شہر قائد میں بارشوں کا سلسلہ گذشتہ پندرہ روز سے وقتاً فوقتاً جاری ہے، محکمہ موسمیات نے موسلا دھار برسات کی پیشگی اطلاعات کے ساتھ شہر میں سیلابی صورت حال سے بھی خبردار کیا تھا۔۔۔ جس کے بعد ابتدائی بارشوں میں نکاسی کی ناکافی صورت حال کے حوالے سے صوبائی حکومت کی صفائی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے ’این ڈی ایم اے‘ آئی اور پھر یوں لگا کہ بس اب تو سب ٹھیک ہو گیا ہے۔
کراچی کے سب نالے صاف ہوگئے ہیں اور اب بارش ہوئی تو پانی دیکھنا کیسے اڑن چھو ہو جائے گا۔۔۔ مگر جمعرات 27 اگست 2020ء کو کراچی میں ہونے والی طوفانی بارش سبھی کے دعوے اپنے ساتھ بہا لے گئی، بھلا ہو کہ شدید بارشوں کا کئی دہائیوں کا ریکارڈ ٹوٹا اور حکام نے اس ’ٹوٹے ریکارڈ‘ کے پیچھے پناہ لی اور بڑی ہمت پیدا کر کے فرمایا کہ کیا کیجیے صاحب، ہم نے اپنا ’کام‘ کر دیا تھا، لیکن یہ موئی بارش ہی اتنی تیز ہوگئی، کہ بہت زیادہ پانی آگیا اور اتنی بارش تو دنیا میں کہیں بھی ہو جائے سبھی کچھ ڈوب جاتا ہے۔ کسی دل جلے نے اس میں ٹکڑا لگایا کہ ’ڈوب مرنے‘ کے سوا۔۔۔
دوسری طرف جدید ٹیکنالوجی سے آنے والی آفات اور مظاہر قدرت کے بارے میں بہت پہلے سے پتا چل جاتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ کراچی جیسے اہم ترین شہر کے لیے ریاست اتنا بھی اندازہ نہیں لگا سکی کہ اس کا نکاسی آب کا نظام کس قدر ناقص ہے یا اس کے نالے اور پانی کی قدرتی گزر گاہ کتنی کارآمد رہی ہیں۔۔۔ بارش کے پانی کی سیلابی صورت سے بچنے کے لیے کون کون سی جگہوں سے نکاسی کی رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے، مرکز میں گذشتہ دو برس سے بلند وبانگ دعووں والی ’پاکستان تحریک انصاف‘ برسراقتدار ہے، نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) بھی اپنے پانچ سال گزار کر گئی ہے، کراچی میں جس کے دور کی گرین بس ابھی تک رل رہی ہے۔
صوبائی حکومت میں مسلسل 12 برس سے ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ بیٹھی ہوئی ہے، رہی ’متحدہ قومی موومنٹ‘ تو اسے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے وجود کے ہی لالے پڑے ہوئے ہیں، اس کی ’بلدیہ عظمیٰ‘ کا سارا وقت کبھی بے اختیاری کا رونا رونے اور باقی وقت پرسکون رہنے میں گزر گیا۔۔۔
یوں تو ملک بھر میں ہی غیر معمولی مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن کراچی اور سندھ بھر میں صورت حال کافی خراب ہو چکی ہے، حکومت سندھ کی جانب سے صوبے بھر کے بیس اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے، لوگوں کی داد رسی کی کارروائیاں جاری ہیں، لیکن موسمی آفت اپنے پیچھے بہت ساری کہانیاں اور سوالات چھوڑ گئی ہے۔
مواصلاتی رابطوں کی معطلی نے صورت حال ابتر کر دی
شہر قائد میں موسلا دھار بارش کے بعد بجلی کی طویل بندش کا سلسلہ رہا۔ ’کے الیکٹرک‘ کے مطابق بہت سے علاقوں میں سیلابی صورت حال کے سبب حفظ ماتقدم کے طور پر یہ اقدام کیا گیا۔۔۔ جب کہ بہت سے علاقوں میں پانی جمع ہونے کے سبب پیدا ہونے والے نقص دور نہیں کیے جا سکے۔
اس لیے یہ سطور لکھے جانے تک مختلف علاقوں میں بجلی بحال نہیں ہو سکی تھی، بہت سے علاقوں میں جب اگلے روز بجلی بحال ہوئی، تو موبائل کے سگنل ہی غائب تھے اور لوگوں کو اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرنے میں شدید دشواری کا سامنا تھا۔۔۔ یہ آفت پر ایک اور آفت تھی، پھر رات گئے موبائل فون بحال ہو سکے جب کہ بہت سے علاقوں میں یہ بندش مسلسل جاری رہی۔ کہا گیا کہ محرم الحرام میں حفاظتی اقدام کو جواز بنا کر بھی اس بندش کو طول دیا گیا، حالاں کہ کچھ برسوں سے یہ سلسلہ موقوف ہو چکا تھا، اور اب ایک ایسے موقع پر جب پورا شہر ایک قدرتی آفت سے جوجھ رہا ہو، بنیادی رابطے بند کر دینا سنگین غفلت اور شہریوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے والی بات تھی، کیوں کہ لائن والے فون اب بہت کم گھروں میں ہیں اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں شہری موبائل فون کے ذریعے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔
عام آبادیوں کے مکینوں سے لے کر صاحب ثروت لوگوں کے گھروں تک
برساتی پانی سے شہر کی کچی بستیوں اور نشیبی علاقوں کے ساتھ ڈیفینس سوسائٹی کے مختلف علاقوں میں بھی کئی فٹ پانی کھڑا ہے، لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہونے سے زیر زمین پانی کے ٹینک خراب ہوئے اور گھر کا قیمتی سامان برباد ہوگیا۔ شہر کی متوسط اور غریب بستیوں میں بھی صورت حال ابتر رہی۔ لوگوں کو فرنیچر اور قیمتی برقی آلات کی مد میں ہزاروں، لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ شہر کے مختلف بازاروں میں کھربوں روپوں کا سامان خراب ہوگیا۔
بند ٹوٹنے کی افواہیں اور پانی کے ریلے
جمعرات کے روز شدید بارش کے بعد رات کو شہر کے مختلف علاقوں میں اس وقت شدید سراسیمگی پھیل گئی، جب ملیر ندی کے ساتھ واقع دادا بھائی ٹاؤن کے علاقے سے متصل بند ٹوٹنے کی افواہیں پھیل گئیں، جس کے نتیجے میں کراچی ایڈمن سوسائٹی، بلوچ کالونی، محمود آباد اور منظور کالونی وغیرہ کے مکینوں کو رات چھتوں پر بسر کرنے اور بہت سوں کو گھر خالی کرنے کی صلاح دی گئی۔۔۔
لاؤڈ اسپیکر پر اعلانات ہوئے کہ لوگ محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو جائیں، تاہم بعد میں صورت حال واضح ہوئی کہ بند نہیں ٹوٹا، بلکہ اس کے دروازے سے پانی کا اخراج ہوا تھا، جس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بڑھ گیا تھا، دروازہ بند کرنے کے بعد حالات قابو میں آگئے، لیکن خوف کی وجہ سے مکینوں نے رات جاگ کر گزاری، کیوں کہ شہر بھر میں سیلابی ریلے میں متعدد افراد کے بہہ جانے کی اطلاعات تھیں، جن کی لاشیں اگلے روز نکالی گئیں اور بہت سی لاشوں کی تلاش کا کام جاری ہے۔
سعید غنی کی ویڈیو کی ’صاف سڑکیں‘
27اگست کو شدید بارش کے بعد صوبائی وزیر سعید غنی سب ٹھیک کا پرچار کرتے ہوئے ’سوشل میڈیا‘ پر مختلف ویڈیو لگاتے رہے، جس میں وہ بتا رہے تھے کہ کراچی کی فلاں فلاں سڑک بالکل صاف ہے اور وہاں پانی بالکل نہیں ہے۔ صوبائی وزیر کے اس اقدام کو اہل کراچی کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ کراچی کی اکا دکا مثالوں کو پورے ڈوبے ہوئے شہر پر منطبق کر کے ہمارے زخموں پر نمک چھڑک ر ہے ہیں۔ کسی دل جلے نے کہا ہو سکتا ہے کہ صوبائی وزیر جہاں سے گزرتے ہوں، وہاں سے پانی اپنے آپ خشک ہو جاتا ہو، اس لیے ضروری ہے کہ انہیں سیلابی صورت حال کا سامنا کرنے والے علاقوں میں لے جا کر اس خوبی سے فائدہ اٹھایا جائے۔
سعید غنی مستقل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ چند گھنٹوں میں ہی سڑکوں سے پانی نکال دیا گیا، ہر چند کہ پانی اپنے آپ ہی راستہ بنا گیا ہو۔ جب کہ ان کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی تو اس اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پائے گئے کہ زیادہ برسات کے باوجود اب صورت حال پہلے سے اچھی ہے، کہ پہلے تو شاہراہ فیصل پر چار چار دن پانی کھڑا رہتا تھا۔ انھوں نے شہر بھر کے دورے کر کے بہت پھرتی دکھائی۔ وہ واٹر بورڈ، کے الیکٹرک، کنٹونمنٹ بورڈ وغیرہ کے دفاتر بھی پہنچے اور انھیں ’ہدایات‘ بھی جاری کرتے رہے، لیکن بات وہی ہے کہ اب جب موج دریا سر سے گزر گئی۔۔۔
سیوریج والے کہتے ہیں کہ ’بارش رکنے کی دعا کرو!‘
نارتھ ناظم آباد بلاک ’بی‘ سے زبیر مدنی بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں بارش شروع ہونے سے پہلے ہی گیس بند ہو گئی تھی، تیسرا روز ہے، گیس بحال ہی نہیں ہوئی، اب گھر کے اندر تین فٹ پانی نے ہر چیز تباہ کر دی۔ پانی کی نکاسی کے لیے سیوریج والوں سے رابطہ کیا گیا، تو وہ بولے کہ بارش رکنے کی دعا کریں، پانی خود نکل جائے گا۔ یہ اربوں روپے ٹیکس دینے والے شہر کا حال ہے، ہم سے بہتر تو غیر قانونی طریقے سے قبضے کر کے گھر بنانے والے رہے، جو حکام چند ہزار بھتا دے کر گھر بناتے ہیں اور ساری بنیادی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں اور آفات کی صورت میں امداد لے کر پھر کہیں اور جم جاتے ہیں۔
بالآخر کراچی آفت زدہ قرار پایا
ابتداً حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے مضافاتی علاقے میمن گوٹھ اور ابراہیم حیدری کو آفت زدہ قرار دینے کی اطلاعات سامنے آئیں، تو ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ (سوشل میڈیا) پر شہریوں نے اس پر شدید ردعمل دیا اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اسے ’حکومت سندھ‘ کا متعصبانہ رویے سے تعبیر کیا، کہ ایک ہفتے سے سرجانی ٹاؤن اور اس سے ملحقہ علاقے سیلابی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں، اور اب پورا کراچی ڈوب چکا ہے، بازاروں میں تاجروں کا اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے، گھروں میں لوگوں کے فریج اور دیگر قیمتی برقی آلات خراب ہوگئے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ’حکومت سندھ‘ کو ان علاقوں کی آفت دکھائی ہی نہیں دے رہی۔ شاید یہ احتجاج رنگ لایا کہ پھر ’حکومت سندھ‘ کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد کو سندھ بھر کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا۔
پیٹرول 250 روپے فی لیٹر فروخت ہوا
سیلابی صورت حال میں ملک کو 70 فی صد ریوینیو دینے والے شہر کے باسی جہاں صاف پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے تھے، وہیں شہر بھر میں بطور ایندھن استعمال ہونے والا پیٹرول بھی نایاب ہوگیا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض پمپ مالکان نے صارفین سے من مانے نرخ وصول کیے۔۔۔ ہماری اطلاعات کے مطابق محمود آباد اور بلوچ کالونی کے علاقے میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 250 روپے تک وصول کی گئی، یوں کراچی کے باسیوں کو افتاد میں ایک اور افتاد کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔
’راستوں‘ کی عمارتیں ضرور گرائیں مگر۔۔۔
موسلا دھار بارش سے بے قابو ہوتی ہوئی صورت حال کے بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عندیہ دیا کہ وہ برساتی نالوں کے راستوں پر تعمیر عمارتیں گرائیں گے، بعد ازاں انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ عمارتیں گرا نہیں سکتے، انھوں نے 2001ء کے نظام کی خود مختار بلدیاتی حکومتوں پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ آبی گزرگاہوں اور نالوں پر تعمیرات کی اجازت دے کر شہر کی یہ حالت کی گئی۔ دوسری طرف ماہرین کہتے ہیں کہ ’ڈی ایچ اے‘ فیز 8 کے لیے جو زمین سمندر سے ’چھینی‘ گئی ہے، اس نے ملیر ندی کا آدھا راستہ روک لیا ہے، جب کہ فیز 7 ایکسٹینشن کے لیے کی گئی بھرائی نے بھی پانی کی گزرگاہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہے۔
یہ امر شہر میں سیلاب کی صورت حال کی بڑی وجہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ ان کی تعمیرات میں مال بٹورنے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، تاکہ تجاوزات کے نام پر شہریوں کو بے گھر کرنا ہی مقصد دکھائی نہ دے۔ شہری کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے آگے ایک چبوترا تک تو ’قانون‘ سے چھپ کر بنا نہیں سکتے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ شہر کے بیچوں بیچ اتنی تعمیرات ہوجائیں اور ’قانون‘ کو اس کی ہوا تک نہ لگی ہو؟ ’کراچی چیمبر آف کامرس‘ کے سابق صدر ہارون فاروقی کا کہنا ہے کہ ڈیفینس میں کون سی تجاوزات ہیں جو وہاں پانی بھرا۔ تاجر راہ نما سراج قاسم تیلی کہتے ہیں کہ ڈیفنس فیز 6 اور ملحقہ علاقوں میں پانی موجود ہے، خیابان نشاط، بدر، محافظ اور شہباز میں مکین بے یارو مددگار ہیں۔ ’ڈی ایچ اے‘ اور کنٹونمٹ بورڈ کلفٹن رہایشیوں کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
چائنا کٹنگ پھر موضوع بن گئی!
شہر میں سیلابی صورت حال کے بعد ایک بار پھر شہر میں غیر قانونی تعمیرات کا غلغلہ ہے۔ بہت سے حلقے موجودہ صورت حال کا ذمہ ’چائنا کٹنگ‘ کو قرار دے رہے ہیں، جہاں رشوتیں دے کر شہر کی مختلف زمینوں پر قبضے کیے گئے، نالوں پر دکانیں اور عمارتیں قائم کی گئیں۔۔۔ لیکن بات اتنی سیدھی ہے نہیں، یہ تو غیر قانونی قبضوں کے وہ ’ملزمان‘ ہیں جن کا نام آپ ڈنکے کی چوٹ پر لے سکتے ہیں اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ پورا سچ یہ ہے کہ کراچی میں غیر قانونی قبضوں اور تعمیرات کی تاریخ کوئی نئی نہیں اور اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ مبینہ طور پر کچھ ایسے بااثر لوگوں نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ہے کہ آپ جن کا نام بھی نہیں لے سکتے۔۔۔
سوال تو پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک ہی شہر میں آبادی کا سارا دباؤ ہوگا، تو پھر لامحالہ جس کے جہاں سینگ سمائیں گے، وہ وہاں چلا جائے گا۔۔۔ قطعہ نظر اس سے کہ غیر قانونی تعمیرات میں کوئی بھی ملوث تھا، ہماری ریاست نے اس پر اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا؟ اس پر بھی کھل کر بات ہونا چاہیے۔ عدالتی حکم پر عمارتیں گرا دینا اور قبضے اور غیر قانونی قرار دے کر سفید پوش خاندانوں کو کھلے آسمان تلے پھینک دینا بہت آسان ہے، کیوں کہ انہیں کسی سیاسی مافیا کی مدد حاصل نہیں ہے، ان کی جمع پونجی لٹ گئی، مال بنانے والے مال بنا کر ملک سے بھی نکل گئے، کوئی اگر برباد ہوا تو وہ جس کی زندگی بھر کی پونجی لٹ گئی اور اب اس کا اس شہر کے سوا کوئی اور گھر بھی نہیں، وہ جس نے عمر بھر کی کمائی لگا کر اپنے سر پر ایک چھت کر لی تھی، آج پھر مصیبتوں سے دوچار ہے، اس سمت بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
بارشیں اور ’زیر زمین‘ پانی کی سطح
ان دنوں سندھ بھر کی طرح شہر قائد بھی غیر معمولی بارشوں کا سامنا کر رہا ہے۔ چند برس پہلے کراچی میں کم بارشوں کی شکایات عام ہوگئی تھیں۔۔۔ کچھ لوگوں نے ’گلوبل وارمنگ‘ کو اس کا سبب قرار دیا تو بہت سوں کا کہنا تھا کہ شہر میں بڑے پیمانے پر لگائے گئے غیر مقامی درخت ’کونوکارپس‘ کی وجہ سے کراچی سے باران رحمت روٹھ گئی ہے اور درجہ حرارت پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔
دوسری طرف شہر میں بڑھتی ہوئی پانی کی طلب کے باعث بڑے پیمانے پر کی جانے والی بورنگ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی گئی تھی، جس سے گنجان آباد شہر کی عمارتوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے، کیوں کہ زیر زمین نمی خشک ہونے سے زمین بھربھری ہو رہی تھی، جو عمارتوں کی بنیادوں کو سہارنے کی سکت کھو سکتی تھی۔۔۔ بہرحال اب باران رحمت جو اگرچہ بد انتظامی کے سبب کسی طور بھی رحمت دکھائی نہیں دیتی، اس سے یہ امید تو ہو چلی ہے کہ کراچی کے زیر زمین پانی کی سطح ضرور بہتر ہوگی اور اس شہر کی بلندوبالا عمارات کو لاحق خطرات میں کمی آئے گی۔ دوسری طرف بہت سے مکینوں کا کہنا ہے کہ بارش کے بعد ان کے بورنگ کے پانی کے کھارے پن میں نمایاں کمی محسوس کی گئی ہے۔
اتنی بارش کے بعد بھی پانی ’ٹینکر‘ سے ہی ملے گا؟
کراچی کی موسلا دھار بارش کے بعد جہاں ایک طرف شہر کو پانی فراہم کرنے والے ڈیم لبریز ہو چکے ہیں، وہیں شہری یہ سوال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ بارش سے پانی تو اتنا آگیا کہ پورا شہر بھی ڈوب گیا، لیکن کیا اب اس آفت کے بعد ہم کراچی والوں کے گھروں کے خشک نلکوں میں بھی پانی آسکے گا۔۔۔؟ یا پھر ہمیں بدستور بورنگ کے کھارے پانی پر انحصار کرنا پڑے گا اور مہنگے داموں ٹینکر خرید کر اپنے گھروں میں ڈلوانے پڑیں گے۔۔۔؟
کیا کوئی عوامی نمائندہ ہماری یہ آواز بھی اقتدار کے ایوانوں میں اٹھائے گا کہ بارش میں پانی پانی ہونے والے کراچی کو اتنی بارشوں کے بعد کم از اکم ہمیں پانی کی لائنوں میں پانی مل سکے، دروغ برگردن راوی کہ پانی کا بحران پیدا ہی اسی لیے کیا جاتا ہے تاکہ شہر میں ’ٹینکر مافیا‘ کا راج چل سکے!
اور جب پانی ہمارے گھر کی دہلیز پار کرنے لگا۔۔۔
جمعرات کو موسلا دھار بارش کے دوران نہ صرف ہمارے غریب خانے کی چھتیں بھی ٹپکیں، بلکہ گلی اونچی ہونے کے سبب پانی گھر میں داخل ہونے کے خطرات بھی لاحق ہوگئے، جو نالی ہم نے گھر سے پانی باہر نکلنے کے لیے بنائی تھی وہ الٹا باہر کا پانی اندر لانے کا باعث بننے لگی، اس طرح فوری طور پر پانی کے ٹینک خراب ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔۔۔ شہر کراچی کے پانی کے بحران میں یہ خطرہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا، پہلے تو باہر سے آنے والے پانی کی رکاوٹ کھڑی کی اور اس کے بعد دیکھا تو نوتعمیر شدہ گلی میں گھر سے چند میٹر کے فاصلے پر ایک عدد ’اسپیڈ بریکر‘ پانی کی نکاسی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اگلی گلیوں سے آنے والے پانی کے ریلے نے پانی کی سطح اونچی کر دی تھی۔۔۔ برسات برستے سمے پانی نالیوں میں بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔ بلکہ روڈ کی سمت کے مین ہول سے تو کسی فوارے کی طرح پانی ابلا پڑتا تھا۔۔۔ اس لیے فوری طور پر یہ ضروری تھا کہ ’اسپیڈ بریکر‘ سے پانی کی نکاسی کی جائے۔
تاکہ پانی کو گلی سے باہر جانے کا راستہ مل سکے۔ چناں چہ ہم نے گھر میں موجود کیل ٹھونکنے والی ہتھوڑی سے اسے توڑنے کی سعی کی، زیر آب گلی میں یہ ایک امر محال تھا، وہ تو بھلا ہو ہمارے پڑوسیوں کا کہ ان کے ہاں سے ایک عدد ’چھینی‘ میسر ہوگئی اور یوں یہ کام آسان ہوا، اس کے بعد گلی میں پانی کی سطح نیچی تو ہوئی، لیکن اندر جمع ہونے والے برساتی پانی کو تو بدستور باہر نکالنا تھا، یوں ہمہ وقت تین چار گھنٹے جب تک موسلا دھار بارش جاری رہی، یہ مشق مسلسل جاری رہی، ساتھ ہی نظر رہتی کہ اگر گلی سے پانی اونچا ہوا تو پھر اندر سے پانی نکالنا اور نہ نکالنا برابر ہو جائے گا، بہرحال اللہ کا کرم ہوا کہ ہماری مشقت کام آئی اور اس نوبت کے آنے سے پہلے برسات دھیمی پڑنے لگی، پھر پانی بھی نکلنے لگا اور گلی کے مین ہول بھی پانی قبولنے پر آمادہ ہوگئے، یوں تھوڑی دیر میں گلی کا پانی بھی ختم ہوا اور ہم نے بھی سکھ کا سانس لیا۔
The post ’’یہ‘‘ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GfWhNI
via IFTTT
No comments:
Post a Comment