Saturday, September 26, 2020

پہلا مکالمہ ادا کرنے کی خوشی آج تک نہیں بھولا ایکسپریس اردو

پختون معاشرے میں فن اور فنکار ہمیشہ اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف عمل رہا، جیسے پختون خود اپنی بقاء کے لیے جنگ کی حالت میں رہا ہے۔

اس کیفیت اور صورت حال کا سامنا سید ممتازعلی شاہ کو دونوں حیثیتوں میں رہا۔ فن سے تعلق اور اس کی آبیاری کا عرصہ 70 برس تک دراز ہے لیکن مجال ہے کہ ایک پل کے لیے بھی نہ صرف ذاتی زندگی بلکہ اپنے ہر ایک کردار کے ذریعے اس جنگ کو جیتنے کی سعی پیہم میں تامل برتا ہو اور جہد مسلسل کا یہ سفر منکسر المزاجی، جی داری، خلوص نیت، رکھ رکھاؤ اور دل جمعی سے جاری و ساری ہے۔

ریڈیواور پاکستان ٹیلی ویژن کے ان اولین اداکاروں میں ان کا نام سرفہرست دکھائی دیتا ہے جنہوں نے فن اور خصوصاً اس ڈرامے کی آبیاری کی جو آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ راہ میں بہت پاپڑ بھی بیلے لیکن منزل تک یوں رسائی پائی کہ آپ کو ایک اکیڈمی کا درجہ دیا جانے لگا۔

سیماب صفت، منجھے ہوئے اور اپنی ذات میں ایک اکیڈمی کا درجہ رکھنے والے یہ فنکار ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہیں، ایک ایسا گنجینہ گوہر جنہوں نے سات عشروں پرمحیط عرصہ فن میں لاتعداد سیریل، سیریز، سنجیدہ، مزاحیہ اور دیگرکردارکمال مہارت اور ہنرمندی سے نبھائے۔ ان کا ہر کردار معاشرے میں اصلاح پسندی، صلح جوئی، دل جوئی اور بردباری جیسے اوصاف کے فروغ میں بھی پیش پیش رہا۔

ان کے لازوال کردار ’’گل بابا‘‘ نے پشتو ڈرامے کو نہ صرف ایک نئی جہت سے روشناس کرایا بلکہ یہ کردار پشتون سماج میں ایک رول ماڈل کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ یہ سترسال پر محیط جہد مسلسل کی کہانی ہے، اس وقت آپ ملک کے معمر ترین اداکار و صداکار ہونے کا اعزاز اور ہر پشتون کے لیے ایک آئیڈیل کا درجہ رکھتے ہیں۔

سید ممتازعلی شاہ کی اصل تاریخ پیدائش 1930کی ہے جو ان کے والد نے اپنی ڈائری میں اپنے ہاتھوں سے درج کی لیکن ان کے چچا نے سکول میں داخلے کے وقت11مارچ1933درج کرائی۔ وہ پشاورکے مضافاتی گاؤں سفید ڈھیری (سپینہ وڑی) میں سید حسین شاہ کے ہاں پیدا ہوئے۔

جماعت چہارم تک اپنے گاؤں کے پرائمری سکول میں پڑھنے کے بعد اسلامیہ کالجیٹ میں داخلہ لیا اور1948 میں یہاں سے میٹرک کاامتحان پاس کیا۔ یہ سال ان کی زندگی میں کئی اعتبار سے اہم رہا،کیوں کہ اس سال انہیں سی اینڈ ڈبلیو میں ملازمت ملنے کے ساتھ ریڈیو میں اپنے جوہر دکھانے کاموقع بھی ملا۔ ان کے ایک رشتہ دار جو ریڈیو میں انجینئر تھے وہ انہیں آڈیشن کے لیے لے گئے جہاں ان کو منتخب کیاگیا۔

پہلے ریڈیائی ڈرامے میں، جس میں حجرے کا سیٹ بنایا گیا تھا، اپنے کردار سے متعلق بتاتے ہیں کہ اس پورے ڈرامے میں انہیں صرف یہ مکالمہ ادا کرنے کاموقع ملا، جب خان نے کہا کہ چلم لے آؤ تو انہوں نے کہا: ’’خہ جی‘‘ یعنی اچھا جی۔ لیکن صرف یہ کردار ادا کرنے سے جو خوشی حاصل ہوئی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ جس کے بعد لاتعداد کردار کیے لیکن اپنے پہلے مکالمے کی خوشی اور احساسات کو آج تک نہیں بھولے۔ اس کے علاوہ اپنے دوست مرحوم نثار محمد خان کے تحریرکردہ اور پیش کردہ ڈرامہ میں، جو صرف تین کرداروں پر مشتمل تھا، تینوں ہی کردار انہیں کی آواز میں ادا کیے گئے، اس ڈرامے کو بہت پذیرائی ملی۔

پیرانہ سالی کے باعث وہ اپنی یادداشتیں کریدنے میں مشکل کا سامنا کر رہے تھے لیکن جو بھی الفاظ ادا کرتے ان سے یوں لگتا جیسے موتی جھڑتے ہوں۔ اس موقع پر ان کی معاونت کے لیے پی ٹی وی میں ملازم ان کے بھتیجے سید منورعلی شاہ بھی موجود تھے۔ سید منورعلی کو جب 1984میں پی ٹی وی میں ملازمت ملی توچچا اوربھتیجے کے مابین ایک معاہدہ ہوا کہ وہ آپس کے رشتے کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے کیوں کہ بھتیجے نے اپنی الگ پہچان بنانے کی ٹھانی تھی۔ یہ سلسلہ 2010ء تک چلتا رہا، جب چچا بھتیجے دونوں کو ایک ہی تقریب میں پی ٹی وی ایوارڈ ملنے لگا تو اس وقت یہ حقیقت لوگوں پر آشکارہوئی کہ ان دونوں کاآپس میں کیا رشتہ ہے۔

ممتاز علی شاہ بتاتے ہیں، ’’پہلے بھی میری یادداشت اتنی تیز نہیں تھی، جب کوئی مجھ سے میرے ڈراموں کی تعداد کے بارے میں پوچھتا تو جواب دیتاکہ قاضی ملا (پشاور ریڈیو اور ٹی وی کے اولین اداکاروں میں شامل تھے) سے معلوم کریں، ان کو تعداد معلوم ہے۔‘‘ ویسے تو انہوں نے لاتعداد ریڈیو، ٹی وی ڈراموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے لیکن پہلے پشتو اور بعد میں قومی سطح پر اردو میں بننے والا ڈرامہ ’’ناموس‘‘ میں ’’گل بابا‘‘ کا کردار (پختون سماج میں خاندان کے ایک بڑے کاکردار) ادا کر کے اس کو امرکر دیا۔ یہ کردار اس واسطے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پختون معاشرت میں اس کے ذریعے ایک صلح جو، مصلحت پسند اور دور اندیش خاندان کے سربراہ  کے کردارکا احیاء کیاگیا، ہر گھر میں پھر اسی کردار کے تناظر میں بڑوں نے عملی طور پر اپنے فرائض نبھانا شروع کر دیے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ناموس (اردو،پشتو)، سحر، تیندک، چغہ، جانان، زنجیریں(اردو)، روخانہ تیارے، شور، ورکے لارے اور کگ لیچونہ وغیرہ نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

انہوں نے ایک پشتو فلم ’’مخرور‘‘ جو نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے ان کے ایک دوست سید اکبر صابر نے بنائی، میں بھی کام کیا لیکن طبیعت یہاں نہ لگی۔ اسی طرح سٹیج پر بھی حاضرین کو اپنے کام سے متاثرکیا۔ ان کو 2006 میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ مختلف تنظیموں کی جانب سے بھی بے شمار ایوارڈ ملنے کے ساتھ ایک نجی ٹی وی چینل نے ان کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا۔ ٹی وی ڈرامے سے اپنے ابتدائی تعلق کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’غالباً 1968 کا سن تھا جب چکلالہ پنڈی میں ڈرامے اور دیگر پروگرام بنا کرتے، اس وقت ہمارے صوبے کے لیے ’’آغوش کوہستان‘‘ کے نام سے ایک سلسلہ ترتیب دیا گیا جس میں ہندکو، پشتوکے ڈرامے، موسیقی اوردیگر دستاویزی قسم کے پروگرام نشر ہوتے۔

لیکن وہاں مسئلہ فن کاروں کی کم یابی کا تھا جس کے لیے معروف پروڈیوسرشہزاد خلیل کی سرکردگی میں ایک ٹیم ریڈیو پشاور آ پہنچی۔ یہاں سے ان کو ایک فہرست ملی جس میں میرا نام بھی شامل تھا اور یوں میں ٹیلی ویژن ڈراموں کی جانب آگیا اور پھر چل سو چل، ایسا سلسلہ چل نکلا جس کے بعد مجھے خود بھی اپنے ڈراموں کی تعداد یاد نہیں رہی، لیکن اتنا معلوم ہے کہ سب سے زیادہ ڈراموں میں اداکاری کا اعزاز مجھے ہی حاصل ہے۔‘‘

ان کے کم ہی چاہنے والوں کو شاید اس بات کا علم ہوکہ وہ ایک مہان اداکارہونے کے ساتھ ایک بہترین شاعر اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ ریڈیو کے لیے انہوں نے کئی ڈرامے تحریرکئے۔ ان کی شاعری میں گیرائی کے ساتھ بے ساختہ پن کاعنصر غالب ہے۔ انہوں نے زندگی کے کھٹن مراحل کو بڑے لطیف پیرائے اور اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔

ان کے ہاں واردات قلبی کے ساتھ غم دوراں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کوانسانی مجبوریوں، نارسائیوں، محرومیوں اوردیگر احساسات پر قرینے سے بات کرنے کاملکہ حاصل ہے۔ ان کے ہاں ایک سرشاری کی کیفیت بھی ہے، انہوں نے اپنے اظہاریئے کو ایک نیا رنگ اور ڈھنگ دیا ہے۔ چند سال قبل جب  وہ ریڈیو پشاورکے آڈیٹوریم میں اپنی یادگارنظم’’دہ کنڈے پہ کوراووراولگیدو‘‘ یعنی بیوہ کے گھرکو آگ لگ گئی، سنانے لگے تو پورا ہال تالیوں کے بجائے زار و قطار رونے لگا،کیوں کہ انہوں نے زندگی کا عمیق نظری سے مشاہدہ کیا ہے۔

چند برس قبل جب سید ممتازعلی شاہ کی بیماری کا علم ہوا تو ان کا احوال دریافت کرنے کے لیے فون پر رابطہ کیا، بڑی محبت اورشفقت سے پیش آئے، احوال پوچھنے پر شکریہ بھی اداکیا۔ جب ان سے میڈیا پر ان کی بیماری کی خبر چلانے کی استدعا کی تو سختی سے منع کرتے ہوئے کہنے لگے، ’’میں اپنی بیماری کا چرچا کرکے کسی کو یہ تاثر دینے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے بھیک یعنی مالی مدد کی ضرورت ہے، ساری زندگی خودداری کا بھرم رکھا ہے، اس لیے اب جا کے اس بھرم کو نہیں توڑنا چاہتا۔‘‘ وہ اپنی روایات اور اقدار سے ہر لمحہ جڑے رہنے والے انسان ہیں۔

اسی میں وہ اپنی اور اپنی قوم کی فلاح اور عزت و تکریم کا فلسفہ ڈھونڈتے ہیں۔ ان کو اپنی زبان پر فخر ہے اور لوگوں کو بھی یہی تلقین کرتے ہیں کہ دوسروں سے ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ ہماری اپنی اقدار سب سے معتبر اور اعلیٰ ہیں۔ کہتے ہیں، ’’آج خواہشات ضروریات بن گئی ہیں، اگر ہم اپنی خواہشات کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں تو یہ زندگی بہت پرسکون گزرے گی۔ اسی طرح اگر معاشرتی اقدار، روایات، تحمل و بردباری کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے تو ہمارے اپنے ہی پیدا کردہ مسائل کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔ انسان کی سب سے بڑی جدوجہد اپنے آپ سے ایمان دارہونا ہے اگر آپ خود کے ساتھ ایمان دار ہیں، اپنے منصف خود آپ ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ زندگی میں کبھی پچھتاؤے کا احساس بھی آپ کو دامن گیر ہو۔‘‘

سید ممتازعلی شاہ ڈرامہ لکھنے والوں میں ویسے تو سبھی کے معترف ہیں لیکن عمر ناصر، سمندر خان سمندر، حمیدہ بانو، سعد اللہ جان برق، محمد اعظم اعظم، نور البشر نوید اورگل محمد بیتاب کو مہان گردانتے ہیں۔ جب کہ پروڈیوسرز میں رشید علی دھقان، طارق سعید، فرمان اللہ جان، شوکت علی، مسعود احمد شاہ، سید عبدالجبار، جہانزیب سہیل، عبدالقیوم ہوتی، صلاح الدین کے کام کو سراہتے ہیں۔ وہ غزل کے رسیا ہیں، خیال محمد، شاہ ولی، عقل مینہ، گلنار بیگم، مہ جبین قزلباش، شکیلہ ناز، کشور سلطان، معشوق سلطان کے کام سے متاثر ہیں۔

موسیقاروں میں رفیق شینواری نے ان کو متاثرکیا ہے، کہتے ہیں: ’’ان کی بنائی ہوئی دھنوں میں ایسی مٹھاس ہے کہ بار بار سننے کو جی مچلتا ہے، اسی طرح خانہ بدوش اور سریلی آوازکی مالکہ زرسانگہ کا پشتو موسیقی میں ثانی نہیں، جب وہ گاتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پورا کارواں ان کی آوازکی طرف لپک رہا ہے۔‘‘ سید ممتازعلی شاہ کے مطابق زرسانگہ کے گلے میں سرسوتی کروٹ کروٹ سر تخلیق کر رہی ہے، اسی طرح ان کو بھولی بسری آوازوں میں عبداللہ جان کی آوازبھاتی ہے اور سازندہ نوازوں میں تاج محمد ان کو کبھی بھی نہیںبھولتے۔ ہم عصراداکاروں میںقاضی ملا مرحوم، سید سردار بادشاہ، ضیاء القمر، نوشابہ، محمد خامس اور بطورخاص گل افضل خان کے کام سے متاثرہیں۔ دلیپ کماراور راج کپورکو بھی پسند کرتے ہیں۔

خوراک اور لباس کے معاملے میں سادگی پسند ہیں۔ اس پیرانہ سالی اوربیماری کے باوجود ریڈیو،  کتاب اوراخبارکو اپنادوست بنا رکھا ہے۔ ان کی شادی خاندان ہی میں ماموں زاد سے ہوئی۔ ان کا ایک بیٹا (اشفاق علی شاہ) اورپانچ بیٹیاں ہیں۔ اپنی زندگی سے مطمئن ہونے کے ساتھ اپنے رب کی رضا پر راضی ہیں، نو دہائی پر محیط زندگی کے شب و روز میں بہت سے اتار چڑھاؤکے باوجود کبھی لب پر شکوہ نہ آنے دیا۔ آج بھی ان کے چاہنے والے اور شاگرد ان سے سیکھنے آتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’فن اظہارکا موثر ذریعہ ہے، جس سے سچائی اور حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ ایک لاشعوری عمل ہے جوکبھی کبھی اپنی فطرت کے مطابق خودبخود عمل پذیر ہوتا ہے اور بعض اوقات اس کی ریاضت کرنا پڑتی ہے۔ قدرت کو ریاضت کی ضرورت نہیں، جب کہ انسان ریاضت سے مقام عروج تک پہنچتا ہے۔

انسانی زندگی اور ارتقاء کے اس عمل میں فن اور آرٹ کا بڑا عمل دخل رہا ہے لیکن نامساعد حالات کے باوجود آج کا فنکار اپنے حصے کا کردار ضرور اداکر رہا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت اور بطور خاص محکمہ ثقافت فنکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے اقدامات کریں جن سے ایک فنکار اس تخلیقی عمل میں ترددکا شکار نہ ہو۔‘‘ ان کے بقول، ’’اگرچہ چند سال سے کچھ بہتر ڈرامے بننا شروع ہوگئے ہیں لیکن اچھے معیارکی حدود کو چھونے کے لیے مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ ریڈیو کا احیاء نیک شگون ہے کیوں کہ انتہائی آسان میڈیم کے ذریعے عوام کوتعلیم اور تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی بہتر اندازسے ممکن بنائی جاسکتی ہے، آج کل ہرکوئی اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔‘‘

سینئر فنکاروں اور ساتھیوں کے تاثرات
ان کے دیرینہ دوست اورسینئر فنکار نوران شاہ طوفان سید ممتازعلی شاہ کے بارے میں کہتے ہیں، ’’وہ ایک عظیم فن کار، استاد، دوست اورعظیم انسان ہیں۔ ان کے چہرے پر کبھی بھی افسردگی نہیں دیکھی، وہ ایک خودداراور باوقار انسان ہیں، وہ استادوں کے استاد ہیں، انہوں نے میرے سمیت کئی فنکاروں کو متعارف کرایا۔‘‘ ریڈیوپاکستان کے پروگرام منیجر رشید احمد کا کہنا ہے کہ وہ ایک ورسٹائل اداکار اور صداکار ہیں، ان جیسی آوازکسی کسی کونصیب ہوتی ہے۔ ان کا ہر کردار متنوع تھا کیوں کہ وہ ڈوب کراداکاری کافن خوب جانتے ہیں، مکالموں میں بلاکی برجستگی ہے، تحت اللفظ کمال کا ہے، وہ وقت کے بہت پابند تھے۔ سینئر اداکار و صداکار نثارعادل کہتے ہیں کہ وہ میرے سمیت سب کے استاد ہیں، ہم نے سٹریس، پاز، سٹپس الغرض سارے رموز ان سے ہی سیکھے ہیں۔

ان کے ماتھے پرکبھی بل نہیں دیکھا، خندہ پیشانی سے پیش آنا ان کا شیوا ہے، رحم دلی ہم نے ان سے سیکھی، اس عظیم انسان اور فنکارکو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی ملنا چاہیے۔ سید ممتاز علی شاہ کے ماموں زاد سید مکمل شاہ نے ان کو ایک ہمت جہت شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں، ویسے تو ان کا نام ممتازعلی شاہ ہے لیکن خاندان اور اپنے گائوں میں وہ ’’شریف ‘‘کے نام سے مشہور ہیں۔ ساتھی اداکار اور معروف لکھاری خالق داد امید ان کو اپنا استاد اورمہربان مانتے ہیں، جبکہ ریڈیو پاکستان پشاورکے سابق سٹیشن ڈائریکٹر لائق زادہ لائق کے مطابق وہ ایک مہان اداکار و صداکار ہیں۔

The post پہلا مکالمہ ادا کرنے کی خوشی آج تک نہیں بھولا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3czwlbI
via IFTTT

No comments:

Post a Comment