Sunday, May 31, 2020

زندگی میںنفرتوں کو کم کر کے محبت کو فروغ دیں، صنم بلوچ

ریلوے نے مزید 10 مسافر ٹرینیں چلانے کا فیصلہ کر لیا ٹرینوں میں تمام حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں، اسٹیشن کی حدود میں صرف مسافروں کو آنے کی اجازت ہے، وفاقی وزیر ریلوے شیخ ... مزید

ملک میں کورونا وائرس سے مزید 60 افراد جاں بحق اموات کی تعداد ایک ہزار 543 ہو گئی ، ملک بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد 72 ہزار 460 ہو گئی

دُبئی میں عوامی مقامات پرماسک پہننے کے قواعد وضوابط میں ترامیم کر دی گئی اکیلے کار چلا نے والے، چھ سال سے کم عمر بچے اورسانس کے مریض پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے

عزیرجسوال نے ڈرامہ ’’ارطغرل غازی ‘‘ کی 500اقساط دیکھنے کے بعد اپنے نئے حلیے کی تصویر شیئر کردی

فریال محمود نے شوہر کے لئے پیار بھرا پیغام جای کردیا

حکومت جھوٹ پر جھوٹ بول کر قوم کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے ، ترجمان (ن) لیگ ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر صحت عمران صاحب لاپتہ ہیں اور صحت کا نظام ٹھیکے پر چل رہا ہے اور حکومت جھوٹ پر جھوٹ بول کر قوم کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔

اپنے بیان میں مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں کورونا مریضوں کی تعداد 2400 سے زائد ہوچکی ہے اور صرف 12 وینٹی لیٹر کام کررہے ہیں، اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں میں کل 90 بستر کے کورونا آئیسولیشن وارڈ کے سوا اور کوئی انتظام نہیں، لواحقین اپنے کورونا مریضوں کی جان بچانے کے لئے وینٹی لیٹرز کے حصول کی خاطر سفارشیں اور منتیں کرنے پر مجبور ہیں۔

ترجمان (ن) لیگ وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے اسپتال پمز میں 9 وینٹی لیٹرز کام کررہے ہیں، یہ 9 وینٹی لیٹرز پمز میں 80 بستر کے آئیسولیشن وارڈ میں دیگر آئی سی یوز سے منتقل کئے گئے ، سرجیکل آئی سی یو کے 4، میڈیکل آئی سی یو کے 2 اور کارڈیالوجی سرجری آئی سی یو کے 3 وینٹی لیٹرز کورونا وارڈ میں منتقل کئے گئے۔ اسلام آباد کے دوسرے بڑے اسپتال پولی کلینک میں کورونا مریضوں کے لئے صرف 10 بستروں کا آئیسولیشن وارڈ قائم ہے اور یہاں صرف 4 وینٹی لیٹر ہیں۔ بتایا جائے کہ کورونا مریضوں کے لئے جو وینٹی لیٹر آئے تھے، وہ کہاں ہیں؟ ان وینٹی لیٹرز میں سے اسلام آباد کے اسپتالوں کو کتنے ملے؟

مریم اورنگزیب نے کہا کہ کورونا کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر انتظامات اور اقدامات کے بجائے لوگوں کی زندگی خطرے میں ڈالی جارہی ہے، حکومت جھوٹ پر جھوٹ بول کر قوم کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے ، وفاقی وزیر صحت عمران صاحب لاپتہ ہیں اور صحت کا نظام ٹھیکے پر چل رہا ہے، عمران خان سرف پریس کانفرنس، بیانات اور دعوؤں کے ذریعے کورونا کا مقابلہ کررہے ہیں۔

The post حکومت جھوٹ پر جھوٹ بول کر قوم کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے ، ترجمان (ن) لیگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZWTOzs
via IFTTT

لاک ڈاؤن میں نرمی یا سختی کا فیصلہ آج ہوگا ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ملک میں کورونا کی صورت حال کے تناظر میں نیشنل کوارڈینیشن کمیٹی لاک ڈاون میں مزید نرمی کی جائے گی یا سختی کا فیصلہ آج کرے گی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس آج ہورہا ہے، جس میں اجلاس میں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وزیر اعظم آزاد کشمیر، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان ، وفاقی وزرا، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، صوبائی اور وزارت صحت کے حکام شریک ہوں گے۔

قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران ملک میں کورونا کی صورتحال، اس سے نمٹنے کے لیے کئے جانے والے اقدامات پر بات ہوگی۔ اجلاس میں ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید نرمی یا سختی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وافقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی سربراہی میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا اجلاس ہوا تھا جس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ لاک ڈاؤن صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب ہمیں لگے کہ مک کا نظام صحت پر حد سے زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے لیکن اس وقت ایسی صورتحال نہیں۔ حکومت پرزور طریقے سے ٹی ٹی کیو (ٹریکنگ، ٹیسٹنگ اور قرنطینہ) کی پالیسی پر عمل کررہی ہے اور ٹریکنگ اور ٹیسٹ کے سافٹ ویئر کے ساتھ ایئرپورٹس پر اسکریننگ کے نظام کو بھی بہتر کیا گیا ہے۔

The post لاک ڈاؤن میں نرمی یا سختی کا فیصلہ آج ہوگا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XiUiOw
via IFTTT

پی سی بی کے تبدیلی مشن میں ایک اورسنگ میل عبور ایکسپریس اردو

 لاہور:  پی سی بی نے تبدیلی مشن میں ایک اور سنگ میل عبور کرلیا، ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر،ڈائریکٹر ڈومیسٹک ہارون رشید،سینئر جنرل منیجر آپریشنز این سی اے مشتاق احمد اور چیف کیوریٹر آغا زاہد کے عہدے ماضی کا قصہ بن گئے،ہائی پرفارمنس سینٹر کے منصوبے نے طویل عرصے سے بورڈ کے ساتھ وابستہ آفیشلزکو ’’لوپروفائل‘‘ کردیا۔

تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر کرکٹ اکیڈمی مدثر نذر نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنے کنٹریکٹ میں توسیع کے بجائے عہدہ چھوڑ دیں گے،بعد ازاں بورڈ نے ڈائریکٹر ڈومیسٹک ہارون رشید اور چیف کیوریٹر آغا زاہد کے ساتھ بھی نیا کنٹریکٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا،تبدیلی مشن سے متاثرہ چوتھے پرانے آفیشل مشتاق احمد نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں سینئر جنرل منیجر آپریشنز کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔

اس سے قبل سینئر جنرل منیجر اکیڈمیز علی ضیاکو بھی رخصتی کا پروانہ جاری کردیا گیا تھا، احسان مانی کو چیئرمین پی سی بی بنائے جانے کے بعد چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد سمیت درجن بھر کے قریب عہدیدار گھر کی راہ دیکھ چکے ہیں،ایک طرف ہائی پرفارمنس سینٹر منصوبے سے کئی نامی گرامی سابق کرکٹرز لو پروفائل ہوگئے، دوسری جانب صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے ندیم خان کو ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔

البتہ ان کا ساتھ دینے کے لیے دنیائے کرکٹ کے ایک بڑے نام ثقلین مشتاق کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں جو انٹرنیشنل پلیئرز ڈیولپمنٹ کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے، کوچنگ کے شعبے کا سربراہ گرانٹ بریڈبرن کو مقررکیاگیا جو پہلے ہی پاکستان ٹیم کے ساتھ بطور فیلڈنگ کوچ کام کر رہے تھے،عصر ملک کو آپریشنز کی ذمہ داریاں سنبھالنا ہیں،یاد رہے کہ کورونا وائرس سے پی سی بی دفاتر کی بندش کے بعد  مدثر نذر  برطانوی شہر مانچسٹر میں مقیم ہیں۔سابق ٹیسٹ کرکٹر کا کہنا ہے کہ مجھے جتنا عرصہ کام کا موقع ملا پوری ایمانداری سے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہا،میں پی سی بی کے ساتھ 4 سالہ دور میں بہت کچھ کرنے کا خواہشمند تھا لیکن کوشش کے  باوجود اہداف حاصل نہ کر سکا۔

انھوں نے واضح کیا کہ نیا سیٹ اپ آنے کے بعد میں چاہتا تو وزیر اعظم عمران خان سے دوستی کا  فائدہ اٹھا سکتا تھا لیکن  میں ایسی سوچ نہیں رکھتا،مجھے خوشی ہے کہ انڈر 13 پروگرامز شروع کرنے میں کامیاب ہوا جو مستقبل کیلیے مفید ثابت ہوں گے، نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی اور محمد حسنین کی پرفارمنس میں نیشنل اکیڈمی کے پروگرامز اور کوچز کی محنت سے ہی بہتری آئی،افسوس ہے کہ میں جس طرح کا ڈیولپمنٹ کا کام چاہتا تھااس کا موقع نہیں دیاگیا،رکاوٹیں زیادہ پیش آئیں، ہمیشہ مثبت کام کے باوجود تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہمارے ہاں تنقید کرنا سب سے آسان ہے۔

مدثر نذر نے نیشنل اکیڈمی میں آنے والے نئے لوگوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے سوچا، اب وطن واپسی کا کوئی ارادہ نہیں،فی الحال مکمل آرام کرنے کا پلان ہے،کہیں ملازمت کرنے کا نہیں سوچ رہا، ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں کوئی کاروبارکروں۔

The post پی سی بی کے تبدیلی مشن میں ایک اورسنگ میل عبور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36OpfgI
via IFTTT

تربیتی کیمپ، بائیو سیکیورٹی بورڈ کیلیے سخت چیلنج بن گئی ایکسپریس اردو

 لاہور:  تربیتی کیمپ کی بائیو سیکیورٹی پی سی بی کیلیے سخت چیلنج بن گئی، نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں 30 کرکٹرز کو الگ رکھنے کا انتظام نہیں،کورونا فری ماحول یقینی بنانے کے بعد کھلاڑیوں کو گھر آنے جانے کی اجازت دینا خطرے سے خالی نہیں ہوگا،لاک ڈاؤن کی پالیسی میں تبدیلی پر ٹریننگ کے لیے حکومت کو اعتماد میں لینا ہوگا، احتیاطی تدابیر کے پلان کی تیاری جاری ہے، مجوزہ ایس او پیز کے مطابق کرکٹرز اپنے کمروں سے تیار ہو کر آئیں گے۔

ڈریسنگ روم کے بجائے کھلی جگہ پر بیٹھیں گے، سماجی فاصلے کا خیال رکھا جائے گا، ایک دوسرے کا سامان استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔  تفصیلات کے مطابق انگلینڈ بائیو سیکیور ماحول میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلیے کوشاں اور ہر ممکن اقدامات اٹھا رہا ہے، ویسٹ انڈیز نے جولائی اور پاکستان نے اگست میں سیریز کے لیے حامی بھر لی، دونوں ٹیمیں قبل از وقت پہنچ کر قرنطینہ بھی کریں گی،پاکستانی کرکٹرزدورے کے لیے رضا مندی کا اظہار کرچکے ہیں،لاہور میں ٹریننگ کیلیے 30 ممکنہ کھلاڑیوں کو طلب کیا جائے گا۔

ان میں سے 25 یا 27 کو چارٹرڈ طیارے کے ذریعے انگلینڈ روانہ ہونا ہے،3 ٹیسٹ اور اتنے ہی ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے ٹیموں کا انتخاب انہی پلیئرز میں سے ہوگا، میزبان ملک نے میچز کیلیے ایسے وینیوز کا انتخاب کرلیا جہاں ساتھ ہی ہوٹل موجود اور سفر بہت کم ہوگا،البتہ فی الحال پی سی بی کیلیے سب سے پہلا اور بڑا چیلنج اپنے ملک میں ٹریننگ کیلیے آئی سی سی کی گائیڈلائنز کے مطابق بائیو سیکیور ماحول ممکن بنانا ہے، نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کھلاڑیوں کے لیے سیف زون قائم ہورہا ہے لیکن یہاں 16 کے قریب کرکٹرز اور 4 آفیشلز کو الگ الگ کمروں میں رہائش فراہم کی جا سکتی ہے،30  کرکٹرزکے قیام کیلیے ایک کمرے میں 2،2 کو رکھنا پڑے گا جو ایس او پیز کی خلاف ورزی ہوگی۔

اگر لاہور کے کھلاڑیوں کو سیکیور ببل سے نکل کر گھروں سے آنے جانے کی اجازت دے دی جائے تو یہ فیصلہ بھی خطرے سے خالی نہیں ہوگا، اصولی طور پر کرکٹرز کو کیمپ شروع ہونے سے دورۂ انگلینڈ مکمل ہونے اور واپسی پر قرنطینہ مکمل ہونے تک گھروں سے دور رہنا اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کے ساتھ رابطے سے گریز کرنا ہے،کھلاڑیوں کو قذافی اسٹیڈیم میں بھی ٹریننگ کرنا ہے،اس وینیو کو بھی ڈس انفیکٹ رکھنے کیلیے خصوصی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی، پاکستان میں  کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

کھیلوں کی سرگرمیوں کی پہلے ہی اجازت نہیں، لاک ڈاؤن سے متعلق اگر حکومتی پالیسی سخت ہوئی تو کرکٹرز کو استثنیٰ دلانے کیلیے خصوصی اجازت کی ضرورت بھی ہوگی،ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کیلیے کوشاں پی سی بی نے ایس او پیز کی تیاری پر کام جاری رکھا ہوا ہے، ڈاکٹر سہیل سلیم مسلسل معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے ہیڈ کوچ چیف سلیکٹر مصباح الحق اور چیف ایگزیکٹیو وسیم خان سے مشاورت کر رہے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ایس او پیز  کے مطابق ابتدا میں کرکٹرز اور متعلقہ اسٹاف کے  کورونا ٹیسٹ اور پھر شروع میں انفرادی ٹریننگ ہوگی۔

کرکٹرز اپنے کمرے سے تیار ہوکر آئیں گے، ڈریسنگ روم میں آنے جانے کے بجائے گراؤنڈ میں کھلی جگہ بیٹھیں گے، ٹریننگ کے دوران سماجی فاصلہ رکھا جائے گا، ہاتھ ملانے اور گلے لگانے سے گریز کیا جائے گا، ایک دوسرے کا سامان استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی، وقفے وقفے سے ہینڈ سینٹائزر کا استعمال جاری رکھا جائے گا، ہر کھلاڑی پانی کی الگ بوتل استعمال کرے گا، ٹریننگ سے پہلے اور دوران ٹمپریچر چیک کیا جائے گا، بولرز گیند کو چمکانے کے لیے تھوک کا استعمال ہرگز نہیں کریں گے۔

سپورٹ اسٹاف بھی سوشل ڈسٹنس کا خیال رکھتے ہوئے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرے گا، ان کو ماسک اور گلوز پہننے کا پابند بھی کیا جا سکتا ہے، کھلاڑیوں کی خدمت پر مامور عملے کو بھی کم رکھتے ہوئے این سی اے تک محدود کرنے پر غور کیا جارہا ہے، ذرائع کے مطابق ایس او پیز حکومت کو بھی  بھجوائے جائیں گے جو لاک ڈاؤن میں نرمی یا سختی فیصلہ پیر کوکرے گی۔

The post تربیتی کیمپ، بائیو سیکیورٹی بورڈ کیلیے سخت چیلنج بن گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zPqSP5
via IFTTT

کرکٹ سے منسلک ہر شخص کی خواہش بورڈ میں ملازمت ہے،عاقب جاوید ایکسپریس اردو

 لاہور: سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ سلیم ملک ہوں یا شکیل شیخ کرکٹ سے منسلک ہر شخص کی خواہش ہے کہ اسے بورڈ میں ملازمت مل جائے۔

اپنے ایک انٹرویو میں جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ آج تک کوئی ایسی مثال موجود نہیں کہ جو پی سی بی میں جاب کرے وہ دوٹوک باتیں بھی کر رہا ہو، اس ملک میں جس کی پی سی بی سے وابستہ  ہونے کی تمنا پوری ہوجائے وہ چین سے سوتا ہے،جس کو موقع نہیں ملتا وہ بے چین نظر آتا ہے۔

عاقب جاوید نے کہاکہ پاکستان میں ریجن اور ایسوسی ایشن کا کلچر ٹھیک نہیں،  اوپر سے نیچے تک ووٹ کے ذریعے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرکے لوگ عہدہ پاتے ہیں،ملکی کرکٹ کی بہتری کا حل اسکول، کالج اور کمیونٹی کرکٹ  ہے، بیٹل آف قلندرز اس کی مثال ہے۔

The post کرکٹ سے منسلک ہر شخص کی خواہش بورڈ میں ملازمت ہے،عاقب جاوید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cncjzI
via IFTTT

عمر اکمل کی آخری ’’لائف لائن‘‘ کا جلد فیصلہ ایکسپریس اردو

 لاہور: عمر اکمل کی آخری ’’لائف لائن‘‘ کا جلد فیصلہ ہوگا،3 سالہ پابندی کے خلاف اپیل کو سپریم کورٹ کے سابق جج سنیں گے،جسٹس (ر) فقیر محمد کھوکھر کا تقرر کردیا گیا، سماعت کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق پی ایس ایل 5 کے آغاز سے قبل 2الگ واقعات میں عمر اکمل نے بکیز  کی جانب سے رابطے کا پی سی بی کو نہیں بتایا،اس پر انھیں عبوری طور پر معطل کرنے کے بعد چارج شیٹ جاری کردی گئی تھی، انھوں نے الزامات کو چیلنج نہیں کیا۔

اس لیے ٹریبیونل تشکیل دینے کے بجائے معاملہ ڈسپلنری پینل کے چیئرمین جسٹس(ر) فضل میراں چوہان کے سپرد کر دیا گیا، انھوں نے فریقین کا موقف سننے کے بعد عمر اکمل پر 3 سال کی پابندی عائد کردی،مڈل آرڈر بیٹسمین نے اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے 19 مئی کو اپیل دائر کی تھی، کیس کی سماعت کیلیے گذشتہ روز سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس(ر) فقیر محمد کھوکھر کو انڈیپینڈنٹ ایڈجوڈیکٹر مقرر کردیا گیا، سماعت کی تاریخ کا فیصلہ ہونے پرپی سی بی اعلان کردے گا۔

یاد رہے کہ عمر اکمل نے اپنا کیس لڑنے کیلیے پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان کی لاء فرم سے رجوع کیا ہے، عام طور پر بکیز کے رابطہ کی اطلاع نہ کرنے پر 6 ماہ کی پابندی عائد ہوتی ہے لیکن عمر اکمل کے تفصیلی فیصلے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہ صاف لفظوں میں الزامات تسلیم کرنے کے بجائے حقائق  چھپانے کیلیے جواز تراشتے رہے، اسی لیے 3 سال کی پابندی عائد ہوئی، ان کے وکلا کی کوشش ہوگی کہ اگر سزا ختم نہیں ہوتی تو کم ضرور کرا دی جائے۔

The post عمر اکمل کی آخری ’’لائف لائن‘‘ کا جلد فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ezfzth
via IFTTT

عالمی بینک ماحولیاتی بحالی منصوبے کے لیے 188 ملین ڈالرامداد دے گا ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: عالمی بینک موسمی خطرات اور ماحولیاتی بحالی کے 5سالہ منصوبے کے لیے 188 ملین ڈالرامداد دے گا۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ترجمان کے مطابق یہ امدادی رقم موسمی پیشگوئیوں کا نظام بہتر بنانے کیلیے ہائیڈرومیٹرولاجیکل ٹیکنالوجی اور متعلقہ اداروں کی تکنیکی صلاحیتوں کے ساتھ موسمیاتی تباہ کاریوں ،منفی معاشی و سماجی اثرات کی روک تھام کیلیے خرچ کی جائے گی۔

اس منصوبے کے تحت تین اہم شعبوں پرتوجہ دی جائے گی جس کے تحت ہائیڈرو میٹرولاجیکل اینڈ کلائیمیٹ سروسز کو بہتر جب کہ ماحولیاتی نظام بحال کیا جائے گا۔ مزیدبراں قدرتی آفات سے متاثرین کی بحالی کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔

The post عالمی بینک ماحولیاتی بحالی منصوبے کے لیے 188 ملین ڈالرامداد دے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZVnpJJ
via IFTTT

جعلی پیر نے اپنی ہی 3ماہ کی بچی کو مار ڈالا ایکسپریس اردو

چنیوٹ: جعلی پیر نے اپنی ہی 3ماہ کی معصوم بچی کا مبینہ طور پر قتل کردیا۔

ذرائع کے مطابق چنیوٹ کے تھانہ سٹی کے علاقہ شمس الحسن ٹاؤن میں جعلی پیر اللہ یار نے مبینہ طور پر اپنی 3 ماہ کی بچی کو قتل کردیا ، پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ، جعلی پیر کے بیٹے کے مطابق وہ اکثر اپنے بچوں پر تشدد کرتا اور چلہ کرتا تھا۔

جعلی پیر کے بیٹے محمدعلی اور علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے بھی 3بچوں کو مبینہ طور پر گلہ دبا کر قتل کیا تھا اور جیل کاٹ چکا ہے، اس بار بھی بچی کا قتل کرنے کے بعد بچی کی لاش کو دفنانے نہیں دے رہا تھا۔

The post جعلی پیر نے اپنی ہی 3ماہ کی بچی کو مار ڈالا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dlvY4r
via IFTTT

دنیا میں کورونا سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کم متا ثر ہوئیں، ماہرین طب ایکسپریس اردو

کراچی:  دنیا بھر میں 75 فیصد طبی عملہ خواتین پر مشتمل ہے، نرسوں کی90 فیصد تعداد عورتوں پر مشتمل ہے جنھوں نے کورونا کی وبا میں انسانی جان بچانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے جن ممالک میں خواتین وزرائے اعظم اور صدور ہیں وہاں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد کہیں کم ہے، عورتیں مردوں کے مقابلے میں وبا سے کم تعداد میں جاں بحق ہوئی ہیں۔

ان خیالات کا اظہار دنیا کی خواتین ماہرین صحت نے ’’کرونا وائرس اور خواتین کا کردار‘‘ کے عنوان سے عالمی آن لائن سیمینار سے خطاب میں کیا، ملائیشیا کی ماہر صحت ڈاکٹر شرمیلا ساچی ننتھن کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد جہاں مرد سربراہان مملکت نے وقت ضایع کیا وہاں خواتین لیڈروں نے فوری فیصلے کیے جس سے نیوزی لینڈ سے لیکر ناروے، ڈنمارک اور تائیوان میں شرح اموات کافی کم رہی دنیا بھر میں خواتین طبی عملے کی تعداد 75 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ کہ نرسوں کی90 فیصد سے زائد تعداد خواتین پر مشتمل ہے جو کہ انسانی جان بچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

ڈاکٹر لبنیٰ کامانی نے کہا کہ خواتین لیڈروں نے کرونا وائرس کی وبا کے دوران بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ہزاروں جانیں بچائی ہیں، کورونا وائرس کے نتیجے میں خواتین کی ہلاکتوں کی تعداد تعداد مردوں سے انتہائی کم رہی ہے جس کی اہم ترین وجہ ان کی احتیاط پسندی اور انسانی جان کی اہمیت کو سمجھنا ہے، حاملہ خواتین میں کورونا وائرس سمیت دیگر بیماریوں سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ، ڈاکٹر بشریٰ جمیل کا کہنا تھا کہ عورتیں نہ صرف قدرتی طور پر بلکہ اپنے عادات و اطوار کی وجہ سے بھی کورونا وائرس سے کم متاثر ہورہی ہیں۔

عورتوں میں سگریٹ اور شراب نوشی سمیت دیگر منشیات کا استعمال انتہائی کم ہے، عورتوں میں صفائی کا رجحان مردوں سے زیادہ ہے جبکہ وہ زیادہ احتیاط پسندی کی وجہ سے اس وائرس سے ناصرف کم متاثر ہورہی ہے بلکہ ان میں شرح اموات بھی اسی مناسبت سے انتہائی کم ہے۔

سعودی عرب کی ماہر صحت ڈاکٹر ماجدہ عبدالفتح نے کہا کہ حاملہ خواتین میں کورونا سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ، جناح اسپتال کراچی کی ڈاکٹر نازش بٹ نے خواتین ماہرین صحت کے کردار کو مزید بڑھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جن ممالک یا ریاستوں میں خواتین وزرائے صحت موجود ہیں وہاں کے لوگوں میں صحتیابی کی شرح دوسرے ممالک کے لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، سیمینار سے برازیل سے ڈاکٹر سیمون، امریکا سے ڈاکٹر امریتا سیٹھی، جنوبی کوریا سے ڈاکٹر ان ینگ کم نے بھی خطاب کیا۔

The post دنیا میں کورونا سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کم متا ثر ہوئیں، ماہرین طب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3eDrJ4l
via IFTTT

میڈیکل کے داخلے بھی انٹر سال اول کے نتائج پر دینے کی سفارش ایکسپریس اردو

کراچی:  ملک بھر کے تعلیمی بورڈز کے چیئرمینز کے مشترکہ فورم ’آئی بی سی سی‘(انٹر بورڈ کمیٹی آف چیئرمینز) نے پاکستان بھر کے میٹرک اور انٹر کے طلبا کی براہ راست گریڈنگ کے طریقہ کار پر مشتمل پروموشن پالیسی تیار کرکے اسے وفاقی وزارت تعلیم کے حوالے کردیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم نے اس پالیسی کی منظوری دے دی ہے اور چونکہ ملک بھر کے طلبا انٹر سال دوم کے امتحانات دینے کے بجائے سال اول کی بنیاد پر فائنل ایئر کے نتائج حاصل کریں گے لہٰذا آئی بی سی سی نے پروموشن پالیسی میں میڈیکل جامعات اور کالجوں میں ایم بی بی ایس کے داخلے انٹر سال اول کی بنیاد پر دینے کی سفارش بھی کردی ہے اور کہا ہے کہ میڈیکل جامعات انٹرسال اول کی بنیاد پر میڈیکل کے داخلے دے سکتے ہیں، سندھ کے تعلیمی بورڈز کی جانب سے بھی آئی بی سی سی کی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبے کے نویں سے بارہویں جماعت کے طلبا کے لیے پروموشن پالیسی محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے حوالے کردی گئی ہے۔

ایم بی بی ایس کے داخلے انٹر سال اول کی بنیاد پر دینے کے حوالے سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے رکن اور جناب سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع کا کہنا ہے کہ میڈیکل کے داخلوں کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ پی ایم ڈی سی حکومتی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے کرے گی۔ اگر حکومتی پالیسی میں انٹر سال اول کی بنیاد پر میڈیکل کے داخلے دینے کی کوئی بات کی گئی تو پھر فیصلہ اسی تناظر میں ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں آئی بی سی سی کی جانب سے میٹرک اور انٹر کی گریڈنگ کے لیے وزارت تعلیم کو بھجوائی گئی پروموشن پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ملک کے تمام تعلیمی بورڈز کو 40 لاکھ طلبا کے امتحانات لینے تھے جو COVID 19 کی وبا کے باعث ممکن نہیں رہے۔

لہٰذا گریڈنگ کے لیے جو پروموشن پالیسی دی جارہی ہے اس میں ملک کے تمام تعلیمی بورڈز، متعلقہ وزارتوں اور اتھارٹیز اور فیصلہ ساز اداروں bodies statutoryکی تجاویز شامل ہیں ، پالیسی گائیڈ لائن کے مطابق چونکہ ملک کے 25 فیصد امتحانی بورڈز کے سال آخر کے نتائج سال اول سے مطابقت رکھتے ہیں اور یہ ایک ٹھوس مثال ہے کہ طلبا کا سال اول کا نتیجہ سال آخر کے نتائج کی بنیاد پر تیارہوسکتا ہے لہٰذا میٹرک اور انٹر کے 70 فیصد طلبا اس سے فائدہ لے سکیں گے جبکہ باقی 30 فیصد طلبا امتحان میں شامل ہوسکتے ہیں۔

30 فیصد بچ جانے والے یہ وہ طلبا ہیں ہیں جو سال اول میں ایک یا اس سے زائد مضامین میں فیل ہوئے ہیں۔ طلبا کی اس کیٹیگری نے باقی مضامین میں اگر 60 فیصد مارکس لیے ہیں تو انھیں صرف پاسنگ مارکس ایوارڈ کیے جائیں گے۔ سال اول میں کسی پرچے میں غیر حاضر طلبا بھی اسی کیٹیگری میں شامل ہونگے۔ پروموشن پالیسی کے مطابق امپروومنٹ آف ڈویژن، اضافی مضامین اور کمبائن امتحانات دینے والے طلبا کی انتہائی مختصر تعداد اس پالیسی کا حصہ نہیں ہوگی۔ ان کے لیے ستمبر سے نومبر تک صورتحال اور متعلقہ حکومت کی اجازت سے خصوصی امتحانات کی پالیسی دی جاسکتی ہے۔

ان طلبا کی امتحانی فیس ری ایڈجسٹ ہوجائے گی ، پالیسی کے مطابق طلبا کی transcript میں صرف score aggregate شامل ہوگا۔ پارٹ ٹو کے علیحدہ علیحدہ مضامین (تھیوری اینڈ پریکٹیکل) کے نمبر مارکس شیٹ میں شامل نہیں ہونگے۔ بورڈ مارک شیٹ اور سرٹیفیکیٹ میں اس بات کی وضاحت کریں گے کہ پارٹ ٹو میں دیے گئے مارکس طلبا کی کارکردگی کے حوالے سے ایک بہتر قیاس یا اندازے سے دیے گئے ہیں جسے متعلقہ حکومت اور آئی بی سی سی کی منظوری بھی حاصل ہے، پالیسی کے مطابق اگر کوئی تعلیمی بورڈ طلبا کا امتحان لے چکا ہے تو یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ اس گائیڈ لائن کا استعمال کرے یا پھر لیے گئے امتحان کی بنیاد پر نتیجہ جاری کرے ، پالیسی کے مطابق جن طلبا کو 2021 میں دسویں اور بارہویں کے امتحان میں شریک ہونا ہے ان کا اس سال کا نویں اور گیارہویں کا نتیجہ آئندہ برس دسویں اور بارہویں جماعت کی کارکردگی کی بنیاد پر دیا جائے گا۔

پالیسی کو مطابق وہ طلبا جو اس پروموشن گائیڈ لائن سے اتفاق نہیں کرتے وہ ستمبر سے نومبر تک متوقع خصوصی امتحانات میں شریک ہوسکتے ہیں تاہم ایسے طلبا کو یکم جولائی تک اپنی دستبرداری کے فیصلے سے بورڈ کو آگاہ کرنا ہوگا۔ دوسری جانب سندھ میں اس پالیسی گائیڈ لائن کے اطلاق کے معاملے پر جب ’ایکسپریس‘ نے وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے رکن اور حیدرآباد تعلیمی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد میمن سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں آئی بی سی سی کی بنائی گئی پالیسیز کو ہی مختصر رد و بدل کے ساتھ پروموشن کے لیے لیا جارہا ہے اور پورے ملک میں اس کا طریقہ کار تقریباً یکساں ہی ہوگا، بنیادی نکات ایک ہی ہونگے مندرجات مختلف ہوسکتے ہیں تاہم خصوصی امتحانات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حالات کے تناظر میں ہم سندھ میں خصوصی امتحانات کی پالیسی کی یقین دہانی نہیں کراسکتے ۔

The post میڈیکل کے داخلے بھی انٹر سال اول کے نتائج پر دینے کی سفارش appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XlXgBY
via IFTTT

بھارت چین کشیدگی . . . مودی کی حکمت عملی ؟ ایکسپریس اردو

بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان حالیہ  Stand offکوئی پہلی دفعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی 2017میں بھارت بھوٹان اور چین کے بارڈر Doklam, پر بھارت اور چین کی فوجیں 73دن تک آمنے سامنے رہی ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہیں ہوئی تھی۔

بھارت نے تب بھی مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ تب بھی چین کا پلڑا بھاری رہا تھا۔ اور بالآخر ٹیبل پر بھی چین ہی جیتا تھا۔ لداخ اور بھارت چین تعلقات کے ماہراور سابق سفارتکار کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کی فوجیں کئی بار آمنے سامنے آئی ہیں۔ یہ ایک معمول ہے۔ لیکن اس بار جتنی تعداد میں چینی فوجیں اور اسلحہ وہاں پہنچایا گیا ہے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔

بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات کافی پیچیدہ ہیں۔ چین کا موقف ہے کہ اس کا نوے ہزار کلومیٹر کا رقبہ بھارت کے قبضہ میں ہے۔ اس میں بھارت کی ریاست اروناچل پردیش بھی شامل ہے۔ جس میں زیادہ بدھ مت کے لوگ رہتے ہیں۔جب کہ بھارت کا موقف ہے کہ اس کا 38ہزار کلومیٹر کا رقبہ چین کے قبضہ میں ہے۔ اس میں لداخ اور مغربی ہمالیہ میں Aksai Chin Plateau  بھی شامل ہے۔

دونوں ممالک نے1962میں ایک باقاعدہ جنگ لڑی جس میں بھارت کو شکست ہوئی تھی۔ لیکن اس کے بعد 1975سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان ایک گولی بھی نہیں چلی ہے۔ اب بھی جب بھارت یہ تو تسلیم کر رہا ہے کہ گالوان وادی میں چین کافی کلومیٹر اندر آگیا ہے۔ لیکن ابھی تک گولی نہیں چلی ہے۔ ڈنڈوں اور لاتوں گھونسوں کی لڑائی میں بھی بھارتی فوجیوں کے شدید زخمی ہونے کی خبریں آئی ہیں۔

چین اور بھارت نے 1993میں سرحدوں پر کشیدگی کم کرنے اور معاملات کو حل کرنے کے لیے “Maintenance of Peace and Tranquility” کے نام سے ایک معاہدہ کیا ۔ اس معاہدہ کے بعد سے اب تک چین اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے بیس ادوار ہو چکے ہیں۔ تاہم کسی بھی معاملہ پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھارت نے چین کے ساتھ نہ صرف تجارتی تعلقات بڑھائے ہیں بلکہ بھارت نے چین کی سو بڑی کمپنیوں کو بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کا موقع بھی دیا ہے۔ اس وقت بھی بھارت میں صرف موبائیل سیل میں چین کی کمپنیوں کا ساٹھ فیصد شیئر ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا توازن بھی چین کے حق میں ہے۔

اس بار کا stand offنہایت اسٹریٹجک مقامات پر ہے۔ اگر چین Pangonجھیل کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بھارت کے لیے لداخ کا دفاع کرنا عملی طور پر ناممکن ہو جائے گا۔ کارگل کے موقع پر بھی چین نے اس جھیل کے دو اہم مقامات پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اس بار چین جھیل کا مکمل کنٹرول لینے کے موڈ میں ہے۔ اسی طرح Nubra وادی اور Shyokمیں چین نے جو پیش قدمی کی ہے۔ اس کے بعد بھارت کی سیاچن تک رسائی مشکل اور چین کی ممکن ہو جائے گی۔

یہ صورتحال بھارت کے لیے ناقابل قبول ہے۔  چین کو اندازہ ہے کہ بھارت معاشی طور پر اس وقت شدید مسائل کا شکار ہے۔ اس لیے کسی بھی قسم کی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس بار بھی مودی کی کوشش ہے کہ وہ معاملہ کو جنگ کی طرف نہ لے کر جائے۔سوال یہ ہے کہ اب بھارت کیا کرے گا۔

امریکا نے حالیہ صورتحال میں بھارت کو چین کے ساتھ ثالثی کی پیشکش کی لیکن بھارت نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا نے بھارت کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جب بھارت نے امریکا کی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا تو چین کے ساتھ ثالثی کی پیشکش کیسے قبول کی جا سکتی ہے۔ ثالثی کی پیشکش کوئی مدد نہیں ہے۔

چین کی جانب سے بھارتی علاقہ پر قبضہ کے بعد دہلی میں نیشنل سیکیورٹی کانفرنس ہوئی ہے۔ جس میں پہلے مرحلہ میں معاملہ سفارتی ڈپلومیسی سے حل کرنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پہلے مرحلہ میں بھارت کی وزارت خارجہ دہلی میں امریکا روس جرمنی فرانس کینیڈا جاپان یورپی یونین کے سفیروں کو صورتحال سے آگاہ کرے گی۔

ان سے چین پر سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے کہا جائے گا تاکہ چین کو علاقہ خالی کرنے پر قائل کیا جا سکے۔ میری رائے میں عالمی سطح پر ایسے حا لات نہیں ہیں کہ دنیا چین کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ شائد بھارتی قیادت کا خیال ہے جیسے پاکستان کے مقابلے میں دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ ویسے ہی چین کے مقابلے میں بھی دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی۔ لیکن شائد ایسا نہیں ہوگا۔ بھارت غلط کھیل رہا ہے۔

بھارت اس وقت امریکا کے کیمپ میں ہے۔ لیکن امریکا میں اس وقت انتخابات کا موسم ہے۔ ویسے بھی امریکا چین کے ساتھ شدید اختلافات کے باوجود معاملا ت کو ایک حد سے زیادہ نہیں بگاڑتا۔ وہ بھارت کے لیے چین سے تعلقات کیابگاڑے گا۔ جیسے سانحہ مشرقی پاکستان کے موقعے پر پاکستان امریکی ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتا رہ گیا تھا، اسی طرح بھارت بھی امریکی مدد کا انتظار ہی کرتا رہ جائے گا۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ روس چین کے مقابلے میں بھارت کی حمایت کرے گا۔ اپریل میں چین روس سے تیل خریدنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔

چین نے سعودی عرب کی بجائے روس سے زیادہ تیل خریدا ہے۔ ایسے میں روس بھارت کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ یورپی یونین کی حمایت بھی ملنے کے کم امکان ہے۔ یورپی یونین تو کشمیر کے مسئلہ پر بھی بھارت کی حمایت نہیں کر رہی۔ جرمنی اور فرانس بھی کیا چین کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ جائیں گے مشکل نظر آتا ہے۔ اس لیے مودی کی چین پر عالمی دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کامیاب ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ لیکن ابھی مودی نے یہی فیصلہ کیا ہے۔ اس میں دو ماہ کا وقت نکل جائے گا اور چین اپنی پوزیشن سرحدوں پر مزید مستحکم کر لے گا۔

The post بھارت چین کشیدگی . . . مودی کی حکمت عملی ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dpb4Bs
via IFTTT

اسرائیلی وزیر اعظم، کتنا بے بس ہے! ایکسپریس اردو

اسرائیل میں ہفتہ وار چھٹی اتوارکی بجائے جمعہ کو ہوتی ہے۔ آج سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے، اتوار والے دن، یروشلم کی ضلعی عدالتوں میں ایک مقدمہ پیش ہونا تھا۔ عدالتیں شہر کے مشرقی حصے میں واقع ہیں۔ عدالتی احاطہ کے اردگرد کسی قسم کے کوئی غیر معمولی حفاظتی انتظامات نہیں تھے۔

زندگی معمول کے مطابق تھی۔ دس بجے کے قریب، عدالت کے احاطہ کے باہر، کالے رنگ کی سرکاری گاڑی رُکی۔ اس میں سے سفید بالوں والا، ایک ستر سالہ بوڑھا آدمی قرینے سے باہر نکلا۔ پیدل چلتا ہوا عدالت میں چلا گیا۔ وہاں وکلاء کی ٹیم موجود تھی۔اس شخص کو عدالت میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔عام سی کرسی پربیٹھا۔جج نے روایتی طریقے سے اس کا نام پوچھا۔ پروسیکیوٹرنے چارج شیٹ پڑھی۔جس کا انکار کیا گیا۔ انیس جولائی اگلی تاریخ پڑی۔وہ شخص جس متانت سے عدالت میں حاضرہواتھا،اسی طریقے سے چپ کرکے خاموشی سے واپس چلاگیا۔

کوئی نعرے بازی، ہلڑبازی، کوئی جذباتی مناظر،کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی۔یہ اسرائیل کاموجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو (Benjamin Netanyahu)تھا۔دنیاکاسب سے طاقتورانسان۔جس کے ایک اشارے سے امریکا جیسی سُپرپاور،لرزجاتی ہے۔اس کا دیا ہوا ہر حکم پوری دنیامیں سرِتسلیم خم ماناجاتاہے۔مگردنیاکایہ موثرترین  آدمی،اسرائیل کے نظامِ انصاف کے سامنے بے حیثیت ہے۔ضلعی جج یعنی سیشن جج کی عدالت میں اونچی آوازمیں بات کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔عام ملزمان کی طرح جج کے سامنے پیش ہوتاہے۔

نیتن یاہو،جن الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ انکو جاننااورسمجھنابھی اتناہی اہم ہے جتنااسرائیل کے بہترین نظامِ انصاف کو۔موجودہ وزیراعظم،اس ملک میں طویل ترین مدت کاسیاسی رہنماہے۔2009 سے آج تک اپنے ملک کاوزیراعظم رہاہے۔بلکہ اس سے بھی پہلے، 1996 سے لے کر1999تک بھی تین سال حکمرانی کرتا  رہاہے۔دیکھاجائے توچودہ برس سے مسلسل وزارت عظمیٰ اس کے پاس ہے۔اس کے ساتھ ساتھ،لکڈپارٹی کاسربراہ بھی ہے۔ان الزامات کی مالیاتی حیثیت دیکھیے،تواس سے کہیں زیادہ،ہمارے کئی اداروں کے کلرک،محکمہ کے پٹواری اورپولیس کے تھانیدارکمالیتے ہیں۔

نیتن یاہو پر پہلاالزام یہ ہے کہ ہالی وڈکے ایک فلم ساز،ارنان ملچن(Arnan Milchan)اورآسٹریلوی ارب پتی جیمزپیکرسے سگارکے ڈبے اور شراب کے کریٹ تحفے میں لیے ہیں۔وزیراعظم پرالزام ہے کہ ان تحفوں کے عوض اس نے ملچن کوفائدہ دینے کی کوشش کی ہے۔لفظ کوشش پرغورکیجیے۔یعنی فائدہ دیانہیں ہے۔ان تحفوں کی مالیت ایک لاکھ،اٹھانوے ہزارڈالرہے۔یعنی پاکستان کے بے قدرروپوں کے حساب سے تقریباًتین کروڑبنتے ہیں۔یہ تحفے2011ء سے لے کر2016ء تک کے دورانیے میں دیے جاتے رہے۔ملچن اورپیکر،دونوں نے تحقیقاتی اداروں کوبیان دیاہے کہ ان کی نیتن یاہوسے ذاتی دوستی ہے۔ان کے عوض،انھوں نے کوئی کاروباری سہولت یافائدہ حاصل نہیں کیا۔

دوسراالزام بھی عجیب وغریب طرزکاہے۔ ہمارے جیسے ملک میں توخیراسے جرم سمجھاہی نہیں جاتا۔ارنون موزز(Arnon Mozes)اسرائیل کے ایک مشہور روزنامہ کامالک ہے۔اس کے میڈیاگروپ کانام Yedioth Ahronothہے۔یہ نیتن یاہو پر شدید تنقیدکرتاہے۔الزام یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے تین بار،اخبارکے مالک کوبلاکرکہاکہ اس پر تنقید بند کردے۔اس کاامیج بہتربنانے کی کوشش کرے ۔

الزام میں یہ بھی شامل ہے کہHayomنام کے ایک اسرائیلی اخبارپرپابندی لگادی جائے گی جوایک مالیاتی جریدہ ہے۔ اس وقت،اسرائیل کی اسمبلی میں یہ بحث ہورہی تھی کہ کچھ وجوہات کی بنیادپرایک قانون بنایا جائے جوہیوم جیسے اخبارات پرپابندی لگاسکے۔یہ بحث کبھی بھی قانونی شکل اختیارنہ کرسکی۔مگرپروسیکیوٹرجنرل کے مطابق، ہو سکتاتھا،کہ اسرائیلی وزیراعظم نے اپناتشخص بہتر کرنے کے لیے ارنون سے اس معاملے پربات کی ہو۔ارنون نے لکھ کردیاہے کہ اس نے اسرائیلی وزیراعظم سے کوئی ایسی بات نہیں کی۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ اگربات ہوئی بھی تھی،تواس کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ نے کوئی قانون منظورنہیں کیا۔مگرآپ ایمانداری کااندازہ لگائیے کہ صرف شبہ ہے کہ وزیراعظم نے ذاتی امیج کوبہتربنانے کے لیے، سرکاری حیثیت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہو۔ تیسراالزام بھی حددرجہ دلچسپ ہے۔شیول ایلرورچ (Shaul Eloritch)اسرائیل کے ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹرکابے تاج بادشاہ ہے۔

اس کی ایک خبررساں ویب سائٹ بھی ہے۔جس کانام والا (Walla) ہے۔الزام یہ ہے کہ وزیراعظم نے ایلرورچ کوکہاہے کہ وہ اپنی نیوزکمپنی ’’والا‘‘پراثراندازہو۔ اس کی حکومت کے متعلق مثبت خبریں شائع کرے۔ والا کمپنی کے مالک نے صاف صاف کہاہے کہ اس کی ویب سائٹ نے کبھی بھی نیتن یاہوکامثبت تاثردینے کی کوشش نہیں کی۔کمپنی مکمل طورپرخودمختارتھی اوراس کے فیصلے بورڈآف ڈائریکٹر کرتا تھا۔مالک ہونے کے باوجود،وہ کبھی بھی بورڈ کو نہیں کہہ سکتاتھاکہ یہ کام کرو اوروہ کام نہ کرو۔ان تینوں الزامات کوملاکر دیکھیے ۔ تونیتن یاہوپرصرف اور صرف پاکستانی تین کروڑ روپے کے تحائف ذاتی حیثیت میں لینے کے الزامات ہیں۔

وہ بھی قیمتی شراب اور سگارلینے کے۔ اسرائیلی وزیراعظم اپنے ماتحت کسی ادارے کویہ حکم نہیں دے سکاکہ اس کے خلاف تحقیقات نہ کریں یااسے کلین چٹ دے دے۔ کیا یہ اَمر عجیب نہیں لگتاکہ دنیاکا طاقتور ترین سیاسی شخص اپنے نظامِ انصاف کے سامنے مکمل طورپربے بس ہے۔ ایک باربھی ماتحت تحقیقاتی اداروں کو اپنے فائدے کے لیے کسی قسم کاکوئی حکم دینے کی جرات نہیںکی۔وہ سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ اسی کا تعینات کیا ہوا، پروسیکیوٹر جنرل،دباؤمیں آکر اس کے حق میں کچھ مثبت بات لکھ دے۔ مگر صاحب،یہ سب کچھ آج کے اسرائیل میں ہورہا ہے۔

اسرائیل کانام لیناہمارے ملک میں پسندنہیں کیا جاتا۔وہاں جاناتودورکی بات،ہمارے پاسپورٹ میں اس ملک کانام ہی درج نہیں ہے۔کچھ مسلمان ممالک، اسرائیل کوتسلیم بھی کرتے ہیں اوراس کے ساتھ تجارتی روابط بھی رکھتے ہیں۔جن عرب ممالک کے لیے،ہم ہمہ وقت اسرائیل کے وجودکوتسلیم نہیں کرتے،وہ تمام، اس ملک کے ساتھ قریبی ترین سفارتی تعلقات رکھتے ہیں۔ سوچیے کہ ہمارے ملک کانظام انصاف کیا ہے ۔ نوے فیصدایف آئی آرزجھوٹی ہوتی ہیں۔عدالتوں کوسب کچھ معلوم ہوتاہے۔مگرسالہاسال،ان جھوٹے کاغذی پلندوں پربحث کی جاتی ہے۔اکثروکلاء کوبھی سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔مگرہمارے عدالتی نظام میں ، سچ کوجھوٹ اور جھوٹ کوسچ ثابت کرنابہت آسان ہے ۔ بے گناہ آدمی پھانسی کے تختے پرلٹکادیے جاتے ہیں۔

اگر بین الاقوامی انصاف کے معیارسے پرکھاجائے تو ہماراپور انظامِ انصاف، حددرجہ ناقص نظرآتاہے۔لیکن یہاں ایک بات کا ذکر ضرورکرونگا۔ماتحت عدلیہ،یعنی سول جج سے سیشن جج تک کے لوگ،ایک انتہائی کٹھن عمل سے گزرکرسامنے آتے ہیں۔ان میں حددرجہ محنتی اوربہترین جج پائے جاتے ہیں۔مگرنناوے فیصدماتحت عدلیہ کے لوگ، کبھی بھی میرٹ پرآگے تک نہیں پہنچ پاتے۔ان کے لیے نظام عدل میں بھی کوئی انصاف موجودنہیں ہے۔ کیا ہمارے یہاں،تصوربھی کیاجاسکتا ہے کہ ملک کے مضبوط ترین طبقے کوقانون کے سامنے پیش کیا جاسکے۔

مگر یہاں، قیامت برپاکردی جائے گی۔ ایسی ایسی تاویلیںپیش کیجائینگی کہ معلوم ہوگا،کہ اگراس طاقت ورطبقے کوہاتھ ڈالاجائے تو ملک ہی نہ بچ سکے۔ ہمارے ہاں، تو کھربوں روپے کے قانونی اورغیرقانونی فراڈہوتے ہیں۔ان پربات کرنا ناممکن کردی جاتی ہے ۔

پچھلے تین سال،بلکہ سترسال کے معاملات کودیکھ لیجیے ۔حالات جوں کے توں ہیں۔ بلکہ بگڑچکے ہیں ۔ کسی حکومت میں کوئی فرق نہیں نظر آتا۔صرف باتیں ، اعلانات اور پریس کانفرنسوں سے، لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ غیرجذباتی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نہ کبھی انصاف تھااورنہ کبھی ہوگا۔

ہمارا گلاسڑا نظامِ انصاف، ہمارے ملک کی طرح کمزور ہے۔اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں۔ اگرنیتن یاہو کو پتہ چل جائے تو شائدوہ دعاکرے،کہ اسے بھی ہمارے جیسا رموٹ کنٹرول نظام مل جائے، تاکہ اسرائیلی طاقتور طبقے پر کوئی انگلی نہ اُٹھاسکے۔لیکن دیکھیے،کہ نیتن یاہو، دنیا کا سب سے طاقتور وزیراعظم، اپنے ہی ملک کے نظام کے سامنے کتنابے بس ہے۔ کیا ہمارے ملک میں اس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ شائد کبھی نہیں!خواب میں بھی نہیں۔

The post اسرائیلی وزیر اعظم، کتنا بے بس ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dyjBCd
via IFTTT

کورونا سے اموات بڑھنے کے خدشات ایکسپریس اردو

ایک جانب توکورونا وائرس سے آنے والے دنوں میں متاثرہ افراد اور اموات کی رفتار میں مزید تیزی کا خدشہ ہے، تو دوسری جانب معاشی واقتصادی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن میں مزید نرمی برتنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ پوری دنیا کورونا کی وباء کا شکار ہے، تاحال اس سے بچاؤکے لیے کوئی دوا یا ویکسین تیار نہیں کی جاسکی ہے۔ اس وبا سے نمٹنے کے لیے ایک حکمت عملی کے تحت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے تعلیمی اداروں کو اگست تک بند رکھنے کی تجویز دی جب کہ شہریوں کے لیے ماسک پہننا لازمی قراردیا گیا ہے۔

گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ملک بھر میں کورونا سے مزید 78 اموات ہوئیں ، جو اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کی زیرصدارت این سی او سی کے اجلاس میں کوویڈ 19 سے متعلق ’’طویل مدتی بیماری‘‘ کے عنوان سے طویل اور قلیل مدتی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ اجلاس کو یہ بھی بتایا گیاکہ کورونا تشخیص کے لیے صلاحیت کو چھ لاکھ 72 ہزار تک بڑھایا جا رہا ہے۔

حکومتی اقدامات لائق تحسین اور قابل ستائش سہی لیکن ہم اس سچائی سے کسی طور پرصرف نظر نہیں کرسکتے کہ آج تک کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شعبہ صحت شامل نہیں رہا ہے، اس وقت ملک بھرکے سرکاری نظام میں 963 پاکستانیوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر،1 ہزار 608 پاکستانیوں کے لیے ایک بیڈ میسرہے۔قابل افسوس امر یہ ہے کہ ملک کے صحت کا بجٹ ہمیشہ مجموعی جی ڈی پی کا ایک فی صد سے بھی کم رہا ہے،گزشتہ مالی سال کے دوران وفاق اور صوبوں کا صحت کا مجموعی بجٹ 203 ارب 74 کروڑ روپے تھا جو جی ڈی پی کا محض صفر اعشاریہ 53 فیصد بنتا ہے۔

یہ درست ہے کہ اس وقت ہم کورونا وائرس کے خلاف نبرد آزما ہیں اورہمارے سامنے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہیں لیکن ہمیں اپنی سوچ وفکر اور ترجیحات کو یکسر بدلنا ہوگا۔ ہماری سب سے پہلی ترجیح عوامی صحت کا موضوع ہونا چاہیے۔

سرکاری اعدادوشمارکے مطابق وفاق نے گزشتہ مالی سال میں صحت کے شعبے میں 12ارب 40کروڑ خرچ کیے، یہ رقم وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کے ساتھ وفاق کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں کے لیے بھی تھی، پنجاب نے ایک فرد کی صحت کے لیے پورے سال میں صرف 818 ، سندھ نے فی شہری 1305 ، بلوچستان نے سالانہ 1231 روپے مختص کیے، خیبر پختونخوا نے فی فرد 769روپے کا بجٹ مختص کیا۔ ان اعداد وشمارکی روشنی میں بصد احترام صرف اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ سنتا جا شرماتا جا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹرظفر مرزا نے کہا کہ ہمیں وائرس کے ساتھ رہنے کیلیے تیار ہوجانا چاہیے۔ بیماری جو عالمی وبا بن جائے، اسے ختم نہیںکیا جاسکتا، اس کے رسک کو محدودکیاجاسکتا ہے، انتہائی صائب بات ہے، درحقیقت ہم پاکستانیوں کا ایک المیہ ہے کہ ہم حقیقت سے نظریں چرانے میں درجہ کمال رکھتے ہیں۔ کورونا وائرس ایک ایسا عفریت ہے جو اب تک لاکھوں انسانوں کو نگل چکا ہے۔ اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں، پوری دنیا کا نظام تلپٹ ہوچکا ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر ہی سے انکاری ہیں۔

سوشل میڈیا سے لے کر عام آدمی کی بیٹھک میں موضوع سخن تو کورونا وائرس ضرور ہے، لیکن جس طرح لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ہم نے احتیاطی تدابیرکونظراندازکیا وہ انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ عیدگزرے چند دن ہوئے ہیں، شاپنگ کے دیوانوں نے جس طرح احتیاطی تدابیر کو اپنے پاؤں تلے روندا، اس کے انتہائی بھیانک نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ہمارے عوام میں یہ شعور بیدار کیا جانا چاہیے کہ ہمارا ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے، ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے لہذا ہمیں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔

یہ خبر بھی انتہائی افسوسناک ہے کہ سندھ اسمبلی کے مزید دو ارکان کورونا وائرس کا شکار ہوگئے اس طرح متاثرہ  ارکان کی مجموعی تعداد دس ہوگئی ہے سندھ اسمبلی کا اجلاس 3جون کو طلب کیاگیا ہے، سندھ اسمبلی کے تمام ارکان کے کورونا ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں، ارکان اسمبلی اور اسمبلی سیکریٹریٹ ملازمین کے لیے یکم جون کو سندھ اسمبلی میں بھی کورونا ٹیسٹ کا انتظام ہوگا۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ہمارا گھروں میں آئسولیشن میں رہنے کا تجربہ درست ثابت ہورہا ہے، اس وقت گھروں میں آئسولیشن میں 12565 مریض زیر علاج ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 2 کورونا وائرس امراض کے اسپتال ایک نیپا اور دوسراکراچی یونیورسٹی کے قریب قائم کرکے اپنی سہولیات کو بڑھا رہے ہیں۔

سندھ حکومت کی کاوشیں اپنی جگہ ، لیکن اصل ذمے داری عوام کی ہے کہ وہ  احتیاطی تدابیر کو اپنے اوپر لازم کریں۔ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر نے اپنے دفتر میں نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیر(آج) سے بسیں،کوچز اور منی بسیں ضرورچلیں گی اگر پولیس نے روکا تو گرفتاریاں بھی دیں گے۔ حکومت سندھ کو صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ٹرانسپورٹرز کے ساتھ فوری مذاکرات کرنے چاہیئیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ چلے گی،تولاکھوں مزدورصنعتی یونٹس میں بآسانی پہنچ پائیں گے اورملکی پیداوارمیں اپنے حصہ ڈالیں گے جوکہ سترفیصدکے قریب ہے۔

ایک جانب تو حکومتی اقدامات ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں کہاںلاک ڈاؤن ہواہے سوائے اسکولوں، کالجوں اور شادی ہالوں کے بند ہونے کے‘ کبھی حکومتی عہدے داروں کو ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ حکومتی ترجمانوںکی بات سنیں تو لگتاہے کہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور سب کچھ ٹھیک ہے،حکومتی کہتی ہے کہ پانچ لاکھ ٹیسٹ کیے ہیں جب کہ آبادی 22 کروڑہے، پتہ نہیں کتنے کیسز ہوں گے۔

یہ تو تھا اپوزیشن کا موقف ہماری عرض صرف اتنی سی ہے کہ یہ وقت سیاست کا نہیں ہے، بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو مل جل کرکام کرنا چاہیے۔ کورونا وائرس نے صرف انسانی جانوں پر وار نہیں کیا ہے بلکہ اس کے اثرات سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستان کے معاشی واقتصادی مسائل میں بھی گونا گوں اضافہ ہوا ہے، معاشی ماہرین کے مطابق جب تک ہماری امپورٹ اورایکسپورٹ میں گیپ رہے گا تو بیرونی قرض پر ہمارا انحصاررہے گا۔ ترجمان منصوبہ بندی کمیشن نے کہا ہے کہ آخری کوارٹر میں پچھلے سال ہمیں غیرمتوقع صورتحال کا سامناکرناپڑا ہے، ہماراخیال تھا کہ3فیصد تک گروتھ رہے گی۔ اسٹیٹ بینک کا بھی یہی خیال تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اگلا سال کافی مشکل ہوگا، لیکن امید ہے کہ دو فیصد تک گروتھ ہوگی۔

معیشت کی بحالی کا عمل اس وقت حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے،اس کے لیے ٹھوس بنیادوں پر واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہم تاریخ کے ایک نازک ترین موڑ پر کھڑے ہیں، جوکچھ بھی کرنا ہے وہ سوچ سمجھ کرکرنا ہے۔ اس وبا کے خلاف جب تک پوری قوم ایک پیج پر نہیں آئے گی،اس وقت تک کورونا وائرس کے خاتمے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

The post کورونا سے اموات بڑھنے کے خدشات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XJitEW
via IFTTT

مسئلہ کشمیر کا پر امن حل، یواین او کے دروازے پر پھر دستک ایکسپریس اردو

اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیرکے پر امن حل میں اپنا کردار ادا کریں، یہ مطالبہ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کو لکھے گئے، اپنے خط میں کیا ہے۔ درحقیقت سات دہائیوں سے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل ہے لیکن اس کی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔

پوری دنیا کورونا وائرس کی وبا سے نبرد آزما ہے جب کہ بھارتی سرکارکشمیریوں کے خلاف غیرقانونی اقدامات میں مصروف ہے،جوکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور عالمی قانون بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت جبروستم کے جو پہاڑ مظلوم کشمیریوں پر توڑ رہا ہے اس کا واضح مقصد حق خودارادیت کی جدوجہدکودہشت گردی سے تعبیرکرکے دبانا ہے۔ بھارت نہ جانے یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ کشمیری دبنے والے نہیں ہیں، انھوں نے اپنی جدوجہد آزادی کی تاریخ اپنے لہو سے رقم کی ہے۔

شہیدوں کا لہو ضروررنگ لائے گا اور وادی کشمیر میں آزادی کا سورج بہت جلد طلوع ہوگا۔ پاکستان سفارتی محاذ پر مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے  بھرپور کوششوں میں مصروف ہے اور اقوام عالم کی توجہ مسلسل مسئلہ کشمیر پر مرکوزکرانے کا فریضہ بحسن وبخوبی ادا کررہا ہے۔

درحقیقت ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی نے انتہا پسندی اور تعصب کے جس رجحان کو پروان چڑھایا ہے وہ خود بھارت کے وجود کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ مودی سرکارکے ہاتھوں کشمیریوں سمیت بھارتی مسلمانوں کے بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں،گزشتہ برس اگست  سے جاری لاک ڈاؤن کے ذریعے آٹھ ملین کشمیریوں کو قیدکیا گیا ہے۔ بھارتی سرکار نے پاکستان، چین اورنیپال سمیت کسی ہمسائے سے بنا کر نہ رکھی ہے۔امریکا یا اسرائیل پر انحصار کرتے ہوئے بھارت کا اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بگاڑنا اس کے لیے گھاٹے کا سودا ہے۔

مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں، پاکستان نے ہرجارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔یوں لگتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی کے ہاتھوں بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہونا جارہا ہے۔اس خط کے تناظر میں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ  پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ بھارت کو من مانی کارروائیوں سے روکے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، دونوں کے درمیان اگر جنگ ہوئی تو یہ جنگ خطے اور دنیا کے امن کوتہ وبالا کردے گی، لہذا اقوام متحدہ کوچاہیے کہ وہ اپنی قراردادوں کے عین مطابق عملدرآمدکو یقینی بنانے کے لیے بھارت کو مجبورکرے اور مظلوم کشمیریوں کوانصاف فراہم کرے۔

The post مسئلہ کشمیر کا پر امن حل، یواین او کے دروازے پر پھر دستک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XMvi1k
via IFTTT

تیز دانتوں والی مچھلی کی نئی پاکستانی نوع دریافت، نام چڑیل پر رکھ دیا گیا ایکسپریس اردو

مشی گن: آج دنیا بھر کے سمندروں میں ایک قسم کی مچھلی عام پائی جاتی ہے جسے اینچووی نسل کی مچھلی کہا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان سے ملنے والا کروڑوں سال پرانا رکاز ظاہر کرتا ہے کہ آج پلانکٹن کھانے والی یہ مچھلی اس وقت اپنے بڑے اور تیز دانتوں سے دیگر مچھلیوں کا شکار کیا کرتی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان سے دریافت ہونے والی اس نوع کا نام چڑیل پر رکھا گیا ہے۔ کیونکہ چڑیل اپنے ناخنوں اور لمبے دانتوں کی وجہ سے ہماری فرضی داستانوں کا ایک حصہ بن چکی ہے۔

اس ضمن میں ایک مکمل رکاز یا فاسل بیلجیئم اور دوسرا جزوی فاسل پاکستان کے صوبہ پنجاب کے کوہ نمک کے سلسلے سالٹ رینج سے ملا ہے۔ ماہرین کے مطابق بڑے اور نوکیلے دانتوں (سیبر ٹوتھ) ٹائیگر کی طرح اس مچھلی کے دانت بڑے اور غیرمعمولی تھے جو اسے ایک خطرناک شکاری بناتے تھے اور وہ چھوٹی مچھلیوں کا شکار کیا کرتی تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ آج اسی نوع کے جاندار کے دانت نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ سمندر پر تیرنے والے خردبینی اجسام کھاکر گزارہ کرتی ہے۔

اگرچہ ساڑھے چھ کروڑ سال قبل ڈائنوسار کے خاتمے کے بعد زمین پر ممالیوں اور دیگر جانداروں نے خود کو تیزی سے پروان چڑھایا اور ارتقا کے تیز قدم لیے لیکن آج کی ایک بے ضرر سی اینچووی نسل کی مچھلی اس وقت لمبے اور نوکیلے دانتوں کی مالک تھی۔ اس طرح یہ دیگر مچھلیوں کا شکار کرتی تھی اور بہترین شکاری تھی۔

رائل سوسائٹی کے تحقیقی جریدے میں یونیورسٹی آف مشی گن کے ماہرین نے ایک مقالہ شائع کرایا ہے جس میں بیلجیئم اور پاکستان سے دریافت ہونے والی مچھلیوں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بیلجیئم کا فاسل قریباً 4 کروڑ 10 لاکھ سال پرانا ہے جبکہ پاکستان سے ملنے والا رکاز5 کروڑ 40 لاکھ سال قدیم ہے۔ ان یہ دونوں مچھلیاں ایک ہی قسم کی ہیں لیکن ان دونوں کے اوپری جبڑے میں بہت بڑا دانت دیکھا گیا ہے۔

اس ضمن میں اوپر دو مچھلیوں کے دو رکازات دیکھے جاسکتے ہیں ان میں سے اوپر والی مچھلی بیلجیئم اور نیچے والی مچھلی پاکستان سے ملی ہے۔

ماہرین نے ان مچھلیوں کی کھپوڑیوں کا سی ٹی اسکین کیا تو معلوم ہوا کہ نچلے جبڑے میں باریک دانتوں کی ایک قطار ہے لیکن اوپری جبڑے پر بہت لمبے اور نوکیلے دانت بھی ہیں۔ ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان سے اس مچھلی کی نئی نوع ملی ہے۔ اپنے ظاہری خدوخال کی بنا پر اسے ’ مونو سمائلس چڑیلوئیڈیس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نام چڑیل کے نام پر رکھا گیا ہے۔ دونوں مچھلیاں آج کی اینچووی نسل کی مچھلیوں کی قریبی رشتے دار بھی ہیں۔

واضح رہے کہ یونیورسٹی آف مشی گن کے ماہرین اس سے قبل پاکستان سے قدیم وھیل کے آثار بھی دریافت کئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر بیان کردہ بڑے دانتوں والی مچھلی کا فاسل بھی ایک عرصے تک وہیں رکھا تھا جس پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ تاہم اب پروفیسر کیپوبیانکو نے اس پر تحقیق کی جس کے نتیجے میں پاکستان کے رکازات ایک بار پھر منظرِ عام پر مشہور ہوئے ہیں۔

The post تیز دانتوں والی مچھلی کی نئی پاکستانی نوع دریافت، نام چڑیل پر رکھ دیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZTVHwJ
via IFTTT

ذیابیطس کی دوا، کورونا وائرس کے خلاف بھی مفید ایکسپریس اردو

اونٹاریو: کینیڈا میں واٹرلو یونیورسٹی کے طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ٹائپ 2 ذیابیطس میں کھائی جانے والی دوا کی ایک قسم جسے بالعموم ’’ڈی پی پی فور انہیبیٹر‘‘ یا ’’گلپٹنز‘‘ (Gliptins) کہا جاتا ہے، کورونا وائرس کو انسانی جسم کے اندر پھیلنے سے روکتی ہے اور اس طرح یہ کورونا وبا کی روک تھام میں بھی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ ڈی پی پی فور انہیبیٹر (DPP4 inhibitor) کوئی ایک دوا نہیں بلکہ ادویہ کی ایک پوری جماعت ہے جو حالیہ برسوں میں دریافت ہوئی ہے اور استعمال ہورہی ہے۔ علاوہ ازیں اس قسم کی دوائیں انجکشن کے بجائے گولی کی شکل میں لی جاتی ہیں۔

ماہرین پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ کورونا وائرس کے خلاف پہلی ویکسین کم از کم ایک سال میں دستیاب ہوسکے گی جبکہ یہ عرصہ 18 ماہ یا اس سے بھی زیادہ کا ہوسکتا ہے۔ ایسے میں کورونا وائرس کی روک تھام کےلیے پہلے سے موجود مختلف دوائیں آزمانے کا سلسلہ جاری ہے۔ واٹرلو یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق بھی اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔

اس تحقیق کے دوران کورونا وائرس کی سہ جہتی (تھری ڈی) ساخت کا مطالعہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ ڈی پی پی فور انہیبیٹر قسم سے تعلق رکھنے والی، ذیابیطس کی مذکورہ دوائیں اس وائرس کو تقسیم ہوکر اپنی تعداد بڑھانے اور بیماری کی شدت میں اضافہ کرنے سے روک سکتی ہیں۔

مطالعے کے سربراہ ڈاکٹر پراوین نیکار نے خبردار کیا ہے کہ ڈی پی پی فور انہیبیٹر کو کورونا وائرس کی دوا ہر گز نہ سمجھا جائے، البتہ یہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے اور اس سے پیدا ہونے والی بیماری کی شدت کو قابو میں رکھنے کےلیے مددگار ضرور ثابت ہوسکتی ہے۔

اب ماہرین اس دوا کو کلچر ڈش میں رکھے گئے، کورونا وائرس سے متاثرہ خلیات پر آزمانے کی تیاری کررہے ہیں۔

واٹرلو یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے موجود پریس ریلیز میں واضح کیا گیا ہے کہ ابھی یہ تحقیق کسی ریسرچ جرنل میں باقاعدہ طور پر شائع نہیں ہوئی ہے، تاہم اس کے نتائج مفادِ عامّہ کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر جاری کیے گئے ہیں۔

The post ذیابیطس کی دوا، کورونا وائرس کے خلاف بھی مفید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cnmjZy
via IFTTT

ریاضی اور سائنس کے 16 سالہ استاد کے 6 لاکھ فالوورز ایکسپریس اردو

 نیویارک: لاک ڈاؤن میں لوگ یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر فضول قسم کی ویڈیوز دیکھ کر وقت ضائع کررہے لیکن ایک نوعمر استاد نے بچوں کو پڑھانے کی ٹھانی اور ان کے لیکچر کے فالوورز کے تعداد اب 6 لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

نیویارک کے 16 سالہ الیکسس لورریز نے ٹک ٹاک کے غیرسنجیدہ پلیٹ فارم کو سائنس اور ریاضی کی سنجیدہ تدریس کے لیے استعمال کیا ہے۔ ٹک ٹاک رقص کے چیلنج اور مزاحیہ خاکوں سے بھرا ہوا ہے لیکن اسی پلیٹ فارم پر انہوں نے فروری 2020 سے تدریسی ویڈیوز جاری کرنا شروع کی۔

ایلکسس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مختصر اور جامع اسباق تیار کتے ہیں اور اب انہیں ٹِک ٹاک ٹیوٹر کا خطاب مل چکا ہے۔ واضح رہے کہ وہ نیویارک کے مشہور اسکول ہیرلم پریپ اسکول میں ریاضی کے 4 جی پی اے حاصل کرچکے ہیں۔

چند ماہ میں انہوں نے ریاضی، طبعیات، کیمیا اور جیومیٹری پر 100 سے زائد ویڈیو بنائی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فیثاغورسی تھیورم، سائن، کوسائن، ایٹم، الیکٹرون اور ریڈوکس وغیرہ پر عام فہم انداز میں ویڈیو بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیچیدہ ترین تصورات کو عام فہم انداز میں سمجھانے پر انہیں ملکہ حاصل ہے اور لوگوں نے اس فطین کی اسی صلاحیت کو بہت سراہا ہے۔

اس کے علاوہ وہ SAT کی تیاری بھی کرواتے ہیں جن میں الجبرا اور جیومیٹری پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ اب ان کے فالوورز کی تعداد چھ لاکھ 64 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ ان کے شاگرد پوری دنیا میں موجود ہیں جن میں کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور فلپائن کے شاگرد بھی شامل ہیں۔

ایلکسس کے والدین بھی ان پر فخر کرتے ہیں اور ان سے بہت خوش ہیں۔ دوسری طرف ایلکسس کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ سوچ کر ویڈیوز بنائیں کہ بچے تیزی سے اسباق بھولتے جارہے ہیں جس کے لیے رہنمائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ان کی ویڈیوز نہ صرف اسباق تازہ کرتی ہیں بلکہ وہ الجبرا اور دیگر اسباق کو سمجھنے میں ایک نیا رخ بھی عطا کرتی ہیں۔

اب ایلکسس کا چینل یوٹیوب اور گوگل کلاس روم تک پھیل چکا ہے۔ ہر ویک اینڈ پر وہ تین گھنٹے کا خاص لائیو سیشن چلاتے ہیں جس  میں کئی طالبعلم شرکت کرتے ہیں۔

The post ریاضی اور سائنس کے 16 سالہ استاد کے 6 لاکھ فالوورز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ArIoJr
via IFTTT

Saturday, May 30, 2020

میں نے تھامس پکیٹی کی کتاب کے ’’کیپیٹل ان دی 21 سنچری‘‘ کا دوبارہ مطالعہ کا فیصلہ کیا ہے، سیکھنے کے لئے ہمیشہ وقت نکالنا چاہیے کیونکہ اگر آپ نے سیکھنے کا عمل عمل ترک ... مزید

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقیات اور خصوصی اقدامات اسد عمر کی زیرصدارت این سی او سی میں اعلی سحطی اجلاس 15جولائی تک کورونا وباء عروج پر ہونے کے امکان کو مد نظر رکھتے ... مزید

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نی کورونا اور ٹڈی دل کے لئے الگ الگ ہیلپ لائنز قائم کر دیں

ملک بھر میں ٹڈی دل کے خلاف آپریشن کے تحت گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 3لاکھ 66 ہزار ہیکٹر رقبہ کا سروے ، 5600 ہیکٹر رقبہ کا ٹڈی مار ادویات سے ٹریٹمنٹ، مجموعی طور پر 4لاکھ 87ہزار ... مزید

کرورنا وائرس سے بچائو کے لئے حکومت نے سرجیکل ماسک لازمی قرار دیدیا ہے ‘ گذشتہ 24گھنٹوں میں 78اموات کے ساتھ اس وقت مجموعی اموات 1395ہوچکی ہے ‘ آنے والے دنوں میں اموات اور کیسز ... مزید

گیم آف تھرونز اب’’ ایچ بی او میکس‘‘ پر بھی پیش

ٹام ہنکس، ریٹا ویلسن نے کورونا وائرس سے متاثرہ افرادکے علاج کے لیے خون عطیہ کر دیا

فہد مرزا بھی ترک ڈرامہ سیریل’’ارطغرل غازی‘‘ کے مداح نکلے

عمران عباس نے اپنی پہلی محبت بارے اہم انکشاف کر دیا

عروسہ بلال قریشی کو ہوٹلنگ کی یاد ستانے لگی

امریکی سیریز’’گوسپ گرل2.0‘‘ کورونا وائرس کے باعث تاخیر کا شکار

سیمی راحیل کا دانیال راحیل کی شادی پر محبت بھرا پیغام

اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھنے والوں کو کوئی جھکا نہیں سکتا، شائستہ لودھی

زارا نور عباس کا اپنے پہلے کرش بارے انکشاف

نیلم منیر نے حالیہ روٹین شیئر کر دی

رواں سال عرب فیشن ویک کے دوران ریمپ پر واک کرتی ماڈلز کو صرف آن لائن دکھایا جائے گا

پائلٹ بننا چاہتا تھا لیکن قسمت نے اداکار بنا دیا ، اعجاز اسلم

لبنانی پاپ گلوکارہ کے قاتل پولیس اہلکار کو معافی مل گئی

شوبز کو نہیں چھوڑونگی کیونکہ شوہر کی طرف سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ، نمرہ خان

موسیقار نیاز احمد کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اِس مشکل گھڑی میں اُس سے دُعا کریں ، حرا مانی

فلمساز یاسر اختر کی فلم ’آزاد‘ لاک ڈاون کی وجہ سے ٹیلی ویژن پر ریلیز کر دی گئی

طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے والی ماڈل زارا عابد کی شارٹ فلم’ سکا‘ یوٹیوب پر ریلیز

Friday, May 29, 2020

زمین کے قریب ترین ایک نیا بلیک ہول دریافت ایکسپریس اردو

چلی: فلکیات دانوں نے اب تک کی تاریخ میں زمین سے قریب ترین بلیک ہول دریافت کیا ہے جو ہمارے نظامِ شمسی سے صرف ایک ہزار نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

یورپی سدرن رصدگاہ (آبزرویٹری) کے سائنسدانوں اور دیگر اداروں کے ماہرین نے یہ بلیک ہول دریافت کیا ہے جس کے گرد دو ستارے محض آنکھوں سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ماہرین نے انہی دو ستاروں کو ایم پی جی، ای ایس او 2.2 قطر دوربین سے دیکھا ہے۔ یہ دوربین لاسیلا آبزوریٹری کے نام سے چلی میں قائم ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تو ایک جھلک ہے اور ایسے کئی بلیک ہول مستقبل میں دریافت کئےجاسکیں گے۔

ماہرین کے مطابق یہ بلیک ہول کے ساتھ دوہرے ستارے کا نظام ہے جو ٹیلی اسکوپیئم نامی ایک جھرمٹ (کانسٹلیشن) میں دریافت ہوا ہے۔ اگر مطلع صاف اور رات گہری ہو تو اس کے ستارے کسی دوچشمی دوربین کے بغیر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس پورے نظام کو ای ایس او کے ماہر تھامس ریوینیئس نے ایچ آر 6819 کا نام دیا ہے۔ پہلے خیال تھا کہ یہ دوہرے (بائنری) ستارے کا ایک نظام ہے۔ لیکن بعد میں اس میں بلیک ہول دریافت ہوا جو ایک اہم دریافت ہے۔

اس دوران ایف ای آر او ایس طیف نگار (اسپیکٹروگراف) نے انکشاف کیا کہ دکھائی دینے والے دونوں ستارے ہر 40 روز بعد ایک ان دیکھے جسم کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ پھر کئی ماہ تک مسلسل اس کا مشاہدہ کیا گیا۔ یہ پہلا بلیک ہول بھی ہے جو اپنے ماحول سے بہت تیزی سے عمل نہیں کررہا اور یوں مکمل طور پر تاریک دکھائی دیتا ہے۔ اس کمیت ہمارے سورج سے 4 گنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے عام ستارے والے حجم والا بلیک ہول قرار دیا گیا ہے۔

اس سے قبل ہماری کہکشاں میں بھی چند درجن بلیک ہول دریافت ہوئے جو اپنے ماحول سے عمل کرکے طاقتور ایکس رے کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایچ آر 6819 میں ایک خاموش، قدرے تاریک اور پرسکون بلیک ہول کی یہ پہلی دریافت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خود ہماری ملکی وے کہکشاں میں ایسے لاکھوں کروڑوں بلیک ہول موجود ہوسکتےہیں۔

The post زمین کے قریب ترین ایک نیا بلیک ہول دریافت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dk4nAC
via IFTTT

کمیاب اعصابی مرض اور پیٹ کے بیکٹیریا کے درمیان تعلق دریافت ایکسپریس اردو

شکاگو: اگرچہ مشرقی طب میں  دماغ کا تعلق معدے  سے بھی بتایا جاتا ہے لیکن جدید طب نے اسے ایک عرصے سے نظر انداز کیا ہے۔ اب بہت سی دریافتوں کے ساتھ پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ معدے کی ہاضماتی نالی میں پائے جانے والے خردنامیے اور بیکٹیریا ایک دماغی پٹھوں کی کم یاب بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔

نیچر میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہمارے معدے اور آنتوں پائے میں جانے والے بیکٹیریا ہماری دماغی اور اعصابی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک عصبی نسیجی (نیوروویسکیولر) بیماری ’کے ورنس اینجیوما‘ اور معدے کے جرثومے کے درمیان تعلق کے ٹھوس ثبوت ملے ہیں۔ ’کے ورنس اینجیوما‘ کو مختصراً سی اے بھی کہا جاتا ہے۔

اس سے قبل صرف جانوروں یعنی چوہوں پر ہی اس کے مطالعے کئے گئے تھے جو انسانوں میں ایک نایاب مرض کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں انسانی رضاکاروں پر بعض تجربات کئے گئے ہیں جن کی بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے۔

اس تحقیق کے بانی عیصان اود ہیں جنہوں نے اس سے پہلے چوہوں پر تجربات کئے تھے۔ عیصان کہتے ہیں، ’ اس تحقیق کے بہت بلند اطلاقات ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ عین انسانوں کے لیے بھی یہ طریقہ کار درست ہے۔ عیصان کا تعلق یونیورسٹی آف شکاگو سے ہے۔

کے ورنس اینجیوما بیماری میں دماغ اور حرام مغز میں خون کی نالیوں کے گچھے سے بن جاتے ہیں لیکن یہ مرض اتنا عام نہیں اور پوری دنیا میں صرف 0.2 فیصد آبادی کو ہی یہ مرض لاحق ہوتا ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے خون کی خلافِ معمول نالیاں بننے لگتی ہیں۔

اس کے نتیجے میں مریض کو جھٹکے لگتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھتی ہے اور اعضا کے ساتھ یادداشت  اور نظر بھی بری طرح کمزور ہوجاتی ہے۔ اس کی تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے 100 افراد کے فضلے کے نمونوں کا مقابلہ کیا جو سی اے مرض کی دو مشہور بیماریوں کے شکار تھے۔

اس کا موازنہ کرنے کے لیے 250 صحتمند رضاکاروں کے فضلے کے نمونے جمع کے گئے ہیں جنہیں سی اے کی بیماری لاحق نہ تھی۔ تیجے کے طور پر دیکھا گیا کہ تمام 100 مریضوں کے جسم میں خردنامیے اور بیکٹیریا وغیرہ کی ترتیب خاصی حد تک یکساں تھی۔

ماہرین نے بتایا کہ بالخصوص مریضوں کی آنتوں میں Odoribacter splanchnicus بیکٹیریا کا تناسب بہت زیادہ تھا۔ جبکہ دیگر اقسام کے بیکٹیریا بہت کم تھے جن میں Faecalibacterium prausnitzii اور Bifidobacterium adolescentis سرِ فہرست ہے۔

واضح رہے کہ طبِ مشرق معدے سے کئی امراض کو وابستہ کرتے ہیں اور اب سائنسی طور پر اس کی حقیقت سامنے آرہی ہے گزشتہ کئی برس سے آنتوں اور معدے سے کئی دماغی امراض بشمول شیزوفرینیا اور پارکنسن کا تعلق بھی دریافت ہوا ہے۔

The post کمیاب اعصابی مرض اور پیٹ کے بیکٹیریا کے درمیان تعلق دریافت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zMuzFp
via IFTTT

بلند عمارات اور چٹانوں کے درمیان چھلانگ لگانے والا سب سے خطرناک پارکر گروپ ایکسپریس اردو

 لندن: عمارتوں، چھتوں اور چھوٹی پہاڑیوں کے درمیان جست بھرنے اور خطرناک کرتب دکھانے کے شوقین افراد پارکر کہلاتےہیں اور اسٹورر نامی برطانوی گروپ کو اب دس برس مکمل ہوچکے ہیں۔

اس دوران انہوں نے دبئی، استنبول، چین، جاپان، اسپین، سیئول اور دنیا کے دیگر مقامات پر اپنے عزم کو آزمایا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں ہالی وڈ کی فلموں میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس گروپ کے دس سال مکمل ہوچکے ہیں یوٹیوب پر سکسکرائبر کی تعداد 50 لاکھ مکمل ہونے پر اپنی ایک عشرے کی کہانی ویڈیو کی صورت میں شیئر کی ہے۔

اس گروپ کے اراکین میں ٹیلر، ٹوبی، سیگر، ساشا پوویل، جوشوا، کیلم پوویل اور اس کے بانیان میکس اور بیج کیو شامل ہیں۔ ان سب نے برسوں کی محنت کے بعد پارکر بننے پر مہارت حاصل کی ہے۔ گزشتہ برس ہالی وڈ کے مشہور ہدایت کار مائیکل بے نے انہیں اپنی فلم ’سکس انڈرگراؤنڈ‘ میں کام کے لیے مدعو کیا تھا جو نیٹ فلکس کے لئے بنائی گئی ہے۔

اس فلم میں انہوں نے فلمی کرداروں کے اسٹنٹ مین کا کردار اداکیا تھا اور انہیں ہرطرح سے کام کی آزادی دی گئی تھی۔ انہوں نے اٹلی کے شہر فلورنس میں بھی شوٹنگ کی اور فلمی اداکاروں کو پارکر کی بنیاد کی تربیت بھی فراہم کی تھے۔ لیکن یہ کام کسی طرح بھی آسان نہیں

اسٹورر کے سربراہ ایک مظاہرے کے دوران سامنے کے چار دانت تڑوا بیٹھے ہیں جبکہ ٹیلر کا ٹخنہ بھی ایک بار بہت بری طرح مجروح ہوکر ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن یہ دونوں گزشتہ 15 برس سے اب تک پارکر بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اوپر کی ویڈیو میں بھی اسٹورر اراکین کو زخمی ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ پارکر عمل بہت خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے پارکر کرتب آزمانے سے ہر طرح کا گریز کیا جائے۔

The post بلند عمارات اور چٹانوں کے درمیان چھلانگ لگانے والا سب سے خطرناک پارکر گروپ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MfXDYg
via IFTTT

ملک اقتصادی ومعاشی مسائل سے نبرد آزما ایکسپریس اردو

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے دنیا کی معیشتوں کو متاثرکیا ہے، جب تک اس عالمی مسئلے سے جامع انداز میں اور عالمی حل کے ذریعے نہیں نمٹا جائے گا تو دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کے شکار ہونے کی وجہ سے کساد بازاری سے باہر نہیں آسکے گا۔وزیراعظم پاکستان کا ترقی کے لیے سرمایہ کاری سے متعلق عالمی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ کورونا بحران سے متاثرہ ترقی پذیرممالک کی مدد کی جائے، انتہائی صائب اور حقیقت پرمبنی امر ہے۔

ہمارا ملک لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید معاشی واقتصادی مسائل سے دوچارہوچکا ہے۔ ملکی معیشت کا پہیہ جام ہونے سے ہمارے مسائل روزبروز بڑھتے جا رہے ہیں۔قومی شرح نمو بہت تیزی سے گری ہے، اقتصادی ومعاشی ماہرین  پہلے ہی نشاندہی کرچکے ہیں کہ شرح نمو منفی میں جائے گی، ڈالرمہنگا اور روپے کی قیمت  میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ بیرونی ممالک میں مقیم لاکھوں پاکستانی جو قیمتی زرمبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں اس کی وجہ سے ملکی معیشت کو بہت سہارا ملتا تھا لیکن اب تو وہ خود بے روزگارہوچکے ہیں اوروطن واپسی کے منتظر ہیں۔

ان کی واپسی سے ملک قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہوگیا ہے۔ اسٹاک ایکس چینج میں بھی مندی کا رجحان ہے۔ ملک میں تیزی سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے، صنعتیں بند ہیں اور لاکھوں محنت کشوں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں۔ جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافے کی ایک بڑی وجہ غربت اور بیروزگاری بھی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے باعث تاجروں اور درآمد کنندگان کے اربوں روپے مالیت کی وصولیاں رک چکی ہیں،اربوں روپے کا سرمایہ کئی ماہ سے منجمد ہے۔

بلاشبہ حکومت کو مسائل کا ادراک ہے، وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم خلوص نیت سے معاشی واقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں جیسے کہ پاکستان اپنے اگلے مالی سال میں یورو بانڈزکے ذریعے 1.5 بلین ڈالر اکٹھا کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

خود مختار بانڈز کے اجرا کے ذریعے ڈیڑھ ارب ڈالر کا حصول مالی سال 2020-21 میں بیرونی سرمائے یا رقوم کا حصہ ہے جس کا استعمال حکومت بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں کرے گی۔ یہ امربھی لائق تحسین ہے کہ معیشت کو بحال رکھنے اور معاشرے کے کمزور ترین طبقے کے لیے حکومت نے آٹھ ارب ڈالرکا پیکیج دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ بائیس کروڑ آبادی میں سے تقریباً پندرہ کروڑ افراد معاشرے کے کمزور ترین طبقے میں شامل ہیں اور ان میں غیر رسمی شعبے، دیہاڑی دار اور ہفتہ وار روزگار کمانے والے بھی شامل ہیں۔

۔ ملکی معیشت پر منفی اثرات مئی میں برآمدی آمدنی میں کمی کی صورت میں نظر آنا شروع ہوچکے ہیں جو آنے والے مہینوں میں بھی برقرار رہیں گے۔ نئے وفاقی بجٹ کی تیاری میں بھی حکومت یقیناً مشکلات سے دوچار ہے، مقامی صرافہ مارکیٹوں میں بھی سونے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے جب کہ پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں عیدالفطر کی طویل تعطیلات کے بعد بھی مندی کے بادل چھائے رہے، جمعرات کو انڈیکس کی33800 اور33700 پوائنٹس کی مزید دوحدیں گرگئیں، سرمایہ کاروں کے 19ارب 83کروڑ66 لاکھ 58ہزار579 روپے ڈوب گئے۔ زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوںمیں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کو تنزلی کا سامنا رہا، اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالرکی قدر 80 پیسے کے اضافے سے 161 روپے 80 پیسے پر بند ہوئی۔

پاکستان بنیادی طورپرایک زرعی ملک ہے،لیکن یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہماری تمام حکومتوں نے اس شعبے کو یکسر نظر اندازکیا ہے۔ قومی سطح پر ایک جامع زرعی پالیسی کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ملک میں ہم نے جس طبقے سے سب سے زیادہ  صرف نظر برتا ہے وہ ہے کاشتکار۔ بجلی کے بلوں کی بڑھتی ہوئی قیمت، زرعی کھادوں کی بلند بالا قیمتیں،بھاری شرح سود پر زرعی قرضے، ڈیزل پر سبسڈی نہ فراہم کرنے جیسے عوامل نے کسان کی کمر توڑ دی ہے۔ مرے پر سو درے کے مصداق ملک میں شوگر مافیا نے ایک عام کسان کو معاشی بدحالی کا شکارکردیا ہے۔

گزشتہ برس 160سے 180روپے من گنا بیچا گیا اور شوگرملز مالکان نے سبسڈی کے نام پر اربوں کمالیے لیے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ ایک روپے چینی کی قیمت بڑھانے سے پچاس ارب روپے کا فرق پڑتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ شوگر ملز مالکان اور ان کے غیرقانونی اقدامات کو آج بھی ہرجگہ تحفظ دیا جا رہا ہے۔

اس وقت عجیب صورتحال ہے کہ کپاس کے علاقوں میں گنا کاشت کیا جا رہا ہے،کاشتکارکے نام پر ٹیکسٹائل اور شوگر ملز مالکان سبسڈی وصول کرتے رہے ہیں،کپاس کی پیداوارکم ہونے سے چھ عشاریہ پانچ ارب ڈالرکی کمی واقع ہوجائے گی۔ قومی خزانے کو پہنچنے والا یہ نقصان کیسے پورا ہوگا، یہ سوچنے والی بات ہے۔ مقام افسوس ہے کہ سابقہ حکومتوں نے زراعت کو اولین ترجیحات میں نہیں رکھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ 48 فی صد روزگار ملکی زراعت سے فروغ پاتا ہے لیکن زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو صورتحال بہت پریشان کن ہے۔

ملک کے کم وبیش ستر اضلاع میں ٹڈی دل نے حملہ کرکے فصلوں کو اجاڑ دیا ہے۔ مناسب اور بر وقت اقدامات نہ ہونے کے باعث ٹڈی دل فصلوں کو چٹ کر رہے ہیں، جب کہ وفاق اور سندھ کے درمیان سیاسی بیان بازی کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جا رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت پوائنٹ اسکورنگ کا نہیں ہے بلکہ مل جل کر مسائل حل کرنے کا ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت کو وسیع پیمانے پرٹڈی دل کے خاتمے کے لیے اسپرے کروانا چاہیے تاکہ مزید نقصان سے بچا جاسکے۔ خدانخواستہ عدم توجہی کی روش برقرار رہی توملک میں غذائی قلت پیدا ہوجائے گی، جوملکی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔

حکومت کو زراعت کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہونگے۔کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان ترقی وخوشحالی کی منازل بہت تیزی سے طے کرے گا۔ زرعی شعبے میں انتہائی استعداد آج بھی موجود ہے کہ وہ ملکی معیشت کا بوجھ اٹھا سکے، ضرورت اس امرکی ہے کہ زرعی شعبے پر بھرپور توجہ مرکوزکی جائے اورکسانوں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ وہ دن رات محنت کرکے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

کورونا وائرس اورلاک ڈاؤن نے جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثرکیا ہے، وہیں ریسٹورنٹس اینڈ ہوٹلنگ انڈسٹری کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پنجاب میں فوڈ بزنس پوائنٹس کی تعداد چالیس ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے جب کہ تقریباًسات لاکھ افراد اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ ہوٹل انڈسٹری کے ساتھ بھی درجنوں شعبے منسلک ہیں جیسا کہ پیکنگ میٹریل ، ڈیکوریشن ، چکن ، بیف ، مٹن ، سبزیاں و پھل سپلائی کرنیوالے،کیٹرنگ سروس والے،ایڈورٹائزمنٹ سروس سمیت دیگرکئی شعبہ جات ہوٹل سے وابستہ ہوتے ہیں۔

دوسری جانب معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی تیسری قسط کے لیے نئے وفاقی بجٹ میں ممکنہ نئے اقدامات کی شرائط اورکورونا وبا کے ملکی برآمدات پر مرتب ہونے والے اثرات رواں ماہ سے برآمدی آمدنی کی ترسیلات کے حجم میں کمی کی صورت میں ظاہر ہونے کے علاوہ ملک میں معاشی سرگرمیوں اور نئے درآمدی لیٹرآف کریڈ ٹس کھولے جانے سے ڈیمانڈ بڑھنے کے باعث امریکی ڈالرکی قدر میں اضافے کا رجحان غالب ہوا ہے۔

پاکستان ایک ترقی پذیرملک ہے۔ اپنی بساط کے مطابق حکومت غریب طبقات کوامداد فراہم توکررہی ہے، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم ایک خبر پر نظر ڈالتے ہیں، جس کے مطابق امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا ہے،گزشتہ ہفتے مزید 21 لاکھ افراد نے بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ مارچ کے وسط سے چارکروڑ سے زیادہ افراد اپنی نوکریاں کھوچکے ہیں، جو امریکی ورک فورس کا  ایک چوتھائی ہے۔

امریکا دنیا کا ترقی یافتہ ترین ملک ہے جب کہ وہاں حالات اتنے مخدوش ہوچکے ہیں تو پاکستان کی پریشانیوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ حالیہ عید کی خریداری کے لیے لاک ڈاؤن میں نرمی پر بازاروں میں عوام کا ہجوم امنڈ آیا تھا،جس کوکنٹرول کرنا حکومت اور تاجروں کے بس میں نہیں تھا، تاجر برادری کی جانب سے ایک مثبت تجویزسامنے آئی ہے، جن بازاروں میں خواتین کا ہجوم ہوتا ہے وہاں لیڈیز پولیس تعینات کی جائے اور متاثرہ تاجر برادری کے لیے بلا سود قرضوں کا اعلان کیا جائے جن کاروباروں میں رش نہیں ہوتا جیسا کہ فرنیچر شاپ، جیولرز شاپ وغیرہ ان کو مکمل طور پر کھولا جائے جب کہ ایسی دکانیںجو میونسپل کمیٹی، اوقاف، کنٹونمنٹ بورڈ وغیرہ کی ذاتی ملکیت ہیں ان کا تین ماہ کا کرایہ تاجروں کو معاف کیا جائے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تاجروں کے مطالبات پر ہمدردانہ غورکریں۔

یہ خبر بھی خوش آئند ہے کہ گرین نگہبان پروگرام کے لیے ورلڈ بینک نے120 ملین ڈالر فراہم کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ پروگرام کے تحت آیندہ اڑھائی برسوں کے دوران 4 سے6  لاکھ افراد کو ملازمتیں و روزگار فراہم کیا جائے گا۔ایک اہم ترین مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم بحالی کا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے تین کروڑ سے زائد مزدور مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ صنعتیں تب تک پیداوار نہیں بڑھا سکیں گے جب تک مزدوراپنے پیداواری یونٹس میں نہیں پہنچیں گے لہٰذااحتیاطی تدابیرکے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ بحالی کا اعلان کیا جائے، کیونکہ ملک کو ستر فیصد ریوینوکراچی سے ہی ملتا ہے۔

The post ملک اقتصادی ومعاشی مسائل سے نبرد آزما appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3diobUG
via IFTTT

بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی اور انٹرنیٹ ایکسپریس اردو

ملک کے  ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) نے تمام یونیورسٹیوں کو ہدایات جاری کیں کہ تدریس کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لیے Online Classes کا طریقہ اپنایا جائے۔ بلوچستان کے طلبہ اس فیصلہ پر چیخ اٹھے۔ بلوچستان میں جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال اب بھی ممنوع ہے، یوں بلوچستان کی یونیورسٹیوں کے طلبہ Online Classes سے اسی طرح محروم رہ گئے جس طرح وہ تعلیم کے شعبہ میں باقی تینوں صوبوں سے محروم ہیں۔ بلوچستان 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام تک تعلیمی سیکٹر میں انفرااسٹرکچر ، طالب علموں خاص طور پر طالبات کی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے اور اساتذہ اور ان کی اہلیت کے حوالہ سے بہت زیادہ پسماندہ رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے تعلیم کے ادارہ یونیسیف کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں 60سے 70 فیصد بچے اسکول میں داخلہ نہیں لے پاتے ۔ تعلیم کے شعبہ میں بہتری کے لیے متحرک غیرسرکاری تنظیم ’’الف اعلان ‘‘کے سروے کے مطابق بلوچستان میں صرف 1,1627 اسکول رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 1,271 مڈل اور 947 ہائی اسکول ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جو 60سے 70 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے ان میں سے 78 فیصد لڑکیاں اور 67 فیصد لڑکے ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ہر 30 کلومیٹر کے بعد ایک پرائمری اسکول ، 260 کلومیٹر کے فاصلہ پر مڈل اسکول اور ہر 360 کلومیٹر کے فاصلہ پر سیکنڈری اسکول قائم کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں گاؤں دور دور ہیں اور گاؤں اور شہروں میں فاصلہ بہت طویل ہے۔

عام آدمی کو شہر آنے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ساری صورتحال کا نقصان بچوں کو ہوتا ہے۔ بچوں کے والدین کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو اتنا طویل فاصلہ طے کرا کے اسکول پہنچانے کے متحمل ہوسکیں۔ اس ساری صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان لڑکیوں کو ہوتا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی اکثریت کا ذہن لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں پسماندہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ والدین کسی طرح اپنے لڑکوں کو اسکول پہنچانے کا انتظام تو کر لیتے ہیں مگر لڑکیاں گھروں تک محدود رہتی ہیں۔ بلوچستان میں طالبات کے اسکول سے تعلیم مکمل کیے بغیر ڈراپ آؤٹ ہونے کی شرح پورے ملک سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ اسکولوں کا دور ہونا ہے۔ یہی صورتحال کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ہے۔ بلوچستان میں 70 کی دہائی تک نہ تو اپنا تعلیمی بورڈ تھا نہ کوئی یونیورسٹی تھی۔ جب 1972ء میں پہلی دفعہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور میر غوث بخش بزنجو گورنر اور سردار عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ بنے تو بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی کوئٹہ میں قائم کی گئی۔ بلوچستان کی حکومت نے معروف ماہر تعلیم پروفیسر کرار حسین کو پہلا وائس چانسلر مقرر کیا۔

عینی شاہدین کہتے ہیں کہ جب پروفیسر کرار حسین کراچی سے طیارہ کے ذریعے کوئٹہ ایئرپورٹ پہنچے تو گورنر غوث بخش بزنجو نے ان کا خود استقبال کیا اور ان کا بیگ خود سنبھال لیا۔ پروفیسر صاحب کو پہلے کوئٹہ کے گورنر ہاؤس لے جایا گیا جہاں سے وہ اپنی رہائش گاہ گئے۔ نیپ حکومت نے ہی بلوچستان کا پہلا بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں قائم کیا۔

2013 میں مکران سے تعلق رکھنے  والے ایک نوجوان اشتراکی ڈاکٹر مالک بلوچ جن کا تعلق متوسط طبقہ سے ہے صوبہ کے وزیر اعلیٰ بنے۔ بلوچستان کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مالک کے دور میں بلوچستان کے تعلیمی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت نے نیشنل پارٹی کے منشور پر عمل کرتے ہوئے تعلیم کا بجٹ 4فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد کردیا۔ پھر صوبہ کے لیے چھ یونیورسٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ یونیورسٹیاں سبی، خضدار، لورالائی، کچھ، گوادر اور نصیر آباد میں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پھر خضدار، لورالائی اور کچھ میں نئے میڈیکل کالج قائم ہوئے۔

ڈاکٹر مالک کے دور میں تربت یونیورسٹی کا گوادر کیمپس بنایا گیا۔ پھر ثناء اﷲ زہری کے دور میں اس کیمپس کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا مگر موجودہ حکومت کے دور میں اس یونیورسٹی کی تعمیر مسلسل التواء کا شکار ہے۔ ثناء اﷲ زہری وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر مالک کی پالیسیوں کو جاری رکھا مگر باپ پارٹی کی حکومت آئی اور جام کمال وزیر اعلیٰ بنے تو تعلیم کے شعبہ کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ گذشتہ حکومتوں کے کئی پروجیکٹ مختلف وجوہات کی بناء پر التواء کا شکار ہوئے۔

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل نے خضدار کے علاقہ میں یونیورسٹی میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے اپنی زمین عطیہ کے طور پر دی مگر یہ یونیورسٹی اب تک تعمیر نہیں ہوسکی۔ اب سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختر مینگل نے اپنے ایک گھر میں پرائمری اسکول قائم کیا ۔بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ کا شمار پاکستان کے واحد خوش نصیب شخص کی حیثیت سے ہوتا ہے کہ ان کے دادا جام غلام قادر اور پھر والد جام یوسف وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز رہے۔ ان کے دادا کو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ طویل ترین وزیر اعلیٰ رہنے کا اعزاز حاصل ہے مگر اس خاندان نے کبھی تعلیم کو عام کرنے پر توجہ نہیں دی۔ اسی تناظر میں موجودہ وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی کہ ایک یونیورسٹی تو سنبھل نہیں رہی ہے مزید یونیورسٹیاں کیسے قائم ہوسکتی ہیں۔

بلوچستان کے ایک رہنما جان بلیدی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے خاتمہ کی کوئی امید نہیں ہے اور اس کی بناء پر تعلیمی ادارے بند ہیں۔ پختون خوا، پنجاب اور سندھ میں اسکولوں و کالجوں کے طلبہ کو تدریس سے منسلک کرنے کے لیے Online کلاسوں کو رائج کیا جارہا ہے۔ ان صوبوں کے بڑے چھوٹے شہروں میں بچے کسی حد تک اس جدید طریقہ سے کچھ سیکھ رہے ہیں مگر بلوچستان میں ابھی انٹرنیٹ ہی نایاب ہے۔ بلوچستان میں جنگوں سے ہمدردی رکھنے والے ایک صحافی جو کراچی میں مقیم ہیں نے بتایا کہ مکران ڈویژن کے علاوہ کئی اور علاقوں میں سیکیورٹی کلیئرنس نہ ہونے کی بناء پر 3G اور 4G کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔

بلوچستان کے بیشتر طلبہ کے والدین معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔ ان کے لیے اپنے بچوں کے لیے کتابیں کاپیاں فراہم کرنا مشکل ہے۔ اس صورتحال میں وہ لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون کی سہولت فراہم کر ہی نہیں سکتے۔ بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ برسر اقتدار حکومتوں نے سوائے نیشنل عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومتوں کے کبھی بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے بارے میں کسی حکومت نے عملی اقدامات نہیں کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر مالک کی حکومت سے پہلے ہر حکومت کا تعلیمی بجٹ انتہائی کم رہا۔ کوئٹہ میں مقیم دانشوروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی حکومتیں کبھی بھی بجٹ بنانے میں مکمل طور پر خودمختار نہیں رہیں۔ اسلام آباد سے تقرر کیے جانے والے بیوروکریٹ بجٹ تیار کرتے رہے۔

ان بیوروکریٹس نے کبھی اس حقیقت کو محسوس نہیں کیا کہ بلوچستان تعلیمی طور پر پسماندہ ہے اور بلوچستان میں نجی شعبہ نے صرف کوئٹہ میں تعلیمی ادارے قائم کرنے میں دلچسپی لی ہے۔ اس صورت میں بلوچستان کا تعلیمی بجٹ سب سے زیادہ ہونا چاہیے تھا ۔ ایک سیاسی کارکن کا کہنا ہے کہ اگر 1972 میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت قائم نہ ہوتی تو بلوچستان میں نہ تو یونیورسٹی نہ میڈیکل کالج قائم ہوتا۔ بقول ایک سیاسی کارکن کے بلوچستان کے لوگوں نے سخت جدوجہد کرکے ہی تعلیمی سہولتیں حاصل کی ہیں۔ بلوچستان کے کچھ اضلاع میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ غریبوں کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے دیہاڑی دار مزدوروں کی بہبود کے لیے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی ۔ وہ تعلیم کے لیے برسوں سے کام کررہے ہیں ۔

دنیا بھر سے ملنے والے عطیات کے ذریعے میانوالی میں ایک بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی قائم کرچکے ہیں۔ انھیں بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی پر فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کی زیر نگرانی کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم کے ادارہ نے  یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے Online کلاسوں کا نسخہ تجویز کیا۔ وزیر اعظم کی پسندیدہ حکومت بلوچستان میں قائم ہے۔ انھیں بلوچستان کی حکومت کو ہدایت کرنی چاہیے کہ بجٹ کا 40 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کرے ، اور آن لائن کلاسوں سے استفادہ کے لیے طلبہ میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی اسکیم شروع کی جائے۔ وزیر اعظم کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سہولت پر عائد پابندی ختم کردی گئی ہے۔ شاید بلوچستان کے طلبہ کو اس فیصلہ سے کوئی تشفی ہوسکے۔

The post بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی اور انٹرنیٹ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XH3taK
via IFTTT

صحافیوں کے لیے امدادی پیکیج ایکسپریس اردو

بڑی خوشی ہوئی یہ خبر پڑھ کر کہ صوبہ پختون خوا کی حکومت نے صحافیوں کو فرنٹ لائن خدمات سرانجام دینے پر کچھ امدادی یا مراعاتی پیکیج عطا کیے۔ ہم خود تو نہ ’’واں‘‘ کے کبھی تھے نہ ہیں اور نہ نکالے ہیں یعنی:

واں کے نہیں یہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں

’’کعبے‘‘ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی

کا ساحال بھی نہیں کیونکہ ’’نکالے‘‘ تو وہ جاتے ہیں جو داخل کیے جاتے ہیں جب کسی کو داخل ہی نہیں کیا گیا ہو بلکہ داخل ہونے دیا ہی نہ گیا ہو تو وہ بیچارے تو ’’نکالے ہوؤں‘‘ یعنی دور کی نسبت بھی نہیں رکھتے۔ لیکن پھر بھی اپنی قوم اپنا قبیلہ تو ہے خون کا نہ سہی ’’سیاہی‘‘ اور قلم کا رشتہ تو ہے۔ وہ سمجھیں نہ سمجھیں ہم تو انھیں اپنا سمجھتے ہیں اس لیے بڑی خوشی ہوئی اور اس لیے ہوئی کہ ہم خود لگ بھگ پچاس سال یعنی نصف صدی اس کسمپرسی، بے یقین اور بے حقوق پیشے میں رہے ہیں جہاں نام تو بڑے ہوتے ہیں لیکن درشن اتنے چھوٹے کہ دکھائی ہی نہ دیں۔

بڑے شہروں کا تو پتہ نہیں لیکن اپنے اس صوبے میں اگر کوئی انتہائی بے اعتبار بے سہارا بے حقوق اور بے بضاعت وبے ضمانت پیشہ ہے تو وہ یہی صحافت کا ہے۔ نہ اجرت اور تنخواہ کا کوئی نظام، نہ ملازمت کی گارنٹی یا تحفظ، نہ ہی خدمات کی کوئی ستائش یا صلہ۔ ایک منٹ میں ادھر اور ایک منٹ میں ادھر۔ چند اخبارات یا اداروں کو چھوڑ کر باقی ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔بیچارے دن بھر جوتیاں چٹخانے والے جو اجرت اور معاوضہ پاتے ہیں ’’تنخواہ‘‘ تو اسے کہا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ بری سے بری ملازمت میں کم سے کم ’’نوٹس‘‘ دینے کا چلن تو ہے جب کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے بقول غالب:

ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ

تو کیا ہے؟ اے نہیں ہے

یہ سب کچھ ہم پر گزرتا رہا ہے۔ اس لیے جانتے ہیں کہ گزرنے والوں پر کیا گزرتی ہے بیچارے درد کے مارے، بے سہارے، زیادہ تر صحافی غربت کی لکیر تو کیا لکیر کے سائے سے بھی نیچے کہیں ’’زندگی‘‘ نہیں بلکہ شرمندگی چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ مطلب اور خلاصہ اس ساری کہانی کا یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی کوئی گارنٹی کوئی تحفظ اور کوئی بھروسہ نہیں۔ تنخواہ یا اجرت مالکان کی مرضی اور ہونا نہ ہونا بھی:

نحیف و زار ہیں کیا زور ’’باغباں‘‘ پہ چلے

جہاں بٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح

اس طبقے کا حال بھی ہوبہو ویسا ہے جو تعلیمی چھابڑی فروشوں یعنی پرائیوٹ اسکولوں کا ہے جن کی اجرت، دیہاڑی دار مزدور سے تقریباً چار گنا سے بھی کم ہوتی ہے لیکن مجبور و بے روزگار نوجوان اور خواتین اس میں بھی اپنے تعلیم یافتہ کی لاج کسی نہ کسی طرح رکھ ہی لیتے ہیں اور یہاں بھی نام تو صحافی کا ہے، کس نے دیکھا ہے کہ بیچارے کے پیٹ میں روٹی ہے یا نہیں، گھر میں چولہا جلتا ہے یا نہیں؟

مگر لکھوائے کوئی ان کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

یقین کریں اس امدادی پیکیج اور ان بیچاروں کی خدمات کا عملی اعتراف سن کر خوش ہوا، چلو دیر سے ہی سہی لیکن کچھ پوچھ تو ہوئی۔ ایک عجیب بات جو ہمیں حیران کیے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ جس مشیراطلاعات اجمل وزیر نے یہ پیکیج تقسیم کیے اور اس کے ساتھ ان بیچارے کس مپرسوں کا پرس کیا۔ ان کا نام نہ کبھی صحافیوں میں سنا ہے نہ پڑھا ہے جب کہ ان سے پہلے اسی جگہ ایک صحافی بھی صحافت کی برکت دار گاڑی میں بیٹھ کر پہنچے تھے۔

اور لگ بھگ چھ سات سال سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ لیکن کبھی نہ سنا نہ پڑھا کہ اس نے کبھی اپنے قلم و قبیلے سے نسبت کا بھی اظہار کیا ہو، کسی صحافی یا اس کے رشتہ دار کے مرنے پر دعائے فاتحہ کے سوا۔ لیکن موجودہ ایک طرح سے اجنبی اور نا آشنا نے اچھی خاصی آشنائی شناسائی اور قدردانی نبھائی جس پر ہم ان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں اور ساتھ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں اور کردار کو آگے بڑھاتے رہیں۔ کسی کو یقین نہیں آئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ کس مپرس پیشے میں آنے والے بے چاروں پر کیا گزرتی ہے، چند ایک کے سوا اور وہ چند ایک صحافت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی دوسری خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ’’بن‘‘ جاتے ہیں یا خود کو ’’بنا‘‘ ڈالتے کیونکہ ان کو بنانا اور نبھانا دونوں آتے ہیں۔

ہمارے دیکھتے ایسے لوگ بھی آج کروڑوں میں کھیل رہے اور حکومتوں کو دوہ رہے ہیں جن کو ایک جملہ تک لکھنا یا بنانا نہیں آتا تھا لیکن وہ صحافت کی وجہ سے نہیں کثافت کی وجہ سے بنے ہیں ورنہ ہم ان پچاس برسوں کے چشم دید و گوش شنید بلکہ خودگزرید گواہ ہیں۔ ان سچے صحافیوں کو بھی جانتے ہیں کہ جن کو نہ خود بنانا آتا تھا نہ دوسروں کو۔ اس انگریزی کا ’’بنانا‘‘ ہو کر اپنے چھلکے ہی میں سڑگل گئے کیونکہ ان میں سے ایک ہم بھی ہیں۔

تمہارے حلقہ بگوشوں میں ایک ہم بھی ہیں

پڑا رہے یہ سخن کان میں ’’گہر‘‘ کی طرح

اس سے پہلے ایک خوشی اس وقت بھی ہوئی تھی جب اس سے پچھلی حکومت نے ’’فنکاروں‘‘ کا ’’پوچھا‘‘ تھا کیونکہ وہ بھی بیچارے تقریباً وہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں پشتو کہاوت ہے کہ

کتہ باندے نو کٹوئی باندے۔ کتہ لاندے نوکٹوئی لاندے۔ یعنی جب تک گدھے کی پیٹھ پر بوجھ ہے تو چولہے کے اوپر ہانڈی بھی ہے اور جب بھی بوجھ اترا ہانڈی بھی چولہے کے نیچے، بہرحال ہم ایک مرتبہ پھر صوبائی حکومت اور مشیراطلاعات کا تشکر کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ توقع بھی۔ کہ اپنی توجہ ان بیچاروں پر بنائے رکھیں جو ثواب دارین قسم کا کام ہے۔

اور یہ ہم اس لیے نہیں کہہ رہے ہیں کہ اپنا قلم قبیلہ ہے یا اپنا بھی کوئی مفاد ہے، ہم تو اس دور ہی سے نکل آئے ہیں کہ جب دانت تھے تو چنے نہ تھے اور اب چنے ہوں بھی تو کھائیں گے کیسے؟۔ ہمارا تو نظریہ ’’قلم‘‘ ہی دوسرا ہے۔ نہ ہی ہمارے پاس وہ جھولی تھی جو پھیلائی جا سکتی اور نہ ہی وہ گردن جو کسی تمغے کے لیے جھکائی جا سکتی۔ ویسے بھی میرے ایک بزرگ کا قول ہے کہ خود کھاؤ گے تو کوڑا بن جائے گا دوسروں کو کھلاؤ گے تو پھول بن جائے گا اور دوسرے بھی اپنے ہی تو ہیں۔

The post صحافیوں کے لیے امدادی پیکیج appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36HfLE9
via IFTTT

ڈاکٹر صاحب اور پاکستان ایکسپریس اردو

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جب تک ہمارے ساتھ موجود ہیں ان کا بار بار ذکر ایک طرح سے احسان مندی کا عوامی اظہار ہے اور میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق ہماری نئی نسل کو بھی معلومات ہوں کہ وہ شخص کون ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت میں چین اور آرام کی نیند سوتے ہیں۔

نوجوان نسل کو یہ یاد دہانی بار بار کرانی انتہائی ضروری ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہماری نوجوان نسل کسی اور ہی دنیا میں رہتی ہے اس کو اپنے محسنوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے ۔ یہ ہم بزرگوں کا فرض اور ہم پر قرض ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اپنے محسنوں اور ان کے احسانوں کے بارے میں آگاہ کریں تا کہ وہ اپنی آیندہ نسلوں کو یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ کون لوگ تھے جن کی وجہ سے پاکستان ایک آزاد، خودمختاراور باوقار ملک ہے ۔

پاکستان بن گیا اپنے ایک دشمن کو ساتھ لے کر جس کا نام بھارت تھا اور جس پر ہندو کی حکومت تھی ۔ دونوں ملکوں کے درمیان دونوں قوموں کی طرح ایک تاریخی چپقلش مزید سخت ہو گئی ۔ جنگیں ہوئیں ، فوجی آمریتوں کی وجہ سے پاکستان وہ پاکستان نہ بن سکا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کا نقشہ قائد اعظم کے ذہن میں تھا اور جس میں انھوں نے رنگ بھرنے شروع کر دیے تھے۔

غیر جمہوری حکومتوں کی وجہ سے پاکستان چالاک اور سمجھدار ہندو کے مقابلے میںکمزور ہو کردولخت ہو گیا لیکن اس سانحہ نے ایک ایسا لیڈر پیدا کر دیا جس کو دنیا ڈاکٹر قدیر خان کے نام سے جانتی ہے بلکہ جانتی کیا لرزتی ہے اور ان کو پابند کرنے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے ۔

اس لیڈر نے سقوط ڈھاکہ کے وقت یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ پاکستان پر پھر ایسا وقت نہیں آنے دے گا۔ ان کے اس نعرے کا جواب دینے کے لیے کوئی سیاسی ورکر تو موجود نہیں تھے جو واہ واہ کرتے لیکن اس نے اپنے ساتھی ایسے منتخب کیے جن کے ساتھ مل کر اس نے پاکستان کے ساتھ اپنے وعدے اور اس کے لیے لگائے گئے نعرے کو سچ ثابت کر دکھایا۔ چونکہ یہ نعرہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کو لگانے والا کوئی سیاسی لیڈر تھا جو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نعرے لگاتے رہتے ہیں یہ ایک سچا پاکستانی تھا جس نے قوم کے ساتھ اپنی وفاداری کو ثابت کردکھایا۔

اس نے اپنے ساتھی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر اپنی قیادت میں ایٹم بم بنایا جس پر قوم نے اسے محسن پاکستان کا خطاب دیا۔ ڈاکٹر قدیر خان کے اس کارنامے سے ٹوٹا ہوا پاکستان مہ کامل بن کر دنیا کے آسمان پر جگمگانے لگا اور پاکستانی قوم کیا بلکہ پوری مسلم اُمہ ان کے اس کارنامے سے سرشار ہو گئی اور مخالفوں کے سینوں میں یہ تیر بن کر اتر گیا انھوں نے اسے مسلمان دشمنی میں اسے ’’مسلم بم‘‘ کا نام دے دیا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مورخ جب پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو پاکستان دو آدمیوں کے نام سے جانا جائے گا ایک قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن میں سے ایک نے پاکستان بنایا اور دوسرے نے اس کو اس کے پیدائشی دشمن کے مقابلے میں ناقابل تسخیر بنادیا۔ اسی لیے ایک کوہم بانی پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں اور دوسرے کو محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا ہے ۔

مجھے یاد ہے کہ جب سوویت یونین ختم ہوا تو نیٹو کے جنرل سیکریٹری سے سوال کیا گیا کہ اب نیٹو کو باقی رکھنے کا کیا فائدہ ہے اس کا مختصر جواب تھا کہ اسلام ابھی باقی ہے ۔ میں کئی بارعرض کر چکا ہوں کہ بھارت پاکستان کے مقابلے میں آج بڑا نہیں ہوا بلکہ شروع دن سے یہ ملک پاکستان سے بڑا تھا۔ رقبے کے لحاظ سے آبادی ، صنعت و حرفت ،مادی اور ترقی کے دوسرے تمام وسائل کے اعتبار سے پاکستان اس سے چھوٹا ملک تھا لیکن پاکستانی بھارتیوں سے چھوٹے ہر گز نہیں تھے اور یہی وہ طاقت تھی جس نے نہ صرف پاکستان کو زندہ رکھا بلکہ رفتہ رفتہ آگے بڑھایا اور ایک آسودہ ملک بنا دیا اور پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب یہ ملک ایٹمی طاقت رکھنے والے دنیا کے چند ملکوں میں شامل ہو گیا ۔

ہم پاکستانیوں کو اپنی موجودہ حکومت سے ایک گلہ ہے کہ اس نے کشمیر پر واویلا تو بہت مچایا اور ہمارے وزیر اعظم نے دنیا میں اپنے آپ کو کشمیریوں کا سفیر بھی بنا لیا لیکن پھر وہی روایتی سستی آڑے آگئی اورہم چند دن کے بعد کشمیریوں کو بھول گئے اور کشمیر پر بھارت کی بالادستی کو بلاوجہ تسلیم کر لیا ۔ میں یہ جانتا ہوں کہ کسی جنگ میں ہارنا یا جیتنا تقدیر کا کھیل ہے۔

امریکا جیسا طاقتور ملک افغانستان میں ہار کر واپس جارہا ہے جیسا کہ پہلے ایک اور سپر پاورسوویت یونین افغانیوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی تھی یعنی ہم نے اسی دنیا میں دیکھا کہ کمزور جیت گئے اور طاقتور ہار گئے اصل طاقت اس عزم کی ہے جو دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور اس طاقت کی ہے جسے ہم مسلمان ایمان اور یقین کے نام سے پہچانتے ہیں ۔

اس عزم اور ولولہ کومہمیز ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم کی صورت میں بخشی۔ مئی کا مہینہ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی یاد دلاتا ہے ۔ مجھے علم نہیں کہ پاکستانی ایٹم بم کے متعلق ہمارے طالبعلموں کو کچھ پڑھایا جاتا ہے یا نہیں لیکن مجھے یہ علم ضرور ہے کہ ہم نے ایٹم بم کے خالق کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ایک تلخ داستان ہے ۔ جس کی تلخی مدتوں محسوس ہوتی رہے گی لیکن اس تلخی کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وجہ سے پاکستان کا نام روشن رہے گا اور پاکستانی قوم انھیں خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔

The post ڈاکٹر صاحب اور پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Mc3TAv
via IFTTT

داؤ لگا تو پاجی ورنہ ہم سب حاجی ایکسپریس اردو

میری بلا سے سردرد کی پیٹنٹ گولی دس روپے کی آئے کہ سو کی۔مجھے تو کوئی بس یہ بتا دے کہ کیا دس روپے کی گولی بیس روپے کی ہونے کے بعد خالص ملے گی ؟ یہ سوال یوں پیدا  ہو رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کی ڈرگ مارکیٹ میں جعلی دواؤں کا تناسب چالیس سے پچاس فیصد (دیہی علاقوں میں لگ بھگ اسی فیصد) کے درمیان بتایاجاتاہے۔چند بڑے شہر چھوڑ کے قصبات اور دیہات دو نمبر بلکہ تین نمبر دواؤں کی سلطنت ہیں۔ورنہ جگہ جگہ کاہے کو سننا پڑے کہ بس فلاں میڈیکل اسٹور سے دوائیں خریدنا اور کہیں سے مت لینا۔

میرا مسئلہ دواؤں کی قیمت آسمان چھونے سے زیادہ یہ ہے کہ مہنگی ہونے کے بعد کیا اسپتالوں کو ایکسپائرڈ دواؤں کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ہوسکتا ہے دوا ساز کمپنیاں کہیں کہ ہم تو صرف دوائیں بناتے ہیں۔یہ ذمے داری تو ہول سیلرز کی ہے کہ وہ ایکسپائرڈ یا نان ایکسپائرڈ کا خیال رکھیں۔اور ہول سیلرز یہ کہیں گے کہ کمپنیاں ہم سے ایکسپائرڈ دوائیں واپس نہیں لیتیں تو ہم کیا کریں ؟

یہ بات تو طے ہے کہ دوائیں ایک خاص تاریخ کے بعد استعمال نہیں کی جاسکتیں۔ مگر کوئی بتا سکتا ہے کہ پھر ان دواؤں کا آخر ہوتا کیا ہے ؟ میں نے منوں ٹنوں منشیات تلف ہونے یا سیکڑوں لیٹر شراب سے بھری بوتلیں بلڈوزروں سے کچلے جانے کی تصاویر تو بے شمار دیکھی ہیں لیکن آج تک حسرت ہی رہی کہ کوئی دوا ساز کمپنی، کوئی ہول سیلر، کوئی محکمہ صحت، کوئی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی یہ شائع تصویر بھی دکھا دے کہ ایکسپائرڈ دواؤں کے ذخیرے کو برسرِ عام تلف کیا جارہا ہے۔تو پھر یہ سب کہاں جاتی ہیں ؟ کہیں تو جاتی ہی ہوں گی اور وہاں سے ہمارے جسموں میں ہی آتی ہوں گی۔

کیا ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کسی دوا ساز کمپنی کو طے شدہ میکنزم سے انحراف پر سزا دے سکتی ہے؟ شائد سزا کا ڈھانچہ موجود ہے مگر اس ڈھانچے کو کتنی بار زحمت دی گئی۔

مان لیا ڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے بالا بالا دواؤں کی قیمت نہیں بڑھائی جاسکتی لیکن خود اتھارٹی کی منظوری سے بھی جو قیمت بڑھتی ہے اس میں کتنی شفافیت ہوتی ہے ؟ میں سن اسی کے عشرے کے آخری برسوں کے ایک وزیرِ صحت سے واقف ہوں جو ڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے قیمتوں میں اضافہ کروانے کے چند دن بعد ملک سے ایسے چمپت ہوئے کہ زندگی میں واپس نہ لوٹے۔اس زمانے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ دس کروڑ روپے جس وزیر کو یکمشت ہاتھ آجائیں اسے پاکستان میں رہنے کی ضرورت ہی کیا۔تو پچھلے ستر برس میں کیا اپنی نوعیت کا یہ ایک ہی کیس ہوا ہوگا ؟

چلیے گولی ماریں سردرد کی گولی بنانے والے گولی بازوں کو۔اس پاکستان میں کتنے کاروباری ہیں جو منافع کا موقع سامنے ہو اور وہ اس پر شبخون نہ ماریں ؟

کیا پٹرول کی قیمتوں میں اضافے یا کمی کے بعدچوبیس گھنٹے کے لیے پٹرول پمپ بند نہیں ہوتے؟کیا پرانے پٹرولیم، ڈیزل اور گیس اسٹاک کو پرانی قیمت پر ہی خالی کیا جاتا ہے ؟

رمضان کے مہینے میں کیا ہوتا ہے ؟ کون کون مسلمان کاروباری روزے کے ثواب کو روزی کی چاندی سے نہیں بدلتا اور آخری دس روز گاہک کی کھال سے نئے جوتے نہیں بنواتا ؟

نجی کاروباری تو چھوڑیں خود سرکاری کاروباری اور وہ بھی پی آئی اے جیسے ادارے جنھیں ہماری آپ کی جیبوں سے سالانہ اربوں روپے کا امدادی ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔اور جب پی آئی اے کو بیساکھیوں پر کھڑا رکھنے والوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تب پی آئی اے کا کیا رویہ ہوتا ہے ؟

حال ہی میں کووڈ نائنٹین وائرس کی وبا کے دوران آپ نے ملاحظہ کر ہی لیا ہوگا۔کورونا نے محض کسی ایک ایئر لائن کو نہیں بلکہ عالمی ہوابازی کو گھٹنوں کے بل جھکا دیا ہے۔مگر بیشتر ایئر لائنز نے بیرونِ ملک پھنسے ہزاروں شہریوں کو اس غیر معمولی صورتِ حال میں تنہا نہیں چھوڑا بلکہ بلا معاوضہ پھنسے ہوئے شہریوں کو وطن واپس لایا گیا۔پی آئی اے نے بھی ابتدا میں یورپ اور امریکی سیکٹرز کے لیے بالخصوص کچھ پروازیں مفت چلائیں (یعنی ان پروازوںکے اخراجات مسافروں کے بجائے حکومت نے برداشت کیے )۔

مگر پھر خاموشی کے ساتھ یہ پالیسی بدل گئی اور نہ صرف حالات کے جبر کے ہاتھوں خلیجی ممالک میں پھنسے ہوئے مزدوروں سمیت کئی ممالک سے وطن واپسی کے خواہش مندوں سے پورا پورا کرایہ وصول کیا گیا بلکہ بعض سیکٹرز پر دگنے نرخ سے بھی زائد کے ٹکٹ بیچے گئے۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ پروازوں کا نظام معطل ہونے سے آپریشنل اخراجات بڑھ گئے ہیں لہذا زائد کرائے اسی مد میں وصول کیے جارہے ہیں۔ لیکن جب میڈیا میں ہا ہا کار مچی تو پی آئی اے کی قیادت نے ایک جعلی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ اچھا ؟ اس قدر ظلم۔ہم ابھی خبر لیتے ہیں اور سدِ باب کرتے ہیں۔ ‘‘

میرے پاس اس وقت کچھ نہیں بچا مزید سوچنے یا لکھنے کو۔علاوہ اس ہزار بار سنی پھٹیچر کہانی کے۔

’’ بادشاہ کے لشکر نے ایک گاؤں کے نزدیک پڑاؤ ڈالا۔خیمے تن گئے۔گوشت چولہوں پے چڑھ گیا۔ بادشاہ نے شاہی کارندے کو دوڑایا کہ گاؤں سے نمک خرید لاؤ۔کسی لال بھجکڑ درباری نے پوچھا حضور نمک جیسی حقیر شے خریدنے کی کیا ضرورت۔ گاؤں والے ویسے ہی ڈلے کے ڈلے لے آئیں گے۔ آخر کو آپ ان کے بادشاہ اور وہ رعایا ہیں۔ بادشاہ نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا اگر میں نے نمک جیسی بے قیمت شے بھی مفت حاصل کرنے کی اجازت دے دی تو اسے مثال سمجھ کے میرا لشکر پورے گاؤں کو مفت کا مال سمجھ کے اجاڑ ڈالے گا۔

مگر یہ پرانے دور کی کہانی ہے جب بادشاہ کی چلا کرتی تھی۔اب تو بادشاہ خود چابی سے چلتا ہے۔ان حالات میں دواؤں کا طالب مریض ہو ، کہ سستی کھاد کا منتظر کسان ، کہ موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے والا بے روزگار ، کہ اپنی تنخواہ میں ہی گزارہ کرنے والا صابر و سادہ پوش۔ان سب کے لیے ایک ہی پیغام ہے۔جاگدے رہنا ساڈہے تے نہ رہنا۔

 

The post داؤ لگا تو پاجی ورنہ ہم سب حاجی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2McY4mh
via IFTTT

چاند کی رویت اور سائنس ایکسپریس اردو

پاکستان میں رویتِ ہلال کا ہمیشہ سے ایک انتہائی سنجیدہ اور حساس مسئلہ رہا ہے۔ تاہم چاند دیکھنے پر اختلاف یا تنازعات صرف پاکستان تک محدود نہیں، آٹھویں اور نویں صدی میں بھی اس پر مختلف آراء رہی ہیں جب امام شافعی  ؒ نے سائنس پر اعتماد کو ترجیح دی اور امام احمد بن حنبلؒ آنکھ سے چاند دیکھنے کی رائے پر اصرار کرتے رہے۔

اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (اسنا) کے قومی کوآرڈی نیٹر برائے رویت ہلال سید خالد شوکت کا کہنا ہے:’’سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی، جب انسان کو چاند پر قدم رکھے تین دہائیاں گزر چکی ہیں، بعض مسلمان اب بھی اسلامی تقویم کے لیے سائنسی علم کے استعمال سے گریز کرتے ہیں اور اپنی رائے پر جمے ہیں۔

رویت ہلال کی تصدیق کے لیے وہ نصف شب تک انتظار کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ سائنسی طریقہ کار کے مخالفین کا مؤقف یہ ہے کہ دور پیغمبرﷺ میں عام افراد اس علم سے واقف نہیں تھے اس لیے انھیں براہ راست اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے کا طریقہ تعلیم کیا گیا اور اس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ اگر ہم اس طرز استدلال کو تسلیم کر لیں تو ہمیں کاروں کے بجائے اونٹوں پر سواری کرنا چاہیے کیوں کہ اسلام کی اولین سرکردہ شخصیات کا یہی طریقہ تھا اور اسے بھی ’’ناقابلِ تبدیل‘‘ تصور کرنا چاہیے۔

1974 میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ بہت بعد میں جا کر شعبہ سائنس سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے جوائنٹ سیکریٹری ڈاکٹر طارق محمود کو بھی اس کا رکن بنایا گیا۔ علوم کو دینی اور غیر دینی کے زمروں میں تقسیم کرنے ہی کی وجہ سے آج مسلمان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

دہائیوں سے چاند کے تنازعے کو حل کرنے کے بجائے اسے طول دیا گیا ہے، دہائیوں سے پاکستان میں دو عیدیں ہوتی رہی ہیں اور ہر بار یہ تنازعہ گزشتہ برس کی طرح درپیش ہوتا ہے۔ لیکن اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کیا جاتی۔ اس سال فواد چوہدری نے بطور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی یہ سمجھانے کے لیے کہ سائنسی بنیادوں پر چاند کی درست پیش گوئی کی جاسکتی ہے، پہلے ہی 23 مئی کو چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کی یہ مداخلت بالکل جائز تھی کیوں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ قوانین قدرت اور انھیں تخلیق کرنے والے خدائے بزرگ و برتر کے کلام  کے مطابق ہے۔

’اتحاد‘ اسلامی تعلیمات کا مرکزی نقطہ ہے لیکن ہم رفتہ رفتہ اس سے محروم ہو چکے ہیں اور ہمارے مذہبی پیشوا اسے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ خدا کی وحدانیت میں اسے دنیا کا واحد خالق تسلیم کرنے کے ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی تخلیقات اس کے جاری کردہ ان قوانین کے تحت یکساں ہیں جن پر اس کائنات کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

ہمیں اگر یہ تصور سمجھ میں آ جائے تو اس بات کا بھی بہ آسانی ادراک ہو سکتا ہے کہ قوانین فطرت اور اسلامی تعلیمات میں کوئی ایسی خلیج ہو ہی نہیں سکتی جسے دور نہ کیا جا سکتا ہو۔ وہ قوانین جو چاند اور ستاروں کا محور متعین کرتے ہیں اس کی مدد سے چاند کی پیش گوئی بھی کی جا سکتی ہے۔

مسلم دنیا کے نمایاں فلاسفہ میں شامل علامہ اقبال نے اپنے خطبات ’’تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ‘‘ میں مسلمانوں کو گہری نیند سے جگانے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام دوسروں جیسا مذہب نہیں جنھیں ان مذاہب کے رہنماؤں نے صرف اس لیے زندگی سے نکال باہر کیا تھا کہ وہ اپنے اعتقادات اور سائنسی احکام میں مطابقت پیدا نہیں کر پائے تھے۔ اسلام ایک جدید مذہب ہے اور ایک خاص حد تک اس میں اتنی لچک پائی جاتی ہے کہ مذہبی تعلیمات اور سائنس میں پائی جانے والی خیالی دوریوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

اس کی تعلیمات میں یہ فہم پہلے سے موجود ہیں کہ دینی احکامات اور فطرت کے قوانین دونوں ہی ذات باری تعالی کی تخلیق ہیں اس لیے علمی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے احکامات کی تعبیر و تشریح بھی کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تاویل و تشریح کی حدود بھی دین میں متعین ہیں۔ چوں کہ اس تحریر کے بہت سے قارئین اقبال کے اس بنیادی طرز فکر سے پوری طرح واقف نہیں ہوں گے اس لیے ان کے لیے یہاں ان کے خطبات میں سے ایک اقتباس پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے: ’’آپ کو یہ سن کا اطمینان ہو گا کہ اسلام کی ابتدا، عقلِ استقرائی کی ابتدا ہے۔ اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچی ہے ۔

اس میں یہ ادراک گہرے طور پر موجود ہے کہ زندگی کو ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے نہیں رکھا جا سکتا اور یہ کہ ایک مکمل خود شعوری حاصل کرنے کے لیے انسان کو بالآخر اسے اپنے وسائل کی طور موڑ دینا چاہیے۔ اسلام میں پاپائیت اور موروثیت کا خاتمہ، قرآن میں استدلال اور عقل پر مسلسل اصرار اور اس کا بار بار فطرت اور تاریخ کے مطالعے کو انسانی علم کا ذریعہ قرار دینا، ان سب کا تصور ختم نبوت کے مختلف پہلوؤں سے گہرا تعلق ہے۔‘‘

اقبال مزید فرماتے ہیں: ’’قرآن حکیم کے مطابق علم کے (روحانی کے علاوہ) دو دیگر ذرائع بھی موجود ہیں ؛ فطرت اور تاریخ۔ ان دو ذرائعِ علم سے استفادہ کی بنا پر ہی اسلام کی روح  اپنے اعلیٰ مقام پر دکھائی دیتی رہی ہے۔ قرآن حقیقت اعلیٰ کی نشانیاں سورج میں دیکھتا ہے، چاند میں دیکھتا ہے، سایوں کے گھٹنے اور بڑھنے اور دن اور رات کے آنے جانے میں دیکھتا ہے۔

انسانوں کے مختلف رنگ و نسل اور زبانوں کے تنوع میں اور مختلف اقوام کے عروج و زوال اور دنوں کے الٹ پھیر میں دیکھتا ہے۔ درحقیقت فطرت کے تمام مظاہر میں دیکھتا ہے جو انسان کے حسی ادراک پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان  نشانیوں پر غور و فکر کرے اور ان سے ایک اندھے اور بہرے انسان کی طرح اعراض نہ کرے۔ کیوں کہ وہ انسان جو ان آیات الہی کو اپنی اس زندگی میں نہیں دیکھتا وہ آنے والی زندگی کے حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔‘‘

اقبال نے فکریات اسلامی کی تشکیل تجدید کے عنوان سے ان خطبوں میں مذہبی فکر پر دوبارہ غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جدید دور کے مسلمان کے سامنے بڑے اہداف ہیں۔ اسے اپنے ماضی سے کٹے بغیر اسلام کے پورے نظام پر دوبارہ سوچنا ہے۔‘‘

رمضان اور رویت ہلال سے متعلق فیصلوںمیں غیر جانب داری برقرار رہنی چاہیے۔ تقریباً تمام ہی امت مسلمہ مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کے مطابق روزہ اور عیدکرتے ہیں، پاکستان میں قومی اتحاد کے لیے یہ فیصلہ بھی مناسب ہی رہے گا۔ ہم ہر سال چانددیکھ سکتے ہیں لیکن جھگڑے نہیں!

( فاضل کالم نگار اکرام سہگل سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )

The post چاند کی رویت اور سائنس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2M8WXEl
via IFTTT

سعودی حکام کا مسجد نبویﷺ کو نمازیوں کے لیے کھولنے کا اعلان شاہی منظوری پر اتوار 31 مئی 8 شوال سے مسجد نبویﷺ نمازیوں کے لیے کھول دی جائے گی. مدینہ منورہ گورنریٹ

وزیر مملک شہریار آفریدی کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا میرا کرونا وائرس ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے اور میں نے ڈاکٹرز کی ہدایت پر اپنے آپ کو گھر پر آئسولیٹ کرلیا ہے. ٹوئیٹ

امریکہ میں سیاہ فام شخص کے قتل میں ایک نہیں تین افراد ملوث نکلے، نئی ویڈیو سامنے آ گئی اس سے قبل وائرل ویڈیو میں ایک سفید فام پولیس افسر کو گھٹنے کی مدد سے جارج فلوئڈ کی ... مزید

بھارت میں بندروں کا لیب ٹیکنیشن پر حملہ، کورونا زدہ مریضوں کے خون کے نمونے چھین کر فرار ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ میں لیبارٹری کے ٹیکنیشن پر بندروں کا حملہ اس وقت ہوا ... مزید

بھارت فالس فلیگ آپریشن کے بہانے تلاش کررہا ہے، اگر بھارت نے کوئی بھی حماقت کی تو ہم تیارہیں‘ آج بھارت کی طرف سے جاسوسی کی ایک اور کوشش پاکستان نے ناکام بنائی‘ بھارت ... مزید

پاکستان میں تعینات جاپان کے سفیر کی گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران اقوام متحدہ امن دستوں میں پاک فوج کی خدمات کی تعریف

اقوام متحدہ کے عالمی امن دستوں کے دن کی مناسبت سے دنیا میں امن کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے پاکستان کے سپاہی عامر اسلم کو بعد از مرگ ایوارڈ سے نوازا گیا ڈی جی ... مزید

امریکہ میں کورونا کے شکار مزید 1200 سے زائد مریض چل بسے ہلاکتوں میں مسلسل اضافے کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کورونا کے باعث مجموعی اموات کی تعداد 1 لاکھ 3 ہزار کے قریب ... مزید

وزیر مملک شہریار آفریدی کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا میرا کرونا وائرس ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے اور میں نے ڈاکٹرز کی ہدایت پر اپنے آپ کو گھر پر آئسولیٹ کرلیا ہے. ٹوئیٹ

امریکہ میں سیاہ فام شخص کے قتل میں ایک نہیں تین افراد ملوث نکلے، نئی ویڈیو سامنے آ گئی اس سے قبل وائرل ویڈیو میں ایک سفید فام پولیس افسر کو گھٹنے کی مدد سے جارج فلوئڈ کی ... مزید

بھارت میں بندروں کا لیب ٹیکنیشن پر حملہ، کورونا زدہ مریضوں کے خون کے نمونے چھین کر فرار ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ میں لیبارٹری کے ٹیکنیشن پر بندروں کا حملہ اس وقت ہوا ... مزید

بھارت فالس فلیگ آپریشن کے بہانے تلاش کررہا ہے، اگر بھارت نے کوئی بھی حماقت کی تو ہم تیارہیں‘ آج بھارت کی طرف سے جاسوسی کی ایک اور کوشش پاکستان نے ناکام بنائی‘ بھارت ... مزید

پاکستان میں تعینات جاپان کے سفیر کی گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران اقوام متحدہ امن دستوں میں پاک فوج کی خدمات کی تعریف

اقوام متحدہ کے عالمی امن دستوں کے دن کی مناسبت سے دنیا میں امن کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے پاکستان کے سپاہی عامر اسلم کو بعد از مرگ ایوارڈ سے نوازا گیا ڈی جی ... مزید

Thursday, May 28, 2020

بھارت اور چین میں کشیدگی کی نئی لہر… لیکن کس لیے؟ ایکسپریس اردو

بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی اس بار سنگین مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس تناؤ کو 1999 میں پاکستان کے ساتھ کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہا جارہا ہے۔ اس سے قبل 2017 میں بھارت اور چین کی افواج ڈوکلام کے مقام پر آمنے سامنے آئی تھیں۔ لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ سمیت بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے مختلف مقامات پر دونوں جانب سے افواج کی موجودگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

سرحدی تنازعہ اس قدر کشیدہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے منگل کو بری، بحری اور فضائیہ تینوں افواج کے سربراہوں اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوبھال سے مشورہ کیا۔ لیکن اس ملاقات کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی فوج اور چینی افواج کے درمیان سرحدی جھڑپیں کوئی غیرمعمولی بات نہیں، بلکہ یہ ہر اس ملک کےلیے معمولی بات ہے جن کے آپس میں تعلقات بہت اچھے نہیں ہوتے۔ یوں یہ بات بہت عام ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔

لیکن حالیہ غیرمعمولی کشیدگی کی کیا وجوہات ہیں جس میں چینی فوج بھارتی سرحد کے تقریباً 4 کلومیٹر اندر گھس آئی اور بھارتی فوجیوں کو قید کرلیا۔ گوکہ انھیں بھارتی درخواست پر رہا کردیا گیا لیکن یہ کسی بھی ملک کی آرمی کےلیے بے پناہ شرمندگی کی بات ہے کہ اس کی فوج کی دشمن کے ہاتھوں گرفتارہونے کے بعد درخواست پر رہائی عمل میں لائی گئی؟

آپ کو معلوم ہوگا کہ 1959 میں جب شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز ہوا اور ہزاروں چینی اور پاکستانی انجینئر اور مزدوروں نے 20 برس تک اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے اس کو مکمل کیا تو بھارت کی جانب سے کوئی ردعمل دیکھنےمیں نہیں آیا۔ 30 جون 2006 کو چین اور پاکستان کے درمیان شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو اور اپ گریڈیشن کا معاہدہ طے ہوا۔ اس وقت بھی بھارت کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان اور چین کی دوستی مثالی ہے اور دیگر متعدد منصوبوں پر کام کیا گیا، تاہم بھارت کی جانب سے کبھی بھی کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ لیکن جیسے ہی پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا معاہدہ ہوا، بھارت کی چیخیں آسمان تک جانے لگیں۔

کیونکہ سی پیک کا منصوبہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے اور بھارت گلگت بلتستان کو ہتھیانے کےلیے بے چین ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جون 2014 میں بھارت میں عام انتخابات میں بی جے پی کے سربراہ اور آر ایس ایس کے سر گرم رکن نریندرمودی کی کامیابی کے بعد مقبوضہ کشمیر، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سے متعلق اور مسلم کش ایجنڈا پر عمل کرنے کا عزم کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ پورے کشمیر کو بھارت میں ضم کرکے دم لیں گے اور آخرکار انھوں نے کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا۔ یہ بالکل اسی طریقہ کار پر عملدآمد کیا گیا ہے جو اسرائیل فلسطین میں کررہا ہے، تاہم نادان بھارت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہاں بعض غدار عرب حکمرانوں کو اسرائیل نے منہ مانگی قیمتوں سے خریدا ہوا ہے جبکہ یہاں ایک جانب پاکستان اور دوسری جانب چین جیسی طاقتیں ہیں۔ تو یہاں یہ فارمولہ اگر استعمال کیا جاتا ہے تو منہ کی کھانی ہی پڑے گی۔

بھارت پورے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے، جس میں آزاد کشمیر بھی شامل ہے اور بھارت اس کو حاصل کرنے کےلیے سردھڑ کی بازی لگا رہا ہے۔ گلگت بلتستان گو کہ آزاد کشمیر کا حصہ ہے، لیکن 29 اگست 2009 کو صدر پاکستان نے پارلیمان کی سفارش پر ’’گلگت بلتستان بااختیار اور خود انتظامی حکومتی آرڈر‘‘ پر دستخط کرکے گلگت بلتستان کو خودمختاری کے حقوق عطا کیے۔ یوں یہاں کے عوام اپنی حکومتی اسمبلی کا انتخاب، اپنا وزیراعلیٰ منتخب کرسکتے ہیں، لیکن انہیں پاکستان کا صوبہ نہیں بنایا گیا۔

بھارت اب تک گلگت بلتستان سے متعلق خاموش تھا اور بین الاقوامی مبصرین کے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ علاقہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔ لیکن افغانستان سے متعلق بھارت نے واخان راہداری کے تحت افغانستان تک رسائی حاصل کرنے کےلیے گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ بتاتے ہوئے اس پر اپنی ملکیت کا اعلان کردیا۔

اس وقت کے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے بیان دیا کہ ’’جموں وکشمیر کا مکمل علاقہ بشمول گلگت بلتستان بھارت کا اٹوٹ انگ ہیں‘‘۔ 2015 میں بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس بی ایس ایف BSF کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی کے قومی سلامتی امور کے مشیر اجیت دوبھال نے اپنے خطاب میں کہا ’’بھارت کی سرحدیں واخان راہداری کے ذریعے افغانستان کے ساتھ 106 کلومیٹر طویل ہیں اور ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا ہے‘‘۔

اس تقریر سے گلگت بلتستان سے متعلق بھارتی عزائم واضح ہوجاتے ہیں کہ بھارت اس خطے کو طاقت کے زور پر ہندوستان میں شامل کرے گا یا شورش کے ذریعے اس کے عوام کو بغاوت پر اکسا کر بھارت سے الحاق پر اکسائے گا۔

بھارتی میڈیا پر تقریباً روزانہ ہی گلگت بلتستان کے حوالے سے بحث و مباحثے کا اہتمام کیا جارہا ہے، جبکہ حال ہی میں بھارتی میڈیا نے گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ ظاہر کرتے ہوئے اپنے نیوز بلیٹن میں اس کا موسم کا حال بھی بتانا شروع کردیا ہے، جیسے کہ یہ بھارتی ریاست کا ہی حصہ ہو، یعنی بھارت خاموشی سے عالمی طاقتوں کے سامنے اپنے موقف کی تائید کےلیے کام کیے جارہا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نے پاکستان دشمنی اور کشمیر کو حاصل کرنے کے وعدوں پر دوبارہ اقتدار حاصل کیا ہے اور وہ اسرائیل اور امریکا کی ایما پر ان وعدوں کو سچ ثابت کرنے کےلیے کسی بھی احمقانہ حد تک جانے کےلیے بالکل تیار نظر آرہا ہے۔

چین کے ساتھ بھارت کی حالیہ ہزیمت اسی منصوبے کا حصہ ہے، جس کےلیے بھارت اور چین کے درمیان متنازعہ سرحدی علاقہ اکسائی چن میں موجود وادی گالوان کے باعث دونوں ممالک کے مابین تناؤ کی ابتدا ہوئی تھی۔

بھارت کا کہنا ہے کہ وادی گالوان کے اطراف میں چینی فوج کے کچھ خیمے دیکھے گئے ہیں، اس کے بعد بھارت نے بھی وہاں فوج کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین کا الزام ہے کہ بھارت وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کررہا ہے۔

گلوبل ٹائمز نے اس تنازع پر اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وادی گالوان ایک چینی علاقہ ہے اور بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے دونوں ممالک کے مابین سرحدی امور سے متعلق معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بھارت مئی کے آغاز سے ہی وادی گالوان میں سرحد عبور کرکے چینی سرزمین میں داخل ہورہا ہے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ متنازع علاقہ آج سے نہیں ہے بلکہ ستر سال سے ہے۔ تو آج بھارت میں انتی جرأت کیسے آگئی کہ وہ یہاں دفاعی تعمیرات، جس میں سڑکیں اور بیرکیں شامل ہیں، کررہا ہے۔ اس علاقے میں بھارت کی سرگرمیوں کے پیچھے موجود عزائم کو سمجھنے کےلیے اس علاقے کو سمجھنا ضروری ہے۔ لداخ، بھارت اور چین کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے، جس کی سرحد مشرق میں چین کے شہر تبت، جنوب میں بھارتی ریاست ہماچل پردیش، مغرب میں جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان اور دور شمال میں قراقرم گزرگاہ کے سنکیانگ کے جنوب مغربی کونے سے ملتی ہے۔ یوں یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سے کشمیر پر حملہ کرنا دیگر سرحدوں کے نسبتاً آسان ہے۔

بھارت نے اپنے اس ناپاک منصوبے پر عمل درآمد کےلیے کورونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کو بہترین تصور کیا اور اس لاک ڈاؤن کے دوران اپنی فوجوں کو متنازع علاقے میں پہنچانا شروع کیا تاکہ اس نقل و حمل کی کم سے کم خبر باہر نکل سکے اور اسرائیلی اور امریکی آشیرباد سے لداخ کے راستے گلگت بلتستان پر اچانک حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ جس کےلیے انتہاپسند مودی حکومت نے گزشتہ برس ”Shyok-DBO” جیسی اہم ترین حساس سڑک کو مکمل کرلیا ہے۔

بھارت کے ناپاک عزائم سے ہم سب پہلے ہی واقف ہیں اور بھارت پہلے بھی پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی ناکام کوشش کرچکا ہے اور اپنے منہ کی کھاچکا ہے اور اب اس نے کورونا وائرس کے بحران کا سہارا لیتے ہوئے سخت ترین لاک ڈاؤن میں اپنی فوجوں اور اسپیشل سروسز کی بڑی تعداد کو مخصوص ہیلی کاپٹروں سمیت کنونشنل جنگ کےلیے انتہائی خطرناک قسم کے ہتھیاروں سے لیس کرکے اپنے منتخب کردہ محاذ کے اردگرد جمع کرنا شروع کیا۔ بھارت کی ان پھرتیوں کا پاکستان کو ادراک تھا اور چین بھی اس سے بے خبر نہیں تھا۔

لداخ میں ہونے والی کشیدگی میرے خیال سے براہ راست چین کےلیے خطرہ نہیں تھی۔ یہ گللگت بلتستان پر حملے کے منصوبے کا حصہ تھا جسے چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے خاک میں ملاتے ہوئے جس طرح لداخ میں بھارت کو ذلت آمیز طریقے سے دھول چٹائی، جس کی مثال نہیں۔ بھارتی سرکار کو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ کس طرح اپنے عوام کا سامنا کریں۔

ایک جانب سوشل میڈیا پر بھارتی فوج کی جانب سے بینر گردش کررہے ہیں جس پر چینی حکومت سے بھارتی فوجیوں کی رہائی کی اپیل ہے تو دوسری جانب بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند نرو نے میڈیا کے سامنے ایسے کسی واقعے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی بےبنیاد خبریں نہ دیں۔

بھارتی عوام اور اپوزیشن جماعتیں نریندر مودی سے پوچھ رہے ہیں کہ چینی فوج کے لداخ میں بڑھتے ہوئے بوٹوں کے سامنے گھگی کیوں بندھی ہوئی ہے؟ بھارت کا پاکستان کے خلاف چوبیس گھنٹے بولنے والا میڈیا اور جنرل بخشی جیسے بھاڑے کے ٹٹو لداخ میں چینی افواج کی پیش قدمی پر ایسے خاموش بیٹھے ہیں، جیسے ان سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔

اور یوں پاکستان آرمی کی چینی افواج کے ساتھ بہترین حکمت عملی سے بھارت کو وہ ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جو عشروں تک بھارت نہیں بھول سکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post بھارت اور چین میں کشیدگی کی نئی لہر… لیکن کس لیے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TRhy42
via IFTTT