خون مغرب کا ہو یا مشرق کا، امن عالم کا خون ہے آخر
ٹینگ آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
کھیت اپنے جلیں یا اوروں کے، زینت فاقوں سے تلملاتی ہے
اس لیے اے شریف انسانو! جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
برتری کی خاطرکیاخوں بہانا ضروری ہے، جنگ کے اور بھی میداں ہیں
جنگ بھٹکتی ہوئی قیادت کے خلاف، جنگ زر پرستی کے خلاف
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف، امن پر امن زندگی کی بقا کے لیے
اس وقت دنیا میں بھوک سے ڈیڑھ لاکھ انسان روزانہ مر رہے ہیں جب کہ دنیا میں اتنی غذا پیدا ہوتی ہے کہ 10 ارب انسانوں کو کھلا کر بھی بچایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بیشتر حصے بنجر پڑے ہیں۔ انھیں پھلوں اور سبزیوں کے جنگلات میں تبدیل کیا جاسکتاہے، اس سے ماحولیات بھی بہتر ہوگا۔ جب کہ اسلحے کی پیداوار، نقل و حمل اور استعمال پر کھربوں ڈالر روزانہ خرچ ہوتے ہیں۔ صرف امریکا اور روس کے پاس ہزاروں ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں جب کہ سوشلسٹ کوریا کے پاس کل 9 ایٹم بم ہیں، اس کے خلاف امریکانے واویلا مچا رکھا ہے۔
جب کہ امریکا کے 68 جنگی بحری بیڑے دنیا بھر کے سمندروں میں آپریشنل حالت میں موجود ہیں۔ صرف ایک میزائل بنانے اور تجربہ کرنے میں6ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اسلحے کی کھپت کے لیے میدان جنگ تخلیق کیے جاتے ہیں۔ کبھی مشرق وسطیٰ، کبھی ہند و چین، کبھی جنوبی افریقہ، کبھی جنوبی امریکا اور کبھی مغربی افریقہ وغیرہ کو میدان جنگ بنایا گیا اور بنایا جا رہا ہے۔ جن کے پاس ایٹم بم ہیں ان میں امریکا، روس، چین، فرانس، اسرائیل، برطانیہ، پاکستان، ہندوستان اور سوشلسٹ کوریا عالمی سرمایہ داری بحران کا شکار ہے جب کہ اسلحہ بنانے والی بڑی کمپنیوں میں صرف ایک ’’لکی‘‘ نے تاریخ میں سب سے زیادہ منافع کمایا۔ جدید جنگی ہتھیاروں کی تحقیق اور نئی ٹیکنیک کے ساتھ اعلیٰ درجے کے ہتھیاروں کی پیداوار پر روزانہ کھربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔
صرف جنگی جہازوں پر کروڑوں ڈالرز خرچ ہوتے ہیں۔ اب تو ڈرون کی تیاری میں اسلحہ ساز ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ اس وقت نیٹو ممالک کے علاوہ برکز(BRICS) ممالک بھی ڈرون کی تیاری پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹار وار، کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری، زہریلے ہتھیاروں(گیس)کی تیاری، بین البراعظمیٰ مار کرنے والے میزائلز کی تیاریوں اور خلائی جنگ کی تیاریوں پر کھربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔
صرف جاپان کے دو شہروں پر بم گرانے سے لاکھوں انسان جان سے جاتے رہے۔ آج تک امریکا نے جاپان سے معافی نہیں مانگی، اس لیے کہ دونوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ کبھی ویت نام برسوں امریکا کے خلاف آزادی اور سوشل ازم کے لیے جنگ لڑتا رہا اور اب اسی ویت نام میں امریکا کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ اب تو صرف 30 ہزار ایٹم بموں سے اس دنیا کو 300بار تباہ کیاجاسکتا ہے۔ ایٹمی تاب کاری کے اخراج سے دنیا کی ماحولیات تباہی کی جانب گامزن ہے۔ مختلف اقسام کے نامعلوم وائرس پیدا ہو رہے ہیں اور ان کا کوئی علاج بھی نہیں ہے۔ صرف دو عالمی جنگوں میں 5 کروڑ انسان جان سے جاتے رہے۔
پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ ’’برصغیر کی 12ارب کی آبادی برے حالات میں گزر رہی ہے ‘‘ حبیب یونیورسٹی کے ذریعے انھوں نے ورچوئل لیکچر دیا۔ اسے انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر سنا گیا اور ان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ پاکستان ہندوستان جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
ہندوستان جوکہ جمہوریت اور سیکولرازم کا داعی ہے، کشمیر کے واقعات نے اسے بدنما کردیا ہے۔ ادھر امریکا ایران پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور ایران ویسے بھی معاشی پابندیوں کی جکڑ بندیوں سے گزر رہا ہے، ساتھ ساتھ جنگ کے خطرات بھی موجود ہیں۔ ٹرمپ کی نسل پرستی اور غیر جمہوری اقدام امریکا کو تنہا کرتا جا رہا ہے۔ امریکا میں سوشل ازم کے ایک سوال پر کہا کہ اگر امریکا میں جمہوری آزادی کو مزدوروں کے کنٹرول میں دیا جائے اور محنت کش عوام کے حوالے کیا جائے تو سوشل ازم ممکن ہے۔ چونکہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا مرکز یورپ رہا۔ اس لیے اب یورپ آپس میں نہیں لڑتے اور اپنے اسلحے کی کھپت ایشیا، جنوبی امریکا اور افریقہ میں کر رہے ہیں۔
چھوٹے اسلحے کی بھی بھرمار ہے جس کے نتیجے میں روزانہ لاکھوں لوگ اس دنیا میں مارے جاتے ہیں۔ جب بارودی ہتھیار نہیں تھے تو اتنا قتل ہوتا تھا اور نہ بیماریاں تھیں۔ اس دنیا میں اگر 10 فیصد اسلحے کی پیداوار میں کمی ہو جائے تو بے روزگاری میں 80فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ اگر جوہری اسلحے کا 10 فیصد تباہ کردیا جائے تو بھوک کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اگر اسلحے کی نقل و حمل کو روک دیا جائے تو جہالت میں 60فیصد کی کمی ہوسکتی ہے، اگر نئے اسلحے کی تحقیق پر کیے جانے والے اخراجات میں 5 فی صد کمی کردی جائے تو 50 فیصد لوگوں کو مفت بہتر صحت کی ضمانت مل سکتی ہے۔ جنگ میں صرف لوگ مرتے ہی نہیں بلکہ نفسیاتی مریض بنتے ہیں، اپاہج ہو جاتے ہیں اور نسل در نسل مفلوج اور بیمار بچے پیدا ہوتے ہیں۔
عظیم انقلابی رہنما کامریڈ ایلگزینڈر میخائل باکونن نے درست کہا تھا کہ ’’اسلحے کی پیداوار سے فاتحین پیدا ہوتے ہیں، ریپ کرتے ہیں، قتل و غارت گری کرتے ہیں، وسائل پر قبضہ کرتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں۔‘‘ اسلحے کی بنیاد پر ہی 1871 میں فرانس اور جرمنی نے مل کر پیرس کمیون کو ناکام بنایا اور لاکھوں انسانوں کو قتل کیا، اسلحے کی بنیاد پر ہی برطانیہ نے جنوبی افریقہ میں لاکھوں انسانوں کا قتل کیا، امریکا ، ہند و چین (ویتنام، کمبوڈیا اور لاؤس) میں لاکھوں انسانوں کا برسوں قتل کرتے رہے۔ اسلحے کی بنیاد پر ہی تاج برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔
دنیا کے 100 ایسے خطے، شہر، دیہات، میونسپلٹیاں اور علاقے وجود رکھتے ہیں جو امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں، وہاں اسلحے کا استعمال قطعی نہیں ہے جس کے نتیجے میں کوئی فاتحین ہے، مقتول ہے اور نہ قاتل۔ جب کہ اسی دنیا میں نیٹو کے علاوہ ہر ملک کی فوج کھربوں ڈالر دفاع کے نام پر خرچ کرتی ہے۔ اس وقت دنیا میں جو ممالک اسلحے کی پیداوار، تجارت، درآمد اور برآمد زیادہ کرتے ہیں، ان میں امریکا، یورپ، چین، جاپان، اسرائیل، عرب امارات، سعودی عرب، مصر، کویت، پاکستان اور ہندوستان وغیرہ شامل ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کے پاس ایٹم بم ہیں، یہ ممالک امریکا، روس، چین، مشرق وسطیٰ، اسرائیل اور یورپ سے کھربوں ڈالر کے اسلحے کی درآمد اور برآمد کرتے ہیں۔ ہندوستان کا امریکا اور اسرائیل سے معاہدہ ہے۔ پاکستان کی سعودی عرب، عرب امارات اور چین سے اسلحے کی تجارت تو ہے ہی مگر امریکا سے زیادہ اسلحہ خریدتا ہے۔ اسلحے کے بیوپار میں پاکستان دنیا کے ٹاپ ٹین میں شمار ہوتا ہے۔ اسی لیے بیماری، بھوک، افلاس، بدعنوانی، بے روزگاری وغیرہ یہاں عروج پر ہیں۔ جنوبی امریکا کا ایک ملک کوسٹاریکا ہے جہاں 1949 سے فوج نہیں ہے، یہاں قتل و غارت گری نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ساری جنگیں صرف ملکیت، جائیداد، زمین اور علاقوں، وسائل، معدنیات، باغات اور آبی وسائل پر قبضہ کرکے چند ہاتھوں کی ملکیت بنانے کی خاطر ہوتی ہے۔
اب بھی لاکھوں کروڑوں انسان جنگلوں اور بیابانوں میں امداد باہمی کے سماج میں بستے ہیں۔ ان کے پاس کوئی بارودی اسلحہ ہے اور نہ ٹینک یا توپ۔ یہاں بھی کوئی مقتول ہے اور نہ قاتل۔ گزشتہ برسوں میں نیشنل جیوگرافک نے ان لوگوں میں سے 100 افراد کے خون کے ٹیسٹ لیے جن میں کسی ایک کے بھی خون میں کوئی مہلک بیماری یعنی HIV، کینسر، شوگر، کولیسٹرول، ایڈز وغیرہ کی علامات نہیں پائی گئیں۔ اس لیے بھی کہ وہ اسلحے سے پاک اور شفاف ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
اسلحے کے استعمال سے سب سے زیادہ برے اثرات ماحول پر پڑتے ہیں۔ تاب کاریوں سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اگر جنگ کو ترک کردیا جائے تو کوئی بھوکا رہے گا، بے روزگار رہے گا اور نہ لاعلاج۔
The post جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34QHp1s
via IFTTT
No comments:
Post a Comment