Friday, June 28, 2019

پاک افغان دوستی کی شمع جلنی چاہیے ایکسپریس اردو

پاکستان اورافغانستان نے باہمی اعتماد اورہم آہنگی پرمبنی تعلقات کا نیا باب شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔وزیراعظم عمران خان اورصدر ڈاکٹر اشرف غنی کے درمیان ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملک اپنے تعلقات کوخطے میں امن واستحکام اور اپنے عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے افغان امن عمل کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دہائیوں سے جاری تنازع کا حل صرف پرامن مذاکرات ہیں۔

افغان عمل کو خطے کے وسیع تر تناظر میں جس کثیرالمقاصد اور دیرپا امن کی ضرورت ہے اس پر دو رائے نہیں ہوسکتیں، افغانستان کو ایک گہری تزویراتی،سیاسی،معاشی اور سماجی دلدل سے نکلے کے لیے دنیا کی امداد اور نفسیاتی و داخلی اخلاقی حمایت بھی درکار ہے، امریکی جنگی اسٹرٹیبحسٹ اور خطے کو مختلف مفادات کا تختہ مشق بنانے کے جس کھیل میں عالمی قوتوں نے افغان عوام کی زندگیوں کا کھلواڑ کیا ہے اس میں عالمی سامراج سمیت ہر وہ طاقت ذمے دار ہے جس نے افغان کاز کی آڑ میں پاکستان کے کلیدی کردار کو سمجھتے ہوئے بھی سفارتکاری میں چمتکاری کے وہ گل کھلائے کہ برس ہا برس تک پاک افغان تعلقات ’’ کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے‘‘ کا چیستان بنی رہی۔

عالمی قوتوں نے کبھی نہیں چاہا کہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ ہمسائیگی کے مثالی، مستحکم اور قابل تقلید رشتے اور رابطے قائم ہوں ، خطے کے امن واستحکام اور عالمی  گیم پلان میں پاک افغان کردار کسی قسم کے شک سے بالاتر جیوپولیٹیکل سبقت لیتے ہوئے خود کو عالمی قوتوں کی اسلحہ، مالیاتی، عسکری اور معاشی انتظام کاری کے گورکھ دھندوں سے محفوظ رہے۔

تاہم پاک افغان تعلقات کی بیس لائن کی تاریخ کو ایک درد ناک کشیدگی،بے نام دشمنی اور خواہ مخواہ کی بد گمانی کا ایسا منظر نامہ دیا گیا کہ امریکا کے لیے نائن الیون ایک عالمی سیاسی،معاشی اور عسکری سونامی بن کر افغانستان کے امن کو اژدہے کی طرح نگل گیا۔

اس تناظر میں پاک افغان دوستی کا نیا باب بلاشبہ عالمی سیاست میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ اگرچہ طالبان دوستی کے اس نئے باب سے دور ہیں، صدر اشرف غنی سے ایک میز پر بیٹھنے کے امکانات پر طالبان سے تلخیوں کا سلسلہ جاری ہے، ایک ہولناک جنگ جاری ہے، ہلاکتوں کی الم ناکیاں لہو رلاتی ہیں، مگر محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اب کچھ کرنے کے موڈ میں ہے، اس نے قطر مذاکرات کا باب بھی کھولا ، خلیل زلمے زاد کو سونپا گیا مشن امپاسیبل بنتا نظر آرہا ہے، کابل سے لاتعلقی اور مخاصمت پر مبنی طرز عمل شاید قصہ ماضی بننے کے قریب ہے۔

دوسری جانب امریکا کے خطے میں تہ در تہ اقتصادی ، جنگی مفادات، ترجیحات اور مصلحتوں کو بھی بریک لگنے کے پیراڈائم تیزی سے کام کرنے لگے ہیں،اس لیے عالمی میڈیا اس بار پورے یقین سے کہہ رہا ہے کہ اشرف غنی کا دورہ پاکستان کی حمایت حاصل کرنا ہے، ادھر افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن میں مزید ایک سال کی توسیع دی گئی ہے،پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کو پاکستان نے کرکٹ ڈپلومیسی اور کھیل  کی لطافت سے آشنا کیا اب میچ بھی اسی ماحول میں ہوگا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان افغانستان کی خود مختاری اور سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ پاکستان افغانستان میں استحکام، امن اور جمہوریت چاہتا ہے۔ وزیراعظم نے افغانستان میں مضبوط سیاسی تجارتی اور معاشی مضبوطی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان عوامی رابطوں کا فروغ ضروری ہے، افغانستان میں پائیدار امن دونوں ممالک کے لیے اقتصادی طور پر فائدہ مند ہے۔

دریں اثناء افغان صدر اشرف غنی نے وزیراعظم عمران خان سے وزیراعظم ہاؤس میں ون آن ون اور وفود کی سطح پر مذاکرات کیے۔ وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان ’’پرامن ہمسائیگی‘‘ کے اپنے وژن کے تحت پاک افغان تعلقات میں معیاری تبدیلی لانے کے لیے پرعزم ہے۔ اس ضمن میں پاکستان نے ہمیشہ افغانوں کے مابین نتیجہ خیز مکالمہ کی حمایت کی ہے۔

پاکستان ایک پرامن، مستحکم، جمہوری اور خوشحال افغانستان سے پختہ وابستگی رکھتا ہے اور افغانستان کے ساتھ سیاسی، تجارتی، اقتصادی اور عوامی سطح پر مضبوط تر تعلقات کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کسی بھی مشکل وقت میں افغان عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں استحکام امن اور جمہوریت چاہتا ہے۔

پاکستانی وفد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ، وزیر مواصلات مراد سعید اور سیکریٹری خارجہ سہیل محمود شامل تھے۔

بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ صدر اشرف غنی ایک بڑے وفد کے ساتھ پاکستان آئے ہیں جس میں اہم وزراء ان کے ہمراہ ہیں۔ پاکستان اور افغانستان نے ماضی کو بھلا کر مشترکہ ایجنڈے پر مل کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے، ہم نے طورخم بارڈر کو کھلا رکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ چیزوں کی ترسیل ہو سکے، پاکستان قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ پاکستان کا اصلاحاتی ایجنڈا اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک خطہ میں قیام امن نہ ہو۔

وقت آگیا ہے کہ افغان امن عمل کی شمع بھی اسی عہد میں روشن ہو۔ صدر غنی کوئی تحفہ لے کر امریکا، پاکستان ، طالبان اور اپنے عوام کے سامنے پیش ہوں۔ ماضی کی الزام تراشیاں اور بدگمانیاں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائیں۔خطے میں ہمہ جہتی امن وخوشحالی کا دور دورہ ہو۔

The post پاک افغان دوستی کی شمع جلنی چاہیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xhMz5A
via IFTTT

No comments:

Post a Comment