Monday, May 31, 2021

دہی ایکسپریس اردو

دہی صدیوں سے لوگوں کی ایک مرغوب غذا ہے۔  یہ نہ صرف ہمارے مختلف کھانوں کے بنیادی اجزا میں شامل ہے، بلکہ اسے براہ راست بھی دسترخوان کی زینت بنایا جاتا ہے، جیسے رائتے کی صورت میں یہ ہمارے ہاں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ’دہی بڑے‘ اور دہی سے تیار ہونے والے مختلف لوازم اس کے علاوہ ہیں۔ سخت گرمیوں میں دہی کا استعمال ویسے بھی فرحت کا باعث ہوتا ہے۔

دہی ایسے لوگوں کے لیے بے حد مفید ہے جو آنتوں کے مرض میں مبتلا ہیں یا جنھیں غذائیت کی کمی کے باعث کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہو۔ دہی کو غذا کے طور پر سب سے پہلے بلقان نامی ملک کے باشندوں نے استعمال کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں یہ ہندوستان، پاکستان، بنگلا دیش اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک میں بھی مقبول ہوگیا اور اب یورپ ، امریکا اور روس میں بھی بکثرت اس کا استعمال کی جا رہی ہے۔

امریکا کے محکمۂ خوراک کے سائنس دان ڈاکٹر فرینک کا کہنا ہے کہ پس ماندہ ممالک کے لیے دہی غذائیت سے بھرپور ایک ایسی خوراک ہے، جو بعض جسمانی خامیوں کا ازالہ کردیتی ہے۔ ڈاکٹر فرینک کہتے ہیں دودھ میں خمیر اٹھ آئے تو وہ دہی بن جاتا ہے۔

دہی میں بیکٹیریا کی افزائش کی وجہ سے خمیراٹھنے کے دوران خاص قسم کی اس شکر کی مقدار کم ہو جاتی ہے جو دودھ میں پائی جاتی ہے اور lactose کہلاتی ہے۔ دہی میں lactose کی مقدار کم ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بیکٹیریا کی ایک خاص قسم کا خمیری ترشے بناتے ہیں۔ یہ خمیری ترشہ جن لوگوں کے جسم میں نہیں ہوتا انہیں lactose راس نہیں آتی۔ دنیا کی آبادی میں سے  80سے 90 فی صد لوگوں کی زندگی کے پہلے دس برسوں کے بعد کیمیاوی خمیر پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور lactose ہضم نہیں کر پاتے۔

دہی انسانی جسم کے لیے لحمیات، کیلشیم اور وٹامن کی فراہمی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دہی کا ایک وصف یہ ہے کہ دودھ کے مقابلے زیادہ دیر تک خراب نہیں ہوتا اور اسے عرصے تک رکھ کر کھایا جا سکتا ہے۔ دہی میں کچھ ایسے اجزا بھی ہوتے ہیں، جو معدے اور آنت کی بعض بیماریوں کا انتہائی موثر علاج ثابت ہوتے ہیں۔ 1906ء میں ایک روسی ڈاکٹر اور ماہر علم میچی کون نے کہا تھا کہ اپنی تحقیق سے وہ اس بات کا معترف ہوگیا کہ دہی بعض امراض میں بہت مفید ہے۔

ان کا کہنا تھا جو جراثیم خمیرہ پیدا کرکے اسے دہی بناتے ہیں وہ اپنے جسم سے کئی طرح کے زہر اور تیزابی مادے بھی خارج کرتے ہیں اور ان جراثیموں کا ایک خاص طریقہ کار بھی ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ دہی  میں ایسے ناپسندیدہ اجسام کی افزائش اور فروغ روک دیتے ہیں، جو عام طور سے انسان کی آنتوں میں پائے جاتے ہیں پھر ہوتا یہ ہے کہ دہی کے اچھے جراثیم انسانی آنتوں کے جراثیم کو یا تو ہلاک کردیتے ہیں یا انہیں غیر موثر بنادیتے ہیں۔

ڈاکٹر فرینک نے ڈاکٹر میچی کون کی تحقیق کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ کثرت سے دہی کا استعمال کرتے ہیں وہ اکثر طویل عمر پاتے ہیں مثلاً بلقان کے باشندے جو دہی کھاتے رہتے ہیں اور دہی ان کی مرغوب غذا ہے وہ اکثر سو برس سے زیادہ عرصے تک زندہ رہتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے باشندوں کو اپنی عام غذا میں چوں کہ وٹامن بی، کیلشیم اور پروٹین کافی مقدار میں حاصل نہیں ہوتی اس لیے ان کے لیے دہی کا استعمال غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ بہت مفید اور قوت بخش ہوتا ہے اور انھیں آنتوں اور پیٹ کی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

دہی کھانے سے ذیابیطس کے خطرے میں بھی کمی ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں شامل افراد نے مطالعے کے آغاز میں رضاکارانہ طور پر اپنی غذائی عادات تحریر کی تھیں اور مطالعے میں یہ بات واضح نہیں کہ بعد میں کس طرح ان افراد کی ان غذائی عادات اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھی گئی۔

ایک تازہ طبی تحقیق میں بتایاگیا ہے کہ دہی اور کم چکنائی کے حامل پنیرکے استعمال سے ذیابیطس لاحق ہونے کا خطرہ تقریباً ایک چوتھائی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ یہ تحقیق برطانوی محققین کی جانب سے سامنے آئی۔ اس تحقیقی رپورٹ میں 35 سو برطانوی شہریوں کا مطالعہ کیا گیا۔ یہ سائنسی شواہد ایک طویل دورانیے پر محیط طبی جائزے کی بنیاد پر جمع کیے گئے۔

اس تحقیق میں برطانیہ کے مشرقی علاقے میں خواتین اور حضرات کی کھانے پینے کی عادات کا تحقیق کے آغاز سے اختتام تک مستقل ریکارڈ رکھا گیا اور انہیں اعداد و شمار اور معلومات کی بنیاد پر یہ نتائج اخذ کیے گئے۔ تحقیقی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ برطانوی علاقے نورفولک میں 11 برس کے دورانیے میں 753 بالغ افراد میں ٹائپ ٹو ذیابیطس پیدا ہوا۔ تاہم ایسے افراد جو دہی اور کم چکنائی کے حامل پنیر کا باقاعدگی سے استعمال کرتے رہے، ان میں اس مرض کو یہ اشیا استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں 24 فی صد تک کم دیکھا گیا۔

تحقیقی رپورٹ میں واضح طور پر بتایاگیا ہے کہ صرف دہی کا باقاعدگی سے استعمال کرنے والوں میں اس بیماری کی شرح دہی کا استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں 28 فی صدکم دیکھی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق دہی اور کم چکنائی والے پنیر کے علاوہ دیگر ڈیری مصنوعات اور ذیابیطس میں کمی کے حوالے سے کوئی تعلق نہیں دیکھا گیا۔ تحقیق کے مطابق ایسے افراد جنھوں نے 125 گرام دہی کا ایک ہفتے میں اوسطاً چار مرتبہ استعمال کیا دیگر افراد کے مقابلے میں ذیابیطس سے محفوظ رہے۔

محققین کے مطابق ذیابیطس میں کمی کا تعلق صرف دہی اور کم چکنائی والی ڈیری اشیا سے دیکھا گیا ہے اور زیادہ چکنائی والی ڈیری مصنوعات میں دودھ کا اس مرض میں کمی کے حوالے سے کوئی کردار سامنے نہیں آیا ہے۔

اس تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دہی یا کم چکنائی والی ڈیری مصنوعات اور ذیابیطس میں کمی کے درمیان یہ تعلق کیوں ہے اور وہ کیا محرکات ہیں، جو دہی کے استعمال کو اس بیماری کے خلاف فائدہ مند اور موثر بناتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اب یہ تحقیق کی جائے گی کہ ذیابیطس کے مرض میں کمی دہی میں پائے جانے والے ذیابیطس روبائیوٹک بیکٹیریا یا دہی میں موجود ایک خصوصی وٹامن کے (K) کی وجہ سے ہوتی ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف کیمبرج کی ایپی ڈیمیولوجسٹ نیتا فروحی کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب ہمیں بہت سے شواہد مل رہے ہیں کہ شکر کی حامل غذائیں اور مشروبات ہماری صحت کے لیے مضر ہیں، یہ انتہائی حوصلہ افزا بات ہے کہ کم چکنائی کی حامل ڈیری مصنوعات ہماری بہتر صحت میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں، تاہم اس تحقیق کے محقیقین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس سلسلے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق میں شامل افراد نے مطالعے کے آغاز میں رضا کارانہ طور پر اپنی غذائی عادات تحریر کی تھیں اور مطالعے میں یہ بات واضح نہیں کہ بعد میں کس طرح ان افراد کی ان غذائی عادات اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھی گئی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں مختلف افراد میں مُٹاپے اور ذیابیطس کے معاملے میں ان کے خاندانی پس منظر کا ذکر بھی نہیں کیاگیا ہے ، جو اس مطالعے کے نتائج کے ٹھوس ہونے پر سوال پیدا کرتا ہے۔

The post دہی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34D5wjX
via IFTTT

No comments:

Post a Comment