چند دن پہلے ایک ٹی وی چینل پر سابق وزیرِاعظم محمد نواز شریف کو انگلینڈ کے ایک اسپتال میں میڈیکل ٹیسٹس کے لیے داخل ہوتے دیکھا۔ وہ وہاں سے گزر رہے تھے تو اُس اسپتال کا نام Guy Hospital صاف لکھا نظر آ رہا تھا۔ Guy Hospital کے نام پر نظر پڑتے ہی ایسے لگا جیسے یہ نام جانا پہچانا سا ہے۔
ذہن پر زور دیا تو یکدم مجھے ایک عظیم انگریزی شاعر جان کیٹس John Keats یاد آ گیا۔ جہاں اب یہ اسپتال ہے اس جگہ سے جان کیٹس کا بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ انگریزی رومانوی شاعری کی روایت سے جڑے چند بڑے شاعروں ورڈزورتھ، کولرج، شیلے، بائرن اور جان کیٹس کے ناموں سے ہم اسی رومانوی شاعری کی بدولت واقف ہیں۔ ان شعراء میں سے جان کیٹس کو بہت کم زندگی ملی اور یہ زندگی بھی دکھوں، غموں اور غربت سے عبارت ہے لیکن اُس نے اپنی فنی زندگی میںجو کہ صرف چھ سال پر محیط ہے اتنا کچھ دے دیا کہ اس کے پڑھنے والے اس پر داد و تحسین کے پھول ہمیشہ نچھاور کرتے رہیں گے۔
میری رائے میں تمام انگریز رومانوی شاعروں میں جان کیٹس سب سے بہترین ہے۔ اس کے ہاں وجدان و جذبے کی سچائی اور گہرائی، تخیل کی بلندی اور صداقت بدرجہٗ اتم موجود ہیں اور یہ دونوں چیزیں حقیقی حُسن کو پا لیتی ہیں، اپنی مشہورِ زمانہ خوبصورت نظم اوڈ تو گریشین ارن Ode to Grecian urnمیں انھی لافانی جذبات و خیالات کا اظہار ملتا ہے۔
حسن سچائی ہے اور سچائی حُسن، سب کچھ یہی ہے جو دُنیا میں تمھیں جاننا چاہیے۔Beauty is truth,truth beauty..that is all ye know, and all ye need to know on earth.
بائرن اور شیلے نے زندگی گرچہ مختصر گزاری مگر بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ عشق کیے، شاعری کی، لوگوں سے لڑائیاں لڑیں ، گھومے پھرے، رقص و سرود کی محفلیں جمائیں مگر جان کیٹس بیماری سے لڑتا لڑتا زندگی ہار گیا۔ کیٹس نے کسی کھاتے پیتے گھرانے میں آنکھ نہیں کھولی، وہ اکتیس اکتوبر 1795ء کو پیدا ہوا۔ اس کی ایک بہن اور تین بھائی تھے، کیٹس کا باپ لندن کے ایک شراب خانے میں بار مین یعنی ساقی تھا۔ وہ اسے کسی اچھے اسکول یا ادارے میں نہ پڑھا سکا۔ اُن کے گھر کے حالات بہت برے تھے، کیٹس کی تعلیم و تربیت کے راستے میں بھی یہی حالات حائل ہوئے۔
اُسے این فیلڈ کے ایک چھوٹے اور سستے اسکول میں داخلہ دلوایا گیاجہاں خوش قسمتی سے ایک بہت ہی ذہین، پڑھا لکھا اور بے پناہ ادبی ذوق رکھنے والا اُستاد جان کلارک اُسے مل گیا۔ جس نے اُسے بہترین ادب پاروں سے روشناس کروایا اور ساتھ ہی ساتھ کلاسیکی ادب کے تراجم پڑھائے۔ ایک دن اُس کا باپ اسے اسکول میں دیکھنے آیا مگر واپسی پر گھوڑے کے بگڑ جانے پر گِر کر مر گیا یوں کیٹس کا خاندان جو پہلے ہی غُربت کی چکی میں پِس رہا تھا بالکل ہی ختم ہو کر رہ گیا۔ باپ کی وفات کے چند ماہ بعد کیٹس کی ماں نے دوسری شادی کر لی لیکن اس کا دوسرا خاوند بہت برا آدمی ثابت ہوا۔ کیٹس کی ماں نے دوسرے خاوند سے طلاق لے لی اور کیٹس اور باقی بچوں کو لے کر اُس کی دادی کے پاس چلی گئی جہاں وہ چند مہینے بعد وفات پا گئی۔ والدہ کی وفات کے وقت کیٹس کی عمر صرف چودہ سال تھی۔
کیٹس کو اسکول سے اُٹھا لیا گیا اور خاندان کے ایک واقف سرجن کے پاس سرجری کی تربیت کے لیے بھیج دیا گیا۔ کیٹس کے لیے یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ تھا، بقول کیٹس یہ وقت اُس نے ایک سزا سمجھ کر گزار دیا۔ لندن کا وہ علاقہ جو آج کل Guy Hospital کہلاتا ہے کیٹس کا وہ قید خانہ تھا جہاں وہ اپنے تکلیف دہ دن گزار رہا تھا۔ یہاں کیٹس نے 1814 سے 1816 تک ادویات اور سرجری کی تعلیم حاصل کی۔ تربیت کے دوران اسے اسپتال میں ایک معمولی سی نوکری بھی مل گئی۔
وہ اس اسپتال میں تربیت حاصل کرتا رہا، دن کے وقت کلاسیں اٹنڈ کرنا، اسباق دہرانا اور رات کو وہیں سو جانا، اس سارے عرصے میں اسے ایک ہی خوف دامن گیر رہا کہ کہیں ادویات اور سرجری کی تربیت اس سے شاعری کا شوق نہ چھین لے۔ تربیت کے دوران اُس نے اپنی پہلی نظم یہیں لکھی۔ 1816 میں اسے ادویات سازی اور سرجری کی سند مل گئی۔ اب اگر وہ اس پیشے میں آگے بڑھتا تو ایک اچھا مستقبل بنا سکتا تھا لیکن اس کے دل میں تو شاعری کی دُھن سمائی ہوئی تھی وہ سند لے کر اپنے گھر واپس گیا اور کہا کہ وہ عطار نہیں بلکہ شاعر ہے اور شاعری ہی کرے گا۔
کیٹس ’’گے اسپتال‘‘ تو آتا جاتا رہا لیکن اُس کے سر میں تو شاعری کا سودا سمایا ہوا تھا اس لیے اس نے اپنا زیادہ وقت ادبی سرگرمیوں کو دیا۔ جن دنوں کیٹس نے لکھنا شروع کیا اُس دور میں نئے نوجوان لکھنے والوں کے لیے بے شمار مشکلات تھیں ۔ دو ادبی رسالے تنقید کی آڑ میں نئے لکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ اِن دو ادبی رسالوں The Quaterly Review کواٹرلی ریویو او ر Black Wood بلیک وُدز نے شیلے اور بائرن کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنایا ہوا تھا۔
ان ناموافق حالات میں لی ہنٹ جو کہ خود بھی ایک اہم شاعر تھا ایک رسالہ نکال کر نئے لکھنے والوں کی آواز بن رہا تھا۔ کیٹس کے ایک دوست نے اس کی ملاقات ہنٹ سے کر وا دی۔ ہنٹ شیلے کا پہلے سے جاننے والا تھا۔ ہنٹ نے کیٹس کی نظمیں اپنے رسالے میں چھاپنی شروع کر دیںیوں کیٹس کی نظموں کا پہلا مجموعہ چھپ کر منظرِعام پر آ گیا۔ مجموعے کے چھپتے ہی کیٹس کا نام شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں میں جانا پہچانا جانے لگا لیکن دونوں ادبی تنقیدی رسائل نے کیٹس کی شاعرانہ صلاحیت، زبان ، اسلوبِ بیان اور لہجے پر سخت تنقید کی اور مشورہ دیا کہ شاعری اس کے بس کا کام نہیں اسے چاہیے کہ وہ اپنے پیشے سے کام رکھے اور ادویات بیچے۔ ان زہریلے ریمارکس نے اس کی بیماری کو بڑھاوا دیا اور بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔
کیٹس نے حُسن ، جذبے اور تخیل کا وہ سماں باندھا کہ اس کی شاعری کو ایک نئے اسکول کا نام دیا جانے لگا۔ اس نے اپنے بھائی ٹام جو ٹی بی کا مریض تھا، کی تیمارداری میں بہت دلچسپی لی جس کی وجہ سے یہ بیماری اسے بھی لگ گئی۔ کیٹس کو بیماری کے باوجود جو چیز زندہ رکھے ہوئے تھی وہ اس کی اپنی پڑوسن فینی بران سے شدید محبت تھی۔ فینی روز اس سے ملنے آتی اور دیر تک اس کے ساتھ رہتی۔ اپنی خوبصورت نظم برائٹ اسٹار اس نے فینی کے ساتھ بیٹھ کر لکھی۔ فینی نے کیٹس کو کئی خط لکھے اور کیٹس نے فینی کو۔ کیٹس کے لکھے یہ خطوط انگریزی ادب میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ کی نظر میں یہ اعلیٰ پائے کے رومانوی خطوط ہیں۔
کیٹس کی مختصر زندگی میں دکھوں اور فینی کے عشق نے اُس کی شاعری کو جلا بخشی اور لازوال بنا دیا۔ کیٹس نے جس چیز پر بھی نگاہ ڈالی اپنے عشق کے رنگوں میں گوندھ کر اسے بے مثال بنا دیا۔ اس کا ایک دوست اس کی مشہور نظم e Ode to Nightingal کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے” 1819ء میں میرے گھر کے پاس ایک درخت پر کوئل نے گھونسلا بنا رکھا تھا۔ کیٹس کے لیے کوئل کی آواز میں گویا جادو تھا۔ وہ صبح سویرے ناشتے کے بعد کرسی درخت کے نیچے ڈال کر بیٹھ جاتا۔ جب کمرے میں واپس لوٹتا تو کاغذ پر اشعار کا ایک ہجوم ہوتا۔ یہ نظم اسی عمل کے بعد مکمل ہوئی” ۔
کیٹس کو ابتدا سے ہی صدمات سہنے پڑے۔ آٹھ سال کی عمر میں باپ فوت ہو گیا۔ چودہ سال کی عمر میں ماں داغِ مفارقت دے گئی۔ پھر پیارا بھائی فوت ہو گیا اور اپنی بیماری بھی ورثے میں دے گیا اوپر سے غربت اور فینی کے عشق کی آگ۔ یہ درد و داغ بہترین شاعری کی شکل میں المیہ گیتوں میں ڈھل گئے، بقول شیلے Our sweetest songs are those that tell us of saddest thoughts.
شیلے نے کیٹس کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ کیٹس نے بہت شکر گزاری کے ساتھ دعوت قبول نہ کی لیکن موت اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روم لے گئی۔ 23فروری 1821 ء کی صبح روم میں کیٹس کی طبیعت بگڑ گئی۔ خون کی قے سے اس کا منہ بھر گیا اور اگلی صبح وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ وہ روم میں ہی مدفوم ہے۔
The post گے اسپتال Guy Hospital اور جان کیٹس appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2L4yRKK
via IFTTT
No comments:
Post a Comment