Monday, August 31, 2020

امریکا سے اختلافات پر عالمی تجارتی تنظیم کے سیکرٹری جنرل مستعفی

جاپان کی مجموعی قومی پیداوار میں آئندہ سال اضافے کا امکان ہے، اقتصادی ماہرین

’’ہوٹل روانڈا‘‘ فلم کے ہیرو دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار ... 66 سالہ پال روسیسا باگینا پرانتہاپسند دہشت گرد، مسلح تنظیموں کے بانی، لیڈر اور اسپانسر' ہونے کے الزامات ... مزید

سشانت خودکشی کیس‘ تفتیشی آفیسر نے تعاون نہ کرنے پر اداکارہ کو تھپڑ رسید کر دیا

مومل شیخ کے گھر ننھی پری کی آمد ... سب لوگ میری بہن علیحہ نادر نواز کو خوش آمدید کہیں، بیٹا مومل شیخ

ارطغرل غازی کے مرکزی اداکار مسجد کے افتتاح کیلئے پاکستان آئیں گے ... پاکستانی ہائوسنگ سوسائٹی سے معاہدے کے بعد ترک فن کار جلد پاکستان آمد متوقع ہے

قسمت مہربان ہو تو شوبز میں شہرت حاصل کرنا مشکل نہیں ‘ مہک نور ... کوئی بھی فنکار اپنے ٹیلنٹ کے ذریعے دنیا کی ہر رکاوٹ کو عبور کر کے منزل حاصل کر سکتا ہے

ہماری مشکلات کی بڑی وجہ دین اسلام سے دوری ہے‘ افتخار ٹھاکر ... کسی نہ کسی بہانے سے رب کی ذات کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے ‘ کامیڈین اداکار

شوبز کی دنیا میں سفارش کی بناء پر آنے والوں کا کیرئیر زیادہ طویل نہیں ہوتا ‘ خوشبو ... ْشائقین جو ڈرامہ دیکھنا چاہتے وہ دکھایا جارہا ہے ،مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے ‘ا ... مزید

نامور شاعر ، نغمہ نگار و رائٹر احمد راہی کی 18ویں(آج)منائی جائیگی

گلوکارہ نرمل شاہ کی رہائشگاہ پر (آج)مجلس عزا کا اہتمام کیا جائیگا

فلم انڈسٹری کی پائیدار ترقی کیلئے نجی شعبے کے ساتھ جوائنٹ ونچر کا فارمولہ اپنایا جائے ‘ میرا ... پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کیلئے کسی ایک فرد نہیں بلکہ ہم سب کو ملکر اپنا ... مزید

آئندہ موسم سرما اور خزاں میں کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنا مزید چیلنجنگ ہو جائے گا، جرمن چانسلر

عمران خان کی حکومت کا مستقبل ایکسپریس اردو

وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی مخالفین کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے عمران خان کی حکومت اپنی سیاسی مدت پوری نہ کرسکے او رملک نئے انتخابات کی طرف گامزن ہوسکے ۔اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر تمام حزب اختلاف کی جماعتیں دو نکاتی بیانیہ پر توجہ دے رہی ہیں۔

اول عمران خان کی حکومت ناکام ہوگئی ہے او ر ملک شدید ترین سیاسی ، انتظامی او رمالی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ دوئم اس موجووہ بحران کا واحد حل نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں ۔لیکن ان دونوں نکتوں پر حزب اختلاف کی جماعتیں کوئی بڑی تحریک چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم محض سیاسی دباؤ یا میڈیا میں دباو ڈال کر حکومت کو مجبور کردیں گے کہ وہ یا تو خود مستعفی ہوجائے یا ان کے بقول سلیکٹرز خود حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کرلے تاکہ نئے انتخابات ہوسکیں ۔

پاکستان کی سیاست کے بڑے سیاسی اور صحافتی پنڈتوں نے بھی تواتر کے ساتھ یہ پیش گوئی پہلے بھی کی تھی اوراب بھی کررہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت جانے والی ہے ۔ بالخصوص ایک نکتہ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی سے اسٹیبلیشمنٹ  مایوس ہوچکی ہے۔حکومت کے گھر بھیجنے کے معاملے میں ان کے بقول جو تاخیر ہے اس کی وجہ عمران خان کے سیاسی متبادل پر اتفاق نہیں ہے ۔ ایک منطق یہ بھی دی جاتی ہے پس پردہ قوتوں نے شہباز شریف اورچوہدری پرویز الٰہی کی صورت میں مرکز اورپنجاب کی قیادت کا فیصلہ کرلیا ہے ۔

ان ساری خواہشات اورتجزیوں کی موجودگی میں عمران خان اپنی حکومت کے تیسرے برس میں داخل ہوگئے ہیں ۔حکومت کے اتحادی جماعتوں کے بارے میں یہ خبریں پھیلائی گئی کہ وہ عمران خان سے نالاں ہوگئے ہیں او رمتبادل راستے کی تلاش میں ہیں ۔کیونکہ عمران خان کے اقتدار کا انحصار ان ہی اتحادی جماعتوں  سے جڑا ہوا ہے۔ ایک منطق یہ بھی دی گئی کہ کچھ دوست مسلم لیگ ن اورمسلم لیگ ق کے درمیان تلخیوں کو ختم کرکے ایک جماعت بنانا چاہتے ہیں، تاکہ مستقبل کی حکمرانی کے نقشہ کو تیار کیا جاسکے ۔

عمران خان کی حکومت کو ایک بڑا سیاسی ایڈونٹیج یہ بھی ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین بڑی تحریک چلانے کی یا تو صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کی سیاسی طاقت کم ہوئی ہے ۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے بھی پیدا نہیں ہوسکا ۔ ان ہاوس تبدیلی ، وزیر اعظم پر دباؤ ڈال کر مستعفی ہونے پر مجبور کرنا ، عوامی تحریک کا چلنا، اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے کوئی بھی کارگر نہیں ہوسکا ۔

یہ کہنا بجا ہوگا کہ عمران خان نے ایک مضبوط حزب اختلاف او رتجربہ کار سیاست دانوں کو واقعی ایک مشکل صورتحال میں ڈال کر بے بس کیا ہوا ہے ۔ حالانکہ عمران خان نے بہت سی ایسی غلطیاں اپنی حکمرانی کے نظام میں کی تھیں جسے بنیاد بنا کر حزب اختلاف بڑا بحران پیدا کرسکتی تھی ، لیکن کچھ نہ کرسکی ۔اب حالت یہ ہے کہ حزب اختلاف میں ہم ایک واضح تقسیم دیکھ سکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ ن سے مایوس ہوکر چھوٹی جماعتوں پر مشتمل نئی حزب اختلاف کی تشکیل کرنے کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اتنے زیادہ سیاسی معصوم بننے کی کوشش کررہے ہیں کہ انھوں نے اسلام آباد کا سیاسی دھرنا اسی بنیاد پر ختم کیا تھا کہ ان کو کچھ قوتوں نے یقین دلایا تھا کہ حکومت مارچ میں نہیں رہے گی ۔وہ کون لوگ تھے ، خود ایک بڑا سوال ہے۔ حزب اختلاف او رسیاسی و صحافتی پنڈتوں کو اس محاذ پر بھی فی الحال ناکامی کا سامنا ہے کہ عمران خان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی ٹکراو پیدا کیا جاسکے۔

عمران خان حکومت اوراسٹیبلیشمنٹ کے درمیان کافی بہتر تعلقات ہیں ۔ویسے بھی پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا عمل طاقت کے مراکز کے درمیان ٹکراو کا ہی نتیجہ ہوتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس نکتہ پر حزب اختلاف کی ناکامی نے انھیں سیاسی طور پر تنہا بھی کیا ہے۔  حزب اختلاف کا یہ بیانیہ بھی کافی حد تک کمزور ہوا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں میں ایسے افراد یا گروہ کی کمی نہیں جو دن میں جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں اور رات کی سیاہی میں طاقتوروں کو اپنی وفاداری کا عملی یقین دلاتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانی کے نظام میں عمران خان کی حکومت بھی کوئی ایسی حکومت نہیں جہاں سب اچھا ہے۔

حکمرانی کا بحران ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ فوجی یا سیاسی حکمران دونوں کی حکمرانی کے نظام میں عام آدمی کو کوئی فائدہ یا ریلیف نہیں ملا ۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو چار محاذوں پر سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول احتساب کامنصفانہ اور شفاف نظام سمیت بے لاگ احتساب ، معاشی صورتحال میں بہتری پیدا کرنا ، ادارہ جاتی اصلاحات اور گورننس کے بحران جس میں ایک بڑا تعلق عام آدمی کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ کورونا بحران ، چینی ، آٹا ، پٹرول او ربجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے بارے میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

لیکن اب ملکی صورتحال کچھ بدلی ہے۔ اگر صورتحال بہت بہتر نہیں تو بہت بری بھی نہیں او رکچھ معاشی اشاریے مثبت بنیادوں پر دیکھنے کو مل رہے ہیںلیکن بنیادی مسئلہ اصلاحات کا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پولیس ، ادار ہ جاتی ، ایف بی آر، بیوروکریسی، معاشی اور سیاسی اصلاحات سمیت احتساب کے معاملے میں بہت کچھ ہونا باقی ہے ۔ عمران خان کی کامیابی ان ہی بڑی اصلاحات سے جڑی ہوئی ہے ۔

یہ ہی وجہ کہ بہت سے لوگ یہ ہی کہتے ہیں کہ عمران خان کو بڑا خطرہ حزب اختلاف کی جماعتوں یا میڈیا سے نہیں بلکہ خود اپنی جماعت اورحکمرانی کے نظام سے ہے ۔ لوگوں میں بہت زیادہ توقعات عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے بڑھا دی تھیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی حکمرانی کو ان ہی بڑے بڑے سیاسی نعروں، دعووں سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کی حکمرانی کو چیلنج کرتے ہیں۔ لیکن جو ہماری علاقائی اور عالمی سیاست ہے اس کے تناظر میں عمران خان کی حکومت فی الحال کہیں نہیں جارہی ۔

The post عمران خان کی حکومت کا مستقبل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hLkaut
via IFTTT

کوئی ایک جوزف بازل ایکسپریس اردو

یہ آج سے اڑھائی سو سال پہلے کی بات ہے‘ 1750ء سے 1810ء کے درمیان لندن کی آبادی 15لاکھ تک پہنچ چکی تھی‘ آبادی کے لحاظ سے اس وقت یہ دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا‘ لندن میں سر ہی سر نظر آتے تھے‘ شہر منصوبہ بندی کے بغیر بڑا ہوا تھا چنانچہ سڑکیں‘ بازار اور رہائشی آبادیاں لوگوں کا دباؤ برداشت نہیں کر پا رہی تھیں‘ سیوریج سسٹم نہیں تھا‘ ہر گھر کے سامنے سپٹک ٹینک ہوتا تھا‘شہر میں دو لاکھ گٹر تھے اور یہ گٹر صبح شام ابلتے رہتے تھے‘ گندا پانی گلیوں میں بہتا تھا۔

بارش اس غلیظ پانی کو دریائے تھیمز میں ڈال دیتی تھی اور میٹرو پولیٹن بعدازاں دریا کا پانی پمپ کر کے گھروں کو سپلائی کر دیتی تھی اور یوں شہری اپنا ہی سیوریج پیتے تھے‘ شہر کے غرباء تہہ خانوں میں رہتے تھے‘ گھروں کے یہ حصے اکثر اوقات سیوریج کے پانی سے بھرے رہتے تھے یا پھر وہاں گندے پانی کی سیلن ہوتی تھی‘ یہ گندگی بیماری میں تبدیل ہوئی اور1831ء میں لندن میں ہیضے کی خوف ناک وبا پھوٹ پڑی‘ 55 ہزار لوگ مر گئے۔

یہ وبا‘ گندگی اور بدبوہاؤس آف کامنز کے اندر تک پہنچ گئی‘سیلن کے اثرات برطانوی پارلیمنٹ کے فرش‘ دیواروں اور ستونوں میں بھی دکھائی دینے لگے‘ ہاؤس آف کامنز کے پردے تک بدبودار پانی میں بھیگ گئے ‘ ارکان پارلیمنٹ ناک پر رومال رکھ کر اسمبلی آتے تھے‘ یہ صورت حال ناقابل برداشت تھی چنانچہ گورنمنٹ نے تدارک کا فیصلہ کیا‘ مختلف ماہرین نے مختلف تجاویز دیں لیکن یہ تمام عارضی علاج تھے‘ حکومت کوئی مستقل حل چاہتی تھی‘یہ ذمے داری بہرحال جوزف بازل گیٹ (Joseph Bazalgette)کو سونپ دی گئی‘ وہ اس وقت میٹرو پولیٹن کا چیف انجینئر تھا‘ ذہین‘ معاملہ فہم اور لانگ ٹرم پالیسی بنانے کا ماہر تھا‘ جوزف نے پورے لندن کا سروے کرایا‘تمام لوگوں کا ڈیٹا جمع کیا۔

ہر شخص سے پوچھا وہ کتنی بار واش روم جاتا ہے‘ استعمال اور تعداد کو بعد ازاں آپس میں ضرب دی‘پھر اسے تین گنا کر دیا اور پھر اس ڈیٹا کو پائپوں سے ضرب دے کر لندن میں سیوریج کا سسٹم بچھانا شروع کر دیا‘ جوزف نے پورے شہر کو سیوریج سے جوڑا‘ شہر سے دس کلو میٹر دور ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا‘ سیوریج لائین کو اس پلانٹ سے منسلک کیا‘ سیوریج صاف کیا اور پھر صاف پانی دریا تھیمز میں ڈال دیا‘ لندن کا سیوریج ایشو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا‘ جوزف کا سسٹم کس قدر مکمل اور شان دار تھا حکومت کو اس کا اندازہ 1960ء کی دہائی میں ہوا‘ لندن میں  1960ء میں پراپرٹی کا بوم آیا‘ اپارٹمنٹس ٹاورز اور ہائی رائز بلڈنگز بنیں‘ سیاحوں کی تعداد میں بھی دس گنا اضافہ ہو گیا۔

حکومت کا خیال تھا شہر کا سیوریج سسٹم یہ دباؤ برداشت نہیں کر سکے گا اور میٹرو پولیٹن توسیع پر مجبور ہو جائے گی لیکن میئریہ جان کر حیران رہ گیا جوزف بازل گیٹ کا سسٹم نہ صرف یہ دباؤ برداشت کر گیابلکہ شہر میں کسی جگہ سیوریج چوک ہوا اور نہ اس کے بہاؤ میں رکاوٹ آئی‘ جوزف بازل گیٹ کا یہ سسٹم بعد ازاں پورے برطانیہ اور پھر یورپ کے تمام بڑے شہروں میں لگا دیا گیاتاہم فرانس‘ جرمنی اور اسپین نے اس سسٹم میں ایک اضافہ کر دیا‘ یہ ملک سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کر کے گھروں میں واپس بھجوادیتے ہیںاور یہ پانی کموڈز میں دوبارہ استعمال ہوتا ہے۔

آج یورپ کے نوے فیصد گھروں میں پانی کی دو لائنیں بچھائی جاتی ہیں‘ پہلی لائین صاف پانی سپلائی کرتی ہے‘ لوگ یہ پانی پیتے اور اس سے کھانا پکاتے ہیںجب کہ دوسری لائین میں ٹریٹمنٹ شدہ پانی ہوتا ہے‘ یہ پانی باتھ رومز‘ ٹوائلٹس‘ لانڈری‘ لانز اور گیراج میں استعمال ہوتا ہے‘ یورپ میں حکومتیں ہر گھر سے پانی کا بل بھی وصول کرتی ہیں‘ بل پانی میں کفایت شعاری کی عادت بھی ڈالتا ہے اور حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ گندگی ہے‘ یہ کرپشن‘ ناانصافی اور عدم مساوات سے بھی بڑا ایشو ہے‘ ہم من حیث القوم گندے لوگ ہیں‘ معاشرہ کچن سے شروع ہوتا ہے اور واش روم میں ختم ہوتا ہے اور ہماری یہ دونوں جگہیں انتہائی گندی ہوتی ہیں‘ آپ کروڑ پتی لوگوں کے گھروں میں بھی چلے جائیں‘ آپ کسی شہر کی کسی گلی میں نکل جائیں‘ آپ کو وہاں گندگی کے ڈھیر ملیں گے‘ ہماری مسجدوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بھی گندگی ہوتی ہے‘ پارلیمنٹ ہاؤس کے واش رومز میں بھی صابن نہیں ہوتا‘ ملک کے سارے سرکاری واش رومز انتہائی گندے ہوتے ہیں‘ آپ سسٹم کی گندگی کا اندازہ اس سے لگا لیجیے‘ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی کچرا ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں‘ اسلام آباد کا آدھا سیوریج نالوں اور ڈیم میں جاتا ہے۔

لاہور کا گند راوی اور کراچی کا کچرا سیدھا سمندر میں گرتا ہے اور سمندر بعد ازاں یہ اٹھا کر شہر میں واپس پھینک دیتا ہے اور آپ ملک کے کسی سیاحتی مقام پر چلے جائیں‘ آپ کو وہاں گند کے ڈھیر ملیں گے‘ہمیں ماننا ہوگا ہم 21 ویں صدی میں بھی لوگوں کو گند صاف کرنے کا طریقہ نہیں سکھا سکے‘ ہم لوگوں کو یہ بھی نہیں بتا سکے صابن سے ہاتھ دھونا کتنا ضروری ہے‘ ہم انھیں یہ بھی نہیں سمجھا سکے آپ جو گند سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں وہ اڑ کر دوبارہ آپ کے گھر آجاتا ہے یا یہ آپ کی سانس کی نالیوں کے ذریعے آپ کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔

ہم لوگوں کو یہ بھی نہیں بتا سکے گٹر کا پانی زمین میں موجود پانی اور پینے کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے اور ہم اور ہمارے خاندان یہ پانی پیتے ہیں اور یوں ہم مہلک امراض کا نشانہ ہو جاتے ہیں اور ہم لوگوں کو آج تک یہ بھی نہیں بتا سکے ہمارا ملک اگر ہائیپاٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے ‘ ٹی بی میں پانچویں‘ شوگر میںساتویںاور گردے کے امراض میں آٹھویں نمبر پر ہے یا ہمارے ملک میں ہر سال تین لاکھ لوگ دل کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو اس کی اصل وجہ گند ہے۔

ہم لوگ گندے ہاتھوں سے گندے برتنوں میں کھاتے ہیں اور گندا پانی پیتے ہیں چنانچہ ہم سب بیمار ہو چکے ہیں‘ ہم لوگوں کو صفائی کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکے ‘ ہم بتا بھی کیسے سکتے تھے!کیوں؟ کیوں کہ حکومت کو خود پتا نہیں ہے‘ آپ آج کراچی کی صورت حال دیکھ لیں‘ بارش نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے تمام سسٹم ننگے کر دیے ہیں‘ پورا شہر اس وقت پانی‘ کیچڑ‘ کچرے اور تعفن میں دفن ہے اور یہ تعفن اوریہ گند کیا بتا رہا ہے؟ یہ بتا رہا ہے ہمیں تباہ کرنے کے لیے کسی دشمن یا کسی بم کی ضرورت نہیں‘ ہمارے لیے کچرا اور بیماریاں ہی کافی ہیں۔

ہمارے پاس اب دوآپشن ہیں‘ ہم کچرے اور بیماریوں کے ہاتھوں ختم ہو جائیں یا پھر ہم جوزف بازل گیٹ کی طرح لمبی پلاننگ کریںلہٰذا حکومت (وفاقی اور صوبائی) کو فوراً چند بڑے قدم اٹھانا ہوں گے‘ گند ہماری فطرت‘ ہماری عادت میں شامل ہے‘ حکومت کو یہ عادت بدلنے کے لیے فوری طور پر سائنسی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا‘ اسے پرسنل ہائی جین سے لے کر ماحولیات تک صفائی کا سلیبس بنانا ہوگا اور یہ سلیبس پہلی سے دسویں جماعت تک اسکولوں میں متعارف کرانا ہوگا‘ حکومت کو پورے پاکستان میں پبلک ٹوائلٹس بھی بنوانے ہوں گے اور عوام کو ان کے استعمال کا طریقہ بھی سکھانا ہوگا‘ ہم آج بھی پینے کا صاف اور میٹھا پانی فلش میں بہاتے ہیں۔

ہمیں یہ ٹرینڈ بھی فوراً بدلنا ہوگا‘ حکومت فوری طور پر ہاؤسنگ سوسائٹیز اور نئی تعمیرات کے لیے نئے بائی لاز بھی بنائے اور فلش اور صاف پانی کی لائین بھی الگ الگ کرے اور یہ ہر گھر میں چھوٹے سے ٹریٹمنٹ پلانٹ کو بھی لازمی قرار دے دے‘ یہ پلانٹ استعمال شدہ پانی صاف کر کے دوبارہ فلش کے ٹینکوں میں ڈالے اور پھر صاف کرے اور پھر مین سیوریج لائین میں ڈالے‘ ہم اگر فوری طور پر یہ بندوبست پورے ملک میں نہیں کر سکتے تو ہم کم از کم ملک کے دس بڑے شہروں میں تو یہ سسٹم متعارف کرا سکتے ہیں‘ حکومت اسی طرح کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا جدید سسٹم بھی بنائے‘ یہ ہر شہر میں صفائی کے ڈائریکٹوریٹ بنائے ‘ لوگ بھرتی کرے‘ گھروں سے فیس لے اور پھر اگر کسی شہر کی کسی گلی میں کچرا نظر آئے تو یہ ذمے داروں کو الٹا لٹکا دے‘ دنیا میں کچرے سے بجلی بنانے کے پلانٹس بھی آ چکے ہیں۔

حکومت ہر شہر میں یہ پلانٹس بھی لگوا سکتی ہے یوں بجلی کا ایشو بھی ختم ہو جائے گا اور کچرا بھی ٹھکانے لگ جائے گا اور حکومت ہر کچے اورپکے مکان کے لیے باتھ روم کا سائز اور ڈیزائن بھی فائنل کر دے‘ پلمبرز کو اس ڈیزائن کی ٹریننگ دی جائے اور انھیں پابند بنایا جائے‘ جو پلمبر خلاف ورزی کرے گا اسے سات سال قید بامشقت دے دی جائے گی‘ ریستورانوں اور دکانوں میں بھی باتھ روم لازمی ہوں اور ان کا باقاعدہ اسٹینڈرڈ ہو‘ موٹروے پولیس کی طرح سینیٹری پولیس بھی بنائی جائے ‘ یہ پولیس گند پھیلانے والوں کو بھاری جرمانہ کرے‘ یہ گھروں اور پبلک باتھ رومز کا معائنہ بھی کرے اور اسی طرح ملک میں زمین کا کوئی چپہ بھی خالی نظر نہیں آنا چاہیے۔

زمین کے ایک ایک انچ پر پودا ہونا چاہیے‘ وہ خواہ پھول ہو‘ گھاس ہو یا پھر درخت ہو‘پورا ملک سبز ہونا چاہیے‘ پاکستان کے ہر طالب علم‘ ہر ملازم اور ہر کمپنی کے لیے درخت لگانا لازمی قرار دے دیا جائے‘ لوگ ہر سال ٹیکس ریٹرن کی طرح گرین ریٹرن بھی فائل کریں اور حکومت اس کا آڈٹ بھی کرے اورآخری تجویز حکومت جوزف بازل گیٹ جیسا کوئی شخص تلاش کر کے کراچی کا سیوریج سسٹم اور کچرا ٹھکانے لگانے کا کام اس کے حوالے کر دے‘ ہم فیصلہ کر لیں ہم کراچی کو تین سال میں کلین اور گرین کر دیں گے اور ہم اگر 22 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں ایک جوزف بازل گیٹ بھی تلاش نہیں کر سکتے‘ ہم اگر کچرا بھی نہیں اٹھاسکتے اور نالے بھی صاف نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں ملک کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے کیوں کہ کچرا اور یہ ملک اب دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکیں گے۔

The post کوئی ایک جوزف بازل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3lLTjAS
via IFTTT

اور کتنی ڈرامے بازی ؟ ایکسپریس اردو

یہ جو پچھلے چند روز سے کراچی کی حالتِ زار پر مرکز سے صوبے تک ہر فیصلہ ساز ماتمی اداکاری کر رہا ہے۔

یہ تماشا ہم اہلیانِ کراچی کئی عشروں سے سالانہ بنیاد پر دیکھتے آ رہے ہیں۔اب تو سب کچھ ایک پھٹیچر اسکرپٹ جیسا لگنے لگا ہے۔ پہلے منظر میں شدید بارش ہوگی۔شاہراہوں اور گلیوں میں پانی جمع ہو گا۔میڈیا کے کیمروں کی چاندی ہو جائے گی اور ریٹنگ کی آنکھ سے چھ انچ اونچا پانی بھی چھ فٹ کا نظر آئے گا۔

دوسرے ایکٹ میں بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی عہدیدار ایک دوسرے کو دوپٹے پھیلا پھیلا کے کورس میں کوسیں گے۔اس آہ و بکا کے دوران یوں لگے گا گویا عوام کو ہر پھپے کٹنی ماں سے زیادہ چاہ رہی ہے اور بس مصائب کا خاتمہ ہونے کو ہے۔مگر کہاں صاحب۔ پھر اگلا برس آجاتا ہے۔ وہی جولائی اگست اور وہی پھٹیچر اسکرپٹ دوبارہ انھی اوور ایکٹرز کے طائفے کے ساتھ نمودار ہو جاتا ہے۔

اس بار بھی کیا مختلف ہو رہا ہے؟ مئیر کراچی وسیم اختر آنکھوں میں آنسو بھر کے اپنے سے اوپر والوں کو بددعائیں دیتے ہوئے مدت ِ عہدہ پوری ہونے کے بعد پچھلے ہفتے گھر بیٹھ گئے۔سندھ حکومت نے کہا کہ کراچی کی حالت دیکھ کر اس کی تو بھوک پیاس اڑ چکی ہے مگر وفاق ہمارے پھنسے ہوئے اربوں روپے نہیں دے رہا تو ہم کراچی کو کیسے سدھاریں۔وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ناشکری سندھ حکومت کی جیب پھٹی ہوئی ہے۔ اس جیب میں قارون کا خزانہ بھی بھر دو تو خالی ہی نظر آئے گی۔

رہی عسکری اسٹیبلشمنٹ تو اس نے کراچی کے تین سیاسی فریقوں بلکہ حریفوں یعنی ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے نکتہ چینوں کو ایک ہی کمیٹی میں بٹھانے کی کوشش تو کی مگر یہ اتنی ہی کامیاب ہوئی جتنی کہ مینڈکوں کو ترازو میں تولنے کی کوشش۔

اس بار اگر کچھ نیا ہے تو بس یہ کہ موجودہ وزیرِ اعظم نے پہلی بار سندھ کے وزیرِ اعلی سے خود رابطہ کر کے یقین دلایا ہے کہ وہ کراچی کے بنیادی مسائل کے جامع حل کے لیے شانہ بشانہ مکمل تعاون پر تیار ہیں۔مگر ہم اہلیانِ کراچی اس طرح کے چمتکاری مناظر کے اتنی بار ڈسے ہوئے ہیں کہ اب تو رسی بھی سانپ دکھائی پڑتی ہے۔اس مرتبہ ہم واقعی یقین کر لیں بشرطیکہ درجِ ذیل اقدامات ہوتے نظر آئیں۔

اول ) بلدیاتی انتخابات سے پہلے پہلے موجودہ پوپلے اور بے بس ڈھانچے کی جگہ ایک بااختیار و با وسائل بلدیاتی ڈھانچے کے قیام کے لیے اسمبلی فوری طور پر بلدیاتی ایکٹ میں بامعنی و موثر ترامیم کرے اور کچھ یوں کرے کہ صوبائی اور بلدیاتی ادارے اور ان کا انتظامی و مالیاتی دائرہ کار کسی بھی عام شہری کو شفاف انداز میں الگ الگ دائروں میں نظر آ سکے۔یہ قانون سازی محض کراچی کے بہلاوے کے لیے نہیں بلکہ سندھ کے تمام شہروں کی بلدیات کو یکساں بااختیار و  باوسائل بنانے کی نیت سے کی جائے۔

دوم) شہروں کی صحت و صفائی، منصوبہ بندی، ہنگامی حالات سے نپٹنے اور بنیادی انتظام چلانے کے ذمے دار تمام بکھرے اداروں کو یکجا کر کے مئیر کے اختیار میں دیا جائے جیسا کہ دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔

سوم ) کچھ ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے تحت کراچی اور دیگر شہروں میں قائم کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ اے وغیرہ خود کو برہمن سمجھنے کے بجائے مقامی منتخب بلدیاتی ڈھانچے کے ساتھ اشتراک پر آمادہ ہو سکیںاور بحران کے وقت اپنی کمان ایک شخص یا ایک امبریلا ادارے کے ہاتھ میں دینے سے نہ ہچکچائیں تاکہ موثر رابطہ کاری کے ساتھ ساتھ دستیاب وسائل بھی جانفشانی کے ساتھ استعمال ہو سکیں۔نہ کہ ہر ادارہ کڑک مرغی کی طرح اپنے اپنے اختیارات و وسائل پروں میں دبا کر ایک دوسرے سے منہ موڑ کے بیٹھ جائے جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے۔

چہارم) وہ تمام تجاوزات جو پانی کے قدرتی بہاؤ کو روکنے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ بھلے بلدیاتی حدود میں ہیں یا کنٹونمنٹ حدود میں۔ان سب کو بلا تاخیر و مصلحت فوری طور پر منہدم کیا جائے۔ ان تجاوزات پر اگر کمزور طبقات کے لوگ رہائش پذیر ہیں تو انھیں اپنی زندگی رواں رکھنے کے لیے مناسب معاوضہ اور متبادل چھت فراہم کی جائے۔

حالانکہ ان تجاوزات کی قانون حیثیت نہیں ہے مگر ان میں رہنے والے کمزور طبقات بہرحال پاکستانی شہری ہیں اور انھیں بحیرہ عرب میں تو نہیں پھینکا جا سکتا۔ لہذا ان کی بے دخلی سے پہلے بنیادی بندوبست بھی کیا جائے تاکہ ایک مسئلہ حل کرتے کرتے ایک اور انسانی بحران پیدا نہ ہو جائے۔

پنجم ) بلدیاتی اداروں کے مفلوج ہونے کا ایک سبب پچھلے تین عشروں کے دوران بے تحاشا سیاسی و سفارشی تقرریاں بھی ہیں۔خزانے پر بوجھ ایسے لوگوں کا بیشتر وقت اپنی نااہلی چھپانے اور نوکری بچانے میں گذر جاتا ہے۔لہذا عدلیہ ، اچھی شہرت والے سابق بیوروکریٹس اور سول سوسائٹی کے معزز ارکان پر مشتمل ایک نظرِ ثانی کمیشن بنایا جائے جو پچھلے تیس برس کی تمام تقرریوں کو میرٹ کی بنیاد پر پرکھ کے نوکری سے نکالنے یا رکھنے کا آزادانہ و شفاف فیصلہ دے سکے اور ان فیصلوں کو تمام فریق بلا مصلحت و ناراضی برداشت کریں۔یہ وہ جلاب ہے جو بلدیاتی مریض کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے۔

ششم ) صرف آبی گذرگاہوں پر تجاوزات کے خاتمے سے کام نہیں چلے گا بلکہ ان گذرگاہوں کو نکاسی کے جدید نظام میں تبدیل اور منسلک کرنا ہوگا اور یہ کام کم از کم اگلے پچاس برس کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرنا ہوگا تاکہ ہر سال کی چھیچھا لیدر سے نجات مل سکے۔

ہفتم) ان سب مسائل کا سرچشمہ وہ سیکڑوں ٹن شہری کوڑا کرکٹ ہے جو روزانہ پیدا ہوتا ہے اور اسے پوری طرح ٹھکانے لگانے کا کوئی تسلی بخش انتظام نہیں۔ یہی کوڑا نہ صرف سڑکوں اور گلیوں کو آلودہ کرتا ہے بلکہ آبی گذرگاہوں میں بھی جمع ہوتا جاتا ہے۔اس روگ سے نجات کے لیے ٹکڑوں میں کام کرنے کے بجائے شہروار و شہر گیر منصوبہ بندی، وسائل و آلات کی فراہمی و یکجائی اور نگرانی کے کڑے نظام کی تشکیل لازمی ہے۔ ورنہ آپ باقی سب کام کر لیں اور اس کام کو ڈھیلا چھوڑ دیں تو باقی کی منصوبہ بندی دھری کی دھری رھ جائے گی۔

ہشتم ) کراچی ، حیدرآباد ، میرپور خاص ، نواب شاہ، سکھر اور لاڑکانہ جیسے بڑے شہروں کو فوری طور پر ایک جامع، جدید، تیز رفتار کثیر القسم پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے۔یہ کام کسی ایک سطح کی حکومت کے بس کا روگ نہیں بلکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پرائیویٹ سیکٹر کو مل کے زور لگانا ہوگا۔ایک آسان راہ یہ بھی ہے کہ بڑے شہروں کا اربن ٹرانسپورٹ سسٹم سی پیک میں ڈال دیا جائے۔

نہم) آج جو ہم اس حالت تک پہنچے ہیں، اس کی آدھی ذمے داری ایک بدعنوان اور نااہل بلڈنگ کنٹرول ڈھانچے اور تعمیراتی قوانین کو موم کی ناک بنانے کے جرم پر عائد ہوتی ہے۔بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دائرہ کار، قوانین پر عمل درآمد کی رفتار ، قوانین میں پوشیدہ سقم اور اوپر سے نیچے تک ہونے والی بھرتیوں کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نئے اور جانفشاں ڈھانچے کی غیر جانبدار بااختیار نگرانی کے لیے ایک رضاکار کمیشن کی ضرورت ہے۔ ورنہ کرپشن اور اندھا دھند تعمیراتی منظوری کا طوق اسی طرح شہروں کے گلے پڑا رہے گا۔

دہم) ان تمام اصلاحات کو ٹھوس بنیادوں پر شروع کرنے، جاری رکھنے اور ان کا رخ کسی بھی دور میں تبدیل نہ کرنے کی ٹھوس قانونی ضمانت کے لیے ایک خطیر بجٹ درکار ہے اور اس کے لیے وفاقی و صوبائی بجٹ دستاویز میں ایک مستقل مد کا خانہ بنانا پڑے گا جیسا کہ دفاع ، صحت اور تعلیم وغیرہ کے لیے بنایا جاتا ہے۔تاکہ بلدیات اس خوف سے آزاد رہیں کہ کل کی روٹی کہاں سے آئے گی۔

اگر ان میں سے نصف بھی ہوجائے تو سمجھ لیجے گا کہ ہمارے فیصلہ ساز پاکستانی شہروں کا مستقبل بچانے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں۔بصورتِ دیگر ان فیصلہ سازوں کے ہر قلابے کو ایک پیشہ ور اداکار کی شاندار پرفارمنس سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post اور کتنی ڈرامے بازی ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34WU5VL
via IFTTT

سندھ ہریالی کی راہ پر ایکسپریس اردو

تاریخی اعتبار سے کراچی اور اس سے ملحقہ کئی سو میل دور تک زیر زمین میٹھے پانی کا لیول ستر اسی فٹ سے زیادہ گہرائی پر ہوا کرتا تھا۔ جو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ سندھ میں برسات سالانہ دو سو ملی میٹر سے بھی کم ہوا کرتی تھی۔ کراچی سے میرپور خاص جانے والے مسافر جب ریل میں دائیں بائیں دیکھا کرتے تھے تو خشک جھاڑیاں اور سورج کی تپش سے جلے ہوئے پودوں کو دیکھ کر ہی اپنا دل بہلا لیتے تھے، مگر گزشتہ چند برسوں سے علاقے کا رنگ ہی بدل گیا ہے۔

اگر اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہفتہ بھر پہلے سرجانی میں تقریباً دو سو ملی میٹر برسات ریکارڈ کی گئی۔ اگر یہاں برسات کا رنگ ڈھنگ ان ملکوں جیسا ہوتا جہاں تواتر سے موسم گرما کے جاتے ہی برسات کے آنے کی توقع رکھتے۔ ساون کی آمد پر دھوم دھڑکا ہوتا۔ کھلے علاقوں میں کسان خود ہی گیہوں اور باجرے چھینٹ دیا کرتے جیساکہ بھارت کے دیہاتوں میں ہوتا ہے اور کچے اور چھوٹے مکانات بھی بارش کے حساب کتاب سے بنائے جاتے۔

لیکن آفت زدہ سرجانی کی کہانی سن کر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہاں کے گاؤں گوٹھ کے لوگ برسات کی نعمتوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔ یہی حال کراچی اور حیدرآباد کے شہروں کا ہے کہ نکاسی آب پر یہاں کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے ازخود یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ بارش تو کہیں آٹھ دس سال میں چند روزہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے نہ خصوصی گھر بنانے چاہئیں نہ ایسی راہداریاں ہوں کہ پانی خوش اسلوبی سے نکل جائے۔

اس کے علاوہ آب پاشی کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم جو بھارت کے تمام شہروں میں موجود ہیں یہاں پر ناپید ہیں۔ البتہ سپرہائی وے پر بائیں جانب ایک چھوٹا ڈیم ہے جس کا نام تھڈو ڈیم ہے۔ یہ کسی حد تک آب پاشی میں علاقائی لوگوں کے استعمال میں ہے۔ مگر چھوٹے ڈیم کا کلچر تو پاکستان میں ناپید ہے۔اگر کہیں کہیں ہوگا بھی تو عوام الناس اس کی فیضیابی سے دلچسپی نہیں رکھتے۔

البتہ سپرہائی وے پر تفریحات کے لیے سوئمنگ پول اور ریسٹ ہاؤس بنائے جا چکے ہیں، لیکن تعمیری اور زرعی اصلاحات کی طرف نہ حکومت کی توجہ ہے اور نہ ہی عوام کی۔ کیونکہ عوام تو حکومت کی راہ پر چلنا پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے کراچی سے حیدرآباد تک زمینیں ویران پڑی ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے البتہ جو قافلے پاکستان سے اجمیر شریف کی درگاہ پر جاتے ہیں وہ وہاں پر جو دعائیں مانگتے ہیں ان میں یہ دعا بھی نمایاں ہوتی ہے کہ اللہ پاکستان کو بھی زرخیز کردے، کیونکہ اجمیر شریف کی پہاڑیوں سے جو پانی گزرتا ہے وہ بہت بڑے علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ ہند کے حکمران اکبر نے سب سے پہلے درگاہ پر توجہ دی۔ بعدازاں مغلیہ خاندان کے دیگر دو حکمرانوں جہانگیر اور شاہجہان نے ڈیم نما تالاب، آناساگر کے کنارے بارہ دری اور باغات بنوائے جن کو دولت باغ کا نام دیا۔ ان باغات کی آبیاری اناساگر کے پانیوں سے آٹومیٹک طریقے سے ہوتی ہے۔ اناساگر پیالے کی طرح لبالب پانیوں سے بھرا ہوتا ہے اور فاضل پانی سرکتا ہوا بڑی کیاریوں میں گرتا ہے وہاں سے اوپر سے نیچے کی طرف چھوٹی کیاریوں میں پہنچ جاتا ہے۔

جب میں نے پاکستانی اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ گزشتہ دنوں سرجانی میں جو بارش ہوئی تھی تو اس کا بادل راجستھان سے چلا تھا۔ ظاہر ہے راجستھان میں بڑی ندیاں نہیں ہیں جن کی گہرائی اور پانی کا ٹھہراؤ اس قدر ہو کہ وہاں سے فیومز اٹھیں اور ایسے ملک میں جاکر برسیں جہاں قحط کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ خصوصاً تھر، میرپورخاص اور کراچی، حیدرآباد کے علاقوں کو اپنا نشیمن بنا لیں اور کراچی کے بعض علاقوں میں چند گھنٹوں میں 200ملی میٹر بارش ایک نئی تاریخ ہے،جس سے صوبہ سندھ کی ہریالی قابل دید ہوجائے گی۔

کراچی میں بارشیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیںمگر وہ تین تین چار چار سال کے وقفوں سے۔ اس لیے یہاں کے باسیوں کو آب پروری کی کوئی تربیت نہیں ہے۔ نہ ہی بچاؤ کی اور نہ ہی پانی کی ذخیرہ اندوزی کی۔ بس ایک دریائے سندھ ہے جس کے راستے میں کھیتی باڑی اور باغبانی کا راج ہے۔ باقی اگر آپ پورا سندھ دیکھیں تو چند مقامات چھوڑ کر ہر جگہ درختوں کے سوکھے پتے موجود ہیں۔ اسی لیے یہاں پر مویشیوں کی افزائش کا باقاعدہ کوئی انتظام نہیں ہے، البتہ اگر آپ دادو کی طرف یا سیہون شریف کی طرف جا رہے ہوں تو آپ اونٹوں کے قافلے بڑی تعداد میں دیکھیں گے جو ریگستانی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔

مگر گزشتہ چند برسوں میں تو کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں نے اپنا روپ ہی بدل ڈالا ہے۔ اب سنا ہے کہ حکومت سندھ درختوں کی افزائش میں کوشاں ہے اور اس سال بقول اس کے کئی ہزار درخت لگائے گئے ہیں۔ کاش ایسا ہی ہو۔ مگر جو درخت لگائے گئے ہیں ان میں پھول اور پھل والے درخت نہیں ہیں۔ جب کہ ملائیشیا میں مہاتیر محمد نے ناریل اور کیلوں کے اتنے درخت لگائے ہیں کہ لوگوں کو اس کی خریداری کا کوئی شوق نہیں رہا۔ وہاں ناریل کے درختوں سے پکانے کا تیل بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ درختوں کی افزائش کا مطلب ملک میں کھانے پینے کی کفالت کی طرف ایک جدید قدم ہوگا۔

یہ سوچنا کہ چڑیاں اور دیگر پرندے ماحول کو آلودہ کردیں گے یہ غلط فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پرندے جب پولن کو توڑتے ہیں تو صرف اس کو استعمال ہی نہیں کرتے بلکہ انسانوں کے لیے مفید تر بنا دیتے ہیں۔ اسلام آباد میں جو سن ساٹھ میں شجرکاری کی گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پولن الرجی دور دور تک پھیل گئی اور وہاں لوگوں کا رہنا دشوار ہو گیا۔

لہٰذا درختوں کو لگانے سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا یہ درخت ہمارے انسانوں اور جانوروں کے لیے بار آور بھی ہے یا نہیں۔ شجرکاری کی مہم شروع کرنے سے پہلے پاکستان کے فاریسٹ آفیسروں کا مشورہ اور اردگرد کے دیگر ممالک کا دورہ ضروری ہے جو حکومت پاکستان ازخود منظم کرے۔اس طرح ملک کی معیشت بھی ایسی ہو جائے گی کہ دوسرے ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے گی اور ہم بھار ت سے کہیں زیادہ آگے نکل جائیں گے۔ ہمارے یہاں اگر کسی قسم کی صنعتی منصوبہ بندی میں رکاوٹیں ہیں تو کم ازکم زرعی منصوبہ بندی تو کی جاسکتی ہے۔ جس میں زمینوں کی حد ملکیت کئی ہزار ایکڑ نہ ہو بلکہ منصوبہ بندی سے تقسیم کیا جائے تو پھر سپر ہائی وے پر دونوں جانب لہلہاتے درخت اور کھیتیاں نظر آئیں گی۔

The post سندھ ہریالی کی راہ پر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3gGxq20
via IFTTT

اسرا ئیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ ایکسپریس اردو

جمعرات 13 اگست کو آخر کار اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین معاہدہ ہوگیا ۔ اس بات کا سہرا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سر ہے۔ اب اگلے مرحلے میں اومان اور بحیرین کا نام لیا جا رہا ہے ۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات نہایت قریبی اور گہرے ہیں۔ اس میں تاریخ ، ثقافت اور دینی عقائدکی ہم آہنگی کے علاوہ تجارت و معیشت کا بھی بڑا عمل دخل ہے ۔تاہم اس تاریخی معاہدے کے حوالے سے کوئی فوری رد ِ عمل سامنے نہیں آیا جس وجہ سے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنامناسب نہیں ہے۔

البتہ سعودی میڈیا نے اماراتی اقدام کو ان کا ’’ حق ‘‘ تسلیم کیا ہے ۔ غیر عرب ممالک میں ترکی نے اسرا ئیل کو نہ صرف تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ تجارتی تعلقات بھی قائم ہیں، اسرائیل کے سیاح ہرسال ترکی آتے ہیں جس سے ترکی کو کافی ذرِمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے ، اس کے باوجود  ترکی نے اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان طے پائے جانے والے 13 اگست کے معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ اُدھر دیگر غیر عرب برادر مسلم ملک ایران نے نہ صرف اس معاہدے کو نہایت سختی کے ساتھ مسترد کر دیا ہے بلکہ شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا ہے۔ پاکستان  کا ردعمل خاصا محتاط اور لچکدار ہے۔

مسئلہ کشمیر اور فلسطین ایک مدت ِ دراز سے حل طلب چلا آرہا ہے۔ ان دونوں مسائل کی نوعیت ایک جیسی ہے اور بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں ہی مسائل کی وجہ سے عالمی امن کو سنگین خطرات لا حق ہیں۔ اتفاق سے دونوں ہی مسئلوں کے حل کی کنجی امریکا کے پاس ہے اور او آئی سی کا اثر ورسوخ بھی ان تنازعات کا حل تلاش کرنے میں بہت زیادہ ممدو معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔

ہمیں 1980کی دہائی کے اواخر اور 1990  کی دہائی کے وسط کا وہ زمانہ بھی یاد ہے جب عرب  ممالک میں اسرائیل کا نام لینا بھی ممنوع تھا۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ امریکا کی کوشش سے طے پایا ہے ۔ سعودی عرب نے اس سلسلے میں واضح کیا ہے کہ اسرائیل پہلے فلسطین کی ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کو قبول کر لے گا،بیت المقدس(یروشلم)جس کا دارالخلافہ ہوگا۔ یہ عندیہ گزشتہ21 اگست بروز جمعہ سعودی شاہی خاندان کے ایک اعلیٰ رکن کی جانب سے دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ماضی میں شاہ عبداللہ (مرحوم) نے بھی یہی شرط رکھی تھی ۔

سعودی شاہی خاندان کے ان اعلیٰ رُکن کا نامِ نامی اسم ِ گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں،یہ صاحبِ موصوف ہیں شہزادہ ترکی الفیصل، سابق سعودی سفیر برائے امریکا۔ اس عہدے کے علاوہ وہ ماضی میں انٹیلی جنس چیف(Intelligence Cheif  ) کے انتہائی اہم عہدے پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جب تک اسرائیل فسلطینوں کے ساتھ امن کے معاہدے پر دستخط نہیں کرتا اس وقت تک اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہ بات انھوں نے جرمنی کے حالیہ دورے میں جرمن وزیر ِ خارجہ کے ساتھ برلن میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

ادھر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی یہ کہہ کر اپنے ملک کا موقف بیان کر دیا ہے کہ جب تک فلسطین کی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا اُس وقت تک پاکستان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اسلام آباد میں فلسطین کے سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے میڈیا بیان میں حکومت ِ فلسطین اور فلسطینی عوام نے وزیر ِ اعظم عمران خان کو پرُ زور الفاظ میں خراج ِ تحسین ادا کیا ہے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی عوام پاکستان کواپنا دوسرا گھر اور پاکستان کے لوگوں کو اپنے برادرانِ عزیز مانتے ہیں ۔

وزیر ِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر ہمارا موقف بالکل واضح اور بانیِ پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح ؒ کے نقطہ نظر کے عین مطابق ہے۔ اگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو ہمیں بھارت کے غیر قانونی طور پر زیرِ تسلط مقبوضہ کشمیر پر بھی اپنے موقف اور دعویٰ سے دستبر دار ہونا پڑے گا۔

حقیقت بھی یہی ہے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین میں بڑی گہری مماثلت ہے۔ بس دونوں میں فرق صرف اتنا سا ہے کہ اول الذکر میں غاصب ِ ہنود ہیںجب کہ دوسرے مسئلے میں غاصبِ یہود ہیں اور دونوں کا آپس میں بڑا زبردست گٹھ جوڑ ہے ۔ یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے لاہور میں منعقدہ تاریخی اجلاس میں بتاریخ 23مارچ 1940 میں قرار دادِ پاکستان کے ساتھ ساتھ قرار دادِ فلسطین بھی منظور کی گئی تھی ۔

The post اسرا ئیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32G7zCt
via IFTTT

بارش کی تباہ کاریاں ایکسپریس اردو

جب شہر بسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے گندے پانی کی نکاسی کے علاوہ بارشوں کے پانی کے آسانی سے بہاؤ کا انتظام کیا جاتا ہے، ممبئی جیسے بڑے شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گندے اور بارشوں کے پانی کی نکاسی کا ایسا انتظام ہے کہ بارشیں کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوں آدھے گھنٹے میں پانی نکل جاتا ہے اور ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ سخت بارش ہوئی ہے اس کے برعکس ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ سارے سال گندے پانی کی نکاسی کا کوئی اہتمام نہیں ،ہر گلی گٹر کا منظر پیش کرتی ہے۔

اگست میں کراچی سمیت ملک بھر میں شدید بارشیں ہوئیں، ہر سال مون سون میں جب بارشیں ہوتی ہیں تو سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں اور بارش کا پانی سڑکوں اور گھروں کو تالاب بنا دیتا ہے۔ پانی اور بجلی کے کرنٹ سے بے شمار جانیں ضایع ہو جاتی ہیں اور غریبوں کی بستیوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ آبادیاں اور سڑکیں تالابوں میں بدل جاتی ہیں اور مکین سروں پر ضروری سامان رکھ کر جائے پناہ کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں ڈھائی کروڑ انسان بستے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ایک بارش میں شہر جل تھل ہو جاتا ہے، قیمتی جانی نقصان کے علاوہ غریب بستیوں کے مکینوں کے اثاثے بارش کے پانی کی نظر ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہتی۔ اول تو غریب طبقے کے اثاثے ہوتے کیا ہیں، کھانے پینے کا سامان، چند چارپائیاں، میلے کچیلے بستر، دو تین ٹین کے صندوق یہی ان کی کل کائنات ہوتی ہے جو بارش کے پانی کی نظر ہو جاتی ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر ہے ، اس شہر میں بجلی کا عالم یہ ہے کہ بارش کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کی روانگی لازمی ہو جاتی ہے۔ اوپر سے بارش اور شہر اندھیروں کی نظر،گھر کا سامان بارش کی نظر۔ ایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے، خوف اور افراتفری کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ایسا لگتا ہے، شہر پر حملہ ہو گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا عالم یہ ہوتا  ہے کہ بارش کے چند چھینٹے پڑے، سڑکوں سے بسیں، منی بسیں، ٹیکسی، رکشہ سب غائب۔ بے چارے مکین سروں پر ضروری سامان اٹھائے، چھوٹے بچوں کو اپنی گودوں اور کندھوں پر بٹھائے، خواتین کو ساتھ لیے جائے پناہ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور مسجدوں اور اسکولوں میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ تو ہوا غریب بستیوں کا حال۔

اس کے برعکس امیروں کی بستیوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ سامان محفوظ، بارش کے پانی کی نکاسی کا بہتر انتظام، عام طور پر یہ بستیاں اس قسم کے عذابوں سے محفوظ ہوتی ہیں اور ایلیٹ کلاس کے لیے بارشیں رحمت بن کر آتی ہیں ، بچے، بڑے، عورتیں ، مرد خاص طور پر نوجوان طبقہ بارشوں کو خوب انجوائے کرتا ہے لیکن ہماری غیر محفوظ بستیوں میں بارش کو انجوائے کرنا جان جوکھم کا کام ہے۔ ہماری غریب بستیوں کا عالم یہ ہوتا ہے کہ گلیاں گندے پانی سے بھری رہتی ہیں اس پر بارش کا پانی نالوں کی طرح گلیوں میں بہتا ہے۔اکثر بچے کھیل کود کے شوق میں پانی میں اتر جاتے ہیں اور جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہمارے یہاں دوسرے شعبوں کی طرح الیکٹریسٹی کا بھی عالم یہ ہے کہ بارش کی پہلی بوچھاڑ کے ساتھ ہی بجلی غائب۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر گھنٹے آدھے گھنٹے کی بارش سے تالاب میں بدل جاتے ہیں اور کشتیاں چلنے لگتی ہیں۔ پاکستان کے اس سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں ہو سکا، شہر کی گلیاں گندے پانی سے اٹی ہوئی ہوتی ہیں جب بارش ہوتی ہے تو بارش کا پانی گندے پانی کے ساتھ گھروں کو تالاب بنا دیتا ہے اور گھر گندے پانی اور گندگی سے اٹ جاتے ہیں۔ بارشوں کے پانی سے جو بیماریاں پھیلتی ہیں اس سے انسانی جانوں کوخطرہ لاحق ہو جاتا ہے، سڑے ہوئے باتھ روموں سے غلاظت نکل کر گلیوں پھر سڑکوں پر آجاتی ہے، گلیاں محلے سب گندے پانی سے اٹ جاتے ہیں۔

اب تک گندے پانی اور بارشوں کے پانی کی نکاسی کا کوئی اہتمام نہیں ہو سکا، اس سے ہماری میونسپل کارپوریشن کی کارکردگی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ایک تو کرپشن کی بھرمار کی وجہ میونسپل کارپوریشنوں کا حال بدتر ہے، دنیا بھر میں میونسپل کارپوریشنیں آزاد اور خودمختار ہوتی ہیں، اس کا بجٹ علیحدہ ہوتاہے لیکن کراچی میں میونسپل کارپوریشن کو فنڈنگ صوبائی حکومت کرتی ہے، اس لیے میونسپل کارپوریشن اپنے ترقیاتی کاموں میں صوبائی حکومت کی محتاج ہوتی ہے جس کا نتیجہ ترقیاتی کام کھٹائی میں پڑے رہتے ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں خالی جگہوں پر ہزاروں لوگ چٹائی کی بنی ہوئی جھگیوں میں رہتے ہیں۔ بارش میں نقصان اٹھانے والوں میں یہ جھگی نشین سرفہرست ہیں، بارش کا سارا پانی چٹائیوں کی مٹی دھول کے ساتھ ان پر گرتا ہے اور یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا ہے جس میں نومولود سمیت چھوٹے بچے، ضعیف اور بیمار اشخاص رات رات بھر پانی میں بھیگتے ہیں، یہ جھگی نشین کراچی کے مختلف علاقوں میں عشروں سے سکونت پذیر ہیں عموماً یہ لوگ خالی پلاٹوں یا سرکاری زمین پر رہتے ہیں اور جب چاہے نکالے جاتے ہیں چونکہ یہ لوگ عشروں سے بارش اور گرمی ،سردی برداشت کررہے ہیں۔

کیا یہ ممکن نہیں کہ انھیں ایسی جھگیاں ہی سہی بنا کر دی جائیں یا سیمنٹ کی چادروں کی چھت والی جھگیاں بنا کر دی جائیں تاکہ یہ ستم رسیدہ لوگ دھوپ بارش سردی سے محفوظ رہ سکیں۔ آرمی چیف کے حکم پر 73 ٹیمیں بارش زدگان کی مدد کر رہی ہیں، انھیں بارش زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ جگہوں پر پہنچایا جا رہا ہے، انھیں کھانا بھی فراہم کیا جا رہا ہے، یہ صورتحال ہر برسات میں پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس کا مستقل حل تلاش کرکے انھیں یعنی جھگی نشینوں کو محفوظ مقامات پر مستقل طور پر شفٹ نہیں کیا جاسکتا، تیز اور مسلسل بارش سے بعض بند ٹوٹ گئے ہیں اور پانی آبادیوںمیں داخل ہو رہا ہے۔

The post بارش کی تباہ کاریاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34RP28I
via IFTTT

بارشیں اور سیلاب ایکسپریس اردو

پاکستان کے چاروں صوبوں ‘شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے جہاں ندی نالوں میں طغیانی آئی ہوئی ہے وہیں دریاؤں میں بھی سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی سطح مسلسل بلند ہوتی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں بارشوں کے ساتھ دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی سے سیلاب بھی آ سکتا ہے۔

ادھر ملک بھر میں مون سون بارشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔پنجاب کے بالائی علاقے ‘ آزاد کشمیر ‘خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں شدید بارشوں کی لپیٹ میں  ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ تیز ہے اور کئی علاقوں میں سیلاب کی کیفیت ہے ‘ کئی علاقوں میں کچے گھر گرنے کے باعث جانی نقصانات بھی ہو رہے ہیں۔

سندھ کا ذکر کیا جائے تو حالیہ مون سون میں یہاں ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں۔کراچی کا حال تو سب کے سامنے ہے‘ کراچی میں مون سون بارشوں کا 7واں اسپیل شروع ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق رواں مون سون سیزن میں اب تک کراچی میں معمول سے 220 فیصد زائد بارشیں ہوچکی ہیں جب کہ اگست میں بارشوں کے کئی ریکارڈ بھی ٹوٹ چکے ہیں۔کراچی میں حالیہ بارشوں سے شہر کا تقریباًسارا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز گورنر ہاؤس سندھ کے قریب سڑک زمین میں دھنس گئی،جس کی وجہ سے وہاں ایک ٹریلر پھنس گیا ، کورنگی انڈسٹریل ایریا، جام صادق پل اور کازوے پر ٹریفک بری طرح جام ہو گئی۔ کے پی ٹی انٹرچینج اور قیوم آباد میں بھی گاڑیوں کی لمبی قطاریںلگی رہیں ۔

اداروں کی ناکامی ‘وفاقی اور سندھ حکومت کی چپقلش اور وزراء کی بے تکی بیان بازیوں نے شہریوں کو اس قدر ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا کہ تنگ آ کر گزشتہ روز کراچی کلفٹن اور ڈیفنس کے رہائشی سڑکوں پر آ گئے۔انھوں نے شدیدحکومتی اداروں کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرہ کیا،شہریوں کی سی بی سی کے عملے سے تلخ کلامی بھی ہوئی‘مظاہرین کنٹونمنٹ بورڈ کے دفتر میں گھس گئے اور حکام کے خلاف شدید نعرے بازی کی،مشتعل شہری نو مور ٹیکس اور پولیس کے خلاف نعرے بلند کرتے رہے اوران کی پولیس کے ساتھ دھکم پیل بھی ہوئی ۔پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کرتی رہی تاہم مظاہرین کی جانب سے بھرپور مزاحمت کی گئی۔بعض اطلاعات کے مطابق پولیس نے شہریوں پر لاٹھی چارج بھی کیا۔ بہر حال معاملات سدھر گئے ۔

یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی‘اسے سمجھنے کے لیے کسی سائنسی یا حساب کے سوال کو حل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ذرا سوچیے کہ کراچی کے جن علاقوں میں بارشوں کے بعد سڑکیں تالاب بن جائیں‘بارش کا پانی شہریوں کے گھروں میں داخل ہو جائے‘ان کا قیمتی سامان بارش کے پانی کی نذر ہو جائے اور اوپر سے ظلم یہ ہو کہ پانی کا نکاس بھی نہ ہو اورپھر بجلی بھی بند ہو جائے ‘وہ متعلقہ اداروں کے دفاتر میں شکایت درج کرانے کے لیے ٹیلی فون کریں تو وہاں کوئی اٹھانے والا نہ ہو تو پھرشہریوں کی ذہنی حالت کیا ہو گی اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔کراچی میں گزشتہ روز جو کچھ ہوا‘یہ ہمارے حکمران طبقوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔

یہ عوام کے غیض و غضب کا ایک معمولی سا مظاہرہ ہے۔ کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں خود کو سیاسی قائدین کہلانے والوں اور ان کے حاشیہ برداروں کے لیے وارننگ ہے کہ عوام ان کی جھوٹی اور الزام تراشی کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ اسی طرح سرکاری اداروں میں بیٹھی افسر شاہی اور سرکاری ملازمین کے لیے بھی یہ وارننگ ہے کہ اگر انھوں نے ایمانداری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تنخواہوں کو حلال ثابت نہ کیا تو ایک دن وہ آ جائے گا جب کراچی ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر شہر کے لوگ سڑکوں پر آ کر سیاستدانوں اور افسر شاہی سے اپنا حساب خود کریں گے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کراچی میں بارشوں سے نقصانات اور متعلقہ اداروں کی ناقص کارکردگی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔’’میڈیا اطلاعات کے مطابق درخواست گزار نے حکومت سندھ، کے ایم سی، ڈی ایم سیز اور کنٹونمنٹ بورڈز کو فریق بناتے ہوئے کہا کہ طوفانی بارش کے باوجود ادارے متحرک نہیں ہوئے، ان کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا جس کے باعث لوگوں کا زیادہ نقصان ہوا، سندھ ہائی کورٹ میں کئی روز پانی کھڑا رہا اور درجنوں گاڑیاں ڈوبی رہیں۔‘‘

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کراچی میںشہر کی صفائی کے ذمے دار اداروں کی کارکردگی صفر رہی ہے۔سندھ حکومت بھی عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتری۔وفاق میں برسراقتدار پی ٹی آئی میںکراچی سے منتخب ہونے والے ایم این ایز‘وزراء اور ایم پی ایز نے بھی اپنے ووٹروں کو مایوس کیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان جو مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے‘ اس نے بھی کراچی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی عوامی سطح پر سیاسی جدوجہد نہیں کی۔ جس کے باعث سندھ حکومت اور شہر کے انتظامی اداروں پر دباؤ بڑھتا۔ یہی وجہ ہے کہ تنگ آ کر لوگ خود سڑکوں پر آنا شروع ہو گئے ہیں اور معاملات اسی طرح جاری رہے تو صورت حال مزید خراب ہوتی جائے گی۔

مون سون کی شدید بارشوں کے باعث پورا کراچی شہر تالاب کی شکل اختیار کرگیا، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں، بارشوں کا پانی گلیوں اور گھروں سے اب تک نہیں نکالا جاسکا۔کئی علاقوں میں چار چا ر روز سے بجلی بھی بند ہے اور انھیں پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کراچی شہر کی تباہی کے ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے ‘ اس میں کسی قسم کی مصلحت یا تعصب کا مظاہرہ کیے بغیر سب کو قانون کے مطابق عدالتوں میں طلب کیا جانا چاہیے۔

کراچی کی شہری انتظامیہ کی بیوروکریسی ہو ‘سندھ حکومت کے وزیراعلیٰ اور وزراء ہوں ‘ وفاقی اداروں کی بیوروکریسی ہو اور وفاقی وزراء ہوں جن کا بھی کراچی کے کسی معاملے سے کوئی تعلق بنتا ہے ان سب کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے بلکہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو قانون سازی کرنی چاہیے کہ گزشتہ چالیس برس میں کراچی ‘ لاہور‘ راولپنڈی‘اسلام آباد‘پشاور اور دیگر شہروں میں بغیرنقشے منظور کرائے جو خود رو آبادیاں قائم ہوئیں‘ اس کی اجازت کن افسروں نے کن با اثر سیاستدانوں یا وزراء کے کہنے پر دی۔اسی طرح سرکاری زمینوں پر جو قبضے ہوئے یا الاٹمنٹیں ہوئیں ‘ وہ کن کن خاندانوں کو عطا کی گئیں۔ اس معاملے میں جو جو ذمے دار ثابت ہوجائے ‘ اس سے ساری رقم واپس لی جائے اور اس کی ریٹائرمنٹ کو ڈسمثل میں تبدیل کر دیا جائے۔

سندھ میں کراچی کے علاوہ دیگر شہربھی ہیں۔ وہاں بھی کوئی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں۔ گزشتہ روز میر پور خاص، تھر اور عمر کوٹ میںشدید بارش ہوئی ہے جب کہ سکھر، گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، اوباڑو، شکارپور، کندھکوٹ اور پنوعاقل بھی بارش کی زد میں ہیں۔شدید بارشوں کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔

ان شہروں میں بھی سیوریج کا نظام بیٹھ گیا ہے جس کی وجہ سے گندا پانی بھی بارش کے پانی کے ساتھ مل گیا ہے۔ شہریوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔جوہی میں کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے سے آنے والے پانی کے باعث نئی گاج ندی میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بارش اور سیلاب کے باعث 300 دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔

کراچی کے بعد لاہورپاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس شہر میں بھی جگہ جگہ کچی بستیاں آباد ہیں۔حالت یہ ہے کہ گندے نالوں کے عین کناروں کے اوپر بھی آبادیاں قائم ہیں۔نجی ہاؤسنگ سوسائٹیاں جن کی حدود میں کوئی گندا نالہ یا برساتی ڈرین آتی ہے تو وہ بھی پیسوں کے لالچ میں گندے نالوں کے قریب بھی پلاٹنگ کر دیتے ہیں۔

برساتی ڈرینز کو سیمنٹ کی سیلیبوں سے ڈھک دیتے ہیں۔ ماحولیات کے اصول کے تحت ایسا نہیں ہو سکتا۔ گندے نالوں کے دونوں کناروں پردو ڈھائی سو فٹ کے چوڑائی کے ساتھ پورے نالے پر ایسے موسمی درخت لگائے جاتے ہیں جو گندے نالوں سے اٹھنے والے تعفن کو جذب کر لیتے ہیںاور صبح صبح تازہ آکسیجن چھوڑتے ہیںاس سے کسی قسم کی بدبو نہیں آتی اور ماحول اور فضابھی صاف ستھرے رہتے ہیں۔

The post بارشیں اور سیلاب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3jv87ll
via IFTTT

ملک میں کورونا کیسزکی تعداد میں نمایاں کمی ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ملک بھرمیں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وبا کے 300 نئے کیسزاور4 اموات رپورٹ ہوئیں۔

این سی اوسی کے مطابق ملک بھرمیں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وبا کے 300 نئے کیسزاور4 اموات رپورٹ ہوئیں جس کے بعد کورونا وائرس کے مجموعی مریضوں کی تعداد 2 لاکھ 96 ہزار149 اورمجموعی اموات کی تعداد 6298 ہوگئی۔

ملک بھرمیں کورونا وبا کے فعال کیسزکی تعداد صرف 8881 ہے، صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد دولاکھ 80 ہزار970 ہو گئی ہے۔ سندھ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 29 ہزار469، دوسرے نمبرپرپنجاب میں مریضوں کی تعداد 96 ہزار832، کے پی میں کورونا وائرس سے متاثرمریضوں کی تعداد 36118، بلوچستان میں تعداد 12879، اسلام آباد میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 15649، آزاد جموں وکشمیر2299 اورگلگت میں 2903 ہوگئی ہے۔

این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 20 ہزار 882 ٹیسٹ کیے گئے، ملک بھر میں اب تک 26 لاکھ 42 ہزار 028 ٹیسٹ ہو چکے، ‏ملک بھرکےاسپتالوں میں 92 مریض وینٹی لیٹرپر ہیں، اسپتالوں میں کوروناوینٹی لیٹرزکی تعداد 1920 ہے، ملک بھر میں 735 اسپتالوں میں کورونا مریضوں کے لیے سہولیات ہیں اوراس وقت 1 ہزار044 مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازہ کھڑکیاں کھول دیں اورہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پانی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post ملک میں کورونا کیسزکی تعداد میں نمایاں کمی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ETrDc2
via IFTTT

’’یہ‘‘ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں۔۔۔ ایکسپریس اردو

شہر قائد میں بارشوں کا سلسلہ گذشتہ پندرہ روز سے وقتاً فوقتاً جاری ہے، محکمہ موسمیات نے موسلا دھار برسات کی پیشگی اطلاعات کے ساتھ شہر میں سیلابی صورت حال سے بھی خبردار کیا تھا۔۔۔ جس کے بعد ابتدائی بارشوں میں نکاسی کی ناکافی صورت حال کے حوالے سے صوبائی حکومت کی صفائی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے ’این ڈی ایم اے‘ آئی اور پھر یوں لگا کہ بس اب تو سب ٹھیک ہو گیا ہے۔

کراچی کے سب نالے صاف ہوگئے ہیں اور اب بارش ہوئی تو پانی دیکھنا کیسے اڑن چھو ہو جائے گا۔۔۔ مگر جمعرات 27 اگست 2020ء کو کراچی میں ہونے والی طوفانی بارش سبھی کے دعوے اپنے ساتھ بہا لے گئی، بھلا ہو کہ شدید بارشوں کا کئی دہائیوں کا ریکارڈ ٹوٹا اور حکام نے اس ’ٹوٹے ریکارڈ‘ کے پیچھے پناہ لی اور بڑی ہمت پیدا کر کے فرمایا کہ کیا کیجیے صاحب، ہم نے اپنا ’کام‘ کر دیا تھا، لیکن یہ موئی بارش ہی اتنی تیز ہوگئی، کہ بہت زیادہ پانی آگیا اور اتنی بارش تو دنیا میں کہیں بھی ہو جائے سبھی کچھ ڈوب جاتا ہے۔ کسی دل جلے نے اس میں ٹکڑا لگایا کہ ’ڈوب مرنے‘ کے سوا۔۔۔

دوسری طرف جدید ٹیکنالوجی سے آنے والی آفات اور مظاہر قدرت کے بارے میں بہت پہلے سے پتا چل جاتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ کراچی جیسے اہم ترین شہر کے لیے ریاست اتنا بھی اندازہ نہیں لگا سکی کہ اس کا نکاسی آب کا نظام کس قدر ناقص ہے یا اس کے نالے اور پانی کی قدرتی گزر گاہ کتنی کارآمد رہی ہیں۔۔۔ بارش کے پانی کی سیلابی صورت سے بچنے کے لیے کون کون سی جگہوں سے نکاسی کی رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے، مرکز میں گذشتہ دو برس سے بلند وبانگ دعووں والی ’پاکستان تحریک انصاف‘ برسراقتدار ہے، نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) بھی اپنے پانچ سال گزار کر گئی ہے، کراچی میں جس کے دور کی گرین بس ابھی تک رل رہی ہے۔

صوبائی حکومت میں مسلسل 12 برس سے ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ بیٹھی ہوئی ہے،  رہی ’متحدہ قومی موومنٹ‘ تو اسے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے وجود کے ہی لالے پڑے ہوئے ہیں،  اس کی ’بلدیہ عظمیٰ‘ کا سارا وقت کبھی بے اختیاری کا رونا رونے اور باقی وقت پرسکون رہنے میں گزر گیا۔۔۔

یوں تو ملک بھر میں ہی غیر معمولی مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن کراچی اور سندھ بھر میں صورت حال کافی خراب ہو چکی ہے، حکومت سندھ کی جانب سے صوبے بھر کے  بیس اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے، لوگوں کی داد رسی کی کارروائیاں جاری ہیں، لیکن موسمی آفت اپنے پیچھے بہت ساری کہانیاں اور سوالات چھوڑ گئی  ہے۔

مواصلاتی رابطوں کی معطلی نے صورت حال ابتر کر دی

شہر قائد میں موسلا دھار بارش کے بعد بجلی کی طویل بندش کا سلسلہ رہا۔ ’کے الیکٹرک‘ کے مطابق بہت سے علاقوں میں سیلابی صورت حال کے سبب حفظ ماتقدم کے طور پر یہ اقدام کیا گیا۔۔۔ جب کہ بہت سے علاقوں میں پانی جمع ہونے کے سبب پیدا ہونے والے نقص دور نہیں کیے جا سکے۔

اس لیے یہ سطور لکھے جانے تک مختلف علاقوں میں بجلی بحال نہیں ہو سکی تھی، بہت سے علاقوں میں جب اگلے روز بجلی بحال ہوئی، تو موبائل کے سگنل ہی غائب تھے اور لوگوں کو اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرنے میں شدید دشواری کا سامنا تھا۔۔۔ یہ آفت پر ایک اور آفت تھی، پھر رات گئے موبائل فون بحال ہو سکے جب کہ بہت سے علاقوں میں یہ بندش مسلسل جاری رہی۔ کہا گیا کہ محرم الحرام میں حفاظتی اقدام کو جواز بنا کر بھی اس بندش کو طول دیا گیا، حالاں کہ کچھ برسوں سے یہ سلسلہ موقوف ہو چکا تھا، اور اب ایک ایسے موقع پر جب پورا شہر ایک قدرتی آفت سے جوجھ رہا ہو، بنیادی رابطے بند کر دینا سنگین غفلت اور شہریوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے والی بات تھی، کیوں کہ لائن والے فون اب بہت کم گھروں میں ہیں اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں شہری موبائل فون کے ذریعے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔

عام آبادیوں کے مکینوں سے  لے کر صاحب ثروت لوگوں کے گھروں تک

برساتی پانی سے شہر کی کچی بستیوں اور نشیبی علاقوں کے ساتھ ڈیفینس سوسائٹی کے مختلف علاقوں میں بھی کئی فٹ پانی کھڑا ہے، لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہونے سے زیر زمین پانی کے ٹینک خراب ہوئے اور گھر کا قیمتی سامان برباد ہوگیا۔ شہر کی متوسط اور غریب بستیوں میں بھی صورت حال ابتر رہی۔ لوگوں کو فرنیچر اور قیمتی برقی آلات کی مد میں ہزاروں، لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ شہر کے مختلف بازاروں میں کھربوں روپوں کا سامان خراب ہوگیا۔

بند ٹوٹنے کی افواہیں اور پانی کے ریلے

جمعرات کے روز شدید بارش کے بعد رات کو شہر کے مختلف علاقوں میں اس وقت شدید سراسیمگی پھیل گئی، جب ملیر ندی کے ساتھ واقع دادا بھائی ٹاؤن کے علاقے سے متصل بند ٹوٹنے کی افواہیں  پھیل گئیں، جس کے نتیجے میں کراچی ایڈمن سوسائٹی، بلوچ کالونی، محمود آباد اور منظور کالونی وغیرہ کے مکینوں کو رات چھتوں پر بسر کرنے اور بہت سوں کو گھر خالی کرنے کی صلاح دی گئی۔۔۔

لاؤڈ اسپیکر پر اعلانات ہوئے کہ لوگ محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو جائیں، تاہم بعد میں صورت حال واضح ہوئی کہ بند نہیں ٹوٹا، بلکہ اس کے دروازے سے پانی کا اخراج ہوا تھا، جس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بڑھ گیا تھا، دروازہ بند کرنے کے بعد حالات قابو میں آگئے، لیکن خوف کی وجہ سے مکینوں نے رات جاگ کر گزاری، کیوں کہ شہر بھر میں سیلابی ریلے میں متعدد افراد کے بہہ جانے کی اطلاعات تھیں، جن کی لاشیں اگلے روز نکالی گئیں اور بہت سی لاشوں کی تلاش کا کام جاری ہے۔

سعید غنی کی ویڈیو کی ’صاف سڑکیں‘

27اگست کو شدید بارش کے بعد صوبائی وزیر سعید غنی سب ٹھیک کا پرچار کرتے ہوئے ’سوشل میڈیا‘ پر مختلف ویڈیو لگاتے رہے، جس میں وہ بتا رہے تھے کہ کراچی کی فلاں فلاں سڑک بالکل صاف ہے اور وہاں پانی بالکل نہیں ہے۔ صوبائی وزیر کے اس اقدام کو اہل کراچی کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ کراچی کی اکا دکا مثالوں کو پورے ڈوبے ہوئے شہر پر منطبق کر کے ہمارے زخموں پر نمک چھڑک ر ہے ہیں۔ کسی دل جلے نے کہا ہو سکتا ہے کہ صوبائی وزیر جہاں سے گزرتے ہوں، وہاں سے پانی اپنے آپ خشک ہو جاتا ہو، اس لیے ضروری ہے کہ انہیں سیلابی صورت حال کا سامنا کرنے والے علاقوں میں لے جا کر اس خوبی سے فائدہ اٹھایا جائے۔

سعید غنی مستقل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ چند گھنٹوں میں ہی سڑکوں سے پانی نکال دیا گیا، ہر چند کہ پانی اپنے آپ ہی راستہ بنا گیا ہو۔ جب کہ ان کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی تو اس اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پائے گئے کہ زیادہ برسات کے باوجود اب صورت حال پہلے سے اچھی ہے، کہ پہلے تو شاہراہ فیصل پر چار چار دن پانی کھڑا رہتا تھا۔ انھوں نے شہر بھر کے دورے کر کے بہت پھرتی دکھائی۔ وہ واٹر بورڈ، کے الیکٹرک، کنٹونمنٹ بورڈ وغیرہ کے دفاتر بھی پہنچے اور انھیں ’ہدایات‘ بھی جاری کرتے رہے، لیکن بات وہی ہے کہ اب جب موج دریا سر سے گزر گئی۔۔۔

سیوریج والے کہتے ہیں کہ ’بارش رکنے کی دعا کرو!‘

نارتھ ناظم آباد بلاک ’بی‘ سے زبیر مدنی بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں بارش شروع ہونے سے پہلے ہی گیس بند ہو گئی تھی، تیسرا روز ہے، گیس بحال ہی نہیں ہوئی، اب گھر کے اندر تین فٹ پانی نے ہر چیز تباہ کر دی۔  پانی کی نکاسی کے لیے سیوریج والوں سے رابطہ کیا گیا، تو وہ بولے کہ بارش رکنے کی دعا کریں، پانی خود نکل جائے گا۔ یہ اربوں روپے ٹیکس دینے والے شہر کا حال ہے، ہم سے بہتر تو غیر قانونی طریقے سے قبضے کر کے گھر بنانے والے رہے، جو حکام چند ہزار بھتا دے کر گھر بناتے ہیں اور ساری بنیادی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں اور آفات کی صورت میں امداد لے کر پھر کہیں اور جم جاتے ہیں۔

بالآخر کراچی آفت زدہ قرار پایا

ابتداً حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے مضافاتی علاقے میمن گوٹھ اور ابراہیم حیدری کو آفت زدہ قرار دینے کی اطلاعات سامنے آئیں، تو ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ (سوشل میڈیا) پر شہریوں نے اس پر شدید ردعمل دیا اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اسے ’حکومت سندھ‘ کا متعصبانہ رویے سے تعبیر کیا، کہ ایک ہفتے سے سرجانی ٹاؤن اور اس سے ملحقہ علاقے سیلابی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں، اور اب پورا کراچی ڈوب چکا ہے، بازاروں میں تاجروں کا اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے، گھروں میں لوگوں کے فریج اور دیگر قیمتی برقی آلات خراب ہوگئے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ’حکومت سندھ‘ کو ان علاقوں کی آفت دکھائی ہی نہیں دے رہی۔ شاید یہ احتجاج رنگ لایا کہ پھر ’حکومت سندھ‘ کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد کو سندھ بھر کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا۔

پیٹرول 250 روپے فی لیٹر فروخت ہوا

سیلابی صورت حال میں ملک کو 70 فی صد ریوینیو دینے والے شہر کے باسی جہاں صاف پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے تھے، وہیں شہر بھر میں بطور ایندھن استعمال ہونے والا پیٹرول بھی نایاب ہوگیا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض پمپ مالکان نے صارفین سے من مانے نرخ وصول کیے۔۔۔ ہماری اطلاعات کے مطابق محمود آباد اور بلوچ کالونی کے علاقے میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 250 روپے تک وصول کی گئی، یوں کراچی کے باسیوں کو افتاد میں ایک اور افتاد کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔

’راستوں‘ کی عمارتیں ضرور گرائیں مگر۔۔۔

موسلا دھار بارش سے بے قابو ہوتی ہوئی صورت حال کے بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عندیہ دیا کہ وہ برساتی نالوں کے راستوں پر تعمیر عمارتیں گرائیں گے، بعد ازاں انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ عمارتیں گرا نہیں سکتے، انھوں نے 2001ء کے نظام کی خود مختار بلدیاتی حکومتوں پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ آبی گزرگاہوں اور نالوں پر تعمیرات کی اجازت دے کر شہر کی یہ حالت کی گئی۔ دوسری طرف ماہرین کہتے ہیں کہ ’ڈی ایچ اے‘ فیز 8 کے لیے جو زمین سمندر سے ’چھینی‘ گئی ہے، اس نے ملیر ندی کا آدھا راستہ روک لیا ہے، جب کہ فیز 7 ایکسٹینشن کے لیے کی گئی بھرائی نے بھی پانی کی گزرگاہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہے۔

یہ امر شہر میں سیلاب کی صورت حال کی بڑی وجہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ ان کی تعمیرات میں مال بٹورنے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، تاکہ تجاوزات کے نام پر شہریوں کو بے گھر کرنا ہی مقصد دکھائی نہ دے۔ شہری کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے آگے ایک چبوترا تک تو ’قانون‘ سے چھپ کر بنا نہیں سکتے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ شہر کے بیچوں بیچ اتنی تعمیرات ہوجائیں اور ’قانون‘ کو اس کی ہوا تک نہ لگی ہو؟ ’کراچی چیمبر آف کامرس‘ کے سابق صدر ہارون فاروقی کا کہنا ہے کہ ڈیفینس میں کون سی تجاوزات ہیں جو وہاں پانی بھرا۔ تاجر راہ نما سراج قاسم تیلی کہتے ہیں کہ ڈیفنس فیز 6 اور ملحقہ علاقوں میں پانی موجود ہے، خیابان نشاط، بدر، محافظ اور شہباز میں مکین بے یارو مددگار ہیں۔ ’ڈی ایچ اے‘ اور کنٹونمٹ بورڈ کلفٹن رہایشیوں کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

 چائنا کٹنگ پھر موضوع بن گئی!

شہر میں سیلابی صورت حال کے بعد ایک بار پھر شہر میں غیر قانونی تعمیرات کا غلغلہ ہے۔ بہت سے حلقے موجودہ صورت حال کا ذمہ ’چائنا کٹنگ‘ کو قرار دے رہے ہیں، جہاں رشوتیں دے کر شہر کی مختلف زمینوں پر قبضے کیے گئے، نالوں پر دکانیں اور عمارتیں قائم کی گئیں۔۔۔ لیکن بات اتنی سیدھی ہے نہیں، یہ تو غیر قانونی قبضوں کے وہ ’ملزمان‘ ہیں جن کا نام آپ ڈنکے کی چوٹ پر لے سکتے ہیں اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ پورا سچ یہ ہے کہ کراچی میں غیر قانونی قبضوں اور تعمیرات کی تاریخ کوئی نئی نہیں اور اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ مبینہ طور پر کچھ ایسے بااثر لوگوں نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ہے کہ آپ جن کا نام بھی نہیں لے سکتے۔۔۔

سوال تو پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک ہی شہر میں آبادی کا سارا دباؤ ہوگا، تو پھر لامحالہ جس کے جہاں سینگ سمائیں گے، وہ وہاں چلا جائے گا۔۔۔ قطعہ نظر اس سے کہ غیر قانونی تعمیرات میں کوئی بھی ملوث تھا، ہماری ریاست نے اس پر اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا؟ اس پر بھی کھل کر بات ہونا چاہیے۔ عدالتی حکم پر عمارتیں گرا دینا اور قبضے اور غیر قانونی قرار دے کر سفید پوش خاندانوں کو کھلے آسمان تلے پھینک دینا بہت آسان ہے، کیوں کہ انہیں کسی سیاسی مافیا کی مدد حاصل نہیں ہے، ان کی جمع پونجی لٹ گئی، مال بنانے والے مال بنا کر ملک سے بھی نکل گئے، کوئی اگر برباد ہوا تو وہ جس کی زندگی بھر کی پونجی لٹ گئی اور اب اس کا اس شہر کے سوا کوئی اور گھر بھی نہیں، وہ جس نے عمر بھر کی کمائی لگا کر اپنے سر پر ایک چھت کر لی تھی، آج پھر مصیبتوں سے دوچار ہے، اس سمت بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

بارشیں اور ’زیر زمین‘ پانی کی سطح

ان دنوں سندھ بھر کی طرح شہر قائد بھی غیر معمولی بارشوں کا سامنا کر رہا ہے۔ چند برس پہلے کراچی میں کم بارشوں کی شکایات عام ہوگئی تھیں۔۔۔ کچھ لوگوں نے ’گلوبل وارمنگ‘ کو اس کا سبب قرار دیا تو بہت سوں کا کہنا تھا کہ شہر میں بڑے پیمانے پر لگائے گئے غیر مقامی درخت ’کونوکارپس‘ کی وجہ سے کراچی سے باران رحمت روٹھ گئی ہے اور درجہ حرارت پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔

دوسری طرف شہر میں بڑھتی ہوئی پانی کی طلب کے باعث بڑے پیمانے پر کی جانے والی بورنگ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی گئی تھی، جس سے گنجان آباد شہر کی عمارتوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے، کیوں کہ زیر زمین نمی خشک ہونے سے زمین بھربھری ہو رہی تھی، جو عمارتوں کی بنیادوں کو سہارنے کی سکت کھو سکتی تھی۔۔۔ بہرحال اب باران رحمت جو اگرچہ بد انتظامی کے سبب کسی طور بھی رحمت دکھائی نہیں دیتی، اس سے یہ امید تو ہو چلی ہے کہ کراچی کے زیر زمین پانی کی سطح ضرور بہتر ہوگی اور اس شہر کی بلندوبالا عمارات کو لاحق خطرات میں کمی آئے گی۔ دوسری طرف بہت سے مکینوں کا کہنا ہے کہ بارش کے بعد ان کے بورنگ کے پانی کے کھارے پن میں نمایاں کمی محسوس کی گئی ہے۔

اتنی بارش کے بعد بھی پانی ’ٹینکر‘ سے ہی ملے گا؟

کراچی کی موسلا دھار بارش کے بعد جہاں ایک طرف شہر کو پانی فراہم کرنے والے ڈیم لبریز ہو چکے ہیں، وہیں شہری یہ سوال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ بارش سے پانی تو اتنا آگیا کہ پورا شہر بھی ڈوب گیا، لیکن کیا اب اس آفت کے بعد ہم کراچی والوں کے گھروں کے خشک نلکوں میں بھی پانی آسکے گا۔۔۔؟ یا پھر ہمیں بدستور بورنگ کے کھارے پانی پر انحصار کرنا پڑے گا اور مہنگے داموں ٹینکر خرید کر اپنے گھروں میں ڈلوانے  پڑیں گے۔۔۔؟

کیا کوئی عوامی نمائندہ ہماری یہ آواز بھی اقتدار کے ایوانوں میں اٹھائے گا کہ بارش میں پانی پانی ہونے والے کراچی کو اتنی بارشوں کے بعد کم از اکم  ہمیں پانی کی لائنوں میں پانی مل سکے، دروغ برگردن راوی کہ پانی کا بحران پیدا ہی اسی لیے کیا جاتا ہے تاکہ شہر میں ’ٹینکر مافیا‘ کا راج چل سکے!

اور جب پانی ہمارے گھر کی دہلیز پار کرنے لگا۔۔۔

جمعرات کو موسلا دھار بارش کے دوران نہ صرف ہمارے غریب خانے کی چھتیں بھی ٹپکیں، بلکہ گلی اونچی ہونے کے سبب پانی گھر میں داخل ہونے کے خطرات بھی لاحق ہوگئے، جو نالی ہم نے گھر سے پانی باہر نکلنے کے لیے بنائی تھی وہ الٹا باہر کا پانی اندر لانے کا باعث بننے لگی، اس طرح فوری طور پر پانی کے ٹینک خراب ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔۔۔ شہر کراچی کے پانی کے بحران میں یہ خطرہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا، پہلے تو باہر سے آنے والے پانی کی رکاوٹ کھڑی کی اور اس کے بعد دیکھا تو نوتعمیر شدہ گلی میں گھر سے چند میٹر کے فاصلے پر ایک عدد ’اسپیڈ بریکر‘ پانی کی نکاسی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اگلی گلیوں سے آنے والے پانی کے ریلے نے پانی کی سطح اونچی کر دی تھی۔۔۔ برسات برستے سمے پانی نالیوں میں بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔ بلکہ روڈ کی سمت کے مین ہول سے تو کسی فوارے کی طرح پانی ابلا پڑتا تھا۔۔۔ اس لیے فوری طور پر یہ ضروری تھا کہ ’اسپیڈ بریکر‘ سے پانی کی نکاسی کی جائے۔

تاکہ پانی کو گلی سے باہر جانے کا راستہ مل سکے۔ چناں چہ ہم نے گھر میں موجود کیل ٹھونکنے والی ہتھوڑی سے اسے توڑنے کی سعی کی، زیر آب گلی میں یہ ایک امر محال تھا، وہ تو بھلا ہو ہمارے پڑوسیوں کا کہ ان کے ہاں سے ایک عدد ’چھینی‘ میسر ہوگئی اور یوں یہ کام آسان ہوا، اس کے بعد گلی میں پانی کی سطح نیچی تو ہوئی، لیکن اندر جمع ہونے والے برساتی پانی کو تو بدستور باہر نکالنا تھا، یوں ہمہ وقت تین چار گھنٹے جب تک موسلا دھار بارش جاری رہی، یہ مشق مسلسل جاری رہی، ساتھ ہی نظر رہتی کہ اگر گلی سے پانی اونچا ہوا تو پھر اندر سے پانی نکالنا اور نہ نکالنا برابر ہو جائے گا، بہرحال اللہ کا کرم ہوا کہ ہماری مشقت کام آئی اور اس نوبت کے آنے سے پہلے برسات دھیمی پڑنے لگی، پھر پانی بھی نکلنے لگا اور گلی کے مین ہول بھی پانی قبولنے پر آمادہ ہوگئے، یوں تھوڑی دیر میں گلی کا پانی بھی ختم ہوا اور ہم نے بھی سکھ کا سانس لیا۔

The post ’’یہ‘‘ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GfWhNI
via IFTTT

قائد اعظم کی مادر علمی سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کا 136 واں یوم تاسیس ایکسپریس اردو

آج پاکستان کی تاریخی درس گاہ سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کا 136واں یوم تاسیس ہے۔

یکم ستمبر 1885میں سندھ کے دارلخلافہ کراچی میں قائم ہونے والے جدید تعلیمی ادارے کا بنیادی مقصد سندھ کے مسلمانوں کے بچوں کو جدید تعلیمی زیور سے آراستہ کرنا تھا،سندھ مدرستہ الاسلا م جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے تاریخی اور معتبر تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔

اس ادارے کو یہ امتیاز حاصل رہا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے تعلیمی کیرئیر کا سب سے زیادہ عرصہ 1887 تا 1892 تک اس ادارے میں گزارا، قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ مادر علمی برصغیر پا ک وہند کے مسلمانوں کا علی گڑھ کالج کے بعد دوسرا جدید علمی ادارہ ہے،یکم ستمبر 1885 کو کراچی میں قائم ہونے والے اس عظیم ادارے کے سابق طلبانے قیام پاکستان اور اس کے بعد تعمیر پاکستان میں مرکزی کردار کیاہے۔

اس ادارے کو قائد اعظم محمد علی جناح نے 1943   میں یونیورسٹی کا درجہ دیا تھا اور یہ 2012 میں یونیورسٹی بنا، سندھ مدرسہ یونیورسٹی نے اپنے ایک سو پینتیس برسوں کے سفر میں ملک و قوم کی بڑی خدمت کی ہے، اس ادارے کے سابق طالب علموں نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی خدمات قومی جذبے کے ساتھ انجا م دی ہیںیہ ایک چارٹرڈ یونیورسٹی ہے، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان سے منظور شدہ ہے۔

یونیورسٹی نے اپنے سفر کا آغاز پانچ شعبوں سے کیا جس میں درس و تدریس کیلیے اعلیٰ قابلیت اور تجربے کے حامل تدریسی عملے کی تقرری کی گئی جن میں سے تقریباً آدھے افراد پی ایچ ڈی ہیں، ان میں شعبہ ایجوکیشن، بزنس ایڈمنسٹریشن، میڈیا اسٹڈیز، کمپیوٹر سائنس اور انوائرمینٹل اسٹڈیز شامل ہیں جبکہ اس وقت اس میں مزید پانچ اور شعبہ جات کا اضافہ کیا گیا ہے جن میں سوشل ڈیولپمنٹ، اکاؤنٹنگ ،بینکنگ اور فنانس، آرٹیفیشل انٹلیجنس، سافٹ ویئر انجینئرنگ اور شعبہ انگلش شامل ہیں۔

یونیورسٹی کا سٹی کیمپس کراچی کے کمرشل حب  آئی آئی چندریگر روڈ کے نزدیک حبیب بینک پلازہ کے قرب میں واقع ہے یہ ساڑھے آٹھ ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور جس میں کالونیل دور کی خوبصورت عمارات بھی موجود ہیں یہا ں کی حسن علی آفندی لائبریری میں بیس ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔

سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے پاس جدید ترین کمپیوٹر لیبارٹریز میں سے ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی لیبارٹری ہے۔ یونیورسٹی نے اپنے طالب علموں کومفت انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کر رکھی ہے ، یونیورسٹی کا ایف ایم ریڈیو ’وائس آف ایجوکیشن‘ (فریکوئنسی 96.6)کے نام سے بہت سے سامعین کی توجہ حاصل کر رہا ہے، یونیورسٹی سٹی کیمپس میں توسیع اور ایجوکیشن سٹی (نزدڈی ایچ اے سٹی)، کراچی کے نزدیک ایک اور کیمپس کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے جہاں 100 ایکڑ زمین ایس ایم آئی یو کو مختص کی گئی ہے، سٹی کیمپس میں اس وقت دو ٹاورز تعمیر ہوچکے ہیں۔

سندھ مدرسہ یونیورسٹی میں طالب علموں میں تحریر اور تحقیق کی صلاحیتیں پیدا کرنے کیلیے سیمینارز اور کانفرنسز بھی منعقد کی جاتی ہیں، اس کے ساتھ طالب علموں کی مختلف سوسائٹیز بھی قائم کی گئی ہیں، فیکلٹی کو بھی تحقیقی عمل میں شامل کرنے کیلیے ان کے ریسرچ جرنلز شایع ہورہے ہیں، شعبہ میڈیا اسٹڈیز اینڈ کمیونی کیشن کے طالب علم پندرہ روزہ اخبار بھی نکالتے ہیں۔

وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب الدین صحرائی میمن کا کہنا ہے کہ انکا عزم ہے کہ وہ بانی پاکستان قائد اعظم کی مادر علمی کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیز کی سطح پر لے جائیں۔

The post قائد اعظم کی مادر علمی سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کا 136 واں یوم تاسیس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YT0M79
via IFTTT

Sunday, August 30, 2020

بابر اعظم ٹی ٹونٹی بلاسٹ میں سمرسیٹ کی نمائندگی کریں گے

ماریشس میں تیل کے پھیلاؤ کے خلاف بڑا مظاہرہ

لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان سٴْوگا یوشی ہِیدے کو وزیراعظم دیکھنے کیلئے پٴْرامید

غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کیلئے عالمی گیر مہم چلانے کا مطالبہ

سابق وزیراعظم لی نک یون جنوبی کوریا کی حکمران جماعت کے نئے سربراہ منتخب

رواں سیزن کے دوران سعودی عرب کو آم کی برآمدات میں100 فیصد اضافہ ہوا، جدہ میں پاکستانی قونصل جنرل

خام پٹرولیم کی درآمدات میں جولائی کے دوران 21.9 فیصد کمی ہوئی، ادارہ برائے شماریات

پشاور میں حکومتی اجازت کے بغیر کھلنے والے سکول پر جرمانہ ... سکول انتظامیہ پر 60 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا اور اسکول بند کرنے کی ہدایت بھی کردی گئی

ٹیکسٹائل مشینری کی درآمدات میں جولائی کے دوران33.9 فیصد کمی ہوئی، ادارہ برائے شماریات

جولائی کے دوران قومی برآمدات کا حجم 2 ارب ڈالر سے تجاوزکر گیا، ادارہ برائے شماریات

مصالحہ جات کی برآمدات میںجولائی کے دوران 45.02 فیصد اضافہ ہوا، ادارہ برائے شماریات

سعودی عرب کے شمال میں تیل اور گیس کے دو نئے کنووں کی دریافت

کویت کو تیس برس میں 66 ارب ڈالر قرضہ درکار

ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی جانب سے انسداد وبا میں بنگلہ دیش کی معاونت کیلئے دس کروڑ امریکی ڈالرز قرض کی منظوری

وائٹالٹی بلاسٹ ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ میں (آج) مزید 5 میچ کھیلے جائیں گے

گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے 213 کیس، 6 اموات رپورٹ ... 2,80,682 متاثرہ افراد صحتیاب، ایکٹو کیس 8,873 رہ گئے، نیشنل کمانڈ اینڈآپریشن سنٹر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شنزوآبے کو جاپان کی تاریخ میں عظیم ترین وزیراعظم قرار دے دیا

برازیل میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 38 لاکھ 62 ہزار تک پہنچ گئی، ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک

امریکہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد61 لاکھ 73 ہزار سے تجاوزکرگئی، ایک لاکھ87 ہزار سے زائد افراد ہلاک

سوڈان، موسلا دھار بارشیں اور سیلاب، سینکڑوں گھر منہدم

کاش! کراچی میں بھی کوئی حکومت ہوتی ایکسپریس اردو

کاش! کراچی کو بھی پاکستان کے ساتھ ضم کردیا جاتا۔ جس سے یہ فائدہ ہوتا کہ وہاں ایک انتظامیہ ہوتی، وہاں ادارے قائم ہوتے، وہاں سرکاری محکمے بنتے، جو وہاں کا انتظام بہتر طریقے سے چلاتے۔ کاش! کبھی کراچی میں انتخابات ہوئے ہوتے تو وہاں کے عوام اپنے لیے نمائندے منتخب کرتے، جو ان کے درد کا مداوا کرتے۔ ان کی مجبوریوں اور پریشانیوں میں ان کا دکھ بانٹتے، بلکہ انہیں پریشانی کی حالت تک پہنچنے ہی نہ دیتے۔ وہاں ایم این اے ہوتے جو قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی کرتے اور ان کے حقوق کےلیے آواز بلند کرتے۔ صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کےلیے ایم پی اے ہوتے جو وہاں سے انہیں ان کا حق دلاتے۔ کچھ بلدیاتی نمائندے ہوتے جو مقامی سطح پر کراچی کے عوام کی بات سنتے اور اسے آگے پہنچاتے، ان کے مسائل حل کرتے۔

درج بالا تحریر سے شاید کوئی بھی شخص اتفاق نہیں کرے گا، کیونکہ کراچی میں تو انتظامیہ بھی ہے، وہاں سرکاری ادارے اور محکمے بھی قائم ہیں، وہاں ہمیشہ انتخابات بھی ہوتے ہیں، کراچی کے عوام کے نمائندے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی جاتے ہیں، وہ اپنے لیے بلدیاتی نمائندے بھی منتخب کرتے ہیں۔ لہٰذا میری اس خواہش کا کیا مقصد ہے؟

اگر کراچی کے موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ نہ تو وہاں کبھی انتخابات ہوئے اور نہ ہی کبھی کوئی حکومت قائم ہوئی ہے۔ ان کا کوئی نمائندہ ہی نہیں ہے جو ان کے حق میں آواز بلند کرسکے، جو ان کے حقوق کی جنگ لڑے، انہیں ان کے حقوق دلائے۔ اپنی جیب سے نہیں ان کے ٹیکسوں کا پیسہ انہی پر لگائے۔ ان کے نمائندے تو بالکل ایسے خاموش ہیں جیسے ان کا کراچی کے ساتھ کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے ’’میئر تو اپنا ہی ہونا چاہیے‘‘ کا نعرہ لگا کر عوام سے خوب ووٹ حاصل کرکے اپنا میئر بنالیا۔ لیکن انھوں نے کیا کیا؟ اپنی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل کچھ علاقوں کا دورہ کرلیا، بس یہی ان کی کارکردگی تھی۔ سندھ حکومت کی طرف سے جو اربوں روپے ترقیاتی کاموں کےلیے ملے وہ کہاں لگائے؟ یہ کوئی نہیں پوچھے گا۔

ذرا سی بارش ہوتی ہے تو کراچی ڈوبنے لگتا ہے۔ نکاسی آب کا انتظام انتہائی ناقص بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی کا ایک بہت بڑا علاقہ زیر آب آنے سے لاکھوں رہائشیوں کے جان و مال بلکہ ہر چیز کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ جبکہ بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہر بارش میں بجلی کے ننگے تاروں سے کرنٹ لگنے سے متعدد افراد جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ندی نالوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا پانی شہری آبادیوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں سیوریج کا ناقص انتظام ہونے کی وجہ سے بارش اور گٹروں کا پانی مل کر گلیوں اور سڑکوں پر بہنے لگتا ہے۔ یہ پانی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ لوگ آدھے آدھے اس میں ڈوب جاتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہوجاتا ہے اور یہ پانی کئی کئی دن تک کھڑا رہتا ہے، جس سے عمارتوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

حالیہ بارشوں میں تو حالات بہت زیادہ خراب ہوچکے ہیں۔ لوگ گھروں میں بلکہ گھروں کی چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں۔ ایک ویڈیو میں تو دیکھا جارہا ہے کہ چند افراد دوسری یا تیسری منزل سے پانی میں چھلانگیں لگا کر تیراکی کررہے۔ اس سے پانی کی گہرائی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کئی مکانات گرچکے ہیں، جن کے ملبے تلے دب کر کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ سڑکوں پر کنٹینر تک تیر رہے ہیں۔ انڈرپاسز پانی سے بھر چکے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہوچکا ہے، گلیوں میں بھی پانی کا راج ہے۔ نتیجتاً لوگ گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔ کئی علاقے تو بجلی کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ عورتیں، بچے، بزرگ بھوکے پیاسے امداد کے منتظر ہیں۔ کچھ فلاحی تنظیمیں لوگوں کو کھانے پینے کا سامان فراہم کررہی ہیں، لیکن یہ مجموعی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے ناکافی ہے۔

موسم کی حالت یہ ہے کہ ایک بارش کا پانی اترنے نہیں پاتا کہ دوبارہ بارش ہوجاتی ہے، جس سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔ شہروں میں گلیاں نالوں کی شکل اختیار کرجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کےلیے محفوظ مقامات پر منتقل ہونا اور امدادی ٹیموں کےلیے امدادی سرگرمیاں جاری رکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔

ہمارے سیاستدانوں کا یہ حال ہے کہ وہ اس گمبھیر صورتحال میں بھی اپنی سیاست چمکانے سے باز نہیں آرہے۔ کراچی میں تین سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے۔ سب سے زیادہ نشستیں تحریک انصاف کے پاس ہیں اور اس کی مرکز میں حکومت ہے۔ کچھ نشستیں پیپلز پارٹی کے پاس ہیں جس کی سندھ میں حکومت ہے۔ جبکہ باقی اکثریتی نشستیں ایم کیو ایم کے پاس ہیں اور میئر کراچی کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے۔

تینوں جماعتیں کراچی کے عوامی مسائل پر خوب جم کر سیاست کرتی ہیں اور ایک دوسرے پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ تینوں جماعتوں کے رہنما کراچی کے مسائل کا ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں۔ وفاقی وزرا صوبائی جبکہ صوبائی وزرا وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ کوئی بھی کراچی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کسی کے پاس ان مسائل کے حل کےلیے کوئی تجویز نہیں۔ بس ان کے بیانات الزام تراشی تک ہی ہوتے ہیں، جن سے غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری چھلکتی ہے۔

اب تو عوامی نمائندے خدا کا خوف کریں اور مل بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کے حل کی فکر کریں۔ ماہرین سے رائے لیں اور ان کی روشنی میں ان مسائل کے حل کےلیے کام شروع کریں۔ کہیں نالوں کی مرمت کی ضرورت ہے تو وہ کرائیں، کہیں سڑکیں پلان کے مطابق نہیں بنی ہوئیں تو انہیں درست کرائیں، بجلی کے ننگے تاروں کا مناسب انتظام کریں۔ الغرض تمام مسائل کی فہرست بنائیں اور ماہرین کی آرا میں متعلقہ محکموں کو متحرک کریں اور ملازمین کو کام پر لگائیں تاکہ کراچی میں بھی ایسا محسوس ہو کہ یہاں بھی کوئی حکومت قائم ہے، یہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں، یہاں بھی عوامی نمائندے موجود ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post کاش! کراچی میں بھی کوئی حکومت ہوتی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3gKbnr6
via IFTTT

سعودی عرب میں بین الاقوامی پروازوں پرعائد پابندی اُٹھانے کے لیے سوچ بچار شروع ... سعودی وزارت صحت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مناسب وقت پر فلائٹ آپریشنز بحال کر دیا جائے گا

کوئٹہ میں یوم عاشورہ کا مرکزی جلوس اختتام پذیر ہو گیا

Saturday, August 29, 2020

sعوام فرد کی نہیں نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں،سینٹر سراج الحق ... cاپوزیشن عوام کی نمائندگی کرنے کی بجائے حکومت کا ساتھ دے رہی ہے،سابقہ حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی اشرافیہ ... مزید

_انفراسٹرکچر، مکانات اور فصلوں کو ہونے والے نقصانات کا سروے کرائیں تاکہ سڑکوں کے جال کی بحالی فوری کی جاسکے،وزیراعلی سندھ کی محکمہ منصوبابندی و ترقیات اور روینیو بورڈ ... مزید

)سید مصطفیٰ کمال اور نیس قائم خانی کاحیدرآباد کے سابق مئیر آفتاب شیخ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار

ڑ*غلبہ اسلام،ظالم اورظلم کے خلاف ڈٹ جانے کانام حسینیت ہے،محمد حسین محنتی

ذ*گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کراچی میں بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ کا نوٹس ... د*وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب اور معاون خصوصی شہزاد قاسم سے رابطہ کرلیا

۰کراچی میں 9 محرم الحرام کے جلوس پر امن طور پر اختتام پزیر، شہر کے اکثر علاقوں میں موبائیل سروس معطل رہی

حضرت امام حسین علیہ السلام کا باطل کے خلاف بلند کیا ہوا علم بلند حوصلہ کے ساتھ سربلند رکھیں گے ، آصف علی زرداری

)موجودہ حکمرانوں نے سندھ کے شہری علاقوں کو اپنی نااہلی کی وجہ سے کھنڈرات میں بدل کر رکھ دیا ہے، انیس قائم خانی

5 صوبائی وزیر برائے انفارمیشن سائنس وٹیکنالوجی نوابزادہ تیمور تالپور پانچویں روز بھی سیلابی صورتحال میں متاثرہ افراد کو ریلیف کی فراہمی کے لئے سرگرم رہے

د* بلاول بھٹو زرداری کا گلگت بلتستان کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار

امام حسین اور ان کے جانثار ساتھیوں نے اپنی گردنیں کٹوا کر باطل قوتوں کی گردنیں تا قیامت جھکا دیں، سید مصطفیٰ کمال

ة تحریک لبیک پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے بارش سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری

ٴملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی سازش کی جارہی ہے، رہنما مرکزی جماعت اہلسنّت پاکستان کراچی

7سندھ حکومت کی جانب سے محرم الحرام کے موقعے پر مختلف علماء کرام پر لگائی گئی پابندی کی لسٹ میں اہلسنّت کے علماء کرام کا نام شامل کرنے پر سخت رد عمل کا اظہار ... ۔ سندھ حکومت ... مزید

3دنیا بھر میں آج بھی حسین ؓکا قافلہ حق اور باطل کا معرکہ گرم اوردین اسلام کی خاطر عظیم تر قربانیوں کی لازوال داستان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، اسداللہ بھٹو

ٰمیئر کراچی وسیم اختر کا سابق میئر حیدر آباد آفتاب شیخ کے انتقال پر دکھ اور افسو س کا اظہار

محرم الحرام ہمیں باطل کے سامنے ڈٹ جانے اور کلمہ حق بلندکرنے کا درس دیتا ہے، وسیم اختر

ًبارشوں کے بعد شہر کی حالت زاردیکھ کر انتہائی افسوس ہورہاہے ،محمدسلیم خان قادری ترابی

اب وقت آگیا ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل اور شہر کے انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں،حافظ نعیم الرحمن

بلدیہ شرقی کی جانب سے عاشورہ محرم کے جلوس کے روٹس کو کلئیر کرنے کے امور تیزی سے مکمل کرلئے گئے

oطوفانی بارش نے شہر کراچی کو پانی پانی کردیا،صائمہ ندیم

افغانستان میں شدید بارشوں اور سیلاب سے اموات کی تعداد 160 سے زائد ہوگئی

پاکستان کی بھارت کے غیر قانونی زیرِ تسلط جموں و کشمیر میں کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل اور مذہبی مجالس و جلسوں پر پابندی کی مذمت

Friday, August 28, 2020

سعودی عرب، ایس او پیز کی خلاف ورزی پر 200 دکانیں سربمہر

سعودی عرب، تفریحی مقامات پر’’شیشہ‘‘ اور ’’بار بی کیو‘‘ پر پابندی عائد

پاکستان تحریک انصاف کرپشن کے خاتمہ کے مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں آئی، نواز شریف بتائیں اثاثے کیسے بنائے ... خیبرپختونخوا کے وزیر برائے محنت و ثقافت شوکت یوسفزئی کی نجی ٹی ... مزید

سویڈن: دو کم سن بچوں کو تشدد اور جنسی زیادتی کے بعد زندہ دفن کر دیا گیا ... بچوں کو زبردستی ایک قبرستان میں لے جایا گیا جہاں ان پر مظالم کی انتہا کر دی گئی، پُرتشدد کارروائی ... مزید

قرآن پاک کی بے حرمتی، یورپی ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے ... سویڈن کے شہر مالمو میں قرآن کریم کو جلایا گیا جس کے بعد مشتعل عوام سڑکوں پر نکل آئے، شدید احتجاج

سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات کی بیوہ اسرائیلی ٹی وی پر نمودار، فلسطینی اتھارٹی کو دھمکی ... اگر فلسطینی اتھارٹی نے مجھے یا میرے خاندان کے کسی فرد کو نقصان پہنچایا تو اتھارٹی ... مزید

ہمیں فخر ہے ہماری حکومت افواج پاکستان اورہمارے ادارے شہادتِ حضرت سیدناامام حسین ؓکے راستے پر گامزن ہیں ... حضرت سیدنا امام حسینؓ امن کانفرنس سے مولانا سید عبد الخبیر، ... مزید

جی سی یو وائس چانسلر کی جانب سے کینسر کے مریضو ں کیلئے خون کا عطیہ

سابق وزیر تعلیم رانا مشہود احمد کا غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ہیڈ آفس کا دورہ

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی وقت کی اہم ضرورت اور پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن

حکومت پولٹری انڈسٹری کے مسائل کے حل بارے سنجیدگی سے عمل پیرا ہے،سیکرٹری لائیوسٹاک

ْایڈیشنل سیکرٹری زراعت(ٹاسک فورس) کی سربراہی میں ڈویژنل ٹیکنیکل ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس

عاشورہ محرم الحرام ،صوبے میں امن وامان کی صورتحال یقینی بنانے ،عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے بہترین حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں،آئی جی خیبرپختونخوا ... صوبے میں امن ... مزید

قدرتی وسائل سے مالامال کوہاٹ ڈویژن میں تیل و گیس کے مزید نئے ذخائر دریافت ہوگئے ... ہاٹ کے مضافاتی علاقے سیاب میں تیل و گیس کے کامیاب ذخائر نکل آئے ،روزانہ 16 لاکھ معکب ... مزید

عالمی بینک کی ڈونگ بزنس کی سالانہ رپورٹ میں متعدد غلطیوں کی نشاندھی ، رپورٹ کی اشاعت روکی

اسلام آباد ،آٹھویں محرم کا مرکزی جلوس مقررہ راستوں سے ہوتا ہوا امام بارگاہ امام صادق پر اختتام

وزیر اعظم راجہ ناصر عباس جعفری کی ملاقات ،محرم الحرام امن و امان کو یقینی بنانے سے متعلق تبادلہ خیال ... ملکی اتحاد یکجہتی اور وحدت کے حوالے سے علامہ راجہ ناصر عباس کی سفارشات ... مزید

پی پی پی چیئرمین کی حکومتِ سندھ کو بروقت امدادی کاروایوں کو یقینی بنانے کی ہدایت ... حکومت سندھ قدرتی آفات سے متاثرہ صوبے بھر کے شہریوں کے لیے بروقت ریلیف یقینی بنائے، ... مزید

بارش اور سیلاب کی وجہ سے سندھ زیادہ متاثر ہوا ہے ، پلوشہ خان ... کیا باقی صوبوں میں ہونے والی بارش کے ذمہ دار بھی وزیر اعلی سندھ ہیں، بیان

کراچی میں موبائل نیٹ ورکنگ اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے معاملہ، وفاقی وزیر ٹیلی کمیونیکشن سید امین الحق نے نوٹس لے لیا ... کراچی میں موبائل نیٹ ورکنگ کی فوری بحالی کیلئے اقدامات ... مزید

بلاول بھٹو زرداری کا بلوچستان میں بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر شدید تشویش کا اظہار ... بلوچستان میں بارش متاثر عوام اور انفراسٹرکچر کو بچانے کے لیئے سب کو نظر ... مزید

پاکستان آئی پی یو کے ساتھ مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے موثر کردارا دا کرتا رہے گا،صادق سنجرانی ... آئی پی یو کی صدر کا دورہ کثیر الجہتی اور دوطرفہ تعاون کیلئے انتہائی اہم ... مزید

نومبر 1947ء میں جموں میں ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کا قتل عام، 1991ء میں کنن پورہ میں کشمیری خواتین کی اجتماعی عصمت دری، 2009ء میں گمنام قبروں سے ہزاروں لاشوں کی دریافت اور دل ... مزید

Thursday, August 27, 2020

سعودی عرب میں سال رواں کے آخر تک سینما گھروں میں اضافہ ہوگا ، سعودی سمعی و بصری ابلاغ اتھارٹی

ٹوکیو میںکورونا وائرس سے 250 نئے کیسز کی تصدیق

سعودی شہر عسیر میں قدیم قلعے سیاحتی مراکز میں تبدیل

سعودی عرب، ایمرجنسی خدمات والی گاڑیوں کو راستہ نہ دینے پر جرمانہ

ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جوبائیڈن کے صدر ٹرمپ پر کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے میں ناکامی، نسلی فسادات پھیلانے کے الزامات

کیٹی پیری کے ہاں بیٹی کی پیدائش

اشنا شاہ ’’ہیلو پاکستان‘‘ کے سر ورق پر

صبور علی ڈرامہ سیریل’’مجھے وداع کر‘‘ میں دکھائی دینگی

رابی پیرزادہ نے ارطغرل کی پینٹنگ شیئر کر دی

صنم چوہدری29برس کی ہو گئیں

آئی سی ای،چینی و کافی کے نرخوں میں کمی،کوکوا میں اضافہ

ملائیشیا، پام آئل کے نرخوں میں 1.3 فیصد اضافہ

یورپ،سونے کے نرخوں میں 1 فیصد کمی

امریکا، خام تیل کے نرخوں میں کمی

شدید بارش: کراچی ایئرپورٹ کا رن وے بھی پانی میں ڈوب گیا ... ایئرپورٹ انتظامیہ رن وے پر جمع پانی کی نکاسی میں ناکام، جہاز کی پانی کی اوپر لینڈنگ کی ویڈیو وائرل

جنسی زیادتی اور قتل کے الزام میں بےگناہ قید شخص کی 37 سال بعد رہائی ... گزشتہ روز ہی نئے ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ میں یہ بات واضح ہوئی تھی کہ 1983ء میں قتل اور زیادتی کے الزام میں ... مزید

کاروبار کے لئے بہترین اور سازگار ماحول ملک کی ترقی اور سرمایہ کاری میں بہتری کا ضامن ہوگا‘ پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے سرمایہ کاری بورڈ کی کوششیں اہم ہیں ... ... مزید

پاکستان کی کوششوں سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوا‘انتہاپسند مودی کو شکست ہوئی‘ کشمیری قیادت متحد ہوگئی ہے‘ اسلامی ممالک اور دنیا کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں‘ گڈ ... مزید

ذ*مرحوم سینیٹرمیر حاصل بزنجو جمہوریت پسند رہنماء تھے،نسیمہ حفیظ پانیزئی

, جیکب آباد، اینٹی کرپشن پولیس نے کرپشن کے الزام میں سابق سول سرجن ہیڈ کلرک ،اکائونٹنٹ اور لیبارٹری ٹیکنیشن کو گرفتار کرلیا

ھ*سینیٹر رحمان ملک کاچھ ہزار غیرملکیوں کو خلاف ضابطہ ویزوں کے اجراء کی خبر پر نوٹس ، ... h وزارت داخلہ کو 3روز میں رپورٹ جمع کرنے کی ہدایات

سیلاب متاثر ین کی مدد کے لئے کراچی میں فوج کا فلڈ ایمرجنسی کنٹرول سنٹر قائم، ضلع وسطی گلبرگ،لیاقت آ باد اور نیو کراچی میں ضروری علاج معالجہ کے لئے میڈیکل کیمپس قائم کر ... مزید

Wednesday, August 26, 2020

ڈیوائن براوو ٹی 20 کرکٹ میں 500 وکٹیں لینے والے دنیا کے پہلے بائولر بن گئے، سی پی ایل میں بھی وکٹوں کی سنچری مکمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یونانی وزیر اعظم کو فون، ترکی کے ساتھ کشیدگی پر تشویش کا اظہار

نیوزی لینڈکی مسجد النور اور اسلامک سینٹر میں فائرنگ کے آسٹریلوی مجرم برینٹن ٹارنٹ کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حریف جو بائیڈن کو ٹی وی مباحثے سے قبل منشیات کا ٹیسٹ کرانے کا چیلنچ دے دیا

ڈی فرانس سائیکل ریس کا 107 واں ایڈیشن (کل) سے شروع ہوگا

انگلینڈ اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان تین بین الاقوامی ٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز کا پہلا میچ (آج) کھیلا جائے گا

سانحہ کرائسٹ چرچ کے ملزم برنٹن ٹیرنٹ کو سخت سزا سنا دی گئی ... 51 افراد کے قاتل برنٹن کو بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے

ماں نے 4 سالہ بیٹی کو بچانے کے لیے بے دردی سے اس کا گلا کاٹ کے مار ڈالا ... میں نے اپنی بیٹی کو اس لیے مار ڈالا کہ اس کے ساتھ کچھ برا نہ ہو جائے: قاتل ماں کا دعویٰ

ملک میں کورونا کے فعال کیسزکی تعداد صرف 8 ہزار803 رہ گئی ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: این سی اوسی کے مطابق ملک بھرمیں کورونا کے فعال کیسزکی تعداد صرف 8 ہزار803 رہ گئی ہے۔

این سی اوسی کے مطابق ملک بھرمیں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا کے 425 نئے کیسز اور6 اموات رپورٹ ہوئیں جس کے بعد ملک بھرمیں کورونا وائرس کے مریضوں کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 94 ہزار 638 اورمجموعی اموات کی تعداد 6274 ہوگئی ہے۔ ملک میں ایکٹیو کیسز کی تعداد صرف 8 ہزار 803 ہے جب کہ ملک بھر میں صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد دو لاکھ 79 ہزار 561 ہوگئی۔

این سی اوسی کے مطابق سندھ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 28 ہزار877 ، دوسرے نمبر پنجاب میں مریضوں کی تعداد 96 ہزار540 رپورٹ، کے پی میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 35893، بلوچستان میں تعداد 12721، اسلام آباد میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 15562، آزاد جموں و کشمیر 2272، گلگت میں 2773 ہو گئی۔

نیشنل کمانڈ سینٹر کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 23 ہزار 441 ٹیسٹ کیے گئے، ملک بھر میں اب تک 25 لاکھ 35 ہزار 778 ٹیسٹ ہو چکے، ‏ملک بھرکے اسپتالوں میں 114 مریض وینٹی لیٹرپر ہیں، اسپتالوں میں کوروناوینٹی لیٹرزکی تعداد 1920 ہے، ملک بھر میں 735 اسپتالوں میں کورونا مریضوں کےلیے سہولیات ہیں اوراس وقت 1 ہزار 076 مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازہ کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پانی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post ملک میں کورونا کے فعال کیسزکی تعداد صرف 8 ہزار803 رہ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2EzIYH0
via IFTTT

ایک اور بند گلی ایکسپریس اردو

میری زندگی بہت مزے سے گزر رہی تھی‘ میں اس چھوٹے سے جوہڑ میں شہرت کو انجوائے کر رہا تھا‘ صبح اٹھ کر ہواؤں کا رخ دیکھتا تھا اور عوام کی خواہش کے مطابق کالم لکھ دیتا تھا‘ میرے اعزاز میں سلطان راہی کی طرح ہر طرف سے تالیاں بجتی تھیں اور میں ان آوازوں میں خوش تھا لیکن پھر بدقسمتی سے میری ملاقات آرٹ بک والڈ سے ہو گئی۔

آرٹ بک والڈ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم نگار تھا‘ اس نے سینئر کی حیثیت سے مجھے ایک مشورہ دیا اور میری بدقسمتی میں نے اس کا مشورہ مان لیا‘ اس کا کہنا تھا’’ تم صرف پاپولر ہو‘ رائٹر نہیں ہو کیوں کہ تم سچ نہیں لکھ رہے اسمارٹ لکھ رہے ہو‘ تم واہ واہ کے لیے کالم لکھتے ہو چناں چہ پورے ملک میں تمہارا کوئی مخالف‘ کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ‘ تمہیں مداری یا جوکر تو کہا جا سکتا ہے لیکن لکھاری نہیں‘‘ اس کا کہنا تھا’’ تم لکھنے میں منافقت کر رہے ہو‘ تم سچ نہیں لکھ رہے ‘ دنیا میں وہ شخص اصل لکھاری ہوتا ہے جو ہواؤں کی پرواہ نہ کرے۔

پورا ملک خواہ اس کے خلاف کھڑا ہو جائے مگر اس کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئے اور پھر وقت ثابت کرے وہ صحیح تھا اور اس کے تمام مخالفین غلط‘‘ آرٹ بک والڈ کا کہنا تھا ’’تم اس دن اصل رائٹر بنو گئے جس دن تمہاری بھرپور مذمت ہو گی لیکن تم اس کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہو گے‘‘ میں اسے گرو سمجھتا تھا چناں چہ میں نے اس کے مشورے کو مشعل راہ بنا لیا اور پھر یہاں سے میری ’’بربادی‘‘ شروع ہو گئی اور آج میں روز تھوک کے حساب سے گالیاں کھاتا ہوں لیکن اس کے باوجود بدمزہ نہیں ہوتا‘ کیوں؟

کیوں کہ میں حقائق پر کمپرومائز نہیں کرتا اور حقائق پر کمپرومائز نہ کرنے والے لوگ انبیاء کے راستوں کے مسافر ہوتے ہیں اور ان راستوں پر کانٹوں اور پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا‘ سچ بولنے والوں کو ایک ہی بار انعام ملتا ہے اور وہ انعام راستے کے آخر میں ہوتا ہے‘ میں اگر سچا ہوں تو اس کا فیصلہ وقت کرے گااور اگر غلط ہوں تو یہ فیصلہ بھی وقت عن قریب کر دے گا لہٰذا آپ بھی میرے معاملے میں وقت کو وقت دے دیں۔

مجھے محسوس ہوتا ہے مجھے اب ’’اسرائیلی جاسوس‘‘ قرار دینے کا وقت آ چکا ہے کیوں کہ میں اب وہ سوال اٹھارہا ہوں جن پر ہمارے سماج میں پابندیاں ہیں‘ ہمارے ملک میں مکالمے کو فوت ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں اور اس کی گدی پر ٹھیکے دار اور مافیاز قبضہ کر چکے ہیں چناں چہ آپ اس ملک میں سچ بول سکتے ہیں اور نہ حقائق بیان کر سکتے ہیں‘ آپ یہاں چرچل کے 1945 کے اس فارمولے پر بھی بات نہیں کر سکتے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا تھا‘ آپ 1965 کے اس صدارتی الیکشن کے بارے میں بھی بات نہیں کر سکتے جس میں جنرل ایوب خان جمہوریت پسند اور فاطمہ جناح غدار جمہوریت تھیں‘ آپ جنرل ضیاء الحق کے امریکی سپانسرڈ جہاد پر بھی بات نہیں کر سکتے۔

آپ جنرل پرویز مشرف کی ’’افغان فروشی‘‘ کی داستانیں بھی بیان نہیں کر سکتے اور آپ ارطغرل کو فکشن بھی نہیں کہہ سکتے‘ آپ یہاں اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی نہیں کر سکتے‘ آپ جج ارشد ملک کے رازوں سے بھی پردہ نہیں اٹھا سکتے اور آپ ایران اور سعودی عرب کی ملک میں مداخلت پر بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے‘ یہ ملک اصل میں مکالمے کا قبرستان ہے۔

آپ یہاں دلیل سے بات کر کے دکھا دیجیے آپ کسی نہ کسی مجاہد کا نشانہ بن جائیں گے اور ریاست آپ کے قتل کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرے گی یا پھر آپ دنیا بھر میں چھپتے پھریں گے چناں چہ یہاں لوگ ڈرتے زیادہ اور سوچتے کم ہیں لیکن کیا سب کو یہ کرنا چاہیے‘ اگر ہاں تو آخر کب تک؟ میں جب بھی یہ سوچتا ہوں تومجھے اپنی اسمارٹ زندگی سے گھن آنے لگتی ہے اور یوں بوٹا سوال کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ میں آج بھی چند سوال اٹھانے کی جسارت کروں گالیکن سوالوں کی طرف جانے سے پہلے میں آپ کو یہ بتاتا چلوں یہ سوال مجھے قرآن مجید‘ تاریخ اور تاریخ کی شاہراؤں کی سیاحت نے دیے ہیں اور میں انھیں امانت سمجھ کر قوم کے سامنے رکھ رہا ہوں چناں چہ ملک کے تمام علماء کرام جواب دیں قبلہ اول خانہ کعبہ ہے یا پھرمسجد اقصیٰ؟ کیوں؟ کیوں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے خانہ کعبہ پہلے تعمیر فرمایاتھا اور آپ ؑ نے مقام ابراہیم ؑپر کھڑے ہو کر نماز اور دعا فرمائی تھی جب کہ آپ ؑ نے مسجد اقصیٰ خانہ کعبہ کی تعمیر سے چالیس برس بعد یروشلم میں تعمیر کی تھی‘کیا بیت المقدس مسلمانوں سے پہلے

یہودیوں اور عیسائیوں کا قبلہ نہیں تھا؟ کیا حضرت یعقوب ؑ اپنے 12بیٹوں اور قبیلے کے ساتھ بیت المقدس کے مضافات میں نہیں رہتے تھے؟ کیا اسرائیل حضرت یعقوب ؑ کا عبرانی نام نہیں تھا؟ کیا یہودی حضرت موسیٰ  ؑ کی معیت میں 32 سو سال پہلے واپس بیت المقدس نہیں آئے تھے‘ کیا اللہ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کو اس ارض مقدس کا بادشاہ نہیں بنایا تھا؟ کیا یہودی چار ہزار سال سے اس طرف منہ کر کے نماز نہیں پڑھتے‘ کیا حضرت عیسیٰ  ؑ کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا اور کیا مسیحی ہم سے پہلے بیت المقدس میں مقیم نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمانوں نے صرف 16 یا 17 ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا نہیں کی تھی اور کیا پھر ہم نے دو ہجری میں حضرت ابراہیم ؑ کے تعمیر کردہ قبلہ اول (خانہ کعبہ) کی طرف رخ نہیں موڑ لیا تھا اور ہم اگر آج بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کریں تو کیا ہماری نماز ہو جائے گی؟

کیا بیت المقدس بازنطینی ریاست کا حصہ نہیں تھا اور کیاعیسائیوں نے یہ معاہدے کے ذریعے حضرت عمر فاروقؓ کے حوالے نہیں کیا تھا اور کیا یہودیوں نے اسلامی لشکر کا شکریہ ادا نہیں کیا تھا اور کیا حضرت عمر فاروقؓ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی اجازت نہیں دی تھی اور کیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے  یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ عبادت اور زیارت کا معاہدہ نہیں کیا تھا اور کیا خلافت عثمانیہ کے چار سو سال میں عرب مسلم خاندانوں کو لا کر یہاں آباد نہیں کیا گیا تھا اور کیا۔

اس سے آبادی کا تناسب نہیں بدل گیا تھا اور کیا یہ تکنیک اب یہودی نہیں اپنا رہے اور کیا پہلی جنگ عظیم کے بعد شریف مکہ اور آل سعود نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عرب علاقوں کو آپس میں تقسیم نہیں کر لیا تھا اور کیا یہ بیت المقدس کو نیا ملک بنانے پر رضامند نہیں ہوگئے تھے اور کیا یہ اسرائیل اور مسلم دنیا کی بجائے اسرائیل اور شام‘ اردن اور مصر کے علاقوں کا ایشو نہیں؟اور کیا1967کی جنگ میں اسرائیل نے مصر کی غزہ کی پٹی اور صحرائے سینا‘اردن کے مغربی کنارے اور شام کے گولان کے پہاڑی علاقوں پر قبضہ نہیں کر لیا تھا اور کیا یہ تنازع یہاں سے شروع نہیں ہوا تھا؟ اور کیااسرائیل نے 1978 میں جنوبی لبنان پر بھی قبضہ نہیں کر لیا تھا(2000 میں اسرائیل نے جنوبی لبنان کے علاقے واپس کر کے اپنا قبضہ ختم کر دیا) اور اسرائیل اگر مصر‘ اردن‘ شام اور لبنان کے علاقوں پر قبضہ نہ کرتا تو کیا عالم اسلام اسرائیل کے قیام پر خاموش نہ رہتا۔

کیا ہم اسے قبول نہ کر لیتے؟ میں تسلیم کرتا ہوں فلسطین وقفوں وقفوں سے مسلمانوں کے پاس رہا لیکن مسلمانوں کے پاس تو اندلس‘سسلی‘ بلغاریہ سے لے کر ویانا تک مشرقی یورپ‘ روس کے دس فیصد علاقے اور چین کا صوبہ سنکیانگ بھی رہا تھا‘ ہم غرناطہ سے لے کر تاشقند تک کے مالک تھے لیکن آج ہم ان کی واپسی کے لیے کیوں نہیں لڑ رہے؟ ہم نے قابض چین‘ قابض روس‘ قابض مشرقی یورپ اور قابض اسپین کو کیوں قبول کر لیا؟

اور آخری سوال کیا ایشو عالم اسلام اور اسرائیل ہے یا پھر اردن‘ شام‘ مصر اور لبنان کے مقبوضہ علاقے ہیں یا پھر اسرائیلی طیاروں کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینی ہیں؟ آخر یہ ایشو ہے کیا؟ ہم کس لیے لڑ رہے ہیں؟ایشو اگر مقبوضہ علاقے ہیں تو پھر جن کے علاقوں پر قبضہ ہوا وہ اسرائیل کو کیوں تسلیم کیے بیٹھے ہیں اور ایشو اگر اسرائیل یا مظلوم فلسطینی ہیں تو پھر او آئی سی نے آج تک ان مظلوموں کے لیے کیا کیا؟ اور اگر ایشو عالم اسلام ہے تو پھر عالم اسلام کو آج تک کشمیری نظر کیوں نہیں آئے؟ کیا یہ مظلوم نہیں ہیں یا پھر ان کا اسلام نامکمل ہے؟ ۔

میں پھر یہی کہوں گا یہ سفارتی اور سیاسی ایشو ہے اور ہم اسے مذہبی بنا کر غلطی کر رہے ہیں‘ ہم اسرائیل کو مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ فیصلہ سفارتی ہونا چاہیے مذہبی نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے اگر اسے مذہبی ایشو مان لیا تو بیت المقدس پر پہلا حق یہودیوں اور دوسرا حق عیسائیوں کا ہو جائے گا‘ ہم کسی جگہ اسٹینڈ نہیں کریں گے۔

دوسرا جب سفارتی اور سیاسی ایشوز مذہب سے جڑ جاتے ہیں تو پھر واپسی کا راستہ نہیں بچتا لہٰذا ہمیں اس ایشو پر سارے راستے بند نہیں کرنے چاہییں‘ ہمیں ایک اور بند گلی پیدانھیں کرنی چاہیے‘اگر عرب ملک اسرائیل سے مذاکرات کر رہے ہیں تو ہمیں بھی کرنے چاہییں اور اگر عرب ملک اسرائیل سے بات چیت کرتے ہوئے ہم سے نہیں پوچھ رہے تو ہمیں بھی انھیں اعتماد میں نہیں لینا چاہیے لیکن ہم جو بھی فیصلہ کریں اپنے حالات اور اپنے ملکی مفادات کے مطابق کریں‘ ہم محبت یا نفرت میں دوسروں کی تقلید نہ کریں کیوں کہ دوسرے ہمارے جذبات اور عزت نفس دونوں کا خیال نہیں رکھ رہے‘ آزاد قوم بنیں‘ غلام نہ بنیں۔

The post ایک اور بند گلی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31z3JvE
via IFTTT

کراچی کا ساتواں ضلع ’لیاری‘ کے بہ جائے ’کیماڑی‘ کیوں بنا؟ ایکسپریس اردو

بالآخر 20 اگست 2020 کو صوبائی کابینہ نے کراچی میں شامل ضلع ’کراچی غربی‘ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے بلدیہ، سائٹ، ماڑی پور اور کیماڑی وغیرہ کو کراچی کا ساتواں ضلع بنانے کی منظوری دے دی جو ضلع ’کیماڑی‘ کہلائے گا۔ شہری حلقوں نے اس نئے ضلعے کے قیام پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

بات ساتویں ضلع پر بھی نہیں رکی ہے، اس سے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی ’خواہش‘ کا اظہار کیا ہے کہ کراچی کے ضلع ’جنوبی‘ کا نام تبدیل کر کے ’کراچی‘ ضلع کا نام دے دیا جائے اور کراچی کے باقی اضلاع (یعنی کراچی وسطی، کراچی غربی اور کراچی شرقی) کو بھی انھی کے کسی علاقوں سے منسوب کر دیا جائے، یعنی جیسے ضلع ’کورنگی‘ اور ضلع ’ملیر‘ کو ہم شہر قائد کا حصہ سمجھ رہے تھے، ’سندھ سرکار‘ کی جانب سے اس نام کی تبدیلی میں کراچی سے علیحدگی کا منصوبہ پنہاں تھا!

ذرا یاد کیجیے، کچھ عرصے قبل کراچی کے ضلع ’وسطی‘ اور ’کورنگی‘ کو ملا کر الگ ’شہر‘ اور ضلع جنوبی اور باقی شہر کو ’دوسرا شہر‘ بنانے کی بازگشت سنائی دی تھی اور کہا گیا تھا کہ اب کراچی کے ایک کے بہ جائے دو مئیر ہوں گے۔ ناقدین کے بقول اس سے پیپلز پارٹی کے ’شہر قائد‘ پر حکم رانی کرنے کا ’خواب‘ تکمیل کو پہنچ جائے گا اور آج دیکھ لیجیے کہ وزیراعلیٰ کی ’خواہش‘ کے ذریعے یہ بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے، اب عملاً اس طرف پیش رفت شروع کر دی گئی ہے۔

اس طرح جب ’نقشے اور کاغذات پر ’کراچی‘ صرف ایک ضلع کا نام رہ جائے گا، جو صرف آج کے ’ضلع کراچی جنوبی‘ پر مشتمل ہوگا اور اس کی حدود میں ڈیفنس کلفٹن سے لے کر کینٹ اسٹیشن، صدر، برنس روڈ، گارڈن، رنچھوڑ لائن، لیاری، بولٹن مارکیٹ، ٹاور، کھارادر وغیرہ سمیت تمام اہم علاقے شامل ہوں گے، اس میں وہ ’ریڈ زون‘ بھی ہوگا، جہاں وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس وغیرہ واقع ہیں اور سندھ اسمبلی بھی اس ضلعے میں ہوگی۔ ان دنوں ’ضلع کراچی جنوبی‘ میں ’ضلعی چیئرمین‘ پیپلز پارٹی کا ہے، اس لیے اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں کہ کل کو ’’کراچی‘‘ کا ’’مینڈیٹ‘‘ کس سیاسی جماعت کے پاس جانے کا ’امکان‘ ہوگا۔

اب آپ کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ کراچی میں ساتویں ضلعے کے لیے جو ’لیاری ضلع‘ کی دبی دبی سی بازگشت 2013سے سنائی دینے لگی تھی، کہ جب ضلع ’شرقی‘ سے الگ کرکے لانڈھی، کورنگی اور شاہ فیصل کالونی وغیرہ پر مشتمل چھٹا ضلع ’کورنگی‘ بنایا گیا تھا۔ یہاں یہ بات دل چسپ ہے کہ ضلع ’کورنگی‘ کا قیام متحدہ قومی موومنٹ‘ پر ’کرم نوازی‘ کی طرح معلوم ہوا تھا، لوگوں نے درپردہ اسے ’متحدہ‘ کا مطالبہ بھی قرار دیا، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ چھٹے ضلعے کا قیام سبھی نے بہت خاموشی سے برداشت کر لیا تھا پھر جب 2015میں ’بلدیاتی انتخابات‘ ہوئے تو کراچی میں سب سے زیادہ یونین کونسلوں والے ضلع کراچی ’وسطی‘ کے بعد ’کورنگی‘ ہی کراچی کا دوسرا ضلع تھا، جہاں ’ایم کیو ایم‘ بہ آسانی اپنا چیئرمین لانے میں کام یاب ہوگئی تھی۔

وہ الگ بات ہے کہ بعد میں ضلع ’شرقی‘ اور پھر غیر متوقع طور پر ضلع ’غربی ‘ بھی اس کی جھولی میں آگرا تھا لیکن اب جب کہ ’کراچی غربی‘ کے درمیان ضلعی سرحدیں استوار کر کے ’کیماڑی‘ کو جدا کر دیا گیا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ سیاسی فائدے اور نقصانات بھی سامنے آئیں گے۔ کراچی اور سندھ کی سماجیات اور سیاسیات پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز صحافی اور دانش ور محمد عثمان جامعی کے بقول الگ ’کیماڑی‘ ضلع کے قیام کا شوشہ چھوڑ کر شہر قائد کو ایک بار پھر لسانی کشیدگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہم دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ساتواں ضلع ’لیاری‘ کے بہ جائے ’کیماڑی‘ کیوں بنایا گیا؟ تو ایک بار پھر یاد کیجیے وزیراعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ کی ’خواہش‘ کہ صرف ’ضلع جنوبی‘ کا نام ہی ’کراچی‘ ہو، باقی اضلاع کے اپنے الگ نام ہوں اور اب ذرا ایک بار پھر ضلع ’کراچی جنوبی‘ کے حدود پر بھی نگاہ دوڑایے، تو واضح ہو جائے گا کہ ’لیاری‘ اسی ’ضلع جنوبی‘ کا حصہ ہے، یعنی ڈیفنس ویو، منظور کالونی، محمود آباد سے لے کر ہل پارک، دہلی مرکنٹائل سوسائٹی، بہادر آباد، طارق روڈ، گلشن اقبال اور گلستان جوہر یہاں تک کہ جامعہ کراچی اور ’مزار قائد‘ تک ’کراچی‘ کا ’حصہ‘ نہیں ہوں گے، (یعنی کراچی پھر ’شہر قائد‘ بھی نہیں کہلا سکے گا!)

دوسری طرف کورنگی انڈسٹریل ایریا اور لانڈھی، کورنگی اور شاہ فیصل تو پہلے ہی ’کاغذی طور پر‘ ’کورنگی‘ ضلع بنا کے کراچی سے ’’باہر‘‘ کر دیے گئے ہیں۔ اب گرومندر، پٹیل پاڑہ، لسبیلہ، پیر کالونی، ناظم آباد، لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد سے لے کر نارتھ کراچی وغیرہ تک سب سے کے سب بہ یک جنبش قلم کراچی سے باہر ’’نکال‘‘ دیے جائیں گے۔ یہ اگر لیاری کو ضلع بناتے، تو پھر ’لیاری‘ وزیراعلیٰ کی خواہش والے مجوزہ ’’کراچی ضلع‘‘ سے باہر ہو جاتا، اب جب کہ حکم راں پیپلز پارٹی ’لیاری‘ کو اپنا مضبوط حلقہ سمجھتی ہے، جو ضلع جنوبی میں شامل ہے، تو اسے الگ کر کے اپنے لیے گھاٹے کا سودا کیوں کرے؟

یہ بھی نہ بھولیے گا کہ ’کراچی ضلع‘ کی خواہش کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ نے ’بلدیاتی ایکٹ 2013‘ میں بھی تبدیلی کا عندیہ دے دیا ہے، جس میں امکان یہی محسوس ہوتا ہے کہ پھر کراچی کے ساتوں اضلاع چیئرمینوں کے بہ جائے ’میئر‘ کے سپرد ہو جائیں گے، یوں سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی، یعنی یوں ہی ’نقشہ‘ بنانے سے ’’کراچی‘‘ کا مینڈیٹ بھی انھیں مل جائے گا اور حکام خم ٹھونک کر کہہ سکیں گے کہ ’دیکھ لو کراچی کا میئر اب ہمارا ہے!‘

The post کراچی کا ساتواں ضلع ’لیاری‘ کے بہ جائے ’کیماڑی‘ کیوں بنا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2D65PJW
via IFTTT

تکون کی چوتھی جہت ایکسپریس اردو

یہ عنوان ہے اقبال خورشید کے اپنے نام سے بھی زیادہ دلچسپ اور خیال افروز اُس ناولٹ کا جو حال ہی میں مجھے پڑھنے کا موقع ملا ہے اگرچہ کتاب میں ’’گرد کا طوفان‘‘ کے عنوان سے ایک اور ناولٹ بھی شامل ہے لیکن فی الوقت صرف’’تکون کی چوتھی جہت‘‘ پر ہی بات ہوگی کہ یہ جیومیٹری کے علم کے ساتھ ساتھ اسکرین پلے کی تکنیک کے اعتبار سے بھی کئی حیرتیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔

ناولٹ کو ناول کا بچہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ انگریزی لفظ  Noval کا نیا پن اور طرز اظہار کی انفرادیت اپنی مختصر شکل میں بھی نہ صرف قائم و دائم رہتی ہے بلکہ اس میں کچھ نئے رنگوں کا اضافہ بھی ہوجاتا ہے ۔ اقبال خورشید کی صحافیا نہ نثرسے تو میں بخوبی واقف ہوں اور اُس کی وسیع مطالعے اور اظہار کی سچائی اور بے باکی کا معترف بھی ہوں لیکن میرے علم میں نہیں کہ اُس نے فکشن کے ضمن میں ان ناولٹوں سے پہلے بھی کچھ لکھا ہے یا نہیں۔

عام طور پر ناول یا ناولٹ کے بیانیے میں کہانی اور اس کے واقعات کو ایک ایسے فن کارانہ تسلسل اور باہمی ربط کے ساتھ لکھا جاتاہے کہ کہانی اپنے آغاز سے انجام تک ایک سے دوسرے باب تک رنجیر کی کڑیوں کی طرح جُڑتی اور آگے بڑھتی جاتی ہے اوراس کے کردار واقعات کے بہاؤ میں ایک دوسرے سے قدم ملا کر چلتے ہیں۔

اقبال خورشید کے اس ناولٹ میں ان تمام مروّجہ اصولوں کی دانستہ نفی کرتے ہوئے اسے فلم کی تکنیک میں ایک اسکرین پلے کی طرح قلمبند کیا گیا ہے ممکن ہے اس تکنیک کا سہارا اُسے اس لیے بھی لینا پڑا ہو کہ کہانی کا موضوع، کردار ، مقامات اور اس کے ماحول کے تمام تر ریفرنس اگر علامتی اور مختلف انداز میں پیش نہ کیے جائیں تو شائد اسے لکھنا موجودہ حالات میں ممکن ہی نہ ہوتا کہ اس صورت میں کہانی کے بیشتر نامعلوم افراد کی طرح شائد مصنف بھی اُنہی کی فہرست میں شامل ہوجاتا۔

کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی ایک غیر ملکی فرم کا ملازم ہے جسے ’’مرد‘‘  کا نام دیا گیا ہے۔ ایک دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتاہے اور اُس کی بیوی جسے ’’عورت‘‘ کہا گیا ہے اور جو اس کے پہلے بچے کی ماں بننے والی ہے۔

اُس کی اچانک گمشدگی کی تفصیل، اس کے محرّکات اور خیر خبر سے محرومی کے باعث ’’مرد‘‘ ہی کی طرح جیسے کیمرے کے سامنے (مگر اُس کی موجودگی کے بے خبر) اُسی طرح سے خودکلامی کرتی ہے جیسے اُس کا شوہر اپنے حصے کے سینوں میں کرتا ہے جب کہ ان دونوں کو اس صورتِ حال میں مبتلا کرنے والے دہشت گرد گروپ کا ایک مخصوص فرد اس تکون کا تیسرا زاویہ ہے جسے ’’جنگ جُو ‘‘ کا استعاراتی اور علامتی نام دیا گیا ہے بظاہر ان تینوں کرداروں کا کوئی مشترکہ رشتہ امکان سے باہر تھا کہ ’’جنگ جُو‘‘ کا تعلق  ملک کے ایک ایسے علاقے سے ہے۔

جہاں کے کچھ نوجوان ایک مخصوص طرزِ فکر کے حوالے سے اس طرح کی کاروائیوں کو جائز ہی نہیں بلکہ ضروری بھی سمجھتے ہیں اور تعلیم یافتہ یا جاہل کی تفریق سے قطع نظر اور ایک عملی قسم کا مذہبی رجحان رکھنے کے باوجود اپنے کسی مخالف کے اغوا یا قتل کو سرے سے کوئی غلط کام تصور ہی نہیں کرتے اور کمیں گاہوں میں چُھپ کر مختلف طرح کی ایسی کاروائیاں کرتے ہیں جو اُن کی اجتماعی فکر کے حوالے سے جائز اور ضروری ہیں ۔

’’مرد‘‘ کے اغوا کے لمحے سے کچھ پہلے تک اس تکون کے تینوں زاویئے ایک دوسرے سے لاتعلق تھے۔ کہانی میں پہلا موڑ اُس وقت آتا ہے جب نقاب پوش جنگ جُو ’’مرد‘‘ کو پہچانتا ہے اور یہاں سے ان کا وہ باہمی رشتہ جس سے بقیہ دونوں کردار یعنی ’’مرد‘‘ اور ’’عورت‘‘ بھی ایک ایسے فریم میں یک جا ہوجاتے ہیں جس کو صرف ’’جنگ جُو‘‘ کی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے بظاہر ’’مرد‘‘ کا اغوا اُس کو ملازم رکھنے و الی غیر ملکی کمپنی سے تاوان کے طور پر کوئی بھاری رقم ہتھیانے کے لیے کیا گیا ہے اور ’’جنگ جُو‘‘ کا اس سارے معاملے سے صرف اتنا تعلق ہے کہ اُس کی ڈیوٹی اُن اغواکاروں میں لگائی گئی ہے۔

جن کے ذمے مغوی کو ایک خفیہ پہاڑی ٹھکانے تک پہنچانا ہے کہ آگے کی کاروائی سے بظاہر اُس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اور یوں یہ اُس کی زندگی میں ایک معمول کی کاروائی ہوتی لیکن یہاں اقبال خورشید کہانی کو ایک ایسا غیر متوقع لیکن انتہائی اہم موڑ دیتا ہے کہ تینوں کردار جانے بغیر ایک ہی دائرے میں گھومنا شروع کردیتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ یہ ’’جنگ جُو‘‘ انھی دنوں میں شہر کی اُسی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا جہاں یہ ’’مرد‘‘ اور ’’عورت‘‘ پہلی بار ملے اور ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے تھے اور یہ وہی دن تھا جب جنگ جُو اپنی فطری شرم اور جھجھک کے باوجود ’’عورت‘‘ سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے کے لیے تیار ہوکر آیا تھا۔

دس ابواب پر مشتمل اس مختصر سے ناولٹ میں تینوں کرداروں کی اپنی اپنی سوچ کے ساتھ ساتھ ایک مسلسل بدلتا ہوا ایسا منظر نامہ بھی قاری کی آنکھوں کے سامنے بننا اور بدلنا شروع ہوجاتا ہے جس میں اس تکون کے تینوں زاویئے ایک دوسرے سے جُڑے ہونے کے باوجود اپنی اپنی جگہ پر ایک علیحدہ اور نئے منظرکا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔

اور یہاں کہانی کا وہ تیسرا اور آخری موڑ ایک ایسی سمت سے داخل ہوتا ہے جس کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں تھا اور یہیں سے یہ راز کُھلنا شروع ہوتا ہے کہ مصنف نے اس تکون کو تین کے بجائے چار زاویوں پر مشتمل کیوں اور کیسے قرار دیا تھا اور یہ چوتھی جہت اُس وقت سامنے آتی ہے جب ’’مرد‘‘ کی رہائی سے متعلق مجوزہ سودے بازی کا امکان ختم ہوجاتاہے اور سردار کی طرف سے نہ صرف اُس کے قتل کا حکم صادر ہوتا ہے بلکہ اس کام کے لیے ڈیوٹی بھی اُس ناکام عاشق یعنی ’’جنگ جُو‘‘ ہی کی لگائی جاتی ہے اس کلائمکس کے منظر کو اقبال خورشید نے مکمل طور پر ایک کیمرے کے ذریعے شُوٹ کیے جانے والے سین کی شکل دے دی ہے اور اسے انتہائی تیزی سے بدلتے ہوئے شاٹس میں اس طرح سے بانٹا ہے کہ پڑھنے والا ایک بے یقینی کی سی کیفیت میں دیکھتا رہ جاتا ہے اور ایک بار پھر ’’جنگ جُو‘‘ مرد اور عورت کے درمیان سے کسی کو بھی بتائے بغیر اس طرح سے ہٹ جاتا ہے کہ اب اگر وہ خود بھی چاہے تو دوبارہ اس منظر کا حصہ نہیں بن سکتا ۔

میرے نزدیک یہ ناولٹ کہانی کے بیانیئے کی روائتی شکل اور جدید ڈرامے کی اسکرین پلے کا ایک ایسا انوکھا اور دلچسپ سنگم ہے جس نے اُردو فکشن کی دنیا میں ایک نئے راستے کو فروغ دیا ہے اور یقیناً اس کا اثر مستقبل میں لکھے جانے والے اُردو فکشن پر نہ صرف محسوس کیا جائے گا بلکہ اس کی تقلید بھی کی جائے گی اور یوں اس کی معرفت اقبال خورشید کو بھی اچھے لفظوں کے تحفے ملتے رہیں گے۔

The post تکون کی چوتھی جہت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2D1plak
via IFTTT

صیہونی ایجنڈا اورملت اسلامیہ ایکسپریس اردو

رہنمائی کے لیے قرآن سے بڑھ کر کوئی کلام نہیں، کیونکہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ اس رب العرش العظیم کاکلام ہے جو تمام جہانوں کاخالق و مالک ہے، اسی لیے یہ کلام بے عیب ہے لاریب ہے، جس کا ایک ایک لفظ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے۔

اسی کلام مجید کی سورئہ المائدہ کی آیت نمبر 51میں دوجہانوں کے پروردگارنے قیامت تک آنے والے ایمان والے مسلمانوں کو بتادیا ہے ’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ انھیں میں سے ہے، اﷲ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔‘‘ اس واضح ارشاد کے بعد تو کوئی ایمان والا اﷲ رب العزت کی اس تنبیہہ کے خلاف نہیں جاسکتا اور جو اس راستے پر جائے گا،اسے خود اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے۔

ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ قوم یہود کے ساتھ ہماری جنگ روز اول سے اور روز آخر سے کچھ پہلے تک جاری رہے گی۔ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا یہود کی فطرت کے منافی ہے ۔انھوں نے اپنی قوم ،زبان اور نسل سے آنے والے انبیاء علیہم السلام  کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا، آج کی دنیا کو کیسے چین سے بیٹھنے دے گی، یہود نے انبیاء علیہم السلام کی نافرمانیاں کیں،انھیںستایا،ان کا مذاق اڑایا حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام کو قتل تک کیا، پیکر عفت و عصمت حضرت مریم علیہ السلام پرتہمت لگائی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو پھانسی دینے کی کوشش کی۔

نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بار بار معاہدے کیے اور ہر مرتبہ ان کو توڑ کر عہد شکنی اور غداری کی۔ دور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہود کو مسلمانوں کے برابر اور بعض مواقع پر ان سے بھی زیادہ حقوق حاصل رہے لیکن وہ اپنی فطرت سے باز نہ آئے اور انھوں نے اسلامی سلطنتوں کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹا اور انھیں برباد کیا۔ تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں، اندلس کی اسلامی سلطنت سے لے کر سقوط خلافت عثمانیہ تک، ارض حرمین میں غیر مسلم افواج کے پڑاؤ سے لے کر عرا ق کے ایٹمی پلانٹ تک، افغانستان میں تورا بورا کے پہاڑوں پر بمباری سے لے کر پاکستان میں ہونے والی بد ترین دہشت گردی تک اسلامی دنیا کی ہر تباہی اور ہر سازش کے پیچھے یہود ہی نظر آئے گا۔

یہودیوں کو ان کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے سرزمین مقدس سے دو ہزار سال پہلے نکال دیا گیا تھا لیکن 1948 میں ایک بار پھر انھیں یہاں لاکرآباد کیا گیا بلکہ اسرائیل کے نام کا خنجر عربوں کے سینے میں گھونپ دیا گیا۔ یہودیوں کا مسئلہ یہ نہیں کہ دنیا انھیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے دے،نہ ہی وہ یہ چاہتے ہیں کہ فلسطین میں انھیں ان کی آبادی کے لیے ایک خطہ زمین مل جائے، بلکہ ان کا ایک منصوبہ یہ ہے کہ وہ عالمی یہودی تنظیموں کے ذریعے بیت المقدس کی جگہ ہیکل سیلمانی قائم کریں جس کے لیے وہ بے تاب و بے چین ہیں، ان کی دوسری خواہش دنیا کے ہر غیر یہودی کو اپنا غلام بنانا ہے، وہ فلسطین ہی نہیں پوری دنیا کو یہودی ریاست بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہی وہ گریٹر اسرائیل کے خاکے میں حقیقت کے رنگ بھرنا چاہتے ہیں، جس میں عراق ، شام ، اردن ، شمالی سعودی عرب، جنوبی ترکی، مصر کا صحرائے سینا شامل ہوں گے۔

یہ ہیں وہ حقائق جس کی بنیاد پر صیہونی ریاست پاکستان سمیت بیشتر مسلم ممالک کے لیے ناقابل قبول ہے اسی لیے ان ممالک نے آج تک اسے تسلیم نہیں کیا، شمالی کوریا اور وینزویلا ایسے کئی غیر مسلم ممالک بھی یہودی ریاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان عزائم کا فہم رکھنے کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنا اس ناپاک منصوبے میں یہودیوں کے ساتھ تعاون کرنے کے مترادف ہے، اب متحدہ عرب امارت نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔

ایک بار پھر فلسطینیوں پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ دشمن عیار بھی ہے، چالاک بھی ہے اور سنگدل بھی، دوست غافل بھی ہیں، بے نیاز بھی ہیں اور چشم پوش بھی!.نہ دشمن اپنی کھال میں آتا ہے نہ دوست اپنے خول سے باہر نکلتے ہیں، جفاکاروں کی جفائیں بڑھتی جا رہی ہیں اور غم خواروں کی بے نیازیاں ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آرہیں؟ فلسطینی کس کو اپنا دوست سمجھیں ، کسے غم خوار مانیں؟ وہ آج ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں انھیں دوست ، دشمن میں فرق کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

اوپر سے امریکی صدر ٹرمپ کے مسلسل  ان بیانات نے فلسطینیوں کو ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کو مزید تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ مزید کئی مسلم  ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے ہیں گوکہ کویت اور دیگر عرب ومسلم ممالک سے آنے والے ردعمل نے ان مسلم ممالک کے بڑھتے ہوئے قدموں کو رکنت پر مجبور کردیا ہے ، اسی کا نتیجہ ہے کہ بڑے عرب اور غیرعرب اسلامی ممالک کو دو ٹوک انداز میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا،لیکن ابھی خطرہ ٹلا نہیں، جو لابیاں اس حوالے سے کام کررہی ہیں، اس سے اضطراب میں اضافہ ایک فطری عمل ہے۔

اس گمبھیر صورتحال میں چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، اس اندھیرے میں صرف ایک امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے اور وہ ترک صدر رجب طیب اردگان ہیں، سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مصطفی کمال اتاترک نے جس طرح مغرب کی قربت ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر ترکی کو اسلام سے دور کیا اور اور مغرب کی زنجیروں میں جکڑ دیا، اسی کی مغرب زدہ پالیسیوں کے نتیجے میں اسرائیل کو تسلیم کیا گیا۔ آج رجب طیب اردگان ترکی کومغرب کی اس غلامی سے نکال کر کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے کوشاں ہیں، اس مرد مجاہد نے دو ٹوک الفاظ میں یو اے ای کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی ہے۔

اردگان کا یہ رویہ بتا رہا ہے کہ اس کے دل میں اسرائیل کے لیے قطعی طور پر نرم گوشہ نہیں ہے، یہی امت مسلمہ اور فلسطینیوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ رجب طیب اردگان سورئہ المائدہ میں اﷲ رب العزت کی جانب سے پیش کی گئی تنبیہہ کو اچھی طرح جان چکے ہیں، ان کے الفاظ کی شدت اور باڈی لینگوئج اس بات کی واضح دلیل ہے، وہ اس بات کو  بھی سمجھ چکے ہیں انسان جب تک اپنے دشمن کو نہیں پہچانتا اس وقت تک اس کے راستے کی رکاوٹیں ختم نہیں ہوسکتیں، وہ ترقی کی جانب ایک قدم بڑھائے تو دشمن کی چالیں اسے دس قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں گی۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ قوم یہود امت مسلمہ کی وہ نادیدہ دشمن ہے جو خود تو مسلمانوں کی جوابی دشمنی سے ڈرتی ہے لیکن کسی بھی مرحلے پر دشمنانہ رویہ ترک کرنے کو تیار نہیں۔ دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر وار کرنے کی عادت اس کی جبلت میں شامل ہے۔اس لیے ابھی سنبھلنے کا وقت ہے، پانی سر سے نہیں گزرا۔ جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے یا اس کی تیاری کررہے ہیں، وہ اپنے فیصلے پر غور کریں اور اسرائیل کے معاملے پر اسی مقام پر واپس آجائے جہاں پوری ملت اسلامیہ کھڑی ہے۔او آئی سی عالم اسلام کا واحد متفقہ پلیٹ فارم ہے،لیکن  مسئلہ کشمیر ہو ، مسئلہ فلسطین ہو یا امت کو درپیش کوئی اور معاملہ ، اب تک عالم اسلام کو او آئی سی نے مایوسی کے سو اکچھ نہیں دیا، اب اسے بھی اپنا رویہ بدلنا پڑے گا ورنہ ہر بار نیا بلاک بنانے کی کوشش ناکام نہیں ہوا کرتی۔

The post صیہونی ایجنڈا اورملت اسلامیہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hJY2jO
via IFTTT

کچرا نہ اٹھا ایکسپریس اردو

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اپنے شہر کے دورے کے دوران کہا ہے کہ کراچی کے انفرااسٹرکچر کو جدید بنانے کے لیے 10 ارب ڈالر درکار ہیں۔ شہر کے مسائل نئے نہیں پرانے ہیں،کچرے کا نہ اٹھایا جانا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہم اس کام میں کامیابی نہ حاصل کرسکے۔

تسلیم کرتا ہوں کہ کے ایم سی کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بجا فرمایا ہے کہ کراچی کے مسئلے نئے نہیں ’’بہت پرانے‘‘ ہیں ،کراچی میں کچرے کا نہ اٹھایا جانا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی کوآرڈینیشن کمیٹی کے دو اجلاس ہو چکے ہیں۔ تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔

مراد علی شاہ نے بجا فرمایا ہے کہ کراچی کے مسائل نئے نہیں بہت پرانے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ پچھلے چار سالوں میں نالوں کی صفائی پر بہت کام کیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کے مسائل کتنے پرانے ہیں؟ دس سال پرانے، بیس سال پرانے، تیس سال پرانے، چالیس سال پرانے یا اس سے زیادہ پرانے؟ کراچی پر سب سے زیادہ عرصے تک پیپلز پارٹی کی حکومت رہی بلکہ  پیپلز پارٹی ہی جمہوریت کی ٹھیکیدار بنی رہی، اس طویل عرصے میں کیا پیپلز پارٹی کو کبھی یہ خیال آیا کہ کراچی کا انفرااسٹرکچر بہت پرانا ہو گیا ہے، اب اسے بدلنا چاہیے؟

مراد علی شاہ نیو کمرز ہیں اس لیے سارا الزام ان پر عائد نہیں ہو سکتا لیکن دو تین ٹرمز پورے کرنے کے دوران جس کا عرصہ پندرہ سال ہوتا ہے کیا پیپلز پارٹی کو احساس نہیں ہوا کہ کراچی کے مسئلے پرانے ہوگئے ہیں، اب انھیں حل ہونا چاہیے۔ یہاں اس حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کروں گا، یہ غالباً 1972 کا سال تھا، پیپلز پارٹی نئی حکومت میں آئی تھی، بھٹو صاحب شملہ کانفرنس میں جانے کی تیاری کر رہے تھے ، بھٹو صاحب ملک کے بڑے شہروں کے دورے کر رہے تھے، اس حوالے سے موصوف کراچی تشریف لائے اور سندھ حکومت بلڈنگ میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں کراچی کے چیدہ چیدہ لوگوں کو بلایا گیا جن میں ہم بھی شامل تھے۔

دوران کانفرنس سوالات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ میں نے براہ راست بھٹو صاحب سے سوال کیا آپ کے ایک وزیر کرپشن کے حوالے سے بدنام ہیں، آپ کو علم ہے؟ اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے کہا ’’آپ بجا فرما رہے ہیں، ہماری حکومت نئی نئی ہے ابھی ہم کام کو آرگنائز کر رہے ہیں۔ جلد حالات بہتر ہوجائیں گے‘‘ اس زمانے میں بھی کے ایم سی کا یہی حال تھا۔ یہ 1972 کی بات ہے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا۔

پیپلز پارٹی نئی نہیں بہت پرانی پارٹی ہے ،1972 میں پاکستان میں جو پہلی حکومت بنی وہ پیپلز پارٹی کی تھی، اس سے پی پی پی کی قدامت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، اس طویل عرصے میں پی پی پی جمہوریت کا تقریباً نصف حصہ اقتدار میں رہی۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کے وزرا عوامی مزاج کے حامل تھے، اس دور میں ہم مزدوروں کی سب سے زیادہ بڑی اور مقبول جماعت لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کے سیکریٹری جنرل تھے۔

ستار گبول سندھ حکومت کے وزیر محنت تھے ہمارا ان سے اکثر رابطہ رہتا تھا ان کے عوامی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار ہم ستار گبول کے آفس میں بیٹھے تھے کہ اچانک ہماری زبان سے نکلا۔ ستار بھائی! آپ وزیر محنت ہیں ،آپ کو پتا ہے کہ جیل میں کتنے مزدور اور کتنے مزدور رہنما قید ہیں۔ بولے نہیں معلوم، چلو جیل ابھی دیکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ ہم اور چند دوست ستار گبول کی پرچم لگی گاڑی میں جیل گئے اور مزدوروں سے ملاقات کی۔ ستار گبول کس قدر عوامی ذہن کے اور سادہ لوح تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے کہ ہم نے ازراہ مزاج ستار گبول سے کہا کہ بھائی ستار! تم مزدوروں سے ملنے جا رہے ہو اور مزدوروں کے وزیر ہو، کیا مزدوروں کے لیے سگریٹ بھی نہیں لوگے؟

ستار گبول نے جمشید روڈ پر ایک پان کی دکان کے آگے گاڑی رکوائی، نیچے اتر کر سگریٹ کے ڈبے لیے، پھر گاڑی جیل کی طرف روانہ ہوئی، یہ تھے اس وقت کے وزیر۔ ذرا اس دور کے وزرا سے آج کے دور کے وزرا کا موازنہ کریں وزرا کی اصلیت کا پتا چل جائے گا۔ پیپلز پارٹی بھٹو دور تک عوامی رنگ لیے ہوئے تھی پھر یہ نوابوں کی پارٹی بن گئی۔کچرا اس زمانے میں بھی ہوا کرتا تھا لیکن کے ایم سی فعال تھی، سو کراچی کچرے کا ڈھیر نظر نہیں آتا تھا۔ آج بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہے اگر باہر کا کوئی ملک کچرا خریدنا چاہے تو پاکستان آدھی دنیا کو کچرا دے سکتا ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام میں زندہ ہیں جو کرپشن سے شروع ہوتا ہے اور کرپشن پر ختم ہوتا ہے، اس نظام میں کسی حکومت کی کارکردگی دیکھنا چاہو تو سندھ کے وزیر اعلیٰ کی طرح یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ’’میں مانتا ہوں‘‘ خرابی انسانوں میں ہو سکتی ہے لیکن اصل خرابی ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کی ہے اگر کوئی آدمی اس نظام کی موجودگی میں کچھ عوامی بھلائی کے کام کرنا چاہتا ہو تو وہ خیالی باتیں ہیں۔ ہمارے وزیر اعلیٰ فرما رہے ہیں کہ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت میں کوئی کوآرڈینیشن نہیں ہے۔ تو وزیر اعلیٰ بجا فرماتے ہیں لیکن عوام کا سوال یہ ہے کہ ’’ایسا کیوں ہے؟‘‘

The post کچرا نہ اٹھا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2D7Wwt2
via IFTTT