Sunday, March 31, 2019

کوچۂ سخن ایکسپریس اردو

غزل


بجھا کے رقص کیا رات بھر چراغ کی لَو
جلی ہے دیکھیے اس بات پر چراغ کی لو
یہ میرا عکس گریزاں ہے کس لیے مجھ سے
ہے جب چراغ کے نزدیک تر چراغ کی لو
مجھے پتا نہیں چلتا کہ کون کون ہے ساتھ
شبِ بلا میں نہ گُل ہو اگر چراغ کی لَو
وہاں کے لوگ تھے ترسے ہوئے اندھیرے کو
میں رک گیا تھا جہاں دیکھ کر چراغ کی لَو
اُسے ہَوا نہیں دوری بجھانے والی ہے
مجھے جو لگنے لگی ہے شرر چراغ کی لو
گزارا کرنا پڑا رات کی طوالت پر
میں کرسکا نہ بڑی کھینچ کر چراغ کی لَو
(مسعود صدیقی، فیصل آباد)


غزل
سماعتوں میں گھولنے لگا تھا رَس بیان سے
وہ خوش بیان بولنے لگا تھا جب زبان سے
وہ وقت بھی چلا گیا، وہ شام بھی گزر گئی
مگر وہ شخص جا نہیں رہا ہے میرے دھیان سے
وہ زود رنج تھا کسی کی کج ادائی سے مگر
نکال نہ سکا وہ خود کو شاید اس گمان سے
وہ خوش خصال جب ملا نظر جھکائے ہی ملا
وہ لگ رہا تھا سلجھے ہوئے، نیک خاندان سے
کسی کی معذرت سے بھی نہ بھر سکیں گے گھائو یہ
پلٹ کے تیر آیا کب جو چل چکا کمان سے
رہے گا کون، کب تلک، کسے دوام ہے بھلا
چلے ہی جانا ہے، چلے ہی جائیں گے جہان سے
(حنا کوثر، منڈی بہاؤ الدین)


غزل


مرنے والوں سے پوچھتا ہوں مَیں
جانے کس کے گلے لگا ہوں میں
نامہ بر خط ترا نہیں آیا
بس! اسی سوچ میں مرا ہوں مَیں
مطلبی دوست ہیں تمام یہاں
آخری بات پر اڑا ہوں میں
تیری پوجا نہیں کروں گا سُن
ایک آدم کی ہاں خطا ہوں میں
تیز بارش میں دشت کی جانب
اک مسافت کو لے گیا ہوں مَیں
اپنے ہاتھوں میں لے کے سورج کو
تیری دہلیز پر کھڑا ہوں میں
دشمنی آپ سے ارے توبہ
کس کی باتوں میں آگیا ہوں میں
پھر خیالِ ندیمؔ میں کھو کر
ایک مدت جیا گیا ہوں مَیں
(ندیم ملک، کنجروڑ، نارو وال)


غزل


لبوں پر گُل تسلی کے نمایاں کیوں نہیں ہوتے
پریشانی پہ میری تم پریشان کیوں نہیں ہوتے
ہمارے گھر میں دیکھو ایک مدت سے اندھیرا ہے
محبت کے چراغ آخر فروزاں کیوں نہیں ہوتے
قدم اپنے خیالِ یار ہی سے لڑکھڑاتے ہیں
تو ہم نذرِ نگاہِ جانِ جاناں کیوں نہیں ہوتے
اگر وہ غم کی دنیا میں رہے ہوتے تو کیوں کہتے
غریبوں کے مکانوں پر چراغاں کیوں نہیں ہوتے
سمجھ بیٹھے ہیں شاید چاندنی وہ اپنے دامن کو
میں اب سمجھا کہ چاک ان کے گریباں کیوں نہیں ہوتے
جو گھبراہٹ سے کانپے تھے ہمارے نام پر معراجؔ
ستم کرتے ہوئے وہ ہاتھ لرزاں کیوں نہیں ہوتے
(محمد معراج صدیقی، آصف نگر، کراچی)


غزل


خواہش تھی جس کی آج تک حاصل نہیں ہوا
شاید میں دردِ عشق کے قابل نہیں ہوا
بیگانگی رہی ہے مجھے اپنی ذات سے
تجھ سے تو ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوا
اس بار تیری شوخیِ چشمِ غضب نہیں
اس بار میں تو پہلے سا گھائل نہیں ہوا
نکلا تھا تیرے حکم پہ جنت سے ایک روز
پھر اپنی ضد پہ آج تک داخل نہیں ہوا
میں گر ترے وجود میں شامل نہیں تھا دوست
تو بھی مرے وجود میں شامل نہیں ہوا
شہباز ؔ اس کو تجھ پہ تو راسخ یقین تھا
پھر کیوں وہ تیری بات پہ قائل نہیں ہوا
(شہباز راجہ، سرگودھا)


غزل


تم وسعتِ بے انت، جہاں سرِ نہاں ہو
تم کوئی حقیقت بھی ہو یا ویسے گماں ہو؟
میں ڈار سے بچھڑے ہوئے پنچھی کی طرح ہوں
تم اس کے لیے چلتی ہوا، پھیلا جہاں ہو
میں شام کے منظر میں ہوں تحلیل شدہ اور
تم دور کسی گاؤں کی، مغرب کی اذاں ہو
میں چلنے سے پہلے کا کوئی تیر ہوں رکھا
تم مجھ کو چلانے کے لیے کوئی کماں ہو
میں پھیلے ہوئے دشت کی بے انت فضا ہوں
تم چھوڑے ہوئے لوگوں کا ویران مکاں ہو
(زاہد خان، ڈیرہ اسماعیل خان)


غزل


ہوا غبارے میں ڈھیر ہونے سے پھٹ گیا ہے
وہ چار زخموں پہ مجھ سے آ کے لپٹ گیا ہے
میں زندگی کا یہ روزنامہ پڑھوں تو کیسے؟
مرا ستارہ مری نظر سے جو ہٹ گیا ہے
جہاں ہماری محبتوں میں نہ تھی جدائی
وہ شہر خوابوں کے جاگنے سے اُلٹ گیا ہے
جو ہجر پر امتحاں میں کوئی سوال آیا؟
وہ کیا لکھے گا کہ وصل کا باب رٹ گیا ہے؟
جو تیر پھینکا تھا اس نے مجھ پر جفا نما سا
وہ تیر دیکھو وہیں سے واپس پلٹ گیا ہے
یہی ہے شاہ میر جو کہیں پر سمٹ نہ پایا
تری جو بانہوں میں آ کے جاناں سمٹ گیا ہے
(شاہ میر ایلیا، سرگودھا)


غزل


کیسے آباد یہ گُل زار ہے، میں جانتا ہوں
حافظِ گُل بھی تو اک خار ہے، میں جانتا ہوں
جو نظر کے لیے دھوکہ ہے سب کے سامنے ہے
پر حقیقت پسِ دیوار ہے میں جانتا ہوں
طشت میں پھول دکھا کر مجھے گمراہ نہ کر
کہ ترے بغل میں تلوار ہے، میں جانتا ہوں
زلزلہ تو نہیں آیا ہے مگر غور سے سن!
کانپتا کیوں در و دیوار ہے، میں جانتا ہوں
میں کفن باندھ کے لڑنے کے لیے نکلا ہوں
دشمنوں میں بھی مرا یار ہے میں جانتا ہوں
میں کبھی ٹوٹ کے بکھروں تو تسلی دے گا
میرا مَن میرا پرستار ہے، میں جانتا ہوں
یونہی بھٹکا نہیں یہ راہ سے اپنی یاسرؔ
نااہل قافلہ سالار ہے، میں جانتا ہوں
(یاسر یاروی، اسکردو)


غزل


گلی گلی میں ستارہ شناس پھرتے ہیں
تمھارے شہر میں شاعر اداس پھرتے ہیں
یہ لوگ میری معیت میں بھی رہے ہیں کبھی
یہ لوگ اب جو ترے آس پاس پھرتے ہیں
غزال آنکھیں، تو ہیں ملگجی بدن اُن کے
جو فاقہ مست و دریدہ لباس پھرتے ہیں
فرات ان کے لیے مضطرب ہے صدیوں سے
اٹھا کے مشک میں اپنی جو پیاس پھرتے ہیں
کوئی بھی تجھ سا نہیں ہے مری نگاہوں میں
جہاں میں تیرے کئی التباس پھرتے ہیں
یہ کون ہیں یہ مرے شہر کے نہیں ہیں اسدؔ
عجیب صورتوں میں بد حواس پھرتے ہیں
(اسد اعوان، سرگودھا)


غزل


اک مصوّر نے بچھایا آئنہ
چاند کو پورا بنایا آئنہ
پوری دنیا دیکھ سکتا ہوں ابھی
اک نجومی نے دلایا آئنہ
خود کو میں تنہا سمجھتا ہی نہیں
جب سے کمرے میں لگایا آئنہ
ساری بستی کو خبر یہ ہوگئی
شہر سے کس نے چرایا آئنہ
میرے عیبوں کو چھپائے، اس لیے
اپنے ہاتھوں سے بنایا آئنہ
پورا کمرہ روشنی سے بھر گیا
آئنے کو جب دکھایا آئنہ
حُسن زادی مر بھی سکتی تھی نذیر
جھونپڑی سے کیوں ہٹایا آئنہ
(نذیر حجازی، نوشکی۔ بلوچستان)


غزل


خوش خیالوں کے امیں ہیں سائیں
نور والوں کے امیں ہیں سائیں
ہم تو خورشید بکف پھرتے ہیں
ہم اجالوں کے امیں ہیں سائیں
جو بھرے نور سے رہتے ہیں سدا
انہی پیالوں کے امیں ہیں سائیں
دور بستی میں یہ پھیلے کھنڈر
خستہ حالوں کے امیں ہیں سائیں
پائے نازک میں پڑے تھے جو کبھی
انہی چھالوں کے امیں ہیں سائیں
لبِ یاسین پہ جم ہیں جو گئے
انہی نالوں کے امیں ہیں سائیں
(ایم یاسین آرزو، لاہور)


غزل


بہاروں کا عالم بہاروں سے پوچھو
مری بے کسی چاند تاروں سے پوچھو
بجایا تھا کیوں میں نے سازِ محبت
یہ قصہ مرے دل کے تاروں سے پوچھو
ہوا کس طرح غرق میرا سفینہ؟
یہ موجوں سے پوچھو، کناروں سے پوچھو
کہاں تک گئے ہیں تیری جستجو میں
ہمیں کیا خبر بے سہاروں سے پوچھو
کہاں تک جلے گا چراغِ تمنا
یہ وعدوں سے اور انتظاروں سے پوچھو
کہاں میں نے اپنی جوانی فدا کی؟
کسی کی حسیں رہ گزاروں سے پوچھو
(صابر میاں، ٹوبہ ٹیک سنگھ)


غزل
دردِ دل کیوں بڑھاتا جاتا ہے
کون سا غم ہے جو چھپاتا ہے
رنگ کیا کیا نہ ہم نے دیکھ لیے
کون سا رنگ اب دکھاتا ہے
قدر چاہت کی کسی نے پائی یاں
ہاں مگر دل تو خون رلاتا ہے
وقت جو مسکرانے میں گزرا
اس کی قیمت کوئی چکاتا ہے؟
اونچا اڑنے میں ہو پروں میں زور
خواب تو دل بہت دکھاتا ہے
پاس تھے جب تو کوئی قدر نہ تھی
فاصلہ تشنگی بڑھاتا ہے
عمر کافی گنوا لی ہم نے اب
زیست کا دیپ ٹمٹاتا ہے
(سائرہ حمید تشنہ، فیصل آباد)


غزل


یاد آتا ہے تجھے دل میں بسائے رکھنا
اپنی آنکھوں کو محبت سے جھکائے رکھنا
موت حیران ہوئی ایسا بھلا ممکن ہے؟
بوجھ خود نعش کا کاندھوں پہ اٹھائے رکھنا
رات کے پچھلے پہر تم جو چلے آئے ہو
تم پہ لازم ہے سنو راز چھپائے رکھنا
ڈال دیتا ہے تعجب میں کئی لوگوں کو
شوق کے بحر کو سینے میں سمائے رکھنا
جانچ کر ہجر کے ابواب حسّانی نے کہا
یار کی یاد سے فرقت کو مٹائے رکھنا
(حسن رضا حسانی، سیالکوٹ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Wz1QcL
via IFTTT

No comments:

Post a Comment