من حیث القوم ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں‘ جسے پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دور قرار دیاجائے تو یہ غلط نہ ہوگا کیونکہ آج سے پہلے ایسا دور کبھی دیکھا نہ سنا، آج سے پہلے کبھی ایسے حکمران ملک و قوم پر مسلط نہیں کیے گئے جو وبال بن جائیں۔
عنان اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ تھما دی گئی ہے جنھیں رستے کا پتا ہے نہ منزل کی خبر، حکومت کاایسا کون سا کام ہے جو ملک و قوم کے لیے اطمینان کا باعث بن سکا ہو، ایسا کون سا شعبہ ہے جو حکومتی پالیسیوں سے خوش ہو، کراچی سے لے کر خیبر تک ہر پاکستانی حکومت سے ناخوش ہے۔ یہ ٹیم اس قدر اناڑی ہے کہ انھیں ہر چھ ماہ بعد کھلاڑی بدلنے پڑتے ہیں حالانکہ باربار کھلاڑی بدلنے سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا، ہمت کرکے ایک بار کپتان ہی بدل کے دیکھ لیں شاید کوئی تبدیلی محسوس ہوہی جائے۔ حکومتی ٹیم جانتی ہی نہیں کہ اُسے کرنا کیا ہے۔
نہ خوبیٔ انجن نہ کمال ڈرائیور
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
اب تک تو لانے والے بھی ایگزاسٹ ہوچکے ہوں گے لیکن بیچاروں کے پاس فیس سیونگ کا کوئی راستہ بھی نہیں، کس منہ سے انھیں ہٹایا جایا اور کس منہ سے حقیقی جمہوری قوتوں کو آن بورڈ لیا جائے، صورتحال گمبھیر نہیں، بہت گمبھیر بن چکی ہے۔ حکومتیں بین الاقوامی اداروں سے گفت و شنید کے ذریعے معاملات حل کیا کرتی ہیں کچھ مانا جاتا ہے کچھ منوایا جاتا ہے لیکن یہ دنیا کی واحد حکومت ہوگی جو معاملات طے کرنے کے لیے گفت و شنید کے بجائے لیٹ جانے میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔
ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے مانا تو سب کچھ جارہا ہے لیکن کچھ منوانے کی جسارت ہی نہیں کی جاتی، یہی وجہ ہے کہ ہر بار ڈو مور کا مطالبہ ہوتا ہے اور ہم کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں، حکومت پہلے ایف اے ٹی ایف کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہی اب آئی ایم ایف انھیں گول گول گھما رہا ہے۔ جو حکم آتا ہے سر تسلیم خم نظر آتا ہے۔
ہاٹ نیوز تو یہ ہے کہ ہمارا مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان اب ہمارا نہیں ہوگا، حکومت اس بینک کے حوالے سے ایک قانون لانے جارہی ہے جس کے بعد پاکستان کے اس مرکزی بینک پر حکومت پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں ہوگا بلکہ ورلڈ بینک اس کا نظم ونسق چلائے گا، اس بینک پر وہاں سے ہی ایک وائسرائے بٹھایا جائے گا جو سیاہ و سفید کا مالک ہوگا اور بینک کے معاملات چلانے میں پورا اختیار رکھتا ہوگا۔
2018 کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اس پر سب سے زیادہ ردعمل مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے آیا اور ان کا ردعمل جو پہلے دن تھا اس کا لیول آج بھی اسی جگہ برقرار ہے، اس میں رائی کے دانے کے برابر بھی فرق نظر نہیں آرہا، کہیں کوئی لچک دکھائی نہیں دے رہی، اس الیکشن کے بعد اسی سال 14اگست کے موقعے پر مولانا نے بڑا عجیب اعلان کیا تھااس اعلان میں انھوں نے کہا تھا کہ اس سال ہم جشن آزادی نہیں بلکہ جدوجہد آزادی منائیں گے، بیگانے تو بیگانے اپنوں نے اس بیان پر مولانا پر تنقید کے نشتر چلا دیے لیکن اس ملک میں اڑھائی سال تک جو کچھ ہوتا رہا اور اب ملک کے مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہونے جارہا ہے اس نے مولانا فضل الرحمٰن کے موقف کی تائید کردی ہے۔
بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے، جس حکومت کو نالائقی اور نا اہلی کے طعنے دیتے رہے وہ تو کسی ایجنڈے پر کام کرتی نظر آرہی ہے۔ پہلے ایف اے ٹی ایف کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مدارس و مساجد کے نیٹ ورک پر شب خون مارا گیا اور ایک متنازع قانون ’’وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020‘‘ کے نام سے پاس کرایا گیا بلکہ اب تو اس پر عملدرآمد کی خبریں بھی آنا شروع ہوچکی ہیں، یہ قانون مدارس و مساجد کی خود مختاری پر کھلا حملہ ہے جس کی تفصیل ہم ایک کالم میں بیان کرچکے ہیں اور اب آئی ایم ایف کے ایما پر ناصرف ایسی معاشی پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں جو ملکی معیشت کے لیے زہرقاتل ہیں۔
رہی سہی کسر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کی جھولی میں ڈال کر پوری کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان مجوزہ ترمیمی ایکٹ 2021 کا مسودہ وفاقی حکومت منظور کر چکی ہے، اب اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان سے منظور کرانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومتی اتحاد کے پاس کیا عددی برتری ہے یہ تو پوری قوم سینیٹ الیکشن میں دیکھ چکی اس لیے ممکن ہے یہ بل منظور کرانے کے لیے ایسا ہی کھیل کھیلا جائے جیسا صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کے لیے کھیلا گیا تھا، یہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی قوتوں کا بڑا امتحان ہے جس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ اس مجوزہ ترمیمی ایکٹ کے چیدہ چیدہ نکات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے گورنر و وفاقی وزیرخزانہ کے مشورے سے تین نائب گورنروں کا تقرر کرینگے یعنی یہ تقرر ان دوافراد کی صوابدید پر ہوگا اور نائب گورنروں کی معزولی و برطرفی کے جملہ حقوق گورنر و وفاقی وزیر خزانہ کے ہاتھ میں ہونگے۔ اسٹیٹ بینک کے ملازمین صرف اور صرف گورنر کوجوابدہ ہوں گے۔
نیب، ایف آئی اے اور دوسرے تحقیقاتی ادارے اسٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنرز اور سینئر منیجرز کی تحقیقات نہیں کرسکیں گے اور یہ لوگ وفاقی حکومت کو بھی جوابدہ نہیں ہوں گے۔ اسٹیٹ بینک کے اہلکاروں پر سرکاری ملازمین کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا اور گورنر اسٹیٹ بینک کو تمام قانونی کارروائیوں سے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔ ملک کی مالیاتی منصوبہ بندی، ٹیکس شرح، محصولات وغیرہ کا تعین گورنر اسٹیٹ بینک اور وفاقی وزیر خزانہ باہمی مشورے سے کریں گے۔ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں کا تعین بھی یہی دو شخصیات کریں گی۔ اے جی پی یا کوئی اور ادارہ اسٹیٹ بینک کے حسابات کا آڈٹ نہیں کرسکے گا۔ گورنر، وزیرخزانہ کے مشورے سے انٹرنل آڈیٹر کا تقرر کرے گا۔
اس ملک میں اسٹیٹ بینک کے حوالے سے یہ وہ قانون بننے جارہا ہے جس پر ملک کے بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات ناصرف حیران ہیں بلکہ تشویش میں بھی مبتلا ہیں کیونکہ خدا نخواستہ اسٹیٹ بینک ترمیمی آرڈیننس منظور ہوگیا تو اس ملک میں ایک معاشی بھونچال آئے گا ، ملک کے تمام وسائل اسٹیٹ بینک کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔
ریاست کے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن دینے کے بھی پیسے نہیں ہوں گے، کیونکہ ترجیح قرضوں کی ادائیگی ہوگی۔ جب نئے قرض لے کر پرانے قرضوں کی ادائیگی ہوگی تو قرض کا بوجھ مزید بڑھتا چلا جائے گا اب تک اڑھائی برسوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا اور ہورہا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے اکانومسٹ کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ حکومت کی مالیاتی بے بسی سے ریاست مفلوج ہوسکتی ہے ۔ سلطنت عثمانیہ میں ایسا ہی ہوا تھا کہ قومی دولت کا کنٹرول مرکزی بینک کے پاس تھا اور جنگ کے دوران بینک نے حکومت کو لڑنے کے لیے پیسے دینے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی۔
یہ ہیں وہ حالات جو چیخ چیخ کر نوشتہ دیوار بنے ہوئے ہیں، ملک ایک بڑی تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے، سیاسی جماعتوں کو اس امتحان کے لیے کیا تیاری کرنی ہے اس پر بات کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب اس ملک کی محب وطن حلقوں کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس قانون کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے۔
اس مقصد کے لیے پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کوایک منظم سازش کے تحت کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، اسی اتحاد میں شامل کچھ مہرے استعمال ہوئے لیکن پاکستان کو جو حالات درپیش ہیں ان کا تقاضا ہے کہ کچھ وقت کے لیے سیاسی اختلافات کو بھلا کر ملک بچانے کے لیے سرجوڑ کربیٹھا جائے۔ یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے خدانخواستہ اسے کچھ ہوا تو کوئی نہیں بچے گا۔
اس لیے پہلے ریاست پھر سیاست کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے تمام سیاسی قوتیں پاکستان کی سلامتی اور جمہوریت کی بقا کے لیے صف بندی کریں یا پہلے مرحلے میں معاشی غلامی اور اگلے مرحلے میں سیاسی طور پر مٹ جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔
The post پہلے ریاست پھر سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ucW69C
via IFTTT
No comments:
Post a Comment