غزل
دلِ بادشاہ کی خیر ہو
ترے خیر خواہ کی خیر ہو
وہ غزل نہیں مری آہ تھی
تری واہ واہ کی خیر ہو
یہی خاکسار کی ہے دعا
ترے عز و جاہ کی خیر ہو
مرا جرم ہے مرا عشق گر
مرے اس گناہ کی خیر ہو
نئے درد سے ہوا آشنا
غمِ رسم و راہ کی خیر ہو
دمِ ہجر کے مرے ہمنوا
سبھی مہر و ماہ کی خیر ہو
دلِ نارسا کی ہے آرزو
مرے کج کلاہ کی خیر ہو
(امر روحانی۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
اندھیرا تھا اجالا ہو گیا ہے
میرا گھر بھی نرالا ہو گیا ہے
ہمیشہ جو رہا بدخواہ میرا
اسی کا ظرف اعلیٰ ہو گیا ہے
سخن کرنے لگا ہے رو برو اب
یہ دل بھی کیا جیالا ہو گیا ہے
ضرورت سے زیادہ ہنس رہے ہو
غموں کا کیا ازالہ ہو گیا ہے
ہوئے جنگل بھی اب تو شہر اپنے
گلِ صحرا بھی لالہ ہو گیا ہے
یہاں اب عظمتِ انسان عارفؔ
کتابوں کا حوالہ ہو گیا ہے
(محمد حسین عارف۔جھنگ)
۔۔۔
غزل
آنکھیں کھول کے دیکھ زمانے! آئی ہوں
میں تیری توقیر بڑھانے آئی ہوں
اور مجھے کوئی کام نہیں تھا دنیا میں
اپنے کچھ اشعار سنانے آئی ہوں
تاریکی سے ہاتھ ملانے والے سن
میں اک اور چراغ جلانے آئی ہوں
بیٹی بھی کچھ کم تو نہیں ہے بیٹے سے
لوگوں کو یہ بات بتانے آئی ہوں
تیرا ہاتھ پکڑ کے چلنا کیوں سیکھوں
اپنا رستہ آپ بنانے آئی ہوں
جس کو عشق کے معنی بھی نہیں آتے ہیں
اس پتھر کو عشق سکھانے آئی ہوں
(ناہیداختربلوچ۔ڈیرہ اسمٰعیل خان)
۔۔۔
غزل
گو تہِ حلقۂ زنجیر نہیں ہوتے تھے
تم مگر صاحبِ شمشیر نہیں ہوتے تھے
اس زمانے میں ترا رنج کسے جانتا تھا
جس زمانے میں تقی میر نہیں ہوتے تھے
خواب میں رکھ دیا کرتے تھے گھروں کی بنیاد
اور وہ گھر کبھی تعمیر نہیں ہوتے تھے
میں بہت سوچ کے دشمن پہ کماں کھینچتا تھا
میرے ترکش میں بہت تیر نہیں ہوتے تھے
تُو بھی اس دور میں دیوار نہیں ہوتا تھا
ہم بھی اس دور میں تصویر نہیں ہوتے تھے
تُو کہ اس شخص کی ہر بات بتاتا تھا ہمیں
ہم کہ اس بات سے دل گیر نہیں ہوتے تھے
(احمد اویس۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
مضبوط جال پہلے شکاری بناتے ہیں
پھر ہاتھ کاٹتے ہیں بھکاری بناتے ہیں
لہجہ بھی کوئی خاص نہیں لفظ بے طلسم
کیوں اس میں سنگ ڈال کے بھاری بناتے ہیں
سو سو طرح کے زاویے سو سو طرح کے رنگ
لطف ِ جمال ِ آئینہ داری بناتے ہیں
بُنتے ہیں گہری چال یہ کوفہ صفت وجود
ہر ضرب پہلے وار سے کاری بناتے ہیں
پلکوں کے ساحلوں پہ سجاتے ہیں کچھ نجوم
آنچل کے پلوؤں پہ کناری بناتے ہیں
جلووں کی تیز نوک چبھوتے ہیں دل میں کیوں
لہجے کی دھار کاٹ کے آری بناتے ہیں
تار ِ جمال ِ یار سے کاجل نگاہ میں
خوابوں کے باغ بادِ بہاری بناتے ہیں
(حنا عنبرین۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
پھول خوشبو سے کب ہے جدا دوستا
اس لئے تُو مراا ہے مِرا دوستا
ساری خلقت نے سن کر کہا مرحبا
تجھ تلک کیوں نہ پہنچی صدا دوستا
آج انجان ہے، غیر مانوس ہے
تو تو میرا تھا رمز آشنا دوستا
دو جہانوں کی وسعت مرا المیہ
اندروں ہے مسلسل خلا دوستا
رائیگانی کی بھٹی میں جا جھونک دے
ساعتِ ہجر کو جا جلا دوستا
آنکھ اگنی ہے اور سینہ انگار ہے
تیرا دل ہے یا آتش کدہ دوستا
(سارہ خان۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
کسی کے واسطے راتوں کو جاگتا ہوگا
بچھڑ کے مجھ سے وہ میری طرح ہوا ہوگا
اسی لئے تو نہیں کوئی رابطہ ہم سے
ہمارے بعد اسے دوسرا ملا ہوگا
کسی کی نظروں میں وقعت نہیں ہماری تو کیا
ہمارے بارے میں کوئی تو سوچتا ہوگا
وہ بے وفائی کا الزام ڈال کر مجھ پر
بہت سلیقے سے پھر جھوٹ بولتا ہوگا
یقیں ہے اس کو مری یاد آ رہی ہوگی
نکال کر مری تصویر دیکھتا ہوگا
غم جہان سے اکتا کے بارہا صادقؔ
وہ روتے روتے کسی کے گلے لگا ہوگا
(محمد امین صادق۔ اوگی، مانسہرہ)
۔۔۔
غزل
ہزار ترکِ تعلق میں فائدے ہوں گے
مگر جو لوگ ترا حسن پوجتے ہوں گے
یہ دیکھنے کے لیے کوئی دیکھتا تو نہیں
ہم اس طرف بھی بہانے سے دیکھتے ہوں گے
صدائیں یوں ہی نہیں بے اثر ہوئیں خود پر
وہ اپنے آپ سے آگے نکل گئے ہوں گے
ٹھہر گئے تو سمجھنا زوالِ حسن ہے یہ
رواں دواں تری جانب جو قافلے ہوں گے
بروئے کار نہیں تجربے گذشتہ کے
نیا ہے پیار نئے اس کے قاعدے ہوں گے
وہ عنبرین ؔاب ان سے ہی دم کراتا ہے
گناہگار جو پہلے پہل لگے ہوں گے
(عنبرین خان۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
فراقِ یار نے کررکھا ہے نڈھال مجھے
میں مبتلائے غمِ یار ہوں،سنبھال مجھے
ترے جمال سے میرے دیار روشن ہیں
ترے کمال سے حاصل ہوا کمال مجھے
میں اپنے حلقۂ احباب میں تلاشتا ہوں
تمہاری ڈھونڈے سے ملتی نہیں مثال مجھے
عروج پایا ہوا ہے تری محبت سے
تمہارے ہجر سے آجائے گا زوال مجھے
تمہارا قرب بہاروں کی مثل شاد کرے
ترا کلام ہے خوشبو،کرے نہال مجھے
(سید فرخ رضا ترمذی۔کبیر والا)
۔۔۔
غزل
اک بے دلی کے ساتھ جیے جا رہا ہوں میں
یہ زہر زندگی کا پیے جا رہا ہوں میں
شکوے گِلے سبھی کے سہے جاتا ہوں میاں
اور خود کو بس دلاسے دیے جا رہا ہوں میں
پھر بات کا تماشا نہ بن جائے اس لئے
خاموشی سے لبوں کو سیے جا رہا ہوں میں
اشعار کہہ رہا ہوں غموں سے اٹے ہوئے
اور خود سے بات چیت کیے جا رہا ہوں میں
مل جائے گی نجات کسی روز درد سے
یہ آس رکھ کے سانس لیے جا رہا ہوں میں
(امیر حمزہ سلفی۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
کون جانے حصار مٹی کا
آسماں ہے غبار مٹی کا
کوئی دنیا نکال مٹی سے
کوئی پردہ اُتار مٹی کا
کاروبارِ حیات پوچھتے ہو!
چل رہا ہے اُدھار مٹی کا
اور مٹی کی کیا فضیلت ہو
میں بھی مٹی کا یار مٹی کا
آپ جس کو پہاڑ کہتے ہیں
ہے ذرا سا اُبھار مٹی کا
ماں کا قرضہ اُتارنا ہے تجھے؟
پہلے قرضہ اُتار مٹی کا
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
زیست میں میری تیرے غم گزرے
تھوڑے بادل یہاں پہ تھم گزرے
اُس جگہ سے مجھے عقیدت ہے
جس جگہ سے ترے قدم گزرے
صبر آیا نہیں ذرا مجھ کو
حوصلہ دے کے خود کو ہم گزرے
جا رہے ہیں یہ جو بری ہو کر
کر کے ہم پر بہت ستم گزرے
رہ لیں تیرے بغیر ہم سوناؔ
کھا کے کتنی بڑی قسم گزرے
(سونا ملک۔ نواب شاہ)
۔۔۔
غزل
ہم نے ایک ایسے گلِ تازہ کو چاہا، آہا
اوس نے جس کی نفاست کو سراہا، آہا
ایک عرصہ مرے زخموں پہ نمک پاشی کی
لطف آیا وہ ستم گر جو کراہا آہا
بن سنور کر جو تم آؤ تو ہو چرچا تیرا
ہر کوئی بزم میں بولے یہی آہا ،آہا
پہلے بے جوڑ لگا اس سے تعلق احمدؔ
وہ مگر رشتے کو کچھ ایسے نباہا آہا
(احمد محسود۔ڈیرہ اسماعیل خان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2UyFzA8
via IFTTT
No comments:
Post a Comment