یہ عنوان ہے اقبال خورشید کے اپنے نام سے بھی زیادہ دلچسپ اور خیال افروز اُس ناولٹ کا جو حال ہی میں مجھے پڑھنے کا موقع ملا ہے اگرچہ کتاب میں ’’گرد کا طوفان‘‘ کے عنوان سے ایک اور ناولٹ بھی شامل ہے لیکن فی الوقت صرف’’تکون کی چوتھی جہت‘‘ پر ہی بات ہوگی کہ یہ جیومیٹری کے علم کے ساتھ ساتھ اسکرین پلے کی تکنیک کے اعتبار سے بھی کئی حیرتیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
ناولٹ کو ناول کا بچہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ انگریزی لفظ Noval کا نیا پن اور طرز اظہار کی انفرادیت اپنی مختصر شکل میں بھی نہ صرف قائم و دائم رہتی ہے بلکہ اس میں کچھ نئے رنگوں کا اضافہ بھی ہوجاتا ہے ۔ اقبال خورشید کی صحافیا نہ نثرسے تو میں بخوبی واقف ہوں اور اُس کی وسیع مطالعے اور اظہار کی سچائی اور بے باکی کا معترف بھی ہوں لیکن میرے علم میں نہیں کہ اُس نے فکشن کے ضمن میں ان ناولٹوں سے پہلے بھی کچھ لکھا ہے یا نہیں۔
عام طور پر ناول یا ناولٹ کے بیانیے میں کہانی اور اس کے واقعات کو ایک ایسے فن کارانہ تسلسل اور باہمی ربط کے ساتھ لکھا جاتاہے کہ کہانی اپنے آغاز سے انجام تک ایک سے دوسرے باب تک رنجیر کی کڑیوں کی طرح جُڑتی اور آگے بڑھتی جاتی ہے اوراس کے کردار واقعات کے بہاؤ میں ایک دوسرے سے قدم ملا کر چلتے ہیں۔
اقبال خورشید کے اس ناولٹ میں ان تمام مروّجہ اصولوں کی دانستہ نفی کرتے ہوئے اسے فلم کی تکنیک میں ایک اسکرین پلے کی طرح قلمبند کیا گیا ہے ممکن ہے اس تکنیک کا سہارا اُسے اس لیے بھی لینا پڑا ہو کہ کہانی کا موضوع، کردار ، مقامات اور اس کے ماحول کے تمام تر ریفرنس اگر علامتی اور مختلف انداز میں پیش نہ کیے جائیں تو شائد اسے لکھنا موجودہ حالات میں ممکن ہی نہ ہوتا کہ اس صورت میں کہانی کے بیشتر نامعلوم افراد کی طرح شائد مصنف بھی اُنہی کی فہرست میں شامل ہوجاتا۔
کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی ایک غیر ملکی فرم کا ملازم ہے جسے ’’مرد‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ایک دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتاہے اور اُس کی بیوی جسے ’’عورت‘‘ کہا گیا ہے اور جو اس کے پہلے بچے کی ماں بننے والی ہے۔
اُس کی اچانک گمشدگی کی تفصیل، اس کے محرّکات اور خیر خبر سے محرومی کے باعث ’’مرد‘‘ ہی کی طرح جیسے کیمرے کے سامنے (مگر اُس کی موجودگی کے بے خبر) اُسی طرح سے خودکلامی کرتی ہے جیسے اُس کا شوہر اپنے حصے کے سینوں میں کرتا ہے جب کہ ان دونوں کو اس صورتِ حال میں مبتلا کرنے والے دہشت گرد گروپ کا ایک مخصوص فرد اس تکون کا تیسرا زاویہ ہے جسے ’’جنگ جُو ‘‘ کا استعاراتی اور علامتی نام دیا گیا ہے بظاہر ان تینوں کرداروں کا کوئی مشترکہ رشتہ امکان سے باہر تھا کہ ’’جنگ جُو‘‘ کا تعلق ملک کے ایک ایسے علاقے سے ہے۔
جہاں کے کچھ نوجوان ایک مخصوص طرزِ فکر کے حوالے سے اس طرح کی کاروائیوں کو جائز ہی نہیں بلکہ ضروری بھی سمجھتے ہیں اور تعلیم یافتہ یا جاہل کی تفریق سے قطع نظر اور ایک عملی قسم کا مذہبی رجحان رکھنے کے باوجود اپنے کسی مخالف کے اغوا یا قتل کو سرے سے کوئی غلط کام تصور ہی نہیں کرتے اور کمیں گاہوں میں چُھپ کر مختلف طرح کی ایسی کاروائیاں کرتے ہیں جو اُن کی اجتماعی فکر کے حوالے سے جائز اور ضروری ہیں ۔
’’مرد‘‘ کے اغوا کے لمحے سے کچھ پہلے تک اس تکون کے تینوں زاویئے ایک دوسرے سے لاتعلق تھے۔ کہانی میں پہلا موڑ اُس وقت آتا ہے جب نقاب پوش جنگ جُو ’’مرد‘‘ کو پہچانتا ہے اور یہاں سے ان کا وہ باہمی رشتہ جس سے بقیہ دونوں کردار یعنی ’’مرد‘‘ اور ’’عورت‘‘ بھی ایک ایسے فریم میں یک جا ہوجاتے ہیں جس کو صرف ’’جنگ جُو‘‘ کی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے بظاہر ’’مرد‘‘ کا اغوا اُس کو ملازم رکھنے و الی غیر ملکی کمپنی سے تاوان کے طور پر کوئی بھاری رقم ہتھیانے کے لیے کیا گیا ہے اور ’’جنگ جُو‘‘ کا اس سارے معاملے سے صرف اتنا تعلق ہے کہ اُس کی ڈیوٹی اُن اغواکاروں میں لگائی گئی ہے۔
جن کے ذمے مغوی کو ایک خفیہ پہاڑی ٹھکانے تک پہنچانا ہے کہ آگے کی کاروائی سے بظاہر اُس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اور یوں یہ اُس کی زندگی میں ایک معمول کی کاروائی ہوتی لیکن یہاں اقبال خورشید کہانی کو ایک ایسا غیر متوقع لیکن انتہائی اہم موڑ دیتا ہے کہ تینوں کردار جانے بغیر ایک ہی دائرے میں گھومنا شروع کردیتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ یہ ’’جنگ جُو‘‘ انھی دنوں میں شہر کی اُسی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا جہاں یہ ’’مرد‘‘ اور ’’عورت‘‘ پہلی بار ملے اور ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے تھے اور یہ وہی دن تھا جب جنگ جُو اپنی فطری شرم اور جھجھک کے باوجود ’’عورت‘‘ سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے کے لیے تیار ہوکر آیا تھا۔
دس ابواب پر مشتمل اس مختصر سے ناولٹ میں تینوں کرداروں کی اپنی اپنی سوچ کے ساتھ ساتھ ایک مسلسل بدلتا ہوا ایسا منظر نامہ بھی قاری کی آنکھوں کے سامنے بننا اور بدلنا شروع ہوجاتا ہے جس میں اس تکون کے تینوں زاویئے ایک دوسرے سے جُڑے ہونے کے باوجود اپنی اپنی جگہ پر ایک علیحدہ اور نئے منظرکا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔
اور یہاں کہانی کا وہ تیسرا اور آخری موڑ ایک ایسی سمت سے داخل ہوتا ہے جس کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں تھا اور یہیں سے یہ راز کُھلنا شروع ہوتا ہے کہ مصنف نے اس تکون کو تین کے بجائے چار زاویوں پر مشتمل کیوں اور کیسے قرار دیا تھا اور یہ چوتھی جہت اُس وقت سامنے آتی ہے جب ’’مرد‘‘ کی رہائی سے متعلق مجوزہ سودے بازی کا امکان ختم ہوجاتاہے اور سردار کی طرف سے نہ صرف اُس کے قتل کا حکم صادر ہوتا ہے بلکہ اس کام کے لیے ڈیوٹی بھی اُس ناکام عاشق یعنی ’’جنگ جُو‘‘ ہی کی لگائی جاتی ہے اس کلائمکس کے منظر کو اقبال خورشید نے مکمل طور پر ایک کیمرے کے ذریعے شُوٹ کیے جانے والے سین کی شکل دے دی ہے اور اسے انتہائی تیزی سے بدلتے ہوئے شاٹس میں اس طرح سے بانٹا ہے کہ پڑھنے والا ایک بے یقینی کی سی کیفیت میں دیکھتا رہ جاتا ہے اور ایک بار پھر ’’جنگ جُو‘‘ مرد اور عورت کے درمیان سے کسی کو بھی بتائے بغیر اس طرح سے ہٹ جاتا ہے کہ اب اگر وہ خود بھی چاہے تو دوبارہ اس منظر کا حصہ نہیں بن سکتا ۔
میرے نزدیک یہ ناولٹ کہانی کے بیانیئے کی روائتی شکل اور جدید ڈرامے کی اسکرین پلے کا ایک ایسا انوکھا اور دلچسپ سنگم ہے جس نے اُردو فکشن کی دنیا میں ایک نئے راستے کو فروغ دیا ہے اور یقیناً اس کا اثر مستقبل میں لکھے جانے والے اُردو فکشن پر نہ صرف محسوس کیا جائے گا بلکہ اس کی تقلید بھی کی جائے گی اور یوں اس کی معرفت اقبال خورشید کو بھی اچھے لفظوں کے تحفے ملتے رہیں گے۔
The post تکون کی چوتھی جہت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2D1plak
via IFTTT
No comments:
Post a Comment