بات کو بنیاد سے شروع کرتے ہیں اگرکسی کے گھر چوری ہوجائے ڈاکہ پڑے نوجوان بیٹا قتل ہوجائے یا بیٹی کے ساتھ کوئی مجرمانہ واقعہ پیش آ جائے تو حکومت کتنا تحفظ دیتی ہے؟پیشگی تحفظ کا تو کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا تھا لیکن لٹ جانے کے بعد کیاہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ آپ حکومت کے قائم کردہ قانون نافذ کرنے اور امن وامان قائم کرنیوالے اداروں میں جاکر فریاد کرینگے لیکن فریاد کیسے کریں گے َاور وہ سنیں گے کیسے؟
یہ توبتانے کی بات ہی نہیں کیونکہ ایک مرتبہ ہرکوئی اسی پل صراط سے گزرتا بھی رہاہے جو تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے اور کسی کو ’’گزرتے‘‘ ہوئے دیکھ چکا ہوتا ہے یعنی ’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘ اور۔عیاں راچہ بیان؟چنانچہ وہ سو سو بار سوچے گا کہ فریاد کرنے جاکر کئی کئی بار پھرلٹ جائے اور اپنی عزت کھوئے یاخاموش رہے۔
اور بزرگوں نے ’’خاموشی‘‘کو بہتر کہاہے لیکن جو ناسمجھ، ناآشنا اور ناواقف ہوتے ہیں اور صرف ’’بیانات‘‘ کی حد تک معلومات رکھتے ہیں یا انصاف کے صرف دکھانے والے دانتوں کو دیکھتے رہے ہوتے ہیں تو وہ ان اداروں کی زنجیر عدل ہلادیتا ہے اور پھر وہ کمبل کو چھوڑنا چاہتاہے لیکن کمبل بھی اسے چھوڑے تب نا۔چنانچہ آپ اپنا گھر لٹا بیٹھنے ،کھونے اور بیٹی کی عزت داغدار کرنے کے مراحل سے ایک مرتبہ پھر گزرتے ہیں اور تب تک گزرتے رہیں گے جب تک’’تعاون‘‘منہ مانگے داموں پر خرید نہیں لیتے۔آگے پھر وہ عدل وانصاف کا ہفت خواں آئے گا جسے رستم کا باپ زال اور نریمان بھی سر نہیں کرپائے گا۔
سوائے حضرت جناب کرنسی شریف کے۔اس بارے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جائینگے کیونکہ جیسا کہ دانش مشرق میں کہاگیاہے کہ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطاست‘‘ویسے ہی مغربی بزرگوں نے بھی ’’توہین‘‘کی ایک دیوار کھڑی کی ہوئی ہے اور ایسی ’’پیش بندیاں‘‘وہی کرتاہے جسے یقین ہوکہ میں ’’خطا‘‘ کر رہا ہوں اس لیے پہلے ہی زبانوں پر مہرلگانا ضروری سمجھا گیا ہے۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کرسی انصاف پرجو بیٹھا ہے اس نے یہاں تک پہنچنے کے لیے کتنی’’محنت‘‘کی ہے اور اپنی ’’کوالیفکشن‘‘ پرکتناکچھ خرچ کیا ہے یا خریدی ہے بلکہ یہاں جو ’’سیاہ وسفید‘‘ کے مجموعے نظر آتے ہیں ان کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہیں گے یہاں تک کہ جس کی طرف منہ کریں وہ سفید اور جس کی طرف پشت کریں وہ سیاہ بلکہ اس’’رادھا‘‘کے بارے میں بھی لب کشائی نہیں کرسکتے جو نومن تیل سے چھٹانک بھر کم تیل پر اپنے گھنگرو نہیں چھنکاتی۔ جسکی عرفیت ’’انصاف کی دیوی‘‘ہے۔اب گھر کی بھینس بکری کی چوری،ایک فالتو بیٹے کے مارے جانے اور ایک بیٹی کی عزت تار تار ہونے والا نومن تیل کہاں سے لائے گا؟وہ تو لٹا ہوا ہے۔
اب آتے ہیں شق نمبر دو ’’صحت‘‘،ایک پورا محکمہ اپنے تمام اسلحہ جات سے لیس بھی موجود ہے بہت بڑے اسپتال یہاں تک کہ دیہات کی سطح پر بی ایچ یو وغیرہ بھی ہیں، بے شمار کلینک بھی ہیں ریوڑھیوں کی طرح بٹنے والے صحت کارڈ بھی ہیں لیکن مریض پھر بھی عطائیوں ٹونا ٹونکہ کرنے والوں، دوم، درود پھونکنے والوں عاملوں جادوگروں پیروں فقیروں کا شکار ہے؟کیوں ؟کیا اسے نہیں معلوم کہ اتنے اسپتال اور صحت کارڈ موجود ہیں کیا وہ پاگل ہے جو یہاں وہاں بھٹکتا رہتاہے اور سیدھا سادا اسپتال نہیں جاتا؟
ایسا کچھ نہیں وہ سب کچھ جانتاہے بلکہ کچھ زیادہ جانتاہے اور یہ کہ جہاں’’صحت‘‘کے یہ ادارے قائم ہیں، وہاں امراض بیچے جاتے ہیں مریض کو دودھیل گائے بنایا جاتاہے اسے دواساز کمپنیوں کا بارآور کھیت بنایا جاتاہے اسے جعلی دوا ساز کمپنیوں کے ہاتھ فروخت کیاجاتاہے اس کے مرض کو اپنے لیے نعمت عظمیٰ بنایاجاتاہے اس کو لگی ہوئی’’آگ‘‘پر ہانڈیاں پکائی جاتی ہیں اس لیے وہ ان قتل گاہوں ،انسان فروشوں، امراض فروشوں سے دور رہ کر نوسربازوں عطائیوں اور ٹونے ٹوٹکے والوں کے ہتھے چڑھتا رہتاہے جو ان سے بھی زیادہ ظالم ہوتے ہیں۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
اور آخر میں ان سب باتوں کا یہ نچوڑ۔کہ جس ملک میں ہر ہر سطح پرعوام کے استحصال کے ’’مواقع‘‘حکومت نے پھیلا رکھے ہوں وہاں انسان بیمار اور مسائل کا شکار نہیں بنے گا تو کیا بنے گا۔مسائل جو ام الامراض ہوتے ہیں۔تیسرا آئٹم’’تعلیم‘‘
زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ مرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے
لارڈ میکالے نے جو نظام تعلیم وضع کیاتھا وہ انسانوں کے لیے تھا ہی نہیں غلاموں یا دوسرے معنی میں کالانعاموں کے لیے تھا۔جو اب بھی ہے اور اپنی تمام خرابیوں اور برائیوں کے ساتھ رائج الوقت ہے۔یہ نظام تعلیم افسر بناتا ہے، انجینئر ڈاکٹر بناتاہے اکاؤنٹنٹ بناتاہے کلرک بناتا ہے چپراسی بناتا ہے اور سب سے زیادہ غنڈے بدمعاش بناتا ہے تاکہ حکومت کے دوسرے’’گلشنوں‘‘کا کاروبار بھی چلے لیکن اگر نہیں بناتا تو ’’انسان‘‘بالکل نہیں بناتا کیونکہ یہ بڑا خطرناک ہوتاہے خاص طور پر حکومت کے لیے۔
اگر کوئی غلطی سے انسان بن گیا تو پھر وہ ڈاکٹر انجینئر افسر کلرک سپاہی وغیرہ جو بھی بنے گا اس کے ساتھ ’’انسان‘‘بھی ہوگا یعنی خطرناک چنانچہ اس نظام تعلیم کی روح اس کی بنیاد اس کی رگ وپے میں سے ’’انسان بنانے‘‘کے عناصر نکال دیے گئے ہیں اور صرف کالانعام بنائے جاتے ہیں۔اوپر سے جب ستر سال پہلے حکمرانوں کو آزادی اور محکوموں کو مزید غلامی کی ’’نعمت عظمیٰ‘‘ملی تو ہر حکمران نے درسگاہوں کو اپنا ووٹ بینک پیدا کرنے کی ’’نرسری‘‘سمجھ کراپنے اپنے ’’زہر‘‘ سے اس کی آبیاری کی۔ یوں غلاموں کی جگہ اب اس میں ’’غنڈے‘‘ بنائے جانے لگے جن کا کل ملاکر نظریہ لینا جھپٹنا اور کسی بھی طرح کچھ بھی حاصل کرناتھا۔
’’اخلاق‘‘نامی چیز کو تو اس کے اندر انتہائی ممنوع قرار دیاگیا ہے بلکہ معاشرے میں سے بھی ہر اخلاقی قدر کو نکال باہر کرنا۔ خاندان کو مسمار کرنا،بزرگوں کا احترام گناہ سمجھنا حتی الوسع ہر دوسرے اور اس کی کسی چیز کو مذاق کا نشانہ نہ بنانا اور کسی طرح بھی دوسرے سے چھین لینا اور پھر محکماتی انقلاب بھی تو آزادی کے ساتھ آیاتھا۔ اسلامائزیشن کی رو سے تجارت انبیاء اور اولیا کا پیشہ ہے اس لیے تعلیم کو بھی مال تجارت بنانا۔ صحت کا انتظام اور عدل وانصاف تو پہلے ہی مال تجارت بنا چکے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تجارت مفادات این جی اوز منافقانہ سیاست نے ’’بیروزگار اور جاہل بذریعہ تعلیم‘‘ بنانے کا ایک کارخانہ بنا دیا ہے۔
کسی کوکسی بات کی پروا نہیں ہے کہ اس بیروزگاری کے اتنے بڑے کارخانے کا ’’مال‘‘ کہاں کھپایا جائے گا کیونکہ ’’روزگار‘‘کو بھی حکومت کی ذمے داری سے نکالا جاچکاہے بلکہ یہ بھی دانستہ کیاگیاہے تاکہ بے روزگاری بڑھے اور ساتھ ہی سرکاری ملازمتوں کی قیمت بھی بڑھے اور افسروں، منتخب نمایندوں اور وزیروں کے ذرایع آمدن میں اضافہ ہو۔ہم پورا حساب تو نہیں لگاسکتے لیکن اندازے سے بتاسکتے ہیں کہ اس وقت پولیس کے سپاہی سے لے کر بڑے افسروں اور یہاں تک کہ عدلیہ میں ایسا بندہ مشکل سے ملے گا جس نے اپنی پوسٹ خریدی نہ ہو بلکہ درسگاہوں کی سیٹیں تک بیچی اور خریدی جاتی ہیں الیکشن تو پہلے ہی سب سے اعلیٰ درجے کی تجارت اور منڈی؟اب ایسے حالات میں ’’ٹیکس‘‘کیا واقعی دو طرفہ ایک شریفانہ معاہدہ ہے؟یا باقاعدہ گن پوائنٹ پرلوٹ مارہے؟
یہ فیصلہ ہر کوئی کرسکتا ہے بلکہ اس معاہدے کی سب سے گھناؤنی صورت یہ ہے کہ حکومت اگر کہیں کسی کو کچھ دیتی بھی ہے تو وہ ’’حق‘‘ کے بجائے، بھیک کی طرح دیتی ہے، وہ بھی سارے عوام کو نہیں بلکہ اپنی اپنی پارٹی یا گینگ ممبرز‘‘کو۔کیونکہ پارٹیوں کو اب گینگ بنایا گیا ہے۔
The post ٹیکس؟ کیوں؟ کس لیے؟ کب سے (دوسرا اور آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ytkyZs
via IFTTT
No comments:
Post a Comment