Monday, December 28, 2020

معاشرتی تضادات کی کہانی ایکسپریس اردو

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ ملک پر بادشاہوں کی طرح حکومت کرنے والے لمبی لمبی سزائیں پا کر جیلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ قارئین آپ کو غالباً پتا نہیں کہ ہمیشہ سے اشرافیہ جیلوں میں بھی 5 اسٹار کی زندگی گزارتی ہے، انھیں وہ تمام سہولتیں حاصل ہوتی ہیں جو ایک 5 اسٹار ہوٹل میں دستیاب ہوتی ہیں۔

جوانی میں ہم بھی انقلابی تھے اور اقتدار کے پیچھے بھاگنے کے بجائے انقلاب کے پیچھے بھاگتے رہتے تھے۔ ہوا یہ چونکہ ہم کو ٹریڈ یونین سنبھالنے کی ذمے داری دی گئی تھی سو ہم اس فیلڈ میں کام کر رہے تھے۔ ہم مزدوروں کی ایک ملیٹنٹس یونین کے جو کراچی سے ڈھاکا تک پھیلی ہوئی تھی سیکریٹری جنرل تھے اور مزدوروں کی قیادت کرتے تھے۔ سو پولیس کسی طرح ہمیں گرفتار کرنا چاہتی تھی اس ضرورت کے تحت پولیس نے ٹاور کی طرف سے نکلنے والے ایک شرپسندوں کے ملزمین میں ہمارا نام بھی ڈال دیا اور ہم گرفتار ہوگئے۔

قارئین چونکہ ہم پہلی بار جیل یاترا کر رہے تھے سو ہمیں جیل کی زندگی کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ بہرحال جیل جیل ہوتی ہے۔ سو ہمارے خلاف بھی ’’سی‘‘ کلاس میں وہی سلوک کیا جانے لگا جو سی کلاس کے قیدیوں کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ سی کلاس تھی لہٰذا جیل کا عملہ قیدیوں کے ساتھ بہت سختیاں کرتا تھا۔ صبح چار بجے سارے قیدیوں کو ڈنڈے مار کر اٹھایا جاتا تھا اور ناشتہ دیا جاتا تھا۔

ناشتے میں کانجی، روٹی کا ایک ٹکڑا اور چائے دی جاتی تھی۔ عام قیدیوں کو بہت ذلیل کیا جاتا تھا جب کہ خاص قیدیوں کو ہر طرح کی سہولتیں دی جاتی تھیں ۔ جیل میں ایک اسپتال بھی تھا ایک قیدی روزانہ بارہ پندرہ بوتلوں میں مختلف رنگ کا پانی بھر کر اس کا ریڑھا جیل کے مختلف وارڈ میں لاتا اور ضرورت مند مریضوں میں رنگین پانی بانٹ کر چلا جاتا تھا۔ اس صورت حال سے ہم لوگ بہت پریشان تھے۔ ہمارے ساتھ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد بھی ہوتی تھی جس کی وجہ سے جیل کا عملہ خوفزدہ رہتا۔ سپرنٹنڈنٹ نے ہمیں ایک علیحدہ وارڈ دیا تھا۔

وہ مزدوروں کا اخلاق بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ بہرحال مزے میں گزر رہی تھی۔ کورٹس میں دو افسروں پر مشتمل عدالت ہمارے کیسز کی شنوائی کرتی تھی جس محرر نے ہمارے خلاف ایف آئی آر کاٹی تھی اس نے ہمیں دیکھا نہیں تھا۔

سو اس نے الزامات بھی غلط لگائے اور ہمارا حلیہ اس نے لکھا قد ساڑھے چار فٹ، رنگ کالا وغیرہ وغیرہ۔ جب ہمیں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو ایف آئی آر میں اپنا حلیہ جو درج تھا اس سے عدالت کے سربراہ کو واقف کرایا جن کا نام باجوہ تھا وہ مسکرانے لگے قصہ مختصر یہ کہ تین چار سماعتوں کے بعد ہی مجرموں کو لمبی لمبی سزائیں سنا دی گئیں۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہمیں قید بامشقت کی سزا دی گئی تھی لیکن ہمیں وارڈ ہی میں رکھا جاتا تھا کہ ہماری وجہ سے عام قیدیوں کے اخلاق خراب نہ ہوں۔

ہم نے شہباز شریف کی جیلروں سے شکایتوں کے پس منظر میں یہ کالم لکھا۔ شہباز شریف کی تعلیم کتنی ہے ہمیں نہیں معلوم، البتہ ہم ڈبل ایم اے تھے۔ قانوناً ہمیں بی کلاس ملنی تھی لیکن ہم سی کلاس میں تھے ایک روز ایک قیدی نے سپاہی کے ذریعے گھر سے دواؤں کے لیے کچھ پیسے منگوائے۔ سپاہی نے کچھ زیادہ پیسے لے لیے اور جب ہمارے مزدوروں کو پتا چلا تو انھوں نے سپاہی کی خوب خاطر تواضح کی۔ اس کے بعد سپاہی محتاط ہوگئے اور جیل میں مزدوروں کی دھاک بیٹھ گئی۔

طاقت ہی سب کچھ ہوتی ہے آج ہمیں اپنے جیل کی باتیں اس لیے یاد آئیں کہ شہباز شریف آج کل آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے کیس میں جیل میں ہیں ان کے حالات دیکھ کر ہمیں ہماری جیل کی زندگی یاد آگئی۔ آج کل ہمارے پیر صاحب پگارا نے درانی کو حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان بات چیت کا ٹاسک سونپا ہے۔ بات چیت بہت اچھی بات ہے لیکن کیا شہباز شریف پر بنائے گئے مقدمے کا فیصلہ ہونے تک بات چیت روک دی جائے گی۔ شریف برادران پر الزامات ہیں۔ کیا یہ کیس مکمل کیا جائے گا یا شہباز رہا کردیے جائیں گے؟

اصل میں سرمایہ دارانہ نظام میں ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ اس نظام کی ہر سطح پر ہونے والی بدعنوانیوں اور امتیازات کا اندازہ کرکے اس بے ہودہ نظام پر لعنت بھیجنے کو دل چاہتا ہے۔  موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونی والی لڑائی میں چونکہ پیر پگارا سامنے آگئے ہیں لہٰذا اللہ سب خیر کرے گا۔

The post معاشرتی تضادات کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3rzVTwD
via IFTTT

No comments:

Post a Comment