Sunday, June 27, 2021

حرام مغز میں پھیلنے والا پیوند جو کمر کے درد کو دور کرسکتا ہے ایکسپریس اردو

کیمبرج: کمرکے دیرینہ اور شدید درد کے شکار افراد کی زندگی بہت مشکل ہوجاتی ہے لیکن اب ریڑھ کی ہڈی میں لگائے جانے والے ایک پیوند کی بدولت اس کمرکا ناقابلِ برداشت درد کو بہت حد تک ختم کیا جاسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیمبرج سےوابستہ ڈیمیانو بیرن کہتی ہیں کہ حرام مغز اور ریڑھ کی ہڈی کے اعصاب میں برقی تحریک دے کر درد کم کرنے کا تصور ایک عرصے سے موجود ہے۔ لیکن کچھ عملی مسائل کی وجہ سے اس کا استعمال ممکن نہ تھا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ اس میں کم سے کم 32 الیکٹروڈ (برقیرے) لگائے جائیں۔

اس سے قبل ایک 12 ملی میٹر چوڑا ایک پیوند(امپلانٹ) بنایا گیا تھا ۔ لیکن اس کے لیے بہت پیچیدہ جراحی کی ضرورت تھی اور مریض کو بے ہوش کرنا پڑتا تھا۔ پھر حرام مغز کے کچھ حصے کو ہٹانے کی بھی ضرورت پیش آتی تھی۔ لیکن جامعہ کیمبرج کے نئے امید افزا ڈیزائن سے ان مسائل کو کچھ کم کیا گیا ہے۔

ڈیمیانو اور ان کے ساتھیوں نے پھیلنے اور پھولنے والا ایک باریک آلہ بنایا ہے جس کے لیے معمولی سرجری درکار ہوتی ہے اور ہلکی بے ہوشی سے اسے کمر میں پیوست کیا جاسکتا ہے۔ درد کش پیوند پتلے پلاسٹک اور خالص سونے کے باریک ورق پرمشتمل ہے۔ اب اس کی موٹائی صرف 2 ملی میٹر رہ گئی ہے اور اسی اختصار کی بنا پر سرنج میں رکھا جاسکتا ہے۔

عموماً خواتین کو جس مقام پر دورانِ حمل مدہوشی یا دردکُشی کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اسے ’ ایپی ڈیورل‘ اسپیس کہتےہیں۔ عین اسی جگہ یہ پیوند پیوست کیا جاسکتا ہے جو ایک گدے جیسا لگتا ہے۔ اسے یا تو کسی بیرونی بیٹری سے جارچ کیا جاسکتا ہے یا پھر جسم میں ہی چھوٹی بیٹری نصب کی جاسکے گی۔

اس آلے کو پانی بھرے غبارے پر آزمایا گیا جس میں غبارے کومصنوعی ’ایپی ڈیورل اسپیس‘ تصور کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد چھ انسانی لاشوں میں اس پیوند کو لگایا گیا۔ ماہرین کے مطابق اپنی بہت چھوٹی جسامت کی وجہ سے یہ مکمل طور پرمحفوظ اور مؤثر ہے۔ لیکن ابھی منزل دور ہیں کیونکہ اسے مزید جانوروں کے بعد ہی کہیں انسانوں کو لگایا جائے گا۔

ڈیمیانو اور کیمبرج یونیورسٹی کے دیگر سائنسدانوں کے مطابق امید ہے کہ یہ پیوند انسانوں کے لیے بالکل بے ضرر اور مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

The post حرام مغز میں پھیلنے والا پیوند جو کمر کے درد کو دور کرسکتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3vUPFIN
via IFTTT

No comments:

Post a Comment