Tuesday, March 30, 2021

کیا پاکستان اپنی معاشی خود مختاری سے دستبردار ہورہا ہے؟ ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: پاکستانی سیاست جس تیزی سے رنگ بدلتی ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ کچھ دن پہلے پاکستان کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاریاں کررہی تھیں۔

دو غیر فطری اتحادی بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز ایک دوسرے کو بہن بھائی کہہ رہے تھے۔ لیکن پھر وقت نے کروٹ لی، سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو خود پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر انتخاب جتوایا گیا مگر سینٹ میں حزب اختلاف کے معاملہ پر پیپلز پارٹی کی سولو فلائٹ پر دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان لکیر کھچ گئی اور یوں کل کے بہن بھائی آج کے حریف بن گئے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آصف علی زرداری نے ساری گیم سیٹ کی ہوئی تھی جس میں پنجاب حکومت کو ہٹانا بھی شامل تھا لیکن نواز شریف نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔

اطلاعات ہیں کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں پیدا ہونے والے اختلافات کے تناظر میں تینوں بڑی جماعتوں کے قائدین اور مرکزی رہنماوں کے درمیان ٹیلیفونک رابطوں کا سلسلہ وقفوں وقفوں سے جاری رہا، لندن، کراچی اور اسلام آباد میں ہونے والے ان رابطوں کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں جن کی اگرچہ باضابطہ تصدیق تو نہیں ہو سکی تاہم پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم کے بجائے جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس میں مجلس عاملہ اور شوریٰ کے ارکان شرکت کرتے ہیں اور ایسے اجلاس اہم فیصلوں کیلئے صورتحال پر غور کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد میں بلائے جانے والے اس اجلاس کی تاریخ کے حوالے سے مشاورت ہورہی ہے بعض ارکان کا کہنا ہے کہ صورتحال کے پیش نظر اجلاس فوری طور پر طلب کیا جانا چاہئے جبکہ خود مولانا فضل الرحمان اس حق میں ہیں کہ چار اپریل کو پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بعد جے یو آئی کا اجلاس بلایا جائے۔

ٹیلیفونک رابطوں کے حوالے سے اسلام آباد میں موجود پی ڈی ایم میں شامل جماعت کی ایک ذمہ دار شخصیت نے اس تاثر کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا کہ اس دوران فریقین کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’’صورتحال سنجیدگی کی طرف جا رہی ہے‘‘ مذکورہ شخصیت کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو اب اس بات پر پچھتاوا ہو رہا ہے کہ انہوں نے پیپلزپارٹی کے قائدین کی جانب سے دی گئی یقین دہانیوں پر اعتماد کیوں کیا۔ معلوم ہوا ہے کہ مسلسل سفر ،سیاسی مصروفیا ت کے باعث شب بیداری اور ذہنی دباؤکے باعث مولانا فضل الرحمان کی طبیعت ناساز ہے۔

کورونا وائرس کا ان کا ٹیسٹ منفی آیا ہے تاہم مولانا نے اپنی سیاسی سرگرمیاں فی الوقت معطل کر دی ہیں۔ یہ سیاسی حیلے بہانے اپنی جگہ مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ ایوزیشن جماعتوں کا بنایا اتحاد(پی ڈی ایم اے )اس وقت بکھر چکا ہے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بھی ناکام ہوگیا ہے۔ مولافضل الرحمن دونوں بڑی جماعتوں کو ایک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک کی سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے دونوں سیاسی جماعتوں کا یک ہونا مشکل ہے۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے کوٹ لکھپت جیل میں شہبازشریف سے ملاقات کی جو سوا دو گھنٹے جاری رہی ہے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس ملاقات میں کوئی اور طاقتور شخصیت بھی موجود تھی۔ جس کے اثرات آگے چل کر نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ باتیں بھی ہورہی ہیں کہ میاں شہباز شریف اور خواجہ آصف کی اسیری کے دن بھی شائد ختم ہونے کو ہیں۔ اگرچہ ن لیگ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ حمزہ شہباز نے یوسف رضا گیلانی کو ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف بنائے جانے پر مسلم لیگ ن میں پائی جانے والی بے چینی سے آگاہ کیا۔

حمزہ شہباز نے شہباز شریف سے کہا کہ پیپلز پارٹی نے یوسف رضاگیلانی کے معاملے پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔ شہبازشریف نے حمزہ شہباز کو پیپلزپارٹی کے خلاف کسی بھی قسم کی بیان بازی سے روک دیا۔ شہبازشریف نے حمزہ شہباز سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے بلدیاتی نمائندوں سے رابطوں میں تیزی لانے کی ہدایت کی۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنما سید حسن مرتضیٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘ہم نے پنجاب اسمبلی میں تبدیلی کے لیے باضابطہ طور پر اپنی کوششیں شروع کر دی ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی اس میں شدت پیدا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ عوام عیدالفطر کے بعد خوشخبری سنیں گے کیونکہ حکمران پاکستان تحریک انصاف کے دو درجن سے زیادہ قانون ساز ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔حسن مرتضیٰ نے کہا کہ ان کی پارٹی (مسلم لیگ ن) کو پنجاب اسمبلی میں اپنی عددی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی چیف ایگزیکٹو کے دفتر کے لیے نامزد امیدوار کا اعلان کرنا چاہیے اور پیپلز پارٹی اس کی حمایت کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کی پیش کش پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں۔

ان کا دعوی ہے کہ پیپلز پارٹی نے صوبے میں تبدیلی کا آرڈر دینے اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلی کے عہدے پر لگانے کی پیش کش کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کو خدشہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی بحیثیت وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے بڑھ کر ان کے خلاف کام کریں گے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پچھلے تین سال سے حکومت کنفیوژن کا شکار ہے۔ پالیسیوں میں کسی قسم کا استحکام اور ٹھہراو نہیں ہے اور اسی وجہ سے معیشت کا پہیہ چل نہیں پاتا ہے اب معیشت کا تمام تر بوجھ حماد اظہر کے ناتواں کندھوں پر لاد دیا گیا ہے سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا وہ معیشت کی الجھی ہوئی گھتی کو سلجھا پائیں گے۔

اب حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات اس کے نمائندوں یعنی اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ڈپٹی گورنروں کی منظوری سے ہی کر سکے گی اور کوئی نوٹ بغیر ان کی مرضی کے حکومت پاکستان نہیں چھپوا سکے گی تو پھر ہر ماہ سرکاری تنخواہیں، پنشن کیسے باقاعدگی سے ادا ہوں گی۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے انکم ٹیکس ترمیمی بل کی بجائے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے جس کے تحت 140 سے 150 ارب روپے تک کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے۔ یہ آرڈیننس فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ آرڈیننس میں 62 اداروں کو ٹیکس کریڈٹ کی سہولت دے دی گئی ہے۔

پی سی بی سمیت کھیلوں کی تمام تنظیموں، فلم انڈسٹری کیلئے ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی ہے آمدن کم ظاہر کرنے پر واجب الادا ٹیکس کا 50 فیصد جرمانہ عائد ہوگا۔ دکان پر ٹیکس نمبر آویزاں نہ کرنے پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا۔ انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے پر 5ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ نئی آئل ریفائنری لگانے پر صرف 31 دسمبر 2021 تک چھوٹ ہوگی درسی کتابیں شائع کرنے والے بورڈز پر انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ کئی انویسٹمنٹ کمپنیوں کے منافع پر انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت فاٹا اور پاٹا سے متعلق ٹیکس چھوٹ 30 جون 2023 کو ختم کی جا رہی ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار کیلئے سرمایہ کاری پر 25 فیصد ٹیکس کریڈٹ دینے کی تجویز ہے تاکہ نجی شعبے میں بجلی کی پیداوار بڑھائی جا سکے۔ ملک میں تیار ہونے والے موبائل فونز کی ملک میں فروخت پر ٹرن اوور ٹیکس کی چھوٹ دینے کی تجویز ہے تاہم موبائل فونز مینو فیکچررز کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے نظام میں رجسٹر ہونے کی شرط سے یہ سہولت مشروط کی گئی ہے۔

دوسری جانب صدر مملکت نے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کے آرڈیننس پر بھی دستخط کردیئے۔ آرڈیننس کے تحت بجلی کے صارفین پر مختلف مراحل میں مجموعی طور پر700ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ پڑے گا۔

The post کیا پاکستان اپنی معاشی خود مختاری سے دستبردار ہورہا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dr4Gee
via IFTTT

No comments:

Post a Comment