عوام کی طرف سے کوروناایس اوپیز کی خلاف ورزی پر این سی اوسی نے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے صوبوں کو ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی ہدایت کی ہے، کورونا سے مزید 66فرادجاں بحق اور 4ہزار444نئے کیسزرپورٹ ہوئے ۔مثبت کیسز کی شرح10فیصد رہی، فعال مریض42ہزار384 اوراموات کی تعداد14ہزار174ہوجانا، صورتحال کی سنگینی کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اب ملک میں ایک بار پھر کورونا وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے، لیکن انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ جتنی تیزی سے کورونا وائرس پھیل رہا ہے ، ہمیں بحیثیت قوم قطعاً اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ، ہم اپنے حال میں مست ہیں، احتیاط کو ترک کرچکے ہیں۔
عوام سڑکوں، بازاروں، دفاتر، پارکوں اور مساجد میں ایس او پیز پر ذرا برابر عمل نہیں کررہے ہیں، اگر وبا مزید خطرناک حد تک پھیل گئی تو حکومت کو دوبارہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا جس سے روزگار کے دروازے بند ہوجائیں گے، معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوں گے۔کیا بیتے برس کی اذیت عوام بھول گئے ہیں، جو اب ہر جگہ پر ایس او پیز کو اپنے پاؤں تلے روند رہے ہیں، یہ ہماری قومی بے حسی کی انتہا ہے، اس وقت اسپتالوں میں گنجائش ختم ہونے کے قریب ہے، کوئی ماسک پہننے کو تیار نہیں، زندگی خدا کی عطا کردہ نعمت ہے، جو صرف ایک بار ملتی ہے، احتیاط کا دامن چھوڑ کر ہم غفلت کا ارتکاب کررہے ہیں، یہ روش، یہ چلن ہمیں ترک کرنا ہے اسی میں ہماری بقا کا راز مضمر ہے۔
کورونا کی تازہ لہر نے اس بار تو بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، سب سے زیادہ اسلام آباد اور لاہور میں بچوں میں بھی کورونا کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر کے بعد چوتھی اور پانچویں بھی آئے گی، اگر ایس او پیز پر عمل نہ کیا گیا یا حکومت نے اس پر سختی سے عمل نہ کروایا تو کورونا پر قابو نہیں پایا جا سکے گا اور اسی طرح کی لہریں آتی رہیں گی۔ اب ہمیں سیکھنا ہے کہ اس پر قابو کیسے پانا ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان میں کورونا کا حال پولیو جیسا ہو جائے کہ تمام ملکوں سے کورونا کا خاتمہ ہو جائے اور ہم سرٹیفکیٹ لے کر دوسرے ممالک جا رہے ہوں۔
جنوری 2021 میں گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق 49 فیصد پاکستانیوں نے ویکسین لگوانے سے انکار کیا تھا، جس کے پیش نظر ضرورت اس امر کی تھی ایک موثر مہم کے ذریعے ویکسین لگوانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔پاکستان میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین مفت لگانے کا سلسلہ تو جاری ہے ہی مگر اب نجی دوا ساز کمپنیاں بھی میدان میں اتر آئی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ویکسین کی جو قیمت مقرر کی گئی ہے اس پر ان کمپنیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔وزارت صحت کے مطابق فارمولا لاگو کرنے کے بعد روسی ویکسین سپٹنک کی دو خوراکوں کی قیمت فروخت 8449 روپے مقرر کی گئی جب کہ چار خوراکوں کی 16560۔ اسی طرح دس خوراکوں کے لیے 40555 روپے جب کہ 20 خوراکوں کے لیے 81110 روپے مقرر کی گئی۔اسی طرح حکومت نے چینی کمپنی کین سائنو کی سیل پرائس مقرر کرنے کی منظوری بھی دی تھی۔
چینی کمپنی کین سائنو کے فی انجکشن کی قیمت 4225 روپے مقرر کی گئی۔وفاقی کابینہ نے ویکسین کی زیادہ سے زیادہ قیمت کا تعین کرنے کی منظوری دی تھی۔حکومتی فیصلے کی روشنی میں ڈریپ نے زیادہ سے زیادہ قیمت طے کرنے کا فارمولا دیا تھا۔ ڈریپ نے عام مارکیٹ میں فروخت نہ کرنے اور صرف پرائیویٹ اسپتالوں اور لیبز میں استعمال کرنے کی شرائط بھی عائد کی ہیں۔ملکی آبادی کی اکثریت غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے، کیا پرائیویٹ سطح پر ویکسین کا حصول انتہائی زیادہ قیمت پر ممکن ہے تو جواب یکسر نفی میں ہے۔
ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان ویکسین کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال کا شکار ملک ہے۔ سال بھر میں تیسری لہر کی آمد نے یہ بتادیا ہے کہ وبا ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ ملک میں اب بھی موجود ہے۔ یہ وائرس رنگ اور ڈھنگ اور روپ بدل کر انسانوں پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ملکی معیشت پر کورونا کے اثرات کی بات کریں تو اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کا منظرنامہ حوصلہ افزا ہے، تاہم خطرات سے پاک نہیں ہے۔ مالی سال2021کے دوران توقع ہے کہ مہنگائی 7تا 9فی صدکی حدود میں رہے گی، تاہم پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے یہ خطرہ پیدا کر دیا ہے کہ مہنگائی کا رجحان ان حدود کی بالائی سطح کی طرف ہو گا۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے جہاں بہت سے شعبے متاثر ہو رہے ہیں وہاں شعبہ تعلیم بھی بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سے تعلیم، معیشت اور صحت کو بہت نقصان ہوا ہے۔ کورونا وائرس کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کی وجہ سے مختلف وقفوں کے بعد تعلیمی ادارے بھی بندکر دیے جاتے ہیں اور اس سے تعلیمی سرگرمیاں بھی معطل کردی جاتی ہیں جس سے طلباء کی تعلیم اور تحقیق میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ بچوں کی حاضری اور ڈراپ آؤٹ کا ہے۔ کئی غریب خاندانوں نے بچوں کو تعلیم سے ہٹا کر کمائی کی طرف لگا دیا ہے اور اس طرح بے شمار نونہال تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں اور اس سے پاکستان کی ترقی کو بھی خطرہ ہے۔ تعلیمی تعطل سے لڑکیوں کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اسکولوںکی بندش اور لاک ڈاؤن کے وقفوں کے دوران اس بوجھ میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان میں آزاد کشمیر اور گلگت سمیت چاروں صوبوں میں ہائی اسکولوں کے ذریعے داخلہ برقرار رکھنے کے لیے لڑکیوںکے وظیفے کے پروگرام موجود ہیں۔ اسکولوں میں لڑکیوں کی واپسی کو امکانات بڑھانے کے لیے ان میںتوسیع کرنے اور وظیفے بڑھانے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی کئی شہروں میں بھی تعلیم تو دی جا رہی ہے لیکن اس میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ابھی بھی بعض شہر ایسے ہیں جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال بہت کم ہوتا ہے اس لیے ان کے لیے بھی موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔بحران سے نمٹنے اور تسلسل برقرار رکھنے کے انتظام کے لیے نئے اہداف کی تائید کے لیے اپنی انفرادی قوت کو دوبارہ سر زد کرنے کی ضرورت ہے۔
بچوں کی حاضری دوبارہ شروع کرنے اور ڈراپ آؤٹ کو کم کرنے کے لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ حکمت عملی کا منصوبہ بنائیں اور اساتذہ، ہیڈ ماسٹرزاور اسکول کے رہنماؤں کے کام کی بھی ضرورت ہے ان کو بھی چاہیے کہ وہ اس میں حصہ لیں اور بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی احتیاط سے کام لیں وہ بھی اپنا حصہ شامل کریں اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔ گزشتہ سال سے مسلسل اور بلاناغہ آن لائن کلاسوں نے والدین کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کردیں ان کی معمولات زندگی میں خاصا خلل پڑا، افسوس اس بات کا ہے کہ اس تمام عرصہ کے دوران زیادہ تر نجی اسکولز باقاعدگی سے ماہانا فیسیں بھی وصول کرتے رہے اور والدین فیس ادائیگی پر مجبور تھے ۔
کورونا کی دوسری لہر پہلی لہرسے زیادہ سخت تھی اس لیے مجبوراً حکومت کو قوم کے معماروں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے اعلان کیا کہ بغیر امتحان کوئی پروموشن نہیں ہوگی۔ بے شک حکومت کا یہ ایک احسن فیصلہ تھا۔ اس وقت تعلیمی اداروں نے امتحانات کی تیاریاں شروع کردی ہیں تو کیا ایسے میں گزشتہ ایک سال کے تعلیمی معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو اسکولز کے طلباء و طالبات سے مکمل نصاب کا امتحان لینا جائز ہوگا؟ دوسری جانب تعلیمی اداروں نے اپنی من مانی شروع کی ہے ان کا مقصد روپیہ، پیسہ حاصل کرنا ہے جب کہ ان کی اس لالچ سے طلباء و طالبات کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگ سکتا ہے اور ان کا تعلیم کے حصول سے دل اچاٹ ہوسکتا ہے، وفاقی وصوبائی حکومتوں کو اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے ساتھ ہی اس بار میدانی علاقوں میں نہم و دہم کے بورڈ امتحانات تین ماہ کی تاخیر سے لیے جائیں گے یوں تمام نجی اسکول اب والدین سے تین ماہ کی اضافی فیسیں وصول کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
اس ضمن میں ضروری ہے کہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو ایک سرکلر کے ذریعے پابند کیا جائے کہ مکمل نصاب کی بجائے مختصر نصاب کے ذریعے امتحانات لیے جائیں اور امتحانات میں طلباء و طالبات کے ساتھ خصوصی رعایت کی جائے اس طرح تین ماہ کی اضافی فیس کی وصولی بھی روک دی جائے۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ حکومت کو شعبہ صحت پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، اگر یہ کہا جائے کہ یہ دونوں شعبے لازم وملزوم ہیں تو بے جا نہ ہوگا، صحت مند تعلیم یافتہ قومیں ترقی کی بام عروج پر پہنچتی ہیں۔سال بھر کی بندشوں اور رکاوٹوں کے بعد ملکی معیشت کی گاڑی کا ہموار راستے پر گامزن ہونے کا آغاز ہوا ہی تھا مگر تیسری لہر نے ایک بار پھر خوف اور خطرے کی چادر تان لی ہے۔یہ لہر قابو سے باہر ہوتی ہے تو مکمل لاک ڈاؤن کے حالات دوبارہ پیدا ہو سکتے ہیں۔ایسا ہوتا ہے تو اس بار بھی رمضان المبارک روکھے پھیکے انداز میں گزرسکتا ہے۔اس ساری صورت حال میں عوام پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے،وہ ایس اوپیز پر عمل کر کے اس وبا ء کو بے قابو ہونے سے بچا سکتے ہیں۔وبا ء کا زور کم ہوگا تو مکمل لاک ڈاؤن کی نوبت بھی نہیں آئے گی اور یوں زندگی کا پہیہ رواں رہ سکے گا۔
The post بے احتیاطی کورونا ختم ہونے نہیں دے گی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31pWcOP
via IFTTT
No comments:
Post a Comment