’’مسلمانو!انصاف کے علم بردار بنو اور سچی گواہی دو چاہے وہ تمھارے اپنے،والدین ،رشتے داروں یا امیر وبااثر لوگوں کے خلاف ہو۔اگر تم نے عدل وانصاف کرتے ہوئے ہیراپھیری سے کام لیا تو اللہ (تمھیں دیکھ لے گا کہ)تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘(سورہ النساء۔135)
٭٭
پچاس سال پہلے کی بات ہے،امریکی صحافیوں کا ایک وفد دورے پر سعودی عرب پہنچا۔ سعودی فرماں روا، شاہ فیصل مرحوم سے بھی مقررہ وقت ان کی ملاقات ہوئی۔ دوران ملاقات امریکی مہمانوں نے سعودیہ میں رائج شرعی سزاؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مجرموں کو سرعام کوڑے مارنا، ہاتھ کاٹ دینا اور پھانسی دینا انسانی حقوق کے منافی ہے۔شاہ فیصل خاموشی سے ان کی ناقدانہ گفتگو سنتے رہے۔ مہمانوں کی بات ختم ہوئی تو انہوں نے پوچھا ’’کیا بیگمات بھی آپ کے ساتھ آئی ہیں؟‘‘ بعض امریکی صحافیوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ شاہ فیصل گویا ہوئے:
’’آپ حضرات ایسا کیجیے کہ اپنی بیگمات کو مقامی صرافہ مارکیٹ میں لے جائیے۔ وہاں انہیں زیورات خرید کر دیجیے۔ سارا خرچ میں ادا کروں گا۔ خواتین پھر وہ زیورات پہن کر سعودیہ کے کسی بھی مقام پر آزادانہ گھوم پھر سکتی ہیں۔ کوئی انہیں آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔‘‘
یہ سن کرامریکی مہمان خوش ہوئے۔ انہوں نے سعودی شاہ کا شکریہ ادا کیا۔ تبھی شاہ فیصل نے ان سے پوچھا ’’ معزز مہمانان گرامی، یہ فرمائیے، کیا آپ اور آپ کی بیگمات زیورات پہن کر امریکا میں بلاخوف و خطر گھوم سکتی ہیں؟‘‘
سبھی امریکی صحافی ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ آخر ایک مری ہوئی آواز میں بولا: بالکل نہیں، ہمیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ ابھی کوئی چور یا ڈاکو ہم پر حملہ کردے گا۔‘‘
شاہ فیصل مسکرائے اور بولے ’’سعودیہ میں سخت سزاؤں کا نفاذ اسی لیے کیا گیا تاکہ آپ اور عام شہری مجرموں سے خوفزدہ ہوئے بغیر آرام و سکون سے زندگی گزار سکیں۔‘‘
خیروشر کا مجموعہ
انسانی معاشرے میں سزا کی اہمیت واضح کرنے والادرج بالا واقعہ تمثیلی بھی ہو تو ہے حقیقت!ساڑھے تین کروڑ کی کثیر آبادی رکھنے کے باوجود سعودیہ کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔حکومت کو یہ کامیابی اسی لیے ملی کہ وہاں سزاؤں پر فوری اور سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔
شرعی قانونی نظام مختصر ہے، عموماً قاضی اور شرطہ(پولیس)پر مشتمل۔مقدمے کا فیصلہ جلد،معین عرصے میں ہوتا ہے۔غریب ترین شہری چاہے تو معاشرے کی طاقتور ترین شخصت پہ مقدمہ کھڑا کر دے اور تمام عدالتی کارروائی مفت ہے،مظلوم کا ایک پیسا خرچ نہیں ہوتا۔جھوٹی گواہی دینے پہ سخت سزا مقررہے۔اور معمولی سپاہی بھی رشوت لینے کا سوچ نہیں سکتا۔ انسان دراصل خیروشر کا مجموعہ ہے۔
سزائیں ہی اس کی شرانگیز فطرت قابو میں رکھنے کا بہترین طریقہ ہیں۔ سزا اگر درست طریقے سے ملے تو اسی کو انصاف ملنا کہتے ہیں۔ اور ظالم کو سزا نہ ملے تو یہ مظلوم پر مزید ظلم کرنے اور اس سے ناانصافی کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے ایک انسانی معاشرے میں امن و سکون کو جنم دینے، اخلاق و قانون کی حکمرانی اور نظم و ضبط قائم رکھنے کی خاطر سخت سزاؤں کا نفاذ لازم اور ضروری ہے۔
پاکستان میں بڑھتے جرائم کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام ِسزا کمزور ہوچکا۔ مثلاً موٹروے پر خاتون پہ ظلم کرنے والا عابد علی پچھلے کئی برس سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ وہ قانون کے قابو میں آتا مگر ہر بار رشوت ، سفارش اور مظلوموں پہ زور زبردستی کرنے سے رہا ہوجاتا۔ عابد نے دیکھا کہ قانون اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا، تو وہ شیر ہوگیا۔
بلاکھٹکے وارداتیں کرنے لگا۔ اگر سانحہ موٹروے پر قوم شدید احتجاج نہ کرتی، تو عابد قانون کی پکڑ میں نہیں آ پاتا اور اپنا گھناؤنا کھیل جاری رکھتا۔اس زبردست احتجاج نے آشکارا کردیا کہ پاکستانی قوم انصاف اور قانون کی حکمرانی کی تلاش میں ہے تاکہ اپنی زندگیوں میں امن و سکون اور نظم و ضبط لاسکے۔ ناانصافی کا چلن معاشرے کو انتشار، بے چینی اور لاقانونیت کی سمت دھکیل رہا ہے۔آج ہر پاکستانی خاندان میں کوئی نہ کوئی کسی ظلم اور ناانصافی کا شکار نظر آتا ہے اور اسے انصاف نہیں مل پاتا۔یہ چلن جلد ختم ہونا چاہیے۔
وطن عزیز میں سزاؤں کے نظام کو پہلی ضرب آزادی کے فوراً بعد 1947ء میں لگی تھی۔ تب زمینوں کی الاٹمنٹوں کے دوران کئی پاکستانی زر و زمین کے چنگل میں پھنس گئے۔ لالچ و ہوس نے ان سے غلط کام کرائے مگر ان کی اکثریت سزاؤں سے محروم رہی۔ اسی باعث معاشرے میں ناانصافی، کرپشن، اقربا پروری اور دیگر علتّوں نے جنم لیا۔
جوں جوں مادی خواہشات بڑھیں، یہ علتیں بھی پروان چڑھتی چلی گئیں حتیٰ کہ انصاف فراہم کرنے والے قانونی نظام ہی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔انگریز آقاؤں کے عطا کردہ ہمارے قانونی نظام کے تین بنیادی حصّے ہیں… پولیس، وکلا اور عدلیہ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حقائق اور اعدادو شمار کی روشنی میں ان حصّوں کی موجودہ حالت کیا ہے۔
تباہ کن رپورٹ
حالیہ ماہ مئی میں صوبائی سرکاری ادارے، پنجاب سیف سٹی اتھارٹی نے ایک رپورٹ مرتب کی جو (تب کے) آئی جی پنجاب غلام دستگیر کو بھجوائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق 1 جنوری تا 7 مارچ 2020ء لاہور پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کے لیے 9881 ’’مصدقہ‘‘ فون کالیں موصول ہوئیں۔ ان میں سے صرف 2163 پر ایف آئی آر درج کی گئیں۔
یہ کل کالوں کا صرف 28 فیصد بنتا ہے۔ گویا لاہور پولیس نے ’’72 فیصد‘‘ کالوں پر ایف آئی آر درج ہی نہیں کیں۔ یہ تباہ کن انکشاف ہے۔رپورٹ سے عیاں ہے کہ پاکستان میں ایک مظلوم کو انصاف کے حصول میں پہلا دروازہ کھٹکتاتے ہوئے ہی رکاوٹوں اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر جرم کا شکار بدنصیب غریب ہے، تو اول وہ ایف آئی آر درج کرانے کی ہمت ہی نہیں کرتا کیونکہ متعلقہ پولیس والوں کی ہوسِ زر پوری نہیں کر پاتا۔ مقامی معززین یا تنظیموں کے دباؤ پر ظالم کے خلاف ایف آئی آر درج ہوجائے تو متعلقہ تفتیشی افسروں کو قدم قدم پر مال کھلانا پڑتا ہے۔
کئی تفتیشی افسر ظالم یا مظلوم میں کوئی امتیاز نہیں کرتے، ان کی نظر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کون سا فریق زیادہ رشوت دے کر ان کی ہوس پوری کرسکے گا۔پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کی انکشاف انگیز رپورٹ نے صرف لاہور پولیس کی کرپشن، فرائض سے غفلت اور ناانصافی کو اجاگر کیا۔ وطن عزیز کے دیگر شہروں اور قصبات میں بھی یہی حال ہے کہ تھانوں میں ایف آئی آر درج کراتے ہوئے عموماً عام آدمی کو گویا سات سمندر پار کرنے پڑتے ہیں۔ بس وہی سائل فائدے میں رہتا ہے جو اثرورسوخ اور پیسے والا ہو۔ ایسا شخص تو آسانی سے جھوٹی ایف آئی آر بھی درج کرادے۔
سونے چاندی کے پہیے
خوش قسمتی سے ظلم کا شکار شہری کو ایمان دار تفتیشی افسر مل جائے تو اس کا پالا ہمارے قانونی نظام کے اگلے فریق، وکیل سے پڑتا ہے۔ پاکستان میں وکلاکی شہرت بھی اچھی نہیں۔ وکیل نظریاتی طور پر ظلم کا شکار بنے مظلوم کا ساتھی ہوتا ہے۔ عملاً مگر بعض وکیل صرف پیسے کی خاطر ظالم کے حمایتی بن بیٹھتے ہیں۔ وہ ظالم کو سزا سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران جھوٹے گواہ پیش کرنا، مقدمے کو انتہائی طول دینا اور قانونی موشگافیاں پیش کرنا ان کے نمایاں حربے ہیں۔
قانونی نظام میں اصلاحات کی خاطر حکومت پاکستان نے 1967ء میں ایک ’’لاریفارم کمیشن‘‘ بنایا تھا جس کی رپورٹ 1970ء میں شائع ہوئی۔ رپورٹ میں صفحہ 186 پر مذکور ہے :’’ایک سینئر وکیل نے عدالت میں ایک سال تک اس بنیاد پر مقدمہ لٹکائے رکھا کہ وہ فارغ نہیں۔ مگر اسی دوران وہ وکیل ہائی کورٹ میں چلتے دیگر مقدموں میں پیش ہوتے رہے۔
لطف یہ کہ چند بار وہ اسی جج کی عدالت میں بھی پیش ہوئے جو ایک سال سے لٹکے مقدمے کی سماعت کررہا تھا۔‘‘ صفحہ 414 پر درج ہے :’’عام لوگوں کو شکایت ہے کہ بعض مجسٹریٹ اور جج رشوت لینے کی خاطر مقدمے لٹکا دیتے ہیں… وہ انجن کو رواں دواں رکھنے کی خاطر تیل مانگتے ہیں یعنی خرچہ پانی… تبھی عدالتی نظام حرکت میں آتا ہے۔‘‘ رپورٹ کے صفحہ 415 پر لکھا ہے :’’عدالتوں کے نچلے ملازمین میں رشوت کی گرم بازاری ہے۔ اس باعث جب تک سائل انہیں رشوت نہ دے، مقدمہ اپنی جگہ ساکت رہتا ہے… اسے حرکت میں لانے کے لیے سونے چاندی سے بنے پہیے لگانا ضروری ہے۔‘‘
انصاف کا خون
مظلوم اگر خوش قسمت ہے اور اسے دیانتدار اور انسان دوست وکیل بھی مل جائے تو آخر میں اس کا سامنا جج سے ہوتا ہے۔ ہمارے قانونی نظام کے اسے حصے میں بھی لالچی اور ہوس پرست لوگ موجود ہیں۔ وہ پیسے کے لیے یا اپنی کوئی خواہش پوری کرنے کی خاطر منصف ہوتے ہوئے انصاف کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد سے وابستہ ماہر بشریات، پروفیسر محمد اعظم چودھری نے پاکستانی عدالتی نظام میں مروجہ کرپشن سامنے لانے کی خاطر دس سال قبل ایک انگریزی مقالہ’’Corruption in Pakistani Courts in the Light of Local
Cultural Context‘‘ لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے ایسے مقدمے کا احوال بیان کیا جس میں ہمارے قانونی نظام کے تینوں حصے یعنی پولیس، وکیل اور جج انصاف کا خون کرنے میں ملوث پائے گئے۔
ہوا یہ کہ انیس سو نوے کے عشرے میں ایک پاکستانی ، عارف نے حمید اور یوسف نامی افراد سے ایک 1986 ء ماڈل کی گاڑی خریدی۔ یہ دونوں اس کے بھائی کی دکان میں آتے جاتے تھے۔ ایک ہفتے بعد انکشاف ہوا کہ کار تو چوری کی ہے۔ عارف نے کار پولیس کے حوالے نہیں کی بلکہ عدالت سے سٹے آرڈر لے لیا۔ عارف نے پھر
ایسا شناسا تلاش کیا جو تھانے میں کار لفٹنگ سیل کے انچارج کو جانتا تھا۔ عارف پھر انچارج سے مل کر مدد کا طلبگار ہوا۔ پولیس افسر نے مسئلے کا یہ حل تجویز کیا کہ پہلے سرکاری طور پر کار اپنی تحویل میں لے لی۔ پھر جج سے ساز باز کرکے بذریعہ عدالت کار عارف کو واپس لوٹا دی۔ جج نے یہ فیصلہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مقدمے کا قطعی فیصلہ نہیں ہوا لہٰذا کار عارف کے پاس ہی رہے گی۔ اس ساری کارروائی کے پولیس نے پانچ ہزار روپے بطور ’’نذرانہ‘‘ وصول کیے۔
اب عارف نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں۔ وہ وکیل حیلے بہانوں سے مقدمہ کی نئی نئی تاریخیں لیتا رہا (ظاہر ہے، اس عمل میں اسے جج کا تعاون بھی حاصل ہوگا۔) چناں چہ مقدمہ بہت طویل ہوگیا حتیٰ کہ کار کے اصل مالک نے تنگ آکر مقدمے کی پیروی ہی ترک کردی۔ ایک دن جج نے مقدمہ عارف کے حق میں سنادیا کیونکہ اصل کار مالک غیر حاضر تھا۔
یوں عارف مجرم ہوتے ہوئے بھی چوری کی کار کا مالک بن گیا۔اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ عبرتناک ہے۔ ہوا کہ ایک دن محکمہ ایکسائز کے افسروں نے عارف کو کار چلاتے ہوئے روک لیا۔ پڑتال ہوئی تو پتا چلا کہ کار پر ٹیکس واجب الادا ہیں۔ عارف نے افسروں کو رشوت دینی چاہی۔ افسر مگر کار کی قیمت سے بھی زیادہ رشوت مانگ رہے تھے۔ چناں چہ عارف نے کار ہی ان کے سپرد کردی اور گھر چلا گیا۔ یوں گناہ اور جرم کرکے ذلت و ندامت ہی عارف کے نصیب میں لکھی تھی۔
مقدمات کا انبار
مظلوم کو انصاف دینے میں تاخیر کرنا بھی ظلم کے مترادف ہے اور پاکستان میں یہ تاخیر عدالتی نظام کا طرۂ امتیاز بن چکا۔ حالیہ ماہ اگست میں حکومت پاکستان کے ادارے،نیشنل جوڈیشنل پالیسی میکنگ کمیٹی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ۔اس رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں میں ’’بیس لاکھ‘‘ سے زائد مقدمے زیر التوا ہیں۔ بعض مقدمے تو سینکڑوں برس پرانے ہیں۔ ان سے وابستہ سائل انصاف کی راہ تکتے تکتے اللہ کو پیارے ہوگئے مگر اپنے حق سے محروم رہے۔ زیر التوا مقدمات کی تفصیل یہ ہے:’’سپریم کورٹ میں 45,508 مقدمے زیر التوا ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ میں 84,341 پشاور ہائی کورٹ میں 38,664 ،لاہور ہائی کورٹ میں 31411، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 15,847 اور بلوچستان ہائی کورٹ میں 5313 مقدمے زیر سماعت ہیں۔ اسی طرح پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں 1,287,121 کیس زیر التوا ہیں۔ خیبرپختونخواہ کی ضلعی عدالتوں میں 210,025، سندھ 105,458، اسلام آباد 43,924 اور بلوچستان کی ضلعی عدالتوں میں 17,000 مقدمے زیر التوا ہیں۔‘‘
دوہرا مغربی قانونی نظام
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ انگریز آقاؤں کا وضع کردہ قانونی نظام اہل پاکستان کو انصاف دینے میں ناکام رہا۔ اس کی ناکامی سے پاکستانی معاشرے میں ناانصافی نے جنم لیا جو شہریوں میں انتشار، بے چینی اور منفی خیالات و جذبات پیدا کرتی ہے۔ درست کہ حکومت اور معزز جج صاحبان مروجہ قانونی و عدالتی نظام میں اصلاحات متعارف کراتے ہیں تاکہ اسے طاقتور اور مضبوط بنایا جاسکے مگر انہیں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔اس باعث سزا ملنے کا خوف اور قانون کی حکمرانی معاشرے سے عنقا ہورہی ہے۔
اب ہمارے ہاں ایسے جرائم منظرعام پر آرہے ہیں جن کی بابت چند عشرے قبل تک سوچنا بھی محال تھا۔ اس سے زیادہ پستی اور گھناؤنی حرکت کیا ہوگی کہ باپ اپنے ساتھیوں کو معصوم بیٹی پر ظلم کرنے کی دعوت دیتا پایا گیا۔ تعجب خیز امر یہ کہ گھناؤنے جرائم میں ملوث مجرم ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے اور بے حس دکھائی دیتے ہیں۔
کمزور قانونی نظام نے ان سے غلط اور درست … خیر اور شر کے مابین تمیز کرنے کی صلاحیت ہی چھین لی۔آج بنیادی سوال یہ ہے کہ عام پاکستانی کو فوری انصاف کیونکر مہیا کیا جائے؟ انصاف نہ ملنے سے پاکستانی معاشرے میں انتشار اور بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا قانونی نظام مضبوط و مستحکم بنانا اشد ضروری ہے تاکہ عام آدمی کو فوری انصاف مل سکے۔ فی الوقت تو پاکستان میں دوہرا قانونی نظام مروج ہے۔
طاقتور، دولت مند اور بااثر پاکستانی جرم کرکے بھی رہا ہوجاتا ہے جبکہ غریب پاکستانی جرم نہ کرنے پر بھی جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہے۔ یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔حکمران جماعت کے لئے صورت حال لمحہ فکریہ ہے کہ وہ انصاف لانے کا نعرہ لگا کر ہی ٰآئی۔
قاضی عدالتوں کا قیام
ایک حل یہ ہے کہ شہر اور تحصیل نہیں تو کم از کم ضلع کی سطح پر شرعی یا قاضی عدالتیں قائم کی جائیں۔ ان عدالتوں میں مروجہ اسلامی اصولوں کے مطابق قاضی اور مفتی تمام سول و کرمنل مقدمات کے فیصلے سنائیں۔مروجہ پولیس نظام سے الگ تفتیشی ٹیم یا شُرطے ان کے ماتحت ہوں۔تفتیشی ٹیم کے ارکان اسی ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔پھر ظلم کا شکار ہر پاکستانی کو یہ اختیار حاصل ہوکہ وہ اپنی فریاد لے کر مروجہ مغربی قانونی نظام سے رجوع کرے یا قاضی عدالت میں پہنچ جائے۔
یہ نیا نظام بنانے میں کچھ خرچ تو آئے گا مگر اس سے پاکستانی عوام کو بے پناہ فوائد ملیں گے۔پہلا بڑا فائدہ یہی کہ عام پاکستانی کو انصاف کے حصول کی خاطر ایک متبادل نظام میسّر آئے گا۔ جلد انصاف ملنے کی امید جنم لے گی اور یوں اس کی تکالیف اور پریشانیوں میں کمی آئے گی۔مروجہ مغربی قانونی نظام کمزور ہونے سے مجرموں کو جو کھلی چھوٹ مل چکی،اس کا بھی سدباب ہو گا۔ پاکستان اسلامی مملکت ہے۔ ان شرعی عدالتوںکے قیام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ وطن عزیز میں اسلامی قانون اور فقہ پر دسترس رکھنے والے جید علما موجود ہیں جو بہترین قاضی بن سکتے ہیں۔قاضی عدالتیں وفاقی شرعی عدالت کے ماتحت بنانا ممکن ہے۔
اسلامی تاریخ میں عہدہ ِقاضی معزز و بلند مقام رکھتا ہے۔ وجہ یہ کہ قاضی علم قرآن، علم حدیث اور علم فقہ تینوں بنیادی اسلامی علوم میں طاق ہوتا ہے۔ قاضی کو اعلیٰ مقام ملنے کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری تاریخ میں پہلے قاضی یا جج نبی کریم ﷺ تھے۔ آپؐ نے یہ عہدہ اس لیے اختیار فرمایا کہ قرآن پاک میں’’ انصاف‘‘ (عربی میں عدل یا قضا) کو نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ قرآن پاک میں یہ لفظ 22 آیات میں 24 بار استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح ’’عادل‘‘ اللہ تعالیٰ کا ایک اہم اسم مبارک ہے۔ مفسرین کے نزدیک انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام قرآن پاک کے بنیادی نظریات میں سے ایک ہے۔جب قرآن پاک نازل ہوا تو انسانیت دور جہالت سے گزر رہی تھی۔ صحرائے عرب ہی نہیں دنیا کے سبھی خطوں میں قتل و فساد برپا تھا۔
ناخواندہ عرب خصوصاً معمولی باتوں پر قتل و غارت کرنے لگتے۔ قبائلی جنگیں عروج پر تھیں اور ایک دوسرے کے خلاف جرم کرنا معمول کی بات بن چکی تھی۔ قرآن پاک نے عرب قوم کو تعلیم دی کہ اخلاقیات کا تعلق قبیلے سے وفاداری اور فرسودہ روایات پر عمل کرنے نہیں بلکہ اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھنے سے ہے۔ قرآنی تعلیمات نے عربوں پر آشکارا کیا کہ ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمے دار ہے۔ یوں قرآن نے قبائلی معاشرہ ختم کرکے ایسے نئے معاشرے کو جنم لیا جہاں ہر انسان اخلاقی لحاظ سے درجہ کمال تک جاپہنچا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہر انسان اپنے گناہ (یا جرم) کا خود ذمے دار ہے۔ وہ دوسرے کا نہیں اپنا بوجھ خود اٹھائے گا اور ہر انسان نے رب کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ ‘‘(سورۃ الاانعام۔164)
انصاف اور دین و دنیا کی فلاح
قرآنی تعلیمات نبی کریمﷺ کے زیر سایہ صحرائے عرب میں پھل پھول گئیں۔ اس طرح زور و جبر اور لاقانونیت پر مبنی عرب معاشرہ انجام کو پہنچا۔ اس کی جگہ ایسے معاشرے نے جنم لیا جو عدل و انصاف، رحم دلی، صبر و برداشت اور سادگی و قناعت جیسی اعلیٰ انسانی اقدار سے متصف تھا۔
قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر رحمت للعالمینؐ نے عرب سے قتل و فساد اورجرائم کا خاتمہ کرڈالا۔ قرآن پاک کی ’’دو سو آیات‘‘ میں ان لوگوں پر شدید تنقید ہے جو ناانصافی کا مرتکب ہوتے اور ظلم کرتے ہیں۔بہترین انتظام حکومت یا گڈگورننس کے جنم ینے میں بھی عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ امام ابن تیمیہؒ کا قول ہے ’’اسلامی ریاست میں حکومت دو ستونوں پر استوار ہوتی ہے۔ اول یہ کہ حکمران اہل اور باصلاحیت افراد کو سرکاری عہدوں پر فائز کرے۔ دوسرا یہ کہ حکومت عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے۔ انصاف ہی پر دین و دنیا کی فلاح کا دارومدار ہے۔‘‘
جب صحرائے عرب میں اسلام کا بول بالا ہوا تو نبی کریمﷺنے مختلف علاقوں میں صحابہ کرامؓؓ کو والی یا ناظم مقرر فرمایا۔ یہی صحابہ کرامؓؓ اسلامی تاریخ کے پہلے قاضی بھی تھے۔ اس حقیقت سے بھی عیاں ہے کہ اسلام میں قاضی کو معزز و مقدس مقام حاصل ہے۔ صحابہ کرامؓؓ قرآن و سنت کے علاوہ اجتہاد سے مدد لے کر بھی فیصلے کرتے ۔تب مجلس شوریٰ سے بھی مشورے لیتے جو معززین علاقہ پر مشتمل ہوتی۔ یہ بھی سنت نبویؐ تھی جسے خلفائے راشدین نے بہ رضا و رغبت اپنایا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا تو آپ عام مسلمانوں کے درمیان پہنچ جاتے۔
آپ پھر فرماتے کہ یہ مسئلہ درپیش ہے، اسے حل کرنے کے لیے تجاویز دو۔ پھر صلاح مشورے سے جو فیصلہ ہوتا اس پر عمل کیا جاتا۔خلیفہ راشد دوم، حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور حکومت میں مختلف علاقوں اور شہروں میں باقاعدہ طور پر قاضی مقرر فرمائے۔ یہ قاضی مقامی والی یا عامل کے ماتحت نہیں بلکہ آزادانہ اور خود مختار حیثیت رکھتے ۔ مقصد یہ تھا کہ اگر والی کوئی جرم یا گناہ کرے، تو اس پر بھی قاضی کی عدالت میں مقدمہ چل سکے۔ خلیفہ دوم نے قاضیوں کو پُرکشش تنخواہیں دینے کا بندوبست فرمایا تاکہ وہ کسی لالچ و ہوس میں مبتلا نہ ہوں۔ مولانا شبلی نعمانی نے ’’الفاروقؓ‘‘ میں قاضی عدالت کی کارروائی چلانے کے سلسلے میں حضرت عمرؓ کے درج ذیل احکامات کا ذکر کیا ہے:
’’قاضی کو چاہیے کہ وہ ہر کسی کو برابر رکھے۔ طاقتور کو اہمیت دی تو وہ اس سے رعایت کی امید رکھے گا جبکہ غریب انصاف کے حصول میں مایوس ہوسکتا ہے۔ جو شخص کسی پر الزام لگائے، وہ ہی ثبوت بھی دے گا۔
جو شخص جرم سے منکر ہو، اس پر قسم ِصلح جائز ہے لیکن اس عمل سے حلال حرام اور حرام حلال میں تبدیل نہ ہو۔اگر تم نے پہلے کوئی فیصلہ کیا ، تو آج غور کرنے کے بعد اسے تبدیل کرسکتے ہو۔ جس مسئلے میں شبہ ہو اور قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہ ملے تو اس پر غور کرو، مسلسل غور کرو۔ اس کی (قانونی و عدالتی) مثالوں اور نظریوں پر غور کرو۔ پھر قیاس (اجتہاد) کا راستہ اپناؤ۔ جو شخص ثبوت پیش کرنا چاہے، اس کے لیے معیاد مقرر کرو۔ اگر وہ ثبوت دے تو اسے حق دلاؤ ورنہ مقدمہ خارج کردو۔ مسلمان سب ثقہ ہیں سوائے ان کے جنہیں سزا ملی ہو، جو جھوٹی گواہی دیتے ہوں یا ولاء اور وراثت میں مشکوک ہوں۔‘‘
خفائے راشدین کے دور میں شریح بن کندی مشہور قاضی گزرے ہیں۔ شہرت کے باعث لفظ قاضی ان کے نام کا جزو بن گیا۔ وہ نوجوانی ہی میں قرآن و سنت اور فقہ پر دسترس پاکر عوام الناس کے مابین تصفیے کرانے لگے تھے۔ایک مقدمے میں انہوں نے خلیفہ راشد دوم کے خلاف فیصلہ دیا۔ نوجوان شریح کی ذہانت اور دلیری سے متاثر ہوکر حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں کوفے کا قاضی مقرر کیا۔
قاضی شریح نے ایک مقدمے میں خلیفہ راشد چہارم، حضرت علیؓ کے خلاف بھی فیصلہ سنایا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خلفائے راشدین نے خندہ پیشانی سے قاضی کا فیصلہ قبول کیا۔ انہوں نے یہ شور نہیں مچایا کہ حکمران ہونے کی حیثیت سے انہیں استثنیٰ حاصل ہے اور نہ ہی وہ چال بازیاں اور حیلے بہانے اختیار کرکے بیرون ملک فرار ہوگئے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ عدالت کا محکمہ اپنے اختیارات وفرائض میں اْموی فرمانرواؤں کے اثر سے بالکل آزاد تھا۔ خلفا کے ذاتی رجحانات کا ان پر کوئی اثر نہ تھا۔عدالت کے فیصلے گورنروں اور خراج کے افسروں تک بلا رعایت نافذ کیے جاتے۔
عہد اْموی میں قاضی کے انتخاب کے لیے ضروری تھا کہ وہ بلند سیرت، پاکباز، پرہیزگار، عالم، مجتہد اور عیوب سے مبرا ہو۔ اور عدل وانصاف کے مقابلے میں دنیا کی کسی طاقت کی کوئی پرواہ نہ کرے۔عہد ِعباسی میں بنو اْمیہ کی ہی طرح قاضیوں کے اختیارات برقرار رہے۔قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کے رعب داب اور عزت ومرتبہ کا یہ عالم تھاکہ اْمرا، وزرا بلکہ خلیفہ تک کو یہ جرات نہ ہوتی کہ اس کے فیصلوں سے سرتابی کرسکے۔مسلم اسپین میں حکومت کاہر محکمہ منظم طور پر قائم تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے اسپین میں عدلیہ کے ادارے مضبوط بنیادوں پر قائم کیے ۔
سب سے بڑا اور مقدس عہدہ قضا کا ہی ہوتا ۔ آئی ایچ برنی اپنی کتاب’’مسلم اسپین‘‘میں لکھتے ہیں:’’ اسپین کا نظام عدالت اس زمانہ کے عجائبات میں سے تھا۔ پہلے قواعد بنائے جاتے، پھر ان کو دارالسلطنت اور سرحدی علاقوں میں نافذ کرکے ان کا تجربہ کیا جاتا ۔ اس کے بعد وہ سلطنت میں نافذ ہوتے ۔ مقدمات کے فیصلے میں قطعاً دیر نہ کی جاتی اور کسی سفارش یا حمایت کو فیصلے پر اثر انداز نہ ہونے دیا جاتا ۔ جتنے فیصلے ہوتے، وہ نہایت ہوش مندی اور انصاف پر مبنی ہوتے۔ ‘‘
ہندوستان میں جب مسلمان آئے تو یہاں بھی عام طور پر وہی اسلامی قانون ان کا رہنما بنا۔اسلامی ملکوں کی طرح ہندوستانی عدالتی عہدیداروں پر بڑی کڑی اور بھاری ذمہ داری عائد تھی۔قاضیوں کو خلافِ شرع فیصلہ کرنے پر موت کی سزا دی جاتی۔عہد ِسلاطین میں سبھی مسلم حکمرانوں نے اپنے طور پر عدل قائم کرنے کی کوشش کی۔سلطان التمش بھی اپنے عدل وانصاف میں مشہور تھا۔ انصاف دینا ہمیشہ مسلمان بادشاہوں کا شعار رہا ۔ شہنشاہ جہانگیر نے تخت نشینی کے بعد پہلا حکم ’’زنجیر عدل‘‘ باندھنے کا دیاتاکہ مظلوموںکی داد خواہی میں اگر قانونی نظام کوتاہی کرے تو مظلوم خود زنجیر کے پاس پہنچ کر اسے ہلادے۔ یہ زنجیر مظلوم کی دسترس میں تھی۔ ہاتھ لگتے ہی گھنٹیاں بجتیں جن کی آواز بادشاہ تک پہنچتی اور فوراًمظلوم کی سنی جاتی۔
حرف ِآخر
غرض شرعی عدالتوں یا قاضی کورٹس کی باقاعدہ تاریخ موجود ہے۔ماہرین کی رو سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان عدالتوں کے قیام سے خصوصاً عوام الناس کو گوناگوں فوائد حاصل ہوں گے۔ پہلا فائدہ تو یہی کہ جلد انصاف کے حصول میں عام شہری کو متبادل قانونی نظام میّسر آئے گا۔ حکومت کو قانون کی رٹ اور حکمرانی بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ مزید براں قانونی نظام کی خامیوں سے مادرپدر آزاد ہوجانے والے مجرم بھی چوکنا ہوں گے۔
قاضی عدالتوں کے فوری فیصلوں اور سخت سزاؤں سے ان میں ریاست و حکومت کا خوف جنم لے گا جو ایک شہری کو جرم و گناہ کرنے سے باز رکھتا ہے۔تب وہ جرم کرنے سے قبل ہزار بار سوچے گا۔ یہ عدالتیں بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو قرآن و سنت کے بھولے اسباق بھی یاد دلائیں گی… وہ سبق جنہیں جان کر انسان لالچ و ہوس، مادی آسائشوں کی تمناؤں اور ناجائز خواہشوں سے چھٹکارا پاکر اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مملوایک سچا مومن بن جاتا ہے۔
مغربی افکار و نظریات سے متاثر بعض پاکستانی حلقے شرعی سزاؤں کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے انھیں اپنانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ان کا مطالبہ ہے کہ مروجہ قانونی نظام میں اصلاحات لائی جائیں۔مگر نصف صدی سے نظام بہتر کرنے کی باتیں ہی ہو رہی ہیں،کوئی عملی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔قاضی کورٹس کے حامی یہ سوال کرتے ہیںکہ مجرموں کے حقوق اہم ہیں یا مظلوموں کی جان و مال اور عزتیں جنھیں ظالم پامال کر دیتے ہیں؟نام نہاد حقوق کے نام پر کیا مجرموں کو انسانی معاشرے تباہ کرنے کی اجازت دے دی جائے جیسا کہ پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے؟وہ کہتے ہیں،انھیں سمجھنا چاہیے کہ مغربی ممالک میں قانون کا سختی سے نفاذ ہی شہریوں کو جرائم کرنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
The post پاکستانی قوم انصاف کی تلاش میں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/335XSi5
via IFTTT
No comments:
Post a Comment