ہم ہر روز خبروں میں سنتے ہیں کہ کورونا وائرس سے پاکستان میں اتنے افراد انتقال کرگئے اور اتنے افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے چند دنوں سے مرنے والوں اور مثبت کیسز کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پڑوسی ملک انڈیا میں حالات انتہائی دگرگوں ہیں، جہاں وائرس سے مرنے والوں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر 3000 تک جا پہنچی ہے اور مثبت کیسز کی شرح 3 لاکھ سے تجاوز کرگئی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان یا انڈیا اس حالت تک پہنچے ہیں کہ اسپتالوں میں بستر بھرگئے ہیں، آکسیجن کی کمی ہوگئی ہے اور وینٹی لیٹرز نایاب ہوگئے ہیں؟ یقیناً ایسا ایک دن یا ایک ماہ میں نہیں ہوا۔
جنوبی ایشیا مجموعی طور پر ترقی پذیر ممالک کے خطے میں شمار ہوتا ہے جہاں تعلیم، صحت، انفرااسٹرکچر اور دیگر سہولیات کا فقدان ہے۔ تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے لوگ قانون پر کم عملدرآمد کرتے ہیں، سازشی تھیوریوں میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کورونا وائرس کی وبا کا آغاز ہوا تو ہماری پاکستانی اور بھارتی عوام کی اکثریت نے پہلے تو اس وائرس کے ہونے سے ہی صاف انکار کردیا۔ کچھ لوگ اس میں مزید آگے آئے اور انہوں اس تھیوری کو پروان چڑھایا کہ اس وائرس میں مبتلا لوگوں کو اسپتالوں میں مار دیا جاتا ہے اور عالمی ادارہ صحت اور ترقی یافتہ مملک اس کےلیے 5 لاکھ فی مریض دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے وبا کی علامات کو ہی عام بیماری قرار دیا۔
باوجود اس کے کہ بار بار حکومتوں کی جانب سے اعلان کیا جاتا رہا کہ عوام ماسک پہنیں، بار بار ہاتھ دھوئیں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔ مگر ان دونوں ممالک کی عوام کی اکثریت نے ان ہدایات کو نظر انداز کیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں یعنی پچھلے سال دونوں ممالک کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن لگایا اور انتہائی سختی سے ایس او پیز پر عمل کروایا جس کی وجہ سے وبا کا دائرہ کار محدود رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور کچھ معاشی مجبوریاں آڑے ہاتھوں آئیں اور دونوں ممالک نے لاک ڈاؤن ہٹادیا۔ دونوں جانب عوام میں ایس او پیز پر عمل کے حوالے سے اعلانات تو کیے جاتے رہے مگر حکومت کی جانب سے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد ختم کروا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام بھی واپس اپنی روٹین سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے اور ایس او پیز پر عمل نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔
نہلے پہ دہلا دونوں مملک میں سماجی تقریبات، سیاسی سرگرمیاں بھی اپنے معمول پر آگئیں۔ سفری پابندیاں نہ ہونے کے باعث بیرون ممالک سے لوگ بھی آتے رہے جن کی اسکریننگ یا قرنطنیہ کا نظام نہ ہونے کے باعث وائرس کی مختلف اقسام بھی یہاں ’’امپورٹ‘‘ ہوکر آنے لگیں۔ اور یوں کرتے کرتے یہ ایک بم بنا جو انڈیا میں پھٹ گیا اور پاکستان میں پھٹنے کے قریب ہے۔
اب ہوا یہ کہ دونوں ممالک کے عوام کی اکثریت غریب ہے، لہٰذا ان کا رخ سرکاری اسپتالوں کی طرف بڑھا۔ سرکاری اسپتال اس ساری صورتحال کےلیے تیار نہ تھے اور اگر تیار تھے بھی تو ایک حد تک۔ لہٰذا صحت کا نظام بری طرح سے متاثر ہوا اور سسٹم بالکل بیٹھ گیا۔ اور وہ ہوا جو اب ہم انڈیا میں دیکھ رہے ہیں اور میرے منہ میں خاک آنے والے دنوں میں شاید پاکستان میں ہوتا ہوا دیکھیں۔
لہٰذا دونوں ممالک کی حکومتوں سے گزارش ہے کہ عوام کی فلاح کےلیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے، جس میں مکمل لاک ڈاؤن کا آپشن بھی سرفہرست ہونا چاہیے۔ معیشت دوبارہ بھی کھڑی ہوسکتی ہے، پیسے دوبارہ بھی کمائے جا سکتے ہیں مگر ایک دفعہ جان گئی سو گئی۔ اسے واپس نہیں لایا جاسکے گا۔
جب کہ عوام سے گزارش ہے کہ وہ ماسک پہنیں، اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں، بھیڑ اور رش نہ کریں، غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں اور جو افراد 60 سال یا اس سے زائد ہیں وہ اپنی ویکسی نیشن کروائیں۔
اگر ہم صرف ان چند ہدایات پر عمل کرلیں تو اس وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے، ورنہ دوسری صورت میں حالات کنٹرول سے بھی باہر جاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post کورونا اور ہماری لاپرواہی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2S5ui9o
via IFTTT
No comments:
Post a Comment