کراچی: حکومت نے ٹیکس سے بچنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کم شرح پر ٹیکس ادا کر کے اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم شروع کی ہے۔ نان فائلرز کو ٹیکس کی ادائیگی پر راغب کرنے کے لیے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی تاریخ میں متعدد بار توسیع کی ہے۔
نان فائلرز کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور میں ٹیکس کی ادائیگی سے بچنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے تحت اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے انسداد کے لیے رقوم ؍ غیرملکی زرمبادلہ کی منتقلی پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے نئے چیئرمین شبرزیدی نے ٹیکس اصلاحات بروئے کار لانے کا وعدہ کیا ہے جس سے ٹیکس بیس وسیع ہوگی اور ٹیکس دہندگان کو سہولت ہوگی۔ تاہم اس تمام عمل کے دوران ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک نے بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لیے کچھ اہم مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ ایف بی آر کے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 81 کے مطابق پاکستان سے باہر 183 ایام تک رہنے والا شہری تارک وطن کہلائے گا اور اس وقت تک ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ پاکستانی ذریعہ نہ ہو جیسے اسٹاک ڈیویڈنڈ، غیرمنقولہ جائیداد کے کرائے سے حاصل ہونے والی آمدنی، یا کوئی بھی ایسی جائیداد یا سیکیورٹیز جن پر کیپٹل گین ٹیکس لاگو ہوتا ہو۔ لہٰذا ایک تارک وطن کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ کسی خلیجی ملک میں مقیم رہتے ہوئے اور پاکستان میں یا پاکستان سے باہر جائیداد اور بینک اکاؤنٹس میں رقم رکھے اور ایف بی آر اس سے لاعلم ہو۔
دوسری جانب ایک تارک وطن جس نے پاکستان میں اپنی کسی آمدنی کے لیے ریٹرنز فائل کیے ہوں اسے اثاثے ظاہر کرنے کے مضمرات کا خوف لاحق ہوتا ہے۔ اسے ماضی میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نوٹس موصول ہوتے ہیں تو وہ بیرون ملک رہتے ہوئے سمن اور لیگل نوٹس کی تکمیل کیسے کرسکتا ہے؟ بیرون ملک مقیم رہتے ہوئے پاکستان میں وکیل کی خدمات حاصل کرنا اور پھر قانونی معاملات سے نمٹنا ایک درد سر ثابت ہوگا۔ علاوہ ازیں جن تارکین وطن نے اپنی محنت سے کما کر بیرون ملک کوئی مقام حاصل کرلیا ہے انھیں یہ خوف لاحق ہے کہ اثاثے ظاہر کرنے کی صورت میں ایف بی آر ان کی محنت کی کمائی کو منی لانڈرنگ سے نہ جوڑ دے۔
The post اثاثے ظاہرکرنے کے مضمرات سے تارکین وطن خوفزدہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XxR3UD
via IFTTT
No comments:
Post a Comment