Wednesday, August 28, 2019

چین نے ہانگ کانگ پر جی سیون ممالک کی مداخلت مسترد کر دی ایکسپریس اردو

ہانگ کانگ میں گزشتہ کچھ عرصے سے شدید عوامی احتجاج اور مظاہروں کے مناظر نظر آ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہانگ کانگ کو برطانوی عملداری میں جو سیاسی اور سماجی آزادیاں حاصل تھیں‘ وہ اس جزیرے کے چین کی عملداری میں جانے کے بعد اب بمشکل ہی برقرار رہ سکیں گی اور ان آزادیوں کو خطرے میں دیکھتے ہوئے ہانگ کانگ کے باشندے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ہانگ کانگ پولیس مظاہرین پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس اور پانی کی تیز دھاروں کا سہارا بھی لے رہی ہے لیکن ابھی تک احتجاج کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا۔

چین ان مخالفانہ مظاہروں کا الزام برطانیہ کے بجائے امریکا پر عاید کر رہا ہے اور جی سیون کے سربراہ اجلاس میں جو فرانس میں منعقد ہوا اس اجلاس میں ہانگ کانگ کی صورت حال کے بارے میں جی سیون نے جس موقف کا اظہار کیا اس پر چین نے عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔ جی سیون کے رہنماؤں نے ہانگ کانگ میں اقتصادی خود مختاری کی حمایت کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ 1984میں برطانیہ اور چین میں جو سمجھوتہ ہوا تھا۔

اس میں ہانگ کانگ کو کسی حد تک اقتصادی خود مختاری دینے پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن چین نے جی سیون سربراہ کانفرنس کے بارے میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ممالک اپنے مخصوص مفادات کے باعث ہانگ کانگ کی صورت حال کو اور زیادہ خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جی سیون اجلاس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے چین نے اس کو بھی مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا کہنا ہمارے سرکاری موقف سے عدم موافقت کے مترادف ہے۔

چین نے کہا ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہانگ کانگ کے معاملات چین کا داخلی معاملہ ہیں جس میں کسی تیسرے فریق کو مداخلت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی چین اس قسم کی مداخلت کو قبول کر سکتا ہے۔

واضح رہے ہانگ کانگ میں مظاہرے اور احتجاجی تحریک شروع ہوئے تقریباً دو ماہ ہو گئے ہیں۔ جی سیون ممالک میں برطانیہ‘ کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ جاپان اور امریکا شامل ہیں جنھوں نے ہانگ کانگ میں امن و امان برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ چین نے اعلان کیا ہے کہ دنیا میں کسی اور ملک کو ہانگ کانگ کے امن و امان کا اتنا خیال نہیں ہو سکتا جتنا کہ چین کو ہے کیونکہ ہانگ کانگ فطری طور پر چین کا حصہ ہے۔

The post چین نے ہانگ کانگ پر جی سیون ممالک کی مداخلت مسترد کر دی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ztBSxT
via IFTTT

No comments:

Post a Comment