سردار عثمان بزدار حالت جنگ میں ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ انھیں پنجاب میں اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کی اپوزیشن تحریک انصاف ہے۔
تحریک انصاف کا ہر وزیر، ہر لیڈر محسوس کرتا ہے کہ اگر عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں بن سکتا۔ اس احساس کے ساتھ وہ خود وزیر اعلیٰ بننے کی کوششیں شروع کر دیتا ہے۔ عثمان بزدار کے خلاف اب تک تمام سازشیں تحریک انصاف کے اندر سے ہوئی ہیں۔ تحریک انصاف میں ان کے لیے حسد زیادہ ہے۔
میڈیا میں بھی یہی صورتحال ہے، تحریک انصاف کے حامی صحافی بھی ان کے حق میں نہیں لکھ رہے جب کہ اپوزیشن کے حق میں لکھنے والوں کے پاس تو عمران خان کے خلاف لکھنے سے فرصت ہی نہیں۔ تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے اپنی غیر جانبداری ظاہر کرنے کے لیے عثمان بزدار کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں، جیسے تحریک انصاف کی اب تک کی تمام ناکامیوں کی وجہ عثمان بزدار ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ مہنگائی سمیت تمام بڑی ناکامیوں میں عثمان بزدار کا کوئی ہاتھ نہیں۔ حتیٰ کہ اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو ڈنگی میں بھی عثمان بزدار نہیں بلکہ یاسمین راشد کی ذمے داری زیادہ ہے۔
عثمان بزدار کے علاقے سے عمران بلوچ نے ایک خط موصول ہوا ہے، اس کے دلائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لکھتے ہیںکہ :
سردار، بلوچ اور قبائلی کے لفظ سے ہمارا شہری سماج بہت الرجک ہے۔ یہ لفظ سنتے ہی ان کے دماغ میں جو تصور ابھرتا ہے وہ بہت ہی نامناسب اور تعصب پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ غیر مقامی حکمران طبقے کا وہ پرانا وتیرہ ہے جس کے پیچھے ان کے حق حکمرانی کا جواز چھپا ہوتا ہے۔ وہ جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگنڈے کے ذریعے زمیندار اور مقامی افراد پر پسماندگی، ظلم و جبر اور کم عقلی کی تہمتیں لگا کر اس کو کمزور اور بے وقعت کرتا ہے تا کہ اپنے اقتدار کی رسی کو مضبوط اور لمبا کھینچا جا سکے۔
یہ طریقہ بہت پرانا ہے، جب کرسٹوفر کولمبس نے چودھویں صدی عیسوی کے آواخر میں امریکا کو دریافت کیا تو وہاں کے اصل باشندوں جن کو ریڈ انڈینز کے نام سے جانا جاتا ہے جو بہت ہی پر امن انسان تھے، ان کو بد تہذیب اور گنوار کہہ کر اپنے وسائل سے بے دخل کر دیا گیا اور یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں آگے چلتا ہوا جب برصغیر میں پہنچا تو اس وقت کی استعماری طاقت کالونیلزم کی شکل میں یہاں پر مسلط ہوئی تو انگریزوں نے مقامی اور ہنر پیشہ افراد کے خلاف یہی پالیسی اپنائی اور ان کو سماجی اور اخلاقی طور پر پست ثابت کرنے کے لیے عجیب و غریب کہانیاں گھڑیں۔آج بھی وہی پرانے قصے پراپیگنڈے کی شکل میں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔
جیسے کپڑے کی صنعت سے وابستہ جولاہے جسے یہاں پاؤلی کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں بے تحاشا جھوٹی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔اس سے ملتی جلتی کہانیاں آ جکل ایک مقامی زمین زادے اور پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے حوالے سے سننے کو ملتی ہیں۔ یہ کون کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہیں، یہ استعماری ہتھکنڈہ کئی صدیوں سے زمین زادوں کے خلاف جاری ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے کہ عثمان بزداراہل نہیں ہے کہ وہ اتنے بڑے صوبے کا انتظام و انصرام سنبھال سکے۔
یہ تاثر ایک خاص طبقہ دے رہا ہے جن کے مفادات اس ایلیٹ کلاس سے جڑے ہوئے ہیں جو کئی دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے ۔ جنھوں نے مصنوعی اور غیر پائیدار ترقی کے ذریعے اس دھرتی کے وسائل کو لوٹاجس کی وجہ سے پسماندہ علاقوںکے لوگوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی۔اس المیئے کے بیچ جب کوئی عثمان بزدار جیسا سادہ طبیعت اور اسٹیٹس کو سے غیر مانوس آدمی وزیر اعلی کے منصب پر پہنچتا ہے تو طبقاتی سوال ایک بھیانک شکل میں ابھر کر ہماری نا ہموار سوسائٹی کی وہ تصویر سامنے لا کھڑی کرتا ہے جو بہت ہی بد صورت ہے۔ پھر بڑے بڑے تجزیہ نگار بھی ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے سے جس طرح عثمان بزدار پر سطحی قسم کی بیان بازی کی جا رہی ہے وہ اسی تعصب کی غماض ہے جس کا رجحان صدیوں سے یہاں کے اصل زمین زاد کے ساتھ حملہ آور حکمرانوں کا رہا ہے۔
عثمان بزدار کا قصور یہ ہے کہ وہ سادہ ہے، صاف دل ہے، کم بولتا ہے کام پر زیادہ توجہ دیتا ہے، دروغ گوئی اور بے بنیاد پراپیگنڈے کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر وسائل کو پسماندہ اور غریب علاقوں پر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
عثمان بزدار کا بس یہی قصور ہے کہ وہ اس مٹی سے جڑا، اس دھرتی کا اصلی باشندہ ہے جس کا اس ملک سے باہر کوئی بزنس نہیں ہے، کوئی گھر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی جائیداد ہے جو ان سے پہلے حکمران تھے ان کی ہیں۔
عثمان کا قصور یہی ہے کہ وہ عام۔ لوگوں سے ملتا ہے، ان کی بات سنتا ہے، ان کے مسائل حل کرتا ہے جو وہاں پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، جہاں ان کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔
آپ خط کے مندرجات سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر اس ملک کے عام آدمی کو اس ملک کا حکمران بننے کا اختیار ہے تو عثمان بزدار کو بھی ہے۔ سوال کارکردگی کا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ کارکردگی پر بغیر کسی تعصب کے بات ہونی چاہیے۔ عثمان بزدار کو اپنی ایک سال کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھنی چاہیے۔ تمام وزارتوں کی کارکردگی بھی عوام کے سامنے رکھنی چاہیے۔ وہ وزرا جو ایک سال میں اپنی وزارت میں دھیلے کا کام نہیں کر سکے ان کی بھی بات ہونی چاہیے۔ وزیر صحت کی کارکردگی کی بات ہونی چاہیے۔ وزیر تعلیم کی کارکردگی کی بات ہونی چاہیے۔
لیکن سب کی نا اہلی کا ملبہ عثمان بزدار کے سر نہیں ڈالا جا سکتا۔ پتہ نہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کیے بڑے عثمان بزدار کے ساتھ سوتیلے بھائی والا سلوک کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کے ارد گرد بھی برادران یوسف کا ایک جم غفیر ہے۔ اب نئی کہانی شروع کی گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انھیں بدلنا چاہتی ہے۔ میری رائے میں جو یہ کہہ رہے ہیں وہ اس حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کرانا چاہ رہے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کو اس لڑائی میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک سال میں متعدد کوششیں کرنے کے بعد اب وہ اپنی ناکامی کو اسٹیبلشمنٹ کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شائد ان کی یہ حرکت عمران خان کو بھی پسند نہیں آئی ہے۔ جس کا اظہار وہ کر بھی چکے ہیں۔ اسی لیے عمران خان نے کہا ہے کہ جب تک وہ وزیر اعظم ہیں عثمان بزدار وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ اس تناظر میں سیاسی ماحول کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
The post ایک خط appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2lvaQTp
via IFTTT
No comments:
Post a Comment