سفرِ ہندوستان اور رئیس امروہوی کی باتیں
یہ سفرنامہ انیس شاہ جیلانی کی رئیس امروہوی سے ’یاد اللہ‘ کا ایک بھرپور بیان ہے، جس میں مصنف نے رئیس امروہوی کے ساتھ 1980ء کی دہائی میں کیے گئے سفرِ ہندوستان کو قلم بند کیا ہے۔۔۔ زادِ سفر سے عازمِ سفر ہونے تک کا احوال خاصی بے تکلفی سے شروع ہوتا ہے اور پھر گویا ہندوستان پہنچ کر ہر واقعے اور ہر بات میں ایک ’پاکستانی‘ بن کر چوٹ بھی کستا ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی سرتاپا ’پاکستانیت‘ میں ڈوبا ہوا ہندوستان جا کر اپنی ’دھاک‘ بٹھا رہا ہے، شاید یہ ردعمل رئیس امروہوی کی ہندوستان سے آبائی انسیت کی وجہ سے بھی ہے، ساتھ ساتھ وہ ان پر ’آوازے‘ کستے جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ’زندہ کتابیں‘ کے تحت راشد اشرف نے انیس شاہ جیلانی کا ’سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘ اور پھر اس کتاب پر رئیس امروہوی اور اس کے بعد ان کے دیرینہ ساتھی شکیل عادل زادہ کے ترکی بہ ترکی کیے جانے والے تبصرے کو ایک جلد میں جمع کر دیا ہے۔۔۔ کیسے بغیر کسی لگی لپٹی کے رئیس امروہوی کے گھریلو معاملات سے لے کر مبینہ طور پر غبن سے لے کر ان سے منسوب دیگر تلخ وترش باتوں کا ذکر کتنے آرام سے کر دیا گیا ہے۔
دوسری طرف رئیس امروہوی نے بھی نجی حیثیت میں لکھنے کے باوجود کہیں بھی توازن کھوئے بغیر ان پر اپنا موقف واضح کیا ہے، بہت سی چیزوں کی دو ٹوک انداز میں تائید کی، تو بہت سی باتوں کی تردید۔۔۔! پھر اس ’محاکمے‘ پر ایک اور ’محاکمہ‘ شکیل عادل زادہ کا ہے کہ ان کے ذاتی واقعات بھی تو مصنف نے خوب موضوع بنائے ہیں، انھوں نے بھی بہت سی جگہوں پر اپنی گواہی ثبت کی اور اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے۔ یوں فضلی بک سپر مارکیٹ (0336-2633887) سے شایع شدہ 400 صفحاتی کتاب (قیمت 500 روپے) سہ جہتی یا یوں کہہ لیں کہ ایک سہ آتشہ روپ دھار لیتی ہے۔
بچوں کے لیے ایک پُرکشش کتاب
’بچوں کے ادیب‘ کا کردار عام ادیبوں سے بجا طور پر بلند ہوتا ہے، کیوں کہ وہ دراصل نئی نسل کی تربیت ہی نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ ادب کے نئے قاری بھی بنا رہا ہوتا ہے۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں میں جاوید بسام کا نام نیا نہیں، ملک کے مختلف جرائد میں ان کی کہانیاں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ کہانیوں میںکسی کردار کو تخلیق کرنا اور پھر اس کردار کے گرد کہانی بُننا یقیناً بچوں کے لیے کافی دل چسپی کا باعث ہوتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب ایسے ہی ایک کردار پر ہے، جس کا عنوان ’’میاں بلاقی کے کارنامے‘‘ ہے۔
یہ جاوید بسام کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ہے، دیدہ زیب سرورق اور تصاویر سے آراستہ 128 رنگین صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 15 دل چسپ کہانیاں جمع کی گئی ہیں۔ کتاب کی ورق گردانی کیجیے، تو آشکار ہوتا ہے کہ جاوید بسام آج کل کی ’ناصحانہ‘ ڈگر سے ہٹ کر واقعتاً کہانی لکھنا جانتے ہیں، ورنہ آج کل بچوں کے بہت سے لکھنے والے نصیحتوں سے لبریز ’’سبق آموز‘‘ کہانیاں لکھنے کو ہی ’بچوں کا ادب‘ سمجھنے لگے ہیں۔۔۔ ’اقوال زریں‘ کے یہ اسباق شاید آج کل کے بچوں کے لیے زیادہ کشش کا باعث نہ ہوں، جتنا جاسوسی، حیرت اور تجسس جیسے خواص کی حامل کہانیاں ہو سکتی ہیں، اور آشیانہ پبلی کیشنز، کراچی (0333-3718343) سے شایع ہونے والی اس کتاب کا شمار ہم ایسی ہی کتاب میں کر سکتے ہیں۔
عمدہ زبان وبیان کے حامل مصنف نے باتوں باتوں میں بچوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافے کی کوشش بھی کی ہے، جیسے کھڑکی یا روشن دان کے بہ جائے لفظ ’روزن‘ کا برتائو۔ تاہم اس مرحلے پر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ساتھ میں اس کے معنی بھی درج کر دیے جائیں، تو یہ زیادہ اچھا ہوگا۔ کتاب کے ہر صفحہ نمبر اردو ہندسوں کے ساتھ لفظوں میں لکھنے کا اہتمام کر کے بچوں کو اردو گنتی سے روشناس کرانے کی قابل قدر کوشش بھی کی گئی ہے۔ اس کتاب کی قیمت 450 روپے ہے۔
ایک منفرد گھرانے کی کتھا
یہ اسرار الحق مجاز اور صفیہ جاں نثار اختر کی ہمشیرہ حمید سالم کی دو آپ بیتیاں ہیں، مصنفہ آج کے مشہور ہندوستانی شاعر جاوید اختر کی خالہ ہیں۔ بظاہر ایک ’عام‘ سی لکھک کی اس کتاب میں اس گم گشتہ زمانے کے کتنے پہلو اور روایات زندہ جاوید دکھائی دیتے ہیں، صرف ایک تہذیب ہی نہیں، بلکہ متحدہ ہندوستان کے زمانے کے رکھ رکھائو اور میل جول کا ذکر بھی اس میں بہ خوبی دست یاب ہے اور یہ سلسلہ بھی ان کے بچپن سے شروع ہوتا ہے اور آگے بڑھتا ہے، اس احساس کے ساتھ کہ وقت بدلتا ہے، چیزیں بھی متغیر رہتی ہیں اور روایات بھی یک ساں نہیں رہ پاتیں۔۔۔ مصنفہ نے اس کتاب میں جہاں اپنے جہانِِ ادب کے بہن بھائی کا ذکر کیا ہے، وہیں وادیٔ سیاست کے راہی ایک بھائی انصار الحق ہروانی کے حوالے سے بھی ایک علاحدہ باب باندھا ہے۔
پہلی کتاب ’شورش دوراں‘ 302 صفحات، جب کہ دوسری کتاب ’ہم ساتھ تھے‘ 203 صفحات پر مشتمل ہے، یوں تقریباً 500 صفحاتی اس نسخے کی قیمت 500 روپے ہے۔ خلیق انجم مصنفہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’حمیدہ سالم نقاد اور ادیب نہیں ہیں، لیکن وہ ہمارے بے شمار ادیبوں اور نقادوں سے بہتر لکھتی ہیں۔‘ یہ کتاب راشد اشرف نے ’زندہ کتابیں‘ سلسلے کے تحت ایک جلد میں یک جا کی ہیں، جس میں پہلی کتاب کے سات ابواب، جب کہ دوسری کے تین ابواب ہیں، جو فضلی بک (0336-2633887) نے شایع کی ہے۔
’عام‘ سے کرداروں پر ایک تاریخی دستاویز
’’یادیں کچھ کرداروں کی‘‘ (آسی ضیائی رام پوری)، ’’یہ باتیں ہیں جب کی‘‘ (فاضل مشہدی) اور ’’سبزۂ یگانہ‘‘ (شیخ عبدالشکور) راشد اشرف کے زیر اہتمام ’زندہ کتابیں‘ میں ایک ہی جلد میں سجا دیے گئے ہیں۔ اول الذکر دونوں کتب یادداشتوں کی ہیں، جب کہ تیسری کتاب سوانحی مضامین پر محیط ہے۔
قیمت اس کی بھی فقط 500 روپے ہے اور صفحات کا شمار بھی اسی کے قریب قریب ہے۔۔۔ زیر تبصرہ ’مجموعۂ کتب‘ کے مشترکہ خواص پر بات کی جائے، تو اس میں ہمیں بہت مشہور شخصیات کی بازگشت ذرا کم ہی سنائی دیتی ہے۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نام وَر اشخاص کے دائروں سے بہت الگ دائرے میں علاقائی کرداروں کو بطورِ خاص قلم کی روشنائی سے اجال دیا گیا ہے۔۔۔ اس میں بطور خاص کسی خاص شعبے کے شہرت یافتہ افراد کی منظر کشی یا حالات زندگی کی بات نہیں کی گئی، کہ ہم اسے شعبۂ تاریخ کی کوئی بہت اہم دستاویز بتائیں، لیکن اس کے باوجود تاریخ کے طالب علموں اور ہمارے خطے کے ماضی کی سماجیات اور سیاسیات ٹٹولنے والے طالب علموں کو اس میں گزرے وقت کی طرز زندگی، زبان وبیان اور بہت سے مسائل وغیرہ تک کے ایسے لاتعداد حوالے مل سکتے ہیں، کہ جس کی بنیاد پر ہم اسے ’تاریخی دستاویز‘ سے زیادہ فاصلے پر نہیں رکھ سکتے۔ اس کتاب کے ناشر بھی فضلی بک سپر مارکیٹ، اردو بازار کراچی ہیں۔
’بستے بستے بستی ہے!‘
مدیر ’عمارت کار‘ حیات رضوی امروہوی چوں کہ تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس لیے انھوں نے شہر قائد پر یہ دستاویز ’کراچی کرانچی‘ مرتب کرتے ہوئے بطور خاص اپنے اسی رنگ کو ہی نمایاں رکھا ہے۔ اس کتاب کے بیش تر مضامین ایک معاصر روزنامے اور ہفت روزہ کی زینت بن چکے ہیں۔ 191 صفحات پر سجائے گئے 30 مضامین میں سے ابتدائی آٹھ مضامین شہر قائد کی آباد کاری، خدوخال اور خواص پر مشتمل ہے، جس کے مندرجات میں شہر قائد کے عہدِ رفتہ کی آواز صاف سنی جا سکتی ہے۔
اس طرح یہ کتاب فقط کراچی پر معلومات کی نہیں، بلکہ سیاست اور تاریخ کے باب میں بھی ایک حوالہ بن جاتی ہے۔ اس میں بٹوارے کے بعد کراچی کی مختلف بستیوں کی آباد کاری اور یہاں کے مسائل اور طرز زندگی کی نقشہ کشی بہت خوبی سے کی گئی ہے۔ کتاب کے اگلے حصے میں گولیمار، لالوکھیت، پیتل گلی اور اردو بازار پر الگ مضامین سجے ہیں۔ اس کے بعد کراچی کے بازار، صنعتیں، قبرستان، شادی ہال اور مسجدوں کے حوالے سے الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مکلی، بھنبھور، شاہ جہاں مسجد، رانی کوٹ سے لے کر کھادیجی آبشار تک کے مضامین نہایت دل چسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ راحیل پبلی کیشنز سے شایع شدہ یہ کتاب توکل اکیڈمی (0321-8762213) پر دست یاب ہے، قیمت 700 روپے ہے۔
اقبال کی فکری اساس کا تسلسل
مجھے قلم، فرہاد کو تیشہ، مجنوںکو کشکول دیا
عشق نے دل والوں کو جو بھی کام دیا اَن مول دیا
کتاب کھولتے ہی ابتدائی صفحات پر استاد جناب خیال آفاقی کا یہ خوب صورت شعر ٹنکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ جو انھیں جانتے ہیں، وہ بہ خوبی واقف ہوں گے کہ خیال آفاقی کے سخن وَری موضوعات میں ہمیں جا بہ جا ان کی فکر کی گہری جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب صرف عشق اور ہجرووصل جیسے روایتی موضوعات تک محدود نہیں، بلکہ اس میں بہت سے مقامات قاری کو جھنجوڑ دینے والے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ اس میں عام شعری مجموعوں کی روایت کے برخلاف غزل اور نظم مکمل ہونے کے بعد صفحے پر بچ جانے والی خالی جگہ پر بھی اشعار اور قطعات وغیرہ سجا دیے ہیں۔ یہ خیال آفاقی کا ساتواں شعری مجموعہ ہے، کتاب اکیڈمی (0321-3817119) کراچی سے شایع ہونے والے اس 272 صفحاتی مجموعے کی قیمت 800 روپے ہے۔
خود نوشتوں کا ’کوزہ‘
’الزبیر‘ (1964ء بہاول پور) کے ’آپ بیتی نمبر‘ کے لیے مشفق خواجہ نے 239 صفحات پر مشتمل مقالہ ’مختصر آپ بیتیاں‘ پیش کیا تھا۔۔۔ جسے راشد اشرف کے سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے لیے ڈاکٹر محمود کاوش نے نہ صرف مرتب کیا ہے، بلکہ اس کا اصلی ماخذ سے تقابل کر کے ’حواشی‘ بھی درج کر دیے ہیں، ساتھ ساتھ مشفق خواجہ کی جمع کردہ 88 شخصیات کے بعد مزید 53 شخصیات کا اضافہ کیا ہے، جو کتاب کے ’حصہ دوم‘ میں شامل ہے۔ یعنی اردو ادب سے تعلق رکھنے والی 141 شخصیات اس جلد کا حصہ بن چکی ہیں۔ بہ زبان خود اپنا احوال لکھنے سے ایک فائدہ جو ہمیں نظر آیا، وہ یہ کہ ہمیں پتا چلا کہ کسی شاعر یا ادیب کی نظر میں اپنی حیثیت کیا تھی، یا وہ اپنے کس کام کو قابل ذکر سمجھتے تھے۔ ان کی مختلف تصانیف اور تخلیقات کے پس منظر کیا تھے اور ان کے موضوعات کی اٹھان اور خمیر کیا تھا اور اس کی وجوہات کیا رہیں۔ ساتھ ہی بہت سے لکھنے والوں نے جس انداز سے اپنی پیدائش کو مذکور کیا ہے، وہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے۔
کسی کے نزدیک یہ ’سانحہ‘ ہے تو کسی نے اس واقعے کو ایک پیراگراف تک بھی طول دے دیا ہے۔ 574 صفحاتی اس کتاب کے اوائل میں پہلے حصے میں شامل 88 شخصیات کی زمانی اعتبار سے ایک فہرست بھی جمع کی گئی ہے، جس کے مطابق یہ سلسلہ محمد باقر آگاہ (1771ء) سے شروع ہوتا ہے اور دوسری شخصیت کے بعد انیسویں صدی میں جا پہنچتا ہے اور پھر 32 شخصیات کو سمیٹتا ہوا، الطاف حسین حالی (1901ء) کے ذریعے بیسویں صدی میں داخل ہوتا ہے اور ڈاکٹر محمد اشرف (1958ء) تک 54 شخصیات کا احاطہ کرتا ہے۔ اٹلانٹس پبلی کیشنز (021-32581720) کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب (قیمت 550 روپے) کے دوسرے حصے میں میرزا ادیب، راجندر سنگھ بیدی، جاں نثاراختر، حفیظ جالندھری، صادقین، کرشن چندر، ملا واحدی،غلام عباس، عبدالحلیم شرر، فراق گورکھ پوری، فیض احمد فیض، تلوک چند محروم، ممتاز مفتی، وحشت کلکتوی اور دیگر کا احوال شامل کیا گیا ہے، گویا اردو کی خود نوشتوںکے دریا کو ایک کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔
غالب کے فن پر ایک دل چسپ تحقیق
ڈاکٹر صابر حسین جلیسری کی اس تحقیقی تصنیف میں مرزا غالب، ان کے خاندانی پس منظر، ان کی فکر اور ان کے زمانے کی علمیت کا بیان ہے۔۔۔ جس میں شاہ عالم کے زمانے میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کے آبا کی ترکی سے ہندوستان آمد اور پھر خدائے سخن میر تقی میر کے ’دربار‘ میں کلام کی پیشی تک کے حوالے ملتے ہیں۔ کہنے کو ’غالب کی فکر اور فن، ذہنی، تنقیدی اور لسانی مطالعہ‘ ہے، لیکن یہ مکتوب غالب کے حوالوں سے آراستہ ایک تحقیق ہے۔ اس عمدہ کتاب میں کتابت کی اغلاط پڑھنے والے کا سارا مزہ کرکرا کر دیتی ہیں، جیسے ایک جگہ ’ہَل‘ کو سہواً ’حل‘ لکھ دیا گیا، امید ہے اس جانب بھی توجہ دی جائے گی۔ آٹھ ابواب کی 240 صفحات پر مشتمل اس تحقیقی کتاب کی قیمت 400 روپے ہے اور اس کی اشاعت کا اہتمام کاتب پبلشر (021-34150500) کراچی نے کیا ہے۔
محبت مجھے ان ’’جوانوں‘‘ سے ہے
انور عباس انور نے اپنی تصنیف ’اقبال کے شاہین‘ میں مختلف شخصیات کے حوالے سے مضامین جمع کیے ہیں۔ سرورق کے اندر کتاب کے عنوان کے ساتھ علامہ اقبال کا مصرع ’محبت مجھے ان جوانوں سے ہے، جو ستاروں پر ڈالتے ہیں کمند درج ہے، جس سے لامحالہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتاب میں صرف نوجوانوں کا تذکرہ ہوگا، لیکن جب ورق پلٹتے ہیں تو ہر مضمون کے ساتھ رنگین تصویر سے یہ خبر ملتی ہے، کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، بہت سے ’’نوجوانوں‘‘ پر زندگی کے پھیر نے اب بالوں کو کافی سپیدی اوڑھائی ہوئی ہے۔۔۔ ڈاکٹر تحسین فراقی اور مرزا اطہر بیگ جیسی نابغۂ روزگار شخصیات پر مضامین بھی اسی کتاب کا حصہ ہیں۔ ’ریڈیو پاکستان‘ سے گونجنے والی پہلی آواز مصطفیٰ علی ہمدانی کے صاحب زارے سید صفدر علی ہمدانی کا احوال بھی اس میں شامل ہے۔ ’خاص لوگ پبلی کیشنز‘ (0300-4597873) لاہور سے شایع ہونے والی اس کتاب کے 160 صفحات ہیں، جس میں 28 مضامین شامل ہیں۔
اسراریت میں لپٹے قصے
’’شکار ور آسیب‘‘ میں زیادہ تر مواد باحوالہ اور ترجمہ کیا گیا ہے، اس کتاب کے مئولف سید حشمت سہیل ہیں۔ اس میں شامل مضامین شکار کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حوالے سے پائے جانے والی مختلف توہمات اور جانوروں کے مختلف اطوار اور فطرت وغیرہ کے بارے میں کافی معلومات فراہم کرتے ہیں، جن میں شیر، تیندوے، بھیڑیے، ریچھ، سانپ، ناگ، جنگلی کتے، دریائی گھوڑے اور بھینسے وغیرہ پر کافی مواد موجود ہے۔ مئولف کا نام بھی بعض مضامین کے آخر میں دکھائی دیتا ہے۔ کتاب کے بیش تر مشمولات دنیا بھر میں رونما ہونے والے پراسرار اور مافوق الفطرت واقعات اور بھوت پریت کے تذکروں سے مزین ہیں۔
’نوچندی جمعرات (یعنی چاند کی پہلی جمعرات) کے حوالے سے ایک ’’چڑیل‘‘ کا اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی انھوں نے اس کتاب کی زینت بنایا ہے، جس کا ’ڈراپ سین‘ بھی بہت خوب ہے۔ فضلی بک سپر مارکیٹ سے شایع ہونے و الی 272 صفحات کی اس کتاب میں مجموعی طور پر 51 مضامین جمع ہیں، قیمت 300 روپے ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3j7ZHAF
via IFTTT
No comments:
Post a Comment