کراچی: جامعہ کراچی کے کئی ملین طلبہ کا 10 سالہ حساس امتحانی ریکارڈ غیر متعلقہ افراد کو فراہم کیے جانے اور 41 ہزار ڈگریا ں شعبہ امتحانات سے غیر قانونی طورپر کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ یہ غیر قانونی اقدام سابقہ انتظامیہ کے ناظم امتحانات ڈاکٹر عرفان عزیز کی جانب سے کیا گیا جس کے سبب جامعہ کراچی کی ڈگریاں اور طلبہ کا امتحانی ریکارڈ کے غلط یا مجرمانہ مقاصد کیلیے استعمال ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اس اسکینڈل کا انکشاف جامعہ کراچی کے موجودہ ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی کی جانب سے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کو لکھے گئے خط میں ہوا ہے جس کے بعد وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی کی جانب سے اس معاملے کا انتہائی سخت نوٹس لیتے ہوئے ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو 15 روز میں وائس چانسلر کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔کمیٹی کے کنوینر سابق ڈین فارمیسی پروفیسر ڈاکٹر اقبال اظہرجبکہ دیگر اراکین میں شعبہ سیاسیات کی پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس اورشعبہ زولوجی کی پروفیسرناصرہ خاتون شامل ہیں۔ادھر وائس چانسلر جامعہ کراچی سے جب ایکسپریس نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ معاملہ سامنے آنے پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی ہے اور کوئی بھی فیصلہ اور مزید حقائق تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ہی ممکن ہوںگے۔ ایکسپریس کو معلوم ہواہے کہ جامعہ کراچی کے موجودہ ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی نے وائس چانسلر کو لکھے گئے اپنے خط میں حیرت انگیز انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب انھوں نے 17 مئی کو اپنے عہدے کا چارج لیا تو معلوم ہو ا کہ پاکستان پرنٹنگ پریس سے چھپوائی گئی جامعہ کراچی کی اسناد شعبہ امتحانات میں موجود نہیں،یہ سادہ اسناد شعبہ امتحانات سے غیر قانونی طورپر انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ میں منتقل کردی گئیں۔ان سادہ ڈگریوں کے 82 پیکٹ شعبہ امتحانات سے غائب تھے اور ہر پیکٹ میں 500 اسناد تھیں۔
اسناد کے یہ پیکٹ 3 جون کو سابق ناظم امتحانات ڈاکٹر عرفان عزیز نے ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد ڈپٹی کنٹرولر ظفر حسین کے حوالے کیے۔ڈاکٹر ارشد اعظمی نے خط میں مزید موقف اختیار کہ ڈیڑھ سال تک یہ اسناد شعبے سے غائب رہی ہیں، وہ یہ بات نہیں جانتے کہ واپس ملنے والی ڈگریوں کی تعداد کتنی ہے۔جبکہ یہ ڈگریاں شعبہ امتحانات کے اسٹور سے کس کی اجازت سے انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن منتقل کی گئیں۔خط میں آگے چل کر مزید انکشافات کیے گئے کہ شعبہ امتحانات کے آئی ٹی پروگرامر نوید جو تمام امتحانی ڈیٹا کی اسٹوریج کے ذمے دارہیں ان سے سابق ناظم امتحانات ڈاکٹر عرفان عزیز نے 2007 ء تا2017 ء دس سال کا امتحانی ڈیٹا لے کر کوالٹی انہانسمنٹ سیل کے ایک افسر جاوید اکرم کے حوالے کردیا۔جبکہ ان ہی دس برسوں کا سیمسٹر ایگزامینیشن کا امتحانی ڈیٹا بھی جاوید اکرم کے حوالے کیا گیا۔خط میں جاوید اکرم سے متعلق معلومات دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جاوید اکرم کا تقرر ایک سوالیہ نشان ہے، ان کی شہرت بہتر نہیں ہے اور انہیں ماضی میں وفاقی اْردو یونیورسٹی کی ملازمت سے فارغ کیا گیا تھا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ناظم امتحانات کی حیثیت سے ڈاکٹر ارشد اعظمی طلبہ کے امتحانی ڈیٹا کی حفاظت کے ذمے دار ہیں اور یہ بات ان کے لیے انتہائی پریشان کن اور مشکوک ہے کہ ہمارا امتحانی اور سیمسٹر کا ڈیٹاLeak ہوگیا ہے۔
یہ تمام امور ان کے چارج سنبھالنے سے قبل انجام پائے ہیں،لہذا وہ اس کے ذمے دار نہیں ہیں تاہم اس امر کے ذمے داروں کا تعین بھی ضروری ہے۔خط میں وائس چانسلر سے اس معاملے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔ادھر ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ناظم امتحانات ڈاکٹر ارشد اعظمی نے بتایا کہ جامعہ کراچی کے ایک سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر کے دور میں پاکستان پرنٹنگ پریس سے یونیورسٹی کی اسناد چھاپنے کا معاہدہ طے پایا تھا میں اس وقت بھی ناظم امتحانات تھا۔تاہم سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان کے دور میں جب مجھے عہدے سے سبکدوش کیا گیا اس وقت تک یہ ڈگریاں پاکستان پرنٹنگ پریس نے جامعہ کراچی کے حوالے نہیں کی تھیں۔ جب انہیں اس عہدے کا چارج موجودہ وائس چانسلر نے دوبارہ دیا تومعلوم ہوا کہ ڈگریاں شعبہ امتحانات کے بجائے انسٹی ٹیوٹ آف ہیلو فائٹ میں موجود ہیں۔قانونی طورپر یہ ڈگریاں یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا ناظم امتحانات (کنٹرولرآف ایگزامینیشن) بھی اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے طلبہ کی10 سالوں کی کمپیوٹرائز ٹیبولیشن بھی یہاں سے ایک افسر کو منتقل کردی گئی جو قانونی طورپر ایک سنگین جرم ہے،لہذا میں نے تحقیقات کی سفارش کی ہے۔دوسری جانب بتایا جارہا ہے کہ امتحانی ڈیٹا پی ایچ ڈی کرنے والے کچھ غیر متعلقہ افراد کے حوالے کیا گیاہے۔
The post جامعہ کراچی، لاکھوں طلبا کا حساس ریکارڈ غیر متعلقہ افراد تک جانے کا انکشاف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IZHZPY
via IFTTT
No comments:
Post a Comment