قائد اعظم نے 1948 میں فرمایا تھا کہ ’’ہماری قومی زبان اردو ہے۔‘‘ اور 1973 کے آئین کی دفعہ (1)251 کی رو سے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیتے ہوئے اسے 15 سال کے اندر سرکاری طور پر نافذ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن افسوس صد افسوس برسہا برس کے بعد بھی یہ آئینی تقاضا پورا نہیں ہوا۔
امریکا ، جاپان ، چین اور سعودی عریبیہ میں صدیوں سے وہاں کی اپنی قومی زبان میں سارا انتظام و اہتمام چلتا ہے، حد تو یہ کہ نیون سائن یا سائن بورڈز تک انھی زبانوں میں رقم کرا کے آویزاں کیے جاتے ہیں۔ اور یہ بات بھی غلط نہیں کہ دنیا کی کوئی بھی زبان کسی ایک فرد یا معاشرے کی طبع زاد ایجاد نہیں۔ یہ ہر زندہ زبان افراد کے باہمی ارتباط اور معاملات کی اظہار طلبی نے پیدا کی ہے، اور اس نے طرح طرح کے سفر کیے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ بولی (زبان) کی بھی تخلیق ہوئی۔ اور یہ بھی بجا ہے کہ زبان خواہ کیسی ہی اورکسی کی کیوں نہ ہو، اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ جس ملک ، جس علاقے یا جس خطے میں بھی بولی جاتی ہے وہاں کے باشندے اس کو اپنی بولی سمجھتے ہیں۔ خواہ ان کی مادری یا مذہبی زبان کوئی بھی ہو۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ انگریزی دنیا کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے، اس کی بڑی لغات میں نہ صرف یورپی زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں بلکہ اردو، ہندی، سندھی کے علاوہ افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے قدیم قبائل کے الفاظ تک شامل ہیں تاکہ ان کو انگریزی میں استعمال کیا جائے۔
کم و بیش یہی حال ہماری قومی زبان کا ہے جس میں درجنوں غیر زبانوں کے الفاظ اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ بغیرکسی اچھی لغت کے ان کے مخزن کا پتا چلانا دشوار ہے۔ شاید اسی بنا پر اردو زبان کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان کے معرض وجود میں آنے کی مدت کافی طویل اورکئی صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے اسی لیے اردو مشکل زبان اور مشکل سبجیکٹ ہونے کے باوجود ہمیشہ سے قدرتی طور پر بڑی آسان زبان ثابت ہوئی ہے اور ہر دوسرا غیر ملکی بڑے مزے کی گلابی اردو بولتا بھلا لگتا ہے۔ وطن عزیز میں جس کی مادری زبان خواہ کوئی بھی ہو وہ اردو بڑی آسانی سے بول لیتا ہے ، عربی ، ایرانی ، بنگالی ، ترکی ، ہندوستانی الغرض ہر ملک کا باسی ہماری اردو زبان ٹوٹی پھوٹی ضرور بولنا جانتا ہے اسی بنا پر انگریزی کے بعد ہم اردو کو دوسری بڑی اور بین الاقوامی زبان کہہ سکتے ہیں۔
لیکن وطن عزیز کی بدقسمتی سے ہی اسے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ ہماری قومی زبان اردو کو آج تک وہ امتیاز و مقام نہ مل سکا جو اس کا حق، قرض اور فرض تھا۔ بوجوہ ہر آنے جانے والی حکومتوں کی عدلیہ اردو کے نفاذ پر زور دیتے ہوئے اسے رائج کرنے کے آرڈر تو دیتی چلی آئی لیکن اس آرڈر کی پاسداری تادم تحریر کسی نے نہ کرائی جس کی بنا پر آج اردو نہ دفتری زبان بن سکی، نہ سرکاری اور نہ ہی اسے صحیح معنوں میں قومی زبان کا تشخص حاصل ہوسکا۔ دراصل جو قومیں اپنے سے بد تر، علم وشعور و آگہی سے عاری اور بدنیت لوگوں کو اپنا آقا بنا لیں ان کے لیے کبھی کوئی موسیٰ آسمان سے نہیں اترا کرتا۔
کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ قومیں بڑے سے بڑے بحرانوں سے نکل آتی ہیں لیکن نشان منزل دھندلا جائے تو انھیں بھٹکنے سے کوئی نہیں روک سکتا 72 برسوں میں جو قوم یا اس کی مشینری اپنے بانی کے فرمان اور اپنے آئین کی پاسداری نہ کرسکے وہ اقوام عالم میں اپنی کیا ترجیح منوا پائے گی؟ ویسے بھی ایک اردو زبان ہی کیا قوم کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے انھیں حل کرنے کے لیے موجودہ حکومت جس غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کر رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو اسے ان کا ادراک ہی نہیں یا پھر اسے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری نئی نسل بالخصوص ہمارے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں اردو پڑھنے کی اہلیت نہیں ہے اور وہ بہت اٹک اٹک کر اردو پڑھتی ہے۔ اردو کے بیشتر اہم لیکن مشکل الفاظ سے تو سرے سے وہ نابلد ہیں اور تو اور ان کا اردو رسم الخط بھی حد درجہ کمزور ہے۔ حالات اگر یہی رہے تو ہماری معاشرتی زندگی میں ’’اردو شناسی‘‘ کا سلسلہ ٹوٹ جائے گا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قومی زبان میں دسترس حاصل کیے بغیر قوم کی تخلیقی صلاحیتیں فروغ نہیں پاتیں، کاش ہمارے ارباب اختیار اور ماہرین تعلیم اس سلگتے ہوئے مسئلے پر دھیان دے سکیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں طالب علم کے گھر اور درسگاہ کی زبان بالعموم ایک ہی ہوتی ہے۔ وہ اسکول میں جس زبان میں بولتا، لکھتا اور پڑھتا ہے وہی محلے، پڑوس اور دوست احباب کی محفلوں میں اس کی زبان ہوتی ہے۔ یہ سہولت فطری طور پر اسے نہ صرف آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ عملی زندگی میں خود اعتمادی عطا کرتی ہے۔ وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا، پیشہ ورانہ امور سرانجام دیتا اور اپنے علم اور تجربے کو آیندہ نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔ اس طرح پوری قوم کے لیے ترقی کی راہیں آسان اورکشادہ ہوجاتی ہیں۔ اس تناظر میں پنجاب حکومت نے پرائمری سطح پر اردو کو بطور ذریعہ تعلیم اختیارکیے جانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس سے یہ واضح نہیں ہو پایا کہ اردو نجی و سرکاری سطح پر ہر چھوٹے بڑے اسکول میں رائج ہوگی یا اس کا دائرہ مخصوص اسکولوں تک محدود رہے گا۔
ہماری دانست میں بچوں کی بنیاد اردو میڈیم کرنے سے اس زبان کے ساتھ ساتھ بہت سے فائدے پہنچیں گے کیونکہ پھر یہ سلسلہ بتدریج مڈل ، ثانوی، اعلیٰ ثانوی جماعتوں حتیٰ کہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح پیشہ ورانہ تعلیم تک بڑھانا ضروری ہوگا تاکہ طلبا کو کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے جس سے فی الوقت طالب علم دوچار ہیں۔ بہت سے ذہین افراد ذریعہ تعلیم کی وجہ سے ’’ سول سروس ‘‘ جیسے حساس امتحانات میں نہیں بیٹھ سکتے اور عملی زندگی میں احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔
یہ بات ایک المیے سے کم نہیں کہ اب تک تین نسلیں اردو، انگریزی کے چکر میں اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرچکی ہیں، اب مزید ایسا نہیں ہونا چاہیے اور پورے ملک میں بلاتخصیص قومی زبان کو رائج کیا جانا چاہیے جو ایک اہم آئینی تقاضا بھی ہے۔
The post جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2DzIkp4
via IFTTT
No comments:
Post a Comment