Thursday, May 28, 2020

بھارت اور چین میں کشیدگی کی نئی لہر… لیکن کس لیے؟ ایکسپریس اردو

بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی اس بار سنگین مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس تناؤ کو 1999 میں پاکستان کے ساتھ کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہا جارہا ہے۔ اس سے قبل 2017 میں بھارت اور چین کی افواج ڈوکلام کے مقام پر آمنے سامنے آئی تھیں۔ لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ سمیت بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے مختلف مقامات پر دونوں جانب سے افواج کی موجودگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

سرحدی تنازعہ اس قدر کشیدہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے منگل کو بری، بحری اور فضائیہ تینوں افواج کے سربراہوں اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوبھال سے مشورہ کیا۔ لیکن اس ملاقات کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی فوج اور چینی افواج کے درمیان سرحدی جھڑپیں کوئی غیرمعمولی بات نہیں، بلکہ یہ ہر اس ملک کےلیے معمولی بات ہے جن کے آپس میں تعلقات بہت اچھے نہیں ہوتے۔ یوں یہ بات بہت عام ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔

لیکن حالیہ غیرمعمولی کشیدگی کی کیا وجوہات ہیں جس میں چینی فوج بھارتی سرحد کے تقریباً 4 کلومیٹر اندر گھس آئی اور بھارتی فوجیوں کو قید کرلیا۔ گوکہ انھیں بھارتی درخواست پر رہا کردیا گیا لیکن یہ کسی بھی ملک کی آرمی کےلیے بے پناہ شرمندگی کی بات ہے کہ اس کی فوج کی دشمن کے ہاتھوں گرفتارہونے کے بعد درخواست پر رہائی عمل میں لائی گئی؟

آپ کو معلوم ہوگا کہ 1959 میں جب شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز ہوا اور ہزاروں چینی اور پاکستانی انجینئر اور مزدوروں نے 20 برس تک اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے اس کو مکمل کیا تو بھارت کی جانب سے کوئی ردعمل دیکھنےمیں نہیں آیا۔ 30 جون 2006 کو چین اور پاکستان کے درمیان شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو اور اپ گریڈیشن کا معاہدہ طے ہوا۔ اس وقت بھی بھارت کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان اور چین کی دوستی مثالی ہے اور دیگر متعدد منصوبوں پر کام کیا گیا، تاہم بھارت کی جانب سے کبھی بھی کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ لیکن جیسے ہی پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا معاہدہ ہوا، بھارت کی چیخیں آسمان تک جانے لگیں۔

کیونکہ سی پیک کا منصوبہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے اور بھارت گلگت بلتستان کو ہتھیانے کےلیے بے چین ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جون 2014 میں بھارت میں عام انتخابات میں بی جے پی کے سربراہ اور آر ایس ایس کے سر گرم رکن نریندرمودی کی کامیابی کے بعد مقبوضہ کشمیر، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سے متعلق اور مسلم کش ایجنڈا پر عمل کرنے کا عزم کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ پورے کشمیر کو بھارت میں ضم کرکے دم لیں گے اور آخرکار انھوں نے کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا۔ یہ بالکل اسی طریقہ کار پر عملدآمد کیا گیا ہے جو اسرائیل فلسطین میں کررہا ہے، تاہم نادان بھارت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہاں بعض غدار عرب حکمرانوں کو اسرائیل نے منہ مانگی قیمتوں سے خریدا ہوا ہے جبکہ یہاں ایک جانب پاکستان اور دوسری جانب چین جیسی طاقتیں ہیں۔ تو یہاں یہ فارمولہ اگر استعمال کیا جاتا ہے تو منہ کی کھانی ہی پڑے گی۔

بھارت پورے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے، جس میں آزاد کشمیر بھی شامل ہے اور بھارت اس کو حاصل کرنے کےلیے سردھڑ کی بازی لگا رہا ہے۔ گلگت بلتستان گو کہ آزاد کشمیر کا حصہ ہے، لیکن 29 اگست 2009 کو صدر پاکستان نے پارلیمان کی سفارش پر ’’گلگت بلتستان بااختیار اور خود انتظامی حکومتی آرڈر‘‘ پر دستخط کرکے گلگت بلتستان کو خودمختاری کے حقوق عطا کیے۔ یوں یہاں کے عوام اپنی حکومتی اسمبلی کا انتخاب، اپنا وزیراعلیٰ منتخب کرسکتے ہیں، لیکن انہیں پاکستان کا صوبہ نہیں بنایا گیا۔

بھارت اب تک گلگت بلتستان سے متعلق خاموش تھا اور بین الاقوامی مبصرین کے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ علاقہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔ لیکن افغانستان سے متعلق بھارت نے واخان راہداری کے تحت افغانستان تک رسائی حاصل کرنے کےلیے گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ بتاتے ہوئے اس پر اپنی ملکیت کا اعلان کردیا۔

اس وقت کے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے بیان دیا کہ ’’جموں وکشمیر کا مکمل علاقہ بشمول گلگت بلتستان بھارت کا اٹوٹ انگ ہیں‘‘۔ 2015 میں بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس بی ایس ایف BSF کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی کے قومی سلامتی امور کے مشیر اجیت دوبھال نے اپنے خطاب میں کہا ’’بھارت کی سرحدیں واخان راہداری کے ذریعے افغانستان کے ساتھ 106 کلومیٹر طویل ہیں اور ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا ہے‘‘۔

اس تقریر سے گلگت بلتستان سے متعلق بھارتی عزائم واضح ہوجاتے ہیں کہ بھارت اس خطے کو طاقت کے زور پر ہندوستان میں شامل کرے گا یا شورش کے ذریعے اس کے عوام کو بغاوت پر اکسا کر بھارت سے الحاق پر اکسائے گا۔

بھارتی میڈیا پر تقریباً روزانہ ہی گلگت بلتستان کے حوالے سے بحث و مباحثے کا اہتمام کیا جارہا ہے، جبکہ حال ہی میں بھارتی میڈیا نے گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ ظاہر کرتے ہوئے اپنے نیوز بلیٹن میں اس کا موسم کا حال بھی بتانا شروع کردیا ہے، جیسے کہ یہ بھارتی ریاست کا ہی حصہ ہو، یعنی بھارت خاموشی سے عالمی طاقتوں کے سامنے اپنے موقف کی تائید کےلیے کام کیے جارہا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نے پاکستان دشمنی اور کشمیر کو حاصل کرنے کے وعدوں پر دوبارہ اقتدار حاصل کیا ہے اور وہ اسرائیل اور امریکا کی ایما پر ان وعدوں کو سچ ثابت کرنے کےلیے کسی بھی احمقانہ حد تک جانے کےلیے بالکل تیار نظر آرہا ہے۔

چین کے ساتھ بھارت کی حالیہ ہزیمت اسی منصوبے کا حصہ ہے، جس کےلیے بھارت اور چین کے درمیان متنازعہ سرحدی علاقہ اکسائی چن میں موجود وادی گالوان کے باعث دونوں ممالک کے مابین تناؤ کی ابتدا ہوئی تھی۔

بھارت کا کہنا ہے کہ وادی گالوان کے اطراف میں چینی فوج کے کچھ خیمے دیکھے گئے ہیں، اس کے بعد بھارت نے بھی وہاں فوج کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین کا الزام ہے کہ بھارت وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کررہا ہے۔

گلوبل ٹائمز نے اس تنازع پر اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وادی گالوان ایک چینی علاقہ ہے اور بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے دونوں ممالک کے مابین سرحدی امور سے متعلق معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بھارت مئی کے آغاز سے ہی وادی گالوان میں سرحد عبور کرکے چینی سرزمین میں داخل ہورہا ہے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ متنازع علاقہ آج سے نہیں ہے بلکہ ستر سال سے ہے۔ تو آج بھارت میں انتی جرأت کیسے آگئی کہ وہ یہاں دفاعی تعمیرات، جس میں سڑکیں اور بیرکیں شامل ہیں، کررہا ہے۔ اس علاقے میں بھارت کی سرگرمیوں کے پیچھے موجود عزائم کو سمجھنے کےلیے اس علاقے کو سمجھنا ضروری ہے۔ لداخ، بھارت اور چین کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے، جس کی سرحد مشرق میں چین کے شہر تبت، جنوب میں بھارتی ریاست ہماچل پردیش، مغرب میں جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان اور دور شمال میں قراقرم گزرگاہ کے سنکیانگ کے جنوب مغربی کونے سے ملتی ہے۔ یوں یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سے کشمیر پر حملہ کرنا دیگر سرحدوں کے نسبتاً آسان ہے۔

بھارت نے اپنے اس ناپاک منصوبے پر عمل درآمد کےلیے کورونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کو بہترین تصور کیا اور اس لاک ڈاؤن کے دوران اپنی فوجوں کو متنازع علاقے میں پہنچانا شروع کیا تاکہ اس نقل و حمل کی کم سے کم خبر باہر نکل سکے اور اسرائیلی اور امریکی آشیرباد سے لداخ کے راستے گلگت بلتستان پر اچانک حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ جس کےلیے انتہاپسند مودی حکومت نے گزشتہ برس ”Shyok-DBO” جیسی اہم ترین حساس سڑک کو مکمل کرلیا ہے۔

بھارت کے ناپاک عزائم سے ہم سب پہلے ہی واقف ہیں اور بھارت پہلے بھی پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی ناکام کوشش کرچکا ہے اور اپنے منہ کی کھاچکا ہے اور اب اس نے کورونا وائرس کے بحران کا سہارا لیتے ہوئے سخت ترین لاک ڈاؤن میں اپنی فوجوں اور اسپیشل سروسز کی بڑی تعداد کو مخصوص ہیلی کاپٹروں سمیت کنونشنل جنگ کےلیے انتہائی خطرناک قسم کے ہتھیاروں سے لیس کرکے اپنے منتخب کردہ محاذ کے اردگرد جمع کرنا شروع کیا۔ بھارت کی ان پھرتیوں کا پاکستان کو ادراک تھا اور چین بھی اس سے بے خبر نہیں تھا۔

لداخ میں ہونے والی کشیدگی میرے خیال سے براہ راست چین کےلیے خطرہ نہیں تھی۔ یہ گللگت بلتستان پر حملے کے منصوبے کا حصہ تھا جسے چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے خاک میں ملاتے ہوئے جس طرح لداخ میں بھارت کو ذلت آمیز طریقے سے دھول چٹائی، جس کی مثال نہیں۔ بھارتی سرکار کو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ کس طرح اپنے عوام کا سامنا کریں۔

ایک جانب سوشل میڈیا پر بھارتی فوج کی جانب سے بینر گردش کررہے ہیں جس پر چینی حکومت سے بھارتی فوجیوں کی رہائی کی اپیل ہے تو دوسری جانب بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند نرو نے میڈیا کے سامنے ایسے کسی واقعے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی بےبنیاد خبریں نہ دیں۔

بھارتی عوام اور اپوزیشن جماعتیں نریندر مودی سے پوچھ رہے ہیں کہ چینی فوج کے لداخ میں بڑھتے ہوئے بوٹوں کے سامنے گھگی کیوں بندھی ہوئی ہے؟ بھارت کا پاکستان کے خلاف چوبیس گھنٹے بولنے والا میڈیا اور جنرل بخشی جیسے بھاڑے کے ٹٹو لداخ میں چینی افواج کی پیش قدمی پر ایسے خاموش بیٹھے ہیں، جیسے ان سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔

اور یوں پاکستان آرمی کی چینی افواج کے ساتھ بہترین حکمت عملی سے بھارت کو وہ ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جو عشروں تک بھارت نہیں بھول سکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post بھارت اور چین میں کشیدگی کی نئی لہر… لیکن کس لیے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TRhy42
via IFTTT

No comments:

Post a Comment