Monday, August 31, 2020

بارش کی تباہ کاریاں ایکسپریس اردو

جب شہر بسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے گندے پانی کی نکاسی کے علاوہ بارشوں کے پانی کے آسانی سے بہاؤ کا انتظام کیا جاتا ہے، ممبئی جیسے بڑے شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گندے اور بارشوں کے پانی کی نکاسی کا ایسا انتظام ہے کہ بارشیں کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوں آدھے گھنٹے میں پانی نکل جاتا ہے اور ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ سخت بارش ہوئی ہے اس کے برعکس ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ سارے سال گندے پانی کی نکاسی کا کوئی اہتمام نہیں ،ہر گلی گٹر کا منظر پیش کرتی ہے۔

اگست میں کراچی سمیت ملک بھر میں شدید بارشیں ہوئیں، ہر سال مون سون میں جب بارشیں ہوتی ہیں تو سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں اور بارش کا پانی سڑکوں اور گھروں کو تالاب بنا دیتا ہے۔ پانی اور بجلی کے کرنٹ سے بے شمار جانیں ضایع ہو جاتی ہیں اور غریبوں کی بستیوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ آبادیاں اور سڑکیں تالابوں میں بدل جاتی ہیں اور مکین سروں پر ضروری سامان رکھ کر جائے پناہ کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں ڈھائی کروڑ انسان بستے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ایک بارش میں شہر جل تھل ہو جاتا ہے، قیمتی جانی نقصان کے علاوہ غریب بستیوں کے مکینوں کے اثاثے بارش کے پانی کی نظر ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہتی۔ اول تو غریب طبقے کے اثاثے ہوتے کیا ہیں، کھانے پینے کا سامان، چند چارپائیاں، میلے کچیلے بستر، دو تین ٹین کے صندوق یہی ان کی کل کائنات ہوتی ہے جو بارش کے پانی کی نظر ہو جاتی ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر ہے ، اس شہر میں بجلی کا عالم یہ ہے کہ بارش کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کی روانگی لازمی ہو جاتی ہے۔ اوپر سے بارش اور شہر اندھیروں کی نظر،گھر کا سامان بارش کی نظر۔ ایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے، خوف اور افراتفری کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ایسا لگتا ہے، شہر پر حملہ ہو گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا عالم یہ ہوتا  ہے کہ بارش کے چند چھینٹے پڑے، سڑکوں سے بسیں، منی بسیں، ٹیکسی، رکشہ سب غائب۔ بے چارے مکین سروں پر ضروری سامان اٹھائے، چھوٹے بچوں کو اپنی گودوں اور کندھوں پر بٹھائے، خواتین کو ساتھ لیے جائے پناہ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور مسجدوں اور اسکولوں میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ تو ہوا غریب بستیوں کا حال۔

اس کے برعکس امیروں کی بستیوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ سامان محفوظ، بارش کے پانی کی نکاسی کا بہتر انتظام، عام طور پر یہ بستیاں اس قسم کے عذابوں سے محفوظ ہوتی ہیں اور ایلیٹ کلاس کے لیے بارشیں رحمت بن کر آتی ہیں ، بچے، بڑے، عورتیں ، مرد خاص طور پر نوجوان طبقہ بارشوں کو خوب انجوائے کرتا ہے لیکن ہماری غیر محفوظ بستیوں میں بارش کو انجوائے کرنا جان جوکھم کا کام ہے۔ ہماری غریب بستیوں کا عالم یہ ہوتا ہے کہ گلیاں گندے پانی سے بھری رہتی ہیں اس پر بارش کا پانی نالوں کی طرح گلیوں میں بہتا ہے۔اکثر بچے کھیل کود کے شوق میں پانی میں اتر جاتے ہیں اور جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہمارے یہاں دوسرے شعبوں کی طرح الیکٹریسٹی کا بھی عالم یہ ہے کہ بارش کی پہلی بوچھاڑ کے ساتھ ہی بجلی غائب۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر گھنٹے آدھے گھنٹے کی بارش سے تالاب میں بدل جاتے ہیں اور کشتیاں چلنے لگتی ہیں۔ پاکستان کے اس سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں ہو سکا، شہر کی گلیاں گندے پانی سے اٹی ہوئی ہوتی ہیں جب بارش ہوتی ہے تو بارش کا پانی گندے پانی کے ساتھ گھروں کو تالاب بنا دیتا ہے اور گھر گندے پانی اور گندگی سے اٹ جاتے ہیں۔ بارشوں کے پانی سے جو بیماریاں پھیلتی ہیں اس سے انسانی جانوں کوخطرہ لاحق ہو جاتا ہے، سڑے ہوئے باتھ روموں سے غلاظت نکل کر گلیوں پھر سڑکوں پر آجاتی ہے، گلیاں محلے سب گندے پانی سے اٹ جاتے ہیں۔

اب تک گندے پانی اور بارشوں کے پانی کی نکاسی کا کوئی اہتمام نہیں ہو سکا، اس سے ہماری میونسپل کارپوریشن کی کارکردگی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ایک تو کرپشن کی بھرمار کی وجہ میونسپل کارپوریشنوں کا حال بدتر ہے، دنیا بھر میں میونسپل کارپوریشنیں آزاد اور خودمختار ہوتی ہیں، اس کا بجٹ علیحدہ ہوتاہے لیکن کراچی میں میونسپل کارپوریشن کو فنڈنگ صوبائی حکومت کرتی ہے، اس لیے میونسپل کارپوریشن اپنے ترقیاتی کاموں میں صوبائی حکومت کی محتاج ہوتی ہے جس کا نتیجہ ترقیاتی کام کھٹائی میں پڑے رہتے ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں خالی جگہوں پر ہزاروں لوگ چٹائی کی بنی ہوئی جھگیوں میں رہتے ہیں۔ بارش میں نقصان اٹھانے والوں میں یہ جھگی نشین سرفہرست ہیں، بارش کا سارا پانی چٹائیوں کی مٹی دھول کے ساتھ ان پر گرتا ہے اور یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا ہے جس میں نومولود سمیت چھوٹے بچے، ضعیف اور بیمار اشخاص رات رات بھر پانی میں بھیگتے ہیں، یہ جھگی نشین کراچی کے مختلف علاقوں میں عشروں سے سکونت پذیر ہیں عموماً یہ لوگ خالی پلاٹوں یا سرکاری زمین پر رہتے ہیں اور جب چاہے نکالے جاتے ہیں چونکہ یہ لوگ عشروں سے بارش اور گرمی ،سردی برداشت کررہے ہیں۔

کیا یہ ممکن نہیں کہ انھیں ایسی جھگیاں ہی سہی بنا کر دی جائیں یا سیمنٹ کی چادروں کی چھت والی جھگیاں بنا کر دی جائیں تاکہ یہ ستم رسیدہ لوگ دھوپ بارش سردی سے محفوظ رہ سکیں۔ آرمی چیف کے حکم پر 73 ٹیمیں بارش زدگان کی مدد کر رہی ہیں، انھیں بارش زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ جگہوں پر پہنچایا جا رہا ہے، انھیں کھانا بھی فراہم کیا جا رہا ہے، یہ صورتحال ہر برسات میں پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس کا مستقل حل تلاش کرکے انھیں یعنی جھگی نشینوں کو محفوظ مقامات پر مستقل طور پر شفٹ نہیں کیا جاسکتا، تیز اور مسلسل بارش سے بعض بند ٹوٹ گئے ہیں اور پانی آبادیوںمیں داخل ہو رہا ہے۔

The post بارش کی تباہ کاریاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34RP28I
via IFTTT

No comments:

Post a Comment