ایک زمانہ تھا جسے ہم انیس کی دہائی کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت نیٹو اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی جنگ کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ اور دیگر علاقوں میں عملی جنگ شروع کر رکھی تھی۔ یہاں تک کہ برصغیر میں بھی دائیں اور بائیں بازوکے مابین زبردست کشمکش ہو رہی تھی۔
پھر ایک ایسا بھی وقت آیا جب سوویت یونین کے وزیر اعظم خروشچیف اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے مابین عالمی نیوکلیائی جنگ سر پر آن پہنچی تھی جسے عالمی مدبروں، دانشوروں کی کوشش سے روکا گیا۔ جس میں برٹرینڈ رسل پیش پیش تھے۔ یہ جنگ تسلسل سے جاری تھی۔ مگر سوویت یونین سے کمیونسٹ پارٹی کے مابین فکری اور نظری اختلافات پھیلتے گئے۔
یہاں تک کہ روس اور چین کے مابین جو عالمی اتحاد تھا اس پر بھی اختلاف پیدا ہو گیا۔ سوویت یونین کے دانشوروں کے بدلتے نظریات اور مشینی تبدیلی کی بنیاد پر جو فیصلے کیے گئے اس کو ماؤزے تنگ نے مارکسی نظریات سے انحراف قرار دے دیا (حالانکہ فی الوقت چین انھی نظریات سے گزر رہا ہے۔)
روس اور چین کے نظریاتی اختلاف سے پوری دنیا میں پارٹیاں دو حصوں میں بٹ گئیں۔ یہاں تک سن اڑسٹھ ستر میں طلبا بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے بعدازاں مزدور کسان تحریک بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ انھی نظریاتی اختلافات کی خلیج نے ایک ایسا وقت بھی دیکھا جب موجودہ انقلاب بھی مباحثے کا شکار ہو گیا۔ افغانستان میں اس کا اثر شدید ترین ہوا۔ کیونکہ پارٹی تین دھڑوں کی تاب نہ لاسکی اور دشمنوں کے مقابلے میں شکست کھا گئی۔ کیوبا اور لاطینی امریکا کے ممالک اس نظریاتی جنگ سے بہت دور تھے اور انھوں نے اپنے اندر تقسیم کے اثرات کو آنے نہ دیا۔
افغان انقلاب کی شکست کے بعد دس سال سے زائد عرصے تک کسی نئے عوامی انقلاب کا خواب نہ دیکھا جا سکا۔ حتیٰ کہ سوویت یونین بھی لخت لخت ہو گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد سوویت یونین نے روس کی شکل میں سامراجی ملکوں سے پنجہ آزمائی شروع کی۔ روس اور امریکا اب اپنے اپنے اتحادیوں کو اپنے پروں میں سمیٹے نئے نظریاتی اتحاد بنا رہے ہیں۔
مگر اس کا عوامی انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ جو حکومتیں روس کی پشت پناہی میں ہیں زیادہ تر وہ قوم پرست حکومتیں ہیں۔ ان حکومتوں میں دنیا کے کئی ممالک شامل ہیں۔ درمیان میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب شام کی حکومت کو امریکا نے معزول کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا اور مذہبی انتہا پسند قوتوں کو شام کے خلاف متحدہ جنگ کرنے کا اعلان کر دیا اور ان کی پشت پناہی بھی شروع کر دی جس کے نتیجے میں عرب دنیا میں دھڑے بندیاں ہونے لگیں۔
شام اور سعودی عرب براہ راست ’’پراکسی وار‘‘ کے تصادم میں چار برس تک مد مقابل رہے اور دونوں کو زبردست جانی اور مالی نقصانات ہوتے رہے مگر ایک وقت ایسا آیا جب روس براہ راست شام کی مدد کو آن پہنچا۔ جس سے داعش کو سخت نقصانات اٹھانا پڑے۔ جب کہ عراق میں داعش کو مقتدا صدر اور آیت اللہ سیستانی کے سرفروشوں نے زبردست شکست دے دی۔ادھر سعودی عرب میں آزاد خیال قیادت نے سر اٹھایا اور وہ امریکا کے مزید قریبی ساتھیوں میں سے ہے۔ مگر دوسری جانب امریکا اور نیٹو کے قریبی ساتھی اردگان کے مابین نظریاتی اختلافات جنم لینے لگے۔
آج سے تقریباً سال بھر پہلے ایک ایسی گھڑی بھی آئی جس میں اردگان کے خلاف نیٹو اور مقامی فوج نے بغاوت کی مگر اردگان کے حامی فوجی اور عوام نے اس بغاوت کو پسپا کر دیا۔ اس طرح اردگان کو زبردست فوجی اور سیاسی قوت حاصل ہوئی اور اردگرد کے چھوٹے ممالک ترکی کی طرف دیکھنے لگے۔ان میں سے قطر ایک ایسا ملک ہے جس نے ترکی سے تعلقات مزید مستحکم کرنا شروع کر دیے اور سعودی عرب سے منہ موڑنا شروع کر دیا۔ گوکہ سوویت یونین اور اس کا اتحادی پارٹنر ’’وارسا پیکٹ‘‘ تو ختم ہو گیا مگر مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک نے روس سے سیاسی اور عسکری تعلقات مستحکم کرنے شروع کر دیے۔
ان نئی دھڑے بندیوں میں اب ذرا سا غورکریں تو معلوم ہو گا کہ امریکا کے ساتھیوں میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نمایاں ہیں، جب کہ دوسری جانب ایران، شام، نصف لبنان اور کسی حد تک عراق اور ترکی امریکی مخالف دھڑے بندی کے اہم ستون ہیں۔
عراق کا نام اس وقت اس نئی دھڑے بندی میں امریکا مخالف پینل میں اس لیے لکھنا پڑا کیونکہ اکثر ’’آرامکو فیسلٹی‘‘ حملے میں ڈرون کو جہاں سے حملہ کرتے ہوئے بتایا گیا ان کے خیال میں عراق یا یمن کی سرزمین کو مشتبہ قرار دیا گیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ مڈل ایسٹ جنگی صورتحال میں دو مخالف قوتوں کی سرزمین بن گیا۔ اس کا بین ثبوت سولہ ستمبرکو انقرہ کے سہ فریقی اعلان میں نمایاں ہو گیا۔
انقرہ میں جو ترکی کا دارالسلطنت ہے وہاں سہ فریقی اہم ترین پریس کانفرنس کا اعلان ترکی، روس اور ایران نے کیا جس میں طیب اردگان نے بہ حیثیت ترکی کے صدرکے روس اور ایران کوکئی سہولیات فراہم کیں جن میں روس کو شام جانے کے لیے ترکی کی سرزمین استعمال کرنے کو قانونی اور جائز قرار دیا۔
اس طرح ماضی کا ترکی جو امریکا کا دست راست تھا وہ موجودہ دور میں روس کے ہمنواؤں کی صف اول میں شامل ہو گیا۔ گو کہ اس پریس کانفرنس کا پاکستانی میڈیا میں چرچا نہ کیا گیا مگر مغربی دنیا اور اس کے اتحادیوں نے اس خبر کی نمایاں حیثیت سے تشریح کی۔ ظاہر ہے ایران سے براہ راست ترکی کا عسکری سفر دنیا کے لیے باعث حیرت بن گیا اور یہ ایک نئی مضبوط اور سیاسی قوت کا نمایاں مظاہرہ تھا۔
جس نے یہ ثابت کر دیا کہ کسی بھی جنگی صورتحال میں ایران کے ساتھ روس اور ترکی کھڑے ہیں۔ ترکی کوئی طیب اردگان کے دور سے نیٹو میں شامل نہیں بلکہ یہ ابتدا سے ہی امریکی اتحادی تھا۔ لیکن رجب طیب اردگان نے ایسا لگتا ہے کہ وقت، سفر اور راستوں کی پیمائش کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ قریبی دوستوں سے روابط رکھنا عملی طور پر ہزاروں میل دور کے دوستوں پر انحصار کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
اب اس کے فوائد محض ترکی کو نہیں بلکہ شام اور ایران کو بھی حاصل ہوں گے۔ ایران سے ترکی تک تیل کی رسد دونوں ملکوں کے لیے ایک تجارتی خزانے سے کم نہیں۔ حالانکہ انھی دنوں آرامکو پر حملے کے بعد امریکا نے ایران کی معاشی ناکہ بندی میں اضافہ کر دیا۔
لیکن ایران معاشی طور پر ڈالر کے دباؤ کا مریض نہیں۔ اسے وہاں سے روس اور چین تک کی مارکیٹ حاصل ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ کہنا تو درست نہ ہو گا کہ امریکی دباؤ کا اثر ایران پر بالکل نہ ہو گا۔ لیکن جو اہداف امریکا حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اہداف یقینا حاصل نہ ہوں گے کیونکہ اس معاہدے نے ایران کو ایک نیا رخ عطا کر دیا۔ لہٰذا ہم یہ باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ مشرق اوسط میں فی الوقت کسی بڑی جنگ کا امکان نہیں ہے۔ اور نیا سہ فریقی اتحاد اس جنگ کے مخالف پلڑے میں اضافی وزن کا باعث ہو گا۔ کیونکہ روس کی شراکت نے شام کو بحفاظت بچا لیا تو نئی صورتحال ایران کے حق میں بھی مثبت کردار ادا کرے گی۔
The post نیا سہ فریقی اتحاد appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nzZuy6
via IFTTT
No comments:
Post a Comment