ملکی سیاست میں دوطرفہ مزاحمتی کردارنے عوام کوذہنی دباؤمیں مبتلا کردیا ہے، حکومت اپوزیشن کے جلسوں سے پیدا شدہ صورتحال کوکنٹرول کرنے کی نئی اسٹرٹیجی پرعملدرآمد کررہی ہے، جس کے تحت حکومتی ذمے داروں کو نئے اہداف دیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ترجمانوں پر اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کی اسٹرٹیجی کے باعث اس بات کا اندیشہ ہے کہ سیاسی موسم مزیدگرم ہوگا۔
جس بات کی سیاسی فہمیدہ حلقوں کوامید پیدا ہو چلی تھی کہ جمہوری رویے بریک تھروکریںگے، ڈائیلاگ کا امکان پیدا ہوگا، استعفوں کی ترجیح ثانوی ہوگی، سیاسی طرزعمل پر حکومتی اور اپوزیشن ہارڈ لائنرز ایک قدم پیچھے ہٹ کرسسٹم کو رول پلے کرنے کی اسپیس دیں گے اورایسا امکان بھی پیدا ہوسکے گا جو حکومت اوراپوزیشن کو اس ریڈ الرٹ کے خطرہ سے بھی آگاہ کرسکے گا، جس کے بعد ہر سیاست دان اس بات کی خواہش کرے گا کہ اس لکیرکے اس پارجانے کے بعد سیاست کی حکمت ودانش ہی اس بات کا فیصلہ کرسکے گی کہ ملکی سیاست میں جمہوریت، رواداری‘ تدبرو دوراندیشی کتنی سکت باقی ہے۔
اندیشہ ہائے دوردراز بڑھنے لگے ہیں، اقتدارکی غلام گردشوں میں ماضی کی فرسودہ روایتوں کے نئے تجربے پھرسے کیے جانے لگے ہیں۔ مبصرین کا یہ کہنا کیسے غلط ثابت ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے حالیہ جلسوں نے عجیب سائیکی پیدا کی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کو ڈر اس بات کا ہے کہ سیاسی اپوزیشن نے کورونا وائرس کو بھی اپنے حکومت مخالف سیاسی کھیل کا ایک پوائنٹ آف نو ریٹرن بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس ضمن میں سیاسی مبصرین کے پاس اندازوں، خدشات اور بندگلی کا ایک بے صدا بھونپو ہے جسے حکومتی ماہرین پوری شدت سے بجا رہے ہیں اور اس پرخوش بھی ہورہے ہیں، مگر دوسری طرف حکومت اوراپوزیشن کی محاذ آرائی سے بے نیازحقیقت پسند سیاسی حلقوں کا انداز نظریہ ہے کہ اپوزیشن نے گوجرانوالہ،کراچی،کوئٹہ، ملتان ، پشاور اور دیگر اجتماعات وریلیوں سمیت لاہور ’’شو‘‘ کا تجربہ کرکے دیکھ لیا کہ حکومت مزاحمت اور تصادم میں کس حد تک جاسکتی ہے، اورکیا کھو سکتی ہے اورکیا پانے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔
ایک گروہ وہ بھی ہے جو بھونپو لے کر مطلع کرتے ہیں کہ حکمراں اوراپوزیشن اس لڑائی میں اپنے ان ووٹرزکو فراموش کررہے ہیں، جن کے ووٹوں کے طفیل وہ سیاسی سومنات کے بڑے بتوں کا روپ دھارکر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے ہیں، وہ دراصل جمہور کے جذبات سے کھیلنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ملک کے کروڑوں ووٹرز نے حکومت اور اپوزیشن کو اپنے ووٹوں سے سیاسی طاقت عطا کی ہے، جمہوریت کا سارا حسن عوام کا عطاکردہ ہے، سارے منتخب ایوان ، پارلیمنٹ ، اقتدارکا سارا کھیل،رگوں میں دوڑتا جمہوری عمل، وطن عزیزکی ساری رونق عوام کی امنگوں کے دم سے ہیں۔
سیاستدان اس خواب وخیال کے گھوڑے سے نیچے اتریں اور زمینی حقائق پر ایک افلاطونی نگاہ ڈالیں۔ اس یونانی مرد قلندرکے اس قول پر نظرڈالیں جو کسی فلسفی ،کسی خرد مند ،روشن ضمیر، بلند حوصلہ اور انصاف پسند شخص کو عنان اقتدارکا مستحق سمجھتا تھا، جو یہ کہتا تھا کہ shame is the country who is led by orator،جن سیاست دانوں کی عمریں اس کام میں گزر چکیں، وہ اب گڑھی خدا بخش میں سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقعے پر منعقد کردہ جلسے کو ٹیسٹ کیس کے آئینہ میں دیکھ رہے ہیں، ان کی نگاہیں بے یقینی کی دلدل نشین جمہوریت ، منزل سے گریزاںسسٹم پر پڑنے والے غیر مرئی دباؤ، پارلیمان کی بے وقعتی پرمرکوز ہیںجسے بعض سیاسی رہنما آج کل ڈس فنکشنل بھی کہنے لگے ہیں۔
اسی تناظر میں مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما محمد علی درانی کی انٹری بھی قیاس آرائیوں کی زد میں ہے، وہ ڈائیلاگ کی بات کرتے ہیں۔کچھ باریک بین، سنجیدہ اور منجھے ہوئے تجزیہ کار اور سیاستدان ڈائیلاگ کی ضرورت کو محسوس توکرتے ہیں مگراس کی سیاسی منطق، جمہوریت کی ساکھ ، اپوزیشن کی زیربحث تحریک کے اتار چڑھاؤ، ملکی سیاسی تاریخ اورآیندہ انتخابات کے سناریوکودلچسپ سیاق وسباق کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ قومی سیاست تاریخ کے جمہوری تسلسل سے محروم ہے، لوگ 72 سالوں کی سیاسی صحرا نوردی کا ذکر توکرتے ہیں۔ ادیبوں، معاشی مبصرین، دانشوروں اور مورخوں نے بنتی ٹوٹتی اسمبلوں کا ایک درد انگیز بیانیہ بھی مختلف پیرائے اور تجربات کے نچوڑکی صورت بکھرے اوراق میں رقم کیا ہے، سب یہی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو تاریخ کے ان اوراق سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
وقایع نگاروں اور ٹی وی چینلز پرگفتگوکرنے والے تجزیہ کاروں کو رنج اس بات کا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت، ممتازسیاستدان، پارلیمنٹیرنز اور ریاست وحکومت کے رمز شناس اس جمہوریت کو پورے قافلے کو بندگلی میں جاتے دیکھ رہے ہیں مگر پورا سچ قوم کو بتاتے نہیں کہ روشنی کی کوئی کرن ہے بھی یا نہیں؟ یہ المیہ ہے کہ جمہوریت وآمریت ہمیشہ قوم کو ایک سکے کے دونوں جمہوری رخ دکھائے نہیں جاتے بلکہ ایک عجیب تیسرا بیانیہ سامنے لایا جاتا ہے اوروہ بندگلی کا ہے جب کہ منطق کا ہی یہ سوال ہے کہ بندگلی کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس گلی کا ذکر سیاست میں کب نہیں ہوا اور وہ تاریک سرنگ کتنی بار قومی زندگی میں آکر تباہی مچاتی چلی گئی۔ مگر اس گلی میں اہل اقتدارکم وبیش خاطر غزنوی کا ایک مشہورشعرضرورعوام کو سناتے رہے کہ
میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
آج دنیا کورونا وائرس کے عذاب میں مبتلا ہے۔ طاقتورجمہوری ممالک بھی اس جرثومہ کے ہاتھوں بے بس و لاچار نظر آئے، دیوہیکل معیشتیں زمین بوس ہوکر رہ گئیں، سماجی رشتے ٹوٹ گئے، خوبصورت انسانی چہرے ماسک نے چھپا لیے، سماجی فاصلہ اورہجوم سے دوررہنے کی ہدایات نے قربتوں میں فاصلے بڑھادیے۔ ماہرین طب نے تھک ہارکراب کہنا شروع کیا ہے کہ احتیاط ہی لازم ہے، بس احتیاط کیجیے، بلا ضٖرورت گھر سے باہر نہ نکلیں، ماسک پہنیں۔ دنیا کے ماہرین ویکسین کی آمد کی نوید دیتے ہیں مگر ویکسین ایک چھلاوا بنی ہوئی ہے۔
دنیا منتظر ہے، لیکن سیاست دان کورونا کو رو بھی رہے ہیں مگر اپنی سیاسی لڑائی ختم کرنے پر تیار نہیں ہوتے، جانتے ہیں کہ کورونا دشمن جاں ہے، قوم کواسی باعث سخت چیلنجز درپیش ہیں،بیروزگاری بڑھ رہی ہے، لوگ نان شبینہ کو محتاج ہیں، نئی نسل جستجو میں ہے کہ حکمراں ان کے لیے روزگارکے وسیلے کھولیں۔ تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کو انتظار تھا کہ انھیں اچھی تعلیم ملے گی،ان کے اورکتابوں کے درمیان فاصلے کم ہونگے لیکن بدقسمی دیکھیے کہ جس قوم کو ایک نصاب کی خوشخبری ملنے والی تھی وہ جہالت کے اندھیروں میں گم ہورہی ہے۔ ایک ایسی مخلوق اسکولوں اورکالجوں میں پل رہی ہے جہاں اعلیٰ تعلیم وتدریس کی قدریں بس اشرافیائی طبقات کا حصہ ہیں۔
قارئین! سوچ رہے ہونگے کہ جب منظرنامہ اس قدرگمبھیر ہے اور ملکی جمہوریت پر ہرطرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہے تو ہم کدھر جارہے ہیں، سچ کیا ہے، جمہوری سفرکی منزل حکمرانوں اور اپوزیشن کی نگاہوں سے اوجھل کیوں ہیں؟ معیشت اگر مستحکم ہو تو قوم اس استحکام کے جمہوری ثمرات سے محروم نہیں ہونی چاہیے۔ خطے میں ایک طوفان برپا ہے، بھارت نے پاکستان کے خلاف کئی محاذ کھول رکھے ہیں، بلوچستان اس کے نشانہ پر ہے،وہ لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیوں سے باز نہیں آتا، جموں اور کشمیرکے عوام کرفیو، بربریت اورظلم وستم سہہ رہے ہیں۔
عالمی برادری نے اپنے کان ، لب اورآنکھیں بندکر رکھی ہیں، امن و انصاف کے جس آدرش پر اقوام متحدہ کا منشور مرتب ہوا تھا، اسے غالباً بھلا دیا گیا ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی خطے کی صورتحال اور خطرات سے لاتعلق سی ہوگئی ہیں،کوئی ٹھوس کام نہیں ہورہا، قراردادوں ،اجلاس اور وعدوں پر ٹرخایا جاتا ہے، پاکستان کو سیاسی صحرا میں کب تک دھکیلا جائے گا، اہل سیاست کو خطے میں داخلی اورخارجی صورتحال کا کوئی حل نکالنا ہوگا، افغان امن کا مسئلہ اب کسی کروٹ بیٹھ جانا چاہیے۔
مشرق وسطیٰ میں حالات ناگفتہ بہ ہیں، عالم اسلام کو خطرات نے گھیر لیا ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس لمحے دنیا کون سے نئے وائرس کا شکارہوجائے گی۔ ارباب اختیار اورقوم نے کورونا کا ایک وار تو سہہ لیا۔ اب اس دوسری لہرکے بعد کورونا کے اندر سے ایک نئے وائرس سے ہلاکتوں کی خبریں دی جارہی ہیں۔ آخر قوم کو معاشی آسودگی اور سیاسی اطمینان ملے گا بھی یا اس کے مقدر میں، الزامات اور محاذ آرائی کے گرم بگولے رقصاں ملیں گے۔ ان سوالوں کے عوام جواب مانگتے ہیں، اہل نظر حلقے سخت تشویش میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ ملک میں تمام ترخرابیوں کے باوجود زندگی رواں دواں ہے۔
سب اچھے دنوں کا انتظارکررہے ہیں لیکن اچھے دن کب آئیں گے، ان کو لانے والے سیاستدان عوامی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا کریں گے تب ہی تو جمہوری ثمرات کا ٹریکل ڈاؤن شروع ہوگا۔ عام آدمی پوچھنے کی جسارت کرتا ہے کہ حکمراں مہنگائی کے خاتمہ، روزگارکی فراہمی اور ترقی کی حقیقت پر قوم کوکب اعتماد میں لے گی،کب ووٓٹرزکی امیدیں برآئیں گی، ان کے گھر چولھے کب گیس کے بٓحران سے نجات پائیں گے۔ ان کے روزمرہ کے مسائل کے لیے منتخب نمایندے اپنے سارے اختلافات ترک کرکے باہم شیروشکر کب ہونگے، جمہوریت طواف کوئے ملامت سے نکلنے میں مزید کتنی دیر لگائے گی۔ عوام کا دم گھٹنے لگا ہے، اس سیاست کو عوام دوست بن کرکایا پلٹ نظام کی راہ پر چلنا ہوگا۔
The post گمبھیرسیاسی منظرنامہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2L5TJEk
via IFTTT
No comments:
Post a Comment