Sunday, March 31, 2019

سانحہ کرائسٹ چرچ ہمیں سبق دے گیا نفرت کا مقابلہ محبت سے! ایکسپریس اردو

جنوبی افریقہ کے لیجنڈری رہنما، نیلسن منڈیلا کا خوبصورت قول ہے ’’کوئی بھی انسان اس طرح پیدا نہیں ہوتا کہ وہ رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر دوسرے انسانوں سے نفرت کرے… اسے نفرت کرنا سیکھنی پڑتی ہے۔ اگر ایک انسان نفرت کرنا سیکھ سکتا ہے، تو اسے محبت کرنا بھی سکھایا جاسکتا ہے۔ محبت کو اپنانا ویسے بھی آسان ہے کہ انسان کا دل قدرتی طور پر اسی کی جانب کھنچتا ہے۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ نفرت کے مقابلے میں محبت کہیں زیادہ طاقتور جذبہ ہے۔ نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملوں کے بعد پوری دنیا میں اسی جذبے کی فقید المثال کارفرمائی نظر آئی۔ اپنے پرائے سبھی نے نفرت کے ہرکارے، برینٹن ٹیرنٹ کے اقدام کی مذمت کی اور اسے اور اس کی طرز فکر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ دنیائے مغرب میں قوم پرست اور انتہا پسند اس کی تعریف میں رطب للسان رہے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر تھی۔

دنیائے اسلام میں یہ تاثر جنم لے چکا تھا کہ کوئی مغربی باشندہ قتل عام کا ارتکاب کرے تو اسے مغربی میڈیا میں ’’جنونی‘‘، ’’پاگل‘‘ اور ’’لون و لف‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بات کا چرچا ہوتا ہے کہ یہ ایک انفرادی فعل تھا۔ لیکن جب کوئی مسلمان کسی بھی ردعمل میں فائرنگ کر ڈالے، تو مغربی میڈیا سبھی مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے لگتا ہے۔ سب مسلمان فوراً دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔ لیکن کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے بعد یہ تاثر کچھ حد تک ضرور زائل ہوگیا۔

اس کی ایک اہم وجہ وہ طریق کار ہے جسے اپنا کر برینٹن ٹیرنٹ نے نہتے اور معصوم نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ وہ پہلے اطمینان سے کار چلاتا مسجد پہنچا۔ لگ رہا تھا کہ وہ انسانوں کو قتل کرنے نہیں پکنک منانے اور سیروتفریح کرنے جارہا ہے۔ گویا وہ سادیت پسندی (Sadism) کو نئی انتہا پر لے گیا۔ (سادیت پسند لوگ دوسروں کو دکھ و تکلیف دے کر لذت محسوس کرتے ہیں)۔ برینٹن نے پھر بڑی سنگ دلی سے انسانوں پر گولیاں برسائیں اور ننھے بچوں اور بوڑھے افراد کو بھی نہیں بخشا۔ یہ سارا خوفناک منظر وہ دنیا والوں کے سامنے لائیو پیش کررہا تھا۔

وحشت و بربریت کے اسی زندہ مظاہرے نے پتھر دل لوگوں کو بھی جھنجھوڑ ڈالا اور وہ برملا برینٹن کو دہشت گرد کہنے لگے۔ یہ دہشت گردی ہی تھی جس نے مسلمانوں سے تعصب و نفرت رکھنے کی بنا پر جنم لیا۔ برینٹن ہوش و حواس رکھنے والا نوجوان ہے۔ اگرچہ تعصب و نفرت نے اسے اتنا بے حس اور اندھا بنا دیا کہ وہ محبت و پیار جیسے لطیف انسانی جذبوں سے محروم ہوگیا۔

اس دلدوز سانحے کے بعد مگر پوری دنیا میں محبت، ہمدردی، غم خواری اور دلجوئی کے یادگار مناظر سامنے آئے۔ اجنبی بھی بڑھ کر سانحہ کرائسٹ چرچ کے متاثرین اور اسلامی برادری کو تسلی و تشفی دینے لگے۔ ان کو نہ صرف جذباتی سہارا دیا گیا بلکہ مالی مدد کے لیے چندہ مہمات بھی شروع کی گئیں۔ دنیا بھر میں ایسے کئی اقدامات اٹھائے گئے جن کے ذریعے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرنا اور انہیں پیغام محبت دینا مقصود تھا۔

انسان دوستی کے اقدامات

دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں مگر لاکھوں غیر مسلموں کے طرز عمل سے عیاں ہوا کہ دنیا بھر میں انسانیت پسندی آج بھی مضبوط و توانا اور جاری و ساری ہے۔ جب کسی برداری پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹے، تو سبھی دوسری اقوام تمام تعصبات اور اختلافات بھلا کر اس کی مدد کرنے پر کمربستہ ہوجاتی ہیں۔

مثال کے طور پر سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی سرکاری اور نجی تنظیموں نے ان ویب سائٹس پر فنڈز جمع کرنے کی خاطر خصوصی پیج بنا دیئے جن پر چندے کی اپیل کی جاتی ہے۔ ایک ایسا ہی پیج ’’گیواے لٹل‘‘ (Givealittle) نامی ویب سائٹ پر بنایا گیا۔ اگلے دو دن میں اس پیج نے پچاس لاکھ ڈالر جمع کرلیے۔ گیواے لٹل کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی ڈونیشن بن گئی۔

اس طرح دیگر سماجی ویب سائٹس پر بھی مختلف پیجوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر جمع ہوئے۔ سب سے زیادہ امداد نیوزی لینڈ کے باشندوں سے موصول ہوئی۔ انہوں نے دل کھول کر عطیات دیئے تاکہ متاثرین کی مالی مدد کا انتظام ہوسکے۔ امدادی مہمات شروع کرنے والی تنظیموں کا کہنا تھا کہ گزر جانے والوں کو واپس لانا ممکن نہیں لیکن ہم ان کے زندہ پیاروں کی کسی نہ کسی طرح مدد کرنا چاہتے ہیں۔

ایک پیج کیوی حکومت کے ادارے، کونسل آف وکٹم سپورٹ گروپس نے قائم کیا تھا۔ ادارے کی سربراہ، کیون ٹسو بتاتی ہے ’’نیوزی لینڈ اور دنیا بھر کے مردوزن نے کمال کی سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ اسے دیکھ کر میرا یہ ایمان پختہ ہوگیا کہ انسان بنیادی طور پر خیرو نیکی کی سمت زیادہ مائل ہوتا ہے۔‘‘

کرائسٹ چرچ میں مقامی سطح پر ہزارہا لوگوں نے ہر قسم کا سامان جمع کرکے متاثرین کے خاندانوں تک پہنچایا۔ اس سامان میں کھانے پینے کی اشیا اور ملبوسات شامل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ سانحے کے موقع پر کئی غیر مسلموں نے نمازیوں کی جانیں بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

انڈونیشیا کا طالب علم، عرفان یونیتو بتاتا ہے ’’جب گن مین نے حملہ کیا، تو میں خطبہ جمعہ سن رہا تھا۔ تبھی گولیوں کی تڑتڑ اور لوگوں کی چیخیں سنائی دیں۔ میں جان بچانے کے لیے مسجد کے پچھلے حصے کی طرف دوڑ پڑا۔ مسجد کی دیوار پھلانگ کر پھر میں ایک گھر میں گھس گیا۔‘‘

مسجد کے نزدیک واقع اس گھر میں ایک ریٹائرڈ غیر مسلم اور سفید فام ڈاکٹر مقیم تھا۔ عرفان بتاتا ہے ’’جب میں وہاں پہنچا، تو دیکھا گھر میں پندرہ سولہ اور نمازی چھپے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ ہمیں مشروبات پلائے اور ہمیں آرام کرنے کی خاطر جگہ فراہم کی۔ اس کی مہمان نوازی سے ہم بہت متاثر ہوئے۔‘‘

عرفان اور دیگر نمازی چار گھنٹے تک ڈاکٹر کے گھر چھپے رہے۔ خوف و دہشت نے ان کے حواس سن کردیئے تھے۔ انہیں خطرہ تھا کہ اگر وہ باہر گئے، تو کوئی چھپا حملہ آور ان کو مار ڈالے گا۔ جب پولیس آئی، تو وہ اس کی حفاظت ہی میں باہرنکلے۔ یوں ریٹائرڈ ڈاکٹر کے جذبہ ہمدردی نے نمازیوں کی قیمتی زندگیاں بچالیں۔

اسی طرح جب حملہ ہوا، تو بعض سفید فاموں نے اپنی گاڑیاں روک لیں۔ انہوں نے زخمی مسلمانوں کو اپنی گاڑیوں میں سوار کرکے انہیں ہسپتال پہنچایا۔ تب انہوں نے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کی۔یہ امکان موجود تھا کہ حملہ آور کے ساتھی انہیں بھی نشانہ بنا دیتے۔ لیکن وہ زخمی مسلمانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے رک گئے۔ ان کے اس طرز عمل نے ثابت کردیا کہ ہر قوم میں اچھے یا برے، دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ حقیقتاً ہر قوم میں اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مگر ’’ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ‘‘کے مصداق برے لوگوں کی سرگرمیاں ہی زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اچھے مردوزن کے کارناموں کو زیادہ بڑھا چڑھا کر نمایاں کیا جائے تاکہ دنیا میں نیکی کا بول بالا ہوسکے۔

مساجد پر حملے کے بعد کرائسٹ چرچ میں مقیم دو ہزار مسلمان شدید خوفزدہ ہوگئے اور سڑک پر نکلنے سے گھبرانے لگے۔ تبھی شہر و لنگڈن کی رہائشی، لیانسی نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا:

’’اگر ولنگڈن میں کوئی مسلم خاتون باہر نکلنے سے گھبرا رہی ہے، تو وہ پریشان مت ہو… میں اس کے ساتھ پیدل چلوں گی۔ اس کے ہمراہ بس سٹاپ پر انتظار کروں گی۔ بس میں ساتھ بیٹھوں گی۔ خریداری کرنے میں مدد کروں گی۔‘‘

اس پوسٹ کو نیٹ پر بہت شہرت ملی اور ہزارہا لوگوں نے اسے شیئر کیا۔

اس قسم کی سرگرمیوں نے عیاں کیا کہ اگر دنیائے مغرب میں تعصب کا شکار مردوزن مسلمانوں کو دق کرتے ہیں، تو مغربی معاشروں میں ان کے حمایتی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ضرورت پڑنے پر وہ مصیبت کا شکار مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

مسلم برادری سے اظہار یکجہتی

سانحے کے اگلے دن نیوزی لینڈ کا پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ نیوزی لینڈ اور دیگر مغربی ممالک میں مساجد، چرچوں اور سرکاری اداروں میں تعزیتی اور تقاریب دعائیہ منعقد ہوئیں۔ ان میں محبت کا پیغام پھیلایا گیا۔ لوگوں کو تلقین کی گئی کہ وہ برداشت اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ نیز مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والے اقدامات انجام دیں۔ آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں رات کے وقت اہم تاریخی عمارات پر روشنیوں کی مدد سے نیوزی لینڈ کا جھنڈا بنایا گیا۔ فرانس کے مشہور ایفل ٹاور میں رات کو اظہار افسوس کے لیے بتیاں گل کردی گئیں۔ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار یہود نے مسلم برادری سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنی عبادت گاہیں(صومعے)یوم سبت پر بند رکھیں۔

پچیس سالہ کارٹونسٹ، روبی جونز ویلنگڈن شہر کی رہائشی ہے۔ اس نے کرائسٹ چرچ واقعے سے متاثر ہوکر ایک یادگار کارٹون بنایا جس میں سفید فام لڑکی ایک مسلم لڑکی کو گلے لگا کر کہہ رہی ہے ’’یہ تمہارا گھر ہے۔ اور تمہیں یہاں محفوظ ہونا چاہیے۔‘‘

اس کارٹون کے متعلق روبی جونز کہتی ہے ’’میں ایک پیشہ ور کارٹونسٹ ہوں۔ جب مساجد میں دہشت گردی ہوئی تو یہ دیکھ کر میں صدمے سے گنگ رہ گئی۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ اس موقع پر میں متاثرین کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ تبھی میں یہ کارٹون بنانے کا خیال آیا۔ اس کے ذریعے میں مسلم ہم وطنوں کو تسلی دینا اور ان سے ہمدردی کرنا چاہتی تھی۔ گلے لگانا معمولی سا عمل ہے مگر یہ پیار، محبت، بھائی چارے اور گرم جوشی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔‘‘

سوشل میڈیا میں روبی کے بنائے کارٹون کو بہت شہرت ملی اور ہزارہا مردوزن نے اسے شیئر کیا۔ ان میں 2017ء کی مشہور فلم ’’تھور: رگنا روک(Thor: Ragnarok) کا ڈائریکٹر، تیکا وتیتی بھی شامل تھا۔ یہ نیوزی لینڈ کا باشندہ ہے۔ اس نے کارٹون شیئر کرتے ہوئے لکھا:۔

’’میرا دل ٹوٹ چکا۔ میرا وطن آنسو بہا رہا ہے اور میں بھی۔ مجھے یہ سننے سے نفرت ہے کہ یہ سانحہ میرے دیس میں رونما ہوا۔ میں سبھی متاثرین اور مسلم کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے خوبصورت جزائر کو اپنا دیس بنایا۔ ایسا کرنا ہمارا وتیرہ نہیں۔‘‘

آسٹریلیا میں ایک کمیونیکیشن سٹرٹیجکس، لیچ ڈرمنڈ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے مسلمانان عالم کے ساتھ منفراد انداز میں اظہار یکجہتی کیا۔ اس نے غروب آفتاب کے وقت اذان سنائی اور اپنی پوسٹ میں لکھا:’’میں آسٹریلیا میں رہتا ہوں۔ میں (دکھ و افسوس کے ان لمحوں میں) سبھی مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ان کا درد بٹاتے ہوئے میں گھر میں اذان سنا رہا ہوں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہوں۔‘‘

ٹویٹر کی یہ پوسٹ بھی دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں نے شیئر کی جن میں پاکستانی بھی شامل تھے۔ ایک پاکستانی صحافی عباس نصیر نے اسے شیئر کرتے ہوئے لکھا ’’اس نے مجھے دوبارہ رونے پر مجبور کردیا۔‘‘ ایک ٹی وی پروڈیوسر، عالیہ چغتائی نے لکھا ’’یہ دنیا مضحکہ خیز بن چکی۔ مگر اس قسم کے عمل عیاں کرتے ہیں کہ لوگوں میں ندرت و خوبصورتی ابھی باقی ہے۔ ‘‘جب لیچ ڈرمنڈ کو مسلمانوں میں زبردست پذیرائی ملی، تو اس نے دوسری پوسٹ میں لکھا: ’’سب کا بہت شکریہ۔ تاریکی کے باوجود مجھے جو محبت اور مثبت باتیں ملیں، انہوں نے مجھے مغلوب کردیا۔ مجھے یقین ہے، میرے چھوٹے سے عمل سے امن، محبت اور عزت کو پھیلنے میں مدد ملی۔‘‘

کرائسٹ چرچ کے لرزہ خیز واقعے نے ہالی وڈ کو بھی ہلا ڈالا۔ گائے اوسیرے مشہور گلوکارہ، میڈونا اور یوٹوبینڈ کا مینجر ہے۔ اس نے ویب سائٹ، گوفنڈمی میں مسلمان متاثرین کی امداد کے لیے فنڈز دینے کی اپیل کردی۔اس اپیل کے جواب میں ہالی وڈ کی مشہور شخصیات نے چندہ دیا۔ میڈونا نے دس ہزار ڈالر دیئے۔ ممتاز اداکار بن سٹلر اور ایشن کچر نے دو دو ہزار ڈالر دیئے۔ کامیڈی اداکار کرس راک کی طرف سے پانچ ہزار ڈالر آئے۔ یوں اوسیرے اپنی مہم کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ ڈالر جمع کرنے میں کامیاب رہا جو متاثرین کو نیوزی لینڈ بھجوا دیئے گئے۔

دنیائے مغرب کی ممتاز سیاسی، سماجی، علمی اور سپورٹس و فلم سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی بیان دے کر مسلمانان عالم سے اظہار تعزیت کیا۔ اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ کرائسٹ چرچ واقعہ بڑھتے اسلاموفوبیا کی وجہ سے رونما ہوا۔ سابق امریکی صدر، بارک اوباما نے لکھا: ’’میں اور میخائیل مسلم کمیونٹی سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام لوگوں کو ہر قسم کی نفرت کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘

امریکا کی ایمی ایوارڈ یافتہ اداکارہ، ڈیبرا میسنگ نے ٹویٹ کیا ’’مسلمانان عالم کے لیے… نیوزی لینڈ میں جو سانحہ رونما ہوا، اسے دیکھ کر میں صدمے اور غم سے نڈھال ہوں۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم سفید فام انتہا پسندی اور اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ کریں گے حتیٰ کہ ہم سب خوف و دہشت سے نجات پالیں۔‘‘

معاشی طور پر دنیا کے ایک طاقتور ملک، سنگاپور کے وزیراعظم لی ہسین لونگ نے اپنے بیان میں کہا ’’یہ حادثہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ عالمی امن کے لیے دہشت گردی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس دلدوز سانحے کے ذریعے کوشش کی گئی کہ انسانی معاشروں میں خوف اور نفرت پھیل سکے اور انسانوں کے مابین تقسیم جنم لے۔ ہم سب کو اس کا جواب اتحاد، محبت، رواداری اور برداشت سے دینا چاہیے۔‘‘

ترکی کے وزیراعظم طیباردغان نے بھی کرائسٹ چرچ واقعے کی مذمت کی۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ’’پچھلے کئی برس سے عالمی سطح پر مسلمانوں کا استحصال ہورہا ہے اور دنیا والے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بے پروائی سے سارا منظر دیکھتے رہے۔ پہلے انتہا پسند انفرادی طور پر مسلمانوں کو تنگ کرتے تھے، اب بات قتل عام تک پہنچ چکی۔ اگر مسلم دشمن قوتوں کے خلاف اقدامات نہیں کیے گئے، تو اس قسم کے مزید حادثات رونما ہوں گے۔‘‘

میری بیٹی کے نام پر نہیں

کرائسٹ چرچ شوٹنگ کے مرتکب، بدبخت برینٹن ٹیرنٹ نے ایک ویب سائٹ پر اپنا منشور پوسٹ کیا تھا۔ اس میں برینٹن نے لکھا کہ وہ سویڈش لڑکی، ایبا ایکرلنڈ کی موت کا بھی بدلہ لے رہا ہے۔ اس نے ایبا کا نام اپنی ایک گن پر بھی کندہ کیا۔

اپریل 2017ء میں ایک ازبک باشندے نے اسٹاک ہوم میں اپنا ٹرک راہ چلتے لوگوں پر چڑھا دیا تھا۔ اس افسوسناک واقعے میں گیارہ سالہ ایبا سمیت پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ سویڈش حکومت نے ازبک باشندے کی درخواست پناہ گزینی مسترد کردی تھی۔ اس پر اسے اتنا غصہ آیا کہ وہ قاتل اور خونی بن گیا۔

ایبا کی والدہ، جینت اکرلینڈ نے مگر بیان دیا کہ منشور میں اپنی بیٹی کا نام پڑھ کر میں دم بخود رہ گئی۔ میری بیٹی کسی سے نفرت نہیں کرتی تھی۔ وہ امن و محبت کی پرستار تھی جو ایک ناراض روح کے غصّے کی بھینٹ چڑھ گئی۔ میں سانحہ سے متاثر خاندانوں کے دکھ درد کو سمجھ سکتی ہوں اور ہر قسم کی نفرت پر لاکھ بار لعنت بھیجتی ہوں۔‘‘

برینٹن نے اپنے منشور میں اطالوی باشندے، لوکا تیرانی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور اپنی ایک بندوق پر اس کا نام جلی حروف سے لکھا۔ لوکا نے 2018ء میں نسلی تعصب کی بنیاد پر چھ افریقی مہاجرین کو گولیاں مار دی تھیں تاہم ان کی جانیں بچ گئیں۔ لوکا اس جرم کے باعث بارہ سال کی جیل کاٹ رہا ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد لوکا تیرانی کے وکیل، گیانوکا گیولیانی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کے موکل نے سانحے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وجہ یہ کہ لوکا اپنے کیے پر پچھتا رہا ہے اور اب وہ نفرت سے تائب ہوچکا۔

مسلمانانِ عالم کے نئے ہیرو

سفاک برنیٹن ٹینٹ نے کرائسٹ چرچ کی مساجد میں زیادہ سے زیادہ نمازیوں کو شہید کرنے کا پورا گرام بنا رکھا تھا۔ وہ چار جدید گنوں اور لا تعداد گولیوں سے مسلح تھا۔ یہی وجہ ہے وہ جیسے ہی النور مسجد پہنچا‘ بے دریخ فائرنگ کرنے لگا۔ موت کو قریب دیکھ کر بڑے بڑے جی داروں کا پتا پانی ہو جاتاہے۔ اس صورتحال میں غیر معمولی انسان ہی دلیری‘ بے غرضی اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کرائسٹ چرچ کی دونوں مساجد میں ایسے بہادر انسان ہی سامنے آئے۔

برنیٹن النور مسجد کے مرکزی کمرے میں داخل ہوا‘ تو گولیوں اور کراہوں کی آوازیں سن کر وہاں بیٹھے نمازی دائیں اور بائیں کونوں میں سمٹ گئے تھے۔ برنیٹن دیوانہ وار ان پر فائرنگ کر رہا تھا۔ جب وہ دائیں سمت متوجہ تھا‘ تو بائیں طرف موجود پچاس سالہ نعیم راشد قاتل کی جانب لپکے ۔ وہ اسے قابو کرنا چاہتے تھے لیکن برنیٹن نے انہیں دیکھ لیا اور ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔نعیم بعدازاں ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئے۔

نعیم راشد کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا۔ وہ ملکی حالات سے گھبرا کر اور اچھی زندگی کی تلاش میں نو سال پہلے نیوزی لینڈ چلے گئے تھے۔ وہاں کے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی خاطر پورے خاندان کو جد وجہد کرناپڑی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور زندگی آرام و آسائش سے گذرنے لگی۔ ان کے بڑے بیٹے‘ طلحہ کوکچھ عرصہ قبل ہی ملازمت ملی تھی۔ اب کچھ عرصے بعد اس کی شادی تھی۔ مگر النور مسجد میں وہ بھی اپنے ساتھیوں کی جانیں بچاتے ہوئے شہید ہو گیا۔ یوں پاکستانی باپ بیٹے نے دلیری و ایثار کا نیا باب رقم کر ڈالا۔

نعیم اور طلحہ کی بہادری کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ نے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران پاکستانی سپوت کا ذکر کیا۔ وزیراعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ نعیم راشد کو زبردست شجاعت کا مظاہر کرنے پر قومی ایوارڈ ملے گا۔ نعیم اپنے ساتھیوں کی جانیں تو نہ بچا سکے مگر نہتے ہونے کے باوجود انہوں نے جس دلیرانہ اندازمیں مسلح اور جنونی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہ اس کا ثبوت ہے کہ برائی کے مقابلے میں اچھے لوگ ہمیشہ آگے بڑھتے رہیں گے چاہے انہیں اپنی جان ہی کی قربانی دینا پڑے۔

النور مسجد میں بیالیس نہتے نمازی شہید کرنے کے بعد جنونی قاتل لن وڈ مسجد پہنچا۔ یہ چند میل دور تھی۔ لگتا ہے کہ حملہ آور قریب سے اس مسجد کی ’’ریکی‘‘ نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے وہ مسجد کا مرکزی دروازہ ڈھونڈنے میںناکام رہا۔برنیٹن پھر فٹ ہاتھ پر چلتے نمازیوں پر فائرنگ کرنے لگا۔ اس نے کھڑکیوں کے ذریعے بھی مسجد میں موجود نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ اس وقت افغانستان سے آیا عبدالعزیز بھی مسجد کے باہر کھڑا تھا۔ اندر اس کے چار بچے نماز جمعہ پڑھنے آئے ہوئے تھے۔

48 سالہ عبدالعزیز سمجھ گیا کہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والا کوئی انتہا پسند مسجد میں سبھی نمازیوں کو شہید کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اپنے بچوں اور ہم مذہبوں کی زندگیاں بچانے کا تہیہ کر لیا۔ اس نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ حملہ آور کو مسجد کے اندر داخل نہ ہونے دیں۔ چنانچہ وہ چیخ کر اور ہاتھ ہلا کر برنیٹن کو اپنی سمت متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

جب برینٹن بدستور کھڑکیوں کے ذریعے مسجد میں فائرنگ کرتا رہا‘ تو عبدالعزیز نے قریب ہی نصب کریڈٹ کارڈ مشین اکھاڑی اور حملہ آور کی جانب پھینک دی۔ اب برینٹن اس کی طرف متوجہ ہو کر عبدالعزیز پر گولیاں چلانے لگا ۔ اس نے پھرتی سے گاڑیوں کے پیچھے ہو کر اپنی جان بچائی۔

اس دوران برینٹن دوسری گن لینے اپنی کار کی جانب گیا۔ اس نے پہلی گن راہ میں پھینک دی تھی۔ عبدالعزیز تیزی سے چلی گن کی جانب لپکا اور اسے اٹھا کر لبلبی دبائی تاہم گولیاں ختم ہو چکی تھیں۔ادھر برینٹن دوسری گن سنبھال کر دوبارہ نمازیوں پر فائرنگ کرنے لگا۔ مگر تب تک سب نمازی کہیں نہ کہیں پناہ لے چکے تھے۔ اب برینٹن مسجد کے اندر جا کر ہی مزید نمازی شہید کر سکتا تھا۔ مگر بہادر عبدالعزیز اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔

جب برینٹن تیسری گن لینے گیا‘ تو عبدالعزیز نے اس سنہرے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی گن اس کے کار کے شیشے پر دے ماری۔ شیشہ چھناک سے ٹوٹ گیا۔ زور دار آواز نے برینٹن کو خوفزدہ کر دیا۔ وہ سمجھا کہ عبدالعزیز بھی کوئی اسلحہ رکھتا ہے ۔ لہٰذا اس نے افغان باشندے کو گالیاں بکیں اور پھر وہاں سے فرار ہو گیا۔

یوں بہادر عبدالعزیز یوں اپنی ذہانت اور دلیری کے ذریعے جنونی قاتل کو بھگانے اور مسجد میں موجود سینکڑوں نمازیوں کی جانیں بچانے میں کامیاب رہا۔ اگر خدانخواستہ برینٹن لن وڈ مسجد کے اندر پہنچ جاتا‘ تو النور مسجد کی طرح وہاں بھی کئی معصوم نمازی ظلم کا شکار ہو جاتے۔ عبدالعزیز کی حاضر دماغی نے لیکن صورتحال خراب ہونے سے بچا لی۔ یوں وہ مسلمانوں کا ہیرو بن گیا۔النور مسجد میں 42سالہ حسن آرا بھی اپنے خاوند فریدالدین کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔ فریدالدین کی طبیعت خراب تھی‘ اس لیے وہ وہیل چیئر پر مسجد آئے تھے۔ جب حملہ ہوا تو حسن آرا خواتین کے حصّے میں تھیں۔ گولیوں اور چیخوں کی آوازیں سن کر قدرتاً اسی حصے میں خوف و دہشت کا ماحول بن گیا۔

حسن آرا نے تاہم اپنے اوسان بحال رکھے۔ اس حصّے سے ایک دروازہ پچھلی سمت کھلتا تھا۔ حسن آرا نے اس دروازے کے ذریعے کئی خواتین اور بچوں کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ چنانچہ جب برینٹن دندناتا ہوا اس حصّے میں پہنچا‘ تو صرف حسن آرا اور چند دیگر بوڑھی خواتین ہی وہاں موجود تھیں۔ وحشی نے انہیں گولیاں مار کر شہید کر دیا۔

اسی طرح حسن آرا بھی مسلمانان عالم کی نئی ہیرو بن گئی ۔وہ چاہتی تو باآسانی دروازے سے نکل کر اپنی زندگی بچا سکتی تھیں۔ لیکن انہوں نے زبردست ایثار کا مظاہر کیا اور اپنی ساتھیوں اور بچوں کی جانیں بچانے کو ترجیح دی۔ یہ دراصل اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کا نتیجہ تھا۔ اسلام ہی مسلمانوں کو بے غرضی‘ دلیری اور دوسروں کے کام آنے کی تلقین کرتا ہے۔ کامل مومن مصیبت میں ہمیشہ دوسر وں کی زندگیاں اپنی جان پر مقدم رکھتا ہے۔ وہ پہلے دوسروں کو بچاتا پھر اپنا تحفظ کرتا ہے۔ اسی اصول پر گامزن رہتے ہوئے حسن آراء نے بھی اپنی جان ہم مذہبوں پر قربان کر دی۔

جس نے مسلمانوں کا دل موہ لیا
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ کرنے والے جنونی کو یقین تھا کہ بے گناہوں کو مارنے سے وہ بین الاقوامی شہرت حاصل کر لے گا۔مگر کاتب ِتقدیر نے تو کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔اس سانحے کے بعد نفرت کے ہرکارے نہیں محبت کی علامت،وزیراعظم نیوزی لینڈ،جیسندا آرڈرن نے عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پائی اور اپنے مثالی انداز ِحکمرانی کی وجہ سے مسلمانان ِعلم کی ہیرو بن گئیں۔

37سالہ جیسندا دنیا کی سے سے کم عمر حکمران ہیں۔سانحے کے بعد اکثر مغربی حکمرانوں کے برعکس انھوں نے اسے ’’دہشت گردی‘‘کا واقعہ قرار دیا۔برینٹن کوئی پاگل یا نفسیاتی مریض نہیں ’’دہشت گرد‘‘قرار پایا۔وزیراعظم نے پھر نیوزی لینڈ میں بسنے والے تقریباً پچاس ہزار مسلمانوں کی دلجوئی کرنے اور انھیں تسلی وتشفی دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔یوں وہ ایک ہمدرد وشفیق حکمران کی حیثیت سے نمایاں ہوئیں۔

جیسندا نے پھر مسلمانوں سے اظہار ِیکجہتی کی خاطر غیرمعمولی اقدامات کیے۔تقاریب میں حجاب اوڑھ کر شریک ہوئیں۔گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کیا۔پارلیمنٹ میں تلاوت قران پاک سے اذان نشر ہوئی۔یہ مہم بھی چلائی گئی کہ تعزیتی تقریبوں میں غیرمسلم خواتین حجاب لے کر شریک ہوں۔غرض جیسندا آرڈرن نے ہر ممکن وہ قدم اٹھایا جس سے انتہاپسندی اور قوم پسندی کے مبنی بر تعصب نظریات وخیالات کو ضعف پہنچے۔جبکہ رواداری،برداشت،محبت اور امن کے مثبت نظریات کا بول بالا ہو جائے۔

وزیراعظم نیوزی لینڈ زبانی دعوی کرنے تک محدود نہیں رہیں ،انھوں نے چند دن کے اندر اندر خودکار ہتھیاروں کی عوام میں فروخت پر پابندی لگا دی۔ان کے عملی اقدامات سے ملک بھر میں افہام وتفہیم اور بھائی چارے کی فضا نے جنم لیا۔نیوزی لینڈ کے غیرمسلموں نے اپنی رہنما کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے بڑی تعداد میں انتہا پسندی کے خلاف مظاہرے کیے اور مسلم قوم سے اظہار یک جہتی کیا۔غرض جیسندا نے بڑی حکمت وتدبر سے سنگین حالات میں نہ صرف اپنی ریاست میں امن برقرار رکھا ،نفرت کے شعلوں کو بھڑکنے نہیں دیا بلکہ دنیا کے سبھی حکمرانوں کو یہ نہایت اہم پیغام دیا کہ آفت ومصبیت کے سمے ایک حکمران کو کس قسم کے برتاؤ اور طرزعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

معاشی،مذہبی،تہذیبی ،معاشرتی اختلافات کے باعث آج دنیا میں نفرت ودشمنی کی آگ پھیل رہی ہے۔جیسندا آرڈرن جیسے ہمدرد،مخلص اور انسان دوست لیڈر ہی محبت و امن کے ٹھنڈے میٹھے اقدامات سے یہ بھڑکتی آگ بجھا سکتے ہیں۔

The post سانحہ کرائسٹ چرچ ہمیں سبق دے گیا نفرت کا مقابلہ محبت سے! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FNsp8F
via IFTTT

No comments:

Post a Comment