یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جب کہیں سے جمے ہوئے کوڑے کرکٹ اورکچرے کے ڈھیروں کو ہٹایا جاتا ہے تو نیچے سے چھوٹے بڑے حشرات الارض نکل کر بھاگتے ہیں۔ ان میں کچھ خوشنما مگر زہریلے ہوتے ہیں اور کچھ بہت ڈراؤنے مگر غیر زہریلے ہوتے ہیں۔
کنکھجورے، بچھو ،کاکروچ ، سانپ ،چوہے اور بہت سے چھوٹے بڑے گندگی کے مکیں۔ جتنا بڑا ڈھیر ہٹایا جاتا ہے ، اتنے ہی زیادہ اس قسم کے حشرات برآمد ہوتے ہیں اور وقتی طور پر افراتفری پھیلا کر اپنی موت آپ مرجاتے ہیں اورکچھ پھرتیلے قسم کے حشرات بچ نکلنے میں کامیاب ہوکرکہیں بلوں ، رخنوں اورکچرے کے دوسرے ڈھیروں میں گھس کر وقتی پناہ حاصل کرلیتے ہیں لیکن جلد یا بدیر پھر دوبارہ ان کی باری آجاتی ہے اور یہ پھر سے افراتفری کا شکار ہوکر جانیں بچاتے پھرتے ہیں۔
یہ حشرات طبعی طور پرگندگی اور اندھیرے کے دلدادہ ہوتے ہیں انھیں سڑاند اور غلاظت بہت بھاتی ہیں اور یہ وہیں سکون محسوس کرتے ہیں۔ روشنی صفائی اور پاکیزگی ان کے لیے موت جیسی ہوا کرتی ہے اور یہ ان چیزوں سے بہت گھبراتے ہیں۔
وطن عزیز میں بھی آج کل کچھ ایسی ہی صورتحال کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ کرپشن اور بد عنوانیوں کے جمے ہوئے بڑے بڑے پہاڑ جیسے ڈھیروں کو ہٹایا جا رہا ہے تو طرح طرح کے فرنٹ مین قسم کے حشرات الارض نکل کر خوب افراتفری پھیلا رہے ہیں اور وہ جو کہتے ہیں نا کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں تو ہمارے حشرات الارض نے اسے ہزاروں تک پہنچا دیا ہے۔
یعنی سو جھوٹ تو پرانی بات ہوئی اب تو جھوٹ ہزاروں طور اور طریقوں سے اتنا بولا اور پھیلایاجا رہا ہے کہ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے یعنی گوئبلزکا وہ قول کہ اتنا جھوٹ بولوکہ لوگ سچ سمجھ بیٹھیں۔ ہر فورم پر ہر سطح پر ہر لحاظ سے ہر ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہ کسی طرح سے بھی چاہے کتنی ہی کمائی ہوئی حرام کی دولت خرچ ہوجائے موجودہ حالات سے باہر نکلا جائے نجات حاصل کی جائے پھر دولت کا کیا ہے وہ تو دوبارہ کما لیں گے۔
کرپشن اور بدعنوانی کے اس وسیع اور عمیق نظام بد کے ڈانڈے صرف ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح تک جا ملتے ہیں۔ یہ اصل میں دائروں کی شکل کا نظام ہے۔ جیسے مثلا آپ پرکار لے کر بیٹھیں اور بڑی سی کاغذ کی شیٹ پر مرکز بناکر ایک سینٹی میٹر قطرکا دائرہ بنائیں اور پھر مرکز برقرار رکھتے ہوتے اس سے بڑا دو سینٹی میٹر اور پھر اسی طرح بڑھا کر دائرے بناتے جائیں تو بات کھلے گی کہ یہ سب سے چھوٹا دائرہ عوامی سطح یعنی عام سے لوگوں کی چھوٹی موٹی کرپشن جس سے روزمرہ کی عام آدمی کی زندگی میں سب ہی گزرتے ہیں۔
مثلا کرایہ زیادہ لے لیا، چھوٹی موٹی نوسر بازی ہوگئی وغیرہ، پھر اگلادائرہ سرکاری محکموں میں ہونے والی کرپشن کا، اس سے اگلا عوامی خدمت کے شعبوں میں ہونے والی بد عنوانی مثلا تعلیم ، طب ، انصاف وغیرہ کے شعبوں میں، اس سے بڑا دائرہ انڈسٹریز اورکارپوریٹ لیول کی کرپشن کا، اس سے بڑا دائرہ دانشورانہ اور انٹلکچوئل کرپشن کا جس کے نتائج ذہنی غلامی پر منتج ہوا کرتے ہیں، پھر با اختیار سیاسی نمایندوں کی شہری، صوبائی اور ملکی سطح پر ادارہ جاتی کرپشن اور بد عنوانی کا دائرہ پھر اعلیٰ ترین سطح پر اخلاقی اور مالی کرپشن والا دائرہ اور پھر اس عالمی کرپٹ برادری کا بین الاقوامی سطح کا بہت بڑا دائرہ۔ اور ان سب کا مرکز ابلیسیت اور نفسانیت ہے اور یہ سب دائرے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان سب کے اثرات ایک دوسرے پر پڑتے ہیں۔
بین الاقوامی کرپشن کے نظام کے تقویت دہندگان کو ابتری، افراتفری اور جہالت و وحشت اور خوف کا ماحول بہت بھاتا اور راس آتا ہے اور اپنے دائرے کی سطح پر ان کی کوشش یہی رہتی ہے کہ یہی ماحول بنا رہے اور ان سے نیچے یعنی ملکی سطح کے دائرے والے بھی اسی فلاسفی پر عمل کرتے ہیں۔ اور یوں یہ ٹریکل ڈاؤن ایفکٹ نیچے تک جاتا ہے۔
ان دائروں کی ایک عملی شکل اور بہترین مثال ہم مکڑی کے جال میں بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں اس کا بھی بالکل ایسا ہی نظام ہوتا ہے۔ یہ مکڑی کے جال جیسا عنکبوتی دائروی نظام دور سے جتنا ہیبت ناک دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت اتنا ہی کمزور ہوا کرتا ہے اور ذرا سا منہ پرکپڑا باندھ کر جھاڑوکی مدد سے اسے صاف کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح یہ ابلیسی عالمی نظام بد ہے جس کا سب سے بڑا ہتھیارکرپشن اور بد عنوانی کا فروغ ہے اور بعض اہل باطن روشن ضمیر حضرات کو یہ کہتے سنا کہ جس دن صرف چند صاحب ایمان تقویٰ کا لباس پہن کر جہاد کی جھاڑن سے ان مکڑی کے جالوں کو صاف کرنے کا تہیہ کرکے نکلیں گے۔ اللہ تعالی اس سارے انسان دشمن ابلیسی نظام کو انڈے کے چھلکے کی طرح توڑ کر دکھا دے گا جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ متعدد بار دکھایا گیا ہے، لیکن شاید ابھی ایسے اس معیار اور اعلیٰ سطح کے صاحب ایمان مجاہدین کو بوجوہ ابھی عالمی سطح کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔
بہرحال وطن عزیز میں اب اس بات کا تہیہ کر لیا گیا ہے کہ کرپشن کسی صورت برداشت نہیں ہے اور ملک و قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والوں کو کسی بھی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔ اور ہر طرح کی کرپشن کے سارے نظاموں کو جڑ سے اکھاڑنے کا یہ عمل جاری و ساری ہے اور رہے گا اور پاکستان میں پیش آمدہ اس صورت حال نے کرپشن و بد عنوانی کے سب سے بڑے عالمی دائرے کے مکینوں اور سرپرستوں کو بھی مضطرب و پریشان کر دیا ہے کہ ایک کرپشن فری طاقتور اور خوشحال پاکستان ان کے بین الاقوامی استحصالی منصوبوں میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔
چنانچہ وہ بھی اپنے ملکی گماشتوں کو بچانے کے لیے متحرک ہوگئے ہیں اور اپنے سارے حربے ایک ایک کرکے آزما رہے اور پیچھے بیٹھے بین الاقوامی اداروں کی ڈوریاں ہلا رہے ہیں اور جو کچھ بھی عالمی سطح پر پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے اور دیگرکئی بڑے معاملات میں جو غیر یقینی اور الجھی ہوئی صورتیں پیدا کی جا رہی ہیں یہ سب اسی کی کڑیاں ہیں اور ایک ماسٹر پلان کے مختلف مرحلے ہیں۔
وہ ہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ ان کے بندے اور چیلے کسی بھی طرح سے بچ جائیں تاکہ انھیں اور ان کے بچے کچے ساتھیوں کو حوصلہ ملے کہ کتنی ہی بڑی کرپشن کرلوں آخر کار بچت تو ہو ہی جاتی ہے اور آیندہ کے لیے بھی معاملہ ہموار رہے اور اپنے مستقبل کے پنٹر مختلف اداروں اور جگہوں پر بٹھانے میں آسانی رہے۔
یاد رکھیں !کرپشن کے خلاف حالیہ جنگ پاکستان کے لیے دہشت گردی کی جنگ سے بھی زیادہ اہم ہے اورکرپشن یا بد عنوانی کے ظلم کے خلاف یہ سب سے بڑا جہاد کیا جارہا ہے لیکن ہم میں سے بہت سے سمجھ دار لوگ جن کی نیت اور اہلیت پر بھی کوئی شک نہیں کیا جاسکتا اور جو اپنے اپنے شعبوں کے بڑے نیک نام اور قابل افراد تصورکیے جاتے ہیں نہ جانے کیوں دبی دبی سی مخالفانہ اور مایوسانہ آوازیں بلند کرنے لگے ہیں اور جانے انجانے میں ان لوگوں کی حمایت کرنے لگے ہیں جو کرپشن کے اس نظام بد کے بڑے عامل ، داعی اور تقویت دہندگان تھے اور اب اپنے اعمال کی مکافات کا مزہ چکھ رہے ہیں۔
بہرحال سب کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے لیکن حشرات الارض کی پھیلائی ہوئی ابتری اور افراتفری سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ معاملات اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں اوربہت سی اچھی بلکہ بہت اچھی خبریں آنے والی ہیں۔
The post بین الاقوامی حشرات الارض appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2n0AUGt
via IFTTT
No comments:
Post a Comment