Monday, December 28, 2020

کورونا کی وبا میں روایتی اور جدید پکوان گھر کی دہلیز پر پہنچانے والی خاتون خانہ نوشین نور ایکسپریس اردو

رواں برس کے اوائل میں جب روئے زمین پر ’کورونا‘ کی وبا پھیلی اور پھر فروری میں ہمارے دیس میں بھی یہ مہلک وبا اپنے پنجے گاڑنے لگی۔۔۔ اس سے ایک طرف عوام خوف زدہ تھے، تو دوسری طرف کاروباری سرگرمیاں معطل اور متاثر ہونے اور مختلف ’بندشوں‘ کی بنا پر معاشی مصائب علاحدہ تھے۔۔۔

وبا کی اس گھٹن میں جہاں گھروں میں بند ہو کر بیٹھنے سے لوگوں کو مختلف قسم کے تجربات ہوئے، وہیں ان ’بندشوں‘ سے کچھ لوگوں نے اپنے لیے نئے راستے بھی ڈھونڈ نکالے۔۔۔ بہت سے اداروں کی جانب سے اپنے ملازمین کو گھروں سے بیٹھ کر کام کرنے کی سہولت مہیا کرنی پڑی، اسی طرح کئی کمپنیوں کی مصنوعات اور خدمات صارفین کے گھر کی دہلیز پر دست یاب ہونے لگیں۔۔۔

ایسے ہی اپنے لیے نئی راہ نکالنے والوں میں ملیر، کراچی کی ایک خاتون خانہ نوشین نور بھی شامل ہیں، جنھوں نے وبا کے دوران ہونے والے ’لاک ڈاؤن‘ کے دوران سِل بَٹّے پر پیسے گئے، لذیذ ’شامی کباب‘ لوگوں کے دسترخوانوں تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔۔۔ اب تک صرف امورِ خانہ داری میں وقت گزارنے والی نوشین نور نے پہلے اپنے اس کام کے لیے بہ ذریعہ ’وٹس ایپ‘ مختلف پکوان تیار کرانے والی خواتین سے رابطہ کیا۔۔۔ انھیں نوشین کے بنائے ہوئے شامی کباب کا ذائقہ پسند آیا اور پھر جلد ہی اِن خواتین کے توسط سے انھیں آرڈر بھی ملنا شروع ہو گئے۔۔۔

وہ فی الحال اپنا کوئی علاحدہ ’وٹس ایپ‘ گروپ تو نہیں رکھتیں، تاہم فیس بک پر ’ZAAM Tastes‘ ’زیئم ٹیسٹ‘ کے نام سے ان کا ایک صفحہ موجود ہے، یہ نام ZAMM دراصل ان کے چاروں بچوں زین، عفیفہ، مومنہ اور مریم کے ناموں کے ابتدائی حروف ہیں، اس نام کے حوالے سے نوشین بتاتی ہیں کہ یہ نام ان کے شوہر جواد نقی ہی نے تجویز کیا، بلکہ انھیں اس کام کی صلاح دینے اور ہر مرحلے پر ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے بھی وہی ہیں، انھوں نے ہی کہا کہ تم یہ سب کر سکتی ہو اور کرو۔

ایک روایت پسند گھرانے کی خاتون کا اس طرح اپنے ہنر کو یافت کا ذریعہ بنانا، یقینی طور پر کچھ لوگوں کے حوصلہ شکن تبصروں کو بھی راہ دیتا ہے۔۔۔ ہم نے اس حوالے سے پوچھا، تو نوشین نور نے اس کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں بھی یہ سننا پڑا کہ کیا ضرورت ہے، تم اب بچوں والی ہو، یہ سب اچھا نہیں لگتا، وغیرہ وغیرہ، لیکن چوں کہ انھیں شروع سے ہی اپنے شوہر کا اعتماد اور بھرپور تعاون حاصل رہا ہے، اسی لیے وہ اپنے قدم کام یابی سے آگے کی طرف بڑھا رہی ہیں۔ ایک طرف اُن کے صاحب زادے زین نقی نے ’فیس بک‘ پر اُن کا صفحہ بنایا، تو دوسری طرف چچا زاد بھائی نے ’فیس بک‘ پر اشتہار دینے کی تجویز دی، جس کے نتیجے میں پھر انھیں گلستان جوہر، گلشن اقبال اور ڈیفنس وغیرہ سے بھی بہت سے آرڈر ملنے لگے۔

ویسے تو ’کورونا‘ کی وبا نے گھر بیٹھے کام کرنے کے چلن کو بہت بڑھاوا دیا ہے، اور اس سے پہلے بھی بہت سی خواتین گھر سے کھانے پکا کر فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی تھیں، لیکن نوشین نور نے اس میں اپنے بزرگوں کی روایت کو اپنی سلیقہ شعاری اور محنت سے ایک جلا بخشی اور جدید دور میں ایک بار پھر لوگوں کو پتھر کے سِل بٹّے پر پیسے گئے ’شامی کباب‘ سے روشناس کرانے پر کمربستہ ہوئیں۔۔۔ اس مشقت کے چناؤ کی وجوہات وہ کچھ یوں بتاتی ہیں کہ ’سِل پر پیسے گئے شامی کباب ہم دہلی والوں میں خوب پسند کیے جاتے ہیں، یہ ایک محنت طلب کام ہے۔

گئے وقتوں میں ہمارے بڑے بزرگ تو یہ کام کر لیتے تھے، لیکن اب مشینوں کے دور میں ہم سب سہل پسند ہو چکے ہیں، اس لیے آج کی خواتین خانہ ’سِل بٹّے‘ کا روگ نہیں پالتیں، وہ دراصل اس محنت طلب کام سے گھبراتی ہیں۔۔۔ ’شامی کباب‘ تیار کرنا کا ایک لمبا اور تھکا دینے والا کام ہے، پہلے اس کے لوازمات کو ابالنا اور پھر اسے اہتمام سے بیٹھ کر پیسنا وغیرہ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔

ہمارے ذہن میں خیال آیا کہ اب تو ویسے بھی ہمارے باورچی خانے اتنے ’جدید‘ ہو گئے ہیں کہ یہاں نیچے بیٹھنے کا تصور ہی باقی نہیں رہا، جب کہ ’سِل بٹّا‘ تو باقاعدہ نیچے ’پیڑھی‘ پر بیٹھنے کا اہتمام مانگتا ہے۔ دیرینہ روایتوں کی امین، نوشین نور کے ہاں باقاعدہ اس کا انتظام موجود ہے۔

دوسرا خیال ہمیں ’سِل بَٹّا‘ بنوانے کا آیا، کیوں کہ کچھ وقت استعمال کے بعد جب بٹّے اور سِل کی سطح ہم وار اور چکنی ہونے لگتی ہے، تو پھر سِل اور بٹے پر باقاعدہ مخصوص ضرب لگا کر گہرے نشان لگائے جاتے ہیں، تاکہ اس کی ناہم وار سطح پر کوئی بھی چیز پیسنے میں سہولت رہے۔۔۔ گئے وقتوں میں تو سِل بٹّا ’بنانے‘ والے کندھے پر اوزاروں کی  ’پوٹلی‘ لٹکائے گلی گلی صدا لگایا کرتے تھے۔۔۔ اور جسے سِل بٹّا ’بنوانا‘ ہوتا تھا، اس کے گھر کی انگنائی، ڈیوڑھی یا گھر کے بالکل آگے ہی پدھار جاتے اور آدھے پونے گھنٹے کی مشقت کے بعد سِل اور بٹّے کی سطح کو مطلوبہ حد تک کھردرا کر دیتے اور اپنی مزدوری لے کر چلے جاتے۔۔۔ لیکن جیسے جیسے ہمارے باورچی خانوں سے سِل بٹّا غائب ہوا، ویسے ویسے اِسے ’بنانے‘ والے بھی نایاب ہوتے چلے گئے، لیکن نوشین کہتی ہیں کہ ان کی طرف اب بھی کبھی سِل بٹّا بنانے والا آجاتا ہے، جس سے وہ حسب ضرورت اپنی سِل اور بٹّا بنوا لیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے تو اپنے باورچی خانے میں گویا مشین دیکھی ہی نہیں، اوائل سے ہی ان کے ہاں ’سِل‘ پر ہی سارے مسالا جات پیسے جاتے ہیں۔ ہم نے پوچھا اس مشینی دور میں آخر ضرورت ہی کیا ہے کہ پتھر کا سِل بٹّا لے کر بیٹھیں اور خوامخواہ اپنی جان جوکھم میں ڈالیں۔۔۔ کیا فائدہ، جب ایک کام کم وقت اور سہولت سے مشین کے ذریعے بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔؟ وہ کہتی ہیں کہ ’سِل پر پیسے گئے شامی کبابوں میں لوچ ہوتی ہے اور گوشت کی موجودگی، اس کا اصل ذائقہ اور سلون پتا چلتی ہے، جب کہ مشین پر پیسے گئے شامی کباب میں گوشت کا تو گویا بالکل پتا ہی نہیں چلتا۔‘

وہ ’بڑے‘ اور چھوٹے گوشت کے ساتھ مرغی کے گوشت کے بھی شامی کباب تیار کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ میں کبابوں میں مسالا بھرنے کے بہ جائے، ان میں مسالا ملا کر بناتی ہیں اور پھر انھیں فریج میں منجمد کر دیتی ہیں، تاکہ لوگ حسب ضرورت اسے گرم گرم تل کر نوش کر سکیں۔ اپریل، مئی میں کورونا کی وجہ سے حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے ’لاک ڈاؤن‘ کے دنوں میں ’آرڈر‘ ان کے شوہر بھی پہنچا آتے تھے، تاہم اب وہ اس کے لیے آن لائن ’ہرکارے‘ یعنی ’رائیڈر‘ کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ ان کے چکن اور ’بیف‘ کے کباب فی درجن 500 روپے اور چھوٹے شامی کباب 300 روپے ہیں۔

جب کہ چھوٹے گوشت کے کباب 1000 روپے فی درجن ہیں۔ ہم نے اب تک کے بڑے سے بڑے آرڈر کا پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ ایک ڈبے کی پیکنگ میں 12 کباب ہوتے ہیں، اور میں 12 ڈبوں سے لے کر 25 ڈبوں تک کے آرڈر تیار کر چکی ہوں۔ عام طور پر 12 ڈبوں کی تیاری کے لیے انھیں تین دن درکار ہوتے ہیں۔

یوں تو نوشین نے رمضان المبارک میں سموسے اور رول وغیرہ بھی بنائے اور وہ آلو سالن، نہاری، کوفتے، شب دیگ، سینڈوچ، کٹلس اور کیک وغیرہ بھی بہت اچھے بنا لیتی ہیں، لیکن وہ ’شامی کباب‘ کو اپنی انفرادیت بتاتی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہی ان کی شناخت اور پہچان بنیں۔ ہم نے پوچھا اگر کسی پوری تقریب کے لیے مختلف پکوانوں کی ذمہ داری آپ کو سونپی جائے، تو کیا آپ اسے سنبھال لیں گی؟ تو وہ سوچتے ہوئے بولیں کہ کر تو سکتی ہوں، لیکن ایسا کبھی کیا نہیں، اپنے گھر کی حد تک کوئی تقریب ہو تو وہ تو میں بہ آسانی کر لیتی ہوں، دراصل گھر کے کاموں کی دیگر ذمہ داریاں بھی مجھ ہی پر ہیں۔

اگرچہ ماسیوں کی معاونت حاصل رہتی ہے، لیکن اُن سے کام کرانا بھی تو ایک اہم ذمے داری ہے۔ ہم نے نوشین نور سے پوچھا کہ جب آپ اپنا یہ کام وسیع کرنا چاہتی ہیں، تو ایسی صورت حال میں اُسے پھر سنبھالیں گی کیسے۔۔۔؟ وہ بولیں، کہ ایسی صورت میں وہ اپنی مدد کے لیے کسی معاون خاتون کو رکھیں گی، تاکہ وہ اپنے کام اور اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے انصاف کر سکیں۔

’’ہمیں تو ٹیچر بننا تھا۔۔۔!‘‘
اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے نوشین نور نے بتایا کہ ’ہمیں تو ٹیچر بننا تھا، لیکن ہم فقط انٹر پاس تھے، تو ٹیچر کیسے بنتے۔۔۔؟‘ انھوں نے پلے ہائوس گرلز سیکینڈری اسکول (بہادر آباد) سے میٹرک کیا، اسکول کے ہی زمانے میں روایتی طور پرسلائی کڑھائی بھی سیکھی اور کھانے پکانے کے حوالے سے کچھ کلاسیں بھی لیں، اسکول میں ہی چھوٹی نند ثنا کے توسط سے بڑی نند صبا مسعود سے یہ گُر سیکھنے کا موقع ملا۔ انٹر کے لیے ہوم اکنامکس کالج میں داخلہ لیا تو وہاں یہ کلاسیں کام آئیں۔

’’اسکول میں نند۔۔۔؟‘‘ ہم بے ساختہ چونکے، تو وہ بولیں کہ ’دراصل چھوٹی نند ثنا اسکول میں ساتھ پڑھتی تھیں، اور ان کی بہترین سہیلی تھیں، انھوں نے اپنی بڑی بہن صبا مسعود سے متعارف کرایا، وہ معروف ’کُک‘ شیریں انور کے ساتھ کلاسیں بھی دیتی رہی ہیں۔ نوشین کہتی ہیں پہلی بار ’چولھا چکی‘ سے سابقہ تب پڑا، جب وہ چھٹی کلاس میں تھیں اور ان کی امی سخت بیمار ہوگئی تھیں، تو انھیں چائے بنانی پڑی تھی، لیکن شادی کے بعد باقاعدہ پہلا کھانا کیا بنایا؟ یہ اب یادداشت کے پردے پر دھندلا چکا ہے۔۔۔ تاہم خاندان میں اُن کے ہاتھ کی نہاری بہت پسند کی جاتی تھی، جس سے انھیں اپنے اس ہنر کا پہلی بار احساس ہوا، علاوہ ازیں انھوں نے کچھ عرصے قبل مکمل قرآن مجید کے ترجمے کی تعلیم مع تفسیر بھی حاصل کی ہوئی ہے۔

کھانا پکانا شادی کے بعد ساس سے سیکھا
نوشین نور 2000ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئیں، وہ کہتی ہیں کہ شادی سے پہلے بس شوقیہ کتابوں سے دیکھ دیکھ کر بیکنگ کرنے لگی تھیں اور کیک اور مختلف ختائیاں وغیرہ بنانے کے تجربات کرتی تھی، کسٹرڈ اور انڈونیشین سوئیٹ ڈش وغیرہ بنا نے لگی تھی، لیکن اصل کھانا پکانا اپنی ساس سے ہی سیکھا، اور پھر شادی کے بہت عرصے بعد کھانا پکانا شروع کیا۔ ہم نے شادی کے بعد اتنے عرصے کھانا پکانے سے ہاتھ کھینچے رہنے کا ماجرا پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ ’میں اپنی ساس کی معاونت کرتی تھی، کیوں کہ باورچی خانے میں کھانا پکانے کے علاوہ بھی اور بہت سے کام ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں شادی سے پہلے اپنی امی سے سیکھنے کا موقع نہیں ملا، کیوں کہ انٹر کے فوراً بعد ہی شادی ہوگئی، اور اب خیر سے وہ چار بچوں کی والدہ اور دو سالہ نواسے کی نانی بھی ہیں، ان کی چھوٹی صاحب زادی مریم 10 سال کی ہیں۔ نوشین نے بتایا کہ میں نے ابتداً اِسے اپنی فرصت کی ایک مصروفیت جانا، اس لیے اب کبھی کام زیادہ ہو جائے، تو بچے شکایت کرنے لگتے ہیں کہ آپ نے تو یہ کام اپنے فارغ اوقات کے لیے چُنا تھا، اب آپ ہر وقت یہ کیا لے کر بیٹھی رہتی ہیں، تاہم شوہر نے کبھی اس قسم کی کوئی شکایت نہیں کی۔ یہی نہیں شادی کے بعد بھی نوشین نور نے اپنا نام اپنے والد کے نام سے جوڑے رکھا ہے، اُن کے شوہر نے اس پر بھی کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ نوشین کی بیٹیوں نے یہ ہنر اُن سے تو کچھ خاص نہیں سیکھا، البتہ وہ ’یوٹیوب‘ سے دیکھ کر خود ہی مختلف تجربات کرتی رہتی ہیں، شاید کچھ ان کے گھرانے کا اثر ہے، کیوں کہ ان کی پھوپھیاں پہلے ہی اس میدان میں موجود ہیں۔

The post کورونا کی وبا میں روایتی اور جدید پکوان گھر کی دہلیز پر پہنچانے والی خاتون خانہ نوشین نور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34Rldo0
via IFTTT

No comments:

Post a Comment