چیئرمین نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ 2020 میں نیب نے کرپٹ عناصر سے 321 ارب روپے وصول کیے۔ انھوں نے نیب کی طرف سے بڑی مچھلیوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کا دعویٰ بھی کیا اور کہا کہ نیب کے وقار اور ساکھ میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا ہے اور سارک ممالک میں نیب ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔
جن کرپٹ عناصر سے 321 ارب روپے گزشتہ سال میں وصول کیے گئے ان میں سیاسی اور غیر سیاسی کرپٹ عناصر کا تو کوئی ذکر نہیں جب کہ ملک میں زیادہ چرچا سیاسی کرپٹ رہنماؤں کا ہی ہے باقی دودھ دھلے اور حکومتی حلیف ہیں جن کے خلاف کارروائی کی تفصیلات میڈیا کو فراہم نہیں کی جاتیں اور صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ نیب کے قیام کے بعد سے اب تک 9640487 وصول ہونے والی شکایات میں 93015 کی تصدیق کے بعد صرف 041-10کی انکوائری ہوئی اور احتساب عدالتوں میں صرف 3682 ریفرنس زیر سماعت ہیں۔
عوام کو سیاسی یا غیر سیاسی کرپٹ عناصر سے تو کوئی دلچسپی نہیں مگر عوام یہ جاننے کا اور پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ گزشتہ سال جو 321 ارب روپے وصول ہوئے ان سے عوام کو کیا ملا؟ یہ رقم کہاں خرچ ہوئی؟ کیونکہ گزشتہ سال مہنگائی 2019 سے بھی زیادہ رہی اور 2021 کے پانچویں ماہ میں مہنگائی میں پھر ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا اور ایکسپریس کی خبر کے مطابق عیدالفطر کی چھٹیوں میں مرغی، بکرے اور گائے کے گوشت کی قیمتیں کنٹرول سے باہر رہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کے نرخ بے لگام رہے اور ملک میں پہلی بار مرغی کا برائلرگوشت 460 روپے کلو اور بکرے کا گوشت 15 سو روپے تک فروخت ہوا۔
موجودہ حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمت امریکا و چین سمیت علاقائی ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ ملک میں مہنگائی کا سبب پٹرولیم مصنوعات ہی کو قرار دیا جاتا ہے جب کہ حکومت کے زیر کنٹرول بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے ملک میں مہنگائی ہمیشہ آگے بڑھتی ہے اگر ملک میں پٹرول کی قیمتیں امریکا اور چین سے کم ہیں تو ملک کے عوام کو امریکی عوام جیسی سرکاری سہولتیں کیوں میسر نہیں؟اور ملک میں تیار کی جانے والی اشیا کی قیمتیں چین سے زیادہ اور چینی اشیا کی قیمتیں معیار کے مطابق کم کیوں ہیں جب کہ چین سے اشیا لائے جانے پر حکومتی ٹیکسوں کے علاوہ اخراجات بھی زیادہ ہونے کے باوجود وہ سستی ہیں۔ چینی اشیا سستی ہونے کے باعث پاکستان میں ان کی فروخت زیادہ ہے اور ملک بھر میں موجود ملتی ہیں۔
نیب نے گزشتہ سال کے برعکس 2020 میں جو 321 ارب روپے کرپٹ عناصر سے وصول کیے وہ حکومت کو ملے تو حکومت کو بھی بتانا چاہیے کہ وہ کہاں خرچ ہوئے؟ اس رقم سے عوام کو کون سا ریلیف یا سہولیات فراہم کی گئیں؟ 321 ارب روپے ایک بڑی رقم ہے جس سے عوام کو کچھ تو ملتا۔ یہی بتا دیا جاتا کہ کیا ملک کی سب سے بڑی کابینہ پر یہ رقم خرچ ہوئی یا غیر ملکی قرضہ ادا کیا گیا؟ اگر ایسا نہیں ہوا تبدیلی حکومت کے بعد ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری مسلسل کیوں بڑھ رہی ہے؟ موجودہ حکومت آنے کے بعد عوام کرپشن کرپشن کی باتیں سنتے آ رہے ہیں جب کہ اپوزیشن حکومت پر مسلسل انتقامی اور سیاسی کارروائیوں کے الزامات لگا رہی ہے۔
کرپشن کے مبینہ الزامات میں گرفتار اکثر اپوزیشن رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت مل چکی کیونکہ وہ طویل عرصہ نیب کی قید میں رہے مگر کسی سیاسی رہنما کو کرپشن پر سزا نہ ہوئی جس سے ان کا یہ بیانیہ مضبوط ہوا کہ انھیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور حکومت نے انھیں گرفتار کرا کر اپنا انتقام تو لے لیا مگر عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور عوام مسلسل ریلیف سے محروم چلے آ رہے ہیں۔
عوام بھی حقائق دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کے سیاسی انتقام سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہو رہا بلکہ حکومتی اقدامات سے صرف مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ حکومتی اقدامات یا برآمدہ رقم سے عوام کو کچھ ریلیف مل جاتا اور مہنگائی کم ہو جاتی تو عوام بھی سکھ کا سانس لیتے اور حکومتی اقدامات کو سراہتے اور نیب کی بھی تعریف ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا۔ عوام تو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری میں خودکشیاں کر رہے ہیں۔ عوام کے لیے بے فائدہ انتقامی کارروائیوں سے حکومت کو تو سکون مل رہا ہوگا مگر عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا بلکہ حکومت بدنام ہو رہی ہے اور اپوزیشن کا بیانیہ تقویت حاصل کر رہا ہے۔
The post عوام کے لیے بے فائدہ انتقامی کارروائیاں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fxDXi6
via IFTTT
No comments:
Post a Comment