امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بصد مشکل طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے آغاز کے بعد اپنے طور پر ہی یک لخت ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا تھا اور اب اس امید کا اظہار کیا کہ مذاکرات جلد دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔ تاہم جواب آں غزل کے طور پر طالبان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کا مذکرات کے احیاء کا بیان ضرورت سے کہیں زیادہ پہلے آ گیا ہے، موصوف کو ’’قدرے صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
صدر ٹرمپ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اگلے روز اچانک بگرام ایئرفیلڈ کے خفیہ دورے پر پہنچ گئے اور مذاکرات کے احیاء کا اشارہ دیا جس پر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح الدین مجاہد نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ طالبان امن ڈیل کرنا چاہتے ہیں دور کی کوڑی لانے کی بات ہے۔ صدر ٹرمپ بگرام پر تعینات امریکی فوجیوں کو تھینکس گیونگ کی تقریب کی مبارکباد دینے پہنچے تھے۔ ٹرمپ کا دورہ مذاکرات کی راہ کھلتی دکھاتا ہے لیکن طالبان ترجمان کے بیان سے اس راہ کے روڈ بلاک کی نشاندہی ہوتی ہے۔
طالبان کے ترجمان نے کہا کہ مذاکرات کے احیاء کے بارے میں طالبان کے سرکاری موقف کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ستمبر کے مہینے میں امریکا اور طالبان سمجھوتے کے کنارے پر پہنچ گئے تھے جس کے نتیجے میں بعض سیکیورٹی انتظامات کے بعد امریکا اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنے پر تیار ہو گیا تھا۔
اسی عجوبے کے نتیجے میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین براہ راست بات چیت کا بھی امکان پیدا ہو گیا تھا لیکن پھر طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر امریکا بگڑگیا اور اس حقیقت کو قطعاً فراموش کردیا کہ امریکی بمباریوں سے کتنے لاکھوں کی تعداد میں افغانوں کی ہلاکتیں ہوتی رہی ہیں مگر امریکا اپنے ایک فوجی کی ہلاکت پر اس قدر سیخ پا ہوگیا کہ کامیابی کی طرف بڑھتے مذاکرات کو منسوخ اور معطل کرتا ہوا مذاکراتی میز سے اٹھ کھڑا ہوا۔
بگرام ایئربیس پر افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ بات چیت میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس مرتبہ طالبان نے جس قدر سخت حملہ کیا ہے اتنا سخت حملہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں امریکا نے بھی طالبان پر بہت سخت حملہ کیا لیکن تمام سیاسی تجزیہ نگاریہ سمجھتے ہیں کہ تنازعہ کا حل صرف بات چیت سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔
طالبان نے پچھلے ہفتے 2 مغوی امریکا کے حوالے کر دیے ہیں جن میں ایک امریکی فوجی اور دوسرا آسٹریلوی فوجی ہے۔ ان کو تین سال تک یرغمال رکھا گیا۔ افغانستان میں امریکا کے 13,000 فوجی موجود ہیں جب کہ امریکی فوج 18 سال سے افغانستان میں برسرپیکار ہے۔
دنیا کی سب سے طاقتور فوج ہونے کا دعویٰ کرنے والی امریکی اور نیٹو آرمی بے سروسامان افغانوں کے مقابلے میں 18 سال سے کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ 11 ستمبر 2001 کے بعد سے امریکی فوج افغانستان کو فتح کرنے کے لیے وہاں مقیم ہے اور ٹوٹی چپلوں والے افغانوں سے مار کھا رہی ہے۔ مسٹر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ امریکی فوج کی تعداد 8,600 تک کم کر سکتے ہیں یا ممکن ہوا تو اس سے بھی زیادہ لیکن انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ افغان جنگ کا میدان جنگ میں فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
The post امن مذاکرات کی بحالی کا اعلان قبل از وقت ہے: طالبان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2P52JYq
via IFTTT
No comments:
Post a Comment