوزی لینڈ آنے کے تین دن بعد گروپس کی شکل میں اگلے 11 روز ٹریننگ کی اجازت ملنا طے تھا مگر 6 کرکٹرز کی مثبت کورونا ٹیسٹ نے معاملہ خراب کر دیا، کھلاڑیوں کو نئے سرے سے آئسولیشن شروع کرنا پڑی، دوسری ٹیسٹنگ میں مزید ایک کھلاڑی کو وائرس کی زد میں پایا گیا، اب پیر کو تیسرے ٹیسٹ کے بعد ٹریننگ کی اجازت کا فیصلہ ہوگا۔

کرائسٹ چرچ کی لنکولن یونیورسٹی کے ہوٹل میں پاکستانی کرکٹرز بہت سخت دن گذار رہے ہیں، آغاز میں بغیر ماسک لیے کھانا لینے اور کمرے کے باہر کھڑے ہونے پر انھیں سرزنش کا سامنا کرنا پڑا تھا،وزارت صحت نے فائنل وارننگ دی ہوئی ہے کہ اب اگر ضوابط کی خلاف ورزی کی تو ٹیم کو واپس بھیج دیا جائے گا، بورڈ نے بھی کھلاڑیوں کو حد سے زیادہ محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے، اس صورتحال میں ٹیم بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوگئی، پلیئرز کمروں میں بند رہ کراکتا گئے اور ذہنی دباؤ میں مبتلا ہیں انھیں کھانا بھی اب پلیٹس کے بجائے ڈبوں میں دیا جاتا ہے، چند منٹ کی چہل قدمی کے دوران ہی فاصلہ رکھتے ہوئے ۔

ساتھیوں سے بات چیت کی اجازت ہوتی ہے،کئی کرکٹرز کا کہنا ہے کہ وہ یہاں پاکستانی سفیر بن کر آئے اور ایسے سلوک کی قطعی امید نہ تھی،ہمارے ملک میں غیرملکی ٹیموں کو اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا جاتا ہے اور ہم سے یہاں ایسا برتاؤ ہو رہا ہے، ٹیم مینجمنٹ نے ان سے کہا ہے کہ ملک کے لیے  یہ سب کچھ برداشت کر لیں۔

ذرائع نے بتایا کہ کئی کرکٹرز نے حکام سے ذہنی دباؤ کی شکایت کر دی،اس پر پی سی بی نے ماہرنفسیات کے سیشنز رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، انگلینڈ میں اسپیشلسٹ سے بات کی گئی تھی مگر وہاں کا ٹائم نیوزی لینڈ سے13 گھنٹے پیچھے ہے اس لیے مشکل ہونے لگی، اسی طرح مقامی ماہر نفسیات کی خدمات لیں تو لینگوئج کا زیادہ مسئلہ ہو سکتا ہے، البتہ بورڈ کو امید ہے کہ اسی ہفتے آن لائن سیشنز کیلیے کسی ماہرنفسیات سے بات ہو جائے گی،ذرائع نے مزید بتایا کہ نیوزی لینڈ کی جانب سے دورہ ختم کرنے کی دھمکی کا پاکستان نے خاصا بْرا منایا تھالیکن وہاں کے بورڈ نے اپنے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ  حکومت کے سامنے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، البتہ اس کے بعد سے سخت زبان  کا استعمال نہیں ہوا۔

اس کے برعکس پاکستانی ٹیم کے رویے کو سراہا ہی گیا ہے، ہفتے کو نیوزی لینڈ کرکٹ نے آئندہ  برس جوابی دورے کا عندیہ دے کر ماحول مزید  بہتر بنانے کی کوشش کی، پی سی بی کو یہ بھی فکر ہے کہ ٹریننگ نہ کرنے سے کہیں سیریز میں ٹیم کی کارکردگی متاثر نہ ہو جائے، اسی لیے نیوزی لینڈ کرکٹ سے جلد اجازت کے حوالے سے بھی رابطہ کیا کیا گیا ہے۔دریں اثنا کورونا کا شکار ہونے والے ساتویں کرکٹر ایک فاسٹ بولر ہیں،وہ دوسرے ٹیسٹ میں مثبت نتیجے کے حامل قرار پائے تھے، ممکنہ طور پر انھیں شاہینز کے کسی کھلاڑی سے ہی وائرس لگا، انھیں تینوں طرز کی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے، صحتیاب ہونے پرحالیہ ٹور میں وہ شاہینز کی جانب سے ایکشن میں نظر آئیں گے، نمائندہ ’’ایکسپریس‘‘ کو ان کے نام کا علم ہے مگر پرائیوسی برقرار رکھنے کیلیے شائع نہیں کیا جا رہا۔

The post کمروں میں بندکرکٹرز ذہنی دباؤ کا شکار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3o7rQd3
via IFTTT

2 پاکستانی کرکٹرزکا نتیجہ ماضی کی وجہ سے مثبت ایکسپریس اردو

 کراچی:  نیوزی لینڈ آتے ہی کورونا وائرس کا شکار پائے جانے والے 2 کھلاڑیوں کا نتیجہ ماضی کی وجہ سے مثبت آیا۔

نیوزی لینڈ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ انھیں اب متاثرہ نہیں سمجھا جائے گا،جلد باقی اسکواڈ کو جوائن کرنے کا امکان ہے، سیرولوجی ٹیسٹ سے53 رکنی دستے کے 11 کھلاڑیوں کے وبا کی زد میں پہلے آنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستانی ٹیم کے دورۂ نیوزی لینڈ کا آغاز اچھا نہیں ہوا، قدم رکھتے ہی اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم کو گلے میں خراش کی وجہ سے آئسولیٹ ہونا پڑا، پھر6 پلیئرز کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا، بعد میں مزید ایک کھلاڑی کا اضافہ ہوگیا۔

گذشتہ روز یہ انکشاف ہوا کہ آغاز میں ابتدائی6 پلیئرز میں سے 2 ماضی میں وبا کا شکار رہنے کی وجہ سے مثبت قرار پائے، اس بات کا اعتراف خود نیوزی لینڈ کی وزارت صحت کے حکام نے کیا ہے، ترجمان نے کہا کہ سیرولوجی ٹیسٹنگ کے بعد 6 میں سے 2 کو ماضی کے کیسز سمجھا جائے گا،ان دونوں کو اسپیشل آئسولیشن سے نکال کر نیگیٹو ارکان کے گروپس میں شامل کرنے کا فیصلہ پیر کو ہوگا۔ نیوزی لینڈ کے ہیلتھ آفیشل نے مزید کہاکہ کرائسٹ چرچ میں موجود پاکستانی دستے کے تمام 53 ممبران کا سیرولوجی ٹیسٹ ہوا، اس میں مذکورہ 2 کے علاوہ بھی 11 افراد کے ماضی میں کورونا وائرس کا شکار رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔

یاد رہے کہ جولائی میں انگلینڈ روانگی سے قبل جب کھلاڑیوں کے کورونا وائرس ٹیسٹ لیے گئے تو حیدرعلی، حارث رؤف، شاداب خان، کاشف بھٹی، فخر زمان، عمران خان، محمد حفیظ، محمد رضوان، محمد حسنین، وہاب ریاض اور مساجر ملنگ علی کے نتائج مثبت آئے تھے، ان میں سے فخر، کاشف اور عمران خان موجودہ دورۂ نیوزی لینڈ کا حصہ نہیں ہیں۔ کیوی حکام کی جانب سے واضح نہیں کیا گیا کہ ماضی میں اس وائرس کا شکار رہنے والے 11 افراد کون سے ہیں۔

The post 2 پاکستانی کرکٹرزکا نتیجہ ماضی کی وجہ سے مثبت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36kwVsr
via IFTTT

اسٹیون اسمتھ بھارت کیلیے وبال جان بن گئے ایکسپریس اردو

سڈنی: اسٹیون اسمتھ بھارت کیلیے وبال جان بن گئے، لگاتار دوسری سنچری سے آسٹریلیا کو دوسرے ون ڈے میں 51 رنز سے فتح دلا دی۔

سیریز میں بھی 0-2 کی ناقابل شکست برتری مل گئی، فاتح سائیڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 4 وکٹ پر 389 رنز بنائے، اسمتھ نے 104 رنز اسکور کیے، ڈیوڈ وارنر، مارنس لبوشین، گلین میکسویل اور ایرون فنچ نے بھی ففٹیز سے فتح میں حصہ ڈالا، جواب میں مہمان ٹیم 9 وکٹ پر 338 رنز تک محدود رہی، ویرات کوہلی کے 89 اور لوکیش راہول کے 76 رنز ناکافی ثابت ہوئے۔

پیٹ کمنز نے 3وکٹیں لیں۔ تفصیلات کے مطابق آسٹریلوی کپتان ایرون فنچ نے بیٹنگ کیلیے موزوں کنڈیشنز پر پہلے بیٹنگ کے اپنے فیصلے کو درست ثابت کر دیا، انھوں نے ساتھی اوپنر ڈیوڈ وارنر کے ہمراہ 142 رنز کی شراکت بنائی، انھوں نے 60 رنز بنائے،وارنر 83 کے انفرادی اسکور پر رن آؤٹ ہوئے، سابق کپتان اسٹیون اسمتھ نے مسلسل دوسرے میچ میں سنچری مکمل کرتے ہوئے 104 رنز بنائے، مارنس لبوشین نے 70 اور گلین میکسویل نے ناقابل شکست 63 رنز سے ٹیم کا ٹوٹل 4 وکٹ پر 389 تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

جواب میں بھارتی ٹیم نے سیریز میں واپسی کیلیے احتیاط سے اننگز کا آغاز کیا، میانک اگروال (28) اور شیکھر دھون (30) کے درمیان اوپننگ شراکت 58 رنز تک محدود رہی، کپتان ویرات کوہلی اور لوکیش راہول نے ٹیم کو ہدف کی جانب گامزن رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے بالترتیب 89 اور 76 رنز بنائے مگر ان کی یہ کاوش ناکافی ثابت ہوئی۔

بھارتی سائیڈ مقررہ اوورز میں 9 وکٹ پر 338 رنز تک محدود رہی، پیٹ کمنزنے 3 جبکہ جوش ہیزل ووڈ اور ایڈم زامپا نے 2، 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

The post اسٹیون اسمتھ بھارت کیلیے وبال جان بن گئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3mmIbtV
via IFTTT