وفاقی کابینہ نے ریپ کے انسداد ( انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل ) کے آرڈیننس مجریہ دو ہزار بیس کی منظوری دے دی ہے۔ عموماً ایک آرڈیننس کی عمر ایک سو بیس دن ہوتی ہے اور مدتِ نفاذ میں توسیع نہ ہو تو وہ خود بخود غیر موثر ہو جاتا ہے۔
تا آنکہ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری حاصل کی جائے۔ امید ہے کہ معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے مستقل قوانین کا حصہ بنانے میں روایتی تساہل نہیں برتا جائے گا۔ ممکن ہے پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اس میں اضافی تبدیلیاں و ترامیم بھی ہوں۔
فی الحال آرڈیننس کے جس مسودے کی وفاقی وزارتِ قانون نے منظوری دی ہے اس کے مطابق ریپ کی تعریف وسیع کی گئی ہے۔ مقدمات کی تیز رفتار سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم ہوں گی۔ ایف آئی آر کے فوری اندراج ، طبی معائنے اور ثبوتوں کی ترنت جانچ کا عمل یقینی بنانے کے لیے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کرائسس سیل قائم کیے جائیں گے۔ قانونی طبی معائنے کے دوران ریپ متاثرین کے لیے غیر مہذب ڈبل فنگر ٹیسٹ کی ممانعت ہو گی۔
عدالت میں بحث کے دوران ریپ متاثر سے جرح کی اجازت صرف اس کے وکیل یا جج کو ہو گی۔ گواہوں اور متاثرین کے تحفظ کے لیے مقدمہ بند کمرے میں چلے گا۔ تحقیقات و مقدمے کی سماعت کے لیے جدید طریقے استعمال ہوں گے۔ متاثرین کو لیگل ایڈ کے ذریعے قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔
ان خصوصی عدالتوں کے لیے خصوصی پراسکیوٹرز مقرر کیے جائیں گے۔ مقدمے کی چھان بین ڈسٹرکٹ پولیس افسر کی سربراہی میں ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کرے گی۔ ایک خصوصی کمیٹی اس قانون پر مکمل عمل درآمد کی نگرانی کرے گی۔ نادرا ریپ کے ملزموں کا ریکارڈ الگ سے رکھے گا۔ ریپ کے سلسلے میں پبلک رپورٹنگ کا نظام بھی قائم کیا جائے گا۔
اگرچہ ریپ کے انسداد کے موجودہ قوانین میں جرم کی سنگینی کے اعتبار سے عمر قید اور سزائے موت شامل ہے مگر نئے آرڈیننس کے ذریعے ایک نئی سزا بھی متعارف کروائی گئی ہے۔ یعنی ملزم کی رضامندی سے اسے جنسی خواہش و صلاحیت سے محروم کرنے کے لیے عارضی یا مستقل کیمیاوی آختہ کاری (کیمیکل کاسٹریشن) کا عمل۔ جبری آختہ کاری کی کوشش کی صورت میں ملزم اس حرکت کو عدالت میں چیلنج کر سکتا ہے۔
مگر رضامندی حاصل کرنے کا طریقہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ یعنی ملزم اگر رضامند نہیں ہوتا تو پھر وہ موجودہ فوجداری قوانین کے تحت ممکنہ سزائے موت یا عمر قید کا بھی سامنا کر سکتا ہے۔ البتہ وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم کے بقول یہ جج پر منحصر ہو گا کہ وہ فوجداری قوانین کے تحت سزا دیتا ہے یا عارضی یا مستقل آختہ کاری کا حکم دیتا ہے۔
( اس وقت انڈونیشیا اور پولینڈ میں ریپ کے سنگین مقدمات میں یہ سزا لازمی ہے جب کہ کئی امریکی ریاستوں، برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن اور جنوبی کوریا میں آختہ کاری کے لیے ملزم کی رضامندی ضروری ہے )۔
اگر ایسا ہے تو پھر ملزم کی رضامندی کا کیا مطلب ہے ؟ اس طریقِ کار کے تحت ملزم سے جو رضامندی حاصل کی جائے گی اسے رضاکارانہ سمجھا جائے یا جبریہ ؟ کیا ملزم کو آختہ کاری کے بعد رہا کر دیا جائے گا یا اسے پھر بھی قید بھگتنا ہو گی۔ اس بارے میں آرڈیننس میں بظاہر بنیادی ابہام پایا جاتا ہے۔
ویسے اس آرڈیننس کے ذریعے ریپ متاثرین کو جلد انصاف کی فراہمی کے لیے کئی مثبت طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔ مگر ریپ اور گینگ ریپ کے انسداد کے لیے جو قوانین پہلے سے موجود ہیں ان پر عمل درآمد کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا کس کی ذمے داری ہے؟ مثلاً دو ہزار سولہ سے نافذ ریپ کے انسداد کے قانون کے مطابق ریپ کے مقدمات کا فیصلہ نوے دن سے ایک برس کے اندر کرنا لازم ہے۔
اس قانون کے تحت متاثر کا نام ظاہر کرنے والے یا تحقیقات و مقدمے کی کارروائی میں جان بوجھ کر رکاوٹ بننے والے اہلکاروں کو بھی قابلِ سزا گردانا گیا ہے۔
پچھلے چار برس میں عملاً اس حکم پر کتنا عمل ہوا؟ جو قوانین پہلے سے نافذ ہیں کیا انویسٹی گیشن یا فیصلہ کرنے والے ججوں کو ان قوانین کا مکمل ادراک ہے؟ ان قوانین میں پائے جانے والے متضاد سقم کا فائدہ اٹھا کر زیادہ تر مجرم چھوٹ جاتے ہیں۔یہ سقم دور کرنا کس کی ذمے داری ہے؟
مذکورہ آرڈیننس میں تحقیقاتی اداروں اور عدلیہ کو ریپ متاثرین کو انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں جو اضافی ذمے داریاں دی گئی ہیں کیا وہ پہلے سے موجود کام کے دباؤ اور ماہر افرادی قوت کی قلت کے پیشِ نظر ان اضافی ذمے داریوں کو آرڈیننس کی روح کے مطابق کما حقہہ ادا کرنے کے قابل ہیں؟
ہونا تو یہ چاہیے کہ ان مقدمات میں خواتین اہلکاروں سے طبی معائنے و تفتیش اور قانونی معاونت کی سطح پر زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے تا کہ متاثر بچے اور عورتیں اعتماد و احساسِ تحفظ کے ساتھ مقدمے کے مختلف مراحل میں خود کو شامل اور محفوظ محسوس کر سکیں مگر اس ملک میں متعلقہ خواتین اہلکاروں کی تعداد ہی کتنی ہے؟
فورنزک شواہد کو سائنسی طریقے سے اکٹھا کرنے اور انھیں ضایع ہونے سے بچانے، ان میں جان بوجھ کر رد و بدل روکنے اور ان شواہد کو جانچنے والی لیبارٹریوں میں اضافے کی اشد ضرورت پورا کرنے کے لیے کیا ہنگامی منصوبے ہیں؟ اگر ہیں تو کہاں ہیں؟
گینگ ریپ کی سزا موت ہونے کے باوجود اس طرح کی وارداتوں میں کتنی کمی آئی؟ مسئلہ قانون سازی سے زیادہ شفاف تحقیقات کے نتیجے میں جج کے سامنے واضح شواہد رکھنے کا ہے، جھوٹی گواہیوں کے تدارک کا ہے اور ان نازک معاملات میں پراسیکیوشن و عدلیہ کے غیر معمولی حساس ہونے کا ہے۔ پیشہ ورانہ تربیت کا ہے۔
اگر سنگین سزاؤں کے ڈراوے کے باوجود سو میں سے صرف تین مجرموں کے مقدمات پایہِ تکمیل تک پہنچتے ہیں اور ستانوے فیصد مجرم بری ہو جاتے ہیں یا مقدمے کی کمزوری اور اثر و رسوخ کے سبب معمولی سزا کے حقدار ٹھہرتے ہیں تو پھر اگر جہنم کو بھی زمین پر اتار کر اس کے درشن کروائے جائیں تب بھی ریپ جیسے سنگین جرائم کم نہیں ہوں گے۔
یعنی قانون کے کرتے پر نئی کڑھائی ضرور کیجیے مگر قانون کا پاجامہ مضبوطی سے باندھنے پر بھی اتنی ہی توجہ دیجیے۔ تب کہیں جا کے ٹیڑھی کھیر تھوڑی بہت سیدھی ہو پائیگی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
The post ریپ اور قانون کا ڈھیلا پاجامہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37eaNiJ
via IFTTT
No comments:
Post a Comment