ریاض: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اگرسعودی حکومت کے اہلکارکسی سعودی شہری کے خلاف کوئی جرم سرزد کرتے ہیں تو میرے پر اس جرم کی پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سعودی ولی نے امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کے پرواگرام سکٹی مینٹس میں انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ میں نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم نہیں دیا لیکن سعودی حکومت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے میں قتل کی پوری ذمہ داری لیتا یوں، اگرسعودی حکومت کے اہلکار کسی سعودی شہری کے خلاف کوئی جرم سر زد کرتے ہیں تو میرے پر اس جرم کی پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ میں پوری کوشش کررہا ہوں اور اسکے لئے اقدامات بھی کررہا ہوں کہ جمال خاشقجی کے قتل جیسا واقع دوبارہ سرزد نہ ہو ، یہ ناممکن ہے کہ مجھے سعودی سلطنت کیلئے کام کرنے والے 30 لاکھ افراد کی روزانہ کی بنیاد پررپورٹ ملے جن افراد پر جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے، اگر وہ ثابت ہوا توانہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
اس خبرکو بھی پڑھیں: جمال خاشقجی میرے دور میں قتل ہوا ذمہ داری قبول کرتا ہوں، سعودی ولی عہد
سعودی ولی عہد نے کہا کہ جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں اور الزام ثابت ہونے پرملزمان کو انکے سعودی حکومت میں دیئے گئے عہدے کی پرواہ کئے بغیر سزار دی جائے گی۔ اس بات کا کوئی پختا ثبوت نہیں ہے کہ میرے قریبی افراد نے جمال خاشقجی کا قتل کیا ہے۔
سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ابھی الزامات کی تحقیقات جاری ہیں سعودی حکومت ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس واقع نے بہت دکھ پہنچایا، اگر سی بی آئی کو اپنی تحقیقات کے مطابق لگتا ہے کہ میں نے ذاتی طور پر جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تو انہیں تحقیقات کو عوام کے سامنے لانا چاہیئے، امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات جمال خاشقجی کے قتل سے خراب نہیں ہوسکتے، ہمارا تعلق اس واقع سے بالاتر ہے، ہم دان رات کام کر رہے ہیں تاکہ ہمارا مستقبل ماضی سے بہترہو۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 2 اکتوبرکو واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگاراورسینئر سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی سفارتخانے میں قتل کردیا گیا تھا، اس قتل کے تانے بانے ولی عہد محمد بن سلمان سے جوڑے جارہے تھے جب کہ سعودی حکام نے قتل کی ذمہ داری آپریشن کرنے والے حکام پر ڈالی تھی اور اس سلسلے میں کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ٹرائل بھی کیا جارہا ہے۔
The post میں نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم نہیں دیا، سعودی ولی عہد appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mf3uE4
via IFTTT
No comments:
Post a Comment