Monday, November 30, 2020

کورونا اورمعاشی کشمکش ایکسپریس اردو

ملک میں کورونا وبا کی دوسری لہرکی شدت برقرار ہے۔ ساتھ ہی اقتصادی صورتحال بھی صحت ومعاشی ثمرات کے حوالہ سے پیچیدہ بتائی جاتی ہے جب کہ عوام مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں کمی کے لیے حکومت کی طرف سے بریک تھروکے لیے کسی فیصلہ کن پالیسی سازی کے منتظر ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈرو ایڈاہانہو بدستور ویکسین کی آمد کے حوالے سے پرامید ہیں۔ دوسری جانب آسٹریلیا کورونا کے لیے محفوظ ترین ملک قرار پایا جب کہ نیوزی لینڈ دوسرے نمبر پر ہے۔ ملک میں اس یقین کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ ایس اوپیز پر مکمل عمل کیا گیا تو آیندہ ماہ کورونا کی رخصتی کے امکانات ثابت ہوں گے۔

ادھر پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتے بڑھتے 113 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور ملکی آمدن کا41 فیصد قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہورہا ہے۔ برآمدات کی مناسبت سے بیرونی قرضوں کا تناسب 438 فیصد کی سطح کو چُھورہا ہے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے سرکاری قرضوں کا تناسب 87فیصد کی سطح عبور کرچکا ہے۔

ماہرین اقتصادیات کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس اب کوئی آپشن نہیں ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجلی کے نرخ17 فیصد اورگیس کی قیمت 14 فیصد بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔ تاہم کابینہ نے حزب اختلاف کی بڑھتی فعالیت کے پیش نظر بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے کا نفاذ روک دیا ہے۔

ملکی برآمدات مستقل 21 تا 24 بلین ڈالرکی حد میں ہیں۔ حکومت جو بھی ہدف مقررکرے اس کے حصول کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ پاکستان کے لیے واحد امید تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی ترسیلاتِ زر ہیں۔ تاہم بدلتی عالمی سیاسی اقتصادیات کی وجہ سے یہ چینل بھی دبائو میں آرہا ہے۔ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ مددگار ثابت ہورہے ہیں اوراب تک ہزاروں افراد اکائونٹ کھول چکے ہیں، تاہم اس سے صرف کرنٹ اکائونٹ کی بہتری میں مدد ملے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ اقتصادی منظرنامہ میں نمایاں تبدیلی ایک مربوط اور مستقل معاشی حکمت عملی سے ہی ممکن ہے، معاشی محاذ پر جنگی بنیادوں پر سرگرمیوں کا فقدان ہے اورکوئی معاشی مسیحا حکومت کو غیریقینی صورتحال سے نکالنے کا فارمولا پیش نہیں کرسکا، اگر قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر نظرکی جائے تو غیر جانبدار مبصرین کے اندیشے اکنامک بہتری کی نوید دینے کی بات نہیں کرتے۔

کورونا لہر میں شدت کی روک تھام میں بھی زور صرف اعلانات اورخدشات و عوامی تجاہل عارفانہ کی شکایت پر ہے، حکومت کی اپنے وزرا،مشیروں اور معاونین خصوصی کی عملی کاوشوں اورآن دی اسپاٹ فرنٹ لائن میڈیکل ٹیموں سے اشتراک اور عوام میں کورونا مہم کی شئیرنگ کی کوئی جستجو بھی دکھائی نہیں دیتی چنانچہ گزشتہ 24گھنٹوں میں ملک بھر میں مزید 25افراد کورونا کے باعث جاں بحق ہوگئے۔

اموات کی کل تعداد 7ہزار 985 ہو گئی ہے، 1ہزار167نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ مصدقہ مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 95 ہزار 185تک جا پہنچی ہے اور3لاکھ 39 ہزار 810 افراد شفایاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت فعال کیسز بڑھ کر 47ہزار390 ہو گئے ہیں جو زیر علاج ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکے اعدادوشمارکے مطابق سندھ میں ایک لاکھ71 ہزار 595 کورونا مریض ہیں۔

پنجاب میں ایک لاکھ 18 ہزار 511، خیبر پختونخوا 46 ہزار877، اسلام آباد 29 ہزار 782، بلوچستان 17101، آزاد کشمیر 6682 اور گلگت بلتستان میں4637 مریض ہیں۔ترجمان پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئرکے مطابق پنجاب میں 613نئے کیسز، تعداد118511ہو گئی۔

لاہور 226، راولپنڈی105، لیہ23،بہاولپور16،ملتان 45، سیالکوٹ11،سرگودھا 23، گجرات12، جھنگ19، ٹوبہ12، گوجرانوالہ11،ڈیرہ غازی خان9، بھکر23، وہاڑی 10کیسز رپورٹ ہوئے۔مزید 19ہلاکتیں جب کہ ابھی تک اموات 2979 ہو چکی ہیں۔ راولپنڈی پولیس کے انسپکٹر محمد عجائب کوروناسے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ اسلام آباد میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکا اہم اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ کورونا کا 70 فیصد پھیلاؤ پانچ بڑے شہروں راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور،لاہور اورکراچی میں ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ملک میں مثبت کیسزکا تناسب 7.01فیصد ہے۔

سب سے زیادہ مثبت کیسزکا تناسب میرپور میں 24.85فیصد دیکھا گیا ۔ حیدرآباد میں22.81 اور کراچی میں 18.96فیصد رہا۔ مظفرآباد 17.95، پشاور 11.12، کوئٹہ8.84، گلگت6.77، راولپنڈی6.80، اسلام آباد 5.30، لاہور میں 4 فیصد ہے۔ وفاقی اکائیوں کے لحاظ سے آزاد کشمیر میں16.58فیصد ، بلوچستان 9.12، گلگت بلتستان 5.56 ، اسلام آباد5.30، خیبر پختونخوا 5.31، پنجاب3.45 اور سندھ15.31فیصد ہے۔

بڑھتے کیسزکے پیش نظر تمام اسپتالوں میں میڈیکل آلات اور ضروری اشیا کی وافرمقدار میں دستیابی یقینی بنائی گئی۔ ماہرین صحت نے بتایا کہ مختلف علاقوں میں کورونا پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کیے جارہے ہیں۔لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپیل کی کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو کورونا کی ایس او پیز پر عمل درآمد کا احساس ہونا چاہیے، اگر عوام نے ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو مکمل لاک ڈائون کی طرف جا سکتے ہیں۔

ملتان جلسے کے حوالے سے شوروغل مچایا جا رہا ہے، ان کے مطابق عوامی اجتماعات کورونا پھیلائو میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں، اپوزیشن جلسے جلوس بعد میں کرلے اس کے لیے بہت وقت پڑا ہے، ویکسین آنے تک احتیاط کرنی ہوگی۔ ماسک پہننے کے باوجود بلاول بھٹو کوکورونا ہو گیا ۔ انھوں نے کہا کہ فیس ماسک 70فیصد تک کورونا پھیلائو روکتے ہیں۔

لاہور، ملتان، راولپنڈی،گوجرانوالہ اور فیصل آباد زیادہ متاثر ہیں۔ مثبت کیسز میں ملتان میں شرح12فیصد ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ صوبے میں مزید 13مریض جاں بحق ہوگئے، مجموعی ہلاکتیں2924 ہیں۔ 1419نئے کیسز سے تعداد 173014 ہوگئی۔

پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھاکہ حکومت نے کورونا ویکسین کے حصول کے لیے ڈیڑھ سو ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔ امکان ہے کہ 2021ء کی پہلی سہ ماہی میں ویکسین مارکیٹ میں میسر ہوگی جو پہلے مرحلے میں ہیلتھ ورکرز اور عمر رسیدہ افراد کو لگائی جائے گی۔

ملک بھر میں اٹھنے والی کورونا کی دوسری لہر سے صوبہ سندھ خاص طور پر شہری علاقوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن حکومت سندھ کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز پر سختی سے عمل کی یہ ہدایات موجود ہیں کہ تمام دفاتر،کارخانوں، دکانوں، ریسٹورنٹس، ہوٹلز، مینوفیکچرنگ یونٹس اور دیگر کام والی جگہوں کے منتظمین بھی ایس او پیز پر عمل کو یقینی بنائیں، عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی جب کہ ماسک نہ پہننے والوں کو گرفتار یا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر میںانسداد کورونا کے لیے حکومتی ریپڈ فورس صوبوں میں ایکشن میں آئے، عوام سے رابطہ کو فعال بنائے،اس عوامی تاثر کو ختم کرے جو ماسک،سماجی فاصلہ اور اجتماعات کے سلسلہ میں کورونا کے پھیلائو کی نفی پر مبنی ہے، حکومت صرف پند ونصائح سے کورونا  کو شکست نہیں دے سکے گی اس کے لیے قومی جنگ کا معاشی منظرنامہ جگانے کی ضرورت ہے۔

The post کورونا اورمعاشی کشمکش appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3qcYSKK
via IFTTT

No comments:

Post a Comment