کراچی میں پانی کی پائپ لائنوں کا پھٹنا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ مذاق اس شہر والوں کے ساتھ ایک عرصے سے جاری ہے۔گزشتہ ہفتے کی صبح چار بجے کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کے اچانک بریک ڈاؤن سے دھابیجی سے منسلک تقریباً بیس پمپ بند ہوگئے۔
نتیجتاً کراچی کو پانی کی فراہمی مکمل طور پر بند ہوگئی مگر آدھے گھنٹے بعد ہی بجلی بحال ہوگئی مگر زوردار بیک پریشر سے کراچی کو یومیہ سو ملین گیلن پانی فراہم کرنے والی 72 انچ قطر کی پائپ لائن دھماکے سے پھٹ گئی۔ لاکھوں گیلن پانی ضایع ہوکر قومی شاہراہ پر جمع ہوگیا۔ شاہراہ پر دو سے تین فٹ پانی کھڑا ہونے سے کراچی ٹھٹھہ دو رویہ روڈ کے ایک حصے پر ٹریفک کی آمد و رفت معطل ہوکر رہ گئی۔
قومی شاہراہ کے کنارے واقع مکانات اور دکانوں میں پانی داخل ہوگیا ، جس سے وہاں کے لوگوں کے معمولات میں خلل پڑا، ادھرکراچی کے متاثرہ علاقوں میں پانی کی فراہمی بند ہونے سے کہرام مچ گیا۔ واٹر بورڈ کے ایک انجینئر کے مطابق پائپ لائن کے پھٹنے سے 50 ملین گیلن پانی ضایع ہوگیا مگر ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے۔
کے الیکٹرک نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ واٹر بورڈ کے گھارو، دھابیجی اور پپری سمیت تمام بڑے پپمنگ اسٹیشنزکو اس نے لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ کردیا ہے۔ اس نے یہ بھی باورکرایا تھا کہ اس کا عملہ چوبیس گھنٹے واٹر بورڈ کے ان پمپنگ اسٹیشنز کی بجلی بحال رکھنے اور فالٹ سے پاک رکھنے کے لیے مستعد رہے گا۔ اگر ایسا تھا تو پھر بجلی کیوں گئی۔ اس کا جواب شاید کے الیکٹرک کے پاس نہ ہو مگر واٹر بورڈ کی عزت ضرور داؤ پر لگ چکی ہے۔
پائپ لائنوں کے بار بار پھٹنے اور لیک ہونے کی مشکلات کو سہنے کے اب کراچی کے شہری عادی ہوچکے ہیں لیکن پانی کے لیے ترستے باسیوں کی بددعائیں واٹر بورڈ والوں کو ہی ملتی ہیں جب کہ اس میں قصورکے الیکٹرک کا بھی ہوتا ہے۔کے الیکٹرک والوں کو اپنی غلطیوں کا احساس نہ جانے کب ہوگا اور واٹر بورڈ والے اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کے قابل کب ہوں گے۔ واٹر بورڈ کا محکمہ حکومت سندھ کے پاس ہے اس سے پہلے یہ سٹی گورنمنٹ کے پاس تھا۔
سٹی گورنمنٹ بھی اس محکمے سے تنگ تھی کہ اس نے کبھی اپنے فرائض کو سنجیدگی سے ادا نہیں کیا تھا۔سندھ گورنمنٹ نے اسے عوامی شکایات کے پیش نظر ہی اپنے کنٹرول میں لیا تھا مگر اب پہلے سے زیادہ شکایات بڑھ گئی ہیں۔ پائپ لائنوں کے پھٹنے کے واقعات میں اضافہ انتہائی تشویش ناک ہے۔کیا ان پائپوں کی موٹائی مقررہ سائز سے کم ہوتی ہے یا ان کا میٹریل ناقص ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ اتنی آسانی سے کیوں پھٹ جاتے ہیں۔ یہ سنگین مسئلہ ہے اور اس کی سنگینی پر حکومت سندھ اور واٹربورڈ کے عہدیداران کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
پانی کی فراہمی انسانی مسئلہ ہے، کراچی میں پانی کی ہمیشہ ہی قلت رہتی ہے۔کراچی کے بعض علاقے تو پانی کی فراہمی سے مسلسل محروم چلے آرہے ہیں۔ ان کا گزارا واٹر ٹینکرز سے پانی خرید کر ہی ہو رہا ہے۔ ایک طرف لوگ قلت آب سے جوج رہے ہیں تو دوسری طرف گٹروں کے گندے پانی نے شہر میں سیلاب کا سماں پیدا کردیا ہے۔ سڑکوں پر گٹروں کے پانی کے جا بجا بہاؤ سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شہر میں پانی کی قلت نہیں بلکہ فراوانی ہے۔
دیکھنے میں آرہا ہے کہ گٹر کا پانی اکثر کراچی کی مین شاہراہوں اور مرکزی چوراہوں پر دور دور تک موجیں مار رہا ہوتا ہے۔ پہلے محلوں کی گلیاں اور سڑکیں ضرورگٹروں کے پانی سے شرابور ہوتی تھیں مگر اب تو بڑی شاہراہوں اور چوراہوں پر کھڑے گٹرکے پانی سے گاڑیوں کا گزرنا اور لوگوں کا پیدل چلنا محال ہوگیا ہے۔ لگتا ہے یہ اس شہر اور اس کے باسیوں کے ساتھ کھلی سازش ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ برسوں سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر متعلقہ محکمہ تماشائی بنا ہوا ہے۔ واضح ہوکہ یہی گندا پانی پولیو سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے۔اس ضمن میں متعلقہ محکمے کی لاپرواہی اور تساہل سے کام لینا محکمے کے اسٹاف کی ذمے داریوں پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔
ادھر حکومت سندھ بھی اس مسئلے سے لاپرواہ نظر آتی ہے۔ اس موقعے پر شہر میں جگہ جگہ موجود کچرے کے پہاڑوں کا ذکر نہ کرنا بھی سرا سر نا انصافی ہوگی۔ کچرے کی صفائی کے سلسلے میں اگر ملک ریاض کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو اب تک کراچی یقینا کچرے کے ڈھیروں میں گم ہوچکا ہوتا۔
بجلی کی شہر میں آنکھ مچولی نے پہلے ہی عوام کو پژمردہ بنادیا ہے۔ کے الیکٹرک نے اپنی طرف سے شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک وہ علاقے ہیں جہاں کے لوگ باقاعدگی سے بجلی کے بل جمع کرواتے ہیں اور دوسرے وہ علاقے ہیں جہاں کے عوام بل جمع کراتے بھی ہیں اور نہیں بھی۔کراچی کے پسماندہ علاقوں میں بجلی کا بریک ڈاؤن روزکا معمول ہے۔
یہاں دن میں تین بار لازمی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے اورکچھ علاقوں میں تو چار سے پانچ بار بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے یہاں بجلی کے ستائے ہوئے لوگوں نے کنڈا سسٹم کا سہارا لیا ہوا ہے، یہ تو خیر ان علاقوں کا ذکر ہے جہاں کے لوگ اپنی غربت اور مہنگائی کی وجہ سے بجلی کے بل ادا نہیں کر پاتے مگر وہ علاقے جہاں کے مکین باقاعدگی سے بلوں کی ادائیگی کرتے ہیں وہاں بھی بجلی کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور بعض اوقات تو لوڈ شیڈنگ جیسا ماحول بنا دیا جاتا ہے۔
کراچی میں گیس کی لوڈ شیڈنگ تو اب پرانی ہوچکی ہے گیس کے جوں جوں ریٹ بڑھ رہے ہیں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کراچی کے عوام جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ریونیو حکومت کو فراہم کرتے ہیں وہ ان تمام مصائب سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں وہ وہی جانتے ہیں۔ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے عوام نے جن سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دیے تھے وہ مسائل کو حل کرنے میں قطعی ناکام ہوچکے ہیں۔ شہری سہولتیں بہم پہنچانے کی ذمے داری شہری حکومت کی ہے مگر وہ اپنے اختیارات میں کٹوتی کا ذمے دار حکومت سندھ کو قرار دیے کر مسائل کے حل نہ ہونے کی ذمے داری سندھ حکومت پر عائد کرتی ہے۔
میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ وہ پانی کچرا اور سڑکوں کے مسائل حل کرسکتے ہیں اگر سندھ حکومت یہ تمام محکمے انھیں واپس کردے۔ دراصل عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے شہری محکموں کو ان کی ذمے داریوں کا پابند بنانا ہوگا خواہ یہ محکمے سندھ حکومت کے پاس ہوں یا میئر کراچی کے کنٹرول میں دے دیے جائیں۔ حکومت سندھ اگر اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر ان محکموں پر توجہ مبذول کرے تو یقینا شہری مسائل حل ہوسکتے ہیں، اس سے اس پر جو مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں ان سے بھی وہ گلوخلاصی حاصل کرسکتی ہے۔
مبصرین کے مطابق گزشتہ اتوار کو عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں پی ایس پی نے شہر میں ایک بڑا جلسہ منعقد کرکے عوامی مسائل کے حل کی ذمے دار حکومت سندھ اور شہری حکومت کے لیے پریشان کن صورتحال پیدا کردی ہے۔ لگتا ہے شہر کے تمام عوامی مسائل کو صرف چھ ماہ میں حل کرنے کی مصطفیٰ کمال کی آفر سے عوام ضرور متاثر ہوئے ہیں مگر یہ ایک مشکل چیلنج ہے جسے پورا کرنا آسان نہیں ہے۔ تاہم حکومت سندھ کو اس آفر پر ضرور توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ کسی طرح عوامی مسائل کا حل نکل سکے۔
حال ہی میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے درمیان بڑھتے ہوئے شہری مسائل کے حل میں ناکامی پر غور کرنے کے لیے ایک میٹنگ منعقد ہوئی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ وہ کچھ کریں یا نہ کریں کم سے کم پانی کی پائپ لائنوں کے آئے دن پھٹنے کے واقعات کو روکنے کے لیے ضرور کچھ کریں۔
The post اور پائپ لائن پھٹ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MmGei2
via IFTTT
No comments:
Post a Comment