زباں فہمی نمبر66
یادش بخیر ایک لطیفہ اسی سلسلہ کالم میں ایک بار پھر بطور قندمکرر پیش کررہا ہوں۔ یہ بات کوئی تیس برس پرانی ہے۔ ایک تقریب ِ شادی میں ایک بزرگ سے مختصر ملاقات ہوئی جو کچھ سال پہلے وفاقی حکومت کی گریڈ بائیس کی نوکری سے، بطور سیکریٹری سبک دوش ہوئے تھے۔
خاکسار نے اُن سے (بزبان انگریزی) سوال کیا کہ آیا پاکستان کی معیشت تباہ ہوچکی یا ابھی زوال پذیر ہے۔ اُنھوں نے بغور میری طرف دیکھ کر کچھ توقف کیا اور پھر جواب دیا، نہیں…تباہ تو نہیں ہوئی، مگر زوال پذیر ہے۔ پھر ایک آدھ بات کے بعد، رعایا کی زبان یعنی اردو میں گویا ہوئے۔
کہنے لگے، بھئی میرا ایک دوست وزارت تعلیم میں سیکریٹری ہے۔ ایک عرصے کے بعد ملاقات ہوئی تو کہنے لگا، یار بڑی مشکل میں ہوں۔ میں نے کہا، کیوں کیا ہوا۔ کہنے لگا:’’سب کا وزیر ہوتا ہے، میرا وزیر ہوتی ہے۔‘‘ (سابق سینیٹر محمد علی خاں ہوتی)۔ یہ لطیفہ میرے لیے ناقابل فراموش ہے، اس لیے بھی کہ اَب ایسے بذلہ سنج لوگ، اہل زبان میں بھی، خال خال ملتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کے دور میں زندہ ہیں، جہاں ٹی وی چینلز ، ویب سائٹس اور ویب چینلز کی بھرمار۔یا۔ یلغار نے ہماری زوال پذیر تہذیب وثقافت کا ستیاناس کردیا ہے۔
زبان تہذیب و ثقافت کا جُزو ِ لاینفک ہے، یعنی ناقابل تقسیم حصہ، اَٹُوٹ اَنگ (جیسا کہ ہندوستان کشمیر کو کہا کرتا تھا اور غلط کہتا تھا، مگر ہماری بقراط قیادت نے اُسے پورا موقع فراہم کیا کہ اس وادی بے نظیر کے اَنگ اَنگ پر تسلط جمالے)…..خیر بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ ایک لطیفہ اور پیش کرتا ہوں (اگر پانچ سال میں مکرر ہورہا ہو تو اسے بھی قندمکرر سمجھ لیں)۔
خاکسار نے پہلے ایک مقامی ادارے سے، تین ماہ تک، فرینچ کی بنیادی تعلیم حاصل کی (۱۹۸۴ء میں)، پھر فرانس کے اپنے قایم کردہ ممتاز ادارے سے ایک سال تک (پانچ درجات پر مشتمل5-degree/ ) کورس کیا، یہ بات ہے ۱۹۸۷ء تا ۱۹۸۸ء کی۔ (مکرر عرض کرتا ہوںکہ فرانس کی زبان کو یا تو فرانسی کہیں یا فرانسوی، جیسا کہ اہل ایران کہتے ہیں، فرانسیسی غلط ِ محض ہے اور اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اَب فرینچ ادارے کے لوگ بھی اپنے اشتہار میں یہی لکھوارہے ہیں۔ ؎ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے!)۔
ہوا یوں کہ پہلے ہی درجے میں طلبہ کی اکثریت پاکستانی (کچھ برگر، کچھ پنجابی، کچھ دیگر اقوام کے اور کچھ مہاجر ہمارے ایسے غریب عوام یعنی مِکس پلیٹ) تھی جبکہ مختلف افریقی اقوام کی نمایندگی بھی ہورہی تھی۔ ایک دن سبق کا موضوع تھا،’’ممالک اور اقوام کے اسماء اور اُن کی صنفی حیثیت‘‘ یعنی یہ کہ اُنھیں مذکر پکارا جائے یا مؤنث۔ شُدہ شُدہ باری آئی، وطن عزیز کی۔ ہماری تقریباً ہم عمر، خاتون (برگر) استانی نے بتایا کہ پاکستان، فرینچ میں مذکر ہے۔
ایک پنجابی صاحب نے بڑے جوش سے نعرہ مارا : ’’او شکر ہے!‘‘…..سب اہل وطن قہقہہ لگانے پر مجبور ہوگئے اور ہماری (شاذ ہی مسکرانے والی) استانی بھی ہنسی ضبط نہ کرسکی۔ اثنائے تحریر اس کالم میں کئی مرتبہ ایسے نکات یا موضوعات کی تکرار لازمی محسوس ہوئی جنھیں دُہرائے بغیر ؎ ’’بنتی نہیں ہے بات، مکرّر کہے بغیر‘‘ والا معاملہ درپیش ہے۔ ان میں ایک مسئلہ تذکیر وتانیث کے بگاڑ کا بھی ہے۔
لفظ اگر جان دار مخلوق ہوتے اور اپنے ساتھ ہونے والے نارَوا سلوک پر احتجاج کرنے کے قابل ہوتے (نیز اُنھیں پاکستان کے مظلوم عوام کی طرح، اُٹھائے جانے اور غائب کیے جانے کا ڈر خوف نہ ہوتا) تو جو الفاظ اس معاملے میں پیش پیش ہوتے، اُن میں سرفہرست لفظ ہے، عوام۔ اس لفظ کی وہی دُرگَت بن چکی ہے جو عوام کی، یعنی عوامِ پاکستان کی، گزشتہ چند عشروں میں بنی۔
جس کا جیسا جی چاہتا ہے، سلوک کرتا ہے۔ آج سے کوئی اٹھارہ اُنیس سال پہلے، نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار کا دروازہ کھلا (یعنی انگریزی میں Flood-gate) تو جہاں اناڑی کی بندوق قسم کے جعلی صحافی، یک دم، مہان اور مہاشے بن کر اُبھرے، خبروں کی پیشکش میں، مواد کی صحت اور زبان کی صحت سے زیادہ، مُکھڑوں کی نمائش اور معاف کیجئے گا، گُل بدن قسم کی مخلوق کی نمائش پر بھرپور توجہ دی گئی، وہیں یہ سانحہ بھی ہوا کہ معیاری زبان سے زیادہ ، بگڑی ہوئی بولی ٹھولی اور غیرزبان کے بولنے والوں کی بولی ٹھولی شعوری طور پر اپنائی گئی۔
یہ سلسلہ دراز ہوا تو ناصرف اخبارات، ادبی جرائد، بلکہ ہمارے اہل قلم بھی لپیٹ میں آگئے۔ یعنی اسی سیلِ رَواں میں بہہ گئے۔ (میرے نزدیک ایسے الفاظ میں صوتی شدت نمایاں کرنے کے لیے حرف کا مکرر استعمال درست ہے، ورنہ ’بہ ‘ یعنی سے، کو، میں اور ’بہہ‘ یعنی بہہ جانا ایک ہوجائیں گے، اسی طرح ’کہ ‘ اور ’کہہ‘ کا معاملہ ہے۔ میں اردواملاء میں ایسے جدید تغیر کا قائل نہیں)۔ چونکہ کئی مقامی زبانوں کے اہل زبان، اپنی لاعلمی کی وجہ سے عوام کو مؤنث سمجھتے تھے اور کہتے تھے، لہٰذا، اہل زبان نے بھی اُن سے سن سن کر، بغیر جانے بوجھے، سوچے سمجھے، عوام کو مؤنث بنا ڈالا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہمارے اہل سیاست بشمول صدر، وزیراعظم، وزراء اور مشیران بھی عوام کو مؤنث کہہ رہے ہیں۔
صدر کا تعلق دہلی پنجابی سوداگران برادری سے ہے، یعنی وہ اہل زبان ہیں، رہے وزیر اعظم تو اُن کی اردو دانی کے علاوہ (آکسفرڈوالی) انگریزی دانی کا ڈنکا ایک عالَم میں پٹ چکا ہے۔ ولایت پلٹ کھلاڑی، کپتان اور سربراہ سیاسی جماعت کا روزِاوّل سے خیال ہے کہ انگریزی لفظ Tigerکا اردو متبادل ہے، چیتا۔ وہ اس خیال کا اظہار اپنی انتخابی مہم میں اور بعد میں برسراقتدار آنے کے بعد بھی، عوام سے خطاب کرتے ہوئے کرچکے ہیں اور عوام کا یہ ’غیرمنتخب نمایندہ‘ پہلے بھی دو مرتبہ اسی کالم میں نشان دہی کی جرأت کرچکا ہے……خاکسار نے تو پاکستان سے باہر کی کوئی جگہ، ماسوائے تصاویر کے، نہیں دیکھی، چہ جائیکہ آکسفرڈ، لہٰذا اُس کا کہا ہوا مستند نہیں مانا جائے گا، مگر پھر بھی میرا خیال ہے کہ Tigerکو اردو میں شیر کہتے ہیں (وہی جو آپ کے بدترین سیاسی حریف یا مخالف کا نشان ہے۔
ویسے وہ لوگ ببرشیر یعنی Lion سے بھی کام چلاتے ہیں) ، جبکہ جسے آپ چیتا سمجھ رہے ہیں اور جس کی تیزی اور تیزرفتاری مثل ہے، وہ انگریزی میں Leopard ہے (جسے ہمارے بہت سے مقامی انگریز، لَے پَرڈ کی بجائے، لیو پرڈ کہتے ہیں) اور اس کا ایک بھائی ہوتا ہے تیندوا جس کی جست مشہور ہے، اُسے انگریزی میں Panther کہتے ہیں۔ بہرحال ہوسکتا ہے کہ کل کسی ’’انصاف زدہ‘‘ کا بیان آجائے کہ یہ عوام کے متعلق لکھنے والا ’’غریب عوام‘‘ کیا جانے کہ آکسفرڈ میں چیتے کو کیا کہتے ہیں۔ اس بابت سب سے پہلا بیان فواد چودھری کا آنا چاہیے۔
(’’سائنسی ترقی کے اس دور میں جب دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے تو ہم اسی بحث میں پڑے ہیں کہ Tigerشیر ہے یا چیتا‘‘)، پھر شاہ محمودقریشی (’’دیکھیے عمران خان صاحب نے پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کیا ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ Tigerچیتا ہے تو کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کی تردید کرے‘‘)، شبلی فراز (میں شاعر تو نہیں ہوں، مگر یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خان صاحب کبھی غلط بات نہیں کرتے‘‘)، شہبازگِل (یہ اپوزیشن کا ہتھکنڈا ہے کہ اپنی کرپشن چھُپانے کے لیے ایسی بحث چھیڑ دی، ورنہ ساری دنیا کو پتا ہے کہ Tigerکو کیا کہتے ہیں‘‘)، مراد سعید (’’میرا خان دوسروں کی طرح کرپٹ نہیں۔ مجھے اچھی طرح پتا ہے، یہ اپوزیشن کے چور ڈاکو ہیں جنھوں نے Tigerکو چیتے سے شیر بنانے کی کوشش کی ہے‘‘) سمیت دیگر کا…..مگر امید ہے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری اس ضمن میں خاموشی اختیار کریں گی اور ویسے ڈاکٹر یاسمین راشد تو بے چاری ویسے بھی اکثر خاموش ہی رہتی ہیں۔
صاحبو! ایک بار پھر یاد دہانی لازم ہے کہ لفظ عوام جمع کا صیغہ ہے اور مذکر ہے۔ اس کا واحد ہے ’عامّہ‘ (جیسے مفادِعامہ ، وغیرہ)۔ عامۃ الناس یعنی عام لوگ کی جمع ہے عوام الناس (یہ ’الناس‘ شمسی ہے یعنی اس کا تلفظ ہے: اَن۔ناس، لام ساکن کے ساتھ۔ یہ وہ نکتہ ہے جو ہمارے یہاں مشاہیر اہل قلم اور اساتذہ ٔ جامعات بھی فراموش کرچکے ہیں۔یا۔ سرے سے جانتے ہی نہیں!)۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک نظر لغات پر ڈالتے ہیں۔
لغات کشوری از مولوی تصدق حسین رضوی کے مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے علاوہ ایک لفظ عوّام بھی موجود ہے (صحابی رسول حضرت زبیر بن العوّام رضی اللہ عنہ‘ کے والد کا نام) جس کا مطلب ہے، خوش رفتار گھوڑا۔ فرہنگ آصفیہ کا انکشاف ہے کہ لفظ عوام (بمعنی عامّہ کی جمع، عام لوگ، تمام آدمی، خلق اللہ، مخلوق ، رعایا، پرجا، بازاری آدمی، جُہَلا، جاہل آدمی، رَدواکھدوا) کے میم پر تشدید ہے، نیز عوام الناس کا مطلب ہے عام لوگ، تمام آدمی، ہمہ شما۔ سردست مصباح اللغات عربی اردو لغت نہیں دیکھ سکا۔
لہٰذا اس کی تصدیق کسی عربی ماخد سے نہیں ہوسکی۔ ارے صاحبو! اسی پر بس نہیں، ابھی کچھ عرصے سے ٹی وی چینلز کے خبر رَساں افراد (News Reporters) اور خبرخواں افراد (News Anchors/News Readers/News Casters) اور پروگراموں کے میزبان حضرات (Anchors/Hosts)نے ایک اور بدعت کا آغاز کیا ہے۔ وہ عوام الناس کی بجائے (کے بجائے بھی مستعمل ہے، مگر درست نہیں)، عام عوام کہہ رہے ہیں۔ تو بھائیو اور بہنو! یہ خاص عوام کون ہیں؟…..اَب اس مرتبہ کسی نہ کسی ’’میڈیا بھونپو ‘‘ کا بیان اس کالم کی تردید میں آنا لازم ہے۔ ویسے اردو کی چالو بولی یا Slang میں یہ اضافہ، اس خاکسار نے ابھی ابھی اثنائے تحریر کیا ہے۔ میڈیا کے مختلف بھونپو ماضی بعید یا ماضی قریب میں کیا تھے، کون تھے، کیا کررہے تھے …..اس موضوع پر بھی ایک ایسی ہی کتاب لکھی جاسکتی ہے جیسے کسی سرپرست نے کبھی کسی لڑکے کی تصویر لگا کر، کسی اور سے لکھواکر، شایع کی تھی۔
ارے ارے ……یہ کالم تو ضرورت سے زیادہ عوامی رنگ اختیار کررہا ہے اور خواص کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہورہا ہے جو ازروئے قانون، جرم ہے۔ بھئی جب عوام کو چھیڑیں گے تو ایسا عوامی ردّعمل تو سامنے آئے گا۔ چلیے موضوع سے یعنی پٹڑی سے اتر ہی گئے ہیں تو ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ یہ بات ہے کوئی تیرہ سال پرانی، جب خاکسار ایک مشہور سرکاری عمارت میں واقع ایک نجی ادارے کے دفتر سے اشتہارات کے سلسلے میں بات چیت کے بعد ، واپس جارہا تھا تو ایک سرکاری ادارے کے بورڈ پر نظر پڑی، یاد آیا کہ اپنے فُلاں رشتے دار بھی اسی سے وابستہ ہیں، مگر ’’ان تِلوں میں تیل نہیں‘‘ اور مصلحت ہر لحاظ سے یہی ہے اور تھی کہ اُنھیں نہ چھیڑا جائے۔ خیر موڈ بن ہی گیا تو باہر لگی اطلاعی گھنٹی بجائی۔ گارڈ نے تفتیش کے بعد ایک صاحب سے بات کرائی۔
انھوں نے فرمایا کہ ویسے تو ہمارے یہاں ایسی مطبوعات کے لیے اشتہار نہیں دیا جاتا، مگر خیر آپ سے ملاقات کرکے بڑی خوشی ہوگی۔ براہ کرم اندر تشریف لے آئیے۔ خاکسار اُن کے پاس حاضر ہوا تو انھوں نے کہا، ’’ویسے میں رائٹر تو نہیں ہوں، مگر مجھے بھی بڑا ’شوک‘ (شوق) ہے، آپ جیسے بڑے رائٹرز سے ملنے کا‘‘۔ گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا، اس راقم نے ان کی خدمت میں اپنا رسالہ پیش کیا۔ انھوں نے پہلے تو خوشامدی لہجے میں بات چیت جاری رکھی، پھر جب معلوم ہوا کہ میرے وہ رشتے دار اُن کے قریبی رشتے دار ہیں تو اُن کا پیرایہ کچھ بدل گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ رخصت ہوتے وقت بھی انھیں مسرت تھی کہ ایک ’بڑے ‘ رائٹر سے ملاقات ہوگئی۔
ڈیڑھ سال بعد یہی ’’غریب عوام‘‘ یعنی راقم ایک نجی ٹی وی چینل میں ملازمت کی غرض سے، اُس کے CEO سے وقت طے کرکے ملاقات کے لیے اُن کے دفتر پہنچا۔ اکڑی ہوئی گردن، گھٹی ہوئی توند اور ’’رگڑپالش‘‘ کے نتیجے میں برآمد ہونے والے گلابی رنگ کے ساتھ، جو صاحب تشریف لائے اور بڑے افسرانہ انداز میں کہا، ’’جی سدیکی صاب! فرمائیے کیسے آنا ہوا؟‘‘….یہ وہی صاحب تھے جنھیں رائٹرز سے ملنے کا شوق تھا، پھر ظاہر ہے کہ ایسے شوقین آدمی کو تو اس کا مقام مل گیا، اس خاکسار کو ملازمت کے لیے کون پوچھتا، اُن سمیت۔ وہ صاحب آج کل مختلف ٹی وی چینلز پر بطور Senior Anchor/Analystیعنی میزبان/تجزیہ کار بھاشن دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے عوام سے خواص میں شامل ہونے کا سفر۔
The post بے چاری عوام یا بے چارے عوام؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33VObli
via IFTTT
No comments:
Post a Comment