Sunday, May 31, 2020

کورونا سے اموات بڑھنے کے خدشات ایکسپریس اردو

ایک جانب توکورونا وائرس سے آنے والے دنوں میں متاثرہ افراد اور اموات کی رفتار میں مزید تیزی کا خدشہ ہے، تو دوسری جانب معاشی واقتصادی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن میں مزید نرمی برتنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ پوری دنیا کورونا کی وباء کا شکار ہے، تاحال اس سے بچاؤکے لیے کوئی دوا یا ویکسین تیار نہیں کی جاسکی ہے۔ اس وبا سے نمٹنے کے لیے ایک حکمت عملی کے تحت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے تعلیمی اداروں کو اگست تک بند رکھنے کی تجویز دی جب کہ شہریوں کے لیے ماسک پہننا لازمی قراردیا گیا ہے۔

گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ملک بھر میں کورونا سے مزید 78 اموات ہوئیں ، جو اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کی زیرصدارت این سی او سی کے اجلاس میں کوویڈ 19 سے متعلق ’’طویل مدتی بیماری‘‘ کے عنوان سے طویل اور قلیل مدتی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ اجلاس کو یہ بھی بتایا گیاکہ کورونا تشخیص کے لیے صلاحیت کو چھ لاکھ 72 ہزار تک بڑھایا جا رہا ہے۔

حکومتی اقدامات لائق تحسین اور قابل ستائش سہی لیکن ہم اس سچائی سے کسی طور پرصرف نظر نہیں کرسکتے کہ آج تک کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شعبہ صحت شامل نہیں رہا ہے، اس وقت ملک بھرکے سرکاری نظام میں 963 پاکستانیوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر،1 ہزار 608 پاکستانیوں کے لیے ایک بیڈ میسرہے۔قابل افسوس امر یہ ہے کہ ملک کے صحت کا بجٹ ہمیشہ مجموعی جی ڈی پی کا ایک فی صد سے بھی کم رہا ہے،گزشتہ مالی سال کے دوران وفاق اور صوبوں کا صحت کا مجموعی بجٹ 203 ارب 74 کروڑ روپے تھا جو جی ڈی پی کا محض صفر اعشاریہ 53 فیصد بنتا ہے۔

یہ درست ہے کہ اس وقت ہم کورونا وائرس کے خلاف نبرد آزما ہیں اورہمارے سامنے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہیں لیکن ہمیں اپنی سوچ وفکر اور ترجیحات کو یکسر بدلنا ہوگا۔ ہماری سب سے پہلی ترجیح عوامی صحت کا موضوع ہونا چاہیے۔

سرکاری اعدادوشمارکے مطابق وفاق نے گزشتہ مالی سال میں صحت کے شعبے میں 12ارب 40کروڑ خرچ کیے، یہ رقم وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کے ساتھ وفاق کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں کے لیے بھی تھی، پنجاب نے ایک فرد کی صحت کے لیے پورے سال میں صرف 818 ، سندھ نے فی شہری 1305 ، بلوچستان نے سالانہ 1231 روپے مختص کیے، خیبر پختونخوا نے فی فرد 769روپے کا بجٹ مختص کیا۔ ان اعداد وشمارکی روشنی میں بصد احترام صرف اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ سنتا جا شرماتا جا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹرظفر مرزا نے کہا کہ ہمیں وائرس کے ساتھ رہنے کیلیے تیار ہوجانا چاہیے۔ بیماری جو عالمی وبا بن جائے، اسے ختم نہیںکیا جاسکتا، اس کے رسک کو محدودکیاجاسکتا ہے، انتہائی صائب بات ہے، درحقیقت ہم پاکستانیوں کا ایک المیہ ہے کہ ہم حقیقت سے نظریں چرانے میں درجہ کمال رکھتے ہیں۔ کورونا وائرس ایک ایسا عفریت ہے جو اب تک لاکھوں انسانوں کو نگل چکا ہے۔ اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں، پوری دنیا کا نظام تلپٹ ہوچکا ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر ہی سے انکاری ہیں۔

سوشل میڈیا سے لے کر عام آدمی کی بیٹھک میں موضوع سخن تو کورونا وائرس ضرور ہے، لیکن جس طرح لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ہم نے احتیاطی تدابیرکونظراندازکیا وہ انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ عیدگزرے چند دن ہوئے ہیں، شاپنگ کے دیوانوں نے جس طرح احتیاطی تدابیر کو اپنے پاؤں تلے روندا، اس کے انتہائی بھیانک نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ہمارے عوام میں یہ شعور بیدار کیا جانا چاہیے کہ ہمارا ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے، ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے لہذا ہمیں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔

یہ خبر بھی انتہائی افسوسناک ہے کہ سندھ اسمبلی کے مزید دو ارکان کورونا وائرس کا شکار ہوگئے اس طرح متاثرہ  ارکان کی مجموعی تعداد دس ہوگئی ہے سندھ اسمبلی کا اجلاس 3جون کو طلب کیاگیا ہے، سندھ اسمبلی کے تمام ارکان کے کورونا ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں، ارکان اسمبلی اور اسمبلی سیکریٹریٹ ملازمین کے لیے یکم جون کو سندھ اسمبلی میں بھی کورونا ٹیسٹ کا انتظام ہوگا۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ہمارا گھروں میں آئسولیشن میں رہنے کا تجربہ درست ثابت ہورہا ہے، اس وقت گھروں میں آئسولیشن میں 12565 مریض زیر علاج ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 2 کورونا وائرس امراض کے اسپتال ایک نیپا اور دوسراکراچی یونیورسٹی کے قریب قائم کرکے اپنی سہولیات کو بڑھا رہے ہیں۔

سندھ حکومت کی کاوشیں اپنی جگہ ، لیکن اصل ذمے داری عوام کی ہے کہ وہ  احتیاطی تدابیر کو اپنے اوپر لازم کریں۔ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر نے اپنے دفتر میں نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیر(آج) سے بسیں،کوچز اور منی بسیں ضرورچلیں گی اگر پولیس نے روکا تو گرفتاریاں بھی دیں گے۔ حکومت سندھ کو صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ٹرانسپورٹرز کے ساتھ فوری مذاکرات کرنے چاہیئیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ چلے گی،تولاکھوں مزدورصنعتی یونٹس میں بآسانی پہنچ پائیں گے اورملکی پیداوارمیں اپنے حصہ ڈالیں گے جوکہ سترفیصدکے قریب ہے۔

ایک جانب تو حکومتی اقدامات ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں کہاںلاک ڈاؤن ہواہے سوائے اسکولوں، کالجوں اور شادی ہالوں کے بند ہونے کے‘ کبھی حکومتی عہدے داروں کو ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ حکومتی ترجمانوںکی بات سنیں تو لگتاہے کہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور سب کچھ ٹھیک ہے،حکومتی کہتی ہے کہ پانچ لاکھ ٹیسٹ کیے ہیں جب کہ آبادی 22 کروڑہے، پتہ نہیں کتنے کیسز ہوں گے۔

یہ تو تھا اپوزیشن کا موقف ہماری عرض صرف اتنی سی ہے کہ یہ وقت سیاست کا نہیں ہے، بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو مل جل کرکام کرنا چاہیے۔ کورونا وائرس نے صرف انسانی جانوں پر وار نہیں کیا ہے بلکہ اس کے اثرات سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستان کے معاشی واقتصادی مسائل میں بھی گونا گوں اضافہ ہوا ہے، معاشی ماہرین کے مطابق جب تک ہماری امپورٹ اورایکسپورٹ میں گیپ رہے گا تو بیرونی قرض پر ہمارا انحصاررہے گا۔ ترجمان منصوبہ بندی کمیشن نے کہا ہے کہ آخری کوارٹر میں پچھلے سال ہمیں غیرمتوقع صورتحال کا سامناکرناپڑا ہے، ہماراخیال تھا کہ3فیصد تک گروتھ رہے گی۔ اسٹیٹ بینک کا بھی یہی خیال تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اگلا سال کافی مشکل ہوگا، لیکن امید ہے کہ دو فیصد تک گروتھ ہوگی۔

معیشت کی بحالی کا عمل اس وقت حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے،اس کے لیے ٹھوس بنیادوں پر واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہم تاریخ کے ایک نازک ترین موڑ پر کھڑے ہیں، جوکچھ بھی کرنا ہے وہ سوچ سمجھ کرکرنا ہے۔ اس وبا کے خلاف جب تک پوری قوم ایک پیج پر نہیں آئے گی،اس وقت تک کورونا وائرس کے خاتمے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

The post کورونا سے اموات بڑھنے کے خدشات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XJitEW
via IFTTT

No comments:

Post a Comment