Saturday, September 26, 2020

بعد مرنے کے۔۔۔۔ ایکسپریس اردو

کہتے ہیں کہ ’’موت سے کس کو رستگاری ہے‘‘ اور یہی حقیقت ہے جو بھی دنیا میں آیا ہے اس کا جانا مقسوم ہے لیکن اس کے باوجود سب ہی موت سے خوف زدہ رہتے ہیں۔

مرنے کے بعد کیا ہوگا یہ اسرار میں لپٹا ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر مذہب اپنے عقائد کے مطابق دینے کی کوشش کرتا ہے تاہم ان جوابات کی تصدیق کے لیے بھی مرنا ہی پڑے گا۔ بہرحال زندگی تک جتنے اختیارات ہیں انسان ان سے فائدہ اٹھاکر اپنے تئیں اپنی موت کو کبھی دل کش و حسین اور کبھی مقام عبرت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فوت ہونے والے عزیز و اقارب کو یاد کرنا، ان کے لیے اظہار غم اور ان کی آخری رسوم کے حوالے سے ہر ثقافت اور مذہب میں الگ الگ طریقے اور رسومات رائج ہیں۔ یہ رسوم مذاہب کی تعلیمات، اس علاقے کی ثقافت، موسم اور خود فوت شدگان کے مالی حالات پر منحصر بھی ہوسکتی ہیں۔ کچھ خطوں میں مُردوں کی آخری رسومات ہمیں خاصی بھیانک بھی معلوم ہوسکتی ہیں، لیکن یہ بہرحال خود ان کے لیے اتنی بھیانک نہیں ہوتی ہیں بلکہ اپنے پیاروں کے لیے انھیں وہ راحت کا سامان ہی لگتی ہیں۔ ایسی کچھ دل چسپ، عجیب اور کسی قدر خوف ناک آخری رسومات پیش خدمت ہیں۔

٭ درونی آدم خوری (Endocannibalism)

کچھ ثقافتوں میں اپنے مردے کو کھا جانا ان کے نزدیک اسے تکریم دینے کا بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ علم بشریات میں اس عمل کو درونی آدم خوری یا “endocannibalism” کہا جاتا ہے۔ مردوں کے جسم پر اڑائی جانے والی اس ضیافت کے ساتھ یہ تصور وابستہ ہے کہ اس عمل سے فوت شدگان اور ان کے پسماندگان کے مابین ایک پائے دار رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ اسے موت سے منسلک اپنے خوف اور نفرت کے جذبات اور بعد از موت پیدا ہونے والے المیے کے اخراج کا اظہار بھی سمجھا جاتا ہو۔

علم بشریات کے کچھ ماہرین اس بارے میں یہ رائے دیتے ہیں کہ شاید کچھ متوفین اپنے زندہ عزیزوں سے اسی عمل کی توقع رکھتے ہوں، یعنی اپنے خاندان اور قبیلے کے لیے خیرسگالی کا ایک آخری پیغام۔ تاہم یہ رسم اب رواج میں نہیں ہے (یا جہاں تک ہماری معلومات ہیں اب یہ رسم متروک ہوچکی ہے)۔ پاپووا نیو گنی کے ملیشین قبائل میں اور برازیل کے واری قبائل میں درونی آدم خوری کا رواج تھا۔

٭ تبتی بدھوں کی رسومات

اپنے متوفین کا گوشت خود کیوں کھایا جائے جب اسے جنگلی جانوروں کے استعمال میں لایا جاسکتا ہے؟ تبتی بدھوں کے بھی کچھ ایسے ہی خیالات ہیں۔ تبتی اسے “آسمانی تدفین (sky burials)” کا نام دیتے ہیں۔ ایک ریت یہ ہے کہ مردے کے جسم کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان باقیات کو جانوروں بالخصوص پرندوں کو کھلا دیتے ہیں۔ بعض اوقات جسم کو یونہی کھلے آسمان تلے رکھ دیا جاتا ہے جسے گدھ چٹ کرجاتے ہیں۔ ان کے نزدیک گدھ ایک متبرک پرندہ ہے جسے وہ “داکنی” یعنی فرشتہ کہتے ہیں۔

یہ گدھ مردے کا گوشت کھا کر اس کی روح آسمانوں میں لے جاتے ہیں جہاں اسے کسی دوسرے جسم میں دوبارہ جنم لینے کے لیے دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ بدھ جسم کو سنبھال کر رکھنے، محفوظ کرنے یا ان کی یادگار بنانے پر یقین نہیں رکھتے کیوں کہ ان کے مطابق مردہ جسم ایک خالی برتن کی مانند ہے۔ وہ روح کے دوام پر یقین رکھتے ہیں اس لیے ان کے مطابق مردہ جسم کو پرندوں اور دیگر جانوروں کو کھلا دینا بھی ایک قسم کا دان اور خیرات ہے کیوںکہ یہ کئی چھوٹے جانوروں کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ تبتی ویسے تو آسمانی تدفین کے علاوہ پانی میں بہانا، جلانا، دفن کرنا اور اسٹوپا بنانے جیسے طریقے بھی اختیار کرتے ہیں لیکن آج بھی اسی فیصد بدھ آسمانی تدفین کے طریقے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

٭ معلق مدفن Suspended Burials

جنوب مغربی چین کی ہیمپ وادی کے بو افراد ہزاروں سال سے آباد تھے اور آج سے تقریباً 500 سال پہلے ان کا قتل عام کرکے ان کی نسل کو ختم کر دیا گیا۔ آج بو افراد کی اس قدیم اقلیت کو مکمل طور پر بھلا دیا گیا ہے۔ ان کے لٹکائے گئے تابوت سشوان صوبے کے مغرب میں اور ین صوبے کے شمال مغرب میں دریافت کیے گئے۔

یہ افراد اپنے مردوں کو شنگرفی سرخ رنگ کے منقش تابوتوں میں بند کر کے تقریباً 300 فیٹ بلند پہاڑ کی چوٹیوں پر لکڑی کی میخیں گاڑ کر لٹکا دیا کرتے تھے۔ بہت سے تابوتوں پر بو افراد کی زندگیوں اور رہن سہن کے انداز کی تصویری عکاسی کی جاتی۔ اب مقامی ان دریافت شدہ تابوتوں کے حوالے سے بو افراد کو “پہاڑوں کے بیٹے” اور “پہاڑوں پر غالب” کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ تاہم کیوں وہ اپنے مردوں کو اس طرح اتنی بلندی پر لٹکا کر دفن کرتے تھے یہ ابھی تک صیغہ راز میں ہے۔

٭ستی

ستی کی رسم کے مطابق بیوہ کو اپنے خاوند کی لاش کے ساتھ جل کر مرنا ہوتا تھا۔ حالانکہ بھارت میں اب ستی کی رسم پر پابندی لگا دی گئی ہے، مگر کچھ عرصے پہلے تک اس رسم کا رواج تھا جس میں عورتیں بظاہر رضاکارانہ طور پر اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ جل مرنے کو ترجیح دیا کرتی تھیں لیکن اکثر اوقات خواتین کو اس امر کے لیے مجبور بھی کیا جاتا تھا۔ بعض اوقات خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف کھینچتے ہوئے لایا جاتا اور جلتی آگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ بعض اوقات معاشرتی دباؤ اور ہندو بیواؤں کی دگرگوں اور ذلیل و پست معاشرتی حالت کی وجہ سے کچھ خواتین جل مرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔

بیوہ خواتین کو اچھوت سمجھا جاتا تھا ان کے سر کے بال مونڈ کر انھیں آشرم میں بھیج دیا جاتا جہاں وہ خیرات پر اور سفید لباس میں عمر گزار دیا کرتی تھیں۔ دوسری شادی ممنوع تھی اور یہ بھی کہ ان کے سائے سے بھی لوگ پرہیز کرتے تھے۔

اس رسم کا آغاز کیوں کر ہوا یا اس کے کیا مذہبی شواہد ہیں اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ اندازے بہرحال ضرور قائم ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ غالباً اس خوف سے کہ بیویاں اپنے آشناؤں سے شادی کے لیے اپنے امیر شوہروں کو مار کے (بالعموم زہر خورانی سے) ان کی جائیداد پر قابض نہ ہوجائیں اس خدشے کے تدارک کے لیے یہ  رسم ایجاد کر لی گئی تھی۔

ایک امکان یہ بھی گردانا جاتا ہے کہ شاید اس رسم کے ذریعے یہ یقین دہانی کی جاتی کہ شوہر اور بیوی دونوں ایک ساتھ دوسری دنیا سدھاریں اور یوں عورت اپنے مرد کو دوسری دنیا میں موجود اپسراؤں کے دام و تزویر سے بچا کر اپنے پلو سے باندھے رکھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان اکیلا ہی اس رسم کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے والا ملک نہیں تھا بلکہ دوسرے قدیم معاشروں میں بھی ستی سے ملتی جلتی رسوم کے شواہد ملے ہیں جیسے مصری، یونانی اور سیتھی تہذیبیں۔

٭یورپی بحری قزاقوں کی تدفین

ستی سے کچھ ملتی جلتی ایک رسم یورپی بحری قزاقوں کے سردار کی لونڈی کو بھی انجام دینا ہوتی تھی۔ دسویں صدی عیسوی کے عرب مصنف احمد ابن فضلان بحری قزاقوں کے سردار کی موت کا اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرتے ہیں جب وہ بلغاریہ کی طرف جاتے ہوئے قزاقوں کے ایک گروہ کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ ان کے مطابق بحری قزاقوں کی موت کی رسومات انتہائی سفاکانہ ہوا کرتی تھیں۔ سردار کی موت پر اس کی لاش دس دن کے لیے ایک عارضی قبر بنا کر رکھ دی جاتی اور اس دوران اس کی تمام جائیداد کے تین حصے کیے جاتے۔

ایک حصہ اس کے خاندان کو دیا جاتا، دوسرا حصہ اس کی آخری رسومات کے لیے پرتعیش لباس اور سازو سامان بنانے میں خرچ ہوتا اور تیسرا حصہ شراب اور دیگر نشہ آور مشروبات پر لگایا جاتا۔ اس کی لونڈیوں اور غلاموں سے اس کے ساتھ جل مرنے کے لیے پوچھا جاتا۔ تاکہ وہ اپنے مالک کا خیال رکھنے کے لیے دوسری دنیا میں اس کے ساتھ جا سکے۔

ان میں سے کوئی (عموماً) لونڈی رضاکارانہ طور پر اس کام کے لیے آمادگی ظاہر کردیتی۔ اس کے بعد دس دن تک اسے دو لونڈیوں کی نگرانی میں دیا جاتا جن کے ساتھ وہ گھومتی پھرتی چہلیں کرتی۔ دسویں روز سردار کے بحری جہاز پر اس کے آرام و تعیش کا سامان رکھ کر اس کی لاش کو نیا لباس پہنا کر جہاز میں ایک تخت پر بٹھا دیا جاتا۔ اس دوران لونڈی کو بہت ساری شراب پلا کر مدہوش کردیا جاتا۔ یہ لونڈی وہاں موجود قزاقوں کی جھونپڑیوں میں باری باری جاتی جہاں وہ قزاق اس کے ساتھ ہم بستری کرتے اور ساتھ ہی اس بات کا اظہار کرتے کہ وہ مرنے والے کی محبت میں یہ فعل انجام دے رہے ہیں۔

آخری جھونپڑی میں 6 سے 7 افراد مل کر اس کے ساتھ جنسی فعل انجام دیتے اور پھر اسے جہاز کے پاس لایا جاتا جہاں موت کے فرشتے کا لقب رکھنے والی آخری رسوم پر مامور خاتون اس کے گلے میں رسی ڈال کر اسے دو آدمیوں کو کھینچنے کا حکم دیتی اور خود لونڈی کے سینے میں خنجر گھونپ دیتی۔ اب یہ لونڈی اپنے مالک کے ساتھ آخری سفر پر جانے کے لیے تیار سمجھی جاتی۔ اسے بھی جہاز پر مالک کے پاس پہنچا کر جہاز کو اس کے ساز و سامان سمیت آگ لگا دی جاتی تاکہ وہ دونوں دوسری دنیا میں پہنچ جائیں۔ احمد بن فضلان کہتے ہیں کہ اس موقع پر ان کے مترجم کے خیالات یوں تھے کہ عرب لوگ اپنے مردوں کو زمین میں دبا کر انہیں کیڑوں کی خوراک بننے چھوڑ دیتے ہو جب کہ ہم انھیں اس رنگ و روشنی کے ساتھ عازم جنت کروا دیتے ہیں۔

٭انگلیاں کاٹنے کی رسم

کہتے ہیں مرنے والے کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے پیاروں کی موت کا صدمہ برداشت کرنا مشکل امر ہوتا ہے۔ مغربی پاپووا، نیوگنی کے دانی افراد بھی ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔ یہ بہت تشدد آمیز اور ناقابل فہم رسم محسوس ہوتی ہے جس میں مرنے والے کے خاندان کی ایک خاتون اور ایک بچے کی انگلیاں کاٹ دی جاتی ہیں۔ اس رسم کی انجام دہی کے لیے دو توجیحات پیش کی جاتی ہیں، پہلی یہ کہ ان کے خیال میں اس طریقے سے مرنے والے کی روح مطمئن ہو کر دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے اور دوم یہ کہ اس طرح وہ اس موت پر اپنے دلی دکھ کا اظہار اپنی جسمانی تکلیف کے اظہار کے طور پر بھی کرتے ہیں۔

اس رسم کی ادائیگی کے لیے منتخب افراد کی انگلیاں ایک رسی سے باندھ کر انہیں ایک کلہاڑی سے کاٹ دیا جاتا۔ پھر ان انگلیوں کو سکھا کر یا تو جلا دیا جاتا یا پھر کسی مخصوص مقام پر محفوظ کر دیا جاتا۔ اب نیوگنی میں اس رسم پر پابندی ہے، تاہم اس رسم کے اثرات اب بھی اس کمیونٹی کے پرانے افراد کے ہاتھوں پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

٭فمادھیانہ

مڈغاسکر کے ملاگسی افراد کے ہاں مرنے کے بعد مردہ افراد کی ہڈیاں باہر نکال کر ان کو دوبارہ کفنانے کا رواج ہے۔ ان کے مطابق جب تک ہڈیاں اور جسم بوسیدہ ہو کر مٹی نہ ہوجائے مرنے والوں کی روحیں دوسری دنیا میں اپنے پیاروں کے پاس نہیں جاسکتی ہیں، لہٰذا وہ ہر سات سال بعد مرنے والوں کی ہڈیاں اپنے آبائی مقبرے سے نکال کر ان کو دوبارہ کفن میں لپیٹ کر موسیقی کی دھنوں پر ان ہڈیوں کے ساتھ ان کے مقبرے کے گرد رقص کرتے ہیں۔ اس عمل کو وہ “فمادھیانہ” یا “ہڈیوں کی واپسی” کہتے ہیں۔

فمادھیانہ کی یہ رسم اب زوال پذیر ہے، غالباً اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہر سات سال بعد نئے سلک کے کپڑے خریدنا اور کفنانا ایک مہنگا عمل ہے۔ کچھ کہ مطابق اب یہ ایک دقیانوسی رسم ہے جسے وہ چھوڑ رہے ہیں۔ اس رسم کے ترک کرنے کی ایک اہم وجہ عیسائی مشنری سرگرمیاں بھی ہیں جو اس رسم کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ تاہم کیتھولک چرچ کو اس رسم پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیوں کہ وہ اسے مذہبی سے زیادہ خالص ثقافتی رسم مانتے ہیں۔ ایک ملاگسی شخص کے مطابق یہ ان کے لیے اپنے مردہ افراد کو تعظیم دینے کا ایک طریقہ ہے، نیز اس طرح ملک کے دور دراز حصوں میں پھیلے ہوئے رشتے داروں کو ایک ساتھ مل بیٹھنے اور یگانگت کے اظہار کا موقع بھی ملتا ہے۔

٭مُردوں کے مینار

امریکی شمال مغربی اور ہائیدا افراد کے ہاں اس طرح کے مینار بنانے کا رواج تھا۔ اپنے مردوں کی تدفین کے لیے یہ لوگ لکڑی کے مینار تیار کرتے جن پر مختلف نقش و نگار بنائے جاتے۔ یہ نقش و نگار ان کے طرز زندگی، رسومات، بزرگوں اور سرکردہ افراد کی تصاویر یا مذہبی رسومات کے عکاس ہوتے۔

مینار کے بالائی جانب ایک خلا بنا کر اس پر مرنے والے کا تابوت رکھ دیا جاتا جہاں یہ ایک سال تک پڑا رہتا اور جانوروں کی خوراک بنتا رہتا۔ مشاہیر جنگجو یا سرداروں کی لاشوں کے ساتھ مزید ظالمانہ برتاؤ کیا جاتا۔ ان کی لاش کو کوٹ پیٹ کر ملغوبے کی شکل دے دی جاتی تاکہ وہ ایک چھوٹے صندوق میں ڈال کر مینار کے اوپر رکھے جاسکیں۔ یہ عقیدہ رکھا جاتا کہ اس طرح فرشتے حیات بعد از موت میں ان کے محافظ ہوتے ہیں۔ تبلیغ کے لیے وہاں جانے والے عیسائی ان میناروں سے اٹھتی بو کے بھبکوں پر ششدر رہ جاتے۔

٭آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے ہاں آخری رسومات

مشرقی اور مغربی کوئنس لینڈ، دریائے ڈارلنگ کے طاس، مورے دریا کے طاس، زیریں دریائے مورے کی جھیل کے قصبات اور وسطی شمالی و جنوبی آسٹریلیا کے کچھ باشندوں میں لاش کو سُکھا کر مردے کی باقیات کو سنبھال کر رکھنے کی عجیب و غریب روایات پائی جاتی ہیں۔ ان آسٹریلوی اصلی النسل افراد کے لیے اپنے پیاروں کی موت کے بعد ان کی یادگاریں محفوظ کرنا بہت اچھا خیال کیا جاتا ہے، یادگاریں سے عمومی مراد مردوں کی ہڈیاں ہیں۔ مورے دریا کے آس پاس کے باشندے بعض اوقات لاش کو دھوئیں کی مدد سے سکھاتے ہیں۔

میری نووا افراد اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی لاش کو کسی بلند چبوترے یا اور کسی اونچی جگہ پر پتوں اور شاخوں سے ڈھانپ کر رکھ دیتے ہیں، جہاں وہ ایک سال یا اس سے زائد عرصے تک پڑی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ پوری طرح بوسیدہ ہو کر گل سڑ جائے اور ہڈیاں باقی رہ جائیں۔ کچھ جگہوں پر مردے کے گلنے کے عمل کے دوران اس کی لاش سے ٹپکنے والا مائع اکٹھا کر کے اس خاندان کے نوجوانوں کے جسم پر ملا جاتا تھا تا کہ ان میں مرنے والے کی خوبیاں سما سکیں۔

کرنائی افراد اپنے مردوں کو پوشم (ایک قسم کا چوہا) کی کھال سے بنی دری میں لپیٹ کر ایک جھونپڑی میں رکھ دیتے، جہاں وہ اپنی ماتمی سرگرمیاں جاری رکھتے ، کچھ دن بعد لاش کو کھول کر اس کے قریبی عزیز ماں باپ بہن بھائی وغیرہ اس کے بال اتار کر محفوظ کر لیتے اور پھر لاش کو دوبارہ لپیٹ کر مکمل گلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ اور پھر اس کے جسم سے رسنے والا مائع جسم پر ملا جاتا۔ اسی طرح کی رسوم مذکورہ بالا تمام علاقوں میں عمل میں لائی جاتیں تاآنکہ لاش مکمل طور پر گل جائے۔ کچھ عرصے بعد ہڈیوں کو نکال کر ان پر سرخ گیرو ملا جاتا اور پھر یہ ہڈیاں کسی غار میں یا کسی درخت کے مجوف خلا میں رکھ دی جاتیں۔ کچھ جگہوں پر مرنے والوں کے عزیز ان ہڈیوں کو ایک سال یا کچھ زائد عرصے کے لیے اپنے گلے میں لٹکا لیتے۔ اس طرح ان کے عقیدے کے مطابق روح اپنے اگلے جنم کے لیے آزاد ہو جاتی۔

٭ زرتشتی تجہیز و تکفین

زرتشتی روحانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ جسمانی پاکیزگی پر بھی خاص زور دیتے ہیں۔ ان کے مطابق مرنے کے بعد جسم آلودہ ہوتا ہے، یہ بدروحوں کا آماج گاہ بھی ہوسکتا ہے لہذا اسے پاک کیا جانا ازحد ضروری ہے۔ ان کے مطابق مردہ جسم جس شے کو بھی چھو جائے وہ ناپاک ہوجاتی ہے، خواہ وہ لباس ہو، زمین یا افراد، یہاں تک کہ آگ بھی (اس لیے وہ جلانے سے بھی پرہیز کرتے ہیں اور دفن کرنے یا پانی میں بہانے سے بھی گریز کرتے ہیں)۔ آخری رسومات کا آغاز لاش کو پاک کرنے کے عمل سے ہوتا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ اسے “گومز” یعنی مقدس بیل کے پیشاب سے اچھی طرح دھویا جاتا ہے۔

اس کے بعد وہ کمرہ جہاں لاش کو آخری دیدار کے لیے رکھا جاتا ہے اسے بھی اچھی طرح دھو کر پاک کرتے ہیں اور اس لباس کو بھی جو مردے کو پہنایا جانا مقصود ہو۔ کمرے کے درمیان میں ایک سفید چادر بچھا کر لاش اس پر رکھ دی جاتی ہے۔ اب قریبی عزیز اور غیرزرتشتی افراد بھی اس کا آخری دیدار کرسکتے ہیں اور مرنے والے کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کر سکتے ہیں، تاہم لاش کو چھونے کی اجازت کسی کو نہیں ہوتی سوائے ان لوگوں کے جو تجہیز وتکفین پر مامور ہیں۔ اس دوران ایک کتے کو جسے “سگدید” کہا جاتا ہے، وہاں دوبار لایا جاتا ہے تاکہ لاش بری ارواح سے محفوظ رہے۔ پُرسے کے لیے آنے والوں کو آخری دیدار کروا کر لاش کو دخمہ پر لایا جاتا ہے۔

دخمہ یا “خاموشی کا مینار” ایک اونچا مینار ہے جس پر مرنے والے کی لاش رکھ دی جاتی ہے۔ اس کے کپڑے اتار دیے جاتے ہیں جو بعدازاں اس خیال سے ضائع کردیے جاتے ہیں کہ وہ ناپاک ہو چکے ہیں۔ اس طرح چند ہی گھنٹوں میں گدھ لاش کو چٹ کر جاتے ہیں۔ زرتشتی عقائد کے مطابق اس طرح وہ لاش کی آلودگی سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔

٭درخت پر تدفین

اس رسم کے تحت فوت شدگان کو مختلف ٹوکریوں میں ڈال کر ان کے گاؤں کے پرانے درختوں سے باندھ دیا جاتا تھا۔ یہ رسم غالبا زیادہ تر ملحدوں کے ہاں انجام دی جاتی تھی کیوں کہ وہ کسی مخصوص ثقافت یا روایت پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ان کے ہاں اس طریقے سے محض اپنے فوت شدگان کو اپنے قریب رکھنا اور زندوں کو اس بات کا احساس دلانا ہوتا تھا کہ موت ایک ناگزیر حقیقت ہے جس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

٭جلانا

اپنے مردوں کو جلانے کی رسم اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں رائج ہے۔ اس کے لیے لکڑی کا ایک اونچا چبوترا بنا کر مردے کو اس پر لٹایا جاتا اور آگ لگا دی جاتی ہے۔ اور پھر جلی ہوئی لاش کی راکھ اٹھا کر کسی مرتبان میں رکھ کر مرنے والے کے عزیزوں کو دے دیاجاتاہے جسے وہ اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں۔ کچھ مرنے والے اس ضمن میں وصیت بھی کرجاتے ہیں کہ ان کی راکھ کو کس طرح رکھا جائے۔ کچھ تو یہ وصیت بھی کرچکے ہیں کہ ان کی راکھ خلا میں چھوڑ دی جائے۔ ہندو مت میں راکھ کو دریائے گنگا یا کسی اور دریا و ندی وغیرہ میں بہانے کی وصیت بھی کی جاتی ہے۔ تاہم لکڑیوں کے چبوترے پر اس طرح گھی یا تیل کی مدد سے جلانے کا عمل کسی قدر مہنگا بھی ہے۔

آج کل ترقی یافتہ ممالک میں جلانے کے لیے لکڑی وغیرہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے مخصوص بھٹیاں تیار کی جاتی ہیں جن میں مردے کو ڈال کر چند گھنٹوں میں ہی اس کی راکھ بنا کر مرتبان میں لواحقین کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ ان بھٹیوں کے مالکان باقاعدہ کاروبار کے طور پر ان آخری رسومات کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طریقہ کار فضائی آلودگی سے محفوظ رکھتے ہوئے اور لکڑی یا تیل کے غیرضروری ضیاع سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

٭تانا توراجا کی تدفین

انڈونیشیا کے علاقے تانا توراجا میں جنازے کا بہت خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں تدفین کی تقریب گانے باجے، رقص اور بہت سے مہمانوں کی پرتکلف دعوت پر مبنی ہوتی ہے۔ ان کے ہاں اسی وجہ سے موت ایک بہت مہنگا سودا ہے جس پر کثیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ مردے کی تدفین بھی جلد نہیں کرپاتے۔ اگر رقم دست یاب بھی ہو تو بھی انتظامات میں کئی دن لگ جاتے ہیں اور اگر لواحقین غریب ہیں تو وہ اپنے مردے کی شان دارتجہیز و تکفین کے لیے رقم جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ رقم کی اس بچت میں کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں اور سال بھی۔ لہذا اس دوران وہ اپنے مردے کو لپیٹ کر گھر کے اندر کسی حصے میں لٹا دیتے ہیں اور اس کی دیکھ بھال ایسے ہی کی جاتی ہے جیسے کسی بیمار کی۔ وہ گھر کے روزانہ معمولات کا حصہ رہتا ہے اور اس سے بات چیت بھی کی جاتی ہے۔ جب رقم جمع ہو جاتی ہے تو جنازے کو قبر یا غارمیں اتارا جاتا ہے یا کسی چوٹی پر لٹکا دیتے ہیں۔

٭قسطوں میں خودکشی اور پتھر میں موت کا انتظار

فاقوں مرنا ایک محاورہ ہی سہی لیکن جاپان کے کچھ بدھ بھکشوؤں میں یہ بھی موت کا ایک مروج طریقہ ہے۔ ویسے تو جاپان میں خودکشی بھی ایک رسم ہے جسے ہاراکیری کہا جاتا ہے، لیکن یہ بھکشو اس خودکشی کے لیے مخصوص طریقہ کار اپناتے ہیں جس سے بالآخر ان کا جسم ایک ممی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

اس عمل کی ابتدا میں بھکشو صرف پھل اور میوہ جات کھاتے تھے اور سخت جسمانی مشقت انجام دیتے۔ جسم کی زائد چربی کے خاتمے کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا جس میں بھکشو کو بتدریج آہستہ زہر دیا جاتا اور اس سے اسے بہت سی قے ہوتی ہے اور جسم کی رطوبتیں خارج ہوجاتیں۔ یہ مرحلہ ایک ہزار دن تک درختوں کی چھال، جڑیں اور زہریلی چائے پلانے پر منتج ہوتا۔ آخری مرحلے میں بھکشو ایک پتھر میں داخل ہوکر چوکڑی جما کر موت کے انتظار میں بیٹھ جاتا۔ وہ روز ایک گھنٹی بجاتا جو اس کے ساتھیوں کے لیے اس کیزندہ ہونے کا ثبوت دیتی۔ اور پھر جب گھنٹی کی آواز آنا بند ہوجاتی تو یہ سمجھ لیا جاتا کہ بھکشو مر چکا ہے۔ اب مقبرے کو مہربند کر دیا جاتا اور اگلے ایک ہزار دن مزید انتظار کرنے کے بعد اس مقبرے کو کھول کر بھکشو کے ممی بن جانے کی تصدیق کی جاتی۔

٭موت کے موتی

جنوبی کوریا میں 2000ء میں پاس ہونے والے قانون کے مطابق ہر مرنے والے کے عزیزوں پر لازم ہے کہ وہ موت کے 60 سال بعد اپنے فوت شدگان کو قبر سے نکال لیں۔ اس قانون کے پاس کرنے کی بنیادی وجہ بڑھتی آبادی اور قبرستانوں کی عدم دست یابی ہے۔ اسی وجہ سے جلانے کی رسم بھی مقبول ہو گئی ہے۔ تاہم کچھ خاندان ہمیشہ جلانے ہی کو پسند نہیں کرتے بلکہ بہت سے ایسے ادارے بھی ہیں جو مُردوں کی باقیات کو جواہر سے مشابہ موتیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں جن کا رنگ گلابی، سیاہ یا فیروزی بھی ہوسکتا ہے۔ یہ موت کے موتی دیدہ زیب مرتبان وغیرہ میں رکھ کر گھر میں سجا دیے جاتے ہیں۔

٭کربتی رسومات

کربت کا جزیرہ جو بحراوقیانوں کے مرکز میں واقع ہے یہاں مردے کو تدفین سے پہلے کئی روز (غالباً تین سے بارہ دن) تک گھر میں لٹائے رکھتے ہیں اور پھر دفن کردیتے ہیں۔ تدفین کے کئی ماہ بعد قبر کھود کر کھوپڑی نکال لی جاتی ہے اور باقیات کو دوبارہ دفن کردیا جاتا ہے۔ اس کھوپڑی کو تیل و روغن لگا کر نگا جاتا ہے اور پھر تنباکو اور کھانا وغیرہ پیش کیا جاتا ہے۔ جزیرے کے لوگ اس کھوپڑی کو اپنے مکانوں میں دیوار پر جڑے تختوں وغیرہ پر سجا دیتے ہیں۔

٭ممیانا

بعدازموت زندگی کا عقیدہ کسی نہ کسی صورت میں ہر مذہب میں موجود رہا ہے جسے اکثریت ابدی زندگی کے نام سے بھی پکارتی ہے۔ اس ابدی زندگی کی تیاری زندگی میں اعمال کی تطہیر سے کی جاتی ہے تو موت کے بعد میت کی آخری رسومات کے مخصوص طریقے بھی اس کا اظہار ہوتے ہیں۔

مصر میں مردے کی لاش کو حنوط کر کے اس کی ممی بنادی جاتی تاکہ اس کا جسم موسمی حالات و قدرتی شکست و ریخت سے محفوظ ہو کر اپنی اصل حالت میں ہی اگلی دنیا تک پہنچ سکے۔ ابتداء ممی بنانے کا طریقہ نسبتاً آسان تھا مردے کو ایک اتھلا گڑھا بنا کر اس میں رکھ دیا جاتا جہاں وہ گرم ریت کے بیچ گرمی اور ہوا سے سوکھتا چلا جاتا اور یہ اکڑی ہوئی لاش ممی کی صورت محفوظ کرلی جاتی۔ لیکن جیسے جیسے مصری طاقت اور جاہ کے حامل ہوتے گئے ممی بنانے کا یہ عمل بھی پیچیدگی اختیار کرتا چلا گیا۔ بالخصوص امارت کا اظہار اس تبدیلی کی بنیادی وجہ تھا۔

مصر کے اہراموں سے فراعین کی جو ممیاں دست یاب ہوئیں ان پر تحقیق سے ممی بنانے کا طریقہ کار اور اس فن کی جدت و پائیداری کا اندازہ ہوتا ہے۔ ممی بنانے کے دو مرحلے ہوا کرتے تھے۔ اول ممی کو مختلف مسالا جات لگائے جاتے اور دوم اس کو لینن کے کپڑے میں لپیٹا جاتا۔ مسالا لگانے کا عمل خاصا دیر طلب اور پیچیدہ ہوا کرتا۔ پہلے مردے کے جسم کے ایک جانب چیرا لگا کر دل کے علاوہ اس کے دیگر اعضائے رئیسہ باہر نکال لیے جاتے جنہیں الگ الگ سکھایا جاتا۔ دل کو جسم میں ہی رکھا جاتا کیوں کہ ان کے عقیدے کے مطابق دل جذبات و ذہانت کا مرکز تھا اور اگلے جہان میں اس کا ہونا ضروری تھا۔

دماغ کو بھی ایک کانٹے کی مدد سے گودا بنا کر ہک سے باہر کھینچ لیا جاتا۔ اسے چالیس دن تک خام شورے میں تربتر کر دیتے۔ پھر دریائے نیل کے پانی سے نہلا کر جلد کی نرمی برقرار رکھنے کے لیے مختلف قسم کے خوشبودار تیل میں بسایا جاتا اسی موقع پر اعضائے رئیسہ لینن میں لپیٹ کر دوبارہ جسم میں رکھ دیے جاتے۔

اس کے بعد مردے کو لپیٹنے کا مرحلہ آتا اور مردے کے سر ہاتھ اور پیروں کو الگ الگ لینن کی پٹیوں سے لپیٹا جاتا۔ جبکہ پٹیوں کو دیتاؤں کی مجوزہ گرہیں لگا کر دیوتاؤں کی حفاظت میں دے دیا جاتا۔ پھر پورے جسم کو بڑی چادروں میں لپیٹا جاتا اور ہر پرت میں دیوتاوں کی اشکال و نشانیاں ساتھ لپیٹ کر گوند سے چپکا دیا جاتا۔ آخری مرحلے میں ممی کو اس کے فرنیچر، استعمال کی اشیا اور لباس و زیورات نیز قیمتی اشیا وغیرہ کے ساتھ مقبرے میں پہنچادیا جاتا۔ اب یہ ابدی سفر پر روانگی کے لیے تیار سمجھا جاتا۔

٭زمین میں دفن کرنا

عیسائیت، یہودیت اور اسلام سمیت بہت سے مذاہب ایسے ہیں جن میں مردوں کی آخری آرام گاہ قبر کو تصور کیا جاتا ہے۔ اپنے مردوں کو مذہبی تعلیمات و مخصوص ثقافت کے مطابق نہلا دھلا کر کفن (ہر ثقافت میں اس کا رنگ اور انداز جدا ہوتا ہے) میں لپیٹ کر زمین میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے۔

عیسائیت میں ایک رسم کے مطابق دوست احباب میت کے پاس رات بھر جاگتے ہیں اور مناجات وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ میت کو بہترین (بالعموم نیا) لباس پہنا کر کے تابوت میں لٹا دیا جاتا ہے اس کے سینے پر عموماً صلیب یا اور کوئی مقدس نشانی رکھ کر آخری دیدار کرواتے ہیں نیز اس موقع پر خیرات اور احباب میں کھانے پینے کی اشیا اور روپے وغیرہ بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ آخر میں مردے کو قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔

یہودیت میں جلانے کی سختی سے ممانعت ہے۔ یہاں مردے کی سفر آخرت کی تیاری کے لیے اس خدمت پر مامور مخصوص افراد ہوتے ہیں جنہیں چیورا کادشا (Chevra Kadisha ) کہا جاتا ہے جب کہ مردے کو نہلانا و تجہیز و تکفین کا عمل طہارہ کہلاتا ہے۔ مردے کو اچھی طرح سے نہلا کر اس کی پاکی کے لیے دعائیں پڑھی جاتی ہیں اور اسے سفید کفن ہلبشا (Halbasha) میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ لکڑی (بالخصوص صنوبر) کے صندوق میں مردے کو رکھ کر اس کی تدفین کی جاتی ہے۔ یہ مخصوص صندوق اس طریقے پر تیار کیے جاتے ہیں کہ ان میں دھات استعمال نہ کی جائے، میخوں کے طور پر بھی دھات استعمال نہیں کی جاتی۔ یہودیت میں تدفین میں جلدی کی جاتی ہے۔ مجبوری کی صورت میں بھی بہتر گھنٹوں کے اندر تدفین کا عمل مکمل کرلیا جاتا ہے۔

اسلام میں مردے کو خصوصی احترام حاصل ہے۔ مردے کو نہلا دھلا کر سفید کفن میں لپیٹا جاتا ہے۔ مرد کا کفن تین کپڑوں (بڑی چادر، چھوٹی چادر اور کفنی یا کرتا) میں جبکہ عورت کا پانچ کپڑوں (بڑی چادر، چھوٹی چادر، کفنی یا کرتا، سینہ بند اور اوڑھنی) میں مسنون ہے۔ کفن سفید رنگ کا اور ان سلا ہوتا ہے، جب کہ شہید (جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں) کو اس کے اپنے لباس میں بنا غسل دفن کردیا جاتا ہے۔ دفن میں جلدی اختیار کی جاتی ہے، دفن سے پہلے گریہ و زاری جب کہ دفن کے بعد رشتے داروں کو کھانا کھلانا بھی ثقافت کا حصہ ہے۔

The post بعد مرنے کے۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FVxqPz
via IFTTT

No comments:

Post a Comment