Wednesday, November 27, 2019

انقلاب (دوسرا اور آخری حصہ) ایکسپریس اردو

سائنسدان آئن اسٹائن نے کہا کہ انقلاب نے مجھے آرٹ سے متعارف کرایا، اس کے بدلے میں آرٹ نے مجھے انقلاب سے آشنا کر دیا، لیو ٹالسٹائی نے کہا کہ ارادہ یا مقصد آپ کے طریقے اور ذرایع کو جواز بخشتا ہے، مگر شرط اس بات کی ہے کہ جواز اس مقصد اور ارادہ کا بھی کوئی پیش کرسکے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ سخت برف باری اور ژالہ باری کی ابتدا بھی سنو فلیک یعنی برف کے گالے سے ہوتی ہے۔ لینن نے قابل غور بات کی کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عشرے گزر جاتے ہیں اورکچھ نہیں ہوتا، پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہفتے میں عشرے رونما ہو جاتے ہیں۔

تھامس جیفرسن کا قول ہے کہ لوگ ہمیشہ اور ہمہ وقت  باخبر نہیں ہوتے ، ان کی خبریت کا کچھ حصہ ان حقیقتوں کے تناظر میں جو وہ غلط طور پر تصورکرتے ہیں اضطراب پیدا کرتا ہوگا۔ اگر وہ اس غلط تصور پر چپ رہتے ہیں تو یہ تن آسانی ہوگی ، جو شہری آزادی کے لیے پیغام موت ہے، بتائیے کیا کوئی ایسا ملک ایک ڈیڑھ صدی قبل موجود تھا جو بغاوت کے بغیر باقی رہا ؟ اور کون سا ایسا ملک ہوگا جن کے حکمرانوں نے لحظہ بہ لحظہ اپنی مزاحمت کو عوامی سطح پر محفوظ نہ رکھا ہو ؟ اور ایسا ملک کیسے اپنی آزادی کا تحفظ کرسکتا ہے جس کے حکمرانوں کو متنبہ کیا گیا ہو کہ وہ اپنی مزاحمت کو قائم رکھیں۔

اس لیے انھیں ہتھیار اٹھا لینے دیں ، علاج یہی ہے، انھیں حقائق کے مطابق مربوط ومنظم کریں ، ان سے درگزر کریں ، ان کو سمجھائیں، کہ کیا چیز اہمیت کی حامل ہوگی،کہ ایک یا دو صدی میں انسانی جانیں ضایع ہوئی ہیں۔ آزادی کا شجر ہمشہ تروتازہ رہنا چاہیے۔ محب وطن اور ظالموں کے لہو سے، یہ فطرت کا تقاضہ ہے۔

بھارت کی ایکٹی وسٹ اور انسان دوست دانشور اروندھتی رائے نے کہا کہ ہماری اسٹرٹیجی صرف ان امپائر  (جدید بادشاہت) کا صرف سامنا کرنا نہیں بلکہ اس کا محاصرہ کرنا ہے اور اسے ملنے والی آکسیجن سے محروم کرنا ہے، اس کو شرم دلانا ہے، اس کا مضحکہ اڑانا ہے، اپن جے آرٹ ، ہماری موسیقی ، ادب ، ہماری ضد اور ہماری مسرتوں سے ، اپنی ذہانت اور انتھک جدوجہد سے، اور اسے ہماری داستان سنانے سے، ان داستانوں اور بیانیوں سے الگ کہانیوں کی جو ہمیں برین واش کرنے کے لیے سنائی گئیں ، ہم حق پر یقین رکھتے ہیں، کارپوریٹ انقلاب کو سقوط ہوگا اگر ہم نے ان کی چیزیں جو وہ ہمیں بھیجنا چاہتے ہیں ، اور ہم خریدتے ہیں، اس سے انکارکر دیں ، ان کے خیالات اور ان کے تصور تاریخ کو ٹھکرائیں، ان کی جنگوں ، ہتھیاروں اور ان کی ناگزیریت کو لات مار دیں اس چیز کو یاد رکھیں کہ ہماری تعداد زیادہ ان کی کم ہوگی ، انھیں ہماری ضرورت ہوگی جتنی ہمیں ان کی ضرورت ہوگی ، دوسری دنیا نہ صرف ممکن ہے ، وہ راستے میں ہے،کسی خاموش دن میں اس کی سانسوں کی دھڑکن سن لونگی۔

ماوزے تنگ نے کہا تھا کہ انقلاب رات کا کھانا نہیں ہے، نہ کوئی مضمون ،کوئی تصویر ، مصوری یا سلایا ہوا لباس ہے۔ فیڈل کاسترکی للکار سنائی دیتی ہے کہ کوئی چور ، لٹیرا ، دغا باز اور مداخلت کار دخل در معقولات نہ کرے ، اس بار حقیقی انقلاب برپا ہوگا۔ یہ بھی مان لیا کہ چوتھے صنعتی انقلاب  میں ترقی کا پوٹنشل تھا کہ انفرادی طور پر اورکمیونٹیزکو استحکام دے، اس سے معاشی مواقع ملیں، سماجی اور شخصی ترقی بھی ہو ، مگر اس انقلاب سے نوع انسانی اور کچھ لوگ غربت زدہ رہ جاتے ہیں، عدم مساوات بڑھ جاتی ہے ، سلامتی کے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

انسانی تعلقات میں رخنے پڑتے ہیں۔ سٹیو جابز نے کہا کہ اس انقلاب کی بات ہی کچھ اور ہے، یہ اطلاعات کا فشار ہے، یہ آزاد توانائی کا انقلاب ہے، بہت خام سہی، مگر ہمارا میکنٹوش کمپیوٹر سو واٹ بلب سے بھی کم بجلی  پرکام کرتا ہے، آپ کے یومیہ ہزاروں گھنٹے بچاتا ہے، یہ آج سے دس بیس سال کے لیے توانائی بچائے گا ، اور شاید 50 برس تک۔ پی جے رورک کے مطابق ایڈم اسمتھ کی ناکامی یہ تھی کہ وہ صنعتی انقلاب کا ادراک نہ کرسکا۔ اسی رورک نے کہا کہ امیر لوگ عسکری پیشہ اختیار نہیں کرتے، انھیں گندے بوٹ، یونیفارم سے خارش ہوتی ہے، اسی طرح وہ کسی انقلاب میں شامل نہیں ہوتے، اور نہ دہشت گردی میں۔

فرانس کے فلسفی الیکس ڈی تاکویل کا قول ہے کہ انقلاب کا اختتام کسی ناول کی طرح بہت مشکل ہوتا ہے۔ نپولین نے کہا کہ انقلاب کوکوئی نہ روک سکتا ہے اور نہ اس کی صورت گری کرسکتا ہے، لیکن ایک کام آپ کے ہزاروں بچوں میں ایک وہ کرسکتا ہے جو فتوحات کے ذریعے اس کے  راستے کا تعین کر دے۔ بل گیٹس نے کہا کہ اگر آپ سنہ 1800میں چلیں جائیں تو اس وقت ہر شخص غریب تھا، پھر صنعتی انقلاب نے کروٹ بدلی، لاتعداد ممالک نے اس سے استفادہ کیا، لیکن کچھ نہ پانے پر بھی ہر آدمی فیضیاب ہوا ، بل گیٹس نے مزید کہا کہ سبز انقلاب کا مرکز نگاہ مکئی، چاول اور گندم کی فصلیں تھیں۔

تاہم سبز انقلاب نے ان تین بڑے انقلابوں نے افریقی حالات سے مطابقت کے لیے کچھ نہ کیا جو جنوبی افریقہ نے کیا۔ ہنری فورڈ کہتے ہیں یہ خوش آیند بات ہے کہ دنیا کی قومیں ہمارا بینکاری اور مالیاتی نظام نہیں سمجھ سکیں، اگر سمجھ لیتیں تو کل آنے والی صبح کو انقلاب آجاتا۔ جارج آرویل نے کہا تھا کہ طاقت ذریعہ نہیں مقصد ہے۔ کوئی اس لیے آمریت قائم نہیںکرتا کہ انقلاب کو تحفظ دے ، وہ انقلاب لاتا ہے تاکہ اپنی ڈکٹیٹرشپ کو دوام بخشے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی اضافی دولت ، طرز عمل میں نرمی ،کوئی اصلاحی قدم یا انقلاب انسانی مساوات کو ایک ملی میٹر بھی قریب نہیں لاسکا۔

نیلسن منڈیلا کا کہنا تھاکہ میں نے جنگ کے آرٹ اور انقلاب کا مطالعہ شروع کیا ، جب بیرون ملک تھا فوجی تربیت لی ، میں نے سوچا کہ اگر گوریلا وار شروع ہوجائے تو میں اپنے وطن کے لیے دشمن کے خلاف عوام کے شانہ بشانہ لڑوں گا اور جنگ کے مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرونگا۔

فرانزکافکا نے کہا کہ ہر انقلاب بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے، اور اپنے پیچھے ایک کمزور سے نوکر شاہی چھوڑ جاتا ہے، ایڈمنڈ برک کے مطابق تمام انقلابوں کی سب سے اہم ترین چیز جذبوں ، حسن سلوک اور اخلاقی رائے میں انقلابیت ہے۔ برک کی اس بات میں سمندروں جیسی گہرائی ہے کہ شرارت اور چالاکی کا بڑا حصہ جس سے دنیا مضطرب رہتی ہے الفاظ سے ابھرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جہنم کی دہکتی ہوئی آگ اس شخص کے لیے محفوظ ہوگی جو دنیا کے اخلاقی بحران میں غیر جانبدار رہا ہو گا۔

وڈرو ولسن نے کہا کہ ظلم وجبر میں انقلاب کا بیج ہوتا ہے۔ نوم چومسکی کی رائے ہے کہ پہلا جمہوری انقلاب انگلینڈ میں 1640 میں آیا۔کسی کا قول ہے کہ آپ کو وہ انقلاب نصیب نہیں ہوگا جس سے جمہوریت ملے، آپ کے لیے لازم ہے کہ جمہوریت ہو اور وہی انقلاب کا راستہ ہموار کردے۔ ایک دانا نے آواز دی کہ وعدہ کرو ساری زندگی انقلاب جیسی کیفیت میں گزارو گے، انقلابی عمل میں نہیں ، سیاسی میکانزم میں انقلاب کو یوں سمجھیے جسے حکومت میں بد انتظامی (مس گورنمنٹ ہوئی ہو)۔ ایرک ہوفر دورکی کوڑی لائے کہ ہم سمجھتے ہیں انقلاب تبدیلی کا نقیب ہوتا ہے، اصل میں تبدیلی انقلاب کو راستہ دیتی ہے۔

چی گویرا نے دنیا بھر کے گوریلا وار لیڈروں اور جانثاروں کو بتایا کہ میں نجات دہندہ نہیں ہوں، نجات دہندہ کا کہیں وجود نہیں ، عوام خود اپنے نجات دہندہ ہیں۔ افلاطون نے کہا کہ ڈکٹیٹرشپ فطری طور پر جمہوریت کے بطن سے جنم لیتی ہے، اور ظلم وغلامی کی بدترین شکل آزادی کی انتہا پسندی سے پھوٹتی ہے۔ کسی نے کہا کہ ڈیجیٹل انقلاب تحریری وطباعت کے نقل ؛ اب سے بڑا ہی انقلاب ہے۔

لنین کا کہنا ہے کہ آپ انقلاب کو سفید دستانے نہیں پہنا سکتے۔ وینڈل فلپس نے کہا کہ انقلاب واپس نہیںہوتا۔کارل مارکس نے کہا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے، پہلے المیہ کے طور پر پھر لغو ناٹک کے روپ میں۔ البرٹ کامیو کے مطابق انقلاب تخلیقی روپ میں آنے کے لیے کبھی بھی اخلاقی اور مابعدالطبیعاتی اصول وضع کرسکتا۔ کوئی کہنے لگا کہ انقلاب وہ لوگ نہیں لاسکتے جو تماشا لگاتے ہیں، ان کے لیے تبدیلی کا عمل ایک کاک ٹیل کی طرح ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا انقلاب بھی تیار ہے جناب۔ مگر یاد رکھیں انقلاب پھولوں کی سیج نہیں ، ماضی اور مستقبل کی جدوجہد کا نام ہے، اور کسی درویش خدامست نے کہا کہ صرف سچ انقلاب ہے۔ ایک مفکرکا قول ہے کہ سارے کامیاب انقلاب بوسیدہ دروازے کو ٹھوکر مارنے سے عبارت ہیں، انقلاب میں مضمر تشدد اس آدمی کی غضب ناکی ہوتی ہے جو خلا میں اقدام کرتا ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ انقلاب آتا ہے، لایا نہیں جاتا اور یہ بھی ستم ظریفی کسی انقلابی نے بتائی ہے کہ انقلاب کے بچے ناشکرے ہوتے ہیں، لہذا انقلابی  اس بات پر شکرگزار ہوں کہ بات واقعی سچ ہے۔کہیں یہ نعرہ بھی پڑھنے کو ملا تھا کہ اس انقلاب میں ہم نے پسپائی کا لفظ نہیں لکھا۔

کسی انقلاب دوست کی آخری بات سن لیجیے، وہ کہتے ہیں کہ وہ بے ضرر خواب دیکھنے والے لوگ ہیں، عوام ان سے محبت کرتے ہیں، میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جو محبت کرنے والے ہیں ان کے لیے کیا چیز بے ضررہوتی ہے۔ انقلاب کو ضرورت اچھے خواب دیکھنے والوں کی ہے جو اپنے خوابوں کو یاد رکھتے ہیں۔

The post انقلاب (دوسرا اور آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33x10Rb
via IFTTT

No comments:

Post a Comment