امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ نارتھ کوریا نے دنیا بھر میں پراسرار نارتھ کوریا کی بہت سی خفیہ داستانوں پر سے پردہ اٹھا دیا گو یہ پراسرار حقیقتیں پچھلے کئی برسوں سے پل رہی تھیں لیکن جس طرح اس ملک نے ہٹ دھرمی کی روش اپنا کر بیرونی دنیا سے ایک لحاظ سے تعلق قطع کر رکھا تھا۔ 2019ء میں وہاں دوستی کرو کے نعرے کی ہلکی ہلکی ہوا چلنا تو شروع ہوئی ہے۔
کہا جا رہا تھا کہ نارتھ کوریا کے حالیہ سربراہ کم جونگ کی شدت پسندی کے باعث وہاں ایک تاثر ابھر رہا تھا کیونکہ نیوکلیئر پاور کے باعث نارتھ کوریا دنیا بھر میں خطرے کا الارم بجا رہا تھا، گویا کم جونگ کے حکم کی دیر تھی اور نیوکلیئر طاقت کا استعمال شروع ہو جانا تھا اس کے بعد نارتھ کوریا میں سوائے اندھیروں کے اور کیا رہ جانا تھا، اس عالمی منڈی میں اپنی ڈیڑھ انچ کی سجدہ گاہ تعمیر کرتے آخر کب تک کم جونگ اپنی راجدھانی چلا سکتے تھے۔
1983ء میں پیدا ہونے والے کم جونگ اپنی سخت طبیعت کے باعث ویسے ہی دہشت کی علامت تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ حالیہ دور کے ہٹلر ہیں جنھوں نے اپنی جنگی شدت پسندی کے ہاتھوں لاکھوں نفوس کو موت کے منہ میں جھونک دیا تھا۔ دنیا کو عظیم جنگوں کا تحفہ دینے والے ہٹلر کا انجام جو کچھ بھی ہوا تھا لیکن تباہی کے دہانے سے اٹھ کر پھر سے جی لینے کا عزم بہت سے ممالک نے کیا اور بہت سے اب بھی ان تباہ کاریوں کے اثرات تلے زندہ ہیں، کم جونگ نے اس وقت میں جب وہ پوری دنیا کو اپنی نیوکلیئر پاور کی دھمکیاں دے دے کر تھک گئے تھے، اپنے عوام کو باور کرانا تھا کہ انھیں محض اپنی خواہشات کی ہی نہیں بلکہ اپنی عوام کی بھی بہت فکر ہے وہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کے لیے امریکا کے ذریعے وہ تمام مراعات حاصل کرے جس سے ان کے عوام خوش اور مطمئن ہوں۔
اپنے عوام کے گھروں میں غریبی کی تصویر تک نہ دیکھنے والے کم جونگ ایک طویل عرصہ خوابوں کی دنیا میں رہے انھوں نے اپنے دادا کم دوم سنگ اور والد کی روش پر چلتے ہوئے انھی جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھا جسے وہ اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے آئے تھے۔ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں بھوکے کتوں کے آگے اپنے ہی چچا کو ڈلوا دینا، خونخوار مچھلیوں کے تالاب میں باغی اور مخالفین کو جھونک دینا غرض عجیب وغریب پراسرار طریقے جو طویل عرصے تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے وہ اختیار کرتے رہے، یہاں ایک دلچسپ بات بھی شامل کرتے چلیں کم جونگ نے نارتھ کوریا کے تمام مرد حضرات کو اپنی طرح کے بالوں کا انداز اپنانے کا حکم دیا ہے اور خواتین کو اپنی اہلیہ کی طرح، یہاں تک کہ اس کے برخلاف جو بھی بالوں کا انداز اختیارکرتا ہے اسے سزا دی جاتی ہے۔
اسی طرح وہاں عاشقی و معشوقی پر بھی بین ہے، مذہبی آزادی نہیں ہے وہاں لوگ اپنے گھروں میں مذہبی کتابیں نہیں رکھ سکتے وہاں دو ہی ٹی وی چینلز ہیں جو حکومت کے زیر انتظام چلتے ہیں اسی طرح ریڈیو سروس بھی ہے گویا نارتھ کوریا بیرونی دنیا سے کٹا ہوا ہے، وہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہیں ہے ماسوائے سرکار کے۔ یا وہ چند کمپنیاں جو سرکار کی نگرانی میں کام کریں نیٹ کے سحر سے لے کر حسن و عشق تک کے سحر پر پابندی۔ اسی طرح ملبوسات کے سلسلے میں بھی یہی حال ہے جو خاتون اول اختیار کریں سب خواتین ان کی طرح زیب تن کریں یہاں تک کہ سیاحوں کو بھی یہاں داخل ہونے کے بعد اپنے سیل فونز پولیس میں جمع کرانے پڑتے ہیں، انھیں تصاویر اتارنے کی بھی پابندی ہے۔
قدیم کوریا پر 1910ء سے لے کر 1945ء تک جاپان کا قبضہ رہا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کمزور ہوگیا اور کوریا دو حصوں میں بٹ گیا ایک حصے پر سوویت یونین نے قبضہ کر لیا جب کہ دوسرے حصے پر امریکا نے اپنا راج قائم کر دیا۔ جاپان کے دور حکومت میں جاپانیوں نے کوریا کے روایتی اقدار و روایات کو دبانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کی مخالفت میں کچھ مزاحمتی گروپس سامنے آ گئے ایسے ہی گوریلوں میں ایک شخص کم دوم سنگ بھی تھا جو کمیونسٹ تھا، یہ لیڈر بعد میں کوریا کا حکمران بن گیا۔ 1994ء تک اس شخص کا راج چلتا رہا لیکن وہ دل کے دورے میں چل بسا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے نے یہ اقتدار سنبھالا لیکن عشرہ دسمبر 2011ء میں وہ بھی مر گیا۔
اس کے بعد حالیہ سربراہ کم جونگ نے اقتدار سنبھالا گو یہ اتنا آسان مرحلہ نہ تھا اس کے لیے خاصی مخالفتیں اور سازشیوں کا بازار گرم رہا لیکن انھوں نے اپنی سمجھ اور سخت گیر پالیسیوں سے مخالفین کو کچل ڈالا۔ شاید یہ ان کی کم عمری میں بڑے اقتدار کا نشہ ہی تھا کہ جس نے انھیں ایک جابر شہنشاہ بنا دیا جس کے حکم کے خلاف کسی کو سر اٹھانے کی جرأت ہی نہ تھی۔ کیا ایک عام انسان اور کیا اعلیٰ عہدے کے وزیر سب ان کے سامنے سرخم ہی رکھتے کہ ان کی ذرا سی ناگواری بھی ان کے سروں کو تن سے جدا کر سکتی تھی۔
حال ہی میں امریکا اور نارتھ کوریا کے درمیان بات چیت اور سربراہان کی ملاقات کو دنیا بھر میں اعلیٰ درجے کی خبروں میں سنا گیا کہ ایک ملک جیسے برف میں دبی سیاسی چالیں کھیلنے والا تو دوسرا کھلے عام دنیا کا چیمپئن بننے کا دعویٰ کرنے والا گزشتہ مہینے مئی میں جاپان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کم کو بہت اسمارٹ آدمی کہہ کر یہ تو ثابت کر دیا تھا کہ یہ کم عمر سربراہ ہے بہت خوب، دوسرے لفظوں میں اسے سراہنا بھی ہے۔ اس کے بعد امریکا کی جانب سے دونوں ملکوں کے سربراہان کی ملاقات کے بعد اس ذاتی خط نے بھی اشارہ تو کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کم جونگ کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں یہ خط ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کم جونگ کو کس طرح پہنچا اس خط کا کیا متن ہے؟ ابھی یہ راز افشا ہونا باقی ہے۔
پراسرار نارتھ کوریا کے نیوکلیئر عزائم ختم ہوجائیں وہ دنیا کو ایٹمی دھماکوں سے ڈرانا چھوڑ دے یہ خواہش ہے امریکا کی کہ جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نارتھ کوریا کے دورے پر مجبور کیا جب کہ نارتھ کوریا چاہتا ہے کہ اس کے خلاف جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ختم کی جائیں اور اسے مراعات دی جائیں کیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اس مہم میں کامیاب ہو سکیں گے؟ یا دنیا کو ابھی ایک اور ہٹلر کی صورت دیکھنا باقی ہے۔
The post پراسرار نارتھ کوریا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XfgF96
via IFTTT
No comments:
Post a Comment