Wednesday, September 30, 2020

باجوڑ میں ٹریفک حادثہ 2افراد جاں بحق ، 11زخمی

ایف بی آر نے جیولرز اور رئیل اسٹیٹ والوں کو بھی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا ... صارفین کی بھی مکمل معلومات رکھنا ہوںگی،جیولرز کو 20لاکھ روپے سے زیادہ کی خریداری پرریکارڈ ... مزید

علی ظفر کیخلاف نفرت انگیز مہم چلانے کے مقدمے میں اداکارہ عفت عمر نے عبوری ضمانت کروالی

مریم نواز 16اکتوبر کو گوجرانوالہ میں جلسہ کریں گی ‘ ذرائع

سوشل میڈیا کی ویڈیو سے مشہور ہونیوالے ککڑ بوائے احمد مری نے اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے ٹک ٹاک کی دنیا میں قدم رکھ دیا

بیرون ممالک سفر کرنے والوں کے لیے آپریشنل ایس اوپیز جاری

کراچی میں ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے ریسٹورنٹس،شادی ہالز بند کرنے کا فیصلہ

کراچی، ضلع غربی ، منگھوپیر یوسی 8 گڈاپ میں مائیکرو اسمارٹ لاک ڈائون لگادیا گیا،نوٹیفکیشن جاری

کوروناوائرس،اسکول بند کرنے کی تجویز کا جائزہ آئندہ اجلاس میں لیں گے، سندھ حکومت

واپڈا اور حیسکو کے حکام کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں، غریب صارفین پر ظلم بند کیا جائے ورنہ بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کے ساتھ اعلیٰ افسران کے دفتروں کا بھی ... مزید

کسٹم حکام نے پولیس پروٹوکول میں غیرملکی شراب کی اسمگلنگ ناکام بنادی ... اسمگلنگ میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی روشن جونیجو کا بیٹا غیاث الدین جونیجو ملوث ہے، کسٹم حکام ... مزید

پاک سرزمین پارٹی کاکا بھارت میں معصوم اور نہتے پاکستانی ہندئوں کے قتل پر افسوس کا اظہار ... بھارت عالمی دنیا میں دہشتگردی اور عصمت دری کے واقعات کی وجہ سے بدنام تھا لیکن ... مزید

ڈاکٹر قبلہ ایاز کی قیادت میں پاکستانی علماء کے وفد کی ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ سے ملاقات ، تعاون کی یقین دہانی ... پرامن،آزاد،خود مختار اور مستحکم افغانستان صرف افغانوں ... مزید

نیپرا نے پاورپلانٹ چلانے کے میرٹ آڈرکی خلاف ورزی کا نوٹس لے لیا ... اگست میں فرننس آئل اور ڈیزل والے مہنگے پاورپلانٹ چلا کرصارفین پربارہ ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا

پرویز خٹک سے عراقی سفیر کی ملاقات ، دوطرفہ تعلقا ت پر تبادلہ خیال ... عراقی سفیر کا دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تعلقات بالخصوص دفاع کے شعبے کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا ... مزید

مشتبہ لائسنسز کی فہرست میں شامل 58 پائلٹ کے لائسنسز کلیئر قرار دے دیئے گئے

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ہوائی سفر کو محفوظ بنانے کے لئے تمام تر اقدامات کر رہی ہے، ترجمان ... پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ہوائی جہاز سے پرندوں کے ٹکراؤ کے نتائج ... مزید

سندھ کے 510گاؤں میں تیز انٹرنیٹ کی فراہمی کیلئے جاز اور یوایس ایف میں معاہدہ طے پاگیا

معاشی ترقی کے لیے کلچر کا جدید معاشی حالات سے ہم آہنگ ہو نا ضروری ہے، اسد عمر

بلاول بھٹو زرداری کے خلاف بیان بازی کرنے سے شہزاد اکبر کا قد نہیں بڑھے گا، قادر پٹیل

ضیاء الحق سے لے کر مشرف این آر او تک نوازشریف کا نظریہ صرف اپنے ذات تک ہے، شہباز گل ... کرپشن کے پیسوں پر بننے والے عالیشان ایون فیلڈاپارٹمنٹس میں عیش کرنیوالے آج نظریاتی ... مزید

بلاول بھٹوشرمناک بات ہے آ پ سندھ کے معاونین او رمشیروں کے اثاثوں کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں ،شہزاد اکبر

شریف خاندان کی لوٹ مار پکڑی گئی ہے، قوم کے ساتھ وہ کچھ کرگئے جو دشمن بھی نہیں کر سکے، سابق وزیراعظم کی لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں انقلاب لانے کی باتیں مذاق ہیں، اپوزیشن ... مزید

Tuesday, September 29, 2020

تھائی لینڈ: اسکول ٹیچر کا نرسری کلاس کے بچوں پر بہیمانہ تشدد ... واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنے کے بعد غصے سے بھری ماں اسکول پہنچ گئی، ٹیچر پر حملہ کر دیا

خواتین کیلئے دنیا کے سب سے خطرناک ملک بھارت میں خوفناک ترین واقعہ ... اجتماعی زیادتی کے بعد 19 سالہ غریب لڑکی کی زبان بھی کاٹ دی گئی، لڑکی دوران علاج دم توڑ گئی

آذربائیجان اور آرمینیا کا بھرپور جنگ لڑنے کا فیصلہ ... دونوں ممالک نے عالمی برادری کی جانب سے کیے جانے والا جنگ بندی کا مطالبہ مسترد کر دیا

حکومت نواز شریف کو واپس لانے کیلئے تمام قانونی چینلز استعمال کرے گی،اپوزیشن سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں، حکومت احتساب کے عمل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی، ملک کو آگے لیکر ... مزید

شیخ نواف الاحمد الصباح نے کویت کے نئے امیر کے طور فرائض سنبھال لئے

ہماری جماعت کے کئی لوگ تحریک انصاف میں جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ... میں ضمیر کی آواز سنتا ہوں اسی لیے نواز شریف کی فوج مخالف تقریر کیخلاف آواز بلند کی، عثمان بزدار سے ملاقات ... مزید

بھارت میں گینگ ریپ کا شکار ہونے والی دلت لڑکی دم توڑ گئی ... 19سالہ بچی کو اترپریش میں اغواءکرکے جنسی تشددکا نشانہ بنایا‘خاتون کو تشویشناک حالت میں نئی دہلی منتقل کیا گیا ... مزید

سپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی درب بم دھماکے کی مذمت، دھماکے کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار

پاکستان نے گلگت بلستان میں انتخابات سے متعلق بھارتی وزارت خارجہ کے ریمارکس کو یکسر مسترد کر دیا ... بھارت کے پاس اس معاملے پر قانونی ، اخلاقی یا تاریخی لحاظ سے مداخلت کا ... مزید

حیسکو کا بجلی چور مافیا اور ٹرانسفارمروں کی مرمت یا تبدیلی کے لیے پیسے لینے والے عناصرکے خلاف سخت ایکشن لینے کا اعلان

رکن قومی اسمبلی نذہت پٹھان کی حیسکو چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد یعقوب سے ملاقات،کارکردگی کو سراہا

ڈویژنل کمشنر حیدرآبادکی زیر صدارت ماہیگیروں ،جیٹیوںاور لانچوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے اجلاس

ی* ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ کا اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف کریک ڈائون اور گرفتاریوں کی مذمت

ًمیر عطاء اللہ لانگو ایڈووکیٹ کا کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر حادثات پر افسوس کا اظہار

) جمعیت علماء اسلاام نظریاتی نے صوبے میں امن کی بحالی بدامنی کے خاتمے امن وامان کے قیام کے لیے ہمیشہ انتظامی اداروں کیساتھ دیا ہے،مولاناعبدالقادرلونی

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بلوچستان کا اے این پی کے اسد خان اچکزئی کے سر عام اغواء کی پر زور مذمت

آل پارٹیز چمن کا اے این پی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات کے اغواء کے خلاف آج بروز بدھ کوئٹہ چمن بین الاقوامی شاہراہ بند کرنے کا اعلان

پی ڈی ایم کے زیر اہتمام کوئٹہ میں 11اکتوبر کو ہونے والا جلسہ چندہ چور اور سلیکٹڈ حکمرانوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا،حاجی علی مدد جتک

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں نے 11 اکتوبر کو ہونے والے جلسہ عام سے متعلق اجلاس طلب کر لیا

۷لاہور ،ڈکیتی،چوری اور راہزنی کے وارداتوں میں شہری لاکھوں روپے مالیت کی نقدی،زیوارات اور قیمتی اشیا سے محروم

ذ*لاہور ، شالیمار پولیس کی فوری کارروائی، لڑکی بازیاب ، ملزمان گرفتار

yانسداد دہشت گردی عدالت کے قریب جھاڑیوں سے بوسیدہ لاش برآمد

Y نامعلوم وجوہات پر معمر شخص نے خودکشی کرلی

Monday, September 28, 2020

کراچی حقیقی تبدیلی کا منتظر ایکسپریس اردو

وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) پر کام شروع ہوگیا ہے، یہاں وہ سیاسی گفتگو نہیں کریں گے، ہر 15 دن بعد کراچی آیا کروِں گا، میرا آپ سے وعدہ ہے کہ کے سی آر کو مکمل کریں گے، کے سی آر کے معاملے پر وفاق کی حکومت سندھ سے کوئی لڑائی نہیں ہے، ہم حکومت سندھ کو ساتھ لے کر چلیں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سے دو میٹنگز کی ہیں اور دونوں ہی بڑی کامیاب رہی ہیں، چیف سیکریٹری سندھ اور کمشنر کراچی کا ہمارے ساتھ پورا تعاون ہے، حکومت سندھ کے ساتھ مل کر تجاوزات کی نشاندہی کی جا رہی ہے، اس حوالے سے ریلوے حکام کی پیر کو میٹنگ ہے نقشہ دے دیا جائے گا کہ ریلوے کی تجاوزات کہاں تک ہیں، سپریم کورٹ کا حکم ہے، اسی کی روشنی میں ہم نے تجاوزات کو ختم کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار شیخ رشید نے اگلے روز کے سی آر کے شاہ عبداللطیف اسٹیشن پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ریلوے کے اعلیٰ حکام بھی ان کے ہمراہ تھے۔

بلاشبہ موجودہ حکومت کے لیے سرکلر ریلوے کو دوبارہ چلانے کے قابل بنانے کی کوششیں اہل کراچی کے لیے کسی دل خوش کن نوید سے کم نہیں، اس شہر کی تاریخ بھی عجیب ہے، کبھی اسے ایشیا کا خوبصورت ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل تھا، اس کی سڑکیں صاف پانی سے دھوئی جاتی تھیں، ایم اے جناح روڈ پر (اس وقت اس سڑک کا نام بندر روڈ ہوا کرتا تھا) دو رویہ ٹرامیں چلتی تھیں، شہر کی طالب علم برادری، خواتین و بچے، محنت کش، سرکاری ملازمین ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے ایک منظم، مربوط اور حادثات سے پاک سسٹم سے جڑے ہوئے تھے۔

سرکلر ریلوے، لیاری کے چاکیواڑا، ٹرام جنکشن سے شروع ہوکر بولٹن مارکیٹ، صدر، سولجر بازار اور کیماڑی تک جاتی تھیں، دوسری طرف کے آر ٹی سی کی سرکاری بسوں کے فلیٹ بھی شہر کے مختلف علاقوں سے عوام کو سفری سہولت مہیا کرتے، ڈبل ڈیکر بسیں بھی کراچی کی سڑکوں پر بڑی شان سے دوڑتی رہیں، یہ بسیں حکومت کو غالباً سوئیڈن، جرمنی اور برطانیہ سے ملی تھیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مناسب نگہداشت اور مینٹینینس کے فقدان کے باعث کرپٹ ٹرانسپورٹ بیوروکریسی کی نذر ہوگئیں۔

پہلے ان کے آٹومیٹک دروازے خراب ہوئے، پھر شیشے چرا لیے گئے، سیٹوں کو خراب کیا گیا، پھر ٹرانسپورٹ مافیا کی ملی بھگت سے ساری بسیں سڑک سے غائب ہوگئیں، کسی وزیر اور ٹرانسپورٹ منسٹری کے ذمے داروں نے عوام کو ان بسوں کی سروس بند ہونے کے اسباب سے آگاہ کرنے کی زحمت نہ کی، یہی مائنڈ سیٹ رفتہ رفتہ کراچی کی انتظامی، سماجی، اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی تاریخ سے کھلواڑ کی دردناک داستان بن گیا۔

آج جب وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب کی زبانی سرکلر ریلوے کے ٹریک کی صفائی، تعمیر و مرمت، تجاوزات کے خاتمہ، اسٹیشنوں کی تزئین و آرائش اور کے سی آر کے نئے نقشے کی نقاب کشائی کی خوش خبری سنتے ہیں تو انھیں امید، توقعات اور امکانات کے خدشات بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے سرکلر ریلوے سے سفر کیا ہے وہ اس تلخ حقیقت سے واقف ہونگے کہ شہر قائد کیوں دور حاضر کے ماس ٹرانزٹ سسٹم سے محروم رکھا گیا۔

اور کیا وجہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا تجارتی حب اور معاشی انجن مواصلات اور نقل و حمل کے جدید تقاضوں اور الیکٹرانک سفری نظام سے کٹا ہوا ہے، کراچی کے سماجی، انسانی معاشی المیے اور کہانیاں بھی الم ناک اور چشم کشا ہونگی۔ اربن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب کراچی اقدار کی بوقلمونی کا ایک منفرد نظام دنیا کے بڑے شہروں کے سامنے پیش کرتا تھا، یہاں ماضی کے میئرز اور دور حاضر کے بابائے شہر نے شہری ترقیات کے لیے بہت صائب کام بھی کیے مگر بقول شاعر:

ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن

مرض عشق کا علاج نہیں

اب شیخ صاحب تشریف لائے ہیں، ان کے پاس سرکلر ریلوے کا ماسٹر پلان ہے، سپریم کورٹ کا عطا کردہ مینڈیٹ ہے، سرکلر ریلوے کے احیا کا معاملہ سنجیدہ ہے، خدا کرے اس منصوبہ کو مقررہ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے میں موجودہ حکومت کامیاب ہو تاہم ارباب اختیار کو کراچی کے مسائل کا پٹارا کھولنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے، مسئلہ صرف سرکلر ریلوے کی حیات نو کا نہیں، ایک مکمل ٹرانسپورٹ اور ٹریفک سسٹم کے اجرا کا ہے، کیونکہ اس عروس البلاد کی بربادی کی کہانی کسی ایک شہزادے کی بے وفائی، بے حسی یا انتظامی نااہلیت نہیں بلکہ کراچی کی اجتماعی تباہی میں سابقہ حکومتوں کے تجاہل عارفانہ کا عمل دخل تھا، شہر کی حساسیت سے لاتعلق حکمرانوں نے ایڈہاک ازم سے کام لیا، شاید کسی کو اس شہر سے دلی پیار نہیں تھا، اور وقت کی سفاکی نے اس حقیقت کو ثابت بھی کیا ہے۔

دوسری طرف پیر تسمہ پا کی طرح اقتدار اور وسائل پر قابض بیوروکریسی نے ہر سیاست دان کے ساتھ اس کی مرضی اور سیاسی ترجیحات کے مطابق ڈیل کیا، کراچی کو جمہوریت کے نام پر ایک ایسا ورثہ ملا جس میں عوام کی امنگیں، آرزوئیں اور خواب چکنا چور ہوئے، بات 1947 سے شروع کی جائے تو اس افسانہ کی اٹھان اور اڑان شاندار تھی، جس کا تذکرہ ابتدائی سطور میں ہوچکا، لیکن آج صورتحال کئی عرصہ پر محیط انتظامی، سیاسی، سماجی، معاشی انحطاط اور مسلسل زوال کی ہے۔

کوئی سیاستدان اس حقیقت پر بات نہیں کرتا کہ ایک بندہ نواز شہر کو کس کی نظر لگ گئی، کیا بات ہے کہ سال ہا سال کے سیاسی، لسانی اور مذہبی تفرقے، دہشتگری، جمہوری چپقلش اور نظریاتی کشمکش میں عشرے گزارنے والے شہر میں سیاسی تہذیب کو کھلی شکست ہوئی، سیاسی مکالمہ زمین بوس ہوا، انسان دوستی نے خود کشی کی، سماجی اور معاشی ناکامیوں نے کراچی کا راستہ کیسے ڈھونڈ لیا، آج سارے اسٹیک ہولڈرز باہم دست و گریباں ہیں، اشرافیہ، سرمایہ دار طبقہ، شہر کے قدیم رہائشی، ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے محنت کش گھرانے اس کراچی کے کلچر کو ترستے ہیں جس کی خوشبو انھیں دور دراز سے کھینچ کر شہر قائد تک لے آئی تھی، اس شہر کا دانشور اداس ہے۔

غربت اور کورونا کے مارے لوگ کراچی کی محبت میں مارے گئے، گزشتہ بارشوں میں شہر ڈوب گیا، کیونکہ سیوریج کی لائنیں ناکارہ ہوگئیں، کوئی حکومت ذمے دار وںکا احتساب نہیں کرسکی، شہر سے وابستگی، محبت اور سپردگی کے فطری جذبات نہ ہوں تو شہر کی حالت بدنصیب کراچی جیسی ہی ہونی تھی، یہ ’’عالم میں انتخاب ‘‘جیسا حسین چہرہ تھا اسے بری حکمرانی کے تسلسل نے اجاڑ کر رکھ دیا۔ آج ہر طرف غیر قانونی عمارتیں ہیں۔

مخدوش عمارتیں جن کے منہدم ہونے کی داستانیں لہو رلاتی ہیں، بلڈنگوں، پلوں کی تعمیر کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے ہر احتساب سے بالاتر، پارک فروخت ہو جاتے ہیں چائنا کٹنگ ہوتی ہے، سالوں گزر جاتے ہیں نئی بسیں سڑکوں پر نہیں لائی جاتیں، تجاوزات کا جنگل پھیلتا جاتا ہے، کوئی پکڑ نہیں ہوتی، پھر اچانک مکان گرائے جاتے ہیں۔ لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں، انصاف تو یہ ہے کہ جنہوں نے پیسے لے کر تجاوزات قائم کیں، ان کے اصل ذمے داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، بے خانماں ہونے والوں کو ڈی ٹائپ کوارٹرز جیسی کالونیاں بنا کر دی جائیں، تجاوزات میں ملوث بے لگام مافیاؤں کی گردن ناپی جائے۔

شیخ رشید نے کہا کہ میں نے ابھی ملیر، مچھر کالونی کا دورہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ 10.5ارب روپے ہم کے سی آر پر خرچ کرنے جا رہے ہیں، پہلے مرحلے میں ہم 1.8 ارب روپے خرچ کریں گے، حکومت سندھ سے ہمارا پورا تعاون ہے۔ انھوں نے کہا کہ24 پل حکومت سندھ نے بنانے ہیں۔

سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ کے سی آر ٹریک کو بحال کیا جائے، جو لوگ بے دخل ہوں گے حکومت سندھ اور سید مراد علی شاہ سے درخواست کی ہے ان لوگوں کی رہائش کے لیے انتظامات کریں۔ انھوں نے کہا کہ ریلوے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ کراچی کے لوگوں کے لیے جس طرح سپریم کورٹ کا جذبہ ہے اسی طرح مرکز اور صوبے کے اندر بھی یہی جذبہ ہو تاکہ کے سی آر وجود میں آجائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کو سرکلر ریلوے کا تحفہ دیتے ہوئے کئی دوسرے کام بھی جو ’’غالب خستہ کے بغیر بند ہیں‘‘ وہ جلد شروع کیے جائیں، شہر قائد میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی قلت ہے، صارفین پریشان ہیں، مہنگائی اور بیروزگاری نے کراچی کا کچومر نکال دیا ہے، عوام کو کورونا، بارش، اسٹریٹ کرائم اور روڈ حادثات نے مضمحل کر رکھا ہے، آج کا کراچی کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں، کبھی یہ شہر مشترکہ مفادات، انسانیت اور جمہوریت کے حوالہ سے پہچانا جاتا تھا، آج اسے مکمل شہری میکانزم اور ایک مربوط عوام دوست سیاسی معاہدہ عمرانی اور وسیع تر سماجی خیر اندیشی اور استحکام پر مبنی گلوبل معیشت کی ضرورت ہے، کراچی کو انصاف چاہیے، اسٹیک ہولڈرز کو تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔

شہر کی مجموعی ترقی اور فزیکل نشاۃ ثانیہ کے لیے عوام نے 11سو ارب روپے کے خطیر ترقیاتی پیکیج کا خیر مقدم کیا ہے جس کے کراچی کے تقریباً 3 کروڑ شہری منتظر ہیں، یہ رقم بلاتاخیر شفافیت کے ساتھ منصوبوں پر خرچ کی جائے، کراچی کے عوام سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی سے اکتا چکے ہیں، انھیں جمہوریت کے کشکول سے اتنا تو ملے کہ وہ اپنے خوابوں کو مزید ریزہ ریزہ ہونے سے بچا لیں اور کراچی کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتے ہوئے دیکھ سکیں۔ کہیں ان کی نئی شناخت یہ نہ ہو کہ ؎

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

The post کراچی حقیقی تبدیلی کا منتظر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33gypCN
via IFTTT

’’میں نے تم کو اسی لیے پڑھایا ہے۔۔۔‘‘ ایکسپریس اردو

صبا نے عمدہ نمبروں کے ساتھ گریجویشن کیا، اس کے بعد ماسٹرز میں داخلہ لیا اور اَن تھک محنت سے یہ بھی امتیازی نمبروں سے مکمل کر لیا اب وہ من ہی من میں بہت خوش تھی کہ اب جلد ہی کوئی اچھی سی جاب کر لے گی اور اپنے اچھے پہننے اوڑھنے کی خواہش کو بلا تامل پورا کر سکے گی، مگر ایک دن اپنی امی کے صاف انکار کرنے پر وہ کافی پریشان ہوگئی اور قدرے برہمی سے بولی کہ ’’کیا آپ نے مجھے اس لیے اتنا پڑھایا تھا کہ بس میری شادی کر دیں اور میں بچے پالنے والی اور گھر سنبھالنے والی ’آیا‘ یا ’ماسی‘ بن کر رہ جاؤں۔۔۔؟‘‘

ماں نے اس کو ایک نظر دیکھا اور پھر اطمینان سے جواب دیا ’’ہاں بالکل، میں نے تم کو اسی لیے پڑھایا ہے۔۔۔!‘‘

صبا نے اس غیر متوقع جواب پر چونک کر ماں کو دیکھا اور حیرانی سے بولی ’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں، یعنی آپ چاہتی ہیں کہ میں سارا پڑھا لکھا ڈبو دوں، کچھ فائدہ نہ اٹھاؤں؟‘‘

’’یہ میں نے کب کہا کہ کچھ فائدہ نہ اٹھاؤ، میں یہ سمجھتی ہوں کہ لڑکوں کی پڑھائی ان کے مالی مستقبل کی ضرورت ہے، کیوں کہ بنیادی طور پر ان کو اپنی اور اپنے گھر والوں کی معاشی ضرورتیں پوری کرنی ہیں، جب کہ لڑکیوں کو یہ تعلیم آئندہ کی نسلوں کی تربیت، بہتر سماج اور بہترین گھر داری کے لیے دی جاتی ہے اور اس کا درست استعمال جب ہی ممکن ہے، جب وہ گھر میں ہوں اور اور گھر اور بچوں کو مکمل توجہ دے سکیں، تب ہی ان کی تعلیم ’کارآمد‘ ہے، یہ بات بھی تو سوچنا چاہیے کہ اگر عورت بھی گھر سے نکل جائے گی، تو ہمارا ایک پورا نظام الٹ پلٹ نہیں ہو جائے گا۔

اس سے گھر کی آمدنی بڑھنا تو دیکھی جاتی ہے، لیکن گھر کے کاموں کے لیے ملازمین کی ضرورت اور بچے کے لیے ماں کا قیمتی وقت کھو جانا کوئی نہیں گنتا، جس کا کوئی نعم البدل بھی نہیں اور اس سے ایسے بہت سے مردوں کے روزگار پر بھی ضرب لگے گی، جو اکیلے اپنے گھر کی کفالت کے ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘

’’لیکن امی میں گھرداری اور جاب دونوں ساتھ ساتھ کر سکتی ہوں۔۔۔!‘‘ صبا نے پھر اصرار کرتے ہوئے کہا، تو اس کی امی بولیں کہ  ’’ہاں میں مانتی ہوں، اللہ تعالیٰ نے عورت کو بہت ہمت اور طاقت دی ہے، وہ یہ سب کر سکتی ہے، مگر جس کا جو کام ہے، وہ اسی کو کرنا چاہیے، شاید ایسا کرنا زیادہ بہتر رہتا ہے۔‘‘

’’جب عورت سب کر سکتی ہے، تو پھر اس کو کیوں روکا جاتا ہے ؟‘‘ صبا نے سوال کیا تو اس کی امی بولیں’’بے شک اگر ضرورت اور مجبوری ہو تو عورت سب کچھ کر لیتی ہے۔۔۔ مگر ہم اس کے اپنی سماجی زندگی پر اثرات نہیں دیکھتے اور پڑھ لکھ کر نوکری نہ کرنے والیوں کو تعلیم ڈبونے کا طعنہ دینے لگتے ہیں، یہ تو نا انصافی ہے۔‘‘

’’مردوں کے روزگار پر عورتوں کے کام کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟‘‘ اس نے استفسار کیا۔

امی بولیں کہ ’’ایک فرق تو واحد کفیل مردوں کا میں بتا ہی چکی ہوں، اس کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہاں عورتوں کو بہت کم اجرت دی جاتی ہے اور پھر جب مالکان دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کام کے لیے مرد زیادہ پیسے مانگ رہا ہے، جب کہ وہ ایک خاتون کو اس سے کافی کم پیسوں پر کام کے لیے تیار پاتے ہیں۔ ایسے میں مردوں کو زیادہ معاوضہ پھر کون دے گا، اب تم اس پر غور کرو کہ ہماری بچیاں اور لڑکیاں کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے کیوں تیار ہوجاتی ہیں؟ وہ اس لیے کہ وہ بس اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے یا ایک اضافی آمدن کے شوق میں  کام کر رہی ہوتی ہیں۔

اس لیے انھیں کم تنخواہ بھی کافی معلوم ہوتی ہے، اس کے مقابلے میں مرد پر بنیادی طور پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے اور اگر جاب کرنے والی خود اپنے گھر میں دیکھے تو اسے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کے والد یا بھائی کے ذمہ اٹھانے کے سبب اسے لگ بھگ آدھی تنخواہ بھی بہت معلوم ہوتی ہے۔۔۔ بالفرض اس کے والد یا بھائی کی کمپنی میں بھی یہ چلن ہو جائے، تو سوچو کہ مرکزی کفیل کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کتنے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

اس معاملے کو صنفی ٹکراؤ بنانے کے بہ جائے اس سے بالا ہو کر سوچنا چاہے، کیوں کہ وہ مرد بھی دراصل اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے اس نوکری کا امیدوار ہے، جس میں ظاہر ہے صرف مرد تو نہیں ہوں گے ناںِ، اب اس کے ساتھ یہ صورت ہو تو پھر وہ مایوسی اور ڈپریشن میں مبتلا ہونے لگتے ہے، جس کے اثرات سے پورے گھر پر پڑتے ہیں، بعض اوقات خدانخواستہ کوئی انتہائی پریشان کُن نوبت بھی آجاتی ہے، یہ سنگین معاملہ ہے، ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہیے!‘‘

صبا کی امی کو شاید یکا یک کچھ یاد آگیا، انھوں نے کچھ توقف کیا اور پھر بولیں:

’’اج کے دور میں شاید میری ان باتوں کی کوئی جگہ نہیں، یہ سب باتیں دقیانوسی اور فرسودہ کہہ کر دھتکار دی جاتی ہیں کیوں کہ اب سبھی یہ کہنے لگے ہیں کہ خواتین کو باہر نکل کر لازمی کام کرنا چاہیے، حالاں کہ ہم غور کر لیں، تو کیا کفالت کا ذمہ صنف قوی پر عائد کر کے ایک عورت حق مل رہا ہے یا گھر اور بچوں کے ذمے کے ساتھ ساتھ باہر ملازمت کی ٹینشن میں پڑنا خواتین کو حقوق ملنا کہلائے گا۔۔۔؟ باتیں تو سب عقلیت پسندی کی کرتے ہیں، تو میں نے تمھارے سامنے عقلی دلیل سے بھی اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔‘‘ وہ چپ ہوئیں تو صبا کہنے لگی ’’یعنی وہ جو بات کہتے ہیںکہ لڑکیوں کی تعلیم کا مطلب پوری نسل کا سدھار ہوتا ہے، پھر بچوں کی اس تربیت میں پورے گھر کے ماحول کو دوش ہوتا ہے، اور اس ماحول میں عموماً دن بھر عورتوں کا ہی مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔

اس سے پتا چل جاتا ہے کہ وہ صرف اپنے صحیح غلط کے معیار بہتر نہیں کرتیں، بلکہ ان کے توسط سے ہمارے آنے والے کل کی تربیت بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ اب اسے کہا جاتا ہے کہ آپ عورتوں کو گھر میں بند کر کے رکھنے کی بات کر رہے ہیں؟‘‘

صبا کی بات سن کر امی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’اچھا، تم اپنے اردگرد نظر ڈال کر بتاؤ کہ کیا جو خواتین ملازمت پیشہ نہیں ہیں، کیا وہ سارا سارا دن گھر کے اندر ’بند‘ رہتی ہیں۔۔۔؟ کیا وہ اپنی ضروریات اور شاپنگ وغیرہ سے لے کر بچوں کے علاج معالجے اور ان کے اسکول کے معاملات وغیرہ کے حل کے لیے ہمہ وقت متحرک نہیں رہتیں اور اس مقصد کے لیے گھر سے باہر نہیں جاتیں؟ دراصل وہ اپنی یہ ذمہ داری ادا کر کے ایک طرف گھرداری سے انصاف کر ہی رہی ہیں، تو دوسری طرف وہ بھرپور طریقے سے اپنے شوہر، والد یا بھائی وغیرہ کو بھی ایک بے فکری اور آرام فراہم کر رہی ہیں، تاکہ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو زیادہ اچھی طرح سے ادا کر سکیں، خواتین کی اس مدد کے بغیر مرد کس طرح اپنی معاشی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں، میرے خیال میں بالکل بھی نہیں۔‘‘

’’بالکل، یہ بات تو ہے۔۔۔ ہمیں ان تمام پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہیے۔‘‘ صبا نے قدرے اطمینان بھرا سانس لیتے ہوئے کہا، تو امی بولیں کہ ’’بس میرا مقصد یہی تھا کہ تصویر کے اس رخ پر بھی بات کرنا چاہیے اور پھر ساری جمع تفریق اور فائدے نقصان سامنے رکھ  کر اپنے سماج کے ماہرین  کی رائے سامنے رکھتے ہوئے کوئی عمل کرنا چاہیے۔۔۔ یہ بات بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ کسی ایک سماج کی چیز کو جوں کا توں کسی بھی دوسرے سماج پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں تمھیں زبردستی ملازمت سے نہیں روک رہی، بس تمھیں سمجھا کر قائل کر رہی ہوں، تاکہ تم آگے بھی اس حوالے سے سوچ بچار کرو۔۔۔ مجھے امید ہے کہ تم اب بہتر فیصلہ کروگی۔‘‘

The post ’’میں نے تم کو اسی لیے پڑھایا ہے۔۔۔‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3idR1Y0
via IFTTT

فیشن کی رُتوں کا ایک شاہانہ رنگ جامنی ایکسپریس اردو

جامنی رنگ کے ایک خوب صورت شیڈ ’’الٹرا وائلٹ (ultra violet) یا بالائے نفشی (انتہائی گہرا جامنی رنگ)کو سال کا بہترین رنگ کا اعزاز دیا گیا ہے۔

دنیا ایک معروف کمپنی کی جانب سے اس رنگ کا انتخاب فیشن، آرٹ، فنِ تعمیرات، سفر اور دیگر شعبوں میں کئی ماہ کی تحقیق کے بعد کیا گیا اور اس چناؤ کے حوالے سے کمپنی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جو رنگ رواں برس ہر جگہ نظر آئے گا، وہ جامنی رنگ کا الٹرا وائلٹ شیڈ ہی ہو گا۔

اگر تھوڑا سا اس رنگ کے ابتدا کے حوالے سے بات کی جائے، تو جامنی رنگ کو سب رنگوں میں ایک شاہانہ حیثیت حاصل ہے۔ دنیا میں 196 خود مختار ملک موجود ہیں اور ان تمام ممالک کے جھنڈوں میں جو رنگ نہ ہونے کے برابر ہے، وہ یہی جامنی رنگ ہے۔ 16ویں صدی میں انگلستان میں اس وقت کی ملکہ الزیبتھ اول نے شاہی خاندان سے باہر اس رنگ کے ملبوسات پہننے پر پابندی عائد کر دی، جس کے بعد یہ طے پایا کہ شاہی خاندان کے علاوہ اس اہم رنگ کا استعمال رعایا کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔

شاہ زادے بھی اس رنگ کو اہم رنگ کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات جو جامنی رنگ کے بارے میں بتائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اس رنگ کی پہلی ’ڈائی‘ 19ویں صدی میں ایک خاص قسم کے گھونگے کی نسل سے تیار کی گئی تھی، جو کہ نایاب تھی، جب کہ اس سے رنگ کو کشید کرنے کا کام بھی آسان نہیں تھا۔ آسان الفاظ میں 10 ہزار گھونگوں سے محض ایک گرام جامنی ڈائی تیار ہوتی تھی، اور اس وجہ سے اسے نہایت دولت مند افراد کے لیے مخصوص کر دیا گیا تھا۔ 1856ء میں حالات بدلے۔ جب گھونگوں سے ہٹ کر اس ڈائی کو تیار کرنے کا آسان طریقہ دریافت ہوا اور پھر اس کو بڑی مقدار میں تیار کرنا آسان ہو گیا۔ اس طرح یہ رنگ عوام تک پہنچنا شروع ہو گیا۔

اس رنگ کو ’فیشن‘ میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، توخواتین اس رنگ کو اپنے فیشن میں الٹراوائلٹ کی شارٹ شرٹس، سگریٹ پینٹس اور غرارے طرز کے ٹراؤزرز کے ساتھ کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسی رنگ کی ’پینٹ‘ کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

الٹرا وائلٹ رنگ کے علاوہ خواتین جامنی (purple)، بینگنی (egg plant)، انگوری جامنی، امیتھست (amythst)، پلم(plum)، لیلک (lilac)، میلبری (mulberry) اور آرکڈ (orchid) شیڈز کا استعمال کر سکتی ہیں، چوں کہ جامنی رنگ کا یہ خوب صورت شیڈ شاہانہ شان و شوکت کی علامت تصور کیا جاتا ہے تو اس رنگ کے ملبوسات خواتین کی شخصیت میں شاہانہ تاثر قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔اس رنگ کی خاصیت کے باعث اسے شاہی خاندانوں کی خواتین اہم تقریبات کی مواقع پر زیب تن کرتی ہیں۔ مشرقی معاشروں میں خواتین اس رنگ کو شادی بیاہ میں پہنے جانے والے ملبوسات مثلاً چوڑی دار پاجامے اور فراک، لہنگا چولی، کام دار شرٹ کے ساتھ غراروں یا بیل باٹم ٹراؤزر میں استعمال کر سکتی ہیں۔

شادی، تقریبات و تہوار حسن کا نکھار اب صرف میک اپ کی حد تک محدود نہیں، اس میں جوتوں کا بڑا عمل دخل ہو گیا ہے۔ خواتین کی سج دھج اونچی ایڑھی کے بغیر نامکمل تصور کی جاتی ہے۔ خواتین کا یہ ماننا ہے کہ ہائی ہیل خواتین کی نزاکت اور خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہے۔ نئے برس کے پسندیدہ رنگ کی جھلک جوتے اور سینڈل میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے مختلف معروف ڈیزائنروں کی جانب سے خواتین کو ہائی ہیل بوٹ پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اُن کے مطابق اگر اونچی ایڑھی والے بوٹ کا استعمال خواتین ’جینز‘ کے ساتھ کریں، تو ان کی شخصیت کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اگر مردوں میں جامنی رنگ کے استعمال کی بات کی جائے، تو عام طور پر اسے خواتین کا رنگ ہی سمجھا جاتا ہے، تاہم بدلتے رواجوں کے سنگ اب ایسی قدغن نہیں رہی ہے۔ اب مرد حضرات بھی اپنی شریک حیات کے لباس سے لگا کھاتا ہوا جامنی کرتا، خاص طور پر سرد موسم میں اس رنگ کا کوٹ  خرید سکتے ہیں۔ اس سے محفل میں ان کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔

ماہرین جامنی رنگ کو ویسے بھی شاہانہ رنگ سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن اس رنگ کے حوالے سے یہ بات عام ہے کہ جب آپ جاب کے انٹرویو کے لیے جا رہے ہیں، تو جامنی رنگ کا انتخاب بالکل بھی نہ کریں، کیوں کہ جامنی رنگ شوخ رنگوں میں شمار ہوتا ہے اور یہ رنگ دفتر پہننے کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس کے بر عکس آپ کسی پارٹی یا ڈنر پہ جا رہے ہیں، تو جامنی رنگ پہن سکتے ہیں۔

The post فیشن کی رُتوں کا ایک شاہانہ رنگ جامنی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36mWwBk
via IFTTT

روغنیات۔۔۔ غذائیت بھی اور دوا بھی ایکسپریس اردو

ہمارے یہاں تیل کا استعمال عموماً کھانا پکانے کے لیے کیا جاتا ہے، مگر زمانۂ قدیم سے تیل مختلف جسمانی مسائل میں بطور دوا کے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

بازار میں انواع و اقسام کے تیل دست یاب ہیں۔ یہاں میں ہم چند مفید تیلوں کا ذکر کر رہے ہیں، جن کے خواص و فوائد سے آگاہ ہوکر آپ بھی مطلوبہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔

السی کا تیل:

کسی بھی قسم کے درد میں السی کے تیل کا مساج فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دمہ، نزلے، بلغمی کھانسی کی شکایات کی صورت میں بھاپ لے کر نیم گرم پانی میں دو قطرے السی کا تیل ملا کر پینا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ السی میں چونے کا پانی ملاکر پھوڑے پھنسیوں اور جسم کے جلے ہوئے مقامات پر لگانے سے بھی کافی افاقہ ہوتا ہے۔

روغن بادام شیریں:

یہ تیل جسمانی نشوونما میں بے حد اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچوں سے لے کر بزرگوں تک اور مرد و خواتین، سبھی کی صحت کے لیے یکساں مفید ہے۔ ایک چھوٹے چمچے کے برابر روغن بادام شیریں نیم گرم دودھ کے ساتھ استعمال کرنے سے قبض کی شکایت دور ہوتی ہے۔ سر اور جسم میں اس کی مالش سے خشکی دور ہوتی ہے اور بے خوابی کی شکایت رفع ہوتی ہے۔ جسم میں چُستی اور توانائی پیدا ہوتی ہے اور دماغ اور بصارت کو تیز کرتا ہے۔ بالوں کی نشوونما میں نمایاں اضافہ کرتا ہے۔

مچھلی کا تیل:

حافظہ بڑھانے میں اس تیل کا جواب نہیں۔ اس کی مالش ہڈیوں کو مضبوط بناتی ہے۔ دائمی نزلے، جوڑوں کے درد، پٹھوں کے درد اور عرق النسا میں بھی یہ بے حد مفید ہے۔ بچوں کے اس تیل کی مالش کرنے سے وہ بیماریوں سے محفوظ اور چاق وچوبند رہتے ہیں۔

روغن نیم:

سر میں اس کی مالش بالوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ خشکی، سکری اور جوؤں کا خاتمہ کرتی ہے۔ خارش وغیرہ سمیت مختلف جلدی امراض،  یہاں تک کہ ایگزیما وغیرہ میں بھی مفید بتایا جاتا ہے۔ چند قطرے غذا میں شامل کر لیں، تو اس سے خون صاف ہوتا ہے۔

روغن مولی:

یہ قبض کشا اثرات کا حامل ہے۔ بالوں میں لگانے سے جوؤں اور خشکی کا خاتمہ کرتا ہے۔ چہرے کے داغ دھبوں پر رات کو سوتے وقت ہلکے ہاتھوں سے مالش کریں، تو بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔

روغن میتھی:

ذیابیطس (شوگر) کے مریض اس کو گھیکوار کے حلوے کے ساتھ استعمال کریں، تو جسمانی کمزوری دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ خون کی کمی اور اعصابی کمزوری کو دور کرنے میں بہترین ہے۔ اسے نیم گرم کر کے اگر پسلیوں اور پیٹھ کی مالش کی جائے تو بلغم دور کرتا ہے اور اگر پٹھوں اور جوڑوں پر مالش کی جائے تو اسے بھی آرام پہنچاتا ہے۔

لونگ کا تیل:

پٹھوں اور جوڑوں اور کمر درد کی صورت میں سرسوں کے تیل میں ملا کر مالش کرنے سے آرام آ جاتا ہے۔ دانت کے درد میں اگر دو قطرے روئی کے پھائے پر کھ کر متاثرہ دانت پر رکھ لیں، تو افاقہ ہوتا ہے۔ فالج اور لقوہ کے مریضوں کو بھی اس کی مالش سے فائدہ ہوتا ہے۔ تاہم گرم موسم میں اس کے استعمال سے پرہیز کریں۔

روغنِ بابونہ:

جسم کے ورم کو تحلیل کرتا ہے، بوقت ضرورت نیم گرم کر کے متاثرہ جگہ پر مالش کریں، سر اور جسم میں اس کی مالش اعصاب کو سکون دے کر توانائی پیدا کرتی ہے۔ بے خوابی کی شکایت دور کرتی ہے۔

The post روغنیات۔۔۔ غذائیت بھی اور دوا بھی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cJpBbp
via IFTTT

سعودی عرب میں خطرناک دہشت گردوں کا گروہ پکڑا گیا ... ٰملزمان کے ٹھکانے سے کلاشنکوف، اسنائپر رائفلیں، فوجی ملبوسات اور گولہ بارود بھی برآمد ہواہے

شہباز شریف کی گرفتاری کی ٹائمنگ پر سوال کرنے والوں کو سینیئر صحافی نے آڑے ہاتھوں لے لیا ... جب بھی کوئی گرفتارہو تو کہا جاتا ہے کہ اس گرفتاری کی ٹائمنگ دیکھیں، لیکن ملک ... مزید

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان لڑائی، ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ... زندگی کی بازی ہارنے والوں کی تعداد مسلسل اضافے کے ساتھ 100 کے قریب پہنچ گئی ہے، مارے جانے ... مزید

شہباز شریف کورٹ میں سوالوں کے جواب نہ دے سکے، سینیئر صحافی نے حالیہ بحث کے تناظر میں سوالات اٹھا دیے ... بات تو اس پر ہونی چاہئیے کہ شہبازشریف اس بات کا جواب کیوں نہ دے سکے ... مزید

وزیراعظم عمران خان کی جامع پالیسیوں کی بدولت ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے، ... ن لیگ نے کرپشن کے کلچر کو فروغ دیا، نواز شریف سیاسی بہروپیہ ہیں،اپوزیشن میں استعفیٰ ... مزید

ترکی نے مدد کے لیے جنگجو نہیں بھیجے،آذربائیجان

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان لڑائی میں ہلاکتوں کی تعداد 69 ہو گئی

قومی اداروںکی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی اور دیگر ایشوز پر حکومت کا ساتھ دیں،چوہدری فواد حسین

امریکی صدر ٹرمپ نے 10 سال سے ٹیکس ادا نہیں کیا، نیویارک ٹائمز ایکسپریس اردو

 واشنگٹن: معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر گذشتہ 10 سال کے دوران کوئی ٹیکس نہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا ہے کہ ارب پتی ہونے کے باوجود انھوں نے گذشتہ 10 سال کے دوران کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ 2016 میں صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد صرف 750 ڈالر ٹیکس دیا۔

رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کاروبار میں خسارے کو ٹیکس نہ دینے کا جواز بتایا ہے،ٹرمپ نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹ قرار دیا،ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

 

 

The post امریکی صدر ٹرمپ نے 10 سال سے ٹیکس ادا نہیں کیا، نیویارک ٹائمز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3l8IZSr
via IFTTT

شریف خاندان ودیگر سیاسی رہنما انتقام کا شکار ہیں، فضل الرحمن ایکسپریس اردو

 مظفر آباد /  اسلام آباد /  پشاور:  جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ شریف خاندان ودیگر سیاسی رہنما انتقام کا شکار ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے مظفرآباد میں جمعیت علمائے اسلام جموں وکشمیر مظفرآباد ڈویژن کے زیر اہتمام استقبالیہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کشمیر فروش حکمران ہے، ہم نے اس انتقامی نیب کے قانون کی مخالفت کی اس وقت ہماری بات نہیں سنی گئی اور آج شہباز شریف گرفتار ہو چکے ہیں، بیٹا بھی گرفتار ہے، نواز شریف وطن سے باہر ہیں اور دیگر سیاسی رہنما بھی انتقام کا شکار ہیں۔

مولانا نے کہا کہ ملک میں اسلامی عدالت کے قیام کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے متوازی عدالت بنائی جا رہی ہے، مجھے بتائیں کہ نیب کورٹ کیا متوازی عدالت نہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے پاکستان مسلم لیگ( ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکمران احتساب کی آڑ میں اپوزیشن سے سیاسی انتقام لینے پر اتر آئے ہیں۔

The post شریف خاندان ودیگر سیاسی رہنما انتقام کا شکار ہیں، فضل الرحمن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Sa5WYG
via IFTTT

شہباز شریف کی گرفتاری، پارٹی اب مریم نواز چلائیں گی ایکسپریس اردو

 لاہور:  مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پارٹی اب عملی طور پر مریم نواز ہی چلائیں گی۔

شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال سمیت تمام سینئر لیگی قیادت کو شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی کی بجائے نواز شریف کے جارحانہ بیانئے کو ترجیح دینا ہو گی۔ سوموار کوشہباز شریف کی گرفتاری سے قبل ہی پارٹی سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے سہہ پہر 4 بجے پریس کانفرنس شیڈول کر رکھی تھی لیکن شہباز شریف کی گرفتاری کے فوری بعد مریم نواز کی ہنگامی پریس کانفرنس کا دعوت نامہ بھجوا دیا۔

ن لیگی ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے اپنی گرفتاری کی صورت میں پارٹی امور شاہد خاقان اور احسن اقبال کے ذریعے چلانے کا حکم دیا تھا لیکن مریم نواز ہنگامی طور پر میدان میں آئیں اور سینئر لیگی قیادت کو ان کی آواز پر لبیک کہنا پڑا۔ احسن اقبال، پرویز رشید، رانا ثناء اللہ، سردار ایاز صادق، رانا تنویر حسین، خرم دستگیر، مریم اورنگزیب سمیت تمام لیگی قیادت پریس کانفرنس میں موجود تھی۔ صرف شاہد خاقان ، خواجہ آصف اور سعد رفیق ہی موجود نہیں تھے۔

مریم نواز نے عندیہ دیا کہ وہ بہت جلد لیگی کارکنوں کے ہمراہ سڑکوں پر بھی نکلیں گی، ملک گیر احتجاجی جلوسوں، ریلیوں سمیت گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کے لئے بھی مریم نواز ہی فرنٹ فٹ پر کھیلیں گی۔ اب دیکھنا ہو گا کہ پارلیمان کے اندر نواز شریف اور مریم نواز کی پالیسی پر کیسے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔

The post شہباز شریف کی گرفتاری، پارٹی اب مریم نواز چلائیں گی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ibMhCp
via IFTTT

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ہنگامی اجلاس آج اسلام آبادطلب ایکسپریس اردو

 اسلام آباد /  لاہور: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اہم ہنگامی اجلاس آج اسلام آباد میں طلب کر لیا گیا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)کا اہم ہنگامی اجلاس آج ( منگل) کو اسلام آباد میں طلب کر لیا گیا۔ اجلاس مسلم لیگ ( ن) سیکریٹریٹ پارک روڈ بالمقابل چٹھہ چک شہزاد اسلام آباد میں سہہ پہر 3بجے ہوگا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کے رہنما شریک ہوں گے اور شہباز شریف کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور ہو گا۔ اجلاس میں دیگر سیاسی قائدین اور رہنما ؤں کے خلاف بھی حکومت کی سیاسی انتقامی کارروائیوں پر غور ہوگا۔پی ڈی ایم کے رہنما حکومت کی طرف سے سیاسی انتقامی کارروائیوں پر لائحہ عمل مرتب کریں گے۔

 

The post پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ہنگامی اجلاس آج اسلام آبادطلب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/30h70hS
via IFTTT

شہباز شریف کی 2سال میں دوسری ’’نیب جیل یاترا ‘‘ ایکسپریس اردو

 لاہور:  شہباز شریف کی دو سال میں دوسری مرتبہ ’’نیب جیل یاترا ‘‘ہو گئی۔

کورونا کے باعث منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کو ضمانت قبل از گرفتاری کا جتنا ریلیف ملا شاید ہی کسی کو ملا ہو اس کیس کے آغاز سے ہی ’یار دوست ‘کہہ رہے تھے کی شہباز شریف کی گرفتاری اٹل ہے، ان کی گرفتاری سے شریف خاندان کے چھوٹے میاں کا پورا کبنہ ہی پابند سلاسل ہو گیا ہے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری کا مقصد (ن) لیگ کو دو پیغامات پہنچانا ہے۔

 

The post شہباز شریف کی 2سال میں دوسری ’’نیب جیل یاترا ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/30fhyOL
via IFTTT

اسرائیلی فوجی عدالت نے زیرحراست 17 سالہ فلسطینی بچے کو سخت سزا سنا دی ... سامر عبدالکریم عویس کو قابض اسرائیلی فوج نے 15 اپریل 2019ء کو حراست میں لیا تھا

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان لڑائی، ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ... زندگی کی بازی ہارنے والوں کی تعداد مسلسل اضافے کے ساتھ 100 کے قریب پہنچ گئی ہے، مارے جانے ... مزید

وزیراعظم عمران خان کی جامع پالیسیوں کی بدولت ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے، ... ن لیگ نے کرپشن کے کلچر کو فروغ دیا، نواز شریف سیاسی بہروپیہ ہیں،اپوزیشن میں استعفیٰ ... مزید

ترکی نے مدد کے لیے جنگجو نہیں بھیجے،آذربائیجان

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان لڑائی میں ہلاکتوں کی تعداد 69 ہو گئی

قومی اداروںکی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی اور دیگر ایشوز پر حکومت کا ساتھ دیں،چوہدری فواد حسین

Sunday, September 27, 2020

ہالی وڈ کے ایکشن ہیرو ون ڈیزل نے گلوکاری کا آغاز کر دیا

ایرانی فلم اے سیمپل ایونٹ نے اطالوی فلم ایوارڈ جیت لیا

ڈرامہ سیریل بھڑاس رواں ہفتے ریلیز کیا جائے گا

شہزاد شیخ نے اپنی سالگرہ فیملی کے ساتھ منائی

اداکارہ سمبل اقبال اور سمیع خان ڈرامہ سیرل دلہن میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں

ہم کبھی بھی پاکستانی قوم کی محبت کا قرض نہیں چکا سکتے،جلال آل

چین میں 27 ویں بین الاقوامی کتاب میلے کا آغاز

ڈزنی کی فلم ’سانگ آف دی ساؤتھ‘ کے بعد مولان بھی متنازعہ فلم بن گئی

سعودی عرب میں سبزی منڈی کو فن پارے کی شکل دینے کے منصوبے کا آغاز

ایوارڈ نہیں لوگوں کے دل جیتنے ہیں، عاصم اظہر

ہمارے ہاں فلم سے زیادہ ڈرامہ دیکھا جاتا ہے، محب مرزا

شوبز انڈسٹری میں کئی طرح کی مشکلات ہیں ، اسامہ طاہر

ناہید اختر 64 برس کی ہو گئیں

ندا یاسر کوسوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا

عائزہ خان کی چھوٹی بہن کی تصاویرسوشل میڈیا پر وائرل

اداکارہ عائشہ خان نے اپنی والدہ کی سالگرہ منائی

اداکارہ مایا علی کی افنان قریشی کو سالگرہ کی مبارکباد

زرعی پیکیج، کورونا اثرات میں کمی کیلیے سبسڈی اسکیم شروع ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: وزارت قومی تحفظ خوراک و تحقیق نے کورونا اثرات کم کرنے کیلیے زرعی مالیاتی پیکیج کے تحت مارک اپ سبسڈی اسکیم شروع کی ہے۔

اعلامیے کے مطابق زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کے ذریعہ زرعی قرضوں پر10فیصد مارک اپ سبسڈی کیلیے 6.861 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت اسکیم ملک بھرمیں جاری ہے۔ حکومت یکم جولائی 2020 تا 30 جون 2021 تک زرعی قرض پر 10 فیصد مارک اپ برداشت کرے گی۔ متفرق کاشتکار متفقہ شرائط کے مطابق بیلنس مارک اپ برداشت کریں گا۔

سبسڈی قرض کی مکمل ادائیگی کی مقررہ تاریخ 30 جون 2021 ہے۔ کسان قرضوں کیخلاف سبسڈی میں ایڈجسٹمنٹ کیلیے قریبی زیڈ ٹی بی ایل برانچ سے رابطہ کریں۔ اسی طرح وزارت قومی تحفظ نے وائٹ فلائی کیٹناشک کیلیے سبسڈی اسکیم شروع کر دی ہے۔

The post زرعی پیکیج، کورونا اثرات میں کمی کیلیے سبسڈی اسکیم شروع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cCKAgf
via IFTTT

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے کووڈ 19 کا پلازمہ تھراپی طریقہ علاج بند کردیا ایکسپریس اردو

 کراچی:  ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ملک بھر میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران کیا جانے والا پلازمہ تھراپی طریقہ علاج غیراعلانیہ بند کردیا اور پلازمہ تھراپی کے کلینکل ٹرائل کے نتائج بھی ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود جاری نہیں کیے۔

جن افراد نے قومی جذبے کے تحت اپنے خون سے رضاکارانہ طور پر پلازمہ عطیہ کیا وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے دیے گئے عطیات سے کووڈ19 کے مریضوں کو کتنا فائدہ ہوا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے پاکستان میں پہلی بار کووڈ19 کے مریضوں کی جان بچانے کے لیے اپریل میں این آئی بی ڈی کو پلازمہ تھراپی کے کلینکل ٹرائل کی اجازت دی تھی۔

ملک بھر میں کلینکل دوماہ تک جاری رہے ۔ کلینکل ٹرائل کو ایوان صدر سے براہ راست مانیٹر بھی کیاگیا تھا۔اگست میں پلازمہ تھراپی کے کلینکل ٹرائل مکمل کرکے اس کی رپورٹ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو جمع کرائی گئی تھی جس کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے مزید ٹرائل کی اجازت دی اور نہ ہی ان کلینیکل ٹرائل کے نتائج سے عوام کو آگاہ کیا۔ پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے 9 اپریل 2020 کو کووڈ19 کے مریضوں کے علاج کے لیے پلازمہ تھراپی کے کلینکل ٹرائل کی اجازت دی تھی۔

اس کلینکل ٹرائل میں سربراہ این آئی بی ڈی ڈاکٹر طاہرشمسی، لاہور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرام، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو کے پروفیسر بیکا رام سمیت دیگر ماہرین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی ادارے فوڈ اینڈڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے 23 اگست2020 کو کووڈ کے مریضوں کے پلازمہ تھراپی کے ذریعے علاج ومعالجے کی اجازت اور منظوری دی تھی جس کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں اب تک ایک لاکھ سے زائد کورونا کے مریضوں کو پلازمہ تھراپی دی جاچکی ہے۔

The post ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے کووڈ 19 کا پلازمہ تھراپی طریقہ علاج بند کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3kQUf5B
via IFTTT

بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے نئے وی سی چارج لینے سے گریزاں ایکسپریس اردو

 کراچی: بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے نئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری نے تاحال چارج نہیں سنبھالا۔ پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری کی تقرری کے نوٹیفکیشن کو تقریبا 2 ہفتے گزر چکے ہیں مگر وہ چارج لینے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔

ذرائع بتاتےہیں کہ وہ لیاری یونیورسٹی کا چارج سنبھالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ’’ایکسپریس‘‘ کو وائس چانسلر تلاش کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ دوران انٹرویو بھی ڈاکٹر مری نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام ہے اور وہ مذکورہ یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی آسامی کے امیدوار بھی ہیں۔  یاد رہے کہ لیاری یونیورسٹی میں  ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن 16 ستمبر کو جاری ہوا تھا جبکہ سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اختر بلوچ نئے سربراہ کی تقرری کے نوٹیفکیشن کے باوجود ان کی جانب سے چارج نہ لینے کے سبب یونیورسٹی تو آرہے ہیں تاہم صرف روز مرہ کے امور کی نگرانی کررہے ہیں۔  ڈاکٹر فتح محمد مری اس وقت وفاقی ایچ ای سی کے ملازم ہیں اور ایچ ای سی کے قائم مقام ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کا چارج بھی ان ہی کے پاس ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ نے اس حوالے سے جب ڈاکٹر فتح مری سے رابطہ کیا تو انھوں نے رواں ماہ چارج نہ لینے کی اطلاع کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایچ ای سی میں سینئر پوسٹ پر ہیں اور کئی ایک اسائنمنٹس پر کام کررہے ہیں لہٰذا فوری طور پر یونیورسٹی کا چارج نہیں لے سکتے،  انھیں یونیورسٹی کا چارج لینے میں کم از کم 2 یا پھر 4 ہفتے مزید لگ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سن 2011 میں قائم ہونے والی لیاری یونیورسٹی حکومت سندھ کی عدم دلچسپی کے سبب انتظامی اور تدریسی زبوں  حالی کا شکار ہے۔ یونیورسٹی کے سینیٹ کا اجلاس 6 سال جبکہ فیصلہ ساز اور بااختیار ادارے سینڈیکیٹ کا اجلاس ڈیڑھ سال سے نہیں ہوا ہے جس کے سبب یونیورسٹی میں کلیدی عہدوں پرنئی تقرریاں اور اساتذہ کی ترقیاں  رکی ہوئی ہیں۔ سینیٹ کا اجلاس آخری بار یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر آر اے شاہ کے دور میں سن 2014 میں ہوا تھا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تقریباً چار برسوں میں ایک بار بھی خود سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کے لیے تیار ہوئے اور نہ ہی اجلاس کے انعقاد کی اجازت دی جس کے سبب گذشتہ 6 برسوں میں ایک بار بھی یونیورسٹی کا بجٹ سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا،  2019 کے وسط میں اراکین سینڈیکیٹ میں سے اکثر کی مدت پوری ہوگئی اور یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ ٹوٹ گئی۔  نئی سینڈیکیٹ کی تکمیل کے لیے مختلف عہدوں پر اراکین کی نامزدگیاں وزیر اعلی سندھ کو کرنی ہیں۔  یونیورسٹی ذرائع کہتے ہیں کہ ایک سال میں تین بار سمری بھجوانے کے باوجود سینڈیکیٹ کے نئے اراکین کی نامزدگیاں نہیں ہوسکیں۔

سنڈیکیٹ مکمل نہ ہونے سے یونیورسٹی کا سلیکشن بورڈ نامکمل ہے اور سلیکشن بورڈ کی عدم موجودگی کے سبب اساتذہ کی ترقیاں ہوپارہی ہیں نہ ہی نئی تقرریاں کی جارہی ہیں۔ لیاری یونیورسٹی میں اس وقت مستقل رجسٹرار، ڈائریکٹر کوالٹی انہانسمنٹ سیل، کنٹرولر آف ایگزامینیشن اور دیگر اہم اسامیاں بھی خالی ہیں۔

تدریسی شعبوں کا بھی برا حال ہے۔ یونیورسٹی کے 7 میں سے کسی ایک شعبے میں بھی پروفیسر موجود نہیں نہ ہی کوئی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے۔ یونیورسٹی کے مالی معاملات چلانے کے لیے سندھ حکومت نے سلیکشن کے ذریعے سندھ یونیورسٹی جامشورو کے جس افسر کو لیاری یونیورسٹی کا ڈائریکٹر فنانس مقرر کیا تھا انھوں نے یونیورسٹی آکر اس عہدے کا  چارج ہی نہیں لیا۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے اس صورتحال پر موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ سے جب  رابطہ کیا تو انھوں نے ان حالات کے بارے میں تبصرے سے انکار کر دیا۔

The post بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے نئے وی سی چارج لینے سے گریزاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cEkKrS
via IFTTT

پاکستانی گوداموں میں ترسیل کیلیے روبوٹک گاڑیاں تیار ایکسپریس اردو

 کراچی: باصلاحیت نوجوانوں نے پاکستان کی بڑی صنعتوں میں گوداموں میں خام اور تیار مال کی ترسیل کی مشکلات دور کرنے کے لیے خودکار کنویئر روبوٹک گاڑیاں تیار کرلیں۔

یہ ٹیکنالوجی دنیا کی بڑی صنعتوں میں پہلے ہی استعمال ہورہی ہے لیکن مہنگی ہونے کی وجہ سے پاکستان کی صنعتیں اس ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے سے قاصر تھیں، ٹیکنالوجی کی تعلیم و تربیت کے ادارے عثمان انسٹی ٹیوٹ کے ڈپارٹمنٹ آف کمپیوٹر انجینئرنگ کے طالب علموں ارسلان ستار اور سید عالیان نے 6 ماہ کی محنت سے گوداموں میں خام اور تیار مال رکھنے اور ترسیل کی مشکلات حل کردی ہیں، اس پراجیکٹ کو ’’Konveyro The‘‘ کا نام دیا گیا ہے اس سلوشن کے ذریعے مقامی سطح پر ایسی روبوٹ گاڑیاں تیار کی جاسکیں گی جو بھاری وزن کو لمحوں میں ایک سے دوسری جگہ منتقل کریں گی۔

گوداموں کے تنگ راستوں میں یہ روبوٹ گاڑیاں پہلے سے متعین راستوں یا موبائل فون میں درج فاصلوں کے مطابق طے کرکے خام یا تیار مال فیکٹریوں کے ایک حصے سے دوسرے حصے یا گوداموں تک پہنچانے کا کام کریں گی، خود کار روبوٹ گاڑیاں راستے میں کسی انسان یا رکاوٹ کے آجانے کی صورت میں خود بخود رک جائیں گی اس طرح صنعتی حادثات سے بھی نجات ملے گی، یہ سلوشن صنعتی لاگت میں کمی کا بھی ذریعہ بنے گا اور کئی مزدوروں کی جگہ ایک گاڑی بھاری سامان کی ترسیل کرے گی اس طرح افرادی قوت کو زیادہ پیداواری کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

سلوشن ٹیکسٹائل گروپ کی ضروریات پر تیار کیا،طلبا

عثمان انسٹی ٹیوٹ کے طالب علموں نے یہ سلوشن ٹیکسٹائل گروپ الکرم ٹیکسٹائل کی خصوصی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا ہے جو ٹیکسٹائل مل میں خام مال، نیم تیار اور تیار مصنوعات کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی، ویئر ہاؤسنگ یا ملکی و بین الاقوامی منڈیوں کی شپمنٹ کیلیے کنٹینرز اور ٹرکوں تک ترسیل کیلیے استعمال ہوگی۔

اس طرح وقت اور لاگت دونوں کی بچت ہوگی اور صنعتوں کی استعداد کار میں اضافہ ہوگا، صرف ٹیکسٹائل ہی نہیں انجینئرنگ سیکٹر، تعمیراتی صنعت، لاجسٹک اور دیگر ان تمام شعبوں کیلیے کارگر ہوگا جو اپنی مصنوعات گوداموں میں رکھتے یا مختلف مراحل میں ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔

اگلے مرحلے میں روبوٹ گاڑیوں میں مصنوعی ذہانت استعمال کی جائیگی
ارسلان ستار اور سید عالیان کا کہنا ہے کہ یہ ابھی ابتدائی مراحل ہیں اگلے مراحل میں مصنوعی ذہانت کی تکنیک استعمال ہوگی اور یہ روبوٹ گاڑیاں کم سے کم انسانی رہنمائی کے ساتھ اپنے طور پر مصنوعات شناخت کرکے متعین جگہوں اور راستوں سے گزرتے ہوئے خام یا تیار مصنوعات کی ترسیل کریںگی۔

خودکار گاڑیاں دو طرح سے کام کرسکتی ہیں
وزن اٹھانے اور ایک سے دوسری جگہ سامان منتقل کرنے کی صلاحیت کی حامل یہ خودکار گاڑیاں دو طرح سے کام کرسکتی ہیں پہلے ماڈل میں موبائل فون ایپلی کیشن کے ذریعے فاصلہ مقرر کرنے کی صورت میں گاڑیاں سامنے یا عقب میں حرکت کریں گی اور مقررہ جگہ پر جاکر رک جائیں گی دوسرے ماڈل کی گاڑیوں پر ایک کنویئر بیلٹ بھی نصب ہوگا جو مخصوص فاصلہ طے کرنے کے بعد اوپر رکھا ہوا وزن یا اشیا کو کنویئر بیلٹ کے ذریعے پلیٹ فارم یا کسی مشین تک خودکار طریقے سے منتقل کریں گی۔

روبوٹ گاڑیاں لاگت ایک ماہ میں نکال لیں گی،ارسلان

’’Konveyro The‘‘ کی ٹیم کے رکن ارسلان ستار کے مطابق یہ سلوشن انڈسٹریل ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسرچ کی بنیاد رپر تیار کیا گیا جو غیرملکی سلوشنز سے 50 فیصد تک سستا اور پاکستان کے ماحول کے عین مطابق ہوگا،ارسلان کا دعویٰ ہے کہ تیار ہونے والی خودکار روبوٹ گاڑیاں اپنی لاگت ایک ماہ میں ہی نکال لیں گی اور صنعتوں کی لاگت میں کمی اور پیداواری گنجائش بڑھانے میں مدد دیں گی، ارسلان ستار اور سید عالیان اپنا یہ پراجیکٹ آج پیر کو اپنے اساتذہ کے سامنے پیش کریں گے اور اگلے مرحلے میں صنعتوں کے سامنے پیش کیا جائے گا، صنعتوں کی ضروریات کے مطابق خودکار گاڑیاں تیار کرکے مہیا کی جائیں گی جس کی لاگت حجم، وزن اٹھانے کی صلاحیت پر منحصر ہوگی۔

The post پاکستانی گوداموں میں ترسیل کیلیے روبوٹک گاڑیاں تیار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/339KQjz
via IFTTT

ضلع وسطی میں مسائل زیادہ ہیں، ماڈل علاقہ بنائیں گے، وزیر بلدیات ایکسپریس اردو

 کراچی:  وزیربلدیات ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ کراچی کے ضلع وسطی کوماڈل علاقہ بنائیں گے،ضلع وسطی کے مسائل کی نشاندہی کرلی ہے۔

سڑکوں سے کچراہٹایا جائے گا،سڑکوں کی تعمیر سے قبل سیوریج کا نظام بہتر بنایاجائے گا،سالڈ ویسٹ منجمنٹ کو ضلع وسطی میں فعال کردیا گیا ہے امید ہے جلد بہتری نظر آئیگی،وہ ڈپٹی کمشنرضلع وسطی کے دفتر میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے ،صوبائی وزیرکاکہنا تھاکہ ضلع وسطی سب سے بڑا ضلع ہے سب سے زیادہ مسائل بھی یہاں ہی ہیں،چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے وزیراعلیٰ کوکراچی کے تمام علاقوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایت کی ہے جس پر عمل درآمد شروع کردیا گیاہے۔

ضلع وسطی میں سڑکوں اور گلیوں کا بارشوں سے برا حال ہوا،سڑکوں سے پہلے سیوریج کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا،بارشوں سے روڈگلیاں علاقے آمدورفت دشوار ہوگئی ہے ،اسٹریٹ لائٹس پارکوں کو بھی بہتر بنایا جائے گا،بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ سندھ نے ضلع وسطی کی بہتری کے لیے ایک ارب روپے کا فنڈفراہم کردیاہے شہری جلد بہت بڑی تبدیلی دیکھیں گے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے حقوق کراچی کے نام پرنکالی جانے والی ریلیوں کے سوال پرناصرحسین شاہ نے کہاکہ ایک ریلی ہم بھی نکال لیں گے، سیاست کرنا جماعتوں کا حق ہے لیکن لسانیت اور نفرت نہ پھیلائی جائے،شہرکی ترقی کے سفر میں تمام سیاسی جماعتوں اوراسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کرچلیں گے، ضلع وسطی سمیت شہر بھر میں سرکاری اداروں نے تجاوزات کو سرکاری حیثیت دی اور تجاوزات قائم کرنے کی باضابطہ اجازت دی گئی تاہم اب تمام تجاوزات کاخاتمہ کردیاجائے گا۔

The post ضلع وسطی میں مسائل زیادہ ہیں، ماڈل علاقہ بنائیں گے، وزیر بلدیات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3iammLo
via IFTTT

کے ڈی اے : بجٹ پاس کیے بغیر کروڑوں کی ادائیگیاں ایکسپریس اردو

 کراچی: ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے آصف اکرام آج مالی سال کابجٹ پیش کریں گے، بجٹ بغیر پاس کرائے ڈی جی نے کروڑوں روپے کی ادائیگی بھی کردیں جبکہ رواں مالی سال مالیاتی امور  پورے ملک میں جون کو شروع ہوچکے لیکن ادارہ ترقیات کراچی کابجٹ4 ماہ کی تاخیر کے بعدآج پیش کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق جون میں پورے ملک کی تمام حکومتوں اور اداروں نے اپنے بجٹ پیش کردیے تھے لیکن ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) انتظامی امور ٹھپ ہونے اور ڈائریکٹر جنرل مہینہ وار تبدیل ہونے کے باعث اپنا بجٹ پیش نہیںکرسکا تھا جس ایک بہت بڑا سوال اٹھتاہے کہ ادارہ ترقیات کراچی گزشتہ 4ماہ سے کس قانون اور بجٹ کے تحت اپنے امور چلارہاہے ،3 ماہ سے ملازمین کی تنخواہیں بند جبکہ ضعیف رٹائر ملازمین پینشن کے لیے دردرکی ٹھوکریںکھانے پرمجبورہوگئے ہیں،ڈی جی کے ڈی آصف اکرام 4 ماہ سے تعینات ہیں۔

انھوں نے پانی گاڑی کی خریداری کے لیے فنانس ڈپارٹمنٹ سے ادائیگی کرائی دیگر امورمیں 4 ماہ سے ادائیگی کی جارہی ہے، ڈی جی نے تمام ضابط اخلاق کو بلائے طاق رکھتے امور چلارہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادارہ ترقیات کراچی کا نظام کس طرح چلایا جارہا ہے،ملازمین  3 ماہ سے تنخواہوں سے محروم اورپنشنرزپنشن سے محروم ہیں،ڈی جی آصف اکرام نے غفلت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں،کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) تقریبا 4 ماہ کی تاخیر کے بعد جاری مالی سال (21-2020) کے لیے 5 ارب 48 کروڑ 46 لاکھ 70 ہزار روپے کا فاضل بجٹ آج پیش کرے گی۔

بجٹ میں اضافی آمدنی کا تخمینہ 1 ارب 61 کروڑ 16 لاکھ 6 ہزار روپے لگایا گیا ہے، کے ڈی اے بجٹ میں انتظامی امور کے لیے 4 ارب 47 کروڑ 49 لاکھ 76 ہزار روپے، ہنگامی حالات کے لیے 40 کروڑ 86 لاکھ 44 ہزار، مرمتی کاموں کے لیے 7 کروڑ 83 لاکھ روپے اور ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے 52 کروڑ 27 لاکھ 50 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔

ایکسپریس کو موصول بجٹ دستاویز کے مطابق رواں مالی سال جاری وصولیوں کی مد میں 4 ارب 47 کروڑ 17 لاکھ 76 ہزار روپے اور کیپیٹل وصولوں کی صورت میں 17 کروڑ 65 لاکھ روپے حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ حکومتی گرانٹ کی مد میں 2 ارب 44 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل ہونے کی توقع ہے، کے ڈی اے کی مجموعی آمدنی کے 7 ارب 9 کروڑ 62 لاکھ 76 ہزار روپے کے تخمینے کی نسبت اخراجات یا بجٹ کا حجم 5 ارب 48 کروڑ 46 لاکھ 70 ہزار روپے ہوگا۔

اس طرح رواں مالی سال کا بجٹ 1 ارب 61 کروڑ 16 لاکھ 6 ہزار روپے فاضل ہوگا، بجٹ دستاویز کے مطابق مالی سال 21-2020 میں کے ڈی اے سیکریٹریٹ کے لیے 35 کروڑ 51 لاکھ 65 ہزار روپے، فنانس اینڈ اکاؤنٹس کے لیے 44 کروڑ 90 لاکھ روپے، قانون کے لیے 3 کروڑ 36 لاکھ 47 ہزار روپے، کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ کے لیے 25 کروڑ 93 لاکھ 53 ہزار روپے، ریونیو ڈپارٹمنٹ کے

The post کے ڈی اے : بجٹ پاس کیے بغیر کروڑوں کی ادائیگیاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/30f3i8C
via IFTTT

Saturday, September 26, 2020

عالمی برادری کی ہانگ کانگ اور سنکیانگ کی آڑ میں چین کے داخلی امور میں مداخلت کی شدید مخالفت

ڈونالڈ ٹرمپ نے کونی بیریٹ کو سپریم کورٹ کی نئی جج کے طور پر نامزد کردیا

سعودی عرب ، سرحدی سلامتی قوانین کی خلاف ورزی، 159 تارکین گرفتار

عراق میں امریکی سفارتخانہ بند کرنے کی دھمکی

میں بھی ایک ماں ہوں، بہن ہوں اور کسی کی بیٹی ہوں اور ایک عزت دار گھرانے سے ہوں: عائشہ رجب ... میرا کسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں، سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے میری عزت پر ... مزید

بھارت کا ایل او سی پر جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں اور جارحانہ رویہ دونوں ممالک کے درمیان بڑے پیمانے پرجنگ کی طرف اشارہ ہے ... آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل افتخار ... مزید

مودی کے خطاب میں بین الاقوامی مسائل کا کوئی ذکر نہیں تھا‘ مودی نے مسئلہ کشمیر‘ مشرق وسطی خاص طور پر فلسطین کے معاملات پر کوئی بات نہیں کی ... اقوام متحدہ میں پاکستان کے ... مزید

اولمپکس کے اخراجات میں کمی کیلئے لاگت میں کٹوتی کا فیصلہ

آئی پی ایل، کرکٹر ویرات کوہلی پر 12لاکھ روپے کا جرمانہ

نیشنل شوٹنگ چمپئن شپ میں آرمی کے شوٹرز چھاگئے

خیبرپختون خوا کے معروف مارشل آرٹ ماہر عرفان محسود نے 35 واں ورلڈ رکارڈ قائم کر لیا

مودی حکومت میں پاک بھارت کرکٹ سیریز کا کوئی امکان نہیں، شاہد آفریدی

پانچ سالہ بچی نے شور مچا کر مبینہ زیادتی کی کوشش ناکام بنا دی ... محلے داروں نے ملزم وسیم کو پکڑکر پولیس کے حوالے کر دیا

آج کا دن کیسا رہے گا ایکسپریس اردو

حمل:
21مارچ تا21اپریل

بسلسلہ کاروبار کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ہو سکتا ہے کسی بڑی فرم کے ساتھ آپ کو کام کرنے کا موقع مل جائے اس سے ضرور فائدہ اٹھایئے۔

ثور:
22 اپریل تا 20 مئی

غیر متوقع طور پر جائیداد کا کوئی مسئلہ حل ہو جائے گا، گھر میں مہمانوں کی آمدورفت رہے گی، رشتے داروں کے ساتھ تعلقات محدود ہی رکھیں تو بہتر ہے۔

جوزا:
21 مئی تا 21جون

کاروباری حضرات پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے کاموں کی تکمیل وعدہ کے مطابق کر دیں تاکہ آپ کے شریک کاروبار آپ سے بدظن نہ ہو سکیں، جلد بازی کسی بھی کام میں نہ کریں۔

سرطان:
22جون تا23جولائی

مخالفین آپ کے خلاف سازشوں کا جال تو بچھائیں گے مگر بفضل خدا آپ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے، گھریلو معاملات میں شریک حیات کے مشوروں کی قدر ضرور کر لیں۔

اسد:
24جولائی تا23اگست

کسی فرد سے لڑائی جھگڑا ہرگز نہ کریں، کاروبار شراکت میں ہرگز نہ کریں البتہ تنہا کرنا فائدہ مند ثابت ہو سکے گا، شریک حیات رہ معاملے میں معاون رہیں گے۔

 

سنبلہ:
24اگست تا23ستمبر

جنس مخالف میں دلچسپی نہ ہی لیں تو بہتر ہے کیونکہ اس میں سوائے وقت ضائع ہونے کے آپ کو کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔

میزان:
24ستمبر تا23اکتوبر

مخالفین کی سازشوں کا سدباب قبل از وقت کر لیجئے ہر معاملے کی تحقیق خود کریں، اپنی صحت کے معاملے میں ذرا محتاط ہی رہیں تو زیادہ بہتر ہے۔

عقرب:
24اکتوبر تا22نومبر

سیاسی اور سماجی کارکن اپنا وقت محتاط رہ کر گزاریں بعض الجھے ہوئے معاملات پریشانی کی وجہ بن سکتے ہیں البتہ مفت کی دولت ملنے کا امکان ہے۔

قوس:
23نومبر تا22دسمبر

کاروبار جس سطح پر چل رہا ہے چلنے دیں معمولی سی تبدیلی نقصان کا باعث بن سکتی ہے، محبوب سے وفاداری کی امید آج نہ ہی رکھیں تو زیادہ بہتر ہے۔

جدی:
23دسمبر تا20جنوری

اپنے بکھرے ہوئے خیالات کو اکٹھا کریں تاکہ بعض اہم معاملات کے سلسلے میں درست فیصلے کئے جا سکیں، سیاسی پوزیشن مضبوط ہونے کی امید ہے۔

دلو:
21جنوری تا19فروری

دوستوں کا گھر میں آنا جانا کافی حد تک کم کر دیں، بسلسلہ محبت مایوسیاں بڑھتی جائے گی، نئی ملازمت کے حصول کی کوشش بار آور ثابت ہو گی۔

حوت:
20 فروری تا 20 مارچ

کوئی مخالف صلح کا طلب گار ہو سکتا ہے، یہ صلح فائدہ مند ثابت ہو گی، ضرور کریں کاروباری سکیمیں جو آپ کافی عرصہ سے بنا رہے تھے عمل کریں کامیابی ہو گی۔

The post آج کا دن کیسا رہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3i3A97l
via IFTTT

بے چاری عوام یا بے چارے عوام؟ ایکسپریس اردو

 زباں فہمی نمبر66

یادش بخیر ایک لطیفہ اسی سلسلہ کالم میں ایک بار پھر بطور قندمکرر پیش کررہا ہوں۔ یہ بات کوئی تیس برس پرانی ہے۔ ایک تقریب ِ شادی میں ایک بزرگ سے مختصر ملاقات ہوئی جو کچھ سال پہلے وفاقی حکومت کی گریڈ بائیس کی نوکری سے، بطور سیکریٹری سبک دوش ہوئے تھے۔

خاکسار نے اُن سے (بزبان انگریزی) سوال کیا کہ آیا پاکستان کی معیشت تباہ ہوچکی یا ابھی زوال پذیر ہے۔ اُنھوں نے بغور میری طرف دیکھ کر کچھ توقف کیا اور پھر جواب دیا، نہیں…تباہ تو نہیں ہوئی، مگر زوال پذیر ہے۔ پھر ایک آدھ بات کے بعد، رعایا کی زبان یعنی اردو میں گویا ہوئے۔

کہنے لگے، بھئی میرا ایک دوست وزارت تعلیم میں سیکریٹری ہے۔ ایک عرصے کے بعد ملاقات ہوئی تو کہنے لگا، یار بڑی مشکل میں ہوں۔ میں نے کہا، کیوں کیا ہوا۔ کہنے لگا:’’سب کا وزیر ہوتا ہے، میرا وزیر ہوتی ہے۔‘‘ (سابق سینیٹر محمد علی خاں ہوتی)۔ یہ لطیفہ میرے لیے ناقابل فراموش ہے، اس لیے بھی کہ اَب ایسے بذلہ سنج لوگ، اہل زبان میں بھی، خال خال ملتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کے دور میں زندہ ہیں، جہاں ٹی وی چینلز ، ویب سائٹس اور ویب چینلز کی بھرمار۔یا۔ یلغار نے ہماری زوال پذیر تہذیب وثقافت کا ستیاناس کردیا ہے۔

زبان تہذیب و ثقافت کا جُزو ِ لاینفک ہے، یعنی ناقابل تقسیم حصہ، اَٹُوٹ اَنگ (جیسا کہ ہندوستان کشمیر کو کہا کرتا تھا اور غلط کہتا تھا، مگر ہماری بقراط قیادت نے اُسے پورا موقع فراہم کیا کہ اس وادی بے نظیر کے اَنگ اَنگ پر تسلط جمالے)…..خیر بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ ایک لطیفہ اور پیش کرتا ہوں (اگر پانچ سال میں مکرر ہورہا ہو تو اسے بھی قندمکرر سمجھ لیں)۔

خاکسار نے پہلے ایک مقامی ادارے سے، تین ماہ تک، فرینچ کی بنیادی تعلیم حاصل کی (۱۹۸۴ء میں)، پھر فرانس کے اپنے قایم کردہ ممتاز ادارے سے ایک سال تک (پانچ درجات پر مشتمل5-degree/ ) کورس کیا، یہ بات ہے ۱۹۸۷ء تا ۱۹۸۸ء کی۔ (مکرر عرض کرتا ہوںکہ فرانس کی زبان کو یا تو فرانسی کہیں یا فرانسوی، جیسا کہ اہل ایران کہتے ہیں، فرانسیسی غلط ِ محض ہے اور اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اَب فرینچ ادارے کے لوگ بھی اپنے اشتہار میں یہی لکھوارہے ہیں۔ ؎ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے!)۔

ہوا یوں کہ پہلے ہی درجے میں طلبہ کی اکثریت پاکستانی (کچھ برگر، کچھ پنجابی، کچھ دیگر اقوام کے اور کچھ مہاجر ہمارے ایسے غریب عوام یعنی مِکس پلیٹ) تھی جبکہ مختلف افریقی اقوام کی نمایندگی بھی ہورہی تھی۔ ایک دن سبق کا موضوع تھا،’’ممالک اور اقوام کے اسماء اور اُن کی صنفی حیثیت‘‘ یعنی یہ کہ اُنھیں مذکر پکارا جائے یا مؤنث۔ شُدہ شُدہ باری آئی، وطن عزیز کی۔ ہماری تقریباً ہم عمر، خاتون (برگر) استانی نے بتایا کہ پاکستان، فرینچ میں مذکر ہے۔

ایک پنجابی صاحب نے بڑے جوش سے نعرہ مارا : ’’او شکر ہے!‘‘…..سب اہل وطن قہقہہ لگانے پر مجبور ہوگئے اور ہماری (شاذ ہی مسکرانے والی) استانی بھی ہنسی ضبط نہ کرسکی۔ اثنائے تحریر اس کالم میں کئی مرتبہ ایسے نکات یا موضوعات کی تکرار لازمی محسوس ہوئی جنھیں دُہرائے بغیر ؎ ’’بنتی نہیں ہے بات، مکرّر کہے بغیر‘‘ والا معاملہ درپیش ہے۔ ان میں ایک مسئلہ تذکیر وتانیث کے بگاڑ کا بھی ہے۔

لفظ اگر جان دار مخلوق ہوتے اور اپنے ساتھ ہونے والے نارَوا سلوک پر احتجاج کرنے کے قابل ہوتے (نیز اُنھیں پاکستان کے مظلوم عوام کی طرح، اُٹھائے جانے اور غائب کیے جانے کا ڈر خوف نہ ہوتا) تو جو الفاظ اس معاملے میں پیش پیش ہوتے، اُن میں سرفہرست لفظ ہے، عوام۔ اس لفظ کی وہی دُرگَت بن چکی ہے جو عوام کی، یعنی عوامِ پاکستان کی، گزشتہ چند عشروں میں بنی۔

جس کا جیسا جی چاہتا ہے، سلوک کرتا ہے۔ آج سے کوئی اٹھارہ اُنیس سال پہلے، نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار کا دروازہ کھلا (یعنی انگریزی میں Flood-gate) تو جہاں اناڑی کی بندوق قسم کے جعلی صحافی، یک دم، مہان اور مہاشے بن کر اُبھرے، خبروں کی پیشکش میں، مواد کی صحت اور زبان کی صحت سے زیادہ، مُکھڑوں کی نمائش اور معاف کیجئے گا، گُل بدن قسم کی مخلوق کی نمائش پر بھرپور توجہ دی گئی، وہیں یہ سانحہ بھی ہوا کہ معیاری زبان سے زیادہ ، بگڑی ہوئی بولی ٹھولی اور غیرزبان کے بولنے والوں کی بولی ٹھولی شعوری طور پر اپنائی گئی۔

یہ سلسلہ دراز ہوا تو ناصرف اخبارات، ادبی جرائد، بلکہ ہمارے اہل قلم بھی لپیٹ میں آگئے۔ یعنی اسی سیلِ رَواں میں بہہ گئے۔ (میرے نزدیک ایسے الفاظ میں صوتی شدت نمایاں کرنے کے لیے حرف کا مکرر استعمال درست ہے، ورنہ ’بہ ‘ یعنی سے، کو، میں اور ’بہہ‘ یعنی بہہ جانا ایک ہوجائیں گے، اسی طرح ’کہ ‘ اور ’کہہ‘ کا معاملہ ہے۔ میں اردواملاء میں ایسے جدید تغیر کا قائل نہیں)۔ چونکہ کئی مقامی زبانوں کے اہل زبان، اپنی لاعلمی کی وجہ سے عوام کو مؤنث سمجھتے تھے اور کہتے تھے، لہٰذا، اہل زبان نے بھی اُن سے سن سن کر، بغیر جانے بوجھے، سوچے سمجھے، عوام کو مؤنث بنا ڈالا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہمارے اہل سیاست بشمول صدر، وزیراعظم، وزراء اور مشیران بھی عوام کو مؤنث کہہ رہے ہیں۔

صدر کا تعلق دہلی پنجابی سوداگران برادری سے ہے، یعنی وہ اہل زبان ہیں، رہے وزیر اعظم تو اُن کی اردو دانی کے علاوہ (آکسفرڈوالی) انگریزی دانی کا ڈنکا ایک عالَم میں پٹ چکا ہے۔ ولایت پلٹ کھلاڑی، کپتان اور سربراہ سیاسی جماعت کا روزِاوّل سے خیال ہے کہ انگریزی لفظ  Tigerکا اردو متبادل ہے، چیتا۔ وہ اس خیال کا اظہار اپنی انتخابی مہم میں اور بعد میں برسراقتدار آنے کے بعد بھی، عوام سے خطاب کرتے ہوئے کرچکے ہیں اور عوام کا یہ ’غیرمنتخب نمایندہ‘ پہلے بھی دو مرتبہ اسی کالم میں نشان دہی کی جرأت کرچکا ہے……خاکسار نے تو پاکستان سے باہر کی کوئی جگہ، ماسوائے تصاویر کے، نہیں دیکھی، چہ جائیکہ آکسفرڈ، لہٰذا اُس کا کہا ہوا مستند نہیں مانا جائے گا، مگر پھر بھی میرا خیال ہے کہ Tigerکو اردو میں شیر کہتے ہیں (وہی جو آپ کے بدترین سیاسی حریف یا مخالف کا نشان ہے۔

ویسے وہ لوگ ببرشیر یعنی Lion سے بھی کام چلاتے ہیں) ، جبکہ جسے آپ چیتا سمجھ رہے ہیں اور جس کی تیزی اور تیزرفتاری مثل ہے، وہ انگریزی میں Leopard ہے (جسے ہمارے بہت سے مقامی انگریز، لَے پَرڈ کی بجائے، لیو پرڈ کہتے ہیں) اور اس کا ایک بھائی ہوتا ہے تیندوا جس کی جست مشہور ہے، اُسے انگریزی میں Panther کہتے ہیں۔ بہرحال ہوسکتا ہے کہ کل کسی ’’انصاف زدہ‘‘ کا بیان آجائے کہ یہ عوام کے متعلق لکھنے والا ’’غریب عوام‘‘ کیا جانے کہ آکسفرڈ میں چیتے کو کیا کہتے ہیں۔ اس بابت سب سے پہلا بیان فواد چودھری کا آنا چاہیے۔

(’’سائنسی ترقی کے اس دور میں جب دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے تو ہم اسی بحث میں پڑے ہیں کہ Tigerشیر ہے یا چیتا‘‘)، پھر شاہ محمودقریشی (’’دیکھیے عمران خان صاحب نے پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کیا ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ Tigerچیتا ہے تو کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کی تردید کرے‘‘)، شبلی فراز (میں شاعر تو نہیں ہوں، مگر یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خان صاحب کبھی غلط بات نہیں کرتے‘‘)، شہبازگِل (یہ اپوزیشن کا ہتھکنڈا ہے کہ اپنی کرپشن چھُپانے کے لیے ایسی بحث چھیڑ دی، ورنہ ساری دنیا کو پتا ہے کہ Tigerکو کیا کہتے ہیں‘‘)، مراد سعید (’’میرا خان دوسروں کی طرح کرپٹ نہیں۔ مجھے اچھی طرح پتا ہے، یہ اپوزیشن کے چور ڈاکو ہیں جنھوں نے Tigerکو چیتے سے شیر بنانے کی کوشش کی ہے‘‘) سمیت دیگر کا…..مگر امید ہے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری اس ضمن میں خاموشی اختیار کریں گی اور ویسے ڈاکٹر یاسمین راشد تو بے چاری ویسے بھی اکثر خاموش ہی رہتی ہیں۔

صاحبو! ایک بار پھر یاد دہانی لازم ہے کہ لفظ عوام جمع کا صیغہ ہے اور مذکر ہے۔ اس کا واحد ہے ’عامّہ‘ (جیسے مفادِعامہ ، وغیرہ)۔ عامۃ الناس یعنی عام لوگ کی جمع ہے عوام الناس (یہ ’الناس‘ شمسی ہے یعنی اس کا تلفظ ہے: اَن۔ناس، لام ساکن کے ساتھ۔ یہ وہ نکتہ ہے جو ہمارے یہاں مشاہیر اہل قلم اور اساتذہ ٔ جامعات بھی فراموش کرچکے ہیں۔یا۔ سرے سے جانتے ہی نہیں!)۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک نظر لغات پر ڈالتے ہیں۔

لغات کشوری از مولوی تصدق حسین رضوی کے مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے علاوہ ایک لفظ عوّام بھی موجود ہے (صحابی رسول حضرت زبیر بن العوّام رضی اللہ عنہ‘ کے والد کا نام) جس کا مطلب ہے، خوش رفتار گھوڑا۔ فرہنگ آصفیہ کا انکشاف ہے کہ لفظ عوام (بمعنی عامّہ کی جمع، عام لوگ، تمام آدمی، خلق اللہ، مخلوق ، رعایا، پرجا، بازاری آدمی، جُہَلا، جاہل آدمی، رَدواکھدوا) کے میم پر تشدید ہے، نیز عوام الناس کا مطلب ہے عام لوگ، تمام آدمی، ہمہ شما۔ سردست مصباح اللغات عربی اردو لغت نہیں دیکھ سکا۔

لہٰذا اس کی تصدیق کسی عربی ماخد سے نہیں ہوسکی۔ ارے صاحبو! اسی پر بس نہیں، ابھی کچھ عرصے سے ٹی وی چینلز کے خبر رَساں افراد (News Reporters) اور خبرخواں افراد (News Anchors/News Readers/News Casters) اور پروگراموں کے میزبان حضرات (Anchors/Hosts)نے ایک اور بدعت کا آغاز کیا ہے۔ وہ عوام الناس کی بجائے (کے بجائے بھی مستعمل ہے، مگر درست نہیں)، عام عوام کہہ رہے ہیں۔ تو بھائیو اور بہنو! یہ خاص عوام کون ہیں؟…..اَب اس مرتبہ کسی نہ کسی ’’میڈیا بھونپو ‘‘ کا بیان اس کالم کی تردید میں آنا لازم ہے۔ ویسے اردو کی چالو بولی یا Slang میں یہ اضافہ، اس خاکسار نے ابھی ابھی اثنائے تحریر کیا ہے۔ میڈیا کے مختلف بھونپو ماضی بعید یا ماضی قریب میں کیا تھے، کون تھے، کیا کررہے تھے …..اس موضوع پر بھی ایک ایسی ہی کتاب لکھی جاسکتی ہے جیسے کسی سرپرست نے کبھی کسی لڑکے کی تصویر لگا کر، کسی اور سے لکھواکر، شایع کی تھی۔

ارے ارے ……یہ کالم تو ضرورت سے زیادہ عوامی رنگ اختیار کررہا ہے اور خواص کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہورہا ہے جو ازروئے قانون، جرم ہے۔ بھئی جب عوام کو چھیڑیں گے تو ایسا عوامی ردّعمل تو سامنے آئے گا۔ چلیے موضوع سے یعنی پٹڑی سے اتر ہی گئے ہیں تو ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ یہ بات ہے کوئی تیرہ سال پرانی، جب خاکسار ایک مشہور سرکاری عمارت میں واقع ایک نجی ادارے کے دفتر سے اشتہارات کے سلسلے میں بات چیت کے بعد ، واپس جارہا تھا تو ایک سرکاری ادارے کے بورڈ پر نظر پڑی، یاد آیا کہ اپنے فُلاں رشتے دار بھی اسی سے وابستہ ہیں، مگر ’’ان تِلوں میں تیل نہیں‘‘ اور مصلحت ہر لحاظ سے یہی ہے اور تھی کہ اُنھیں نہ چھیڑا جائے۔ خیر موڈ بن ہی گیا تو باہر لگی اطلاعی گھنٹی بجائی۔ گارڈ نے تفتیش کے بعد ایک صاحب سے بات کرائی۔

انھوں نے فرمایا کہ ویسے تو ہمارے یہاں ایسی مطبوعات کے لیے اشتہار نہیں دیا جاتا، مگر خیر آپ سے ملاقات کرکے بڑی خوشی ہوگی۔ براہ کرم اندر تشریف لے آئیے۔ خاکسار اُن کے پاس حاضر ہوا تو انھوں نے کہا، ’’ویسے میں رائٹر تو نہیں ہوں، مگر مجھے بھی بڑا ’شوک‘ (شوق) ہے، آپ جیسے بڑے رائٹرز سے ملنے کا‘‘۔ گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا، اس راقم نے ان کی خدمت میں اپنا رسالہ پیش کیا۔ انھوں نے پہلے تو خوشامدی لہجے میں بات چیت جاری رکھی، پھر جب معلوم ہوا کہ میرے وہ رشتے دار اُن کے قریبی رشتے دار ہیں تو اُن کا پیرایہ کچھ بدل گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ رخصت ہوتے وقت بھی انھیں مسرت تھی کہ ایک ’بڑے ‘ رائٹر سے ملاقات ہوگئی۔

ڈیڑھ سال بعد یہی ’’غریب عوام‘‘ یعنی راقم ایک نجی ٹی وی چینل میں ملازمت کی غرض سے، اُس کے CEO سے وقت طے کرکے ملاقات کے لیے اُن کے دفتر پہنچا۔ اکڑی ہوئی گردن، گھٹی ہوئی توند اور ’’رگڑپالش‘‘ کے نتیجے میں برآمد ہونے والے گلابی رنگ کے ساتھ، جو صاحب تشریف لائے اور بڑے افسرانہ انداز میں کہا، ’’جی سدیکی صاب! فرمائیے کیسے آنا ہوا؟‘‘….یہ وہی صاحب تھے جنھیں رائٹرز سے ملنے کا شوق تھا، پھر ظاہر ہے کہ ایسے شوقین آدمی کو تو اس کا مقام مل گیا، اس خاکسار کو ملازمت کے لیے کون پوچھتا، اُن سمیت۔ وہ صاحب آج کل مختلف ٹی وی چینلز پر بطور Senior Anchor/Analystیعنی میزبان/تجزیہ کار بھاشن دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے عوام سے خواص میں شامل ہونے کا سفر۔

The post بے چاری عوام یا بے چارے عوام؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33VObli
via IFTTT

ہالی وڈ سٹار سینڈرا بولاک ایکسپریس اردو

زندگی میں کامیابی ہر انسان کی فطری خواہش ہوا کرتی ہے کیوں کہ نشیب و فراز سے جڑی زندگی میں ناکامی سے ہر کوئی خائف ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی اظہرمن الشمس ہے کہ کامیابی کا حصول محنت و جُہد مسلسل کے بغیر ممکن نہیں۔

آج زندگی کے ہر شعبہ میں کامیاب افراد کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہو گاکہ یہ سب ان کی جُہد مسلسل اور مصمم ارادے کی بدولت ہی ممکن ہو سکا ہے۔ ان لوگوں نے پہلے اپنی منزل کا تعین کیا اور پھر اس خواب کی تعبیر کے لئے نکل پڑے، جس دوران انہیں کئی بار کرب و اذیت کے مراحل سے گزرنا پڑا لیکن ان کے قدم لڑکھڑائے نہیں۔ پھر اس میں مرد یا خاتون کی کوئی تخصیص نہیں، یہ طے ہے کہ جو بھی محنت اور جُہد مسلسل کرے گا کامیابی اس کے قدم چومے گی۔

ایسی ہی شخصیات میں ایک شخصیت ہالی وڈ سٹار سینڈرا بولاک ہیں، جو کامیابی اور اس کے حصول کے بارے میں کچھ یوں گویا ہوتی ہیں کہ ’’ میں نے سیکھا ہے کہ کامیابی کانٹوں سے بھرا ایک پیکیج ہے، چاہے آپ اسے قبول کرنا چاہتے ہیں یا نہیں یہ آپ پر منحصر ہے۔

لہذا ہمیشہ طالب علم بنیں کیوں کہ ایک بار اگر آپ استاد بن جاتے ہیں تو آپ کامیابی کھو بیٹھتے ہیں‘‘ اداکارہ نے اپنی جُہد مسلسل اور مصمم ارادے سے وہ کر دکھایا جو شائد ان کے خاندان والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ بااثر و خوبصورت ترین خواتین میں شامل سینڈرا بولاک کو 2010ء اور 2014ء میں دنیا بھر میں مہنگی ترین اداکارہ کا اعزاز حاصل ہوا۔ قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال اداکارہ فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز آسکر سے لے کر مقامی سطح تک کے تقریباً تمام اعزازات سے نوازی جا چکی ہیں، لیکن اپنی ان کامیابیوں کو انہوں نے کبھی تکبر کے گرد سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ دوستانہ اور منکسر مزاج ہونے کے باعث انہیں امریکا کی سویٹ ہارٹ (America’s sweetheart) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جرمن نژاد امریکی اداکارہ و پروڈیوسر سینڈرا بولاک 26 جولائی 1964ء کو امریکی ریاست ورجینیا کے علاقے آرلنگٹن میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ ہیلگا میتھائیلڈ میئر ایک اوپرا سنگر جبکہ والد جان ڈبلیو بولاک فوج میں ملازمت کرتے تھے۔ جان بولاک جب جرمنی کی ریاست باواریا کے دوسرے بڑے شہر نورنبرگ میں ملازمت کر رہے تھے تو ان کی ملاقات ہیلگا سے ہوئی اور جرمنی میں ہی ان دونوں نے شادی کر لی۔ جان کے والد ایک جرمن سائنسدان تھے، تاہم یہ خاندان کچھ عرصہ بعد آرلنگٹن چلا آیا، جہاں جان نے آرمی میٹریل کمانڈ میں شمولیت اختیار کی۔ 12 سال کی عمر کو پہنچتے ہوئے سینڈرا فیملی کے ہمراہ نورنبرگ، ویانا اور آسٹریا کی خاک چھان چکی تھی۔

نورنبرگ میں طویل عرصہ قیام کے باعث اداکارہ کو جرمن زبان پر کافی عبور حاصل ہے۔ ایام طفلی میں سینڈرا اکثر اپنی والدہ کے ساتھ ان کے کام کی جگہ پر جاتی، جہاں وہ اوپرا پروڈکشنز میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کرتی۔ وہ کئی بار بچوں کے اوپرا سونگ میں بھی حصہ لے چکی تھیں۔ بولاک نے ابتدائی تعلیم واشنگٹن لی ہائی سکول سے حاصل کی، جہاں وہ سکول کے تھیٹر میں کام کرنے کو اپنی خوش نصیبی تصور کرتی ہیں۔ 1982ء میں گریجوایشن کرنے کے بعد انہوں نے ایسٹ کیرولینا یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے 1987ء میں سینڈرا نے ڈرامہ میں بیچلر آف فائن آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔

اداکاری کو اپنی منزل بنانے والی اداکارہ نے یونیورسٹی کے زمانہ میں ہی مختلف تھیٹروں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا، تاہم وہاں دال نہ گلنے کے باعث وہ نیویارک چلی آئیں، جہاں کامیابی کے حصول کے لئے انہوں نے انتھک محنت کی۔ اداکارہ نے اپنا پیٹ پالنے کے لئے مختلف ریسٹورنٹس اور کلبوں میں ویٹرس کے فرائض سرانجام دیئے۔

نیویارک میں سکونت کے دوران سینڈرا بولاک نے اداکاری کی باقاعدہ کلاسز لینا شروع کیں، جہاں انہیں تھوڑا بہت عملی کام کرنے کا بھی موقع ملتا، تاہم بعدازاں انہیں آف براڈوے تھیٹر میں ایلن جے لیوی کی ہدایت کاری میں بننے والے ایک پلے ’’No Time Flat‘‘ میں ایک محدود کردار ملا۔ یہ کردار نہایت مختصر تھا لیکن سینڈرا نے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ایلن کی توجہ حاصل کر لی، جس پر ڈائریکٹر ایلن جے لیوی نے انہیں مشہور زمانہ ڈرامہ فلم Bionic Showdown: The Six Million Dollar Man and the Bionic Woman میں کام کرنے کی پیش کش کی، جو سینڈرا نے بخوشی قبول کر لی۔

یہ ڈرامہ فلم اگرچہ 1989ء میں ریلیز ہوئی لیکن اس سے قبل ہی اداکارہ کو ڈائریکٹر جے کرسچیئن کی فلم Hangmen میں ڈیبیو کرنے کا موقع مل گیا۔ یہ فلم اتنی کامیاب نہ ہوئی لیکن جُہد مسلسل پر یقین رکھنے والی اداکارہ نے ہمت نہ ہاری اور وہ چھوٹے موٹے کرداروں کے ساتھ اپنے خواب کو تعبیر میں بدلنے کے لئے ڈٹی رہیں۔

اسی دوران سینڈرا کو 1994ء میں شائقین کے دلوں پر راج کرنے والی فلم Speed میں کیانو چارلس ریوز کے مدمقابل مرکزی کردار ملا، جسے انہوں نے بخوبی نبھایا۔ اس فلم کا بجٹ صرف 30 ملین ڈالر تھا لیکن باکس آفس پر اس کی کمائی ساڑھے 3 سو ملین ڈالر سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔ Speed کی کامیابی کے بعد بولاک کا شمار بڑے اداکاروں میں ہونے لگا۔ اس کے بعد اگلے ہی برس اداکارہ نے اپنے شائقین کو While You Were Sleeping جیسی شاندار فلم دی، اس فلم نے اداکارہ کے لئے جہاں شائقین کے دل جیت لئے وہاں انہیں بحیثیت بہترین اداکارہ پہلے گولڈن گلوب ایوارڈ کے لئے نامزد کر دیا گیا۔

یوں ایک سلسلہ چل نکلا، جس کے بعد پھر سینڈرا بولاک نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، ان کی ہر فلم نے لاکھوں ملین ڈالرز میں کمائی کرتے ہوئے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ سنسنی خیز، رومانوی او مزاحیہ کرداروں کو نبھانے والی اداکارہ کو 2009ء میں ایک ایسی فلم (The Blind Side) کرنے کا موقع ملا، جس نے انہیں آسکر سمیت 9 ایوارڈز سے نواز دیا۔ یہ فلم صرف 29 ملین ڈالر بنی لیکن اس کی کمائی 310 ملین ڈالر رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ بولاک نے اپنی فلم پروڈکشن کمپنی بنا لی، جس کے بینر تلے کئی فلمیں بن چکی ہیں۔

شوبز کی چکا چوند کے دوران ہی بولاک کی ملاقات معروف امریکی ٹیلی ویژن پروگرام Monster Garage کے میزبان جیسی جیمز سے ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق 2005ء میں یہ جوڑا ایک ہو گیا تاہم جیمز کے آئے روز نکلنے والے سکینڈلز کے باعث 2010ء یعنی صرف 5 سال بعد ہی ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔

یہ جوڑا اولاد کی نعمت سے محروم رہا تو اپریل 2010ء میں بولاک نے بچہ گود لینے کا اعلان کر دیا، جس کے بعد 2015ء میں اداکارہ نے ایک بچی کو گود لے لیا۔ شادی میں ناکامی کے باوجود سینڈرا آج بھی ایک مطمئن زندگی گزار رہیں، جس کی ایک وجہ قدرت کی مدد ہے، جو انہیں اپنی سخاوت کی وجہ سے عطا ہوئی۔ وہ اب تک مختلف فنڈز میں 50 لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم عطیہ کر چکی ہیں اور اسی بناء پر انہیں 2013ء میں Favorite Humanitarian Award سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

فنی خدمات اور ان کا صلہ
ہالی وڈ سٹار سینڈرا بولاک نے اپنی فنی سفر کا آغاز 1987ء میں بننے والی سنسنی خیز فلم Hangmen سے کیا، جس میں ان کا کردار بہت محدود تھا، تاہم وہ شوبز انڈسٹری کی نظروں میں آگئیں۔ 1989ء وہ سال تھا، جب انہیں ایک ہی برس دو فلموں (A Fool and His Money اور? Who Shot Patakango) میں کام کی پیش کش ہوئی، جس میں انہیں مرکزی کردار دیا گیا۔

ان فلموں کے بعد بولاک کی شہرت کے چرچے ہونے لگے اور انہیں دھڑا دھڑا فلموں کی آفر ہونے لگیں، یوں ان پر وہ وقت بھی آیا، جب انہیں ایک ہی سال میں 6،6 فلموں میں بیک وقت کام کرنا پڑا، کیوں کہ وہ ہر پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی اولین ترجیح بن چکی تھیں۔ سینڈرا نے Speed، Demolition Man، While You Were Sleeping، A Time to Kill، The Blind Side، Miss Congeniality، Crash، Gravity، The Proposal، The Blind Side، The Prime Ministers: The Pioneers، Bird Box سمیت نصف سنچری کے قریب فلموں میں کام کیا اور ان کی ہر فلم نے شائقین کے دلوں کو لبھایا۔

فلموں کے ساتھ ہی 1989ء میں اداکارہ نے ٹیلی ویژن کا رخ بھی کیا، جہاں Bionic Showdown: The Six Million Dollar Man and the Bionic Woman کے نام سے بننے والی ٹیلی ویژن فلم میں انہوں نے کام کیا۔ یہ ٹیلی ویژن فلم اپنے وقت کی معروف ترین فلم تھی، جسے شائقین کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے پذیرائی ملی۔ اس کے بعد بولاک نے مزید 5 ٹیلی ویژن پروگرامز (Starting from Scratch، The Preppie Murder، Working Girl، Working Girl اور George Lopez) میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔

ایوارڈز کی بات کی جائے تو سینڈرا اس حوالے سے بہت خوش نصیب ہیں کہ انہیں شوبز انڈسٹری کے بڑے سے لے کر چھوٹے تک لگ بھگ ہر ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، وہ درجنوں ایوارڈز کی حق دار ٹھہر چکی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ فنی صلاحیتوں سے مالا مال اداکارہ کو فلمی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ یعنی آسکر کے لئے دو بار نامزد کیا اور ایک بار یہ ایوارڈ ان کے نام رہا۔

2009ء میں بننے والی The Blind Side وہ فلم ہے، جس نے انہیں دنیا کی بہترین اداکارہ کے اعزاز سے نوازا۔ اداکارہ 3 بار کریٹیکس چوائس مووی، 2،2 بار سکرین ایکٹر گلڈ اور سیٹورن، ایک بار گولڈن گلوب، 5 بار ایم ٹی وی، 11 بار پیپلز چوائس، 9 بار ٹین چوائس، 3 بار ہالی وڈ فلم فیسٹیول، ایک بار امریکن کامیڈی، 2 بار براوو اوٹو، 3 بار بلاک بسٹر انٹرٹینمنٹ، 2 با گولڈن ریسبری سمیت درجنوں ایوارڈز کے حصول کے علاوہ واک آف فیم سٹار میں بھی شامل ہو چکی ہیں۔

The post ہالی وڈ سٹار سینڈرا بولاک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/30db0A6
via IFTTT

بعد مرنے کے۔۔۔۔ ایکسپریس اردو

کہتے ہیں کہ ’’موت سے کس کو رستگاری ہے‘‘ اور یہی حقیقت ہے جو بھی دنیا میں آیا ہے اس کا جانا مقسوم ہے لیکن اس کے باوجود سب ہی موت سے خوف زدہ رہتے ہیں۔

مرنے کے بعد کیا ہوگا یہ اسرار میں لپٹا ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر مذہب اپنے عقائد کے مطابق دینے کی کوشش کرتا ہے تاہم ان جوابات کی تصدیق کے لیے بھی مرنا ہی پڑے گا۔ بہرحال زندگی تک جتنے اختیارات ہیں انسان ان سے فائدہ اٹھاکر اپنے تئیں اپنی موت کو کبھی دل کش و حسین اور کبھی مقام عبرت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فوت ہونے والے عزیز و اقارب کو یاد کرنا، ان کے لیے اظہار غم اور ان کی آخری رسوم کے حوالے سے ہر ثقافت اور مذہب میں الگ الگ طریقے اور رسومات رائج ہیں۔ یہ رسوم مذاہب کی تعلیمات، اس علاقے کی ثقافت، موسم اور خود فوت شدگان کے مالی حالات پر منحصر بھی ہوسکتی ہیں۔ کچھ خطوں میں مُردوں کی آخری رسومات ہمیں خاصی بھیانک بھی معلوم ہوسکتی ہیں، لیکن یہ بہرحال خود ان کے لیے اتنی بھیانک نہیں ہوتی ہیں بلکہ اپنے پیاروں کے لیے انھیں وہ راحت کا سامان ہی لگتی ہیں۔ ایسی کچھ دل چسپ، عجیب اور کسی قدر خوف ناک آخری رسومات پیش خدمت ہیں۔

٭ درونی آدم خوری (Endocannibalism)

کچھ ثقافتوں میں اپنے مردے کو کھا جانا ان کے نزدیک اسے تکریم دینے کا بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ علم بشریات میں اس عمل کو درونی آدم خوری یا “endocannibalism” کہا جاتا ہے۔ مردوں کے جسم پر اڑائی جانے والی اس ضیافت کے ساتھ یہ تصور وابستہ ہے کہ اس عمل سے فوت شدگان اور ان کے پسماندگان کے مابین ایک پائے دار رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ اسے موت سے منسلک اپنے خوف اور نفرت کے جذبات اور بعد از موت پیدا ہونے والے المیے کے اخراج کا اظہار بھی سمجھا جاتا ہو۔

علم بشریات کے کچھ ماہرین اس بارے میں یہ رائے دیتے ہیں کہ شاید کچھ متوفین اپنے زندہ عزیزوں سے اسی عمل کی توقع رکھتے ہوں، یعنی اپنے خاندان اور قبیلے کے لیے خیرسگالی کا ایک آخری پیغام۔ تاہم یہ رسم اب رواج میں نہیں ہے (یا جہاں تک ہماری معلومات ہیں اب یہ رسم متروک ہوچکی ہے)۔ پاپووا نیو گنی کے ملیشین قبائل میں اور برازیل کے واری قبائل میں درونی آدم خوری کا رواج تھا۔

٭ تبتی بدھوں کی رسومات

اپنے متوفین کا گوشت خود کیوں کھایا جائے جب اسے جنگلی جانوروں کے استعمال میں لایا جاسکتا ہے؟ تبتی بدھوں کے بھی کچھ ایسے ہی خیالات ہیں۔ تبتی اسے “آسمانی تدفین (sky burials)” کا نام دیتے ہیں۔ ایک ریت یہ ہے کہ مردے کے جسم کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان باقیات کو جانوروں بالخصوص پرندوں کو کھلا دیتے ہیں۔ بعض اوقات جسم کو یونہی کھلے آسمان تلے رکھ دیا جاتا ہے جسے گدھ چٹ کرجاتے ہیں۔ ان کے نزدیک گدھ ایک متبرک پرندہ ہے جسے وہ “داکنی” یعنی فرشتہ کہتے ہیں۔

یہ گدھ مردے کا گوشت کھا کر اس کی روح آسمانوں میں لے جاتے ہیں جہاں اسے کسی دوسرے جسم میں دوبارہ جنم لینے کے لیے دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ بدھ جسم کو سنبھال کر رکھنے، محفوظ کرنے یا ان کی یادگار بنانے پر یقین نہیں رکھتے کیوں کہ ان کے مطابق مردہ جسم ایک خالی برتن کی مانند ہے۔ وہ روح کے دوام پر یقین رکھتے ہیں اس لیے ان کے مطابق مردہ جسم کو پرندوں اور دیگر جانوروں کو کھلا دینا بھی ایک قسم کا دان اور خیرات ہے کیوںکہ یہ کئی چھوٹے جانوروں کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ تبتی ویسے تو آسمانی تدفین کے علاوہ پانی میں بہانا، جلانا، دفن کرنا اور اسٹوپا بنانے جیسے طریقے بھی اختیار کرتے ہیں لیکن آج بھی اسی فیصد بدھ آسمانی تدفین کے طریقے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

٭ معلق مدفن Suspended Burials

جنوب مغربی چین کی ہیمپ وادی کے بو افراد ہزاروں سال سے آباد تھے اور آج سے تقریباً 500 سال پہلے ان کا قتل عام کرکے ان کی نسل کو ختم کر دیا گیا۔ آج بو افراد کی اس قدیم اقلیت کو مکمل طور پر بھلا دیا گیا ہے۔ ان کے لٹکائے گئے تابوت سشوان صوبے کے مغرب میں اور ین صوبے کے شمال مغرب میں دریافت کیے گئے۔

یہ افراد اپنے مردوں کو شنگرفی سرخ رنگ کے منقش تابوتوں میں بند کر کے تقریباً 300 فیٹ بلند پہاڑ کی چوٹیوں پر لکڑی کی میخیں گاڑ کر لٹکا دیا کرتے تھے۔ بہت سے تابوتوں پر بو افراد کی زندگیوں اور رہن سہن کے انداز کی تصویری عکاسی کی جاتی۔ اب مقامی ان دریافت شدہ تابوتوں کے حوالے سے بو افراد کو “پہاڑوں کے بیٹے” اور “پہاڑوں پر غالب” کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ تاہم کیوں وہ اپنے مردوں کو اس طرح اتنی بلندی پر لٹکا کر دفن کرتے تھے یہ ابھی تک صیغہ راز میں ہے۔

٭ستی

ستی کی رسم کے مطابق بیوہ کو اپنے خاوند کی لاش کے ساتھ جل کر مرنا ہوتا تھا۔ حالانکہ بھارت میں اب ستی کی رسم پر پابندی لگا دی گئی ہے، مگر کچھ عرصے پہلے تک اس رسم کا رواج تھا جس میں عورتیں بظاہر رضاکارانہ طور پر اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ جل مرنے کو ترجیح دیا کرتی تھیں لیکن اکثر اوقات خواتین کو اس امر کے لیے مجبور بھی کیا جاتا تھا۔ بعض اوقات خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف کھینچتے ہوئے لایا جاتا اور جلتی آگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ بعض اوقات معاشرتی دباؤ اور ہندو بیواؤں کی دگرگوں اور ذلیل و پست معاشرتی حالت کی وجہ سے کچھ خواتین جل مرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔

بیوہ خواتین کو اچھوت سمجھا جاتا تھا ان کے سر کے بال مونڈ کر انھیں آشرم میں بھیج دیا جاتا جہاں وہ خیرات پر اور سفید لباس میں عمر گزار دیا کرتی تھیں۔ دوسری شادی ممنوع تھی اور یہ بھی کہ ان کے سائے سے بھی لوگ پرہیز کرتے تھے۔

اس رسم کا آغاز کیوں کر ہوا یا اس کے کیا مذہبی شواہد ہیں اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ اندازے بہرحال ضرور قائم ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ غالباً اس خوف سے کہ بیویاں اپنے آشناؤں سے شادی کے لیے اپنے امیر شوہروں کو مار کے (بالعموم زہر خورانی سے) ان کی جائیداد پر قابض نہ ہوجائیں اس خدشے کے تدارک کے لیے یہ  رسم ایجاد کر لی گئی تھی۔

ایک امکان یہ بھی گردانا جاتا ہے کہ شاید اس رسم کے ذریعے یہ یقین دہانی کی جاتی کہ شوہر اور بیوی دونوں ایک ساتھ دوسری دنیا سدھاریں اور یوں عورت اپنے مرد کو دوسری دنیا میں موجود اپسراؤں کے دام و تزویر سے بچا کر اپنے پلو سے باندھے رکھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان اکیلا ہی اس رسم کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے والا ملک نہیں تھا بلکہ دوسرے قدیم معاشروں میں بھی ستی سے ملتی جلتی رسوم کے شواہد ملے ہیں جیسے مصری، یونانی اور سیتھی تہذیبیں۔

٭یورپی بحری قزاقوں کی تدفین

ستی سے کچھ ملتی جلتی ایک رسم یورپی بحری قزاقوں کے سردار کی لونڈی کو بھی انجام دینا ہوتی تھی۔ دسویں صدی عیسوی کے عرب مصنف احمد ابن فضلان بحری قزاقوں کے سردار کی موت کا اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرتے ہیں جب وہ بلغاریہ کی طرف جاتے ہوئے قزاقوں کے ایک گروہ کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ ان کے مطابق بحری قزاقوں کی موت کی رسومات انتہائی سفاکانہ ہوا کرتی تھیں۔ سردار کی موت پر اس کی لاش دس دن کے لیے ایک عارضی قبر بنا کر رکھ دی جاتی اور اس دوران اس کی تمام جائیداد کے تین حصے کیے جاتے۔

ایک حصہ اس کے خاندان کو دیا جاتا، دوسرا حصہ اس کی آخری رسومات کے لیے پرتعیش لباس اور سازو سامان بنانے میں خرچ ہوتا اور تیسرا حصہ شراب اور دیگر نشہ آور مشروبات پر لگایا جاتا۔ اس کی لونڈیوں اور غلاموں سے اس کے ساتھ جل مرنے کے لیے پوچھا جاتا۔ تاکہ وہ اپنے مالک کا خیال رکھنے کے لیے دوسری دنیا میں اس کے ساتھ جا سکے۔

ان میں سے کوئی (عموماً) لونڈی رضاکارانہ طور پر اس کام کے لیے آمادگی ظاہر کردیتی۔ اس کے بعد دس دن تک اسے دو لونڈیوں کی نگرانی میں دیا جاتا جن کے ساتھ وہ گھومتی پھرتی چہلیں کرتی۔ دسویں روز سردار کے بحری جہاز پر اس کے آرام و تعیش کا سامان رکھ کر اس کی لاش کو نیا لباس پہنا کر جہاز میں ایک تخت پر بٹھا دیا جاتا۔ اس دوران لونڈی کو بہت ساری شراب پلا کر مدہوش کردیا جاتا۔ یہ لونڈی وہاں موجود قزاقوں کی جھونپڑیوں میں باری باری جاتی جہاں وہ قزاق اس کے ساتھ ہم بستری کرتے اور ساتھ ہی اس بات کا اظہار کرتے کہ وہ مرنے والے کی محبت میں یہ فعل انجام دے رہے ہیں۔

آخری جھونپڑی میں 6 سے 7 افراد مل کر اس کے ساتھ جنسی فعل انجام دیتے اور پھر اسے جہاز کے پاس لایا جاتا جہاں موت کے فرشتے کا لقب رکھنے والی آخری رسوم پر مامور خاتون اس کے گلے میں رسی ڈال کر اسے دو آدمیوں کو کھینچنے کا حکم دیتی اور خود لونڈی کے سینے میں خنجر گھونپ دیتی۔ اب یہ لونڈی اپنے مالک کے ساتھ آخری سفر پر جانے کے لیے تیار سمجھی جاتی۔ اسے بھی جہاز پر مالک کے پاس پہنچا کر جہاز کو اس کے ساز و سامان سمیت آگ لگا دی جاتی تاکہ وہ دونوں دوسری دنیا میں پہنچ جائیں۔ احمد بن فضلان کہتے ہیں کہ اس موقع پر ان کے مترجم کے خیالات یوں تھے کہ عرب لوگ اپنے مردوں کو زمین میں دبا کر انہیں کیڑوں کی خوراک بننے چھوڑ دیتے ہو جب کہ ہم انھیں اس رنگ و روشنی کے ساتھ عازم جنت کروا دیتے ہیں۔

٭انگلیاں کاٹنے کی رسم

کہتے ہیں مرنے والے کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے پیاروں کی موت کا صدمہ برداشت کرنا مشکل امر ہوتا ہے۔ مغربی پاپووا، نیوگنی کے دانی افراد بھی ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔ یہ بہت تشدد آمیز اور ناقابل فہم رسم محسوس ہوتی ہے جس میں مرنے والے کے خاندان کی ایک خاتون اور ایک بچے کی انگلیاں کاٹ دی جاتی ہیں۔ اس رسم کی انجام دہی کے لیے دو توجیحات پیش کی جاتی ہیں، پہلی یہ کہ ان کے خیال میں اس طریقے سے مرنے والے کی روح مطمئن ہو کر دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے اور دوم یہ کہ اس طرح وہ اس موت پر اپنے دلی دکھ کا اظہار اپنی جسمانی تکلیف کے اظہار کے طور پر بھی کرتے ہیں۔

اس رسم کی ادائیگی کے لیے منتخب افراد کی انگلیاں ایک رسی سے باندھ کر انہیں ایک کلہاڑی سے کاٹ دیا جاتا۔ پھر ان انگلیوں کو سکھا کر یا تو جلا دیا جاتا یا پھر کسی مخصوص مقام پر محفوظ کر دیا جاتا۔ اب نیوگنی میں اس رسم پر پابندی ہے، تاہم اس رسم کے اثرات اب بھی اس کمیونٹی کے پرانے افراد کے ہاتھوں پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

٭فمادھیانہ

مڈغاسکر کے ملاگسی افراد کے ہاں مرنے کے بعد مردہ افراد کی ہڈیاں باہر نکال کر ان کو دوبارہ کفنانے کا رواج ہے۔ ان کے مطابق جب تک ہڈیاں اور جسم بوسیدہ ہو کر مٹی نہ ہوجائے مرنے والوں کی روحیں دوسری دنیا میں اپنے پیاروں کے پاس نہیں جاسکتی ہیں، لہٰذا وہ ہر سات سال بعد مرنے والوں کی ہڈیاں اپنے آبائی مقبرے سے نکال کر ان کو دوبارہ کفن میں لپیٹ کر موسیقی کی دھنوں پر ان ہڈیوں کے ساتھ ان کے مقبرے کے گرد رقص کرتے ہیں۔ اس عمل کو وہ “فمادھیانہ” یا “ہڈیوں کی واپسی” کہتے ہیں۔

فمادھیانہ کی یہ رسم اب زوال پذیر ہے، غالباً اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہر سات سال بعد نئے سلک کے کپڑے خریدنا اور کفنانا ایک مہنگا عمل ہے۔ کچھ کہ مطابق اب یہ ایک دقیانوسی رسم ہے جسے وہ چھوڑ رہے ہیں۔ اس رسم کے ترک کرنے کی ایک اہم وجہ عیسائی مشنری سرگرمیاں بھی ہیں جو اس رسم کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ تاہم کیتھولک چرچ کو اس رسم پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیوں کہ وہ اسے مذہبی سے زیادہ خالص ثقافتی رسم مانتے ہیں۔ ایک ملاگسی شخص کے مطابق یہ ان کے لیے اپنے مردہ افراد کو تعظیم دینے کا ایک طریقہ ہے، نیز اس طرح ملک کے دور دراز حصوں میں پھیلے ہوئے رشتے داروں کو ایک ساتھ مل بیٹھنے اور یگانگت کے اظہار کا موقع بھی ملتا ہے۔

٭مُردوں کے مینار

امریکی شمال مغربی اور ہائیدا افراد کے ہاں اس طرح کے مینار بنانے کا رواج تھا۔ اپنے مردوں کی تدفین کے لیے یہ لوگ لکڑی کے مینار تیار کرتے جن پر مختلف نقش و نگار بنائے جاتے۔ یہ نقش و نگار ان کے طرز زندگی، رسومات، بزرگوں اور سرکردہ افراد کی تصاویر یا مذہبی رسومات کے عکاس ہوتے۔

مینار کے بالائی جانب ایک خلا بنا کر اس پر مرنے والے کا تابوت رکھ دیا جاتا جہاں یہ ایک سال تک پڑا رہتا اور جانوروں کی خوراک بنتا رہتا۔ مشاہیر جنگجو یا سرداروں کی لاشوں کے ساتھ مزید ظالمانہ برتاؤ کیا جاتا۔ ان کی لاش کو کوٹ پیٹ کر ملغوبے کی شکل دے دی جاتی تاکہ وہ ایک چھوٹے صندوق میں ڈال کر مینار کے اوپر رکھے جاسکیں۔ یہ عقیدہ رکھا جاتا کہ اس طرح فرشتے حیات بعد از موت میں ان کے محافظ ہوتے ہیں۔ تبلیغ کے لیے وہاں جانے والے عیسائی ان میناروں سے اٹھتی بو کے بھبکوں پر ششدر رہ جاتے۔

٭آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے ہاں آخری رسومات

مشرقی اور مغربی کوئنس لینڈ، دریائے ڈارلنگ کے طاس، مورے دریا کے طاس، زیریں دریائے مورے کی جھیل کے قصبات اور وسطی شمالی و جنوبی آسٹریلیا کے کچھ باشندوں میں لاش کو سُکھا کر مردے کی باقیات کو سنبھال کر رکھنے کی عجیب و غریب روایات پائی جاتی ہیں۔ ان آسٹریلوی اصلی النسل افراد کے لیے اپنے پیاروں کی موت کے بعد ان کی یادگاریں محفوظ کرنا بہت اچھا خیال کیا جاتا ہے، یادگاریں سے عمومی مراد مردوں کی ہڈیاں ہیں۔ مورے دریا کے آس پاس کے باشندے بعض اوقات لاش کو دھوئیں کی مدد سے سکھاتے ہیں۔

میری نووا افراد اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی لاش کو کسی بلند چبوترے یا اور کسی اونچی جگہ پر پتوں اور شاخوں سے ڈھانپ کر رکھ دیتے ہیں، جہاں وہ ایک سال یا اس سے زائد عرصے تک پڑی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ پوری طرح بوسیدہ ہو کر گل سڑ جائے اور ہڈیاں باقی رہ جائیں۔ کچھ جگہوں پر مردے کے گلنے کے عمل کے دوران اس کی لاش سے ٹپکنے والا مائع اکٹھا کر کے اس خاندان کے نوجوانوں کے جسم پر ملا جاتا تھا تا کہ ان میں مرنے والے کی خوبیاں سما سکیں۔

کرنائی افراد اپنے مردوں کو پوشم (ایک قسم کا چوہا) کی کھال سے بنی دری میں لپیٹ کر ایک جھونپڑی میں رکھ دیتے، جہاں وہ اپنی ماتمی سرگرمیاں جاری رکھتے ، کچھ دن بعد لاش کو کھول کر اس کے قریبی عزیز ماں باپ بہن بھائی وغیرہ اس کے بال اتار کر محفوظ کر لیتے اور پھر لاش کو دوبارہ لپیٹ کر مکمل گلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ اور پھر اس کے جسم سے رسنے والا مائع جسم پر ملا جاتا۔ اسی طرح کی رسوم مذکورہ بالا تمام علاقوں میں عمل میں لائی جاتیں تاآنکہ لاش مکمل طور پر گل جائے۔ کچھ عرصے بعد ہڈیوں کو نکال کر ان پر سرخ گیرو ملا جاتا اور پھر یہ ہڈیاں کسی غار میں یا کسی درخت کے مجوف خلا میں رکھ دی جاتیں۔ کچھ جگہوں پر مرنے والوں کے عزیز ان ہڈیوں کو ایک سال یا کچھ زائد عرصے کے لیے اپنے گلے میں لٹکا لیتے۔ اس طرح ان کے عقیدے کے مطابق روح اپنے اگلے جنم کے لیے آزاد ہو جاتی۔

٭ زرتشتی تجہیز و تکفین

زرتشتی روحانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ جسمانی پاکیزگی پر بھی خاص زور دیتے ہیں۔ ان کے مطابق مرنے کے بعد جسم آلودہ ہوتا ہے، یہ بدروحوں کا آماج گاہ بھی ہوسکتا ہے لہذا اسے پاک کیا جانا ازحد ضروری ہے۔ ان کے مطابق مردہ جسم جس شے کو بھی چھو جائے وہ ناپاک ہوجاتی ہے، خواہ وہ لباس ہو، زمین یا افراد، یہاں تک کہ آگ بھی (اس لیے وہ جلانے سے بھی پرہیز کرتے ہیں اور دفن کرنے یا پانی میں بہانے سے بھی گریز کرتے ہیں)۔ آخری رسومات کا آغاز لاش کو پاک کرنے کے عمل سے ہوتا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ اسے “گومز” یعنی مقدس بیل کے پیشاب سے اچھی طرح دھویا جاتا ہے۔

اس کے بعد وہ کمرہ جہاں لاش کو آخری دیدار کے لیے رکھا جاتا ہے اسے بھی اچھی طرح دھو کر پاک کرتے ہیں اور اس لباس کو بھی جو مردے کو پہنایا جانا مقصود ہو۔ کمرے کے درمیان میں ایک سفید چادر بچھا کر لاش اس پر رکھ دی جاتی ہے۔ اب قریبی عزیز اور غیرزرتشتی افراد بھی اس کا آخری دیدار کرسکتے ہیں اور مرنے والے کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کر سکتے ہیں، تاہم لاش کو چھونے کی اجازت کسی کو نہیں ہوتی سوائے ان لوگوں کے جو تجہیز وتکفین پر مامور ہیں۔ اس دوران ایک کتے کو جسے “سگدید” کہا جاتا ہے، وہاں دوبار لایا جاتا ہے تاکہ لاش بری ارواح سے محفوظ رہے۔ پُرسے کے لیے آنے والوں کو آخری دیدار کروا کر لاش کو دخمہ پر لایا جاتا ہے۔

دخمہ یا “خاموشی کا مینار” ایک اونچا مینار ہے جس پر مرنے والے کی لاش رکھ دی جاتی ہے۔ اس کے کپڑے اتار دیے جاتے ہیں جو بعدازاں اس خیال سے ضائع کردیے جاتے ہیں کہ وہ ناپاک ہو چکے ہیں۔ اس طرح چند ہی گھنٹوں میں گدھ لاش کو چٹ کر جاتے ہیں۔ زرتشتی عقائد کے مطابق اس طرح وہ لاش کی آلودگی سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔

٭درخت پر تدفین

اس رسم کے تحت فوت شدگان کو مختلف ٹوکریوں میں ڈال کر ان کے گاؤں کے پرانے درختوں سے باندھ دیا جاتا تھا۔ یہ رسم غالبا زیادہ تر ملحدوں کے ہاں انجام دی جاتی تھی کیوں کہ وہ کسی مخصوص ثقافت یا روایت پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ان کے ہاں اس طریقے سے محض اپنے فوت شدگان کو اپنے قریب رکھنا اور زندوں کو اس بات کا احساس دلانا ہوتا تھا کہ موت ایک ناگزیر حقیقت ہے جس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

٭جلانا

اپنے مردوں کو جلانے کی رسم اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں رائج ہے۔ اس کے لیے لکڑی کا ایک اونچا چبوترا بنا کر مردے کو اس پر لٹایا جاتا اور آگ لگا دی جاتی ہے۔ اور پھر جلی ہوئی لاش کی راکھ اٹھا کر کسی مرتبان میں رکھ کر مرنے والے کے عزیزوں کو دے دیاجاتاہے جسے وہ اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں۔ کچھ مرنے والے اس ضمن میں وصیت بھی کرجاتے ہیں کہ ان کی راکھ کو کس طرح رکھا جائے۔ کچھ تو یہ وصیت بھی کرچکے ہیں کہ ان کی راکھ خلا میں چھوڑ دی جائے۔ ہندو مت میں راکھ کو دریائے گنگا یا کسی اور دریا و ندی وغیرہ میں بہانے کی وصیت بھی کی جاتی ہے۔ تاہم لکڑیوں کے چبوترے پر اس طرح گھی یا تیل کی مدد سے جلانے کا عمل کسی قدر مہنگا بھی ہے۔

آج کل ترقی یافتہ ممالک میں جلانے کے لیے لکڑی وغیرہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے مخصوص بھٹیاں تیار کی جاتی ہیں جن میں مردے کو ڈال کر چند گھنٹوں میں ہی اس کی راکھ بنا کر مرتبان میں لواحقین کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ ان بھٹیوں کے مالکان باقاعدہ کاروبار کے طور پر ان آخری رسومات کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طریقہ کار فضائی آلودگی سے محفوظ رکھتے ہوئے اور لکڑی یا تیل کے غیرضروری ضیاع سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

٭تانا توراجا کی تدفین

انڈونیشیا کے علاقے تانا توراجا میں جنازے کا بہت خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں تدفین کی تقریب گانے باجے، رقص اور بہت سے مہمانوں کی پرتکلف دعوت پر مبنی ہوتی ہے۔ ان کے ہاں اسی وجہ سے موت ایک بہت مہنگا سودا ہے جس پر کثیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ مردے کی تدفین بھی جلد نہیں کرپاتے۔ اگر رقم دست یاب بھی ہو تو بھی انتظامات میں کئی دن لگ جاتے ہیں اور اگر لواحقین غریب ہیں تو وہ اپنے مردے کی شان دارتجہیز و تکفین کے لیے رقم جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ رقم کی اس بچت میں کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں اور سال بھی۔ لہذا اس دوران وہ اپنے مردے کو لپیٹ کر گھر کے اندر کسی حصے میں لٹا دیتے ہیں اور اس کی دیکھ بھال ایسے ہی کی جاتی ہے جیسے کسی بیمار کی۔ وہ گھر کے روزانہ معمولات کا حصہ رہتا ہے اور اس سے بات چیت بھی کی جاتی ہے۔ جب رقم جمع ہو جاتی ہے تو جنازے کو قبر یا غارمیں اتارا جاتا ہے یا کسی چوٹی پر لٹکا دیتے ہیں۔

٭قسطوں میں خودکشی اور پتھر میں موت کا انتظار

فاقوں مرنا ایک محاورہ ہی سہی لیکن جاپان کے کچھ بدھ بھکشوؤں میں یہ بھی موت کا ایک مروج طریقہ ہے۔ ویسے تو جاپان میں خودکشی بھی ایک رسم ہے جسے ہاراکیری کہا جاتا ہے، لیکن یہ بھکشو اس خودکشی کے لیے مخصوص طریقہ کار اپناتے ہیں جس سے بالآخر ان کا جسم ایک ممی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

اس عمل کی ابتدا میں بھکشو صرف پھل اور میوہ جات کھاتے تھے اور سخت جسمانی مشقت انجام دیتے۔ جسم کی زائد چربی کے خاتمے کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا جس میں بھکشو کو بتدریج آہستہ زہر دیا جاتا اور اس سے اسے بہت سی قے ہوتی ہے اور جسم کی رطوبتیں خارج ہوجاتیں۔ یہ مرحلہ ایک ہزار دن تک درختوں کی چھال، جڑیں اور زہریلی چائے پلانے پر منتج ہوتا۔ آخری مرحلے میں بھکشو ایک پتھر میں داخل ہوکر چوکڑی جما کر موت کے انتظار میں بیٹھ جاتا۔ وہ روز ایک گھنٹی بجاتا جو اس کے ساتھیوں کے لیے اس کیزندہ ہونے کا ثبوت دیتی۔ اور پھر جب گھنٹی کی آواز آنا بند ہوجاتی تو یہ سمجھ لیا جاتا کہ بھکشو مر چکا ہے۔ اب مقبرے کو مہربند کر دیا جاتا اور اگلے ایک ہزار دن مزید انتظار کرنے کے بعد اس مقبرے کو کھول کر بھکشو کے ممی بن جانے کی تصدیق کی جاتی۔

٭موت کے موتی

جنوبی کوریا میں 2000ء میں پاس ہونے والے قانون کے مطابق ہر مرنے والے کے عزیزوں پر لازم ہے کہ وہ موت کے 60 سال بعد اپنے فوت شدگان کو قبر سے نکال لیں۔ اس قانون کے پاس کرنے کی بنیادی وجہ بڑھتی آبادی اور قبرستانوں کی عدم دست یابی ہے۔ اسی وجہ سے جلانے کی رسم بھی مقبول ہو گئی ہے۔ تاہم کچھ خاندان ہمیشہ جلانے ہی کو پسند نہیں کرتے بلکہ بہت سے ایسے ادارے بھی ہیں جو مُردوں کی باقیات کو جواہر سے مشابہ موتیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں جن کا رنگ گلابی، سیاہ یا فیروزی بھی ہوسکتا ہے۔ یہ موت کے موتی دیدہ زیب مرتبان وغیرہ میں رکھ کر گھر میں سجا دیے جاتے ہیں۔

٭کربتی رسومات

کربت کا جزیرہ جو بحراوقیانوں کے مرکز میں واقع ہے یہاں مردے کو تدفین سے پہلے کئی روز (غالباً تین سے بارہ دن) تک گھر میں لٹائے رکھتے ہیں اور پھر دفن کردیتے ہیں۔ تدفین کے کئی ماہ بعد قبر کھود کر کھوپڑی نکال لی جاتی ہے اور باقیات کو دوبارہ دفن کردیا جاتا ہے۔ اس کھوپڑی کو تیل و روغن لگا کر نگا جاتا ہے اور پھر تنباکو اور کھانا وغیرہ پیش کیا جاتا ہے۔ جزیرے کے لوگ اس کھوپڑی کو اپنے مکانوں میں دیوار پر جڑے تختوں وغیرہ پر سجا دیتے ہیں۔

٭ممیانا

بعدازموت زندگی کا عقیدہ کسی نہ کسی صورت میں ہر مذہب میں موجود رہا ہے جسے اکثریت ابدی زندگی کے نام سے بھی پکارتی ہے۔ اس ابدی زندگی کی تیاری زندگی میں اعمال کی تطہیر سے کی جاتی ہے تو موت کے بعد میت کی آخری رسومات کے مخصوص طریقے بھی اس کا اظہار ہوتے ہیں۔

مصر میں مردے کی لاش کو حنوط کر کے اس کی ممی بنادی جاتی تاکہ اس کا جسم موسمی حالات و قدرتی شکست و ریخت سے محفوظ ہو کر اپنی اصل حالت میں ہی اگلی دنیا تک پہنچ سکے۔ ابتداء ممی بنانے کا طریقہ نسبتاً آسان تھا مردے کو ایک اتھلا گڑھا بنا کر اس میں رکھ دیا جاتا جہاں وہ گرم ریت کے بیچ گرمی اور ہوا سے سوکھتا چلا جاتا اور یہ اکڑی ہوئی لاش ممی کی صورت محفوظ کرلی جاتی۔ لیکن جیسے جیسے مصری طاقت اور جاہ کے حامل ہوتے گئے ممی بنانے کا یہ عمل بھی پیچیدگی اختیار کرتا چلا گیا۔ بالخصوص امارت کا اظہار اس تبدیلی کی بنیادی وجہ تھا۔

مصر کے اہراموں سے فراعین کی جو ممیاں دست یاب ہوئیں ان پر تحقیق سے ممی بنانے کا طریقہ کار اور اس فن کی جدت و پائیداری کا اندازہ ہوتا ہے۔ ممی بنانے کے دو مرحلے ہوا کرتے تھے۔ اول ممی کو مختلف مسالا جات لگائے جاتے اور دوم اس کو لینن کے کپڑے میں لپیٹا جاتا۔ مسالا لگانے کا عمل خاصا دیر طلب اور پیچیدہ ہوا کرتا۔ پہلے مردے کے جسم کے ایک جانب چیرا لگا کر دل کے علاوہ اس کے دیگر اعضائے رئیسہ باہر نکال لیے جاتے جنہیں الگ الگ سکھایا جاتا۔ دل کو جسم میں ہی رکھا جاتا کیوں کہ ان کے عقیدے کے مطابق دل جذبات و ذہانت کا مرکز تھا اور اگلے جہان میں اس کا ہونا ضروری تھا۔

دماغ کو بھی ایک کانٹے کی مدد سے گودا بنا کر ہک سے باہر کھینچ لیا جاتا۔ اسے چالیس دن تک خام شورے میں تربتر کر دیتے۔ پھر دریائے نیل کے پانی سے نہلا کر جلد کی نرمی برقرار رکھنے کے لیے مختلف قسم کے خوشبودار تیل میں بسایا جاتا اسی موقع پر اعضائے رئیسہ لینن میں لپیٹ کر دوبارہ جسم میں رکھ دیے جاتے۔

اس کے بعد مردے کو لپیٹنے کا مرحلہ آتا اور مردے کے سر ہاتھ اور پیروں کو الگ الگ لینن کی پٹیوں سے لپیٹا جاتا۔ جبکہ پٹیوں کو دیتاؤں کی مجوزہ گرہیں لگا کر دیوتاؤں کی حفاظت میں دے دیا جاتا۔ پھر پورے جسم کو بڑی چادروں میں لپیٹا جاتا اور ہر پرت میں دیوتاوں کی اشکال و نشانیاں ساتھ لپیٹ کر گوند سے چپکا دیا جاتا۔ آخری مرحلے میں ممی کو اس کے فرنیچر، استعمال کی اشیا اور لباس و زیورات نیز قیمتی اشیا وغیرہ کے ساتھ مقبرے میں پہنچادیا جاتا۔ اب یہ ابدی سفر پر روانگی کے لیے تیار سمجھا جاتا۔

٭زمین میں دفن کرنا

عیسائیت، یہودیت اور اسلام سمیت بہت سے مذاہب ایسے ہیں جن میں مردوں کی آخری آرام گاہ قبر کو تصور کیا جاتا ہے۔ اپنے مردوں کو مذہبی تعلیمات و مخصوص ثقافت کے مطابق نہلا دھلا کر کفن (ہر ثقافت میں اس کا رنگ اور انداز جدا ہوتا ہے) میں لپیٹ کر زمین میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے۔

عیسائیت میں ایک رسم کے مطابق دوست احباب میت کے پاس رات بھر جاگتے ہیں اور مناجات وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ میت کو بہترین (بالعموم نیا) لباس پہنا کر کے تابوت میں لٹا دیا جاتا ہے اس کے سینے پر عموماً صلیب یا اور کوئی مقدس نشانی رکھ کر آخری دیدار کرواتے ہیں نیز اس موقع پر خیرات اور احباب میں کھانے پینے کی اشیا اور روپے وغیرہ بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ آخر میں مردے کو قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔

یہودیت میں جلانے کی سختی سے ممانعت ہے۔ یہاں مردے کی سفر آخرت کی تیاری کے لیے اس خدمت پر مامور مخصوص افراد ہوتے ہیں جنہیں چیورا کادشا (Chevra Kadisha ) کہا جاتا ہے جب کہ مردے کو نہلانا و تجہیز و تکفین کا عمل طہارہ کہلاتا ہے۔ مردے کو اچھی طرح سے نہلا کر اس کی پاکی کے لیے دعائیں پڑھی جاتی ہیں اور اسے سفید کفن ہلبشا (Halbasha) میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ لکڑی (بالخصوص صنوبر) کے صندوق میں مردے کو رکھ کر اس کی تدفین کی جاتی ہے۔ یہ مخصوص صندوق اس طریقے پر تیار کیے جاتے ہیں کہ ان میں دھات استعمال نہ کی جائے، میخوں کے طور پر بھی دھات استعمال نہیں کی جاتی۔ یہودیت میں تدفین میں جلدی کی جاتی ہے۔ مجبوری کی صورت میں بھی بہتر گھنٹوں کے اندر تدفین کا عمل مکمل کرلیا جاتا ہے۔

اسلام میں مردے کو خصوصی احترام حاصل ہے۔ مردے کو نہلا دھلا کر سفید کفن میں لپیٹا جاتا ہے۔ مرد کا کفن تین کپڑوں (بڑی چادر، چھوٹی چادر اور کفنی یا کرتا) میں جبکہ عورت کا پانچ کپڑوں (بڑی چادر، چھوٹی چادر، کفنی یا کرتا، سینہ بند اور اوڑھنی) میں مسنون ہے۔ کفن سفید رنگ کا اور ان سلا ہوتا ہے، جب کہ شہید (جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں) کو اس کے اپنے لباس میں بنا غسل دفن کردیا جاتا ہے۔ دفن میں جلدی اختیار کی جاتی ہے، دفن سے پہلے گریہ و زاری جب کہ دفن کے بعد رشتے داروں کو کھانا کھلانا بھی ثقافت کا حصہ ہے۔

The post بعد مرنے کے۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FVxqPz
via IFTTT

بُک شیلف ایکسپریس اردو

سفرِ ہندوستان اور رئیس امروہوی کی باتیں
یہ سفرنامہ انیس شاہ جیلانی کی رئیس امروہوی سے ’یاد اللہ‘ کا ایک بھرپور بیان ہے، جس میں مصنف نے رئیس امروہوی کے ساتھ 1980ء کی دہائی میں کیے گئے سفرِ ہندوستان کو قلم بند کیا ہے۔۔۔ زادِ سفر سے عازمِ سفر ہونے تک کا احوال خاصی بے تکلفی سے شروع ہوتا ہے اور پھر گویا ہندوستان پہنچ کر ہر واقعے اور ہر بات میں ایک ’پاکستانی‘ بن کر چوٹ بھی کستا ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی سرتاپا ’پاکستانیت‘ میں ڈوبا ہوا ہندوستان جا کر اپنی ’دھاک‘ بٹھا رہا ہے، شاید یہ ردعمل رئیس امروہوی کی ہندوستان سے آبائی انسیت کی وجہ سے بھی ہے، ساتھ ساتھ وہ ان پر ’آوازے‘ کستے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ’زندہ کتابیں‘ کے تحت راشد اشرف نے انیس شاہ جیلانی کا ’سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘ اور پھر اس کتاب پر رئیس امروہوی اور اس کے بعد ان کے دیرینہ ساتھی شکیل عادل زادہ کے ترکی بہ ترکی کیے جانے والے تبصرے کو ایک جلد میں جمع کر دیا ہے۔۔۔ کیسے بغیر کسی لگی لپٹی کے رئیس امروہوی کے گھریلو معاملات سے لے کر مبینہ طور پر غبن سے لے کر ان سے منسوب دیگر تلخ وترش باتوں کا ذکر کتنے آرام سے کر دیا گیا ہے۔

دوسری طرف رئیس امروہوی نے بھی نجی حیثیت میں لکھنے کے باوجود کہیں بھی توازن کھوئے بغیر ان پر اپنا موقف واضح کیا ہے، بہت سی چیزوں کی دو ٹوک انداز میں تائید کی، تو بہت سی باتوں کی تردید۔۔۔! پھر اس ’محاکمے‘ پر ایک اور ’محاکمہ‘ شکیل عادل زادہ کا ہے کہ ان کے ذاتی واقعات بھی تو مصنف نے خوب موضوع بنائے ہیں، انھوں نے بھی بہت سی جگہوں پر اپنی گواہی ثبت کی اور اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے۔ یوں فضلی بک سپر مارکیٹ (0336-2633887) سے شایع شدہ 400 صفحاتی کتاب (قیمت 500 روپے) سہ جہتی یا یوں کہہ لیں کہ ایک سہ آتشہ روپ دھار لیتی ہے۔

بچوں کے لیے ایک پُرکشش کتاب
’بچوں کے ادیب‘ کا کردار عام ادیبوں سے بجا طور پر بلند ہوتا ہے، کیوں کہ وہ دراصل نئی نسل کی تربیت ہی نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ ادب کے نئے قاری بھی بنا رہا ہوتا ہے۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں میں جاوید بسام کا نام نیا نہیں، ملک کے مختلف جرائد میں ان کی کہانیاں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ کہانیوں میںکسی کردار کو تخلیق کرنا اور پھر اس کردار کے گرد کہانی بُننا یقیناً بچوں کے لیے کافی دل چسپی کا باعث ہوتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب ایسے ہی ایک کردار پر ہے، جس کا عنوان ’’میاں بلاقی کے کارنامے‘‘ ہے۔

یہ جاوید بسام کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ہے، دیدہ زیب سرورق اور تصاویر سے آراستہ 128 رنگین صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 15 دل چسپ کہانیاں جمع کی گئی ہیں۔ کتاب کی ورق گردانی کیجیے، تو آشکار ہوتا ہے کہ جاوید بسام آج کل کی ’ناصحانہ‘ ڈگر سے ہٹ کر واقعتاً کہانی لکھنا جانتے ہیں، ورنہ آج کل بچوں کے بہت سے لکھنے والے نصیحتوں سے لبریز ’’سبق آموز‘‘ کہانیاں لکھنے کو ہی ’بچوں کا ادب‘ سمجھنے لگے ہیں۔۔۔ ’اقوال زریں‘ کے یہ اسباق شاید آج کل کے بچوں کے لیے زیادہ کشش کا باعث نہ ہوں، جتنا جاسوسی، حیرت اور تجسس جیسے خواص کی حامل کہانیاں ہو سکتی ہیں، اور آشیانہ پبلی کیشنز، کراچی (0333-3718343) سے شایع ہونے والی اس کتاب کا شمار ہم ایسی ہی کتاب میں کر سکتے ہیں۔

عمدہ زبان وبیان کے حامل مصنف نے باتوں باتوں میں بچوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافے کی کوشش بھی کی ہے، جیسے کھڑکی یا روشن دان کے بہ جائے لفظ ’روزن‘ کا برتائو۔ تاہم اس مرحلے پر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ساتھ میں اس کے معنی بھی درج کر دیے جائیں، تو یہ زیادہ اچھا ہوگا۔ کتاب کے ہر صفحہ نمبر اردو ہندسوں کے ساتھ لفظوں میں لکھنے کا اہتمام کر کے بچوں کو اردو گنتی سے روشناس کرانے کی قابل قدر کوشش بھی کی گئی ہے۔ اس کتاب کی قیمت 450 روپے ہے۔

ایک منفرد گھرانے کی کتھا
یہ اسرار الحق مجاز اور صفیہ جاں نثار اختر کی ہمشیرہ حمید سالم کی دو آپ بیتیاں ہیں، مصنفہ آج کے مشہور ہندوستانی شاعر جاوید اختر کی خالہ ہیں۔ بظاہر ایک ’عام‘ سی لکھک کی اس کتاب میں اس گم گشتہ زمانے کے کتنے پہلو اور روایات زندہ جاوید دکھائی دیتے ہیں، صرف ایک تہذیب ہی نہیں، بلکہ متحدہ ہندوستان کے زمانے کے رکھ رکھائو اور میل جول کا ذکر بھی اس میں بہ خوبی دست یاب ہے اور یہ سلسلہ بھی ان کے بچپن سے شروع ہوتا ہے اور آگے بڑھتا ہے، اس احساس کے ساتھ کہ وقت بدلتا ہے، چیزیں بھی متغیر رہتی ہیں اور روایات بھی یک ساں نہیں رہ پاتیں۔۔۔ مصنفہ نے اس کتاب میں جہاں اپنے جہانِِ ادب کے بہن بھائی کا ذکر کیا ہے، وہیں وادیٔ سیاست کے راہی ایک بھائی انصار الحق ہروانی کے حوالے سے بھی ایک علاحدہ باب باندھا ہے۔

پہلی کتاب ’شورش دوراں‘ 302 صفحات، جب کہ دوسری کتاب ’ہم ساتھ تھے‘ 203 صفحات پر مشتمل ہے، یوں تقریباً 500 صفحاتی اس نسخے کی قیمت 500 روپے ہے۔ خلیق انجم مصنفہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’حمیدہ سالم نقاد اور ادیب نہیں ہیں، لیکن وہ ہمارے بے شمار ادیبوں اور نقادوں سے بہتر لکھتی ہیں۔‘ یہ کتاب راشد اشرف نے ’زندہ کتابیں‘ سلسلے کے تحت ایک جلد میں یک جا کی ہیں، جس میں پہلی کتاب کے سات ابواب، جب کہ دوسری کے تین ابواب ہیں، جو فضلی بک (0336-2633887) نے شایع کی ہے۔

’عام‘ سے کرداروں پر ایک تاریخی دستاویز
’’یادیں کچھ کرداروں کی‘‘ (آسی ضیائی رام پوری)، ’’یہ باتیں ہیں جب کی‘‘ (فاضل مشہدی) اور ’’سبزۂ یگانہ‘‘ (شیخ عبدالشکور) راشد اشرف کے زیر اہتمام ’زندہ کتابیں‘ میں ایک ہی جلد میں سجا دیے گئے ہیں۔ اول الذکر دونوں کتب یادداشتوں کی ہیں، جب کہ تیسری کتاب سوانحی مضامین پر محیط ہے۔

قیمت اس کی بھی فقط 500 روپے ہے اور صفحات کا شمار بھی اسی کے قریب قریب ہے۔۔۔ زیر تبصرہ ’مجموعۂ کتب‘ کے مشترکہ خواص پر بات کی جائے، تو اس میں ہمیں بہت مشہور شخصیات کی بازگشت ذرا کم ہی سنائی دیتی ہے۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نام وَر اشخاص کے دائروں سے بہت الگ دائرے میں علاقائی کرداروں کو بطورِ خاص قلم کی روشنائی سے اجال دیا گیا ہے۔۔۔ اس میں بطور خاص کسی خاص شعبے کے شہرت یافتہ افراد کی منظر کشی یا حالات زندگی کی بات نہیں کی گئی، کہ ہم اسے شعبۂ تاریخ کی کوئی بہت اہم دستاویز بتائیں، لیکن اس کے باوجود تاریخ کے طالب علموں اور ہمارے خطے کے ماضی کی سماجیات اور سیاسیات ٹٹولنے والے طالب علموں کو اس میں گزرے وقت کی طرز زندگی، زبان وبیان اور بہت سے مسائل وغیرہ تک کے ایسے لاتعداد حوالے مل سکتے ہیں، کہ جس کی بنیاد پر ہم اسے ’تاریخی دستاویز‘ سے زیادہ فاصلے پر نہیں رکھ سکتے۔ اس کتاب کے ناشر بھی فضلی بک سپر مارکیٹ، اردو بازار کراچی ہیں۔

’بستے بستے بستی ہے!‘
مدیر ’عمارت کار‘ حیات رضوی امروہوی چوں کہ تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس لیے انھوں نے شہر قائد پر یہ دستاویز ’کراچی کرانچی‘ مرتب کرتے ہوئے بطور خاص اپنے اسی رنگ کو ہی نمایاں رکھا ہے۔ اس کتاب کے بیش تر مضامین ایک معاصر روزنامے اور ہفت روزہ کی زینت بن چکے ہیں۔ 191 صفحات پر سجائے گئے 30 مضامین میں سے ابتدائی آٹھ مضامین شہر قائد کی آباد کاری، خدوخال اور خواص پر مشتمل ہے، جس کے مندرجات میں شہر قائد کے عہدِ رفتہ کی آواز صاف سنی جا سکتی ہے۔

اس طرح یہ کتاب فقط کراچی پر معلومات کی نہیں، بلکہ سیاست اور تاریخ کے باب میں بھی ایک حوالہ بن جاتی ہے۔ اس میں بٹوارے کے بعد کراچی کی مختلف بستیوں کی آباد کاری اور یہاں کے مسائل اور طرز زندگی کی نقشہ کشی بہت خوبی سے کی گئی ہے۔ کتاب کے اگلے حصے میں گولیمار، لالوکھیت، پیتل گلی اور اردو بازار پر الگ مضامین سجے ہیں۔ اس کے بعد کراچی کے بازار، صنعتیں، قبرستان، شادی ہال اور مسجدوں کے حوالے سے الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مکلی، بھنبھور، شاہ جہاں مسجد، رانی کوٹ سے لے کر کھادیجی آبشار تک کے مضامین نہایت دل چسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ راحیل پبلی کیشنز سے شایع شدہ یہ کتاب توکل اکیڈمی (0321-8762213) پر دست یاب ہے، قیمت 700 روپے ہے۔

اقبال کی فکری اساس کا تسلسل

مجھے قلم، فرہاد کو تیشہ، مجنوںکو کشکول دیا
عشق نے دل والوں کو جو بھی کام دیا اَن مول دیا

کتاب کھولتے ہی ابتدائی صفحات پر استاد جناب خیال آفاقی کا یہ خوب صورت شعر ٹنکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ جو انھیں جانتے ہیں، وہ بہ خوبی واقف ہوں گے کہ خیال آفاقی کے سخن وَری موضوعات میں ہمیں جا بہ جا ان کی فکر کی گہری جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب صرف عشق اور ہجرووصل جیسے روایتی موضوعات تک محدود نہیں، بلکہ اس میں بہت سے مقامات قاری کو جھنجوڑ دینے والے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ اس میں عام شعری مجموعوں کی روایت کے برخلاف غزل اور نظم مکمل ہونے کے بعد صفحے پر بچ جانے والی خالی جگہ پر بھی اشعار اور قطعات وغیرہ سجا دیے ہیں۔ یہ خیال آفاقی کا ساتواں شعری مجموعہ ہے، کتاب اکیڈمی (0321-3817119) کراچی سے شایع ہونے والے اس 272 صفحاتی مجموعے کی قیمت 800 روپے ہے۔

خود نوشتوں کا ’کوزہ‘
’الزبیر‘ (1964ء بہاول پور) کے ’آپ بیتی نمبر‘ کے لیے مشفق خواجہ نے 239 صفحات پر مشتمل مقالہ ’مختصر آپ بیتیاں‘ پیش کیا تھا۔۔۔ جسے راشد اشرف کے سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے لیے ڈاکٹر محمود کاوش نے نہ صرف مرتب کیا ہے، بلکہ اس کا اصلی ماخذ سے تقابل کر کے ’حواشی‘ بھی درج کر دیے ہیں، ساتھ ساتھ مشفق خواجہ کی جمع کردہ 88 شخصیات کے بعد مزید 53 شخصیات کا اضافہ کیا ہے، جو کتاب کے ’حصہ دوم‘ میں شامل ہے۔ یعنی اردو ادب سے تعلق رکھنے والی 141 شخصیات اس جلد کا حصہ بن چکی ہیں۔ بہ زبان خود اپنا احوال لکھنے سے ایک فائدہ جو ہمیں نظر آیا، وہ یہ کہ ہمیں پتا چلا کہ کسی شاعر یا ادیب کی نظر میں اپنی حیثیت کیا تھی، یا وہ اپنے کس کام کو قابل ذکر سمجھتے تھے۔ ان کی مختلف تصانیف اور تخلیقات کے پس منظر کیا تھے اور ان کے موضوعات کی اٹھان اور خمیر کیا تھا اور اس کی وجوہات کیا رہیں۔ ساتھ ہی بہت سے لکھنے والوں نے جس انداز سے اپنی پیدائش کو مذکور کیا ہے، وہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے۔

کسی کے نزدیک یہ ’سانحہ‘ ہے تو کسی نے اس واقعے کو ایک پیراگراف تک بھی طول دے دیا ہے۔ 574 صفحاتی اس کتاب کے اوائل میں پہلے حصے میں شامل 88 شخصیات کی زمانی اعتبار سے ایک فہرست بھی جمع کی گئی ہے، جس کے مطابق یہ سلسلہ محمد باقر آگاہ (1771ء) سے شروع ہوتا ہے اور دوسری شخصیت کے بعد انیسویں صدی میں جا پہنچتا ہے اور پھر 32 شخصیات کو سمیٹتا ہوا، الطاف حسین حالی (1901ء) کے ذریعے بیسویں صدی میں داخل ہوتا ہے اور ڈاکٹر محمد اشرف (1958ء) تک 54 شخصیات کا احاطہ کرتا ہے۔ اٹلانٹس پبلی کیشنز (021-32581720) کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب (قیمت 550 روپے) کے دوسرے حصے میں میرزا ادیب، راجندر سنگھ بیدی، جاں نثاراختر، حفیظ جالندھری، صادقین، کرشن چندر، ملا واحدی،غلام عباس، عبدالحلیم شرر، فراق گورکھ پوری، فیض احمد فیض، تلوک چند محروم، ممتاز مفتی، وحشت کلکتوی اور دیگر کا احوال شامل کیا گیا ہے، گویا اردو کی خود نوشتوںکے دریا کو ایک کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔

غالب کے فن پر ایک دل چسپ تحقیق
ڈاکٹر صابر حسین جلیسری کی اس تحقیقی تصنیف میں مرزا غالب، ان کے خاندانی پس منظر، ان کی فکر اور ان کے زمانے کی علمیت کا بیان ہے۔۔۔ جس میں شاہ عالم کے زمانے میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کے آبا کی ترکی سے ہندوستان آمد اور پھر خدائے سخن میر تقی میر کے ’دربار‘ میں کلام کی پیشی تک کے حوالے ملتے ہیں۔ کہنے کو ’غالب کی فکر اور فن، ذہنی، تنقیدی اور لسانی مطالعہ‘ ہے، لیکن یہ مکتوب غالب کے حوالوں سے آراستہ ایک تحقیق ہے۔ اس عمدہ کتاب میں کتابت کی اغلاط پڑھنے والے کا سارا مزہ کرکرا کر دیتی ہیں، جیسے ایک جگہ ’ہَل‘ کو سہواً ’حل‘ لکھ دیا گیا، امید ہے اس جانب بھی توجہ دی جائے گی۔ آٹھ ابواب کی 240 صفحات پر مشتمل اس تحقیقی کتاب کی قیمت 400 روپے ہے اور اس کی اشاعت کا اہتمام کاتب پبلشر (021-34150500) کراچی نے کیا ہے۔

محبت مجھے ان ’’جوانوں‘‘ سے ہے
انور عباس انور نے اپنی تصنیف ’اقبال کے شاہین‘ میں مختلف شخصیات کے حوالے سے مضامین جمع کیے ہیں۔ سرورق کے اندر کتاب کے عنوان کے ساتھ علامہ اقبال کا مصرع ’محبت مجھے ان جوانوں سے ہے، جو ستاروں پر ڈالتے ہیں کمند درج ہے، جس سے لامحالہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتاب میں صرف نوجوانوں کا تذکرہ ہوگا، لیکن جب ورق پلٹتے ہیں تو ہر مضمون کے ساتھ رنگین تصویر سے یہ خبر ملتی ہے، کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، بہت سے ’’نوجوانوں‘‘ پر زندگی کے پھیر نے اب بالوں کو کافی سپیدی اوڑھائی ہوئی ہے۔۔۔ ڈاکٹر تحسین فراقی اور مرزا اطہر بیگ جیسی نابغۂ روزگار شخصیات پر مضامین بھی اسی کتاب کا حصہ ہیں۔ ’ریڈیو پاکستان‘ سے گونجنے والی پہلی آواز مصطفیٰ علی ہمدانی کے صاحب زارے سید صفدر علی ہمدانی کا احوال بھی اس میں شامل ہے۔ ’خاص لوگ پبلی کیشنز‘ (0300-4597873) لاہور سے شایع ہونے والی اس کتاب کے 160 صفحات ہیں، جس میں 28 مضامین شامل ہیں۔

اسراریت میں لپٹے قصے
’’شکار ور آسیب‘‘ میں زیادہ تر مواد باحوالہ اور ترجمہ کیا گیا ہے، اس کتاب کے مئولف سید حشمت سہیل ہیں۔ اس میں شامل مضامین شکار کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حوالے سے پائے جانے والی مختلف توہمات اور جانوروں کے مختلف اطوار اور فطرت وغیرہ کے بارے میں کافی معلومات فراہم کرتے ہیں، جن میں شیر، تیندوے، بھیڑیے، ریچھ، سانپ، ناگ، جنگلی کتے، دریائی گھوڑے اور بھینسے وغیرہ پر کافی مواد موجود ہے۔ مئولف کا نام بھی بعض مضامین کے آخر میں دکھائی دیتا ہے۔ کتاب کے بیش تر مشمولات دنیا بھر میں رونما ہونے والے پراسرار اور مافوق الفطرت واقعات اور بھوت پریت کے تذکروں سے مزین ہیں۔

’نوچندی جمعرات (یعنی چاند کی پہلی جمعرات) کے حوالے سے ایک ’’چڑیل‘‘ کا اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی انھوں نے اس کتاب کی زینت بنایا ہے، جس کا ’ڈراپ سین‘ بھی بہت خوب ہے۔ فضلی بک سپر مارکیٹ سے شایع ہونے و الی 272 صفحات کی اس کتاب میں مجموعی طور پر 51 مضامین جمع ہیں، قیمت 300 روپے ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3j7ZHAF
via IFTTT