کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم نے عروج سے زوال کا سفر بہت تیزی سے طے کیا ہے،2019میں ٹائٹل جیتنے کے بعد توقع تھی کہ وہ مزید ترقی ملے گی مگر اگلے برس6 ٹیموں میں پانچواں نمبر رہا، اب تو حد ہی ہو گئی اور آخری پوزیشن پر رہنا پڑا،10میں سے صرف 2 میچز ہی جیتے،اس کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے اہم متوازن کمبی نیشن نہ بن پانا نظر آتی ہے۔
اگرآپ اسکواڈ دیکھیں تومحسوس ہوگا کہ وہ دیگر ٹیموں کے مقابلے میں کمزور تھا، چند میچز کیلیے بڑے ناموں سے معاہدہ اور ایمرجنگ کیٹیگری میں بعض کرکٹرز کا انتخاب بھی غلط فیصلہ ثابت ہوا،پی ایس ایل4 کی فتح میں احمد شہزاد اورعمر اکمل کا نمایاں کردار رہا تھا، اب دونوں خود بھولی بسری داستان بن چکے، شین واٹسن ریٹائر ہو گئے،رلی روسو، سہیل تنویر اور فواد احمد ٹیم میں برقرار نہ رہ سکے، اس بار کرس گیل سے صرف 2 میچز کا معاہدہ ہوا، کہنے کو تو یہ بات ہو گئی کہ اتنا بڑا بیٹسمین ٹیم سے منسلک رہا لیکن اس کاکوئٹہ کو کیا فائدہ ہوا؟دونوں میچز میں شکست ہی ہوئی۔
گیل نے ایک ففٹی ضرور بنائی لیکن اگر وہ زیادہ میچز کیلیے آتے تو بات بنتی، ڈیل اسٹین اپنے کیریئر کا سنہری دور گذار چکے،انھوں نے صرف3 ہی میچز کھیلے اور کوئی تاثر نہ چھوڑ سکے،فاف ڈوپلیسی آئی ایل میں رنز کے ڈھیر لگاتے ہیں مگر پی ایس ایل میں ان کی بیٹنگ کو نجانے کیا ہوجاتا ہے،رسل بھی کامیاب نہ رہے،غیرملکی کرکٹرز میں دیگر انتخاب بھی کوئی اتنے اچھے نہیں تھے،پک آرڈر اور دستیاب کھلاڑیوں میں مناسب آپشنز کی کمی بھی مسئلہ بنی،اس کا ٹیم کو بیحد نقصان ہوا۔
گلیڈی ایٹرز کو لڑائی کیلیے ہتھیار ہی میسر نہ تھے، ماضی کی فتوحات میں کوچ معین خان اور کپتان سرفراز احمد کے مثالی تال میل کا اہم کردار رہا، معین نے سینئر وکٹ کیپر کوکیریئر میں ہمیشہ بہت سپورٹ کیا اور ہر مشکل میں ڈھال بن کر سامنے کھڑے نظر آئے، معاملہ تب خراب ہونا شروع ہوا جب انھوں نے اپنے بیٹے اعظم خان کو ٹیم میں انٹری دلائی،دونوں ہی وکٹ کیپرز ہیں،اعظم بہت محنت کر رہے ہیں۔
گوکہ انھوں نے کچھ وزن کم کیا مگر اب بھی انٹرنیشنل کرکٹر کے لحاظ سے وہ زائد الوزن ہی ہیں، اس وجہ سے فیلڈنگ میں مشکل ہوتی ہے، مگر سرفراز کی موجودگی میں وہ وکٹ کیپنگ بھی نہیں کر سکتے،کوچ نے مرضی کے برخلاف پہلے ہی میچ میں کپتان سے اوپننگ کرا دی اور وہ بڑی اننگز بھی نہ کھیل پائے،اس سے ظاہر ہوگیا کہ معاملات اتنے اچھے نہیں ہیں،بعد میں سرفراز نے ردھم پکڑا اور ایونٹ میں بہتر بیٹنگ کی۔
ٹورنامنٹ کے ٹاپ 10بیٹسمینوں میں 321 رنز کے ساتھ وہ چھٹے نمبر پر رہے، ٹیم کا کوئی دوسرا کھلاڑی200 رنز بھی نہیں بنا سکا، ٹاپ18میں کوئی دوسرا بیٹسمین موجود نہیں، اسی طرح نمایاں 14بولرز میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی کوئٹہ کا کھلاڑی نہیں ملتا، سرفراز کو کھلاڑیوں سے اتنی سپورٹ نہ ملی جس کی وجہ سے کئی بار وہ اپنے نیچرل انداز سے نہیں کھیل پائے۔
اعظم خان کی بڑی ہائپ بنائی گئی مگر وہ 10 میچز میں 17 کی اوسط سے 174رنز ہی بنا سکے،ان کی میچ وننگ اننگز کے شائقین منتظر ہی رہے،اعظم کے ٹیلنٹ پر کسی کو شک نہیں مگر ایسے مواقع گنوانا نہیں چاہیئں، نوجوان صائم ایوب کو نام کمانے کا اس سے اچھا چانس کیا ملتا مگر وہ 7 میچز میں 16 کی اوسط سے 114 رنزہی بنا سکے۔
عثمان خان نے ملتان سلطانزکے خلاف اپنے پہلے میچ میں 81رنز کی عمدہ اننگز سے ٹیم کو فتح دلائی مگر پھر کچھ نہ کر سکے،پورے ٹورنامنٹ میں کوئٹہ کا کوئی بولر 10 وکٹیں بھی نہ لے سکا ایسی ٹیم کیسے میچ جیتتی؟ محمد نواز اور محمد حسنین قومی ٹیم میں بھی شامل ہیں مگر دونوں کی کارکردگی مایوس کن رہی،قومی ٹیسٹ اسکواڈ کے رکن زاہد محمود بھی کامیابی کو ترس گئے۔
کراچی میں صرف ایک فتح حاصل کرنے والی ٹیم سے ابوظبی میں بہتر کارکردگی کی توقع تھی مگرآب وہوا بدلنے سے بھی تقدیر نہ بدلی، واحد جیت عثمان شنواری اور خرم شہزاد کی بولنگ نے دلائی مگر اس میں بھی حریف لاہور قلندرز کی اپنی غلطیوں کا اہم کردار تھا، مسلسل 2 برس انتہائی غیرمعیاری کارکردگی ٹیم اونر ندیم عمر کیلیے بھی لمحہ فکریہ ہے، سرفراز بچپن سے ان کے ساتھ ہیں،معین خان سے بھی پرانی دوستی ہے،وہ شاید ہی انھیں تبدیل کریں مگر اب ان دونوں کا ساتھ چلناآسان نہیں لگتا۔
ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ اعظم خان کسی دوسری فرنچائز کو جوائن کر لیں اس سے نہ صرف ان پر والد کا پریشر کم ہوگا بلکہ کوچ اور کپتان کو بھی ورکنگ ریلیشن شپ بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ سرفراز کواپنی روایتی جارحیت میں بھی تھوڑی کمی لانا ہوگی۔
بعض اوقات ڈانٹ ڈپٹ کا کھلاڑی بْرا بھی مان جاتے ہیں جس کے بعد ان سے کام لینا آسان نہیں ہوتا، غصہ ضرور کریں مگر ایک حد بنا لیں، دیگر کپتان بھی تو اپنے اوپر کنٹرول رکھتے ہیں سرفراز کو بھی ایسا کرنا ہوگا،اگلے ایڈیشن کیلیے متوازن اسکواڈ کی تشکیل بھی بیحد ضروری ہے، کوئی کھلاڑی برسوں سے آپ کے ساتھ ہے تو ضروری نہیں کہ ہمیشہ رہے گا، اگر اب ماضی جیسا کارآمد نہیں تو اسے تبدیل کر لیں، غیرملکی کرکٹرز کے انتخاب میں نام نہیں زیادہ میچز کیلیے دستیابی اور کارکردگی دیکھیں۔
ماضی میں کئی اچھے کھلاڑی اسکواڈ کا حصہ بنے مگر کوئٹہ نے انھیں بعد میں خود ہی ریلیز کر دیا، آئندہ ڈرافٹ میں کسے برقرار رکھنا اور کسے ریلیز کرنا ہے یہ فیصلہ بھی بیحد سوچ سمجھ کر کریں،بطور ایمرجنگ کرکٹر کسی بیٹسمین کو لینا زیادہ اچھا نہیں رہتا، بولر کو لیں گے تو فائدہ ہوگا جیسے ملتان سلطانز کے شاہنواز دھانی ایونٹ کے بہترین بولر بن گئے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی فرنچائز شائقین میں بیحد مقبول ہے، ندیم عمر، معین خان، سرفراز احمد اورمنیجر اعظم خان نے اسے کامیاب بھی بنایا مگر بدقسمتی سے اب کارکردگی کا معیار بہتر نہ رہا،ہر ٹیم پر بْرا وقت آتا ہے مگر اس سے باہر نکلنا درست فیصلوں سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے بھی جو غلطیاں کیں انھیں نہ دہرایا تو آئندہ سال پھر ٹیم فتوحات کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے، امید ہے ایسا ہی ہوگا، نہ صرف فرنچائز بلکہ پی ایس ایل کیلیے بھی یہ بیحد ضروری ہے تاکہ شائقین کو مقابلوں سے بھرپور کرکٹ دیکھنے کو مل سکے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
The post بغیرہتھیاروں کے گلیڈی ایٹرزکیسے لڑتے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hiU3Mi
via IFTTT
No comments:
Post a Comment