3 اگست 2009 کی بات ہے سری لنکا کے شہر دمبولا میں ایک نوجوان اپنے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں بیٹنگ کیلیے میدان میں اترا اور66 رنز کی عمدہ اننگز سے سب سے دادوتحسین سمیٹی۔
اس میچ سے تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے، اسی دمبولا اسٹیڈیم میں ایک اور نوجوان بیٹسمین ایکشن میں نظر آیا مگر ڈییبو پر12 رنز سے آگے نہ بڑھ سکا۔
پہلے والا بیٹسمین عمر اکمل اور دوسرا ویرات کوہلی تھا، دونوں کی عمروں میں تقریباً ایک سال کا فرق ہے، کیریئر میں بھی ایسا ہی رہا، مگر آج اگر ہم عمر اکمل کو دیکھیں توانھوں نے11 سالہ کیریئر میں ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں مجموعی طور پر6 ہزار رنز بھی نہیں بنائے، ان کے کیریئر ریکارڈ میں صرف3 سنچریاں ہی درج ہیں۔ دوسری جانب کوہلی بھارت کے کپتان بن چکے، انھوں نے تینوں طرز میں تقریباً22 ہزار رنز بنا لیے،70 سنچریاں ان کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، یقین مانیے عمر اکمل بھی کوہلی سے کم نہ تھے،آپ صرف کرکٹ کھیلیں تو اچھی بات ہے لیکن اگر کرکٹ سے کھیلیں گے تو معافی نہیں ملے گی۔
کوہلی کو بھی آغاز میں رویے کے حوالے سے مسائل کا سامنا تھا مگر انھوں نے بہت جلد اپنی خامیوں کا اندازہ لگا کر کھیل پر ہی توجہ مرکوز کر لی جس کی وجہ سے آج دنیا کے نمبر ون بیٹسمین ہیں، عمر اکمل نے خود کو کھیل سے بڑا سمجھا جس کی وجہ سے آج یہ حال ہے، بیچارے عبدالقادر بھی اپنے داماد کی وجہ سے پریشان ہی رہے، وہ انھیں سمجھاتے مگر کوئی فائدہ نہ ہوتا، عمر اکمل اگر فضول حرکات میں نہ پڑتے تو ان کاکیریئر ریکارڈ بھی شاندار ہوتا مگر انھوں نے کبھی کرکٹ کو ترجیح نہیں دی، دیگر ’’مشاغل‘‘ میں پڑے رہے جس کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑا، زیادہ دور کیوں جاتے ہیں اپنے کزن بابر اعظم سے ہی سبق لیں جو مختصر کیریئر میں قیادت کے منصب پر فائز ہو چکے، دنیا بھر میں انھیں اپنی کارکردگی کی وجہ سے سراہا جاتا ہے مگر افسوس عمر نے اپنے کیریئر کا خود گلا گھونٹ دیا،دورۂ آسٹریلیا میں جب انھوں نے بھائی کی ’’محبت‘‘ میں جھوٹی انجری کا بہانہ بنایا تب ہی سب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بڑے ’’فنکار‘‘ ہیں، بعد میں لاتعداد تنازعات میں پھنسے، ہر بارسزا کے بعد واپس بھی آ جاتے مگر اب معاملہ سنگین لگ رہا ہے،مشکوک رابطے کی بروقت اطلاع نہ کرنے پر وہ تین سال کی پابندی بھگتیں گے، اگر کوئی ’’سیٹنگ‘‘ نہیں ہوئی تو وہ اپیل نہیں کریں گے۔
البتہ اگر یہ پری پلان گیم ہے تو شاید اپیل پر سزا کم کر دی جائے اور پھر آئندہ سال دوبارہ واپس آ جائیں، ان کے ’’چاہنے والے‘‘ بہت ہیں جو ایک سیٹ مہرے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے، دیکھتیں ہیں آگے کیا ہوتا ہے، بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ پی ایس ایل 3میں بھی عمر اکمل کے حوالے سے شکایات موجود تھیں مگر ان پر پی سی بی نے توجہ نہیں دی، چوتھے ایڈیشن کے ایک اہم میچ سے قبل ان کے حوالے سے ٹپ ملی جس پر وارننگ دے کر میچ کھلایا گیا، اس سال قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ پھنس گئے،ابتدا میں بورڈ نے ٹھوس ثبوت ہونے کی بات کہی تھی بعد میں کیس صرف رپورٹ نہ کرنے کا بنا، عمر اکمل نے تسلیم کیا کہ وہ مشکوک افراد سے ملے تھے لیکن وجہ ذاتی قرار دی، یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی انھیں بلیک میل تو نہیں کر رہا تھا، افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری کرکٹ میں متواتر ایسے واقعات ہو رہے ہیں، لیکچرز وغیرہ کا کسی پر اثر ہی نہیں ہوتا، یہ تو وہ کیسز ہیں جو سامنے آ گئے۔
نجانے کتنے کھلاڑی اب بھی آزاد گھوم رہے ہوں گے، دراصل یہ سارا قصور پی سی بی کا ہے جس نے نام کی زیروٹولیرنس پالیسی اپنائی ہے،اگر فکسرز کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تو دوسروں کو ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوتی، مگر افسوس یہاں عامرجیسے جیل جانے والے فکسرز کو پھر ہیرو بنایا گیا، اب شرجیل خان کو واپس لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، ماضی کے داغدار کرکٹرز کو بڑے بڑے عہدے دیے گئے، اسی لیے ایسا ہوتا رہا اور آئندہ بھی ہو گا،عمر اکمل کو ابھی تین سال سزا ہوئی کیا بورڈ ان کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے چیک کرائے گا؟ یہاں کہا جائے گا کہ اختیار نہیں ہے، میں نہیں مانتا کہ اگر پی سی بی کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے سے کسی کھلاڑی کے خلاف تحقیقات کا کہے تو وہ انکار کر دے گا۔
بات قدم اٹھانے کی ہے، جتنے مشکوک کرکٹرز ہیں آپ نہ صرف ان کے بلکہ اہلیہ، بہن، بھائی، قریبی دوستوں، ڈرائیورز اور مالی تک کے اکاؤنٹس چیک کرائیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، اگر واقعی کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں تو سینٹرل کنٹریکٹ میں یہ شق شامل کریں کہ اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی تفصیلات چیک کی جا سکیں گی، اگر کوئی کھلاڑی انکار کر دے تو اسے کنٹریکٹ نہ دیں کہیں ویسے ہی کھیلے اور پھر شک ہو تو کسی ایجنسی سے چیک کرنے کی درخواست کر دیں، نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ بورڈ حکام کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں تاکہ انھیں ایسا نہ لگے کہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ساتھ فکسنگ پر تاحیات پابندی کا اعلان کر دیں، اس کے بعد دیکھیے گا کہ یقینی طور پر بہتری آئے گی، ابھی تو قوم کو بے وقوف بنانے کیلیے زیرو ٹولیرنس کا راگ الاپتے رہیں، مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، آج عمر اکمل تو کل کوئی اور کھلاڑی اپنی غلطی سے پکڑا جائے گا پھر اس پر چند برسوں کی پابندی لگ جائے گی مگر اصل مسئلہ برقرار رہے گا،آپ کو مرض کی جڑ تک پہنچنا ہے تو گڑے مردے اکھاڑنے ہوں گے،ان کے پوسٹ مارٹم سے ہی پاکستان کرکٹ میں سرایت کرنے والے کرپشن وائرس کا درست اندازہ ہو گا، جسٹس قیوم کی رپورٹ کا پھر مطالعہ کریں اور نائنٹیز کے نام نہاد ہیروز کوگھر بھیجیں، شاید کچھ بہتری آ جائے، ورنہ قوم کو پھر زیروٹولیرنس کا لالی پاپ پکڑا کر چین کی نیند سو جائیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
The post عمر اکمل پاکستانی کوہلی کیوں نہ بن سکا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2y7qKtr
via IFTTT
No comments:
Post a Comment