Friday, April 30, 2021

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ ایکسپریس اردو

آج پاکستان میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح’’عالمی یومِ محنت‘‘ منایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں مختلف سیاسی جماعتیں، مزدور تنظیمیں اور محنت کشوں کے لیے حصّول انصاف کی عالمی جدوجہد سے تعلق رکھنے والی دیگر روشن خیال تنظیمیں اُن شہید مزدوروں کی یاد تازہ کریں گی کہ جنہوں نے اب سے 135سال قبل محنت کش طبقہ کو صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ’’8گھنٹہ کام،8 گھنٹہ آرام اور 8گھنٹہ Socializingکا نعرہ بلند کیا۔‘‘

اس راہِ حق میں آوازِ حق بلند کرنے کی پاداش میں سات مزدور راہ نماؤں کو تختہ دار پر کھینچا گیا، جسے انہوں نے ہنستے مسکراتے قبول کیا مگر طاقت ور طبقے کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا اور اس طرح وہ تاریخ میں رہتی دنیا تک امر ہوگئے۔

ہم یومِ مئی کی تاریخ کے حوالے سے اگر آج اپنے ملک کے حالات پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ 135 سال گزرنے کے باوجود مزدور طبقہ کی زندگیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد خاص طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے مختلف ادوار حکومت میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بڑے پیمانے پر قانون سازی کی گئی اور متعدد ادارے بھی قائم کیے گئے۔

اس حوالے سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا دور ایک سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں مزدور طبقہ کی تعداد آبادی کے لحاظ سے تقریباً سات کروڑ بتائی جاتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی پارلیمان اور پالیسی ساز اداروں میں اُن کی کوئی حقیقی نمائندگی موجود نہیں، اتنی بڑی تعداد میں موجود ہونے کے باوجود کیوںکہ یہ طبقہ غیرمنظم ہے لہٰذا اُس کی کہیں کوئی مؤثر آواز سُنائی نہیں دیتی۔

مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے قوانین کا اطلاق بالخصوص پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں شاد و نادر ہی نظر آتا ہے۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی کے قانون پر عمل درآمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 80% فی صد ادارے اس پر عمل ہی نہیں کرتے اور مزدور 17500/-روپیے ماہانہ کی بجائے 10سے 12ہزار روپئے ماہانہ پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

قانون کے تحت کسی بھی کارکن سے کسی بھی کارخانہ، دفتر یا انڈسٹری میں 8گھنٹہ یومیہ سے زائد بغیر اوور ٹائم کی ادائیگی کام نہیں لیا جاسکتا لیکن حقیقی صورت حال یہ ہے کہ مزدور 12,12گھنٹہ یومیہ کام کرنے پر مجبور ہیں اور اُن کی کوئی سنوائی نہیں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں نے غلامی کے نئے نظام کو نافذ کردیا ہے اور کوئی پُرسانِ حال نہیں۔

عام طور پر صنعت کار اب اپنے اداروں میں ٹریڈ یونینز قائم ہونے ہی نہیں دیتے اور اس طرح بتایا جاتا ہے کہ 80% فی صد کارخانوں، فیکٹریز، دفاتر، کمرشل بینکس اور دیگر پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں ٹریڈ یونینز ناپید ہوچکی ہیں جب کہ 20% فی صد اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں اندر کی یونینز ہیں مطلب کہ پاکٹ یونین جو کہ انتظامیہ کے جیبوں میں پڑی ہوتی ہیں۔

ہم کوشش کرتے ہیں کہ مختلف صنعتوں میں محنت کشوں کے حالاتِ کار کا جائزہ لیں تاکہ ملازمت پیشہ طبقہ کو درپیش مجموعی صورت حال اور ٹریڈ یونین تحریک کی موجودہ شکل سامنے آسکے۔ بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونینز کے موجود حالات کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں کسی ایک ادارہ کو مثال کے طور پر لینا ہوگا۔ اس کے لیے بہتر ہوگا کہ ہم ملک کے سب سے بڑے اور قدیم بینک حبیب بنک کے حالات کو تجزیہ کی خاطر بطور مثال

لے لیں۔ پرائیویٹائزیشن سے قبل اور پہلی نام نہاد گولڈن ہینڈ شیک اسکیم آنے سے قبل ادارے میں ملازمین کی کُل تعداد جن میں افسران بھی شامل تھے تقریباً32 ہزار تھی جن میں کلریکل کیڈر کی تعداد تقریباً اٹھا رہ ہزار تھی۔ آج جب کہ حبیب بینک کی پرائیویٹائزیشن کو اٹھارہ سال مکمل ہوچکے ہیں تو صورت حال یہ ہے کہ ادارے میں اب  کلریکل کیڈر کی کل تعداد 1200رہ گئی ہے جو کہ ملازمین کی کل تعداد کا 10فی صد سے بھی کم ہے۔ حبیب بنک نے پچھلے اٹھارہ سالوں کے دوران سے ٹریڈ یونین کیڈر میں بھرتیوں پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے جب کہ بنک انتظامیہ نے یہ بھی کیا کہ نان کلریکل کیڈر کے ہزاروں افراد کو 2006؁ میں آؤٹ سورس کرکے اُنہیں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم کے تحت بینک ملازمت سے فارغ کردیا۔

دوسری جانب گذشتہ تین سال کے دوران حبیب بینک کی انتظامیہ نے سی بی اے کو گذشتہ 45 سال سے حاصل تمام تر سہولیات سے محروم کردیا ہے۔ سی بی اے کے تمام دفاتر بند کردیے گئے، دفاتر کو دی گئی تمام تر سہولیات واپس چھین لی گئیں، سی بی اے کے تمام عہدے داران پر پابندی عائد کردی گئی کہ وہ آفس آوورز کے دوران ملازمین کو درپیش مسائل کے حل کے سلسلے میں انتظامیہ کے افسران سے کسی قسم کا رابطہ قائم نہ کریں بلکہ اس کے برعکس بینک کی جانب سے تفویض کردہ فرائض ادا کریں اور اس طرح پورے پاکستان میں وہ چند عہدے داران کہ جنہیں خود انتظامیہ نے یہ سہولت دی تھی کہ وہ ملازمین کے مسائل کے سلسلہ میں اعلیٰ افسران سے رابطہ کرسکتے ہیں۔

اس سہولت کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ادارے میں صورت حال یہ ہے کہ سی بی اے یونین تو موجود ہے مگر اُسے انتظامیہ کی جانب سے قوانین کے غلط اور من مانے اطلاق کے ذریعہ مکمل طور پر غیر فعال اور اس طرح ٹریڈ یونین تحریک کا گلا مکمل طور پر گھونٹ دیا گیا ہے۔ سرکاری بینکوں کو چھوڑ کر دیگر تمام پرائیویٹ کمرشل بینکس میں کم و بیش یہی صورت حال پائی جاتی ہے اور اس انڈسٹری میں ٹریڈ یونین تحریک کو انتظامیہ نے اپنی بھرپور طاقت اور جارحانہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اسے ماضی کا قصہِ پارینہ بنادیا ہے۔

مزدور طبقہ آج بھی اس ملک میں بحیثیت مجموعی بدترین حالات سے تو دو چار ہے ہی لیکن بعض شعبوں میں صورت حال انتہائی دگر گوں ہے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالاتِ کار اور اُن کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اخبارات میں آئے دن خبریں ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہ درجنوں مزدور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے کسی کان میں داخل ہوئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ اگر اعدادوشمار ایمان داری سے اکھٹے کیے جائیں تو ہر سال ہمارے ملک میں سیکڑوں مزدور اپنی زندگیوں سے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر آگ اور حبس کی نظر ہوجاتے ہیں۔ ان حادثات کا سلسلہ ایسا ہے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئلے کے کانوں کے ٹھیکے دار اور حکومتی مشینری اس ضمن میں کیا کردار ادا کر ررہی ہے؟

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اس سلسلہ میں پہل قدمی کرتے ہوئے “Occupational Safety And Health”کا قانون کو وضع کیا ہے لیکن یہاں بھی اصل مسئلہ اس کے اطلاق کا ہے کہ اس کے بارے میں مثبت اطلاعات نہیں ملتیں۔ کوئلے کے کان کنوں، محنت کشوں کی زندگیاں ہی ہمارے معاشرے میں عذاب سے نہیں گزر رہیں بلکہ دیگر شعبہ جات میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے ماہی گیروں کی زندگیوں اور حالات کار کا جائزہ لیں تو وہا ں بھی دکھ اور غم کے سوا مشکل سے ہی کچھ ملتا ہے۔

سمندر کی لہروں سے لڑنے والوں اور لاکھوں انسانوں کے لیے بہترین غذا کے حصول کے لیے اپنی زندگی سے کھیل جانے والوں کی خود اپنی زندگیاں، زندگی کی حرارت سے محروم ہیں۔ پاکستان میں دیہاڑی دار مزدوروں کی تعداد لاکھوں سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

اس معاشرے نے اُن کے لیے کیا کیا؟ طبی سہولیات، روزگار کا تحفظ، تین وقت کی روٹی کی ضمانت، اُن کے زیرکفالت بچوں کا مستقبل یہ سب اُن کے لیے خواب و خیال ہیں۔ دوسری جانب ہم مزدوروں کے ویلفیئر کے لیے قائم اداروں جن میں ای و بی آئی، سوشل سیکیوریٹی ورکرز ویلفیئر بورڈز اور بحیثیت مجموعی لیبر ڈیپارٹمنٹس کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ان اداروں کی صورت حال بھی دیگر سرکاری اداروںسے بہتر نہیں ہے۔

ملک میں محنت کش طبقے کی تعداد کو اگر سات کروڑ تسلیم کرلیا جائے تو ہم مزید مایوسیوں سے اس لیے بھی دوچار ہوجائیں گے کہ کارکنوں کی ویلفیئر کے لیے قائم کسی بھی ادارے میں چند لاکھ سے زائد کارکن رجسٹر نہیں اور اس طرح بہ آسانی کہا جاسکتا ہے کہ نوے فی صد محنت کش اپنے قانونی حقوق اور سہولیات سے محروم ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ قائداعظم کے تصورپاکستان کے مطابق اس ملک کو ایک فلاحی ریاست ہونا چاہیے جو کہ بدقسمتی سے ابھی تک بن نہیں پائی۔ اس سلسلے میں ہم قائد اعظم کی ایک تقریر کے اقتباس کو پیش کریں تو ہم زیادہ بہتر انداز میں بانی پاکستان کی سوچ کو سمجھ سکیں گے۔

24 مارچ 1943میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقد ہ دہلی سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر محمدعلی جنا ح نے کہا کہ’’میں ضروری سمجھتا ہوں کہ زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں کہ اس طبقے کی خوش حالی کی قیمت عوام نے ادا کی ہے اس کا سہرا جس نظام کے سر ہے وہ انتہائی ظالمانہ اور شرانگیز ہے اور اس نے اپنے پروردہ عناصر کو اس حد تک خود غرض بنادیا ہے کہ انہیں دلیل سے قائل نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی مقصد برآوری کے لیے عوام کا استحصال کرنے کی خوئے بد ان کے خون میں رچ گئی ہے۔

وہ اسلامی احکام کو بھول چکے ہیں۔ حرص و ہوس نے سرمایہ داروں کو اتنا اندھا کردیا ہے کہ وہ جلب منفعت کی خاطر دشمن کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ آج یہ سچ ہے کہ ہم اقتدار کی گدی پر متمکن نہیں۔ آپ شہر سے باہر کسی جانب چلے جائیے۔ میں نے دیہات میں جاکر خود دیکھا ہے کہ ہمارے عوام میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دن میں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا کیا آپ اسے تہذیب اور ترقی کہیں گے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے؟

کیا آپ نے سوچا کہ کروڑوں لوگوں کا استحصال کیا گیا ہے اور اب ان کے لیے دن میں ایک بار کھانا حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اگر پاکستان کا حصول اس صورت حال میں تبدیلی نہیں لاسکتا تو پھر اسے حاصل نہ کرنا ہی بہتر سمجھتا ہوں اگر وہ (سرمایہ دار) عقل مند ہیں تو وہ نئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں گے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر خُدا اُن کے حال پر رحم کرے، ہم ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔‘‘

قائداعظم کے یہ ارشادات ہمارے معاشرے اور ریاست کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوسکتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں غربت، افلاس، بھوک، ننگ اور بے روزگاری جیٹ اسپیڈ کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ تمام جمہوری سیاسی جماعتوں کے لیے مستقبل کے حالات ایک بڑے چیلینج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عوام کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں ملک کی اقتصادی و معاشی صورت حال ناگفتہ بہ ہے مگر ہمیں مایوسی سے دو چار ہونے کے بجائے ان حالات کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

مزدوروں، کسانوں اور دیگر کچلے اور پسے ہوئے طبقات کو اپنے ساتھ جوڑ کر اس بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔ مزدور تنظیموں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کم سے کم نکات کی بنیادوں پر متحد اور منظم ہونے کی جدوجہد کو جاری رکھیں اور سیاست کے قومی دھارے میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کریں تاکہ محنت کشوں کے مسائل ختم نہیں تو کم سے کم کیے جاسکیں۔

The post کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2RcSruj
via IFTTT

No comments:

Post a Comment