وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں تاریخی خطاب کیا۔ انھوں نے پاکستان ، مسلم امہ سمیت دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں اور انسان دوستوں کے جذبات اور امنگوں کی فاتحانہ ترجمانی کی، بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا اور کشمریوں کے حق خودارادیت اور ان کے خلاف مودی کی بربریت کا کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔
سفارتی ذرائع اور سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ انھوں نے گزشتہ کئی برسوں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںپہلی بار کسی وزیراعظم کی مدلل ،سنجیدہ اور ٹو دی پوائنٹ تقریر سنی جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخی خطاب نے کشمیریوں کے مستقبل کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے کے قریب کردیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نسل پرستانہ، متکبرانہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں، ہم جنگ کے حامی نہیں لیکن جنگ چھڑی تولاالہ الا اللہ پر یقین رکھتے ہیں، آخری وقت تک لڑینگے،دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے اثرات نہ صرف خطہ بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 80لاکھ کشمیری 55 دنوں سے محصور، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے معطل ہیں،اگر خونریزی ہوئی تو اسلام پسندی نہیں، انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ہوگی۔ گزشتہ 30 سال میں ایک لاکھ کشمیری حق خود ارادیت کی جدوجہد میں شہید ہو چکے ہیں۔ دنیا کشمیری بچوں، عورتوں اور افراد کو محصور کرنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کر رہی؟ دنیا کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کشمیر میں انصاف یا سوا ارب لوگوں کی مارکیٹ کو دیکھیں گے ؟یہ سوال ہنڈریڈ ملین ڈالر کا ہے، اور عالمی برادری کی ساکھ اور اس کے منصب کے حوالہ سے اہم تریں سوال ہے۔ عالمی سفارت کاری کے لیے اس سوال سے بچنا محال ہے۔ اسے کشمیر کا مسئلہ حل کرناہوگا۔ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹرفیصل نے کہا کہ عمران خان نے مسلم امہ کی حقیقی ترجمانی کی،ان کی تقریر یاد رکھی جائے گی۔
جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ کرفیو کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مابین خونیں تصادم کا خطرہ ہے۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنا ہو گی، کرفیو اٹھانا ہوگا اور اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دلانا ہوگا، اگر ہمارے اوپر جارحیت مسلط ہوئی تو دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ ہم کشمیریوں کی حق آزادی اور خود مختاری کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی آر ایس ایس کے رکن ہیں جو کہ ہٹلر اور مسولینی کے نظریئے پر چلتی ہے، یہ نظریہ مسلمانوں اور عیسائیوں سے نفرت انگیز برتاؤ کرتا ہے ۔ نفرت پر مبنی اسی بیانیہ نے مہاتما گاندھی کی بھی جان لی، مودی نے آر ایس ایس کو گجرات میں تین دن مسلمانوں کے قتل عام کی اجازت دیے رکھی تھی، اس وقت وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے، اس واقعہ کے باعث ان پر امریکا آنے پر بھی پابندی لگی۔ اب مقبوضہ کشمیر میں بیمار برزگوں، بچوں اور خواتین کو جانوروں کی طرح قید میں رکھا گیا ہے۔
دنیا سوچے کہ کشمیر میں خونریزی کا کشمیری باشندوں پر کیا اثر ہوگا؟ جب وہاں کرفیو ختم ہوگا تو کیا صورتحال ہوگی؟ کیا بھارت میں موجود کروڑوں مسلمان یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہے؟ 80 لاکھ مسلمان 5 اگست سے اب تک وہاں کیسے جی رہے ہیں؟ دنیا اس معاملے پر کیوں خاموش ہے؟ اگر اسی لاکھ یہودی اس طرح اتنے دنوں سے محصور ہوتے تو کیا ہوتا؟ عمران خان نے اقوام متحدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت عملی اقدام اٹھانے اور اقوام متحدہ کی آزمائش کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے بھارت فوری طور پر کشمیر میں گزشتہ 55 روز سے نافذ کرفیو ختم کرے۔13 ہزار کشمیریوں کو رہا کرے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے سفارتی و تجارتی سطح پر اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن بھارت بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ بھارت پاکستان کوایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی سازش کررہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے 1989ء میں سویت وار اور نائن الیون کے بعد امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی حالانکہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا۔ ہمارے 70 ہزار فوجی اور شہری اس جنگ میں شہید ہوئے۔ انھوں نے کہا میں نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ اس دنیا میں کوئی ریڈیکل اسلام نہیں، صرف ایک اسلام ہے جو ہمارے نبی ﷺ لے کر آئے،دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، مغربی رہنماؤں کی متضاد باتوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مغرب میں پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔اسلامو فوبیا کا تصور مغرب کا اپنا پیدا کرتا ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں کو کیسے انتہا پسند اور دہشت گرد کہا اور سمجھا جا سکتا ہے۔نائن الیون کے بعد دنیا میں اسلامو فوبیا بہت تیزی سے پھیلایا گیا، اس سے تفریق پیدا ہوئی۔
مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی توہین کی کوشش مسلمانوں کے لیے بہت بڑا معاملہ ہے جس طرح ہولوکاسٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے تو یہودیوں کو برا لگتا ہے یہ آزادی اظہار رائے نہیں دل آزاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں امریکی اور مغربی ممالک نے فنڈنگ کی اور پاکستان نے تربیت دی جس کے بعد افغانستان کے لوگوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی اور اسے جہاد کا نام دیا گیا۔ جب سوویت یونین کے افغانستان سے جانے اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے کے خلاف افغانوں نے جنگ لڑی تو اسے دہشتگردی کا نام دیا گیا۔نائن الیون سے قبل زیادہ خودکش حملے تامل ٹائیگرز نے کیے جو ہندو تھے لیکن کسی نے ہندوئوں کو انتہاء پسند نہیں کہا، اسی طرح جاپانی پائلٹوں نے بھی دوسری جنگ عظیم میں خودکش حملے کیے۔
وزیراعظم عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے غریب ملکوں سے کرپشن کی رقم امیر ملکوں میں منتقل کرنے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک سے حکمرانوں ‘ طاقتور طبقے اور اشرافیہ کی کرپشن کی رقوم ترقی یافتہ ملکوں میں منتقل کی جاتی ہے وہ وہاں مہنگی جائیدادیں خریدتے ہیں اور بینک اکائونٹس میں پیسے رکھتے ہیں ، اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان ممالک کو یہ رقوم واپس کرنا ہوں گی جہاں سے یہ لوٹی گئیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذکرکرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کا ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں میں حصہ انتہائی کم ہے لیکن وہ اس کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ۔پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہے جنھیں سب سے زیادہ نقصان کا سامنا ہے۔ ہمارا زرعی ملک ہے اور اس کا زیادہ انحصار دریائوں پر ہے جن میں 80 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے، یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بڑی آفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے، اب ہمارا ہدف پورے ملک میں 10 ارب درخت لگانے کا ہے۔
وزیراعظم نے اپنے فی البدیہہ خطاب میں جو کچھ کہا وہ ان کے اور عالم اسلام کے دل آواز تھی۔مایوسی میں ڈوبے بھارتی مندوبین اب اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ عمران کو پندرہ منٹ کے بجائے 45 منٹ کیوں ملے؟ ادھر اہل کشمیر کے لیے عمران کا خطاب بہار کا ایک جھونکا اور امید کی کرن ثابت ہوگا۔ انشااللہ۔
The post عمران خان کا جنرل اسمبلی میں تاریخی خطاب appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2lVNHK2
via IFTTT
No comments:
Post a Comment